Tag: ماحولیات

  • ’اب معدومی کا خطرہ نہیں‘

    ’اب معدومی کا خطرہ نہیں‘

    موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گوبل وارمنگ جہاں انسانوں کے لیے خطرہ ہیں وہیں جنگلی حیات کو بھی اس سے شدید خطرات لاحق ہیں۔ جنگلی حیات کی کئی نسلوں کو ان عوامل کے باعث معدومی کا خدشہ ہے، تاہم امریکا میں ایک معدومی کے خطرے کا شکار لومڑی خطرے کی زد سے باہر آچکی ہے۔

    اس بات کا اعلان امریکا کے فش اینڈ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ نے کیا۔ حکام کے مطابق کیلیفورنیا میں پائی جانے والی لومڑیوں کی اس قسم کو، جن کا قد چھوٹا ہوتا ہے اور انہیں ننھی لومڑیاں کہا جاتا ہے، اگلے عشرے تک معدومی کا 50 فیصد خطرہ تھا اور اسے خطرے سے دو چار نسل کی فہرست میں رکھا گیا تھا۔

    تاہم ماہرین کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات اور حفاظتی منصوبوں کے باعث چند سال میں اس لومڑی کی نسل میں تیزی سے اضافہ ہوا جو اب بھی جاری ہے۔

    مزید پڑھیں: معدومی کا شکار جانور اور انہیں لاحق خطرات

    مزید پڑھیں: گلوبل وارمنگ سے پینگوئن کی نسل کو خطرہ

    حکام کے مطابق یہ بحالی امریکا کے ’خطرے کا شکار جانوروں کی حفاظت کے ایکٹ‘ کی 43 سالہ تاریخ کا پہلا ریکارڈ ہے۔ اس سے قبل اتنی تیزی سے کوئی اور ممالیہ جانور خود کو خطرے کی زد سے باہر نہیں نکال پایا۔

    واضح رہے یہ لومڑی نوے کی دہائی میں ’کینن ڈسٹمپر‘ نامی بیماری کے باعث اپنی 90 فیصد سے زائد نسل کھو چکی تھی۔ کینن ڈسٹمپر کتوں اور لومڑیوں کو لگنے والی ایک بیماری ہے جس کا تاحال کوئی خاص سبب معلوم نہیں کیا جاسکا ہے۔

    مزید پڑھیں: فطرت کے تحفظ کے لیے آپ کیا کرسکتے ہیں؟

    مزید پڑھیں: غیر قانونی فارمز چیتوں کی بقا کے لیے خطرہ

    حکام کے مطابق ان لومڑیوں کے تحفظ کے لیے ان کی پناہ گاہوں میں اضافے اور ویکسینیشن کے خصوصی اقدامات اٹھائے گئے۔ ان لومڑیوں کو سؤر کی جانب سے بھی شکار کا خطرہ تھا جس کا حل ماہرین نے یوں نکالا کہ سؤروں کو اس علاقہ سے دوسری جگہ منتقل کردیا گیا۔

    یاد رہے کہ ماہرین متنبہ کر چکے ہیں کہ درجہ حرارت میں اضافے کے باعث دنیا میں موجود ایک چوتھائی جنگلی حیات 2050 تک معدوم ہوجائے گی۔ اس سے قبل کلائمٹ چینج کے باعث آسٹریلیا میں پائے جانے والے ایک چوہے کی نسل بھی معدوم ہوچکی ہے جس کی گزشتہ ماہ باقاعدہ طور پر تصدیق کی جاچکی ہے۔

  • پاکستان میں شعبہ ماحولیات ۔ 1947 سے اب تک کا تاریخی جائزہ

    پاکستان میں شعبہ ماحولیات ۔ 1947 سے اب تک کا تاریخی جائزہ

    پاکستان کو اپنے قیام کے ساتھ ہی بے شمار مسائل کا سامنا تھا۔ وسائل کی کمی اور بے سروسامانی کے ساتھ ایک نوزائیدہ مملکت کو چلانا ایک ایسا کام تھا جو جان توڑ محنت اور کئی قربانیوں کا متقاضی تھا۔

    یہ زیادہ ضروری اس لیے بھی تھا کیونکہ پاکستان کے ابتدائی 10 سے 15 سال اس کی بنیاد کو مضبوط کرتے اور پاکستان کے مستقبل کا انحصار بھی انہی ابتدائی سالوں پر تھا۔

    پاکستان میں ایک شعبہ ایسا ہے جسے ابتدا سے ہمیشہ نظر انداز کیا گیا اور وہ تھا ماحولیات کا شعبہ۔ پاکستان کے متنوع جغرافیہ اور وسائل کے باعث یہ بات ضروری تھی کہ اس شعبہ کو ترجیحات میں رکھا جاتا مگر ہوا اس کے برعکس۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں جب پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا ترقی کرنا شروع ہوا تو یہ ایک اہم ذریعہ تھا جس کے ذریعہ عوام کو ماحولیاتی نقصانات سے آگاہ کیا جاتا مگر ادھر سے بھی اس شعبہ کی جانب سے بے اعتنائی برتی گئی۔

    دنیا کی دوسری بلند ترین پہاڑی چوٹی کے ٹو ۔ چین اور پاکستان کی سرحد پر واقع

    اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان میں ماحولیاتی تباہی کے اثرات آہستہ آہستہ واضح ہونے لگے۔ قدرتی آفات جیسے زلزلوں اور سیلاب میں اضافہ، آبی ذخائر کی جانب سے بے اعتنائی برتنے کے باعث پینے کے پانی کے ذخائر میں کمی اور پاکستان کا پانی کی کمی کے شکار ممالک میں پہلے 10 ممالک میں آنا، سطح سمندر میں اضافہ اور اس کے باعث ساحلی علاقوں کو نقصان پہنچنا، زراعت میں کمی اور ملک کے سب سے بڑے اور کاروباری شہر کراچی میں موسم کی قیامت خیز تبدیلی، یہ وہ عوامل ہیں جو شعبہ ماحولیات کی جانب سے ہماری مجرمانہ غفلت کو ظاہر کرتے ہیں۔

    اس مضمون میں ہم جائزہ لے رہے ہیں کہ 1947 سے لے کر اب تک پاکستان میں شعبہ ماحولیات کی کیا صورتحال تھی، اس میں کیا اصلاحات کی گئیں اور اس شعبہ میں کتنے قوانین نافذ العمل کیے گئے۔

    پاکستان کن پروگرامز کا رکن ہے؟

    پاکستان اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام یو این ای پی کا رکن ہے۔ پاکستان اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ برائے نونہالان یونیسف کا بھی رکن ہے اور یونیسف کے تحت اس وقت پاکستان میں کئی پروگرامز اور منصوبے جاری ہیں۔

    برصغیر کا وسیع ترین صحرا ۔ صحرائے تھر

    پاکستان مشترکہ ماحولیاتی پروگرام برائے جنوبی ایشیا ایس اے سی ای پی کا بھی رکن ہے۔

    کن معاہدوں کا دستخط کنندہ ہے؟

    پاکستان حال ہی میں پیرس کلائمٹ ڈیل پر دستخط کر کے موسمیاتی تغیر یا کلائمٹ چینج کے خلاف عالمی کوششوں کا حصہ بن چکا ہے۔ اس ڈیل کے تحت دنیا کے 195 ممالک نے اس بات کا عزم کیا ہے کہ وہ اپنی صنعتی ترقی سے عالمی درجہ حرارت کو 2 ڈگری سینٹی سے زیادہ بڑھنے نہیں دیں گے۔

    اس معاہدے کے علاوہ پاکستان دیگر کئی کثیر الجہتی ماحولیاتی معاہدوں کا دستخط کنندہ ہے جنہیں ایم ای ایز کہا جاتا ہے۔

    سال 1992 میں برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں ایک ’ارتھ سمٹ‘ منعقد ہوا جس میں پاکستان سمیت 100 سے زائد ممالک نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کا اعلامیہ ’ایجنڈا 21 ریو پرنسپلز‘ کی صورت میں سامنے آیا جس کے تحت تمام دستخط کنندگان کو اپنے ممالک میں ماحولیات کی بہتری اور ترقی کے لیے کام کرنا تھا۔

    اسی کانفرنس میں جنگلات کے تحفظ کے لیے رہنما اصول، ماحولیاتی بہتری کے لیے اقوام متحدہ کے پروگرام یو این ایف سی سی، اور حیاتیاتی تنوع کے معاہدے کی منظوری عمل میں آئی۔

    پاکستان 2002 میں جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں ہونے والی قدرتی وسائل کی پائیدار ترقی کانفرنس کے اعلامیہ پر بھی دستخط کنندہ ہے۔

    صرف دریائے سندھ میں پائی جانے والی (نابینا) ڈولفن ۔ انڈس ڈولفن

    اسی طرح پاکستان خطرے سے دو چار جنگلی حیات کے شکار پر روک تھام کا معاہدہ سائٹس، صحرا زدگی کی روک تھام کا معاہدہ یو این سی سی ڈی، کیوٹو پروٹوکول (اس معاہدے کے تحت کاربن کا اخراج کرنے والے ان ممالک کو ہرجانہ ادا کریں گے جو اس کاربن اخراج سے متاثر ہو رہے ہیں۔)، ہجرت کرنے والے جانداروں کی حفاظت کا معاہدہ، آبگاہوں (کی حفاظت) کا رامسر معاہدہ، زہریلے مادوں کی بین السرحد نقل و حرکت کو روکنے کا باسل معاہدہ، بین الاقوامی تجارت میں کیمیائی مادوں کی روک تھام کا روٹر ڈیم معاہدہ، مضر صحت نامیاتی مادوں سے روک تھام کا اسٹاک ہوم معاہدہ، اور اوزون کی حفاظت کے مونٹریال پروٹوکول پر بھی دستخط کنندہ ہے۔

    پاکستان 2000 میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی اہداف کے منصوبے ایم ڈی جیز کا بھی حصہ بنا۔

    ملک میں کون سے ماحولیاتی ادارے کام کر رہے ہیں؟

    پاکستان میں اب ماحولیات کے شعبہ میں سرکاری اور غیر سرکاری ادارے مل کر کام کر رہے ہیں جو ایک احسن قدم ہے۔ غیر سرکاری اداروں اور تنظیموں میں ماحولیات سے تعلق رکھنے والے چوٹی کے ماہرین موجود ہیں جو ضرورت پڑنے پر حکومتی ارکان کی رہنمائی و مشاورت کرتے ہیں۔

    پاکستان میں 1974 میں انوائرنمنٹ اینڈ اربن افیئرز ڈویژن کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا کام ملک میں جاری ماحولیاتی منصوبوں کی نگرانی کرنا تھا۔

    سنہ 1983 میں پاکستان انوائرنمنٹ پروٹیکشن کونسل اور پاکستان انوائرنمنٹ ایجنسی کا قیام عمل میں لایا گیا۔

    سنہ 1987 میں صوبائی پروٹیکشن ایجنسیاں ای پی ایز قائم کی گئیں تاہم یہ وفاق کے ماتحت تھیں۔

    بقا کے خطرے کا شکار برفانی چیتا پاکستان کے شمالی علاقوں میں پایا جاتا ہے

    اس کے بعد اس شعبہ میں کئی اصلاحات لائی گئیں اور پہلی بار باقاعدہ وزارت ماحولیات قائم کی گئی۔ پہلا وزیر ماحولیات سابق صدر آصف علی زرداری کو بنایا گیا۔

    سنہ 2010 میں آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کو اختیارات منتقل کردیے گئے جس کے بعد اب ہر صوبے کی ای پی اے یعنی ایجنسی برائے تحفظ ماحول خود مختار اداروں کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ اس ایجنسی کا مقصد صوبے میں ہونے والی ترقی کو ماحول دشمن ہونے سے بچانا اور ماحول اور عوامی صحت سے مطابقت کروانا ہے۔

    اب تک کون سی پالیسیاں عمل میں لائی گئیں؟

    پاکستان میں 1980 میں قومی حکمت عملی برائے تحفظ این سی ایس نافذ العمل کی گئی۔

    اگست 1993 میں حکومت نے قومی ماحولیاتی معیارات (نیشنل انوائرنمنٹل کوالٹی اسٹینڈرڈز ۔ این ای کیوز) کا اعلان کیا۔ اس کا مقصد تمام صنعتوں کو پابند کرنا تھا کہ وہ ماحول دوست مشینری اور طریقہ کار کا استعمال کرتے ہوئے مصنوعات بنائیں۔

    فروری 2001 میں قومی ماحولیاتی ایکشن پلان این ای اے پی کی منظوری دی گئی۔ اس کا مقصد 4 شعبوں ( صاف ہوا، صاف پانی، زہریلے مادوں کی بحفاظت تلفی، اور ایکو / ماحول کی بہتری) میں حکومتی کارکردگی کو بہتر بنانا تھا۔

    پاکستان کی بڑی آبگاہوں (میٹھے پانی کے ذخائر) میں سے ایک ۔ بلوچستان کا استولا جزیرہ

    اسی طرح 2005 میں قومی ماحولیاتی پالیسی کی بھی منظوری دی گئی۔ قومی پالیسی برائے صحت و صفائی ۔ نیشنل سینیٹیشن پالیسی 2006، قومی آبی پالیسی ۔ نیشنل ڈرنکنگ واٹر پالیسی 2009، قومی پالیسی برائے موسمیاتی تغیرات ۔ نیشنل کلائمٹ چینج پالیسی 2012، اور قومی پالیسی برائے جنگلات 2015 کا مسودہ بھی تیار رکھا ہوا ہے جو تاحال منظوری کا منتظر ہے۔

    ماحولیاتی عوامل کی اہمیت کے پیش نظر حکومت پاکستان نے 2009 کو ماحولیات کا قومی سال قرار دیا۔

    سنہ 2013 کے عام انتخابات کے بعد وزارت ماحولیات کو وزارت برائے موسمیاتی تغیر (کلائمٹ چینج) میں تبدیل کردیا گیا اور اب ملک میں کلائمٹ چینج کی وزارت مختلف ماحولیاتی مسائل سے نبرد آزما ہے۔

    اب تک کون سے قوانین بنائے گئے ہیں؟

    پاکستان میں ماحولیاتی قانون سازی سلطنت دہلی، مغلوں اور برطانوی حکومت کے دور سے کی جارہی ہے۔ سلاطین دہلی کے ادوار سے ہی ماحولیات سے متعلق تمام شعبہ جات جیسے اراضی کا استعمال، جنگلات، آب پاشی کا نظام، جنگلی حیات کا تحفظ، توانائی، کیڑے مار ادویات کا استعمال، شور کی آلودگی وغیرہ سے متعلق قوانین بنائے گئے۔

    اس وقت شکار کے متعلق بھی قوانین عائد تھے جو برطانوی دور میں بھی جاری رہے۔ مثال کے طور پر 1860 میں نافذ کیے جانے والے کرمنل کوڈ کے تحت ایسا جانور جس کی قیمت 10 روپے سے زیادہ ہو اس کے شکار پر جرمانہ عائد تھا۔

    ایک اور ایکٹ 1912 میں نافذ کیا گیا جس کے تحت پرندوں کے شکار کی اجازت ایک مخصوص علاقے، عرصہ اور صرف لائسنس یافتہ افراد ہی کو تھی۔ یہ ایکٹ قیام پاکستان کے بعد بھی نافذ العمل رہا۔

    اسی طرح 1913 میں جنگات کی کٹائی کے خلاف پنجاب فاریسٹ ایکٹ نافذ کیا گیا۔

    سنہ 1927 میں جنگلات کی حفاظت کے لیے فاریسٹ ایکٹ کا نفاذ کیا گیا جو پاکستان کے قیام کے بعد کئی عشروں تک جنگلات کی قانون سازی کے لیے ایک ماڈل کی حیثیت اختیار کیے ہوئے رہا۔

    سنہ 1936 میں ہزارہ فاریسٹ ایکٹ، 1934 میں فیکٹری ایکٹ (فیکٹریوں سے خارج ہونے والے زہریلے مواد کی بحفاظت تلفی) نافذ کیا گیا۔

    پاکستان کی طویل اور قدیم ترین نمک کی کان ۔ کھیوڑہ سالٹ مائن

    قیام پاکستان کے بعد ماحولیات سے متعلق پہلا قانون 1948 میں متعارف کروایا گیا جو کان کنی اور تیل کی صنعت سے متعلق تھا۔

    سنہ 1952 میں 2 ایکٹ پنجاب ڈویلپمنٹ آف ڈیمیجڈ ایریاز ایکٹ اور پنجاب سوائل ری کلیمیشن ایکٹ متعارف کروائے گئے۔ یہ دونوں ایکٹ زرعی اراضی سے تعق رکھتے تھے۔

    سنہ 1954 میں جنگلی حیات اور پارکس کے تحفظ کے لیے کوہاٹ مزاری کنٹرول ایکٹ متعارف کروایا گیا۔

    سنہ 1959 میں مویشیوں سے متعلق ایکٹ ویسٹ پاکستان گوٹس ایکٹ اور عوامی صحت سے متعلق ویسٹ پاکستان فیکٹریز کینٹین رولز متعارف کروائے گئے۔

    سنہ 1960 میں ہوا کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے ویسٹ پاکستان اسموکنگ آرڈیننس متعارف کروایا گیا جس کے تحت سینما گھروں کے اندر سگریٹ نوشی پر پابندی عائد کردی گئی۔

    سنہ 1961 میں آبی حیات کے تحفظ کے لیے ویسٹ پاکستان فشریز آرڈیننس متعارف کروایا گیا۔

    سنہ 1964 میں جنگلات کی حفاظت کے لیے ویسٹ پاکستان فائر ووڈ ایکٹ متعارف کروایا گیا۔

    سنہ 1965 میں فضائی معیار اور شور کی آلودگی کے خلاف موٹر وہیکل آرڈیننس متعارف کروایا گیا۔ اسی قسم کا ایک اور آرڈیننس اسلام آباد آرڈیننس کے نام سے 1966 میں بھی متعارف کروایا گیا۔

    ایشیا کے طویل ترین دریاؤں میں سے ایک دریائے سندھ ۔ یہ دریا پنجاب اور سندھ کی بیشتر زرعی زمینوں کو سیراب کرتا ہے

    سنہ 1970 سے لے کر 1980 کے دوران اس شعبہ میں بہت زیادہ قانون سازی دیکھنے میں آئی جن پر مختصر نظر ڈالیں گے۔

    سنہ 1970 ۔ بلوچستان سی فشریز آرڈیننس

    سنہ 1971 ۔ آبی حیات، پارک اور جنگی حیات کی حفاظت کے لیے رہنما اصول، زراعت میں کیڑے مار ادویات کا آرڈیننس

    سنہ 1972 ۔ تحفظ جنگلی حیات ایکٹ سندھ

    سنہ 1973 ۔ زہریلے اور مضر صحت مواد کے خلاف اصول ۔ اس سال تشکیل دیے جانے والے مملکت خداداد کے آئین میں ماحولیات کو بھی شامل کیا گیا۔

    سنہ 1974 ۔ تحفظ جنگلی حیات ایکٹ پنجاب، جنگلی حیات اور پارکس کے تحفظ و انتظام کا قانون، شجر کاری و تحفظ جنگلات پنجاب کا قانون

    سنہ 1975 ۔ تحفظ جنگلی حیات ایکٹ بلوچستان، ثقافتی ماحول کی بہتری کے لیے نوادرات ایکٹ، خطرے کا شکار جنگلات کی حفاظت کا قانون، تحفظ جنگلی حیات ایکٹ سرحد (خیبر پختونخوا)۔

    سنہ 1976 ۔ پاکستان شجر کاری ایکٹ، علاقائی پانیوں کا ایکٹ، پنجاب کی شہری ترقی کا ایکٹ، صوبہ سرحد کے فشریز کے قوانین

    سنہ 1978 ۔ بلوچستان کے زمینی پانی کے حقوق کا آرڈیننس، پانی کے بہتری معیار میں اضافے اور مویشیوں کے جنگلات میں چرنے کے حوالے سے قانون

    بلوچستان کا ہنگول نیشنل پارک ۔ یہ متنوع اقسام کے جانوروں اور پرندوں کا مسکن ہے

    سنہ 1979 ۔ 1980 ۔ زرعی زمین کے استعمال، آبی اور فضائی معیار، ٹھوس اخراج، جنگلات، پارکس، جنگلی حیات، مویشی اور عوام کی صحت و حفاظت کا آرڈیننس چاروں صوبوں اور مقامی سطح پر نافذ العمل کیا گیا۔

    اسی دوران جنگلی حیات اور پارکس کے تحفظ کا آرڈیننس ’اسلام آباد وائلڈ لائف آرڈیننس‘، جانوروں کی درآمد و برآمد کا آرڈیننس اور وبائی بیماریوں کے حوالے سے آرڈیننس بھی نافذ کیا گیا۔

    ماحولیات کے حوالے سے جامع قانون سازی 1983 میں عمل میں لائی گئی جسے آرڈیننس برائے تحفظ ماحول 1983 کا نام دیا گیا۔ 1983 سے 1997 تک کا عرصہ ماحولیاتی قوانین پر عملدرآمد کے حوالے سے بہترین عرصہ تھا۔

    سنہ 1997 میں پاکستان انوائرنمنٹ ایکٹ 1997 نافذ کیا گیا۔ یہ جنگلی حیات اور ماحول کی بہتری اور تحفظ کے حوالے سے بہترین ایکٹ تھا۔ اس کے تحت کئی ذیلی قوانین بھی نافذ  کیے گئے جن میں۔۔

    ماحولیاتی معیارات کے قوانین ۔ نیشنل انوائرنمنٹل کوالٹی اسٹینڈرڈز رولز 2001

    پائیدار ترقی کے لیے فنڈز کا استعمال ۔ پاکستان سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ فنڈ (یوٹیلائزیشن) رولز 2001

    آلودگی پھیلانے پر جرمانہ ۔ پلوشن چارج فار انڈسٹری رولز 2001

    ماحولیاتی عدالت یا بینچ کا قیام ۔ انوائرنمنٹ ٹربیونل پروسیجر اینڈ کوالیفکیشن رولز 2000

    ہنزہ ۔ گلگت بلتستان میں پھسو کونز، اس قسم کے نوکیلے پہاڑ دنیا میں بہت کم پائے جاتے ہیں

    ماحولیاتی مثالی اصول ۔ انوائرنمنٹل سیمپل رولز 2001

    مضر صحت اجزا کا قانون ۔ ہزارڈس سبسٹنس رولز 2000

    اور قومی ماحولیاتی معیارات کے قوانین ۔ نیشنل انوائرنمنٹل کوالٹی اسٹینڈرڈز ریگولیشن 2000 قابل ذکر ہیں۔

    پاکستان کے 2 نایاب قدرتی ذخائر

    آخر میں پاکستان میں موجود 2 ایسے ذخائر کا ذکر کریں گے جن کی موجودگی اور اہمیت کے بارے میں بہت کم لوگوں کو علم ہے۔ ان میں سے ایک صنوبر کے جنگلات ہیں اور دوسرے تیمر کے جنگلات۔

    واضح رہے کہ اس وقت پاکستان میں جنگلات کا رقبہ 4 فیصد سے بھی کم ہے جبکہ بین الاقوامی معیارات کے مطابق کسی بھی ملک میں ماحول کی بہتری کے لیے اس کے 25 فیصد رقبہ پر جنگلات ہونا ضروری ہے۔

    صنوبر کے جنگلات

    بلوچستان کے ضلع زیارت میں واقع صنوبر کے تاریخی جنگلات کو یونیسکو کی جانب سے عالمی ماحولیاتی اثاثہ قرار دیا جاچکا ہے۔ تقریباً 1 لاکھ ہیکٹر رقبے پر پھیلا اور ہزاروں سالہ تاریخ کا حامل یہ گھنا جنگل دنیا کا دوسرا سب سے بڑا اور نایاب ذخیرہ ہے۔

    واضح رہے کہ صنوبر کو سب سے قدیم اور سب سے طویل عمر پانے والے درختوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ بعض اندازوں کے مطابق ان درختوں کی عمر 3 ہزار سال تک محیط ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ سطح سمندر سے 2 سے 3 ہزار میٹر بلندی پر شدید موسم میں بھی افزائش پاسکتا ہے۔

    یونیسکو کے مطابق صنوبر کے بیش قیمت ذخائر انسان اور قدرت کے مابین تعلق کی وضاحت اور سائنسی تحقیق میں انتہائی مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں۔ صنوبر کے جنگل میں موجود درختوں کی عمروں، ہیئت اور ساخت سے صحت، تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی کے حوالے سے نئی معلومات کے حصول میں مدد ملے گی۔

    زیارت میں واقع صنوبر کا گھنا جنگل

    پاکستان میں موجود صنوبر کے جنگلات میں بیشتر درختوں کی عمریں ہزاروں برس ہے جنہیں ’زندہ فاسلز‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ جنگلات سلیمانی مار خور، اڑیال، کالے ریچھ، بھیڑیے، لومڑی، گیدڑ اور ہجرت کر کے آنے والے پرندوں کی جائے سکونت و افزائش، 13 سے زائد قیمتی جنگلی حیات اور چکور سمیت 36 اقسام کے نایاب پرندوں کا مسکن ہیں۔

    اس تاریخی جنگل میں 54 سے زائد اقسام کے انمول پودے اور جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں جنہیں ادویہ کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے جبکہ یہ جنگلات مقامی آبادیوں کے لیے تالابوں، چشموں اور زیر زمین پانی کے ذخائر کو محفوظ اور متواتر جاری رکھنے میں بھی انتہائی مدد گار ہیں۔

    تیمر کے جنگلات

    کراچی میں سینڈز پٹ سے لے کر پورٹ قاسم تک پھیلے ہوئے تیمر کے جنگلات کراچی کو قدرتی آفات سے بچانے کے لیے قدرتی دیوار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ تیمر کے جنگلات سمندری کٹاؤ کو روکتے ہیں اور سمندر میں آنے والے طوفانوں اور سیلابوں سے حفاظت فراہم کرتے ہیں۔

    سنہ 2004 میں بحیرہ عرب میں آنے والے خطرناک سونامی نے بھارت سمیت کئی ممالک کو اپنا نشانہ بنایا تاہم پاکستان انہی تیمر کے جنگلات کی وجہ سے محفوظ رہا۔

    کراچی میں تیمر کے جنگلات

    لیکن خدشہ ہے اب ایسا نہ ہوسکے۔ ٹمبر مافیا کی من مانیوں کی وجہ سے 60 ہزار ایکڑ اراضی پر پھیلے تیمر کے جنگلات کے رقبہ میں نصف سے زائد کمی ہوچکی ہے اور تیمر کے جنگلات اب اپنی بقا کے خطرے سے دوچار ہیں۔

    آئیں اس یوم آزادی کے موقع پر عہد کریں کہ ہم ماحولیاتی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے اور ماحول کو مزید تباہی کی طرف جانے سے بچائیں گے۔

    اس مضمون کی تیاری میں مندرجہ ذیل ماہرین سے مدد لی گئی۔
    رافع عالم ۔ ماحولیاتی وکیل
    شبینہ فراز ۔ ماحولیاتی کارکن 

  • کلائمٹ چینج کے باعث امریکی فوجی اڈے خطرے کی زد میں

    کلائمٹ چینج کے باعث امریکی فوجی اڈے خطرے کی زد میں

    واشنگٹن: حال ہی میں جاری کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تغیر یا کلائمٹ چینج کے باعث امریکا کے مشرقی ساحل پر قائم فوجی اڈوں کو تباہی کا سخت خطرہ لاحق ہے۔

    ایک غیر سرکاری تنظیم یونین آف کنسرنڈ سائنٹسٹ نے امریکی ساحلوں پر قائم 18 فوجی اڈوں کا تجزیہ کیا۔ یہ فوجی اڈے عسکری لحاظ سے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ کلائمٹ چینج کے باعث امریکا میں مستقل آنے والے سمندری طوفان اور سطح سمندر میں اضافہ ان فوجی اڈوں، ان کے تحت چلائے جانے والے آپریشنز اور یہاں موجود تنصیبات کو متاثر کرے گا۔

    جاری کی جانے والی رپورٹ کو ’امریکی فوج سطح سمندر میں اضافے کا پہلا شکار‘ کا نام دیا گیا ہے۔

    ماہرین کے مطابق 2050 تک یہ اڈے سیلاب سے 10 گنا زیادہ متاثر ہوں گے اور ان میں سے کچھ ایسے ہوں گے جو روز پانی کے تیز بہاؤ یا سیلاب کا سامنا کریں گے۔

    ان 18 اڈوں میں سے 4، جن میں کی ویسٹ کا نیول ایئر اسٹیشن، اور جنوبی کیرولینا میں میرین کورپس ڈپو شامل ہیں، صدی کے آخر تک اپنا 75 سے 95 فیصد رقبہ کھودیں گے۔

    حکام کے مطابق پینٹاگون ان تمام خطرات سے واقف ہے اور کلائمٹ چینج کے خلاف مؤثر اقدامات اٹھانا چاہتا ہے لیکن حال ہی میں امریکی کانگریس کی ایک کمیٹی نے ایک بل پاس کروالیا ہے جس کے تحت پینٹاگون کو ماحولیات سے مطابقت پیدا کرنے کی حکمت عملی یعنی کلائمٹ ایڈاپٹیشن اسٹریٹجی کے لیے مالی معاونت روک دی گئی ہے۔

  • گلوبل وارمنگ سے پینگوئن کی نسل کو خطرہ

    گلوبل وارمنگ سے پینگوئن کی نسل کو خطرہ

    واشنگٹن: ایک نئی تحقیق کے مطابق عالمی درجہ حرارت میں اضافہ یا گلوبل وارمنگ سے برفانی علاقوں میں رہنے والا پرندہ پینگوئن شدید متاثر ہوگا۔

    امریکی ریاست ڈیلاویئر کی یونیورسٹی میں کی جانے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ پینگوئن دنیا میں صرف انٹارکٹیکا کے خطے میں پائے جاتے ہیں جو گلوبل وارمنگ کے باعث متضاد اثرات کا شکار ہے۔

    penguins-2

    انٹارکٹیکا کا مغربی حصہ گلوبل وارمنگ کے باعث تیزی سے پگھل رہا ہے اور اس کے درجہ حرارت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

    دوسری جانب انٹارکٹیکا کے دیگر حصوں میں گلوبل وارمنگ کا اثر اتنا زیادہ واضح نہیں۔

    مزید پڑھیں: فطرت کے تحفظ کے لیے آپ کیا کرسکتے ہیں؟

    مزید پڑھیں: معدومی کا شکار جانور اور انہیں لاحق خطرات

    تحقیق میں واضح کیا گیا ہے کہ انٹارکٹیکا کے وہ پانی جو گرم ہو رہے ہیں وہاں سے پینگوئنز کی آبادی ختم ہو رہی ہے اور وہ وہاں سے ہجرت کر رہے ہیں۔ اس کی بہ نسبت وہ جگہیں جہاں انٹارکٹیکا کا درجہ حرارت معمول کے مطابق ٹھنڈا ہے وہاں پینگوئنز کی آبادی مستحکم ہے اور اس میں اضافہ ہورہا ہے۔

    penguins-3

    ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ 2060 تک پینگوئنز کی آبادی میں 20 فیصد کمی واقع ہوسکتی ہے جبکہ اس صدی کے آخر تک یہ معصوم پرندہ مکمل طور پر معدوم ہوسکتا ہے۔

    penguins-4

    واضح رہے کہ اس سے قبل ماہرین متنبہ کر چکے ہیں کہ درجہ حرارت میں اضافے کے باعث دنیا میں موجود ایک چوتھائی جنگلی حیات 2050 تک معدوم ہوجائے گی۔ حال ہی میں کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر کے باعث آسٹریلیا میں پائے جانے والے ایک چوہے کی نسل کی معدومی کی بھی تصدیق کی جاچکی ہے۔

  • کراچی: ماحول دشمن درخت ’کونو کارپس‘ کی خرید و فروخت پر پابندی عائد

    کراچی: ماحول دشمن درخت ’کونو کارپس‘ کی خرید و فروخت پر پابندی عائد

    کراچی: کمشنر کراچی اعجاز احمد خان نے شہر میں ماحول دشمن درخت ’کونو کارپس‘ کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کردی۔ انہوں نے شہر کو سرسبز بنانے کے لیے اگلے ہفتے سے شجر کاری کی نئی مہم کا آغاز کرنے کا اعلان بھی کیا۔

    تفصیلات کے مطابق کمشنر آفس کراچی میں شجر کاری سے متعلق ایک اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں ایڈیشنل کمشنر کراچی، تمام اضلاع کے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنرز، ضلعی میونسپل کارپوریشن ایڈمنسٹریٹرز، کنٹونمنٹ انتظامیہ، محکمہ جنگلات سندھ کی انتظامیہ اور کے الیکٹرک کے نمائندگان نے شرکت کی۔

    مزید پڑھیں: تھر میں درخت کاٹنے پر پابندی عائد

    کمشنر کراچی اعجاز احمد خان نے کہا کہ شہر کو سرسبز بنانے کے لیے سرسبز کراچی مہم کے تحت آگاہی مہم چلائی جائے گی جس میں شہریوں کو آگاہی فراہم کی جائے گی کہ وہ ماحولیاتی آلودگی کم کرنے کے لیے اپنا کردار کیسے ادا کر سکتے ہیں۔ انہیں ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق اہم معلومات اور اقدامات سے بھی آگاہ کیا جائے گا۔

    کمشنر کا کہنا تھا کہ اگلے ہفتے سے شہر کو سرسبز بنانے کے لیے شجر کاری کی نئی مہم شروع کی جائے گی جس کا آغاز مزار قائد سے ہوگا۔ اس مہم میں نیم، ببول، گل مہر، سائرس، لنگرا اور دیگر ماحول دوست درخت ضلعی انتظامیہ کی نگرانی میں لگائے جائیں گے۔

    مزید پڑھیں: جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے 2 ارب روپے کی منظوری

    انہوں نے ’کونو کارپس‘ درخت کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کرتے ہوئے ضلعی انتظامیہ کو اس پر عملدر آمد یقینی بنانے کی سختی سے ہدایت کی۔

    واضح رہے کہ کونو کارپس کے درخت درختوں کی مقامی قسم نہیں ہے جس کے باعث یہ کراچی کے لیے مناسب نہیں۔ کونو کارپس کراچی میں پولن الرجی کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ دوسرے درختوں کی افزائش پر بھی منفی اثر ڈالتے ہیں جبکہ پرندے بھی ان درختوں کو اپنی رہائش اور افزائش نسل کے لیے استعمال نہیں کرتے۔

    مزید پڑھیں: قومی پالیسی برائے جنگلات کا مسودہ تیار، منظوری کا منتظر

    معلومات کی عدم فراہمی کے باعث کراچی میں بڑے پیمانے پر یہ درخت لگائے جا چکے ہیں۔ صرف شاہراہ فیصل پر 300 کونو کارپس درخت موجود ہیں۔

    بعض ماہرین کے مطابق کونو کارپس بادلوں اور بارش کے سسٹم پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں جس کے باعث کراچی میں مون سون کے موسم پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔

  • ریو 2016: فضائی و آبی آلودگی کے باعث کھلاڑیوں کی صحت کو سخت خطرہ

    ریو 2016: فضائی و آبی آلودگی کے باعث کھلاڑیوں کی صحت کو سخت خطرہ

    ریو ڈی جنیرو: کھیلوں کی دنیا کا سب سے بڑا عالمی میلہ اولمپکس کل سے برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں شروع ہو رہا ہے جس کے لیے کئی ممالک کی ٹیمیں ریو پہنچ چکی ہیں جبکہ مزید ٹیموں کی آمد جاری ہے۔ انتظامیہ کے مطابق فول پروف سیکیورٹی کو یقینی بنایا جارہا ہے جبکہ اولمپک پارک تک میٹرو سروس کا آغاز بھی ہوگیا ہے۔

    تاہم ماہرین ریو ڈی جنیرو کی فضائی اور آبی آلودگی سے تشویش کا شکار ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ یہ آلودگی ایتھلیٹس کی صحت کو شدید متاثر کرے گی۔

    rio-2

    برازیل کے ایک وائرولوجسٹ ڈاکٹر فرنینڈو اسپکلی کے مطابق برازیل اور برازیل کے باہر سے آنے والے تمام افراد اس آلودگی کی وجہ سے مختلف بیماریوں کے خطرے کا شکار ہیں۔

    ریو ڈی جنیرو کا پانی اس قدر آلودہ ہے کہ صرف تین گھونٹ سے زائد پانی بھی جسم میں جانے کی صورت میں لوگ مختلف بیماریوں کا شکار بن سکتے ہیں۔

    ریو کے ساحلی مقامات اپانیما اور کوپکے بانا پر جانے والے سیاح بھی بدترین خطرات کا شکار ہیں۔

    rio-4

    یونیورسٹی آف فلوریڈا کی ڈاکٹر ویلری ہارووڈ کہتی ہیں، ’ساحل پر جانا ایک خوشگوار تفریح ہے مگر احتیاطی تدابیر ضروری ہیں۔ بچوں کو ریت میں کھیلنے کے دوران ان کے منہ میں ریت نہ جانے دیں، اور اپنا سر (نہاتے ہوئے) پانی کے اندر نہ کریں‘۔

    ماہرین کے مطابق ریو کے پانی میں کھلاڑیوں کے لیے نقصان دہ وائرسوں کی تعداد اس مقدار سے 1.7 ملین دگنی ہے جو امریکا اور یورپ میں خطرناک تصور کی جاتی ہے۔ یہاں پائے جانے والے بیکٹریا کو ’سپر بیکٹریا‘ کے درجہ میں رکھا جاتا ہے۔

    اولمپک کمیٹی کا کہنا ہے کہ وہ دن میں 4 بار پانی کو ٹیسٹ کر رہے ہیں۔

    rio-5

    تاہم کچھ کھلاڑی اس سے خوفزدہ نہیں ہیں۔ ایک ایتھلیٹ کے مطابق، ’جب آپ پانی میں تیر رہے ہوتے ہیں تو یہ ناممکن ہے کہ پانی آپ کے منہ میں نہ جائے‘۔

    ایک برازیلین کھلاڑی کا کہنا ہے، ’مجھے اب تک اس پانی سے کچھ نہیں ہوا۔ میں ٹھیک ہوں، زندہ سلامت ہوں‘۔

    دوسری جانب فضائی آلودگی کی حالت بھی اس سے مختلف نہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ریو کی فضا پانی سے بھی زیادہ آلودہ ہے۔ ریو ڈی جنیرو میں ہر سال 12 ملین کے قریب افراد آلودہ فضا کے باعث مختلف پیچیدگیوں اور بیماریوں کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

    ان میں پھیپھڑوں کا کینسر، امراض قلب، فالج اور استھما جیسی بیماریاں شامل ہیں۔

    rio-6

    ماہرین کا کہنا ہے کہ فضائی اور آبی آلودگی کے باعث غیر ملکی کھلاڑیوں کے گیسٹرو میں مبتلا ہونے کا سخت خطرہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ریو ڈی جنیرو کسی صورت اس قسم کے کھیلوں کے مقابلوں کے لیے مناسب نہیں ہے۔

    واضح رہے کہ ریو اولمپک گیمز 5 اگست سے شروع ہوں گے جو 21 اگست تک جاری رہیں گے۔ ریو 2016 میں مختلف ممالک کی ریکارڈ 206 قومی اولمپک کمیٹیوں کے 10 ہزار 500 سے زائد کھلاڑی حصہ لے رہے ہیں۔

  • دنیا کے ماحول دوست ممالک کون سے ہیں؟

    دنیا کے ماحول دوست ممالک کون سے ہیں؟

    کیا آپ جانتے ہیں دنیا کے سب سے زیادہ ماحول دوست ممالک کون سے ہیں؟

    ماحولیاتی کارکردگی کی فہرست مرتب کرنے والا ادارہ ای پی آئی اے دو شعبوں میں کارکردگی دیکھتے ہوئے اپنی فہرست مرتب کرتا ہے۔ ایک انسانی صحت کے تحفظ اور دوسرے ماحول یا ایکو سسٹم کے تحفظ کے لیے کیے جانے والے اقدامات۔

    اس فہرست میں 4 یورپی ممالک فن لینڈ، آئس لینڈ، سوئیڈن اور ڈنمارک ابتدائی 4 پوزیشنز پر ہیں البتہ ان ممالک کا پڑوسی ملک ناروے اپنے بے تحاشہ کاربن اخراج اور زراعت میں فرسودہ طریقوں کے باعث پیچھے ہے۔

    finland-4

    فہرست میں دسویں نمبر پر فرانس ہے۔ نویں پر مالٹا، آٹھویں پر یورپی ملک ایسٹونیا، ساتویں پر پرتگال، چھٹے پر اسپین اور پانچویں پر سلووینیا شامل ہے۔

    چوتھے نمبر پر ڈنمارک ہے جو اپنے ماحول کی بہتری کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی معیشت میں بہتری لا رہا ہے جسے گرین گروتھ کا نام دیا گیا ہے۔

    تیسرے نمبر پر موجود ملک سوئیڈن میں پینے کے پانی کو محفوط کرنے اور استعمال شدہ پانی کو ٹھکانے لگانے کی بہترین حکمت عملیوں پر عمل ہورہا ہے۔

    دوسرے نمبر پر آئس لینڈ ہے جو اپنی توانائی کی تمام ضروریات قابل تجدید ذرائع (ری نیو ایبل) جیسے شمسی ذرائع سے پورا کرتا ہے۔

    finland-2

    فہرست کے مطابق دنیا کا سب سے زیادہ ماحول دوست ملک فن لینڈ ہے۔

    فن لینڈ نے ماحولیاتی شعبہ میں بے حد ترقی کی ہے جس کی بنیاد کاربن سے پاک ملک بنانے کے لیے اقدامات تھے۔ ان اقدامات سے فن لینڈ کی صحت، توانائی اور ماحولیات کے شعبہ میں بہتری آئی، آبی حیات، جنگلی حیات اور ان کی پناہ گاہوں کو محفوظ بنانے میں مدد ملی جبکہ فضائی آلودگی میں کمی اور آبی ذخائر میں اضافہ ہوا۔

    رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ بڑی عالمی معیشتیں جو صنعتی شعبہ میں روز بروز ترقی کر رہی ہیں اس فہرست میں بہت نیچے ہیں کیونکہ ان ممالک کا ماحول بدترین خطرات کا سامنا کر رہا ہے۔ اس کی ایک مثال چین ہے جو فہرست میں 109ویں درجہ پر ہے۔

    finland-3

    اس سے قبل عالمی اقتصادی فورم کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق چین میں فضائی آلودگی کے باعث ایک لاکھ کی آبادی میں سے 164 افراد ہلاک ہوجاتے ہیں۔ چین اپنی ایندھن کی ضروریات زیادہ تر کوئلے سے پوری کرتا ہے اور یہی اس کی فضائی آلودگی اور بدترین ماحولیاتی خطرات کی بڑی وجہ ہے۔

  • آسٹریلیا اپنی ’جگہ‘ بدل چکا ہے

    آسٹریلیا اپنی ’جگہ‘ بدل چکا ہے

    سڈنی: لوگ تو اپنی جگہیں بدلتے رہتے ہیں۔ لیکن کیا آپ نے کبھی سنا کہ ملک بھی اپنی جگہ سے حرکت کریں اور اپنی جگہ بدل لیں؟ ایسا ہوچکا ہے۔ ہماری دنیا میں موجود سمندر میں گھرا ملک آسٹریلیا اپنی جگہ سے حرکت کر رہا ہے۔

    اس کی تصدیق آسٹریلیا کے حکومتی سائنسی ادارے نے کی ہے۔ ان کے مطابق آسٹریلیا اپنے جغرافیہ میں ایک میٹر کی تبدیلی کر چکا ہے جس کے بعد عالمی سمت شناسی کے سیٹلائٹ سسٹم میں بھی اس کی جگہ کی تبدیلی ضروری ہے۔

    aus-1

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس تبدیلی کے باعث اب مختلف ٹیکنالوجیز میں درد سری کا سامنا ہوگا۔ جیسے بغیر ڈرائیور کی کار جس میں محل وقوع کو فیڈ کردیا جاتا ہے اور وہ اسی فیڈ کیے ہوئے ڈیٹا کے مطابق حرکت کرتی ہیں۔

    australia

    آسٹریلیا کے سائنسی ادارے جیو سائنس آسٹریلیا کے ڈین جاسکا کے مطابق، ’ہمیں آسٹریلیا کے طول بلد اور عرض بلد میں تبدیلی کرنی ہوگی تاکہ عالمی نیوی گیشن (سمت شناسی) سیٹلائٹ اس کے مطابق آسٹریلیا کا ڈیجیٹل نقشہ فراہم کر سکے‘۔

    aus-2

    آسٹریلیا اپنی ٹیکٹونک پلیٹوں کی حرکت کی وجہ سے ہر سال 7 سینٹی میٹر شمال کی جانب حرکت کر رہا تھا اور ماہرین کے مطابق اس حرکت سے مطابقت پیدا کرنی ضروری ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ 2020 تک آسٹریلیا اپنے جغرافیہ میں 1.8 میٹر کی تبدیلی کرچکا ہوگا۔ ان کے مطابق تازہ ترین اور بالکل درست ڈیٹا یکم جنوری 2017 سے دستیاب ہوگا۔

  • ٹوکیو کی ماحول دوست پہلی خاتون گورنر

    ٹوکیو کی ماحول دوست پہلی خاتون گورنر

    ٹوکیو: جاپانی دارالحکومت ٹوکیو کی عوام نے اپنی پہلی خاتون گورنر کا انتخاب کرلیا۔ یوریکو کوئیکے ایک سابق ٹی وی اینکر ہیں جبکہ وہ وزیر برائے دفاع بھی رہ چکی ہیں۔

    یوریکو تحفظ ماحول کی ایک سرگرم کارکن بھی ہیں۔ وہ ٹوکیو کی پہلی خاتون گورنر ہیں جبکہ بطور وزیر دفاع بھی وہ پہلی خاتون ہیں جو اس عہدے پر فائز رہیں۔

    tokyo-2

    یوریکو نے وزیر اعظم شنزو ایبے کے حمایت یافتہ امیدوار ہیرویا ماسودا کو شکست دے کر فتح حاصل کی۔ انہوں نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑا اور 2.9 ووٹ حاصل کیے۔

    واضح رہے کہ ان کی حکومت کا سب سے بڑا چیلنج 2020 کے ٹوکیو اولمپکس کی تیاریاں ہوں گی جو کہ پہلے ہی تاخیر کا شکار ہیں۔ اولمپکس کی تیاریوں کے اخراجات میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے جس کے باعث شنزو ایبے اور ان کی حکومت سخت تنقید کی زد میں ہے۔

    اہم عہدوں کی دوڑ میں خواتین نے مردوں کو پیچھے چھوڑ دیا *

    یوریکو 2003 سے 2005 کے دوران جاپان کی وزیر ماحولیات بھی رہ چکی ہیں اور انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران حامیوں سے اپیل کی تھی کہ وہ سبز کپڑے اور بینڈز پہن کر تحفظ ماحول کے لیے اپنی حمایت ظاہر کریں۔

    اپنے دور حکومت میں انہوں نے کئی ماحول دوست اقدامات متعارف کروائے جس میں سب سے اہم ’کیوٹو پروٹوکول‘ کی تکمیل کے لیے کاربن ٹیکس کا نفاذ تھا۔

    tokyo-3

    کیوٹو پروٹوکول 1997 میں اقوام متحدہ کی جانب سے متعارف کروایا جانے والا ایک معاہدہ تھا جس کے تحت وہ ممالک جو کاربن کے اخراج میں حصہ دار ہیں، ان غریب ممالک کو ہرجانہ ادا کریں گے جو ان کاربن گیسوں کی وجہ سے نقصانات اٹھا رہے ہیں۔

    یوریکو کا متعارف کروایا جانے والا کاربن ٹیکس مختلف اقسام کے فیول کے استعمال پر لاگو کیا گیا تھا جو بڑی بڑی فیکٹریوں اور صنعتوں کو ادا کرنا تھا۔

    برطانیہ میں پلاسٹک بیگ کا استعمال ختم کرنے کے لیے انوکھا قانون *

    سال 2005 میں یوریکو نے ایک پروگرام بھی شروع کیا جس کے تحت دفاتر میں کام کرنے والے مرد ملازمین سے کہا گیا کہ وہ گرمیوں میں کوٹ پہننے سے گریز کریں تاکہ ایئر کنڈیشنرز کا استعمال کم ہوسکے۔

    یوریکو نے عوام پر ماحول کے لیے نقصان دہ پلاسٹگ بیگز کی جگہ ’فروشکی‘ استعمال کرنے پر زور دیا۔ فروشکی روایتی جاپانی کپڑے کے تھیلے ہیں جو مختلف چیزیں لانے اور لے جانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

    tokyo-4

    نو منتخب گورنر یوریکو نے قاہرہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا ہے اور وہ روانی کے ساتھ عربی زبان بول سکتی ہیں۔ ان کا عزم ہے کہ وہ ٹوکیو میں خواتین دوست پالیسیاں متعارف کروائیں گی۔

  • ماحولیاتی تبدیلی جنگوں کی وجہ بن سکتی ہے، ماہرین

    ماحولیاتی تبدیلی جنگوں کی وجہ بن سکتی ہے، ماہرین

    برلن: آب و ہوا میں تبدیلی ایک جانب موسم بگڑنے سے قدرتی آفات اور خشک سالی کا خدشہ ہے تو دوسری جانب ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ ملکوں اور گروہوں کے درمیان تنازعات اور جنگوں کی وجہ بھی بن سکتی ہے.

    تفصیلات کےمطابق جرمنی میں پوٹس ڈیم انسٹی ٹیوٹ آف کلائمیٹ امپیکٹ ریسرچ کے مطابق آب و ہوا میں تبدیلی سے ملکوں کے درمیان تنازعات اور جنگیں ہوسکتی ہیں.

    ماہرین نے یہ دلچسپ انکشاف بھی کیا ہے کہ دو مختلف آبادیوں والے خطّوں اور ممالک کے درمیان تنازعات عین اسی وقت جنم لیتے ہیں جب کوئی قدرتی آفت درپیش ہوتی ہے اور انہیں موسمیاتی تبدیلیوں کا ادراک بھی نہیں ہوتا.

    ماہرین کے مطابق موحولیاتی تبدیلی براہِ راست جنگ کی وجہ تو نہیں بنے گی لیکن پرانے خوابیدہ مسائل کو دوبارہ چھیڑنے کی وجہ بن سکتی ہے.

    ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اس مطالعے کا معاشروں پر براہِ راست اطلاق نہیں کیا جاسکتا تاہم اس مطالعے میں 1980 سے 2010 تک قدرتی آفات سے ہونے والے مالی نقصان کاجائزہ بھی لیا گیا ہے لیکن اسی دوران ممالک کے درمیان رونما ہونے والے جھگڑوں کو بھی نوٹ کیا گیا ہے.

    واضح رہے کہ ماہرین کے مطابق خشک سالی،پانی کے مسائل اور قدرتی وسائل پر دباؤ دو گروہوں کے درمیان وسائل کی جنگ چھیڑسکتے ہیں اور خصوصاً شمالی اور وسط افریقہ اور ایشیا میں بھی یہ تنازعات سر اٹھا سکتے ہیں.