Tag: ماحولیات

  • آبی آلودگی سے دنیا بھر کی آبادی طبی خطرات کا شکار

    آبی آلودگی سے دنیا بھر کی آبادی طبی خطرات کا شکار

    دنیا بھر کے دریاؤں میں بڑھتی آلودگی 30 کروڑ افراد کے لیے مختلف بیماریوں کا خدشہ پیدا کر رہی ہے جبکہ کئی ممالک میں یہ ماہی گیری اور زراعت کو بھی متاثر کر رہی ہے۔

    اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکا میں آبی آلودگی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث 30 کروڑ افراد کو صحت کے سنگین مسائل لاحق ہوسکتے ہیں۔

    pollution-2

    رپورٹ کے مطابق 16.4 کروڑ افراد افریقہ، 13.4 کروڑ ایشیا اور لاطینی امریکا میں 2.5 کروڑ افراد گندے پانی سے ہونے والی بیماریوں کے خطرے کا شکار ہیں۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 3.4 ملین افراد گندے پانی کے باعث پیدا ہونے والی بیماریوں سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ ان بیماریوں میں ٹائیفائیڈ، ہیپاٹائٹس، ڈائریا اور ہیضہ شامل ہیں۔

    مزید پڑھیں: دنیا کا سب سے بڑا بحری جہاز آلودگی میں اضافے کا سبب

    اس کی سب سے بڑی وجہ انسانی فضلہ کی پینے کے پانی میں ملاوٹ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے لیے نہ صرف سیوریج کے نظام کو بہتر کرنا ضروری ہے بلکہ پینے کے پانی کو بھی ٹریٹ (صفائی) کرنے کی ضرورت ہے۔

    pollution-3

    اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ماحولیات یو این ای پی کی سائنسدان جیکولین میک گلیڈ کا کہنا ہے کہ صاف پانی ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور یہ انسانی صحت اور انسانی ترقی کے لیے بے حد ضروری ہے۔ لیکن اگر ہم آبی آلودگی کو نہ روک سکے تو ہم صاف پانی کے حصول میں ناکام ہوجائیں گے۔

    رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ فیکٹریوں کا فضلہ اور ضائع شدہ فصلوں کی دریاؤں میں تلفی پانی کی آلودگی میں اضافہ کر رہی ہے۔ یاد رہے کہ بعض ممالک کی 90 فیصد آبادی پینے کے پانی کے لیے دریاؤں اور جھیلوں پر انحصار کرتی ہے۔

    po-4

    اسی طرح ماہی گیری کا شعبہ جو دنیا بھر کے 21 ملین افراد کا ذریعہ روزگار ہے پر بھی منفی اثرات پڑنے کا خدشہ ہے جبکہ آلودہ پانی سے زراعت کے باعث فصلوں کی پیداوار میں بھی کمی ہوسکتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ مختلف ذرائع سے تلف کیے جانے والے پانی کو سمندروں اور دریاؤں میں جانے سے پہلے ٹریٹ کیا جانا یا اس کی صفائی کرنا ضروری ہے۔

  • کلائمٹ چینج سے کافی کی پیداوار میں کمی کا خدشہ

    کلائمٹ چینج سے کافی کی پیداوار میں کمی کا خدشہ

    میلبرن: ماہرین کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تغیر یا کلائمٹ چینج کافی اگانے والے علاقوں کو متاثر کر سکتا ہے جس کے باعث 120 ملین افراد بے روزگار ہوسکتے ہیں۔

    آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے مشترکہ کلائمٹ انسٹیٹیوٹ کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق کلائمٹ چینج دنیا بھر کی زراعت کو متاثر کر رہا ہے جن میں سے ایک کافی کے بیجوں کی فصل بھی ہے۔ کافی کی پیداوار متاثر ہونے سے 120 ملین افراد کا روزگار متاثر ہوگا جو اس زراعت سے وابستہ ہیں۔

    coffee-2

    یہ افراد وسطی امریکا کے غیر ترقی یافتہ ممالک سے تعلق رکھتے ہیں اور غربت کی سطح سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کا واحد ذریعہ روزگار کافی کے بیچوں کو اگانا اور ان کی تجارت کرنا ہے۔

    کافی کی سب سے زیادہ پیداوار دینے والے ممالک میں سے ایک تنزانیہ میں 2.4 کروڑ افراد اس روزگار سے وابستہ ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گرمی کے موسم میں یہاں درجہ حرارت میں ہر 1 ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ کے بعد کافی کی فی ہیکٹر پیداوار میں 137 کلو گرام کمی آئی ہے۔

    اس لحاظ سے سنہ 1960 سے اب تک کافی کی پیداوار میں نصف کمی آچکی ہے۔

    یہی صورتحال وسطی امریکی ملک گوئٹے مالا میں بھی ہے جہاں 2012 میں سخت گرمی سے کافی کے پتے خراب ہونے کے باعث اس کی پیداوار میں 85 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔

    coffee-3

    ماہرین کا کہنا ہے کہ وسطی امریکی ملک نکارا گوا 2050 تک اپنی کافی کی فصل مکمل طور پر کھو سکتا ہے جبکہ تنزانیہ میں 2060 تک کافی کی پیداوار میں خطرناک حد تک کمی آجائے گی۔

    اسی طرح کافی کی ایک قسم ’جنگلی کافی‘ کی پیداوار 2080 تک مکمل طور پر ختم ہوجائے گی۔ یہ قسم جینیاتی طور پر کافی میں مختلف ذائقے پیدا کرتی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کافی کو کلائمٹ چینج کے اثرات سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ کافی کی فصلوں کو خط استوا سے دور ان علاقوں میں اگایا جائے جہاں کلائمٹ چینج اتنی شدت سے اثر انداز نہیں ہورہا۔ لیکن چونکہ کافی کے پودے بڑے اور پھلدار ہونے میں کافی عرصہ لیتے ہیں لہٰذا فی الحال یہ تجویز قابل عمل نظر نہیں آتی۔

    coffee-4

    واضح رہے کہ تیزی سے بدلتا دنیا کا موسم جسے کلائمٹ چینج کہا جاتا ہے دنیا کے لیے بے شمار خطرات کا سبب بن رہا ہے اور اس سے عالمی معیشت، زراعت اور امن و امان کی صورتحال پر شدید منفی اثرات پڑنے کا خدشہ ہے۔ ماہرین کے مطابق درجہ حرارت میں اضافے کے باعث دنیا میں موجود ایک چوتھائی جنگلی حیات بھی 2050 تک معدوم ہوجائے گی۔

    کلائمٹ چینج اور گلوبل وارمنگ سے متعلق مضامین پڑھنے کے لیے کلک کریں *

  • قطب شمالی کی برف گلابی کیوں ہو رہی ہے؟

    قطب شمالی کی برف گلابی کیوں ہو رہی ہے؟

    کیا آپ جانتے ہیں قطب شمالی کی برف گلابی ہورہی ہے؟

    گلابی یا شربتی رنگ کی ’واٹر میلن سنو‘ کہلائی جانے والی یہ برف آنکھوں کو تو بے حد خوبصورت لگتی ہے لیکن درحقیقت یہ ایک بڑے خطرے کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔

    قطب شمالی کی برف گلابی اس وقت ہوتی ہے جب برف میں پرورش پانے والی کائی تابکار شعاعوں کو اپنے اندر جذب کرلیتی ہے۔ اس کا نتیجہ برفانی گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے کی صورت میں نکلتا ہے۔

    pink-1

    یہ عمل اونچائی پر واقع علاقوں جیسے قطب شمالی اور گرین لینڈ میں پیش آتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ عمل ایک سنگین صورتحال کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ قطب شمالی کی برف کا گلابی ہونا ظاہر کرتا ہے کہ گلیشیئرز کا ’البیڈو‘ اثر اپنی صلاحیت کھو رہا ہے۔

    البیڈو افیکٹ کا مطلب گلیشیئرز کا سورج کی شعاعوں کو منعکس کرنا ہے۔ سخت برف سے بنے ہوئے گلیشیئرز پر جب سورج کی روشنی پڑتی ہے تو وہ اس سے ٹکرا کر واپس آسمان کی طرف پلٹتی ہے۔ اگر یہ عمل نہ ہو تو اس کا مطلب ہے کہ گلیشیئر ان شعاعوں کو جذب کر رہا ہے۔

    pink-2

    اس کے کئی نقصانات ہیں۔ ایک یہ گلیشیئرز پگھل کر عالمی سمندروں کی سطح میں اضافہ کریں گے جس سے سیلابوں کا خطرہ ہے۔ دوسرا سورج کی روشنی   کے واپس آسمان میں نہ جانے سے زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ ہوگا اور دنیا کے مختلف ممالک میں گرمی بڑھے گی۔

    دوسری جانب برف پگھلنے سے یہاں موجود جانور جیسے برفانی ریچھ، برفانی لومڑی وغیرہ کی بقا کو بھی خطرہ لاحق ہے۔

    یہ عمل گلیشیئر میں ’سرخ کائی‘ کی مقدار میں اضافہ کرتا ہے۔ گلیشیئر میں جتنی زیادہ سرخ الجی یا کائی موجود ہوگی اتنا ہی وہ گلیشیئر سورج کی روشنی جذب کرے گا۔

    اس کی مثال ہم یوں لیتے ہیں کہ گرمیوں کے موسم میں گہرے رنگ کے کپڑے پہننے سے منع کیا جاتا ہے کیونکہ گہرے رنگ سورج کی روشنی کو زیادہ جذب کرتے ہیں نتیجتاً پہننے والے کو شدید گرمی لگنے لگتی ہے۔

    arctic-3

    اس کے برعکس ہلکے رنگ کے کپڑے سورج کی شعاعوں کو روک کر اسے منعکس کرتے ہیں یعنی واپس پھینک دیتے ہیں۔

    اسے ہم ایک سائیکل بھی کہہ سکتے ہیں۔ سورج کی روشنی گلیشیئرز میں جذب ہوکر سرخ الجی پیدا کرے گی اور سرخ الجی سورج کی مزید روشنی کو اپنے اندر جذب کرے گی یوں گلیشیئر پگھلنے کی رفتار میں اضافہ ہوتا جائے گا۔

    واضح رہے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج کے باعث قطب شمالی کی برف تیزی سے پگھل رہی ہے۔ ناسا نے قطب شمالی میں تیزی سے پگھلتی برف کی ایک ویڈیو بھی جاری کی اور بتایا کہ رواں برس مارچ سے اگست کے دوران قطب شمالی کے سمندر میں ریکارڈ مقدار میں برف پگھلی۔

    pink-4

    پاکستان بھی کلائمٹ چینج کے شکار ممالک میں سے ایک ہے جہاں موجود 5000 گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں جس کے باعث شمالی علاقوں کو شدید سیلابوں کا خطرہ لاحق ہے۔

  • ایسی پیکنگ جسے کھایا جا سکتا ہے

    ایسی پیکنگ جسے کھایا جا سکتا ہے

    یہ ایک بہت عام سی بات ہے کہ آپ نے کوئی چیز بازار سے خریدی، اس کے گرد لپٹا پلاسٹک کھول کر پھینک دیا اور اس چیز کو استعمال کرلیا۔

    لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ پھینکا جانے والا پلاسٹک ہماری زمین کو کس قدر شدید نقصانات پہنچا رہا ہے؟

    پلاسٹک ایک ایسا مادہ ہے جو ختم نہیں ہوتا۔ اگر اسے ایک ہزار سال بھی زمین میں دبائے رکھا جائے تب بھی یہ زمین میں حل ہو کر اس کا حصہ نہیں بنتا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ماحول، صفائی اور جنگلی حیات کے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔

    pl-3

    ساحلوں پر پھینکی جانے والی پلاسٹک کی بوتلیں اور تھیلیاں سمندر میں چلی جاتی ہیں جس سے سمندری حیات کی بقا کو سخت خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ اکثر سمندری جانور پلاسٹک کے ٹکڑوں میں پھنس جاتے ہیں اور اپنی ساری زندگی نہیں نکل پاتے۔ اس کی وجہ سے ان کی جسمانی ساخت ہی تبدیل ہوجاتی ہے۔

    کچھ سمندری حیات پلاسٹک کو کھا بھی لیتی ہیں جس سے فوری طور پر ان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

    pl-2

    ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ ایک کھرب پلاسٹک کی تھیلیاں استعمال کی جاتی ہیں۔ یہ تھیلیاں استعمال کے بعد پھینک دی جاتی ہیں جو کروڑوں ٹن کچرے کی شکل میں ہماری زمین کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔

    pl-1

    انہی خطرات کو کم کرنے کے لیے امریکا میں ماہرین ’خوردنی پیکنگ‘ پر کام کر رہے ہیں۔

    امریکن کیمیکل سوسائٹی کے ماہرین پلاسٹک کے متبادل کے طور پر ایسی چیزوں کی پیکنگ بنانے پر کام کر رہے ہیں جنہیں انسان یا جانور کھا سکتے ہیں۔ اگر اسے پھینک دیا جائے تب بھی یہ مختصر عرصہ میں حل ہو کر زمین کا حصہ بن سکتی ہے یوں یہ کچرے اور آلودگی میں اضافہ کا سبب نہیں بنے گی۔

    pl-5

    یہ پیکنگ دودھ کے پروٹین سے تیار کی جائے گی اور یہ وہی کام کرے گی جو پلاسٹک سر انجام دیتا ہے۔ یہ آکسیجن کو جذب نہیں کرسکے گی لہٰذا اس کے اندر لپٹی چیز خراب ہونے کا کوئی خدشہ نہیں ہوگا۔

    اس پیکنگ کے اندر کافی یا سوپ کو پیک کیا جاسکے گا۔ استعمال کرتے ہوئے اسے کھولے بغیر گرم پانی میں ڈالا جاسکتا ہے جہاں یہ پیکنگ بھی پانی میں حل ہوجائے گی۔ چونکہ یہ پروٹین ہی سے بنی ہے لہٰذا یہ صحت کے لیے بھی فائدہ مند ہوگی۔

    pl-4

    pl-6

    ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں زمین کی بڑھتی آلودگی میں کمی کے لیے یہی خوردنی پیکنگ استعمال کی جائے گی۔

    اس سے قبل برطانیہ میں بھی پلاسٹک کی تھیلیوں کے استعمال کو کم کرنے کے لیے اس پر ٹیکس عائد کردیا گیا جس کے بعد رواں برس پلاسٹک بیگز کے استعمال میں 85 فیصد کمی دیکھی گئی۔

  • قطب شمالی میں برف پگھلنے کی رفتار میں خطرناک اضافہ

    قطب شمالی میں برف پگھلنے کی رفتار میں خطرناک اضافہ

    عالمی خلائی ادارے ناسا نے ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں قطب شمالی کے سمندر میں پگھلتی ہوئی برف کو دکھایا ہے۔ ناسا کے مطابق رواں برس مارچ سے اگست کے دوران قطب شمالی کے سمندر میں ریکارڈ مقدار میں برف پگھلی۔

    ماہرین کے مطابق 2016 ایک گرم سال تھا۔ رواں برس مئی اور جولائی کے مہینہ میں درجہ حرارت میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ رواں سال کے بقیہ ماہ 2014 اور 2015 سے بھی زیادہ گرم ہونے کا خدشہ ہے جس کی وجہ ایل نینو اور گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں اضافہ ہے۔ ایل نینو بحر الکاہل کے درجہ حرارت میں اضافہ کو کہتے ہیں جس کے باعث پوری دنیا کے موسم پر منفی اثر پڑتا ہے۔

    درجہ حرارت میں اس اضافہ کا اثر قطب شمالی پر بھی پڑ رہا ہے جہاں موجود برف تیزی سے پگھلنی شروع ہوگئی۔

    قطب شمالی یا بحر منجمد شمالی کے بیشتر حصے پر برف جمی ہوئی ہے۔ یہاں آبی حیات بھی کافی کم ہیں جبکہ نمکیات دیگر تمام سمندروں کے مقابلے میں سب سے کم ہیں۔

    arctic-2

    اس کا رقبہ 14,056,000 مربع کلومیٹر ہے۔ اس کے ساحل کی لمبائی 45 ہزار 389 کلومیٹر ہے۔ یہ تقریباً چاروں طرف سے زمین میں گھرا ہوا ہے جن میں یورپ، ایشیا، شمالی امریکہ، گرین لینڈ اور دیگر جزائر شامل ہیں۔

    کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر کا اثر بحر منجمد پر بھی پڑا ہے۔ شدید گرمی کے باعث اس کے گلیشیئرز کی برف پگھلنی شروع ہوگئی ہے جس سے ایک تو سطح سمندر میں اضافے کا خدشہ ہے، دوسری جانب یہاں پائی جانے والی جنگلی حیات جیسے برفانی ریچھ وغیرہ کی بقا کو بھی سخت خطرات لاحق ہیں۔

    مزید پڑھیں: برفانی سمندر کو بچانے کے لیے پیانو کی پرفارمنس

    ماہرین کا کہنا ہے کہ رواں سال میں گرمیوں کے موسم کے درجہ حرارت میں تو اضافہ ہوا ہی، مگر اس کے ساتھ ساتھ گزشتہ برس کا موسم سرما بھی اپنے اوسط درجہ حرارت سے گرم تھا۔ یعنی موسم سرما میں قطب شمالی کا جو اوسط درجہ حرارت ہے، گزشتہ برس وہ اس سے 2 سے 3 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ تھا۔

    arctic-3

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں ہوتی تیز رفتار صنعتی ترقی اور اس کے باعث گیسوں کے اخراج اور درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے اب تک قطب شمال کے برفانی رقبہ میں 620,000 میل اسکوائر کی کمی ہوچکی ہے۔

  • حکومت کا گلیشیئرز کا ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے اہم اقدام

    حکومت کا گلیشیئرز کا ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے اہم اقدام

    اسلام آباد: وفاقی حکومت نے پاکستان کے شمالی علاقوں میں واقع گلیشیئرز کے پگھلنے اور اس سے ہونے والے نقصانات سے بچانے کے لیے نصب مانیٹرنگ سسٹم پر 8.5 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    ہندو کش، قراقرم اور ہمالیہ کے پہاڑی سلسلوں میں نصب یہ نظام گلیشیئرز کے پگھلنے کی صورت میں سیلابوں سے قبل از وقت آگاہی فراہم کرتے ہیں۔

    پاکستان کے شمالی علاقوں میں تقریباً 5000 گلیشیئرز موجود ہیں اور یہ 15 ہزار اسکوئر کلومیٹر کے رقبہ پر پھیلے ہوئے ہیں۔ تاہم سائنسدانوں کے مطابق درجہ حرارت میں اضافہ کے باعث یہ تیزی سے پگھل رہے ہیں۔

    gl-3

    محکمہ موسمیات پاکستان کے مطابق صرف پچھلے عشرے میں گلیشیئرز پگھلنے کی رفتار میں 23 فیصد اضافہ ہوچکا ہے اور یہ پوری دنیا کے مقابلہ میں سب سے زیادہ ہے۔

    گذشتہ ماہ وفاقی حکومت نے مشاہداتی نظام (مانیٹرنگ سسٹم) کو وسعت دینے کے لیے 892.5 ملین روپے کی منظوری دی تھی۔

    اس 4 سالہ منصوبے کے ذریعہ وہاں کے درجہ حرارت، نمی، بارشوں کے موسم میں تبدیلی اور ہوا کی رفتار کے بارے میں زیادہ درست معلومات حاصل کی جاسکیں گی تاکہ گلیشیئرز کے پگھلنے کی اصل رفتار، اس کے نقصانات اور اس کے بچاؤ کے اقدامات کیے جاسکیں۔

    گلیشیئرز پگھلنے کا سب سے بڑا خطرہ سطح سمندر میں اضافے کی صورت میں ہوتا ہے جس کے بعد یہ اضافہ سیلاب کی شکل میں کنارے بسی ہوئی آبادیوں، دیہاتوں اور قصبوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔

    gl-6

    اس مشاہداتی نظام کے ذریعہ سیلاب سے 60 سے 90 منٹ قبل اس سے آگاہی حاصل کی جاسکتی ہے اور یوں کنارے بسی آبادی کو محفوظ مقامات تک پہنچنے کا وقت مل سکتا ہے۔

    واضح رہے کہ 2010 میں آنے والے تباہ کن سیلاب کی ایک وجہ گلیشیئرز کا پگھلنا بھی تھا۔ اس سیلاب نے ملک کے ایک تہائی رقبہ اور 1.4 کروڑ افراد کو متاثر کیا تھا جبکہ اس کے باعث 1600 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

    پاکستان کے محکمہ موسمیات نے ملک بھر میں سیلاب سے قبل از وقت آگاہی کے لیے ایس ایم ایس سروس اور دیگر کئی وارننگ سسٹم کی تشکیل کے لیے 16.6 بلین روپے کا منصوبہ بھی وفاقی حکومت کو بھجوایا ہے جو منظوری کا منتظر ہے۔

    اس سے قبل ایک رپورٹ کے مطابق رواں برس گرمیوں کے موسم میں گلیشیئرز کے اوسط بہاؤ میں اضافہ دیکھا گیا جس سے دریائے سندھ میں پانی کی سطح میں خاصا اضافہ ہوگیا۔

    gl-2

    ماہرین کے مطابق عالمی حدت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ کے جو مضر اثرات پاکستان پر پڑ رہے ہیں ان میں گلیشیئرز کا پگھلنا، سطح سمندر میں اضافہ، درجہ حرارت میں اضافہ، خشک سالی کی مدت میں اضافہ اور صحرائی علاقوں میں وسعت (ڈیزرٹیفکیشن) شامل ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے بارشوں کے موسم کے دورانیہ میں اضافہ ہوگیا ہے جبکہ برف باری کے موسم کے دورانیہ میں کمی ہورہی ہے۔ اس دورانیہ میں کمی کی وجہ سے گلیشیئرز پر برف رک نہیں پارہی اور یوں دنیا بھر کے گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔

  • گلوبل وارمنگ سے جنگلات میں آتشزدگی کے خطرات میں اضافہ

    گلوبل وارمنگ سے جنگلات میں آتشزدگی کے خطرات میں اضافہ

    نیویارک: اقوام متحدہ نے متنبہ کیا ہے کہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت اور دنیا بھر کے مختلف ممالک میں خشک سالی کی صورتحال جنگلات میں آتشزدگی کے خدشات کو بڑھا رہی ہے جو آگے چل کر عالمی معیشتوں پر منفی اثرات مرتب کرسکتی ہے۔

    اقوام متحدہ کے قدرتی آفات سے بچاؤ کے اقدامات کے ادارے یو این آئی ایس ڈی آر کے سربراہ رابرٹ گلاسر نے کہا کہ گذشتہ برس تاریخ کا ایک گرم ترین سال رہا اور رواں برس بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔ ان 2 برسوں میں جگلات میں آگ لگنے کے کئی واقعات دیکھے گئے جو دن گزرنے کے ساتھ مستقل اور تباہ کن ہوتے گئے۔

    wildfire-2

    انہوں نے واضح کیا کہ اس کی وجہ شہروں کا بے تحاشہ پھیلنا اور اس کی وجہ سے جنگلات کی کٹائی، اور جنگلات کا عدم تحفظ ہے۔ جنگلات میں لگنے والی آگ کے باعث قریبی شہروں اور آبادیوں کو بھی سخت خطرات لاحق ہیں۔

    کیلیفورنیا: جنگل میں لگنے والی آگ بے قابو *

     کینیڈا کے جنگل میں آتشزدگی *

    جنگلات کی آگ سے کلائمٹ چینج میں اضافہ کا خدشہ *

    واضح رہے کہ رواں برس کینیڈا، اسپین، پرتگال، فرانس اور امریکا کے کئی جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات پیش آچکے ہیں جس سے ایک طرف تو بے شمار گھر تباہ ہوئے، دوسری طرف آگ بجھاتے ہوئے کئی فائر فائٹرز بھی ہلاک یا شدید زخمی ہوگئے۔

    wildfire-3

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جنگلات میں آتشزدگی سے آکسیجن فراہم کرنے والا ذریعہ (درختوں) کا بے تحاشہ نقصان ہوتا ہے جو وہاں کے ایکو سسٹم، کاربن کو ذخیرہ کرنے کے ذرائع اور پانی کو محفوط کرنے کے ذرائع کو تباہ کردیتے ہیں جبکہ ان کے باعث مٹی کے کٹاؤ اور موسمیاتی تبدیلیوں یا کلائمٹ چینج کے اثرات میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق ان آتشزدگیوں کے باعث عالمی معیشتوں کو سالانہ 146 سے 191 بلین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔

  • ناروے میں جنگلات کی کٹائی پر پابندی عائد

    ناروے میں جنگلات کی کٹائی پر پابندی عائد

    اوسلو: ناروے دنیا کا وہ پہلا ملک بن گیا ہے جہاں ملک بھر میں جنگلات کی کٹائی پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

    یہ فیصلہ عالمی حدت میں اضافہ یا گلوبل وارمنگ کے خطرات کو کم کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ پورے ملک میں نہ صرف جنگلات کی کٹائی پر پابندی عائد کردی گئی ہے بلکہ حکومت درختوں سے بنائی جانے والی مصنوعات پر پابندی پر بھی غور کر رہی ہے۔

    norway-2
    برازیل کے شمالی حصہ میں پارہ نامی علاقہ ۔ کبھی اس پورے رقبہ پر جنگلات تھے

    نارویئن پارلیمنٹ نے پابندی کے بل کے مسودے میں شامل اس شق کی بھی منظوری دی جس کے تحت ناروے ان غیر ملکی کمپنیوں میں سرمایہ کاری نہیں کرے گا جو بالواسطہ یا بلاواسطہ جنگلات کی کٹائی میں مصروف ہیں۔

    یہ اقدام اس معاہدے کی ایک کڑی ہے جو ناروے نے 2014 میں نیویارک میں ہونے والے کلائمٹ سمٹ میں کیا تھا جس میں ناروے، جرمنی اور برطانیہ نے ایک مشترکہ معاہدے کے تحت قومی سطح پر جنگلات کی کٹائی میں کمی کرنے کا عزم کیا۔

    مزید پڑھیں: میکسیکن اداکار کی ماحولیاتی آگاہی کے لیے درخت سے شادی

    ناروے نے اس پابندی کو اپنی قومی پالیسی کا بھی حصہ بنالیا ہے جس کے تحت درختوں سے بنائی جانے والی مصنوعات کی جگہ متبادل مصنوعات اور ان کی صںعتوں کو فروغ دینے پر کام کیا جائے گا۔

    ناروے اس سے قبل بھی کئی ماحول دوست اقدامات اٹھا چکا ہے۔ ان اقدامات کی بدولت ناروے میں پچھلے 7 سالوں میں جنگلات کی کٹائی میں 75 فیصد کمی آچکی ہے۔

    مزید پڑھیں: فطرت کے تحفظ کے لیے آپ کیا کرسکتے ہیں؟

    ناروے جنگلات کو بچانے کے لیے لائبیریا اور انڈونیشیا کو بھی امداد دے چکا ہے۔ 2008 میں ناروے نے برازیل کو 1 بلین ڈالر امداد دی جس کے تحت اب برازیل ایمیزون کے جنگلات کو تباہی سے بچانے کے لیے کام کرہا ہے۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں موجود گھنے جنگلات جنہیں رین فاریسٹ کہا جاتا ہے، اگلے 100 سال میں مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔ جنگلات کی کٹائی عالمی حدت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ کا ایک اہم سبب ہے جس کے باعث زہریلی گیسیں فضا میں ہی موجود رہ جاتی ہیں اور کسی جگہ کے درجہ حرارت میں اضافہ کرتی ہیں۔

  • سال 2017 رواں برس کے مقابلہ میں سرد ہونے کا امکان

    سال 2017 رواں برس کے مقابلہ میں سرد ہونے کا امکان

    واشنگٹن: ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ 2016 کی شدید گرمی کے بعد 2017 نسبتاً ایک سرد سال ہوگا۔

    رواں برس جولائی کے مہینے کو گرم ترین مہینہ قرار دیا جاچکا ہے۔ ماہرین کے مطابق 2016 کا سال 2014 اور 2015 سے بھی زیادہ گرم ہونے کا خدشہ ہے جس کی وجہ ایل نینو اور گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں اضافہ ہے۔ ال نینو بحر الکاہل کے درجہ حرارت میں اضافہ کو کہتے ہیں جس کے باعث پوری دنیا کے موسم پر منفی اثر پڑتا ہے۔

    رواں سال ایل نینو کا سال ہے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج کے باعث خطرے کا شکار 5 تاریخی مقامات

    برطانیہ کی ایسٹ اینجلا یونیورسٹی کے کلائمٹ ریسرچ یونٹ کے پروفیسر کے مطابق امکان ہے کہ آنے والا سال رواں سال کے مقابلہ میں کچھ سرد ہوگا۔

    تاہم ماہرین کے مطابق اگلے سال ’لا نینا‘ کا کوئی خدشہ موجود نہیں۔ لا نینا ایل نینو کے برعکس زمین کو سرد کرنے والا عمل ہے۔

    واضح رہے کہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت نے دنیا کو کلائمٹ چینج سے مطابقت کے لیے عملی اقدامات اٹھانے پر مجبور کیا۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے مطابقت کیسے کی جائے؟

    گذشتہ برس موسمیاتی تغیر یا کلائمٹ چینج کی عالمی کانفرنس میں ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کیے گئے جس میں پاکستان سمیت 195 ممالک نے اس بات کا عزم کیا کہ وہ اپنی صنعتی ترقی کو محدود کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ان کی صنعتی ترقی عالمی درجہ حرارت میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد اضافہ نہ کرے۔

  • کلائمٹ چینج مسلح تصادم کو فروغ دینے کا سبب

    کلائمٹ چینج مسلح تصادم کو فروغ دینے کا سبب

    واشنگٹن: ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ موسمیاتی تغیر یا کلائمٹ چینج کے باعث آنے والی قدرتی آفات مستقبل قریب میں مختلف ممالک میں مسلح تصادم کو فروغ دے سکتی ہیں اور پہلے سے جاری تصادموں میں اضافہ کرسکتی ہیں۔

    یہ تحقیق امریکا کی نیشنل اکیڈمی آف سائنس کی جانب سے کی گئی۔ ماہرین نے اس کے لیے دنیا بھر میں جاری جنگ زدہ علاقوں کی صورتحال، ان کی وجوہات، اور مستقبل میں ہونے والی ممکنہ جنگوں / تنازعوں کی وجوہات کا جائزہ لیا۔

    کلائمٹ چینج سے مطابقت کیسے کی جائے؟ *

    تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس وقت دنیا میں جاری خانہ جنگیوں میں سے ایک تہائی کی بنیادی وجہ وہاں ہونے والے موسمی تغیرات اور ان کے باعث ہونے والی ہجرتیں ہیں۔

    ماہرین نے واضح کیا کہ شدید گرمی کی لہریں (ہیٹ ویو)، سیلاب اور طوفان مستقبل میں جنگوں کی وجہ بھی بن سکتے ہیں۔ یہ امکان ان مقامات پر زیادہ ہے جہاں آبادی زیادہ اور کنٹرول سے باہر ہو رہی ہے۔

    کلائمٹ چینج کے باعث امریکی فوجی اڈے خطرے کی زد میں *

    کلائمٹ چینج پر کام کرنے والے سائنسدانوں کے مطابق کلائمٹ چینج قدرتی آفات جیسے زلزلہ، سیلاب، طوفان اور قحط یا خشک سالی کی وجہ بن رہا ہے۔ ان آفات کے باعث بہتر طرز زندگی کے حامل پورے پورے شہر اجڑ سکتے ہیں ا ور ان میں رہنے والے افراد بھوک، پیاس، بے روزگاری اور بنیادی سہولتوں سے محرومی کا شکار ہوسکتے ہیں۔

    نتیجتاً وہ شدت پسند رویوں کا شکار ہو کر شدت پسندی، مسلح لڑائیوں، جرائم اور دہشت گردی کی جانب متوجہ ہوں گے۔

    گرم موسم کے باعث جنگلی حیات کی معدومی کا خدشہ *

    تحقیق میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ شدت پسندی اور مسلح تصادم افریقہ اور جنوبی ایشیا کو خاص طور پر متاثر کریں گے۔

    اس سے قبل کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق کلائمٹ چینج اور اس کی وجہ سے ہونے والے مختلف مسائل کے باعث جنوبی ایشیا میں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش مختلف تنازعوں کا شکار ہوجائیں گے جس سے ان 3 ممالک میں بسنے والے کروڑوں افراد کی زندگیوں کو خطرہ ہے۔

    اس تحقیق میں پانی کی کمی کی طرف خاص طور پر اشارہ کیا گیا جس کے باعث پانی کے حصول کے لیے تینوں ممالک آپس میں برسر پیکار ہوسکتے ہیں۔