Tag: ماحولیات

  • قدرتی آفات کا خطرہ، گرین ہاؤس گیسز کی کثافت میں خطرناک اضافہ

    قدرتی آفات کا خطرہ، گرین ہاؤس گیسز کی کثافت میں خطرناک اضافہ

    نیویارک: عالمی موسمیاتی تنظیم نے انکشاف کیا ہے کہ کرونا وبا کے باوجود 2020 میں فضا میں گرمی پیدا کرنے والی گیسز کا اضافہ ریکارڈ سطح تک پہنچ گیا۔

    تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ کی ماحولیاتی ایجنسی کی ایک جائزہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کی عالمی کثافت گزشتہ سال ریکارڈ سطح تک بلند رہی۔

    ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن نے پیر کے روز ایک رپورٹ جاری کی ہے، جس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین، اور نائٹرس آکسائیڈ کی کثافت کی عالمی اوسط کے لیے بین الاقوامی موسمیاتی ایجنسیوں کے 2020 کے اعداد و شمار کا تجزیہ کیا گیا ہے۔

    رپورٹ سے ظاہر ہوا ہے کہ 1984 میں اعداد و شمار جمع کرنا شروع کیے جانے کے بعد مذکورہ تینوں گیسز کی بلند ترین سطح ریکارڈ کی گئی ہے۔

    سی او ٹو، میتھین اور نائٹرس آکسائیڈ کی مقدار میں پچھلے 10 سالوں میں سالانہ اوسط سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ڈبلیو ایم او کا کہنا ہے کہ اس سے پیرس معاہدے کے اہداف سے زیادہ درجہ حرارت بڑھ جائے گا۔ انھیں فکر ہے کہ ہماری گرم دنیا قدرتی ذرائع سے اخراج کو بڑھا رہی ہے۔

    گزشتہ سال کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح 413.2 پی پی ایم یعنی پارٹس فی ملین، میتھین کی 1 ہزار 889 پی پی بی یعنی پارٹس فی بلین اور نائٹرس آکسائیڈ کی 333.2 پی پی بی ریکارڈ کی گئی تھی۔

    رپورٹ کے مطابق 2019 کے مقابلے میں 2020 میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی فضا میں کثافت 2.5 پی پی ایم، میتھین کی 11 پی پی بی اور نائٹرس آکسائیڈ کی 1.2 پی پی بی زیادہ تھی۔

    کووِڈ 19 کے باعث عائد کردہ پابندیوں کی وجہ سے گزشتہ سال معدنی ایندھن سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ میں 5.6 فی صد کمی آنے کے باوجود، مذکورہ ہر گیس کی کثافت میں اضافہ گزشتہ 10 سالوں کی سالانہ اوسط کے مقابلے میں زیادہ رہا۔

    اعداد و شمار کے تجزیے میں شامل جاپان کے محکمہ موسمیات کے حکام نے خبردار کیا ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے پر توجہ نہ دیے جانے کی صورت میں خشک سالی اور شدید بارشوں جیسی قدرتی آفات پہلے سے زیادہ آئیں گی۔

  • ماحولیات کے شعبے میں سرمایہ کاری، وزیر اعظم سے امریکی صدر کے نمائندے جان کیری کی ملاقات

    ماحولیات کے شعبے میں سرمایہ کاری، وزیر اعظم سے امریکی صدر کے نمائندے جان کیری کی ملاقات

    ریاض: وزیر اعظم عمران خان سے امریکی صدر کے نمائندے جان کیری کی ملاقات ہوئی ہے، یہ ملاقات سعودی عرب میں ایم جی آئی سمٹ کی سائیڈ لان پر ہوئی۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر جوبائیڈن کے نمائندہ خصوصی برائے ماحولیات جان کیری نے آج سعودی عرب میں ملاقات کی ہے، جس میں وزیر خارجہ شاہ محمود، سیکریٹری خارجہ، اور معاون خصوصی ماحولیات بھی شریک ہوئے۔

    دونوں رہنماؤں کے درمیان موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے اقدامات پر گفتگو ہوئی، وزیر اعظم نے اس سلسلے میں حکومت پاکستان کی جانب سے ترجیحی اقدامات سے آگاہ کیا، اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے پاکستان اور دیگر ممالک کو درپیش چیلنجز پر بھی بات چیت ہوئی۔

    ماحولیات کے شعبے میں سرمایہ کاری اور تعاون کے سلسلے میں دونوں رہنماؤں نے مؤثر فریم ورک بنانے پر اتفاق کیا، وزیر اعظم نے 10 بلین ٹری سونامی منصوبے کی کامیابی سے بھی آگاہ کیا، دونوں رہنماؤں نے ماحولیات سے متعلق پاک امریکا تعاون کا جائزہ لیا، اور وزیر اعظم نے یو ایس پاکستان کلائمٹ ورکنگ گروپ کے اجلاس پر اظہار اطمینان کیا۔

    جان کیری نے اس موقع پر کہا کہ ماحولیات کے شعبے میں پاک امریکا دیرینہ تعلقات ہیں، پاک امریکا تعلقات میں مزید ہم آہنگی کے لیے انھیں اور مضبوط کیا جائے گا، موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے اقدامات حوصلہ افزا ہیں۔

    وزیر اعظم عمران خان نے کہا موسمیاتی تبدیلی پر تکنیکی مہارت اور ٹیکنالوجی کا اشتراک ناگزیر ہے، ماحولیات کے شعبے میں سرمایہ کاری اور تعاون کے مواقع تلاش کیے جائیں۔

    اس ملاقات میں خطے کی مجموعی صورت حال اور افغانستان کے معاملات پر بھی گفتگو کی گئی، وزیر اعظم نے پاکستان اور خطے کے لیے پُر امن اور مستحکم افغانستان کی اہمیت پر زور دیا، اور کہا عالمی برادری امن و سلامتی کے لیے عملی طور پر کام کرے، اور معاشی تباہی کو روکنے کے لیے متحرک ہو۔ وزیر اعظم نے افغانستان کو معاشی وسائل کی فراہمی اور منجمد اثاثوں کی بحالی پر بھی زور دیا۔

  • انسان کی ماحول دشمنی اسے خطرناک بیماریوں کا شکار بنا سکتی ہے

    انسان کی ماحول دشمنی اسے خطرناک بیماریوں کا شکار بنا سکتی ہے

    کرونا وائرس کی وبا دنیا کے لیے ایک یاد دہانی ہے جس میں فطرت نے ہمیں بھرپور طریقے سے احساس دلایا کہ ترقی کی دوڑ میں ہم اس قدر تیز بھاگ رہے ہیں کہ نفع نقصان کا فرق بھی بھول چکے ہیں۔

    ہم نے دیکھا کہ کس طرح ہماری دہائیوں اور صدیوں کی ترقی اور معیشت کا پہیہ فطرت کے صرف ایک وار سے جھٹکے سے رک گیا اور پوری دنیا کا نظام اتھل پتھل ہوگیا۔

    ماہرین کے مطابق جس بے دردی سے ہم زمین کے پائیدار وسائل کو ضائع کر رہے تھے اور صرف یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ یہ زمین صرف انسانوں کے لیے ہے، اس کے ردعمل میں یہ جھٹکا نہایت معمولی ہے، اور اگر ہم اب بھی نہ سنبھلے تو آئندہ جھٹکے اس قدر خطرناک ہوسکتے ہیں کہ پوری نسل انسانیت کو بقا کا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

    لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اب بھی اس وبا سے کچھ سیکھا ہے یا ہم اپنی پرانی روش پر قائم رہیں گے؟

    ایک تحقیق کے مطابق اکثر قدرتی آفات اور وباؤں کو دعوت دینے والا خود انسان ہی ہے جو دنیا بھر میں اپنی سرگرمیوں سے فطرت اور ماحول کے سسٹم میں خلل ڈال رہا ہے اور ان میں خرابی پیدا کر رہا ہے۔

    ماہرین کا ماننا ہے کہ کرونا وائرس بھی ان وباؤں میں سے ایک ہے جو انسان کی اپنی سرگرمیوں کی وجہ سے انہیں متاثر کر رہی ہے، یعنی اگر ہم اپنی حدود میں رہتے ہوئے فطرت سے چھیڑ چھاڑ نہ کرتے تو یہ وبا شاید انسانوں تک نہ پہنچتی۔

    یہ جاننا ضروری ہے کہ ہماری وہ کون سی سرگرمیاں ہیں جو ہمارے ہی لیے نقصان دہ ثابت ہورہی ہیں، اور ہم خود کو بچانے کے لیے کیا اقدامات کر سکتے ہیں؟

    انٹر گورنمنٹل سائنس پالیسی پلیٹ فارم آن بائیو ڈائیورسٹی اینڈ ایکو سسٹم سروس (IPBES) کی سنہ 2020 میں جاری کی جانے والی رپورٹ کے مطابق انسانوں میں پھیلنے والے تقریباً ایک تہائی متعدی امراض ایسے ہیں جو جانوروں سے منتقل ہوئے، اس وقت 17 لاکھ وائرسز ایسے ہیں جو ابھی تک دریافت نہیں ہوسکے اور یہ ممالیہ جانداروں اور پرندوں میں موجود ہیں، ان میں سے نصف ایسے ہیں جو انسانوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    وجہ؟ انسانوں کا جانوروں سے غیر ضروری رابطہ۔ اس کے خطرناک نقصانات کو ماہر ماحولیات سنیتا چوہدری نے نہایت تفصیل سے بتایا، سنیتا چوہدری مختلف ممالک میں ماہر جنگلات کے طور پر کام کرچکی ہیں جبکہ آج کل وہ نیپال کے تحفظ ماحولیات کے ادارے آئی سی موڈ سے بطور ایکو سسٹم سروس اسپیشلسٹ وابستہ ہیں۔

    سنیتا چوہدری کہتی ہیں کہ انسانوں کا غیر قانونی شکار اور جانوروں کی تجارت کا جنون انہیں سخت نقصان پہنچا رہا ہے، اس تجارت کے لیے وہ جنگلات میں جانوروں کے مساکن (Habitat) میں مداخلت کرتے ہیں اور یہیں سے وہ متعدد وائرسز اور جراثیموں کا شکار بن سکتے ہیں۔

    سنیتا چوہدری کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں بطور غذا یا ادویات کی تیاری میں مختلف جانوروں کا استعمال کیا جارہا ہے، ایک اور وجہ گھروں میں جنگلی جانور پالنے کا انسان کا غیر معمولی شوق ہے جس کے دوران تمام خطرات اور احتیاطی تدابیر کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق جنگلات کی کٹائی بھی انسانوں میں مختلف بیماریوں کے پھیلاؤ کا سبب بن سکتی ہے، کیونکہ جنگلات میں رہنے والے جانور جنگل کٹنے کے بعد انسانی آبادیوں کے ارد گرد رہنے لگتے ہیں۔ بعض اوقات ہم خود ہی جنگلات یا پہاڑوں کو کاٹ کر وہاں رہائشی آبادیاں بنا کر انسانوں کو بسا دیتے ہیں۔

    ان تمام عوامل کے نتیجے میں ہم جانوروں کے جسم میں پلنے والے ان وائرسز، جرثوموں اور بیماریوں کے حصے دار بن جاتے ہیں جو جانوروں میں تو اتنے فعال نہیں ہوتے، لیکن انسانوں پر کاری وار کرسکتے ہیں۔

    کیا کلائمٹ چینج بھی وباؤں کو جنم دے سکتا ہے؟

    سنہ 2011 میں رشین اکیڈمی آف سائنس سے منسلک ماہرین نے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا کہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے باعث درجہ حرارت بڑھنے کا عمل (جسے گلوبل وارمنگ کہا جاتا ہے) جہاں ایک طرف تو زمینی حیات کے لیے کئی خطرات کو جنم دے رہا ہے، وہاں وہ ان جراثیم اور وائرسز کو پھر سے زندہ کرنے کا سبب بن سکتا ہے جنہوں نے کئی صدیوں قبل لاکھوں کروڑوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

    یہ تحقیق برفانی خطے آرکٹک میں کی گئی تھی جہاں گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ٹنوں برف پگھل رہی تھی، ایسے میں برف کے نیچے دبے صدیوں پرانے وائرس اور جراثیم جلد یا بدیر ظاہر ہونے کے قریب تھے۔

    اس کی ایک مثال اگست 2016 میں دیکھنے میں آئی جب سائبریا کے ایک دور دراز علاقے میں ایک 12 سالہ لڑکا جانوروں کو ہونے والی ایک بیماری انتھراکس کا شکار ہو کر ہلاک ہوگیا جبکہ 20 کے قریب افراد اس مرض کا شکار ہو کر اسپتال پہنچ گئے۔

    ماہرین نے جب اس وبا کے اچانک پھیلاؤ کے عوامل پر تحقیق کی تو انہیں علم ہوا کہ تقریباً 75 سال قبل اس مرض سے متاثر ایک بارہ سنگھا اسی مقام پر ہلاک ہوگیا تھا۔

    سال گزرتے گئے اور بارہ سنگھے کے مردہ جسم پر منوں برف کی تہہ جمتی گئی، لیکن سنہ 2016 میں جب گرمی کی شدید لہر یعنی ہیٹ ویو نے سائبیریا کے برفانی خطے کو متاثر کیا اور برف پگھلنا شروع ہوئی تو برف میں دبے ہوئے اس بارہ سنگھے کی باقیات ظاہر ہوگئیں اور اس میں تاحال موجود بیماری کا وائرس پھر سے فعال ہوگیا۔

    اس وائرس نے قریب موجود فراہمی آب کے ذرائع اور گھاس پر اپنا ڈیرا جمایا جس سے وہاں چرنے کے لیے آنے والے 2 ہزار کے قریب بارہ سنگھے بھی اس بیماری کا شکار ہوگئے۔

    بعد ازاں اس وائرس نے محدود طور پر انسانوں کو بھی متاثر کیا جن میں سے ایک 12 سالہ لڑکا اس کا شکار ہو کر ہلاک ہوگیا۔

    یہ صرف ایک مثال تھی، ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی درجہ حرارت بڑھنے کے باعث جیسے جیسے زمین کے مختلف مقامات کی برف پگھلتی جائے گی، ویسے ویسے مزید مہلک اور خطرناک بیماریاں پیدا کرنے والے وائرسز پھر سے نمودار ہو جائیں گے۔

    یہاں یہ یاد رہے کہ برف میں جم جانے سے کوئی جسم بغیر کسی نقصان کے صدیوں تک اسی حالت میں موجود رہ سکتا ہے، جبکہ اس طرح جم جانا کسی وائرس یا بیکٹیریا کے لیے بہترین صورتحال ہے کیونکہ وہاں آکسیجن نہیں ہوتی اور ماحول سرد اور اندھیرا ہوتا ہے چنانچہ اس طرح وہ لاکھوں سال تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ کہنا بعید از قیاس نہیں کہ لاکھوں سال پرانے وائرس اور جراثیم، جن کے نام بھی ہم نہ جانتے ہوں گے، ہم پر پھر سے حملہ آور ہوسکتے ہیں۔

    گزشتہ برس یورپی یونین کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق بھی یہ بتاتی ہے کہ کلائمٹ چینج کی وجہ سے بڑھتا ہوا درجہ حرارت یعنی گلوبل وارمنگ اکثر متعدی امراض میں اضافے کا سبب ہے جیسے ملیریا اور زیکا وغیرہ، اور یہ بات اب طے ہوچکی ہے کہ زمین پر کلائمٹ چینج کی وجہ انسان کی بے پناہ صنعتی ترقی اور اس سے خارج ہونے والی مضر گیسز ہیں۔

    سنیتا چوہدری کہتی ہیں کہ برف پگھلنے کی صورت میں سامنے آنے والے وائرسز کی تعداد اور خطرناکی لامحدود ہوگی، گلوبل وارمنگ ان وائرسز کو مزید فعال اور طاقتور کردے گی، یوں ہمارے سامنے ان گنت خطرات موجود ہیں۔

    کیا ہم بچاؤ کے اقدامات کرسکتے ہیں؟

    یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا ہم ان عوامل کو روکنے یا ان کی رفتار دھیمی کرنے کے قابل ہیں؟ اور ایسا کر کے کیا ہم اپنا بچاؤ کر سکتے ہیں؟

    اس حوالے سے سنیتا چوہدری کہتی ہیں کہ کووڈ 19 ہمارے لیے ایک وارننگ ہے کہ انسانوں کا فطرت سے تعلق نہایت ہی غیر صحت مندانہ ہے، ہم فطرت کو ایک پروڈکٹ کی طرح استعمال کر رہے ہیں، جبکہ حقیقت میں ہمیں اس سے بہتر تعلق قائم کر کے فطرت کو اپنے لیے، اور خود کو فطرت کے لیے فائدہ مند بنانا چاہیئے۔

    سنیتا کے مطابق اگر ہم قدرتی ماحول اور فطرت کو احسن اور پائیدار طریقے سے استعمال کریں تو یہ انسانوں اور مختلف وبائی امراض کے درمیان ایک ڈھال کا کردار ادا کر سکتی ہے، ہمیں فطرت کا تحفظ کرنے کی ضرورت ہے اور ضروری ہے کہ انسانوں اور فطرت کے درمیان ہم آہنگی کا رشتہ ہو۔

    سنیتا کے مطابق مندرجہ ذیل اقدامات کی صورت میں ہم نہ صرف ماحول کا بلکہ مختلف خطرات سے اپنا بھی بچاؤ کر سکتے ہیں۔

    دنیا بھر میں ایکو سسٹم کی بحالی، فطری حسن اور وہاں کی مقامی جنگلی حیات کا تحفظ

    زراعت میں رائج پرانے طریقوں کو چھوڑ کر جدید طریقے اپنانا جو بدلتے موسموں سے مطابقت رکھتے ہوں

    جانوروں کے لیے محفوظ علاقوں کا قیام

    آبی ذخائر کی بحالی اور ان کا تحفظ

    ماہرین کا کہنا ہے کہ فطرت کا تحفظ اب ہمارے لیے ایسی ضرورت بن گئی ہے جو ہماری اپنی بقا کے لیے ضروری ہے، ورنہ ہماری اپنی ترقی ہی ہمارے لیے ناقابل تلافی نقصان کا سبب بن سکتی ہے۔

  • یونان کے جنگلات میں آگ یا کسی خوفناک فلم کے مناظر (تصاویر دیکھیں)

    یونان کے جنگلات میں آگ یا کسی خوفناک فلم کے مناظر (تصاویر دیکھیں)

    ایتھنز: یونان کے جزیرے ایویا کے جنگلات میں گزشتہ 6 دنوں سے خوف ناک آگ لگی ہوئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق یونانی جزیرے ایویا کے جنگلات میں آتش زدگی کے نتیجے میں ہزاروں افراد اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں، اور بڑی تعداد میں لوگوں کو سمندر کے راستے محفوظ مقامات پر لے جانے کے لیے کشتیاں تیار رکھی گئی ہیں۔

    خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ایویا یونان کا دوسرا سب سے بڑا جزیرہ ہے، جہاں جنگلات میں لگنے والی آگ ہزاروں ایکڑ تک تیزی سے پھیل چکی ہے، جس کی وجہ سے درجنوں دیہاتوں کو خالی کروانا پڑا ہے۔

    روئٹرز کی جانب سے جنگلات میں لگی آگ کے مناظر پر مبنی تصاویر بھی جاری کی گئی ہیں، جنھیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے کوئی خوف ناک فلم چل رہی ہو۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق آگ کی زد میں پانچ دیہات آئے ہیں، تاہم نقصان کی تفصیلات کا فوری طور پر اندازہ نہیں لگایا جا سکا ہے۔

    مینا نامی 38 سالہ حاملہ خاتون کو بھی امدادی فیری کے ذریعے محفوظ مقام تک پہنچایا گیا، ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک خوف ناک فلم کی طرح ہے۔

    ایک ہفتے تک چلنے والی یونان کی تین دہائیوں کی سب سے شدید ہیٹ ویو کے دوران جنگلات میں آگ ملک کے کئی حصوں تک پھیلی، اس آگ کی وجہ سے کئی کاروبار میں بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

    منگل سے اب تک کوسٹ گارڈ نے 2 ہزار سے زائد افراد کو محفوظ مقامات تک پہنچایا، جب کہ کئی افراد اپنے دیہاتوں سے محفوظ مقامات تک پہنچنے کے لیے پیدل چل پڑے۔

  • خبردار! ہیٹ ویو، سیلاب اور خشک سالی کے لیے تیار رہیں

    خبردار! ہیٹ ویو، سیلاب اور خشک سالی کے لیے تیار رہیں

    جنیوا: اقوام متحدہ کے ماحولیات سے متعلق ایک ادارے نے خبردار کیا ہے کہ دنیا بھر کے لوگ ہیٹ ویو، سیلاب، بارشوں اور خشک سالی کے لیے تیار رہیں۔

    تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ کے ماحولیاتی ادارے بین الحکومتی پینل (IPCC) نے ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق ایک رپورٹ جاری کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ دنیا کو ہیٹ ویو، سیلاب، بارشوں اور خشک سالی کا سامنا کرنا پڑے گا، اور یہ ماحولیاتی تبدیلی انسانی بقا کے لیے خطرناک ہے۔

    رپورٹ کے مطابق عالمی درجہ حرارت 2030 تک 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ سکتا ہے جب کہ عالمی حدت میں انسانوں کا کردار حد سے زیادہ اور واضح ہے، اقوام متحدہ کے سائنس دانوں کے مطابق انسان دنیا کے ماحول پر بری طرح سے اثر انداز ہو رہا ہے اور اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔

    رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ جس حساب سے گیسز کا اخراج جاری ہے ایک عشرے میں درجۂ حرارت کی حد کے تمام ریکارڈ ٹوٹ سکتے ہیں اور اس صدی کے اختتام تک سمندر کی سطح میں 2 میٹر تک اضافے کے خدشے کو رد نہیں کیا جا سکتا۔

    واضح رہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں یہ دنیا کی اب تک کی سب سے بڑی رپورٹ ہے، جسے جلد شائع کیا جائے گا ، جس میں ہماری زمین کی حالت کی واضح حقیقت بیان کی جائے گی۔ یہ مطالعہ بین الحکومتی پینل کی طرف سے کیا گیا ہے جس نے 14 ہزار سے زائد سائنسی مقالوں کو پڑھا۔

    آنے والی دہائیوں میں گلوبل وارمنگ دنیا کو کس طرح بدل دے گی، یہ رپورٹ اس کا تازہ ترین جائزہ ہوگی۔

  • جاپان میں نئے ایندھن کے تجربات

    جاپان میں نئے ایندھن کے تجربات

    ٹوکیو: جاپان میں امونیا کو ایندھن کے طور پر استعمال کیے جانے کے تجربات شروع کیے جا رہے ہیں۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق جاپان بجلی کی پیداوار کے لیے امونیا کو ایندھن کے طور پر استعمال شروع کر رہا ہے، اس سے بجلی کی پیداوار کے عمل میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج روکا جا سکے گا۔

    خیال رہے کہ امونیا گیس جلنے پر کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج نہیں کرتی، امونیا کو جلانے پر زہریلی گیس نائٹروجن آکسائیڈ خارج ہوتی ہے، تاہم یہ توقع ظاہر کی گئی ہے کہ جلنے کے عمل میں ہوا کی مناسب مقدار کے ذریعے اس کے اخراج میں کمی کی جائے گی۔

    اس تجربے کا آغاز حرارت سے بجلی پیدا کرنے والی جاپانی کمپنی جیرا کر رہی ہے، اگست سے وسطی جاپان کے اپنے بجلی گھر میں کوئلے اور امونیا کے آمیزے کو جلا کر بجلی پیدا کی جائے گی، اس تجربے کے تحت کوئلے میں امونیا کی معمولی مقدار ملائی جائے گی، اور اسے بتدریج بڑھا کر مالی سال 2024 میں 20 فی صد تک لے جایا جائے گا، یہ منصوبہ بھاری مشینری بنانے والی کمپنی آئی ایچ آئی کے تعاون سے انجام دیا جا رہا ہے۔

    دوسری طرف گاڑیاں بنانے والی جاپان کی کمپنی مِتسُوبِشی ہیوی انڈسٹریز ایک ایسی گیس ٹربائن تیار کر رہی ہے جو سو فی صد امونیا پر چلے گی، متسوبِشی کا ہدف ہے کہ اسے 2025 تک تجارتی بنیادوں پر بجلی گھروں کے استعمال میں لایا جائے۔

    ان تجربات کا مقصد موجودہ بجلی گھروں کو استعمال کرتے ہوئے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا خاتمہ ہے، کیوں کہ کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں پر دنیا بھر میں تنقید میں اضافہ ہو رہا ہے۔

  • یورپ میں تباہ کن سیلاب، عالمی ماحولیاتی تنظیم نے بڑھتی گرمی کو بڑا خطرہ قرار دے دیا

    یورپ میں تباہ کن سیلاب، عالمی ماحولیاتی تنظیم نے بڑھتی گرمی کو بڑا خطرہ قرار دے دیا

    جنیوا: یورپ میں تباہ کن سیلاب کے بعد عالمی ماحولیاتی تنظیم نے بڑھتی گرمی کو یورپ کے لیے بڑا خطرہ قرار دے دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی موسمیاتی تنظیم (ڈبلیو ایم او) نے کہا ہے کہ شدید بارشوں سے متعدد مغربی یورپی ممالک میں تباہ کن سیلاب اس بات کا انتباہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ آفات کو روکنے کے لیے تمام ممالک کو زیادہ سے زیادہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

    ڈبلیو ایم او کے عہدے دار نے کہا کہ یقینی طور پر اس ہفتے جرمنی، بیلجیئم اور نیدرلینڈ کے مناظر چونکا دینے والے ہیں، انھوں نے خبردار کیا کہ موسمیاتی تبدیلی کے منظرناموں کے تحت ہمیں شدید گرمی میں مزید اس قسم کے واقعات دیکھنے کو ملیں گے۔

    ورلڈ میٹیورولوجیکل آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ بیلجیئم، جرمنی، لکسمبرگ اور نیدرلینڈ میں 14 سے 15 جولائی تک صرف 2 دن میں دو ماہ کی بارش ہو چکی ہے، جو انتہائی خطرناک ہے، اطلاعات کے مطابق جرمنی اور بیلجیئم میں جمعہ کی صبح تک 100 سے زیادہ ہلاکتوں کی تصدیق ہو چکی ہے، جب کہ وسیع علاقوں میں متعدد افراد ابھی تک لا پتا ہیں۔

    ڈبلیو ایم او کی خاتون ترجمان کلیر نولیس کا کہنا ہے کہ ان سیلابوں نے متاثرہ ترقی یافتہ ممالک کی طرف سے کیے جانے والے حفاظتی اقدامات کو بھی تہس نہس کر دیا ہے، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ مجموعی طور پر یورپ تیار ہے لیکن جب دو مہینوں کی بارش دو دن میں ہو تو اس کا مقابلہ کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔

    کلیر نولیس نے کہا کہ جیسے جیسے ماحول گرم ہوتا جا رہا ہے، اس میں مزید نمی آتی جا رہی ہے، جس کا مطلب ہے کہ طوفانوں کے دوران اور بھی زیادہ بارش ہوگی، جس سے سیلاب کا خطرہ اور بڑھ جائے گا۔

  • جگر اور گردوں کی بیماریوں کا خطرہ، عام استعمال کی اہم چیز پر دنیا بھر میں پابندی لگائے جانے پر غور

    جگر اور گردوں کی بیماریوں کا خطرہ، عام استعمال کی اہم چیز پر دنیا بھر میں پابندی لگائے جانے پر غور

    نیروبی: جگر اور گردوں کی بیماریوں کے خطرے اور ماحولیات کو نقصان کے پیش نظر اقوام متحدہ نے پوری دنیا میں پلاسٹک بیگز پر پابندی لگانے پر غور شروع کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق اقوام متحدہ کے اجلاس میں پیر کو 2030 تک پلاسٹک کے استعمال کے مکمل خاتمے پر اتفاق کیا گیا، بی بی سی کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ نے پلاسٹک بیگز میں موجود خطرناک کیمیکلز کے ماحولیاتی آلودگی پر اثرات کو کم کرنے کے لیے، اس کے استعمال پر پابندی لگانے پر غور شروع کر دیا ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پلاسٹک بیگز میں موجود خطرناک کیمیکل سے جگر اور گردوں کی بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں۔

    ماحولیات پر نیروبی میں ہونے والے پانچ روزہ اجلاس میں 2030 تک پلاسٹ کے استعمال کے مکمل خاتمے سے متعلق ایک قرارداد پیش کی گئی تھی، جس پر 170 ممالک نے اتفاق کیا۔ اس اجلاس میں 4 ہزار 700 مندوبین اور ماہرین ماحولیات سمیت سائنس دانوں، محقیقین اور کاروباری افراد نے بھی شرکت کی۔

    پلاسٹک بیگز پر پابندی کے حوالے سے ماحولیات کے عالمی ماہر ڈیوڈ ازولے کا کہنا تھا کہ زیادہ سے زیادہ ممالک اس نظریے کو پورا کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کریں تا کہ ماحول کو صاف رکھا جا سکے۔

    اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ہر سال تقریبا 8 ملین ٹن پلاسٹک سمندر میں داخل ہوتا ہے، دوسری طرف دنیا میں ماحولیات میں جو تبدیلیاں آ رہی ہیں اس کے لیے ہمیں عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔

    خیال رہے کہ اقوام متحدہ کی نیروبی اسمبلی دنیا کی سر فہرست ماحولیاتی اسمبلی ہے، اور اس اجلاس کو عالمی یو این موسمیات ایکشن سمٹ کے سلسلے میں ایک اہم سنگ میل بھی سمجھا جا رہا ہے، جو کہ ستمبر میں منعقد ہونے جا رہا ہے۔

  • عرب امارات کا نیا منصوبہ

    عرب امارات کا نیا منصوبہ

    ابوظبی: متحدہ عرب امارات نے سمندری فضلہ ٹھکانے لگانے کا نیا منصوبہ پیش کر دیا ہے، جس کے ذریعے پورے خطے کے لیے تاریخی نتائج کا حصول کیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق متحدہ عرب امارات کی ویسٹ مینجمنٹ کمپنی بیئہ اور یونانی کمپنی پولی گرین مل کر سمندری اور ماحولیاتی مسائل حل کریں گے، انھوں نے ایو گرین کے نام سے مشترکہ منصوبہ شروع کر دیا ہے۔

    اس منصوبے کے ذریعے خطے کے سمندروں کے تحفظ کے لیے سمندری فضلہ بہترین طریقے سے ٹھکانے لگایا جائے گا، منصوبے کا مقصد بحری فضلے کو ٹھکانے لگانے کی صنعت میں بہترین طریقوں کو فروغ دینا بھی ہے۔

    ایو گرین نامی یہ کمپنی شارجہ کمپلیکس میں خام مال کے لیے اپنی ایک عمارت تعمیر کر چکی ہے، جہاں سمندری فضلے کو پراسس کر کے صنعتی استعمال کا متبادل مال تیار کیا جاتا ہے، اب گندے نالوں کے ذریعے آنے والے فضلے کو پراسس کر کے متبادل ایندھن میں بدلنے کے لیے ایک فیکٹری تعمیر کی جار ہی ہے۔

    یہ دونوں فیکٹریز متحدہ عرب امارات کی بندرگاہوں پر آنے والے بحری جہازوں سے اکٹھا کیے گئے مضر اور غیر مضر فضلے کو ری سائیکل کریں گی۔

    کمپنی پولی گرین کے سربراہ اتھناسیاس پولی کرونوپولوس نے اس منصوبے کو ماحول کی حفاظت اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے کی جانے والی عالمی کوششوں کے لیے ایک سنگ میل قرار دیا۔

    بیئہ کے چیئرمین سلیم بن محمد الاویس نے کہا کہ ایوگرین کمپنی متحدہ عرب امارات اور وسیع تر خطے کے لیے تاریخی نتائج حاصل کرنے کی جانب پیش قدمی کرے گی۔

  • فیکٹریاں لگائیں لیکن عوام اور ماحول کو نقصان نہ پہنچے: پشاور ہائی کورٹ

    فیکٹریاں لگائیں لیکن عوام اور ماحول کو نقصان نہ پہنچے: پشاور ہائی کورٹ

    پشاور: عدالت نے نوشہرہ کے علاقے چراٹ سپین کانی میں سیمنٹ فیکٹری سے علاقے میں پانی کی کمی اور آلودگی بڑھنے پر محکمہ ماحولیات سے رپورٹ طلب کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس قیصر رشید نے سیمنٹ فیکٹری سے ماحولیات کو نقصان کے ایک کیس میں ریمارکس دیے کہ فیکٹریاں لگانا اچھا ہے، اس سے علاقے میں ترقی آتی ہے، لیکن اس سے علاقے کے عوام کو مشکلات نہیں ہونے چاہئیں، فیکٹریز لگائیں لیکن عوام کو بھی سہولیات دیں تاکہ علاقہ مکین اور وہاں کھیتوں کو پانی کا مسئلہ نہ ہو۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آج کل پانی کی کمی اور ماحول کو خطرات ہیں اور یہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ عدالت نے محکمہ ماحولیات کے ڈپٹی ڈائریکٹر کو ماہرین کی ٹیم کے ساتھ متعلقہ علاقے کا دورہ کرنے کا حکم دے دیا۔

    چیف جسٹس نے ڈپٹی ڈائریکٹر ماحولیات ممتاز علی کو ہدایت کی کہ آپ جا کر وہاں دیکھیں کہ فیکٹری نے کتنے ٹیوب ویل لگائے ہیں، عوام کو کتنا پانی مل رہا ہے اور فیکٹری کتنا پانی استعمال کر رہی ہے، پھر عدالت کو رپورٹ پیش کریں۔

    قبل ازیں، درخواست گزار تسلیم خان نے عدالت کو بتایا کہ سیمنٹ فیکٹری کی وجہ سے علاقے میں پانی کا مسئلہ پیدا ہوا، اور آلودگی میں بھی اضافہ ہو گیا ہے، ٹیوب ویل کا پانی فیکٹری استعمال کر رہی ہے جس کی وجہ سے علاقے کے مکینوں کو پینے کا صاف پانی بھی میسر نہیں ہے۔

    درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ فیکٹری کے لیے پہاڑوں میں دھماکے کیے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے پہاڑوں سے درخت ختم ہو رہے ہیں، علاقے کے پہاڑ جو پہلے درخت اور جھاڑیوں سے بھرے تھے اب بنجر ہو گئے ہیں، فیکٹری کے لیے جو گاڑیاں آتی ہیں ان کی وجہ سے حادثات ہو رہے ہیں، آلودگی کی وجہ سے بھی لوگ پریشان ہیں، علاقے کے نوجوان بے روزگار ہیں لیکن فیکٹری میں ان کو ملازمت نہیں دی جا رہی۔

    سیمنٹ فیکٹری کے وکیل اسحاق علی قاضی نے عدالت کو بتایا کہ پانی 12 کلو میٹر دور علاقے سے لایا جاتا ہے، یہ فیکٹری 1981 میں بنی ہے اس وقت وہاں پر کوئی آبادی نہیں تھی، بنجر زمین تھی یہ لوگ جو یہاں آباد ہوئے ہیں، انھوں نے فیکٹری کی زمین پر گھر بنائے ہیں، اور فیکٹری میں 42 فی صد ملازمین اسی علاقے ہی کے مکین ہیں۔

    عدالت نے محکمہ ماحولیات کو علاقے کا دورہ کر کے پانی اور دیگر مسائل دیکھ کر رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 15 ستمبر تک ملتوی کر دی۔