واضح رہے کہ ممبئی میونسپل کارپوریشن مہاراشٹر میں 2 کروڑ درخت لگانے کا ارادہ رکھتی ہے اور اس حوالے سے شہریوں میں شعور بیدار کرنے کے لیے انتظامیہ نے افتتاحی شجر کاری میں سلمان خان کو مدعو کیا۔
آج دنیا بھر میں یوم آبادی منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا آغاز 1989 سے اقوام متحدہ کی جانب سے کیا گیا جس کا مقصد دنیا میں بڑھتی ہوئی آبادی اور اس سے متعلق مسائل کے حوالے سے شعور پیدا کرنا تھا۔
اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر کی آبادی اس وقت 7.4 بلین ہے جبکہ 2100 تک یہ 11.2 بلین ہوجائے گی۔ آبادی کے لحاظ سے چین اور بھارت دنیا کے دو بڑے ممالک ہیں۔ ان دونوں ممالک کی آبادی ایک، ایک ارب سے زائد ہے اور یہ دنیا کی کل آبادی کا 37 فیصد حصہ ہے۔
بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ماحولیاتی تبدیلیاں، خوراک، انفرا اسٹرکچر اور دیگر مسائل ہنگامی طور پر حل طلب ہیں۔
رواں برس یہ دن ’کم عمر لڑکیوں کا خیال رکھنے‘ کے عنوان کے تحت منایا جارہا ہے۔ ماہرین کے مطابق کم عمری کی شادی دنیا میں آبادی میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔
رواں برس کی تھیم خواتین کے حوالے سے 2 مقاصد پر مشتمل ہے، ایک کم عمری کی شادی۔ دوسرا خواتین کی آبادی میں اضافہ اور ان کی صحت و تعلیم سے متعلق خطرناک مسائل جو دنیا کی ترقی پر اثر انداز ہوں گے۔
بچوں کے لیے کام کرنے والی اقوام متحدہ کی ذیلی شاخ یونیسف کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 15 ملین شادیاں ایسی ہوتی ہیں جن میں دلہن کی عمر 18 سال سے کم ہوتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں ہر 3 میں سے 1 لڑکی کی جبراً کم عمری میں شادی کر جاتی ہے۔
کم عمری کی شادی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ لڑکیاں چاہے جسمانی اور ذہنی طور پر تیار نہ ہوں تب بھی وہ حاملہ ہوجاتی ہیں۔ کم عمری کے باعث بعض اوقات طبی پیچیدگیاں بھی پیش آتی ہیں جن سے ان لڑکیوں اور نوزائیدہ بچوں کی صحت کو شدید خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔
یو این ایف پی اے کی جانب سے جاری کیا جانے والا چارٹ
چونکہ کم عمری کی شادی زیادہ تر ترقی پذیر، جنگ زدہ علاقوں اور ممالک، اور گاؤں دیہاتوں میں انجام پاتی ہیں اور یہاں طبی سہولیات کا ویسے ہی فقدان ہوتا ہے لہٰذا ماں اور بچے دونوں کو طبی مسائل کا سامنا ہوتا جو آگے چل کر کئی پیچیدگیوں کا سبب بنتا ہے۔
اقوام متحدہ پاپولیشن فنڈیو این ایف پی اے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر باباتندے کے مطابق خواتین کی کم عمری کی شادی سے نمٹنے کا واحد حل یہ ہے کہ انہیں تعلیم دی جائے اور خود مختار کیا جائے۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں 62 ملین لڑکیاں ایسی ہیں جو تعلیم کے بنیادی حق سے محروم ہیں۔ تعلیم سے محرومی کے باعث انہیں اپنی صحت، اور دیگر حقوق سے متعلق آگہی نہ ہونے کے برابر ہے۔
ڈاکٹر باباتندے کے مطابق، ’حکومتوں کو چاہیئے کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کا بنیادی حق انہیں دلائے تاکہ انہیں اپنے حقوق اور اپنے خطرات سے آگاہی ہو‘۔
وہ کہتے ہیں، ’لڑکیوں کی خود مختاری آج کے دور میں اتنی ہی اہم ہے جتنا مردوں کا اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا اور کسی کے لیے بوجھ نہ بننا‘۔
یونیسکو کے پروگرام ’ایجوکیشن فار آل‘ کی جانب سے جاری کیا جانے والا چارٹ
دنیا کی کم عمر ترین نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی کہتی ہیں، ’میں دنیا کی ان 66 ملین لڑکیوں میں سے ایک ہوں جنہیں تعلیم حاصل کرنے سے روکا گیا‘۔
ملالہ یوسفزئی سوات کے پسماندہ علاقے سے تعلق رکھتی ہیں اور تعلیم حاصل کرنے کی پاداش میں انہیں طالبان کے حملہ کا نشانہ بننا پڑا۔ اب وہ دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کام کر رہی ہیں۔
وہ کہتی ہیں، ’اگر ہم دنیا کی آدھی آبادی کو پسماندہ چھوڑ دیں گے تو ہم کبھی ترقی نہیں کر سکتے‘۔ وہ لڑکیوں کے لیے پیغام دیتی ہیں، ’بے شک تم ایک لڑکی ہو، اور دنیا سوچتی ہے کہ تم کوئی کام نہیں کر سکتیں، تب بھی تم امید کا دامن ہاتھ سے مت چھوڑو‘۔
لندن: سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ایک ایسا ماڈل تیار کیا ہے جس کی مدد سے وہ موسم میں تغیر یا کلائمٹ چینج کو مدنظر رکھتے ہوئے خطرناک وبائی امراض کی پہلے سے پیشگوئی کر سکتے ہیں۔
ان امراض میں ایبولا اور زیکا وائرس جیسے امراض شامل ہیں۔ ماہرین کے مطابق یہ ماڈل بیماریوں کے پھوٹنے سے قبل انہیں سمجھنے، اور حکومتوں کو ان کے مطابق طبی پالیسیاں بنانے میں مدد دے گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ بیماریاں جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتی ہیں زیادہ خطرناک ہیں۔ چمگاڈر خاص طور پر ایسی جاندار ہیں جو کئی چھوت کی بیماریوں کا سبب بن سکتی ہیں۔
واضح رہے کہ ایبولا اور زیکا وائرس جیسے جان لیوا امراض بھی جانوروں سے انسانوں میں پھیلے۔
سائنسدانوں نے اس تحقیق کے لیے مغربی افریقہ کے ان حصوں کا انتخاب کیا جہاں 1967 سے 2012 کے دوران ’لاسا بخار‘ پھیلا تھا۔ ماہرین نے اس جگہ کی ماحولیاتی تبدیلیوں، فصلوں کی پیدوار میں تبدیلی، درجہ حرارت اور بارشوں کے سائیکل کا مطالعہ کیا۔
ماہرین نے اس بخار کا سبب بننے والے چوہوں اور ان کے جسمانی ساخت پر اثر انداز ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کا بھی مطالعہ کیا۔
اس تحقیق میں مستقبل میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کی پیش گوئیوں، آبادی، اور زمین کے استعمال میں تبدیلی کے بارے میں معلومات کو بھی شامل کیا گیا۔ ماہرین کے مطابق انہوں نے تحقیق میں ان عوامل کو بھی شامل رکھا جن کے باعث انسان جانوروں سے رابطے پر مجبور ہوتے ہیں۔
اطالوی پیانو نواز لڈووکو اناڈی نے بحر منجمد میں گلیشیئر کے سامنے اپنی سحر انگیز پرفارمنس سے سماں باندھ دیا۔
پیانو کی یہ پرفارمنس عالمی ادارے گرین پیس کی بحر منجمد کی حفاظت کے لیے چلائی جانے والی مہم کا حصہ ہے۔ عالمی پیانو نواز نے اپنی دھن ’الجی فار دا آرکٹک‘ ایک سمندر میں ایک تیرتے ہوئے پلیٹ فارم پر بیٹھ کر پیش کی۔
انہوں نے اپنی پرفارمنس ویلن برگ برین گلیشیئر کے سامنے دی۔ ان کا کہنا تھا کہ اپنی موسیقی کے ذریعے انہوں نے ان 8 ملین افراد کی حمایت کی ہے جو بحر منجمد کے ماحول کو بچانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
بحر منجمد شمالی کے بیشتر حصے پر برف جمی ہوئی ہے۔ یہاں آبی حیات بھی کافی کم ہیں جبکہ نمکیات دیگر تمام سمندروں کے مقابلے میں سب سے کم ہیں۔
اس کا رقبہ 14,056,000 مربع کلومیٹر ہے۔ اس کے ساحل کی لمبائی 45 ہزار 389 کلومیٹر ہے۔ یہ تقریباً چاروں طرف سے زمین میں گھرا ہوا ہے جن میں یورپ، ایشیا، شمالی امریکہ، گرین لینڈ اور دیگر جزائر شامل ہیں۔
کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر کا اثر بحر منجمد پر بھی پڑا ہے۔ شدید گرمی کے باعث اس کے گلیشیئرز کی برف پگھلنی شروع ہوگئی ہے جس سے ایک تو سطح سمندر میں اضافے کا خدشہ ہے، دوسری جانب یہاں پائی جانے والی جنگلی حیات جیسے برفانی ریچھ وغیرہ کی بقا کو بھی سخت خطرات لاحق ہیں۔
امریکا میں واقع عالمی خلائی ادارے ناسا نے خبردار کیا ہے کہ دنیا بھر کے مختلف حصوں میں جنگلات میں لگنے والی آگکلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر میں اضافہ کا باعث بن رہی ہے۔
ناسا جنگلات میں لگنے والی آگ کے کرہ ارض کی آب و ہوا پر اثرات کے بارے میں تحقیق کر رہی ہے۔
واضح رہے کہ رواں برس مئی میں کینیڈا کے شمال میں واقع جنگلات میں آگ لگ گئی تھی جس کے باعث 88 ہزار افراد کو فورٹ مک مرے سے منتقل ہونا پڑا۔ اسی طرح کی شدت والی آگ دیگر کئی ممالک میں بھی لگ چکی ہے۔
سخت موسم گرما میں جنگلات میں آگ لگنا معمول کی بات ہے۔ یہ آگ آس پاس کی آبادیوں کو بھی نقصان پہنچاتی ہے جبکہ کئی ایکڑ کے درخت جل کر راکھ ہوجاتے ہیں اور قیمتی زمینی مٹی بھی ضائع ہوجاتی ہے۔
ناسا کے کاربن سائیکل اور ایکو سسٹم آفس کے بانی ڈائریکٹر پیٹر گرفتھ کا کہنا ہے، ’جنگلات کی آگ گرین ہاؤس گیسز کی مقدار میں اضافہ کرتی ہے‘۔
واضح رہے کہ ماحولیاتی تبدیلی یا کلائمٹ چینج اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ اس وقت دنیا کی بقا کے لیے 2 اہم ترین خطرات ہیں۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق کلائمٹ چینج کئی ممالک کی معیشت پر برا اثر ڈالے گی جبکہ اس سے دنیا کو امن و امان کے حوالے سے بھی شدید خطرات لاحق ہوجائیں گے۔
ممبئی: بھارت کے شہر ممبئی میں ایک فلائی اوور کے نیچے خالی جگہ پر باغ بنا لیا گیا۔ اب اس فلائی اوور کے اوپر گاڑیاں دوڑتی ہیں اور نیچے شہری اپنا فارغ وقت پھولوں اور پودوں کے ساتھ گزارتے ہیں۔
ممبئی کے علاقے مٹنگا میں ڈاکٹر بابا صاحب روڈ پر واقع فلائی اوور کے نیچے خالی جگہ پر باغ بنالیا گیا۔ اس باغ کا نام نانا لعل ڈی مہتا گارڈن رکھا گیا ہے۔
یہ فیصلہ اس خالی جگہ کو غلط استعمال، خاص طور پر نشئی افراد کی پناہ گاہ بننے سے بچانے کے لیے کیا گیا ہے۔
اس سے پہلے 4 سال قبل جب یہ فلائی اوور کھولا گیا تو اس کے نیچے نشئی افراد، جواریوں اور گداگروں نے اپنا ٹھکانہ بنالیا۔ کچھ رہائشیوں نے اس بارے میں ممبئی کی میونسپل کارپوریشن کو آگاہ کیا اور ان کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کی اپیل کی۔
شہریوں نے اپنی مدد آپ کے تحت یہاں سیکیورٹی گارڈز بھی تعینات کیے تاکہ وہ اس جگہ کو ان لوگوں سے محفوظ رکھیں اور یہاں کچرا کنڈی نہ بننے دیں۔ جواریوں اور نشئی افراد کی وہاں موجودگی مقامی افراد کے لیے بے حد تکلیف اور پریشانی کا باعث بن رہی تھی۔
سال 2011 میں یہاں کے لوگوں نے مقامی و شہری حکومتوں کو درخواست دی جس میں تجویز پیش کی گئی کہ اس جگہ کو گارڈن میں تبدیل کردیا جائے۔ کئی درخواستوں کے بعد 2015 میں میونسپل کارپوریشن نے اس جگہ کی تزئین و آرائش کا کام شروع کیا۔
اس گارڈن کے فرش کو دریا نرمادا کے بہاؤ کی طرز پر ڈیزائن کیا گیا ہے۔ انجینیئرز اور آرکیٹیکٹس نے دریا کے بہاؤ کا مشاہدہ کیا اور اس کا نقش گارڈن کے فرش پر ڈیزائن کیا۔ 600 میٹر لمبے راستے کو نیلے رنگ سے رنگا گیا ہے جبکہ اطراف میں دریائے نرمادا کے کنارے واقع پہاڑوں کی نقل بنائی گئی ہے۔
گارڈن میں ایک گرینائٹ کا بلاک بھی نصب کیا گیا ہے جس میں دریائے نرمادا کی تاریخ اور اس کے بارے میں معلومات درج ہیں۔
گارڈن میں 300 لائٹس اور سی سی ٹی وی کیمرے بھی نصب کیے گئے ہیں تاکہ کسی ناخوشگوار واقعہ سے بچا جا سکے۔
قریبی آبادی کے رہائشی کریدیتا پٹیل اس بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’ممبئی جیسے پرہجوم شہر میں ایسی پرسکون جگہ کا ہونا ایک نعمت ہے۔ یہاں ہم اپنے دوستوں اور پڑوسیوں سے ملتے ہیں اور یہاں واک کر کے ہمیں بہت مزہ آتا ہے‘۔
اس گارڈن کو صبح 8 سے دوپہر 1 اور شام 4 سے رات ساڑھے 9 بجے تک کھولا جاتا ہے۔
برسلز: سابق فوجی افسران نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر جنوبی ایشیا میں مختلف تنازعوں کا سبب بن سکتا ہے۔
پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے 3 سابق فوجی افسران نے ایک تحقیقی رپورٹ شائع کی ہے جس میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ تینوں ممالک مل بیٹھ کر کلائمٹ چینج سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے پائیدار منصوبوں پر کام کریں اور علاقائی تعاون میں اضافہ کریں، دوسری صورت میں یہ تینوں ممالک آپس میں مختلف تنازعوں کا شکار ہوجائیں گے جس سے ان 3 ممالک میں بسنے والے کروڑوں افراد کی زندگیوں کو خطرہ ہے۔
یہ رپورٹ گلوبل ملٹری ایڈوائزری کونسل آن کلائمٹ چینجکی جانب سے شائع کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مصنفین پاکستان کے لیفٹننٹ جنرل (ر) طارق وسیم غازی، بنگلہ دیش کے میجر جنرل (ر) اے این ایم منیر الزماں اور بھارت کے ایئر مارشل (ر) اے کے سنگھ ہیں۔
رپورٹ کے مصنفین
رپورٹ کے مطابق مشترک آبی ذخائر کی تقسیم اور گلیشیئرز پر سے اپنی افواج ہٹانا پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان موجود کئی تنازعوں سے بچاؤ کا سبب بن سکتا ہے۔
واضح رہے کہ جنوبی افریقہ کا رقبہ دنیا کے کل رقبہ کا 4 فیصد ہے جبکہ اس کی 1.7 آبادی دنیا کی کل آبادی کا 20 فیصد حصہ ہے۔ یہ خطہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے دنیا کا کمزور ترین اور شدید خطرات میں گھرا ہوا خطہ ہے۔
یہ خطہ سیاسی طور پر عدم استحکام کا شکار ہے۔ یہی نہیں اس خطہ میں علاقائی تناؤ بھی پائے جاتے ہیں جن میں پاکستان اور بھارت سرفہرست ہیں۔
رپورٹ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ایئر مارشل (ر) اے کے سنگھ نے بتایا، ’جنوبی ایشیا میں آنے والے حالیہ سیلاب صرف ایک مثال ہیں کہ کلائمٹ چینج کس طرح جنوبی ایشیائی ممالک کی معیشتوں کو درہم برہم کرسکتا ہے۔ اس کا سب سے واضح اثر تو بے روزگاری کی صورت میں سامنے آیا ہے‘۔
ان کے مطابق یہ اثرات آگے چل کر شدت پسندی اور منظم جرائم کا سبب بنیں گے جس سے موجودہ تنازعوں میں اضافہ ہوگا، جبکہ دیگر کئی نئے تنازعہ پیدا ہوجائیں گے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ آبی ذخائر کو مناسب طریقے سے تقسیم کرنا جنوبی ایشیا میں امن و استحکام قائم رکھنے کا واحد حل ہے۔ پاکستان چند ہی عشروں میں پانی کی کمی کا شکار ممالک میں شامل ہوچکا ہے، جبکہ بھارت کی کئی ریاستوں میں اچانک پانی کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے۔
پاکستان کے لیفٹننٹ جنرل (ر) طارق وسیم غازی نے اس رپورٹ کو ’افواج کی جانب سے امن کے لیے ایک کوشش‘ کا نام دیا ہے۔
اس سے قبل ورلڈ بینک بھی اپنی ایک رپورٹ میں متنبہ کرچکا ہے کہ کلائمٹ چینج اور پانی کی کمی کچھ ممالک کی قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی میں 2050 تک 6 فیصد کمی کردے گی۔ پانی کی قلت کے باعث مشرق وسطیٰ کو اپنی جی ڈی پی میں 14 فیصد سے بھی زائد کمی کا سامنا ہوسکتا ہے۔
شارجہ: شارجہ میں ایک مسجد میں ماحول دوست خصوصی اقدامات کیے گئے ہیں جس کے بعد اب یہ مسجد 37 فیصد توانائی کی بچت کرتی ہے۔
متحدہ عرب امارات کی 5000 مساجد میں سے ایک مسجد، مسجد التوبہ کو 6 ماہ کے پائلٹ پروجیکٹ کے تحت ماحول دوست مسجد میں تبدیل کردیا گیا ہے۔
اس مسجد میں توانائی کی بچت کرنے والے 5 آلات کو نصب کیا گیا اور صرف 6 ماہ میں اس سے حیرت انگیز نتائج برآمد ہوئے۔ جنوری 2016 تک اس مسجد میں بجلی کے استعمال میں 37 فیصد کمی آئی۔ یہاں پر بجلی کی کھپت میں 778 کلو واٹ کمی دیکھنے میں آئی۔ یہ تناسب کسی بھی جگہ پر گرمیوں کے موسم میں توانائی کی بچت کی بلند ترین سطح ہے۔
یہاں پر بجلی کی بچت کے لیے اسمارٹ تھرمو سٹیٹ نصب کیے گئے جو کہ پچھلے 3 سال سے متحدہ عرب امارات میں مقامی طور پر تیار کیے جا رہے ہیں۔
شارجہ کے محکمہ مذہبی امور نے انجینیئرز کو اس پروجیکٹ کی نگرانی و مشاہدے کے لیے مقرر کیا ہے تاکہ مشرق وسطیٰ میں مساجد توانائی کی بچت کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔
مساجد میں اکثر نمازی اس بات کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ نماز کے وقت شدید گرمی ہوجاتی ہے کیونکہ اے سی کو صحیح وقت پر کھولا نہیں جاتا۔ یہ تھرمو سٹیٹ روزانہ کی بنیاد پر نماز کے وقت، اور اے سی کے ٹھنڈا کرنے کی مدت کو مدنظر رکھتے ہوئے اے سی کو چلا دیتے ہیں جس سے بجلی کی بچت بھی ممکن ہے اور نمازی تکلیف سے بھی بچ جاتے ہیں۔
ان تھرمو سٹیٹ کی مؤثر کارکردگی کے لیے انہیں ’آٹو اذان‘ کے آلات سے بھی منسلک کیا گیا ہے۔ چونکہ اذان کا وقت ہر روز مختلف ہوتا ہے اور روزانہ 7 سے 10 منٹ کا فرق آجاتا ہے تو اسی فرق کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ آلات اے سی کو مقررہ وقت پر کھول دیتے ہیں۔
اس پروجیکٹ پر تقریباً 200 ڈالر کی رقم خرچ کی جارہی ہے۔ ملک بھر کی تمام مساجد کی انتظامیہ کے لیے ممکن نہیں کہ وہ اپنی مساجد کو ماحول دوست بنائیں۔ البتہ پروجیکٹ شروع کرنے والی تنظیم ہنی ویل انوائرنمنٹ اینڈ انرجی سلوشن کے جنرل مینیجر دلیپ سنہا کے مطابق پروجیکٹ پر جو رقم خرچ کی جائے گی، وہ بجلی کے بلوں میں کمی کے بعد 3 ماہ میں ہی وصول ہوجاتی ہے۔
پروڈکٹ مارکیٹنگ مینیجر محمد التاول کے مطابق کئی مساجد کی انتظامیہ نے اس پروجیکٹ میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ ان کے مطابق انہوں نے ان آلات کی تنصیب کو نہایت سادہ رکھا ہے اوراسے نصب کرنے میں کسی قسم کے تار استعمال نہیں ہوتے۔
ذرائع کے مطابق متحدہ عرب امارات کی حکومت اس قسم کے دیگر کئی منصوبوں پر کام کر رہی ہے اور بہت جلد ایسے پروجیکٹس شاپنگ مالز اور اسکولوں میں بھی شروع کردیے جائیں گے تاکہ مشرق وسطیٰ کے گرم موسم سے مطابقت کرتے ہوئے توانائی کی زیادہ سے زیادہ بچت کو ممکن بنایا جا سکے۔
اسلام آباد: وزیر اعظم گرین پاکستان پروگرام کے تحت جنگلات اور جنگلی حیات کے فروغ کے لیے 2 ارب روپے کی منظوری دی گئی ہے جبکہ وفاق اور صوبے آئندہ مالی سال کے دوران 50، 50 فیصد شراکت داری کے تحت شجر کاری کریں گے۔
آئی جی فاریسٹ محمود ناصر نے اسلام آباد میں میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ گزارا فاریسٹ میں بھی حکومتیں سرمایہ کاری کریں گی۔ انہوں نے بتایا کہ پرائیویٹ جنگلات رقبہ کے لحاظ سے سرکاری جنگلات سے بھی زیادہ ہیں جس کے باعث گزارا فاریسٹ میں سرمایہ کاری کی پالیسی بنائی گئی ہے۔
آئی جی فارسٹ نے بتایا کہ گلوبل انوائرمنٹ فیسلٹی نے پاکستان میں برفانی چیتے کے تحفظ کے لیے 46 لاکھ ڈالر سے زائد کی گرانٹ کی بھی منظوری دی ہے۔ وزارت ماحولیاتی تبدیلی اور یواین ڈی پی مشترکہ طور پر اس پروجیکٹ پر عمل درآمد کریں گے۔
انہوں نے بتایا کہ جدید تحقیق کے نتیجے سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں برفانی چیتے کی تعداد 200 سے زائد ہے جبکہ دنیا بھر میں ان کی تعداد 4 سے 6 ہزار کے لگ بھگ رہ گئی ہے۔
واشنگٹن: ماہرین نے رواں برس مئی کو زمین کا گرم ترین مہینہ قرار دیا ہے۔ ناسا کی جانب سے جاری اعداد و شمار کے مطابق کرہ شمالی میں رواں برس گرم ترین موسم بہار ریکارڈ کیا گیا۔
ماہرین کے مطابق قطب شمالی میں اس بار غیر معمولی گرمی دیکھی گئی جس کے باعث بحر الکاہل اور گرین لینڈ میں برف معمول سے پہلے پگھلنی شروع ہوگئی۔ الاسکا میں گرم ترین موسم بہار ریکارڈ کیا گیا جبکہ فن لینڈ کے موسم میں دنیا کے دیگر حصوں کے مقابلے میں 3 سے 5 ڈگری اضافہ دیکھا گیا۔
جنیوا کے ورلڈ کلائمٹ ریسرچ پروگرام کے ڈائریکٹر ڈیوڈ کارلسن کے مطابق موسم میں یہ تغیر ایک الارمی صورتحال ہے۔ ماہرین کے مطابق اس کی ایک وجہ ایل نینو بھی ہے۔
ایل نینو اس وقت واقع ہوتا ہے جب بحر الکاہل میں پانی غیر معمولی گرم ہو جاتا ہے اور دنیا بھر میں موسمی بگاڑ کا باعث بنتا ہے، جس کے نتیجے میں خشک سالی اور سیلاب آسکتے ہیں۔
البتہ ماہرین صرف ایل نینو کو اس کی وجہ قرار دینے سے انکاری ہیں۔ ال نینو کے باعث آسٹریلیا کے 53 فیصد حصہ میں گرم ترین موسم خزاں ریکارڈ کیا گیا تاہم سائنسدانوں کے مطابق اس کی بنیادی وجہ گرین ہاؤس گیسز کا اخراج ہی ہے۔
اس سے قبل اپریل کو بھی تاریخ کا گرم ترین اپریل قرار دیا گیا تھا۔