Tag: ماحولیات

  • ہوشیار! کلائمٹ چینج کے باعث پہلا ممالیہ معدوم

    ہوشیار! کلائمٹ چینج کے باعث پہلا ممالیہ معدوم

    کینبرا: سائنسدانوں نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر کے باعث آسٹریلیا میں پائے جانے والے ایک چوہے کی نسل معدوم ہوچکی ہے۔

    بریمبل کے میلومیز نامی یہ چھوٹا چوہا گریٹ بیریئر ریف کا مقامی ممالیہ ہے اور انسانی افعال کے باعث موسمیاتی تغیر یا کلائمٹ چینج کی وجہ سے اس کی نسل مکمل طور پر ختم ہوچکی ہے۔ یہ کلائمٹ چینج کے باعث معدوم ہونے والی پہلا ممالیہ ہے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے خواتین سب سے زیادہ متاثر

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے نمٹنے کے لیے کاربن اخراج کو ٹھوس بنانے کا طریقہ

    ماہرین کے مطابق یہ معدومی صرف ایک آغاز ہے، کلائمٹ چینج اور ماحولیاتی تبدیلیاں دنیا کے ہر جاندار کے لیے ایک خطرہ بن چکی ہیں۔

    برمبل کے نامی یہ چوہا آسٹریلیا کے کوئنز لینڈ کے شمالی ساحل پر پایا جاتا ہے۔ یہ ایک کم آبادی والا ممالیہ تھا جبکہ اسے بیریئر ریف کا مقامی ممالیہ کہا جاتا تھا۔

    ماہرین کے مطابق اس چوہے کی معدومی کی وجہ سطح سمندر کا بلند ہونا ہے۔ یہ علاقہ سمندر میں پانی میں اضافے کی وجہ سے کئی بار زیر آب آ چکا ہے جس ک باعث کئی چوہے ڈوب کے مر گئے جبکہ ان کے رہنے کے ٹھکانے بھی تباہ ہوگئے۔

    ماہرین نے حتمی طور پر اس نسل کو معدوم قرار دے دیا ہے اور کہا ہے کہ اب ان کی دوبارہ افزائش کا کوئی امکان نہیں ہے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج اور پانی کی قلت سے مختلف ممالک کی جی ڈی پی میں کمی

    مزید پڑھیں: گلوبل وارمنگ سے گردوں کے امراض میں اضافے کا خطرہ

    واضح رہے کہ کلائمٹ چینج یعنی موسمیاتی تغیر اور گلوبل وارمنگ یعنی عالمی حدت میں اضافے کی وجہ سے 1901 سے لے کر 2010 تک سمندروں کی سطح میں 20 سینٹی میٹر کا اضافہ ہوچکا ہے۔

    اتنا اضافہ پچھلے 60 ہزار سال کی تاریخ میں بھی نہیں دیکھا گیا البتہ آسٹریلیا کے ساحلوں پر صرف 1993 سے 2014 تک کے عرصہ میں یہ اضافہ دگنی مقدار میں دیکھنے میں آیا ہے۔

  • قومی پالیسی برائے جنگلات کا مسودہ تیار، منظوری کا منتظر

    قومی پالیسی برائے جنگلات کا مسودہ تیار، منظوری کا منتظر

    اسلام آباد: کلائمٹ چینج کی وزارت نے قومی پالیسی برائے جنگلات کا حتمی مسودہ تیار کر کے مشترکہ مفادات کونسل کو ارسال کردیا ہے۔ کونسل کی منظوری کے بعد پالیسی ملک بھر میں نافذ العمل ہوجائے گی۔

    حکام کے مطابق پالیسی میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ملک میں موجود جنگلات کو بچانے کے لیے صوبائی محکمہ جنگلات اور جنگلی حیات، متعلقہ وفاقی ادارے، گلگت بلتستان، فاٹا، آزاد جموں و کشمیر اور غیر سرکاری تنظیمیں وسیع پیمانے پر ایک دوسرے سے روابط رکھیں گے۔ پالیسی کے تحت مقامی آبادیوں کے ذریعہ جنگلات کے رقبہ میں اضافہ کرنے کے منصوبوں پر کام کیا جائے گا۔

    مزید پڑھیں: خیبر پختونخوا میں جنگلات سے غیر قانونی تعمیرات ختم کرنے کا فیصلہ

    حکام کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف نے مئی 2015 میں قومی پالیسی برائے جنگلات تشکیل دینے کی ہدایت کی تھی۔

    حکام کے مطابق پالیسی میں اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ اس شعبہ میں صوبوں کی خود مختاری کے تحت جو پالیسیاں اور منصوبے بنائے گئے ہیں ان کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔ یہ پالیسی زیر تکمیل منصوبوں اور پالیسیوں کے ساتھ مطابقت پیدا کرتے ہوئے جنگلات سے متعلق ان بین الاقوامی معاہدوں پر کام کرے گی جن کا پاکستان ایک حصہ ہے۔

    مزید پڑھیں: عمران خان 200 بلین روپے مالیت کے جنگلات کی کٹائی پر برہم

    پالیسی میں تجویز کیے گئے تمام اقدامات اور ہدایات کو آئین کے تحت تیار کیا گیا ہے۔

    پالیسی کا مقصد جنگلات کے رقبہ میں اضافہ کے لیے صوبوں اور مقامی آبادیوں کو اس سلسلے میں ہر طرح کی قانونی و معاشی معاونت فراہم کرنا ہے۔

  • گول نیشنل پارک – جہاں پاکستان کا ساراحسن اکھٹا ہوگیا ہے

    گول نیشنل پارک – جہاں پاکستان کا ساراحسن اکھٹا ہوگیا ہے

    چترال: جنت نظیرگول نیشنل پارک چترال کے پہاڑی سلسلے میں واقع ہے، ہزاروں ایکڑ رقبے پرمحیط گول نیشنل پارک کی اونچائی سطح سمندر سے تقریباً دس ہزار سے بارہ ہزارفٹ تک بلند ہے۔

    مارخور، گیدڑ ،بھیڑیے، لومڑی، آئی بیکس ، شاہین، مرغ زریں اوربرفانی چیتے سمیت دنیا بھرکے حسین جانورچترال گول نیشنل پارک کا حسن ہیں۔

    5

    گول نیشنل پارل کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں تاہم یہ بین الاقوامی نیشنل پارک پاکستان کا حصہ ہے۔ وطنِ عزیزکے چاروں قومی اثاثے چترال گول نیشنل پارک ہی میں پائے جاتے ہیں۔

    6

    اس میں ہمارا قومی جانور مارخورموجود ہے جس کی تعداد 1500 سے 2500 تک ہے، اس میں ایسے مارخور بھی ہیں جن کے سینگوں کی لمبائی سترانچ سے زیادہ ہے، اگران مارخوروں کے شکار کی اجازت دی جائے تو ایسے مارخوروں کی قیمت دو سے تین کروڑ روپے بنتی ہے۔

    پاکستان کا قومی درخت دیار بھی اسی پارک میں پایا جاتا ہے جن میں ہزاروں سال قدیم درخت بھی موجود ہیں۔ پاکستان کے قومی پھول چنبیلی نے بھی گول نیشنل پارک کے حسن میں خاطرخواہ اضافہ کیا ہے۔

    3

     

    7

    پاکستان کے قومی پرندہ چکورکی مختلف نسلیں اسی پارک میں پائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ گیدڑ، بھیڑیا، لومڑی، آئی بیکس ، شاہین، مرغ زریں اوربرفانی چیتے بھی اسی نیشنل پارک میں پائے جاتے ہیں تاہم چند سالوں سے برفانی چیتے نظروں سے اوجھل ہیں اوران کے زندہ یا مردہ ہونے کے بارے میں کسی کو کچھ معلوم نہیں۔

    چترال گول نیشنل پارک میں سرکاری اورغیر سرکاری بااثرافراد غیر قانونی طور پرمارخور کا اب بھی شکاربھی کرتے رہتے ہیں۔اگر چترال گول نیشنل پارک کے بفرزون میں جانوروں کے محدود شکار کیلئے قانونی طورپراجازت دی جائےتو قانونی شکار کی آمدنی سے علاقے میں کروڑوں روپے کے ترقیاتی کاموں کا جال بچھایا جاسکے گا۔

    4

    چترال گول نیشنل پارک کے موجودہ ڈویژنل فارسٹ آفیسر نے اس کی بہتری کیلئے نہایت اچھے اقدامات اٹھائے ہیں یہاں ایک ریسٹ ہاؤس بھی تعمیر کیا گیا ہے جس میں سیاح اورمحکمے کے افسران بھی موسم گرما اورسرما میں قیام کرکے ان قدرتی مناظر سے محظوظ ہوسکتے ہیں۔ موجودہ فاریسٹ آفیسرسے قبلچترال گول نیشل پارک کو سیاحوں، صحافیوں اور محققین کیلئے شجر ممنوعہ قرار دیا تھا جس کی وجہ سے بعض افراد کو چوری چپھے یہاں شکار کا موقع مل جاتاتھا تاہم اب اس میں سیاحوں اورعام لوگوں کی آمد سے غیر قانونی شکارکی شرح اگر ختم نہیں ہوئی ہے توکافی حد تک کم ضرور ہوئی ہے۔

    1

    چترال گول نیشل پارک میں ایک غیرسرکاری ٹرسٹ چئیر لفٹ لگانا چاہتا تھا جس سے یقینی طور پر یہاں کے سیاحت کو بہت فروغ مل سکتا تھا تاہم چترال کے سابق مہتر (حکمران) کے بیٹے نے اسے ناکام بنانے اور اسے تعمیر نہ کرنے میں بڑا کردار ادا کیا اگر چہ 1975 کے نوٹیفیکیشن کے مطابق سابق حکمران کے زیراستعمال تمام اراضی اورملکیت کواب سرکاری ملکیت قرار دیا جاچکا ہے مگراب بھی اس پر حکومت کا قبضہ نہیں ہے اور یہ لوگ اس قسم کے منصوبوں میں رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں۔

  • کلائمٹ چینج سے نمٹنے کے لیے کاربن اخراج کو ٹھوس بنانے کا طریقہ

    کلائمٹ چینج سے نمٹنے کے لیے کاربن اخراج کو ٹھوس بنانے کا طریقہ

    واشنگٹن: سائنسدانوں نے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو زیر زمین گہرائی میں پمپ کرنے کے بعد اسے پتھر میں تبدیل کر کے کلائمٹ چینج یعنی ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کا نیا طریقہ دریافت کیا ہے۔

    یہ تجربہ آئس لینڈ میں کیا گیا جہاں کاربن کو پانی کے ساتھ مکس کر کے اسے زمین میں گہرائی تک پمپ کیا گیا۔ اسے اتنی گہرائی تک پمپ کیا گیا جہاں آتش فشاں کے ٹھوس پتھر موجود ہوتے ہیں اور وہاں یہ فوری طور پر ٹھوس پتھر میں تبدیل ہوگیا۔

    co2-1

    تحقیق کے سربراہ جرگ میٹر کے مطابق کاربن کا اخراج اس وقت دنیا کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے اور اس کے نقصانات سے بچنے کا واحد حل یہی ہے کہ اسے ٹھوس شکل میں تبدیل کرلیا جائے۔

    کاربن ڈائی آکسائیڈ اس وقت گلوبل وارمنگ یعنی عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ ہے اور سائنسدان ایک عرصے سے کاربن کو محفوظ کرنے یعنی’کاربن کیپچر اینڈ اسٹوریج ۔ سی سی ایس پر زور دے رہے ہیں۔

    اس سے قبل کاربن کو مٹی کی چٹانوں کے نیچے دبانے کا تجربہ کیا گیا لیکن اس میں خطرہ یہ تھا کہ وہاں سے کسی بھی وقت لیکج شروع ہوسکتی تھی۔

    co2-2

    آئس لینڈ کے ہیلشیڈی پلانٹ میں شروع کیا جانے والا یہ پروجیکٹ ’کارب فکس پروجیکٹ‘ کہلاتا ہے جو آئس لینڈ کے دارالحکومت کو بجلی بھی فراہم کرتا ہے۔ یہ پلانٹ سالانہ 40 ہزار ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ استعمال کرتا ہے۔ 2012 میں یہاں 250 ٹن کاربن کو پانی کے ساتھ زیر زمین پمپ کرنے کا عمل شروع کیا گیا تھا۔

    سائنسدانوں کا خیال ہے کہ زمین کے لیے نقصان دہ مائع کو ٹھوس بنانے میں کئی سو یا کئی ہزار سال لگ سکتے ہیں تاہم اب تک جو بھی مائع زیر زمین پمپ کیا جاچکا ہے اس کا 95 فیصد حصہ 2 سال میں سفید پتھر میں تبدیل ہوچکا ہے۔

    co2-3

    تحقیق میں شامل ایک پرفیسر کے مطابق اس کامیابی سے انہیں بہت حوصلہ ملا ہے اور اب وہ سالانہ 10 ہزار ٹن کاربن زیر زمین پمپ کرنے پر کام کر رہے ہیں۔ کولمبیا یونیورسٹی کے ماہر آب مارٹن اسٹٹ کے مطابق اس طریقہ کار سے کاربن کی ایک بڑی مقدار کو محفوظ طریقہ سے پتھر میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔

    واضح رہے کہ ماحولیاتی تبدیلی یا کلائمٹ چینج اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ اس وقت دنیا کی بقا کے لیے 2 اہم ترین خطرات ہیں۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق کلائمٹ چینج کئی ممالک کی معیشت پر برا اثر ڈالے گی جبکہ اس سے دنیا کو امن و امان کے حوالے سے بھی شدید خطرات لاحق ہوجائیں گے۔

  • سمندروں کا عالمی دن: صحت مند سمندر‘ صحت مند کرہ ارض

    سمندروں کا عالمی دن: صحت مند سمندر‘ صحت مند کرہ ارض

    کراچی: آج پاکستان سمیت دنیا بھرمیں آج سمندروں کا دن منایا جا رہا ہے، آج کے دن کا عنوان ’’’’صحت مند سمندر‘ صحت مند کرہ ارض‘‘ تجویز کیا گیا ہے۔

    سمندروں کاعالمی دن 1992 میں ریوڈی جینرو میں ہونے والی زمین کے نام سے منعقد کی جانے والی کانفرنس سے منانے کا آغاز ہوا جبکہ یہ دن اقوام متحدہ کے تحت 2008 سے ہرسال سمندر کے تحفظ کا شعوراجاگر کرنے کے لئے منایا جاتا ہے۔

    ocean-post-4

    سمندر انسانی زندگی میں اہم کردار ادا کر تے ہیں ،اس کی اور انسان کی دوستی ابتدا سے ہے۔ اس دن ساحلوں کی صفائی، تعلیمی پروگرام، تصاویرسازی، سمندر سے حاصل ہونے والی لذیذ غذا کے ایونٹس سجانے سمیت دیگر تقاریب منائی جاتی ہیں جن کا بنیادی مقصد انسانوں میں سمندر کے تحفظ کا احساس پیدا کرنا ہے۔

    اس دن کو منانے کا مقصد انسانی زندگی میں پانی کی اہمیت ، آبی جانوروں کا تحفظ اور سمندری آلودگی کم کرنا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندرہماری زمین کا دل اور پھیپھڑے ہیں کیونکہ یہ زمین پراستعمال ہونے والا چالیس فیصد تازہ پانی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ 75فیصد آکسیجن بھی پیدا کرتے ہیں جس سے ہم سانس لیتے ہیں۔

    ocean-post-1

    اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی کل آبادی کا 40 فیصد حصہ سمندروں اور ساحلوں کے ساتھ جڑے ایک سو کلو میٹر تک کے علاقوں میں آباد ہے۔ اس مناسبت سے سمندروں کا ماحول انسان اور اس کی بقا کے لیے انتہائی اہم ہے۔

    کروڑوں انسانوں کی روزمرہ کی ضروریات کا انحصار سمندری حیات اور اس سے وابستہ کاروبار پر ہے۔ یہ ساحل ان افراد کے لیے خوراک کا ذریعہ اور رہائشی ٹھکانے بھی ہیں۔ اس وقت سمندری پانی اور اس میں موجود نباتات اور حیوانات کو مختلف ملکوں کے ساحلی شہروں سے کیمیاوی اور دوسرے مضر اجزاء کا سامنا ہے جبکہ سمندروں میں ہونے والے حادثے بھی سمندری حیات کے لیے سنگین خطرہ خیال کیے جاتے ہیں۔

    ocean-post-3

    اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ سمندرکو محفوظ بنانے کے بعد اسے توانائی کا متبادل ماخذ بھی بنایا جا سکتا ہےجبکہ سمندری علوم کے ماہرین زمین پر پھیلے وسیع و عریض سمندروں کو معدنی ذخائر کا بھی ایک بے بہا خزانہ سمجھتے ہیں۔

    پاکستان کا ساحل سمندر1050 کلو میٹرپرپھیلا ہوا ہے۔ اس میں 700 کلو میٹر کا رقبہ بلوچستان کے ساتھ جبکہ 350 کلو میٹر کی حدود سندھ کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ پاکستان ہر سال سمندر سے پکڑی جانے والی کروڑوں روپے کی آبی حیات بیرون ممالک فروخت کرتا ہے۔ اس کے علاوہ 40 لاکھ سے زائد افراد ماہی گیری کے پیشے سے منسلک ہیں۔ مگر اب اس میں تیزی سے کمی آرہی ہے جس کی وجہ آبی آلودگی ہے۔

    ocean-post-2

    پاکستان کے سمندری حدود میں آلودگی کی سب سے بڑی وجہ جہازوں اور لانچوں کا بہنے والا گندا تیل اور بغیرٹریٹمنٹ کے فیکٹریوں سے آنے والا فضلا ہے۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی ادارے (یو این ڈی پی) کے مطابق بحری آلودگی کی 80 فیصد وجہ زمینی ذرائع ہیں یعنی دریاوں کی آلودگی،شہروں اور صنعتوں سے خارج ہوتا گندا پانی وغیرہ ہے۔جبکہ تیل کے ٹینکز سے رسنے سے بھی سمندر آلودہ ہو رہا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندر کی شکل میں دنیا کے تین حصوں پرمشتمل پانی کا ذخیرہ جو حیاتِ انسانی کے لئے ضروری ہے، ایک خاموش تباہی کی سمت بڑھ رہا ہے۔

  • پاکستان میں شدید گرمی کی وجہ بھارتی بجلی گھر ہیں، این ڈی ایم اے کا انکشاف

    پاکستان میں شدید گرمی کی وجہ بھارتی بجلی گھر ہیں، این ڈی ایم اے کا انکشاف

    کراچی:نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے انکشاف کیا ہے کہ بھارت میں کوئلے پر چلنے والے بجلی گھر پاکستان میں گرمی کی شدت کی ایک وجہ ہیں کیونکہ ڈارک کول کی وجہ سے پاکستان کے گلیشیئرز پر بھیانک اثرات پڑ رہے ہیں جس کی وجہ سے گلیشیئرز پھٹ رہے ہیں۔

    یہ انکشاف این ڈی ایم اے ڈی آر آر کمیٹی کے ممبر اور اس ضمن میں وزیراعظم ہاوس کے مقررہ افسر احمد کمال نے ایک ورکشاپ کے بعد اے آروائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ 

    3-7

    احمد کمال کا کہنا ہے کہ پاکستان کی ناردرن سرحد کے قریب بھارت 9ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرتا ہے، یہ بجلی کوئلے پر چلنے والے بجلی گھروں سے حاصل ہوتی ہے لیکن ان بجلی گھروں میں استعمال ہونے والا کوئلہ پاکستان کے گلیشیئرز کے لیے خطرہ ثابت ہوا ہے،تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ڈارک کول کی وجہ سے خطرناک دھواں اٹھتا ہے جس کی وجہ سے ہمارے گلیشیئرز بھی ڈارک ہو رہے ہیں اور بھارت کی کول امیشن سے ہمارے گلیشیئرز پھٹ رہے ہیں جس کی وجہ سے گرمی بھی پڑتی ہے اور موسم کا توازن بھی تبدیل ہور ہاہے ،پاکستان سفارتی سطح پر بھی بھارت سے اس مسئلے پر بات چیت کر رہا ہے۔

    2-7

     اتوار کو مقامی ہوٹل میں این ڈی ایم اے کے ذمے داروں کی کراچی کے صحافیوں سے ماحولیاتی تباہی کے حوالے سے منعقدہ ورکشاپ میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر کریم خواجہ، وزیر اعظم ہاﺅس میں مقرر این ڈی ایم کے افسر احمد کمال اور این ڈی ایم اے کے ماہر پاک فوج کے ریٹائرڈ میجر ایوب شاہ کی چونکا دینے والی باتیں ملکی قدرتی آفات کی شرح میں خوف ناک حد تک اضافے کی جانب نشاند ہی کرتی ہیں لیکن ان کی باتوں سے یہ بھی محسوس ہوا کہ قومی سطح پر یا وفاقی حکومت کی حد تک ابھی تک کوئی بہت بڑی سنجیدگی نہیں نظر آرہی، البتہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے وفاقی بجٹ میں خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔

    سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے ماحولیات کے چیئرمین ڈاکٹر کریم خواجہ نے بتایا کہ سندھ میں سمندری تباہی معمولی نوعیت کی نہیں ہے اب تو کراچی کے ساحل کو بھی خطرہ موجود ہے جس کی وجہ سے سینیٹ کمیٹی نے وفاقی حکومت کو تجویز دی ہے کہ کراچی کے کلفٹن کے ساحل کے سامنے دیوار تعمیر کی جائے تاکہ سمندر کی سطح میں کوئی اضافہ ہونے کی صورت میں خدانخواستہ فوری طور پر کسی تباہی سے بچا جا سکے۔

    سینیٹر کریم خواجہ کا کہنا تھا کہ ٹھٹھہ کی کوسٹل بیلٹ پر 22 لاکھ ایکڑ زرخیز زمین کو سمندر نگل چکا ہے اور انڈس ڈیلٹا بھیانک دور سے گزر رہا ہے، دریائے سندھ میں ڈاﺅن اسٹریم کوٹری پانی نہ ہونے کی وجہ سے سمندر آگے بڑھ رہا ہے اور تمام سمندری کریکس ختم ہو رہے ہیں۔

    4-3

    سینیٹ کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی سمندری حدود میں واقع سرکریک پر بھارت کا دعویٰ غیر منطقی ہے کیونکہ سر کریک سے لے کر کورنگی کریک تک تمام سمندری کریکس تک دریائے سندھ سے میٹھا پانی داخل ہوتا تھا جس کی وجہ سے سمندر کی طغیانی رک جاتی تھی۔

    این ڈی ایم اے کے ماہر اور پاک فوج کے ریٹائرڈ میجر ایوب شاہ کا کہنا تھا کہ 2012ءتا 2015ءپاکستان میں سیلاب اور زلزلے دونوں ہی آرہے ہیں، سمندری طوفان اور زمینی طوفان دونوں بڑھ رہے ہیں، چند روز قبل اسلام آباد میں آنے والا طوفان بھی انتہائی خطرناک طوفان تھا جو بڑی تباہی پھیلاتا لیکن جلد طوفان کا رخ تبدیل ہوگیا اور زور ٹوٹ گیا ،ایسا طوفان کسی بھی وقت آ سکتا ہے۔محکمہ ماحولیات ہو یا این ڈی ایم اے ،دونوں میں سہولیات کا فقدان ہے، ہمارے پاس اپنا سیٹلائٹ سسٹم بھی نہیں ہے، اب پرانا ری ایکٹر اسکیل بھی استعمال نہیں ہوتا، تربیت کے فقدان کو مد نظر رکھ کر 1092 افسران کو تربیت دی گئی ہے۔

    1-6

    ان کا کہنا تھا کہ دنیا میں تمام صنعتوں کے نقشے آن لائن ہوتے ہیں، این ڈی ایم اے کی کوشش ہے کہ پاکستان کی تمام فیکٹریوں کے نقشے آن لائن ہونے چاہئیں تاکہ کسی بھی فیکٹری میں حادثے یا آفت آنے کی صورت میں فوری طور پر پہنچا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماحولیاتی توازن بگڑنے سے ہمارے ملک میں گرمیوں کی شدت بڑھ رہی ہے، ہیٹ اسٹروک بھی اس کی ایک بڑی علامت ہے، خشک سالی بڑھ رہی ہے، پانی کی سطح کم ہو رہی ہے اور بارشیں ایک سو کلومیٹر مشرق سے مغرب کی طرف چلی گئی ہیں لیکن ہم سب قومی سطح پر قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

    چار گھنٹے کے اس ڈائیلاگ میں وجیہ احمد اور الوینہ آغا نے بھی حصہ لیا۔ گفتگو کے دوران کراچی کے صحافیوں کے سوالات بھی بڑے تلخ تھے اور جملے بھی تند و ترش لیکن مذکورہ ماہرین بہرحال سرکار نہیں تھے کہ ہمارے سوالات کے جوابات دیتے۔ پوری گفتگو میں ایک بات سمجھ میں آگئی کہ ماحولیات کا عالمی دن منانے سے کچھ نہیں ہوگا، آئندہ چند برس میں پاکستان کے بھی بھیانک ماحولیاتی مسائل سے دوچار ہونے کا خدشہ ہے جس سے نمٹنے کے لیے وفاقی حکومت کو انتہائی سنجیدہ رویہ اختیار کرنا ہوگا۔

  • پانچ جون: ماحولیات کا عالمی دن آج منایا جارہا ہے

    پانچ جون: ماحولیات کا عالمی دن آج منایا جارہا ہے

    کراچی : اقوام متحدہ کی اہم سرگرمی ہونے کے ناطے ماحولیات کا عالمی دن دنیا بھر میں ہر سال 5جون کو منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصدماحولیات کی اہمیت کی جانب دنیا کی توجہ مبذول کرانا اور ماحولیات کی بہتری کے لیے سیاسی سطح پر توجہ دلانا اور اس سلسلے میں کئے جانے والے اقدامات کو مزید فعال بناناہے۔

    اس سال عالمی یوم ماحولیات کا موضوع ہے

    ” Go Wild for the life” (جنگلی حیات کا تحفظ ہر قیمت پر) 

    اس موضوع کے انتخاب کا مقصد جنگلی حیات کی غیر قانونی تجارت کی روک تھام اور ان جانوروں کو تحفظ فراہم کرنا ہے جن کی نسل ختم ہوجانے کا اندیشہ ہے مثلا ہاتھی، گینڈا، چیتا، وھیل مچھلی اور کچھوے وغیرہ ۔

    World4

    مزید برآں ، ہرسال 8 جون کو سمندروں کا عالمی دن منایا جاتا ہے، جس کا مقصد عوام الناس میں سمندروں اور ان میں پائے جانے والے قدرتی وسائل کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور انہیں آلودگی اور وسائل کے بے دریغ استعمال سے محفو ظ رکھنا ہے۔ اس دن کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کے لیے جو موضوع منتخب کیا گیا ہے وہ ہے

    صحت مند سمندر، صحت مند کرہ ارض

    سمندر زمین پرموجو د حیاتیاتی نظام (ایکو سسٹم) کا اہم ترین حصہ ہیں اور آلودگی سے پاک سمندر کرہ ارض پر صحت مند ماحول کو برقرار رکھنے میں اہم کردار کے حامل ہیں۔

    World2

    ماحولیا ت کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ ہونے کے باعث پاک بحریہ ماحول اور سمندر وں کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کے لئے دونوں عالمی ایام کو باقاعدگی سے مناتی ہے ۔

    اس سال ماہِ صیام کے آغاز سے قبل پاک بحریہ میں یہ دونوں ایام مشترکہ طور پر 3جون کو منائے گئے ۔ عوام الناس اور متعلقہ ایجنسیوں اور محکموں میں ماحول اور سمندروں کی اہمیت سے متعلق آگاہی پیدا کرنے کے لیے مختلف سرگرمیوں کا انعقاد کیا گیا جن میں ساحلوں کی صفائی کی مہم اور سیمینار اور لیکچرز شامل ہیں۔

    اس سلسلے میں پاک بحریہ کے تعلیمی اداروں میں معلوماتی مقابلے اور پاکستان میری ٹائم میوزیم میں رنگا رنگ میلے کا انعقاد بھی شامل ہیں۔

    اس موقع پر چیف آف دی نیول اسٹاف ایڈمرل ذکاء اللہ نے اپنے پیغام میں اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ سمندروں کو مختلف نوعیت کے خطرات سے تحفظ فراہم کرنے اور ماحولیات بالخصوص سمندری ماحول کی بہتری کے لیے پاک بحریہ ہر ممکن کوشش کرے گی۔

    انہوں نے اس امر کا اظہار کیا کہ پاک بحریہ اپنی آئندہ نسلوں کے مستقبل کی خاطر سمندر اور ماحول کے تحفظ کے لیے کی جانے والی عالمی کوششوں میں اپنا بھر پور کردار ادا کرے گی۔

     

  • اگلے 6 سال میں ہاتھیوں کی نسل ختم ہونے کا خدشہ

    اگلے 6 سال میں ہاتھیوں کی نسل ختم ہونے کا خدشہ

    نیروبی: جانوروں کے تحفظ کی عالمی تنظیم ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلو ڈبلیو ایف) نے متنبہ کیا ہے کہ اگر ہاتھیوں کا شکار ایسے ہی جاری رہا جیسے ابھی ہے تو اگلے 6 سال میں تنزانیہ سے ہاتھیوں کا وجود مٹ جائے گا۔

    تنزانیہ میں سیلس گیم ریزرو ہاتھیوں کی سب سے بڑی پناہ گاہ ہے۔ سیلس سفاری پارک ایک سیاحتی مقام بھی ہے جو ہر سال تنزانیہ کی قومی آمدنی میں 6 ملین ڈالر کا اضافہ کرتا ہے۔

    ivory-3

    ivory-4

    سن 1970 میں جب اسے قائم کیا گیا اس وقت یہاں ہاتھیوں کی تعداد 1 لاکھ 10 ہزار تھی جو اب گھٹ کر صرف 15 ہزار رہ گئی ہے۔ ڈبلو ڈبلیو ایف کے مطابق 2022 تک سیلس سے ہاتھیوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق اس کی واحد وجہ ہاتھی دانت کے حصول کے لیے ہاتھیوں کا شکار ہے۔

    افریقہ میں ہر سال اس مقصد کے لیے 30 ہزار ہاتھی مار دیے جاتے ہیں۔ تنزانیہ میں پچھلے 5 سال میں ہاتھیوں کی آبادی میں 65 کمی ہوچکی ہے۔

    مزید پڑھیں: زمبابوے میں 14 ہاتھیوں کو زہر دے کر ہلاک کردیا گیا

    ماہرین کے مطابق ہاتھی اور افریقی گینڈے کے جسمانی اعضا کی تجارت نہ صرف ان کی نسل کو ختم کر سکتی ہے بلکہ اس سے حاصل ہونے والی رقم غیر قانونی کاموں میں بھی استعمال کی جارہی ہے۔ اس غیر قانونی تجارت کو کئی عالمی جرائم پیشہ منظم گروہوں کی سرپرستی حاصل ہے۔

    ivory-2

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے کنٹری ڈائریکٹر امانی نگوسارو کا کہنا ہے کہ ہاتھیوں کی آبادی کو بچانے کے لیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے ہاتھیوں کے شکار اور ہاتھی دانت کی قانونی و غیر قانونی تجارت پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔

    گذشتہ سال ہاتھیوں اور گینڈوں کی معدوم ہوتی نسل کے تحفظ کے لیے افریقہ میں ایک ’جائنٹ کلب فورم‘ بنایا گیا جس کا پہلا اجلاس گذشتہ ماہ منعقد کیا گیا۔ اجلاس میں کینیا کے صدر سمیت افریقی رہنماؤں، تاجروں اور سائنسدانوں نے شرکت کی۔ اجلاس میں متفقہ طور پر ہاتھی دانت کی تجارت پر مکمل پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ اجلاس کے آخر میں 100 ٹن کے ہاتھی دانت اور 1.35 ٹن کے گینڈے کے سینگ کے ذخیرے کو نذر آتش بھی کیا گیا۔

    ivory-1

    واضح رہے کہ ہاتھی دانت ایک قیمتی دھات ہے اور عالمی مارکیٹ میں اس کی قیمت کوکین یا سونے سے بھی کہیں زیادہ ہے۔

  • دنیا کا سب سے بڑا بحری جہاز آلودگی میں اضافے کا سبب

    دنیا کا سب سے بڑا بحری جہاز آلودگی میں اضافے کا سبب

    ساوتھ ہمپٹن کی بندرگاہ کے علاقے کے رہائشیوں نے شکایت کی ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا بحری جہاز ’ہارمونی آف دا سیز‘ آلودگی میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔

    جہاز ’ہارمونی آف دا سیز‘ گذشتہ ہفتے اپنے پہلے سفر پر برطانیہ سے روانہ ہوگیا۔ 1187 فٹ لمبے اور 226963 ٹن وزنی بحری جہاز میں 6780 افراد سفر کرسکتے ہیں جبکہ ایک ہزار سے زائد افراد کا عملہ اس کے علاوہ ہے۔

    مزید پڑھیں: ’ہارمونی آف دا سیز‘ اپنے پہلے سفر پر روانہ

    یہ جہاز صرف ایک گھنٹے کے دوران 700 لیٹر ڈیزل تیل استعمال کر رہا ہے جس کا دھواں فضا کو آلودہ کر رہا ہے۔ بندرگاہ کے آس پاس کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ بحری جہازوں کی دن بدن ترقی کرتی صنعت فضائی آلودگی میں بے تحاشہ اضافہ کر رہی ہے۔

    گو کہ اس جہاز کی تعمیر کی منظوری یورپی یونین سمیت کئی عالمی کمپنیوں نے دی ہے تاہم رہائشیوں نے اس کے خلاف ہائی کورٹ میں درخواست جمع کروا دی ہے۔

    seas-1

    رہائشیوں کے ایک گروپ کا کہنا ہے کہ بندرگاہ پر بعض اوقات کئی جہاز ایک ساتھ آتے ہیں۔ ان کے تیل کی خوشبو فضا میں بس جاتی ہے۔ ہم اسے سونگھ سکتے ہیں یہاں تک کہ ہمارے کھانوں میں بھی اس کا ذائقہ آجاتا ہے۔

    گروپ کا کہنا ہے کہ کارپوریٹ سیکٹر اپنے مالی مفاد کے علاوہ دیگر چیزوں کے بھی مدنظر رکھے۔

  • ماحول دوست پورٹیبل اے سی ’ایوا پولر‘ تیار

    ماحول دوست پورٹیبل اے سی ’ایوا پولر‘ تیار

    گرمی کی شدت عروج پر ہے۔ صرف پاکستان یا ایشیا میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے۔ اسی کو دیکھتے ہوئے روس سے تعلق رکھنے والے یوجین ڈیوبووف اور ولادی میر لیوٹن نے ماحول دوست اور پورٹیبل اے سی تیار کیا ہے جسے استعمال کرنا نہایت آسان ہے۔

    یوجین ڈیوبووف اور ولادی میر لیوٹن کا تیار کیا ہوا اے سی ’ایوا پولر‘ استعمال میں نہایت آسان ہے اور یہ سمندر جیسی ٹھنڈی ہوا خارج کرتا ہے۔

    اس میں کیمیکلز کی جگہ ایک فلٹر اور واٹر کنٹینر کو استعمال کیا گیا ہے جو ایک چھوٹے پنکھے سے ہوا کو صاف اور ٹھنڈی کر کے خارج کرتے ہیں۔

    یہ اے سی اگلے ماہ فروخت کے لیے پیش کردیا جائے گا اور اس کی قیمت 179 ڈالرز رکھی گئی ہے۔

    یہ اے سی اپنے ارگرد موجود ہوا کو فلٹر اور مرطوب کر کے ٹھنڈک پیدا کرتا ہے چانچہ یہ خشک آب و ہوا والے مقامات کے لیے بہترین ہے جبکہ زیادہ نمی والے علاقوں میں ہوسکتا ہے کہ یہ کسی پنکھے جتنی ٹھنڈی ہوا ہی خارج کر سکے۔

    اس اے سی کو کسی چھوٹی سی جگہ پر رکھ کر استعمال کیا جاسکتا ہے اور ایک ہی شخص اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔