Tag: ماحولیات

  • بلوچستان میں زیتون کے جنگلات تباہی سے دو چار

    بلوچستان میں زیتون کے جنگلات تباہی سے دو چار

    کوئٹہ: جنگلات کسی بھی مقام کے ماحول کا اہم حصہ ہیں۔ یہ فضائی آلودگی اور موسموں کی شدت میں کمی کرتے ہیں جبکہ یہ کسی علاقے کی معیشت میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

    جنگلات کی لکڑی توانائی کے حصول کا بڑا ذریعہ ہے۔ پاکستان کے غیر ترقی یافتہ علاقوں، خصوصاً ایسے سرد علاقے جو گیس سے محروم ہیں، میں ایندھن اور توانائی فراہم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ جنگلات ہی ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں میں موجود کئی قیمتی اور قدیم جنگلات تیزی سے اپنے خاتمے کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

    بلوچستان کے ضلع ژوب اور شیرانی میں بھی لاکھوں ایکڑ اراضی پر پائے جانے والے زیتون کے قدرتی قیمتی جنگلات کا صفایا کیا جا رہا ہے۔

    olive-2

    یہ جنگلات بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی، روزگار کے ذرائع اور ایندھن کے متبادل ذرائع نہ ہونے کے باعث تیزی سے ختم ہو رہے ہیں اور مقامی افراد ان درختوں کو کاٹ کر اپنی ایندھن کی اور دیگر ضروریات پوری کر رہے ہیں۔

    ایک اندازے کے مطابق بلوچستان میں کل 0.2 فیصد رقبے پر زیتون کے جنگلات پائے جاتے ہیں جن میں سے 80 فیصد مقامی آبادی اور 20 فیصد حکومت کی ملکیت ہیں۔

    مزید پڑھیں: دنیا کے طویل ترین درختوں کا کلون تیار کرنے کے لیے مہم جوئی

    مقامی آبادی زیتون کی لکڑی کا استعمال ایندھن، گھروں کی تعمیر اور مویشیوں کے چارے کے لیے کرتی ہے۔ اس کا بیج مفید اور کھانے کے قابل بھی ہوتا ہے جس کا مقامی طور پر بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے۔

    مقامی افراد ان جنگلات کی اہمیت سے آگاہ ہیں مگر ان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ایندھن کے حصول اور روزگار کے لیے اور کوئی ذریعہ نہیں۔ وہ ان درختوں کو کاٹ کر نہ صرف اپنے آتش دانوں کو آگ فراہم کرتے ہیں بلکہ، درختوں کو کاٹ کر ان کی لکڑیوں کو بازاروں میں لے جا کر بھی فروخت کیا جاتا ہے۔

    اگرچہ فطری طور پر زیتون کے درختوں کی افزائش کی رفتار غیر معمولی ہے اور یہ بہت جلد نشونما پانے لگتے ہیں، لیکن اس کے باوجود ان جنگلات کے بڑے پیمانے پر مویشیوں کے لیے چراگاہ کے طور پر استعمال ہونے کی وجہ سے ان کی تعداد میں تیزی سے کمی آرہی ہے۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این بلوچستان شاخ میں کام کرنے والے ماہرین کا اس بارے میں کہنا ہے کہ اگرحکومت اور مقامی افراد کی کمیٹیاں ان جنگلات کا خیال نہیں رکھتیں تو ہم شدید نوعیت کی ماحولیاتی تبدیلیاں رونما ہوتی دیکھیں گے۔

    اس کی تصدیق ژوب کے رہائشیوں نے بھی کی۔ ان کا کہنا ہے کہ ان جنگلات کی بے دریغ کٹائی سے نہ صرف علاقے کی آلودگی میں اضافہ ہوگیا ہے، بلکہ موسمی تغیرات کا اثر بھی واضح ہوتا نظر آرہا ہے اور موسم زیادہ شدت سے محسوس کیے جارہے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ماحول دشمن درخت کونو کارپس کی خرید و فروخت پر پابندی عائد

    آئی یو سی این کے مطابق پچھلے کچھ سالوں میں موسم گرما میں سخت حدت اور موسم سرما میں سردی کی شدت کا مشاہدہ کیا گیا جو مقامی طور پر موجود حیاتیاتی اور نباتاتی انواع کے لیے ناقابل برداشت ہے۔

    olive-3

    ماہرین کا کہنا ہے کہ محکمہ جنگلات کو نگرانی کے زیادہ بہتر آلات فراہم کرنے کی ضرورت ہے اس کے ساتھ ساتھ مقامی آبادی کو چولہے جلانے کے لیے متبادل ایندھن جیسے میتھین گیس وغیرہ فراہم کی جائے جبکہ جنگلات کی کٹائی کے حوالے سے قوانین میں ترمیم بھی کرنے کی ضرورت ہے۔

    دوسری جانب محکمہ جنگلات کے ڈویژنل افسر محمد سلطان نے زیتون کے جنگلات کی کٹائی کی خبروں کو سراسر غلط قرار دے دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان جنگلات کو پراجیکٹ ایریا قرار دیا جائے تاکہ یہاں کی عوام کے لیے روزگار کے بہتر مواقع پیدا کیے جا سکیں۔

    مزید پڑھیں: تھر میں درخت کاٹنے پر پابندی عائد

    ان کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں تحفظ ماحولیات کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیمیں یہاں بھی آئیں اور مقامی آبادی کے ساتھ مل کر ان درختوں کے تحفظ کے لیے کام کریں۔

    واضح رہے کہ بلوچستان ایک میدانی علاقہ ہونے کے باوجود اپنے دامن میں جنگلات کے نہایت قیمتی ذخائر رکھتا ہے۔ بلوچستان کے ضلع زیارت میں صنوبر کے تاریخی جنگلات واقع ہیں جنہیں یونیسکو کی جانب سے عالمی ماحولیاتی اثاثہ قرار دیا جاچکا ہے۔

    تقریباً 1 لاکھ ہیکٹر رقبے پر پھیلا اور ہزاروں سالہ تاریخ کا حامل یہ گھنا جنگل دنیا کا دوسرا سب سے بڑا اور نایاب ذخیرہ ہے اور بے شمار نادر جانداروں کا مسکن ہے، تاہم یہ قیمتی جنگل بھی ایندھن کے حصول کے لیے لکڑی کاٹے جانے کے باعث تباہی سے دو چار ہے۔

  • عالمی ادارہ تجارت کا ماحول دوست مصنوعات بنانے کا فیصلہ

    عالمی ادارہ تجارت کا ماحول دوست مصنوعات بنانے کا فیصلہ

    جینیوا: عالمی ادارہ تجارت ڈبلیو ٹی او نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اب دنیا بھر میں ماحول دوست مصنوعات پر سرمایہ کاری کرے گا۔

    گزشتہ ہفتے سوئٹزر لینڈ کے شہر جنیوا میں ہونے والی میٹنگ میں ادارے کے امریکی، چینی اور جاپانی نمائندوں نے ان مصنوعات کی فہرست مرتب کی جو ماحول دوست اور کم خرچ ہوسکتے ہیں۔

    ان اشیا میں بجلی فراہم کرنے والے شمسی پینلز، ہوا کے معیار کا اندازہ لگانے والے آلات اور ہوا کی طاقت سے چلنے والے ٹربائن شامل ہیں۔ ادارے کا کہنا ہے کہ ان مصنوعات سے ماحول کی بہتری کے لیے طے کیے گئے اہداف کو حاصل کرنے میں مدد حاصل ہوگی۔

    * دنیا کے ماحول دوست ممالک کون سے ہیں؟

    ادارے کی اگلی میٹنگ میں یورپی یونین کے نمائندے کی بھی شرکت کا امکان ہے۔

    عالمی ادارہ تجارت کا کہنا ہے کہ اس میٹنگ میں 300 ماحول دوست مصنوعات کے بارے میں غور کیا جارہا ہے۔ اس بارے میں اگر کوئی حتمی فیصلہ ہوجاتا ہے تو ادارہ اگلے سال سے رکن ممالک کو ماحول دوست مصنوعات کی تیاری میں مدد فراہم کرے گا۔

  • موسمیاتی تغیر کے بارے میں آگاہی کتنی ضروری؟

    موسمیاتی تغیر کے بارے میں آگاہی کتنی ضروری؟

    کراچی: پاکستان نہ صرف آب و ہوا میں تبدیلی (کلائمٹ چینج) سے متاثرہ ممالک میں سرِ فہرست ہے بلکہ یہاں موسمیاتی شدت مثلاً بارشوں، گرمی اور خشک سالی جیسے موسمیاتی سانحات بھی تیزی سے بڑھ رہے ہیں جبکہ بھارت پاکستان کا پانی روکنے پر تلا ہے جس سے نئے جنگی تنازعات بھی جنم لے سکتے ہیں۔

    کراچی کے مقامی ہوٹل میں گرین میڈیا انیشی ایٹو اور فریڈرک نومین فاؤنڈیشن (ایف این ایف ) کی جانب سے میڈیا ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا جس کا مقصد صحافیوں کو تربیت فراہم کرنا تھا۔

    آب و ہوا میں تبدیلی کے ابلاغ کے عنوان سے منعقدہ اس تقریب میں ماہرین نے پاکستان میں ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلیوں، اس کے بہتر اظہار اور درپیش مسائل پر بھی گفتگو کی۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج کے باعث موسموں کی شدت میں اضافے کا خطرہ

    اس موقع پر اے آر وائی نیوز کے ویب ایڈیٹر اور ڈیجیٹل میڈیا ماہر فواد رضا نے کہا کہ فیس بک اور ٹوئٹر نے ڈیجیٹل میڈیا کی تشکیل کی ہے اور اب عوام اپنے موبائل فون سے خبروں کی ویب سائٹ دیکھتے ہیں۔ اس تناظر میں 90 سیکنڈ کی ایک معلوماتی ویڈیو 2 ہزار الفاظ کے کسی مضمون سے زیادہ مؤثر اور طاقتور ثابت ہوسکتی ہے۔

    انہوں نے پاکستان میں ماحولیاتی اور موسمیاتی ڈیٹا کی کمی سے بھی آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی رپورٹس اور سروے کو مقامی حالات سے وابستہ کر کے عوام کے سامنے پیش کیا جانا چاہیئے۔

    اس کے علاوہ انہوں نے اردو اور انگریزی بلاگنگ کی اہمیت سے بھی آگاہ کیا۔

    سندھ سیڈ کارپوریشن کے سربراہ اور ماحولیاتی سائنسدان ڈاکٹر اقبال سعید خان نے کہا کہ کراچی میں مبارک گوٹھ کے قریب چرنا جزیرے کے پانی میں مونگے اور مرجانی چٹانیں ہیں جہاں 80 فیصد آبی حیات رہتی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ اس حساس جگہ پر تفریحی سرگرمیاں بڑھی ہیں، یہاں تک کہ بحری جہاز اور کشتیاں بھی دھوئی جارہی ہیں جس سے وہاں موجود آبی حیات کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔

    مزید پڑھیں: جانوروں کی متعدد اقسام گرم موسم سے مطابقت کرنے میں ناکام

    ڈاکٹر اقبال سعید خان نے زور دیا کہ پاکستان میں آب و ہوا کی قومی پالیسی اب باضابطہ طور پر منظور ہوچکی ہے اور اس پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔

    سینیئر صحافی محمود عالم خالد نے کہا کہ بڑے ٹی وی چینلز ہوں یا اخبارات، ان میں ماحولیات کے معاملے کو ٹائم پاس سمجھا جاتا ہے اور اسے عموماً صحت کی خبروں کے ساتھ نتھی کردیا جاتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ میڈیا میں ماحولیاتی اور موسمیاتی مسائل کی اشاعت سے ایک جانب تو عوامی شعور بیدار ہوتا ہے تو دوسری جانب اخباری تراشے اور میڈیا میں تشہیر کے بعد متعلقہ مسئلے کے لیے بین الاقوامی مالی مدد کی راہ ہموار ہوتی ہے اور اس لیے ماحولیاتی رپورٹنگ ایک بہت ہی اہم کام ہے۔

    ایف این ایف کے سینیئر پروگرام کو آرڈنیٹر عامر امجد نے کہا کہ ان کی تنظیم گزشتہ کئی سال سے پاکستان میں کلائمٹ چینج سے وابستہ مسائل اور شعور پر کام کررہی ہے اور اس ضمن میں کئی اداروں اور تنظیموں سے تعاون کیا جارہا ہے۔

    ان کے مطابق پاکستان بھر کے اسکولوں میں بچوں کو موسمیاتی تبدیلیوں کا شعور اور توانائی کی بچت کے طریقے بھی بتائے جارہے اور اس ضمن میں کوئی بھی اسکول ان کی تنظیم سے رابطہ کرسکتا ہے۔

    عامر امجد نے بتایا کہ ایف این ایف جمہوری اقدار، آزادی، خواتین اور نوجوانوں کی بہبود سمیت کئی اہم مسائل پر کام کر رہی ہے تاکہ سول سوسائٹی کو مضبوط کر کے قومی ترجیحات میں ان کی آواز شامل کی جاسکے۔

    سندھ کے ماحولیاتی مسائل پر ایک نظر

    ورکشاپ کے ایک اور اہم حصے میں تھر پارکر، حیدر آباد اور کراچی سے شامل صحافیوں کے وفود سے ان کے علاقوں میں اہم ترین مسائل کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ان مسائل پر میڈیا کوریج ہونی چاہیئے۔

    تھر پارکر

    تھرپارکر سے آئے مہمان صحافی دلیپ دوشی لوہانو نے کہا کہ تھر پارکر میں جنگلات کا بے دریغ کٹاؤ جاری ہے۔

    تھرکول کی وجہ سے 8 گاؤں کے باسیوں کو بے دخل کیا گیا ہے اور مویشیوں کی چراہ گاہیں تباہ ہو کر رہ گئی ہیں۔

    مریم صدیقہ نے کہا کہ تھری نقل مکانی پر مجبور ہیں اور انہیں غذائی تحفظ حاصل نہیں۔

    حیدر آباد

    حیدر آباد سے آئے صحافیوں نے کہا کہ نہر پھلیلی ایک زمانے میں پھولوں کا مرغزار ہوا کرتی تھی اور اب آلودگی اور صنعتی فضلے سے ہلاکت خیز پانی کا جوہڑ بن چکی ہے اور غریب لوگ اس کا پانی پی کر بیمار ہو رہے ہیں۔

    حیدر آباد شہر میں طبی فضلے کو ٹھکانے لگانے کے بجائے کھلے عام پھینکا جارہا ہے۔

    حیدرآباد کے شہریوں کو منچھر جھیل کا آلودہ پانی فراہم کیا جا رہا ہے جو کئی امراض کی وجہ بن رہا ہے۔

    ایک زمانے میں مٹیاری کے جنگلات بہت وسیع علاقے پر پھیلے ہوئے تھے جو اب تیزی سے ختم ہو رہے ہیں اور اس کی ذمے دار ٹمبر مافیا اور لینڈ مافیا ہے۔

    کراچی

    کراچی میں کے ایم سی کے ٹرک مصروف اوقات میں کچرا اٹھا رہے ہیں اور ٹرک بند نہ ہونے کی وجہ سے کچرا روڈ پر گرتا ہے۔

    کراچی میں درختوں کی تیزی سے کٹائی جاری ہے اور یہ شہر شجر کاری کی ایک بھرپور مہم کا متقاضی ہے۔

    سمندر آلودہ ہو رہے ہیں اور اس پانی میں سیوریج کا گند شامل ہو رہا ہے جس پر لکھنے کی ضرورت ہے۔

    سرکاری اسکولوں میں بچوں کو ماحولیات اور کلائمٹ چینج کا شعور پہنچانے کی مہم کی ضرورت ہے۔

  • آسٹریلیا کی متنوع جنگلی حیات

    آسٹریلیا کی متنوع جنگلی حیات

    آسٹریلیا دنیا کا سب سے چھوٹا براعظم لیکن دنیا کا چھٹا سب سے بڑا ملک ہے۔ چاروں طرف سے سمندر میں گھرے ہوئے اس ملک میں نہایت متنوع جنگلی حیات، ماحول اور قدرتی نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں۔

    حال ہی میں آسٹریلیا کی ایکولوجیکل سوسائٹی نے ایک تصویری مقابلے کا انعقاد کروایا جس میں شرکا کو دعوت دی گئی کہ وہ آسٹریلیا کی جنگلی حیات کی ایسے منظر کشی کریں جو اس سے پہلے نہ کی گئی ہو۔

    مقابلے میں حصہ لینے والے ماہر، پیشہ ور اور شوقیہ فوٹوگرافرز نے نہایت خوبصورت تصاویر پیش کیں جنہیں اب سیاحتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

    تو اگر آپ بھی آسٹریلیا جارہے ہیں تو جانے سے پہلے دیکھ لیں کہ آپ دنیا کی متنوع اور حسین ترین جنگلی حیات کو دیکھنے جارہے ہیں، اور اگر آپ آسٹریلیا نہیں جا رہے تو یہ تصاویر یقیناً آپ کو مجبور کردیں گی کہ آپ زندگی میں ایک بار آسٹریلیا ضرور جائیں۔

    111

    2

    4

    5

    8

    9

    10

    12

    مقابلے میں قدرتی مناظر کی کیٹگری میں یہ تصاویر پیش کی گئیں۔

    14

    1

    7

    3

    6

  • دنیا کا سب سے بڑا شمسی توانائی پارک پاکستان میں

    دنیا کا سب سے بڑا شمسی توانائی پارک پاکستان میں

    اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے کلائمٹ چینج زاہد حامد کا کہنا ہے کہ پاکستان بہت جلد دنیا کا سب سے بڑا شمسی توانائی کا پارک قائم کرنے والا ہے جس سے 1000 میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکے گی۔

    اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ وفاقی کابینہ کی جانب سے منظور کردہ قومی توانائی بچت ایکٹ 2016 بھی نافذ کردیا گیا ہے تاکہ ملک میں توانائی کے کفایت شعار استعمال اور اس کی بچت کو یقینی بنایا جاسکے۔

    واضح رہے کہ پاکستان کی قومی اسمبلی دنیا کی پہلی پارلیمنٹ ہے جو مکمل طور پر شمسی توانائی سے فعال ہونے والی پارلیمنٹ بن چکی ہے۔

    وفاقی وزیر زاہد حامد نے بتایا کہ پاکستان دنیا بھر میں مضر گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ رکھتا ہے، تاہم ان گیسوں سے وقوع پذیر ہونے والے کلائمٹ چینج اور اس کے خطرات سے متاثر ہونے والے سرفہرست 10 ممالک میں شامل ہے۔ ’دنیا آگاہ ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے میں ہمارا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے‘۔

    زاہد حامد نے مراکش میں ہونے والی موسمیاتی تغیرات (کلائمٹ چینج) کی عالمی کانفرنس میں پاکستانی وفد کی سربراہی بھی کی تھی۔

    وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان ماحولیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے دنیا کے ساتھ کھڑا ہے اور اس سلسلے میں ہر ممکن اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ ان کے مطابق قومی توانائی بچت ایکٹ 2016 بھی اسی کی ایک کڑی ہے۔

    مزید پڑھیں: حکومت کا گلیشیئرز کا ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے اہم اقدام

    انہوں نے کہا کہ کچھ عرصہ قبل پاکستان نے انسداد ماحولیاتی نقصانات کے لیے طے کیے جانے والے معاہدے پیرس کلائمٹ ڈیل کی بھی توثیق کردی ہے۔ انہی ماحول دوست اقدامات کے تحت پرائم منسٹر گرین پاکستان پروگرام کا آغاز کیا گیا ہے جس کے تحت پورے ملک میں شجر کاری کی جائے گی۔

    زاہد حامد نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے اقوام متحدہ کے طے کردہ پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول کے لیے ایک مربوط حکمت عملی بھی تیار کی ہے اور پاکستان وہ پہلا ملک ہے جس کی قومی اسمبلی نے ان اہداف کو قومی پالیسی کا حصہ بنانے کے بل کو متفقہ طور پر منظور کیا ہے۔

  • میکسیکو میں ماحول دوست سیاحتی ریزورٹ

    میکسیکو میں ماحول دوست سیاحتی ریزورٹ

    سورج کی روشنی سے توانائی حاصل کرنے اور اس سے مختلف کام انجام دینے کا طریقہ دنیا کے کئی ممالک میں مستعمل ہے۔ اکثر ممالک میں چھوٹے یا بڑے پیمانے پر سورج کی روشنی سے توانائی پیدا کی جارہی ہے۔

    میکسیکو میں ایک ریزورٹ بھی اپنے مہمانوں کو ایسے کمرے فراہم کر رہا ہے جس میں تمام سہولیات سورج کی روشنی سے فراہم کی گئی ہیں۔

    2

    3

    4

    یہ ماحول دوست ریزورٹ درختوں کے تنوں میں بنایا گیا ہے اور ان کا مقصد مہمانوں کو ایک پرتعیش کمرے کے ساتھ ساتھ فطرت کے نظاروں سے لطف اندوز ہونے کا موقع بھی فراہم کرنا ہے۔

    5

    6

    ان کمروں میں دن بھر تو سورج کی روشنی آتی ہے، تاہم رات ہوتے ہی شمسی توانائی سے روشن بلب جل اٹھتے ہیں۔ کمروں میں سورج ہی کی حرارت سے گرم کیا ہوا پانی فراہم کیا جاتا ہے۔

    7

    8

    یہ ریزورٹ میکسیکو کے ساحلی جنگل کے قریب واقع ہے جہاں یہ کمرے قدرتی مناظر، تیمر کے جنگلات اور مختلف اقسام کے جنگلی حیات جیسے کچھوے وغیرہ سے گھرے ہوئے ہیں۔

    9

    10

    اسے بنانے والے ڈیزائنرز کا کہنا ہے کہ اس طرز کے ریزورٹ سے وہ پائیدار سیاحت اور ماحول دوستی کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔

  • جانوروں کی متعدد اقسام گرم موسم سے مطابقت کرنے میں ناکام

    جانوروں کی متعدد اقسام گرم موسم سے مطابقت کرنے میں ناکام

    لندن: ماہرین نے متنبہ کیا ہے جانوروں اور پرندوں کی کئی اقسام تیزی سے بدلتے ہوئے موسم یعنی کلائمٹ چینج سے مطابقت نہیں کر سکیں گی جس کے باعث ان کے ختم ہوجانے کا خدشہ ہے۔

    ایک نئے تحقیقی مقالے میں 50 ایسے جانوروں، پرندوں اور پودوں کے بارے میں بتایا گیا ہے جو تیزی سے بدلتے موسموں سے مطابقت نہیں کرسکیں گے۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کئی رینگنے والے جانور، آبی حیات اور پودے کلائمٹ چینج کے باعث خاص طور پر معدومی کے شدید خطرے کا شکار ہیں۔

    اس سلسلے میں سب سے زیادہ خطرہ ان جانداروں کو ہے جو گرم خطوں کے رہنے والے ہیں۔ کلائمٹ چینج یعنی موسموں میں تبدیلی کا سب سے اہم پہلو گلوبل وارمنگ یعنی دنیا بھر کے درجہ حرات میں اضافہ ہے جس کے باعث نہ صرف ٹھنڈے علاقوں میں مجموعی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، بلکہ گرم علاقوں کا موسم بھی مزید گرم ہورہا ہے۔

    leopard

    ماہرین کا کہنا ہے کہ موسموں کی اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے انسان کی طرح کئی جاندار بھی ہجرت کر جائیں گے اور نئے ٹھکانے تلاش کرنے پر مجبور ہوجائیں گے، لیکن بہت سے ایسے ہوں گے جو اپنی پناہ گاہیں چھوڑنے کے قابل نہیں ہوں گے نتیجتاً وہ موت کا شکار ہوتے جائیں گے۔

    ماہرین کے مطابق موجودہ درجہ حرات بھی جانداروں کی کئی اقسام کو ان کی جگہوں سے ہجرت پر مجبور کرچکا ہے۔

    مقالے میں شامل ڈاکٹر وائنز کا کہنا ہے کہ پانی میں رہنے والے اور رینگنے والے جانداروں کی نسبت ممالیہ جانور اور پرندوں کا مستقبل کچھ بہتر ہے کیونکہ وہ اپنا جسمانی درجہ حرارت تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہ دہرا خطرہ ہے، ایک تو موسم میں تبدیلی، جسے ہم بدتر تبدیلی کہہ سکتے ہیں۔ دوسری اپنی پناہ گاہوں سے محرومی۔

    birds

    اس سے قبل بھی لندن کی زولوجیکل سوسائٹی اور جانوروں کے تحفظ کی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب سے ایک رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں بتایا گیا کہ سنہ 2020 تک ہماری دنیا میں موجود جنگلی جانوروں کی ایک تہائی تعداد کم ہوجائے گی جس کے بعد دنیا کا توازن بری طرح بگڑ جائے گا۔

    رپورٹ میں پچھلی ایک صدی کے دوران جانوروں کی نسل کا خاتمہ (اگر کوئی ہوا ہے)، ان کی پناہ گاہوں کو لاحق خطرات، انسانی آبادی اور شکار کے تناسب کا مطالعہ پیش کیا گیا تھا۔

    رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ سنہ 1970 سے 2012 تک دنیا بھر میں موجود مختلف جانوروں کی آبادی میں 58 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔

    :جنگلی حیات کے بارے میں مزید مضامین

    گرم موسم کے باعث جنگلی حیات کی معدومی کا خدشہ

    کچھوے اور ’انسان‘ کی ریس میں کچھوے کو شکست

    برطانیہ کی جنگلی حیات معدومی کے شدید خطرے کا شکار

    کیا ہم جانوروں کو معدومی سے بچا سکیں گے؟

  • شہری زراعت ۔ مستقبل کی اہم ضرورت

    شہری زراعت ۔ مستقبل کی اہم ضرورت

    کیا آپ نے کبھی تصور کیا ہے کہ جب کبھی آپ کو سبزیوں اور پھلوں کی ضرورت ہو، آپ اپنے فلیٹ یا گھر کی چھت پر جائیں اور وہاں اگی ’فصل‘ سے اپنی مطلوبہ شے توڑ کر لے آئیں؟

    یہ بات شاید آپ کو بہت عجیب لگے، لیکن دنیا بھر میں اب یہی رجحان فروغ پا رہا ہے جسے اربن فارمنگ کہا جاتا ہے۔

    شہری زراعت یا اربن فارمنگ کا مطلب شہروں کے بیچ میں زراعت کرنا ہے۔ یہ سڑکوں کے غیر مصروف حصوں، عمارتوں کی چھتوں، بالکونیوں اور خالی جگہوں پر کی جاسکتی ہے۔

    farming-6

    farming-2

    farming-4

    اس زراعت کا مقصد دراصل دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنا ہے۔ دنیا میں موجود قابل زراعت زمینیں اس وقت دنیا کی تیزی سے اضافہ ہوتی آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنے میں ناکام ہیں۔

    دوسری جانب جن زمینوں پر زراعت کی جارہی ہے ان کی تعداد میں تیزی سے کمی آرہی ہے اور ان کی جگہ بڑی بڑی عمارتیں، گھر اور اسکول وغیرہ بنائے جارہے ہیں۔

    تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں رہنے والے افراد کو آخر کس طرح سبزیاں اور پھل فراہم کیے جائیں؟

    اس کا حل ماہرین نے شہری زراعت کے طور پر پیش کیا ہے۔

    ماہرین کی تجویز ہے کہ شہری زراعت کے ذریعہ شہر کی زیادہ سے زیادہ عمارتوں کی چھتوں کو گارڈن کی شکل میں تبدیل کردیا جائے اور وہاں پھل اور سبزیاں اگائی جائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طریقے سے عمارتوں کی چھتوں پر مویشی بھی پالے جاسکتے ہیں جو دودھ اور گوشت کی فراہم کا ذریعہ بنیں گے۔

    farming-5

    یہی نہیں یہ سر سبز چھتیں شہر سے آلودگی کو بھی کم کریں گی جبکہ شدید گرمیوں کے موسم میں یہ ٹھنڈک فراہم کریں گی اور وہی کام کریں گی جو درخت سر انجام دیتے ہیں۔

    یہ طریقہ کئی ممالک میں زیر استعمال ہے۔ امریکی شہر نیویارک میں بھی متعدد فلک بوس عمارتوں کی چھتوں پر زراعت شروع کردی گئی ہے اور یہاں سے پیدا ہونے والی اجناس کی مقدار 23 ہزار کلو گرام سالانہ ہے۔

    ماہرین کے مطابق شہری زراعت کے طریقے کو اپنا کر اگر کوئی ایک شہر بھی اپنی غذائی ضروریات میں خود کفیل ہوجائے تو اس سے ملکی معیشت کو کافی سہارا ہوسکتا ہے اور کسی ملک کی مجموعی زراعت پر پڑنے والا دباؤ بھی کم ہوسکتا ہے۔

    عالمی رپورٹس کے مطابق زراعت کو ایک اور خطرہ موسمیاتی تغیر یا کلائمٹ چینج سے بھی ہے۔ موسمیاتی تغیرات کی وجہ سے ہر سال بارشوں کی مقدار میں تبدیلی (کسی سال کم اور کسی سال زیادہ بارش ہونا) بھی فصل کو نقصان پہنچاتی ہے جس سے اس کی سالانہ مقدار میں کمی ہوتی ہے، یوں یہ غذائی اجناس کمیاب اور مہنگی ہوجاتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر شہری زراعت کے علاوہ انفرادی طور پر بھی گھروں میں زراعت یا چھوٹے چھوٹے گملوں میں مختلف سبزیاں اور پودے اگانا کسی خاندان کو اس کی غذائی ضروریات میں خود کفیل کرسکتا ہے۔

  • برفانی علاقے تباہی کی جانب گامزن

    برفانی علاقے تباہی کی جانب گامزن

    قطب شمالی کے بعد دنیا کے دوسرے بڑے برفانی مقام گرین لینڈ کی برف پگھلنے میں خطرناک اضافہ ہوگیا ہے جس نے ماہرین کو شدید تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

    جریدے سائنس ایڈوانس میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق گرین لینڈ میں سنہ 2003 سے 2013 تک 2 ہزار 700 ارب میٹرک ٹن برف پگھل چکی ہے۔ ماہرین نے اس خطے کی برف کو نہایت ہی ناپائیدار قرار دیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اس کے پگھلنے کی رفتار میں مزید اضافہ ہوگا۔

    greenland-4

    واضح رہے کہ اتنی بڑی مقدار میں برف پگھلنے کی وجہ گلوبل وارمنگ یعنی عالمی درجہ حرات میں اضافہ ہے۔

    اس سے قبل بھی عالمی سائنسی ادارے ناسا نے ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں قطب شمالی کے سمندر میں پگھلتی ہوئی برف کو دکھایا گیا تھا۔ ناسا کے مطابق رواں برس مارچ سے اگست کے دوران قطب شمالی کے سمندر میں ریکارڈ مقدار میں برف پگھلی۔

    مزید پڑھیں:

    قطب شمالی کی برف گلابی کیوں ہو رہی ہے؟

    برفانی سمندر پر پیانو کی پرفارمنس

    برفانی خطوں میں جھیلوں کی موجودگی کا انکشاف

    ناسا کے ماہرین کے مطابق سنہ 2016 ایک گرم سال تھا جس نے دنیا بھر میں اپنے منفی اثرات مرتب کیے۔ رواں برس مئی اور جولائی کے مہینہ میں درجہ حرارت میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر کا اثر برفانی علاقوں پر پڑ رہا ہے۔ شدید گرمی کے باعث یہاں موجود گلیشیئرز کی برف پگھلنی شروع ہوگئی ہے جس سے ایک تو سطح سمندر میں اضافے کا خدشہ ہے، دوسری جانب یہاں پائی جانے والی جنگلی حیات جیسے برفانی ریچھ وغیرہ کی بقا کو بھی سخت خطرات لاحق ہیں۔

    bear-6

    رپورٹس کے مطابق سال 2016 میں گرمیوں کے موسم کے درجہ حرارت میں تو اضافہ ہوا ہی، مگر اس کے ساتھ ساتھ گزشتہ برس کا موسم سرما بھی اپنے اوسط درجہ حرارت سے گرم تھا۔

  • صاف ماحول کو آئینی حق قرار دینے کا مطالبہ

    صاف ماحول کو آئینی حق قرار دینے کا مطالبہ

    مانٹریال: کینیڈا میں انسداد ماحولیاتی آلودگی کے لیے کام کرنے والے افراد نے مطالبہ کیا ہے کہ صاف ماحول کو ہر شہری کا آئینی حق قرار دیا جائے۔

    ماحولیات کے لیے کام کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ یہ اقدام اس لیے ضروری ہے کہ تاکہ بدلتی حکومتوں کی مختلف پالیسیوں کو ماحولیاتی بہتری کے اقدامات پر اثر انداز ہونے سے روکا جاسکے۔

    کینیڈا کے جنگلات میں شدید آگ ۔ کلائمٹ چینج میں اضافے کا خدشہ *

    کینیڈا کے ایک ماہر ماحولیات اور سائنس دان ڈیوڈ سوزوکی نے اس کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ جسٹن ٹروڈو سے پہلے وزیر اعظم اسٹیفن ہارپر نے ماحولیاتی بہتری کے کئی قوانین کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔

    انہوں نے کہا ’جس طرح امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ماحولیاتی بہتری کے اقدامات کو اٹھا کر پھینک دیا ہے، ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے ملک میں بھی کوئی ایسا حکمران آئے جو ذاتی رائے پر پالیسیوں کو بنائے اور بگاڑے‘۔

    ٹرمپ ماحول کے لیے دشمن صدر؟ *

    واضح رہے کہ صاف ہوا، صاف پانی اور ایسی غذا جو دھاتوں اور کیڑے مار ادویات سے پاک ہو، کو بنیادی انسانی ضرورت یا حق قرار دینے کا خیال 70 کی دہائی سے ابھرا تھا۔

    ڈیوڈ نے بتایا کہ انہوں نے 35 سال قبل کینیڈا میں ماحولیات کو تباہ کرنے والے اقدامات کے خلاف طویل جنگ لڑی جن میں تیل کی تلاش کے لیے کی جانے والی کھدائی کے خلاف احتجاج بھی شامل تھا۔ ’ہم سمجھے تھے کہ ہم یہ جنگ جیت چکے ہیں، مگر اب ہمیں یہی جنگیں دوبارہ لڑنی پڑ رہی ہیں‘۔

    دنیا کو بچانے کے لیے کتنے ممالک سنجیدہ؟ *

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اس مطالبے پر سنجیدگی سے غور کیا بھی جاتا ہے تب بھی آئین میں ایک نئی چیز کو شامل کرنا آسان بات نہیں ہے۔