Tag: ماحولیات

  • زمینی فضا میں زہریلی گیس، خطرہ بڑھ گیا

    زمینی فضا میں زہریلی گیس، خطرہ بڑھ گیا

    ہوائی: زمینی فضا میں زہریلی گیس کی مقدار خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی ریاست ہوائی میں قائم ماؤنا لووا آبزرویٹری کا کہنا ہے کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کے ارتکاز کی اوسط شرح 419 پارٹیکلز فی ملین ہو گئی ہے۔

    امریکی مشاہدہ گاہ کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا کے باوجود زمین کی فضا میں زہریلی کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کا ارتکاز تاریخی حد تک زیادہ ہو گیا ہے۔

    سان ڈیاگو میں قائم اسکرپس اوشیانوگرافی ادارے کا کہنا ہے کہ مئی 2021 میں ماہانہ اوسط کے ساتھ ماؤنا لووا آبزرویٹری میں زمینی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی جو مقدار نوٹ کی گئی ہے وہ، 36 سال قبل جب سے یہ آبزرویٹری بالکل درست مقدار بتانے لگی ہے، تب سے اب تک کی بلند ترین شرح ہے۔

    اس مشاہدہ گاہ نے زمین کی فضا میں اس گیس کے ارتکاز کی پیمائش کا سلسلہ 1958 میں شروع کیا تھا اور تب سے آج تک یہ شرح پہلے کبھی اتنی زیادہ نہیں رہی تھی، پچھلے برس مئی میں یہ اوسط شرح 417 پی پی ایم رہی تھی۔

    اسکرپس ادارے کے جیو کیمسٹ رالف کیلنگ کا کہنا ہے کہ فضا میں سی او ٹو پر قابو پانے کا ذریعہ فوسل فیول کے بخارات پر قابو پانا ہے، تاہم ہمیں اب بھی اس اضافے کو روکنے کے لیے بہت وقت لگے گا، کیوں کہ ہر سال CO2 اوپر اٹھ کر فضا میں جمع ہوتی جا رہی ہے۔

  • روس: ماحول کے لیے نقصان دہ پیکجنگ پر پابندی پر غور

    روس: ماحول کے لیے نقصان دہ پیکجنگ پر پابندی پر غور

    ماسکو: روس میں ٹھوس مواد سے بنی پیکجنگ پر پابندی عائد کرنے پر غور کیا جارہا ہے جو ری سائیکل نہیں ہوسکتی اور ماحولیات کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔

    روسی میڈیا کے مطابق روس کی حکمران سیاسی پارٹی متحدہ روس کے چیئرمین اور روس کی سلامتی کونسل کے ڈپٹی چیئرمین دمتری میدویدف کا خیال ہے کہ ٹھوس مواد سے بنی پیکجنگ جو ری سائیکل نہ ہوسکے اس پر آہستہ آہستہ پابندی عائد کرنا ضروری ہے۔

    میدویدف نے ہفتے کے روز ماحولیاتی امور سے متعلق پارٹی کے ایک اسٹریٹجک پارٹی اجلاس میں کہا کہ پوری دنیا اس سمت بڑھ رہی ہے کہ وہ ٹھوس مواد سے بنی پیکجنگ پر آہستہ آہستہ پابندی عائد کر رہی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہمیں بھی اس مرحلے پر بروقت ضروری اقدامات کرنے چاہئیں اور ایسی پیکجنگ کو مرحلہ وار ختم کرنا چاہیئے۔

  • تبت اپنا اعزاز برقرار رکھنے میں کامیاب

    تبت اپنا اعزاز برقرار رکھنے میں کامیاب

    لھاسا: چین کے خود مختار علاقے تبت نے ماحولیات کے لحاظ سے دنیا کے بہترین مقامات میں سے ایک ہونے کا اعزاز برقرار رکھا۔

    تفصیلات کے مطابق جمعرات کو جاری کی گئی تبت کے محکمہ ماحولیات کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ علاقے نے گزشتہ سال مستحکم ماحولیاتی معیار کو برقرار رکھا ہے، اور یہ اب بھی ماحولیات کے لحاظ سے دنیا کے بہترین مقامات میں سے ایک ہے۔

    تبت کو اپنے بلند و بالا پہاڑوں کے باعث دنیا کی چھت بھی کہا جاتا ہے، یہ چین کا جنوب مغربی علاقہ ہے اور خود مختار ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2020 میں تبت کے اہم دریاؤں اور جھیلوں کے پانی اور ہوا کا معیار بہترین رہا۔

    رپورٹ کے مطابق 2020 کے آخر تک تبت میں 4 لاکھ 12 ہزار 200 مربع کلو میٹر کے مجموعی رقبے پر جنگلی حیات کے محفوظ علاقے بنائے گئے، جو تبت کے کُل رقبے کے ایک تہائی سے زیادہ بنتا ہے۔

    اس علاقے میں محفوظ قرار دیے گئے جانوروں (یعنی جن کا شکار یا انھیں نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا) کی انواع کی آبادی میں گزشتہ برس نمایاں اضافہ بھی دیکھا گیا، جب کہ تبت میں پائے جانے والے نایاب اور خطرے سے دوچار جنگلی پودوں کی کل 214 اقسام کو ’جنگلی جانوروں اور پودوں کی خطرے سے دوچار اقسام‘ سے متعلق بین الاقوامی تجارتی کنونشن کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔

    خیال رہے کہ چین جلد ہی تبت بھر میں ریل کی پٹریاں بچھانے جا رہا ہے، یہ ملک کے سب سے مہنگے سول انجینئرنگ منصوبوں میں سے ایک ہے، یہ ریلوے لائن 435 کلو میٹر طویل ہے، اور اس کے رواں ماہ کھلنے کی توقع ہے، 5.7 بلین ڈالرز لاگت کا یہ ٹریک دارالحکومت لھاسا سے نائنگچی شہر تک پھیلا ہوگا، یہ اس خطے کی پہلی برقی ریلوے ہوگی۔

  • کراچی کا موسم مزید گرم ہوتا جائے گا

    کراچی کا موسم مزید گرم ہوتا جائے گا

    کراچی: محکمہ موسمیات نے خبردار کردیا کہ شہر قائد میں جون کا مہینہ بھی شدید گرمی کا ہوگا اور موسم گرما نہ صرف طویل بلکہ شدید ہوتا جائے گا، تاہم یہ جاننا ضروری ہے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں اور شدید گرمی کے مسئلے سے کیسے نمٹا جاسکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ماہر ماحولیات رفیع الحق نے اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں شرکت کی اور کراچی کے موسم کے حوالے سے بات کی۔

    رفیع الحق کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں کلائمٹ چینج یعنی موسم میں تغیرات پیدا ہونا تو ایک حقیقت ہے لیکن ہماری سرگرمیاں بھی اسے بڑھاوا دے رہی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ پہلے شہر کراچی کی شامیں نہایت خوبصورت ہوا کرتی تھیں جب ٹھنڈی ہوائیں چلتی تھیں، لیکن ہم نے بے تحاشہ اور کثیر المنزلہ تعمیرات کر کے ہوا کی آمد و رفت کو روک دیا۔

    رفیع الحق کا کہنا تھا کہ عمومی خیال ہے کہ شہروں میں اربن فاریسٹ لگا لینا کافی ہے لیکن یہ ایک غلط فہمی ہے۔ اربن فاریسٹ سب سے پہلے جاپان میں متعارف کروایا گیا تھا جہاں کا موسم ہمارے موسم سے مختلف ہے، وہاں باقاعدگی سے بارشیں ہوتی ہیں جن کی وجہ سے ان شہری جنگلات کو پھلنے پھولنے میں مدد ملی۔

    انہوں نے کہا کہ ہمارے شہر کی صورتحال مختلف ہے، ہم نے فطرت کے ساتھ بہت چھیڑ چھاڑ کی ہے، جنگل کو کاٹ کر شہر بنا دیا ہے اور اب شہر میں جنگلات اگانا چاہ رہے ہیں۔

    رفیع الحق کا کہنا تھا کہ جب بارش ہوتی ہے تب شہر کے لیے صورتحال اور بھی خراب ہوجاتی ہے کیونکہ ہم نے نالوں میں یا تو درخت اگا دیے ہیں یا پھر انہیں کچرا کنڈی بنا کر رکھ دیا ہے، اس کی وجہ سے پانی کو نکاسی کا راستہ نہیں ملتا۔

    دوسری جانب کراچی میں ہر سال بڑی بڑی شجر کاری مہمات کا اعلان کیا جاتا ہے لیکن ہر منصوبہ اس لیے ناکام ہوجاتا ہے کیونکہ پھر ان ننھے پودوں کی حفاظت نہیں کی جاتی۔

    رفیع الحق کا کہنا تھا کہ فطرت کے ساتھ توازن میں رہنا ضروری ہے اور ہر چیز کو مناسب طریقے اور منصوبہ بندی کے ساتھ انجام دینا ضروری ہے۔

  • سائنس دانوں نے دنیا کے درجہ حرارت سے متعلق تشویش ناک پیش گوئی کر دی

    سائنس دانوں نے دنیا کے درجہ حرارت سے متعلق تشویش ناک پیش گوئی کر دی

    واشنگٹن: سائنس دانوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگلے پانچ سال میں دنیا میں گرمی کا نیا ریکارڈ قائم ہو سکتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ماہرینِ موسمیات نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس بات کا 40 فی صد امکان ہے کہ اگلے پانچ برس میں دنیا کا درجہ حرارت اس حد سے آگے بڑھ جائے گا جس سے آب و ہوا سے متعلق پیرس معاہدے کے ذریعے بچنے کی کوشش کی گئی ہے۔

    موسمیاتی ماہرین کی عالمی تنظیم (ڈبلیو ایم او) نے تازہ پیش گوئی میں کہا ہے کہ دنیا میں 2025 کے اختتام تک گرم ترین سال کا نیا ریکارڈ بننے کا امکان 90 فی صد ہے، اور بحر اوقیانوس میں آئندہ برسوں میں جنم لینے والے سمندری طوفان زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق اس سال شمالی نصف کرہ ارض پر خشکی کے زیادہ تر حصوں میں درجہ حرارت حالیہ عشروں کے مقابلے میں 1.4 ڈگری فارن ہائیٹ زیادہ ہوگا جو تقربیاً 0.8 ڈگری سینٹی گریڈ کے مساوی ہے۔

    خیال رہے کہ 2015 میں آب و ہوا سے متعلق پیرس معاہدے میں درجہ حرارت کو ایک ڈگری کے چند دسویں حصوں کے لگ بھگ گرم رکھنے کا ہدف طے کیا گیا تھا، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 40 فی صد امکان ہے کہ اگلے پانچ برسوں میں کم از کم ایک سال ایسا ہو سکتا ہے جس میں درجہ حرارت صنعتی دور سے قبل کے عالمی درجہ حرارت کے مقابلے میں ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ یعنی 2.7 ڈگری فارن ہائیٹ سے زیادہ ہو۔

    گزشتہ سال موسمیات کے ماہرین کی ٹیم نے اپنی پیش گوئی میں کہا تھا کہ درجہ حرارت میں اضافے کا امکان 20 فی صد کے لگ بھگ ہے۔ موسمیات کے ایک برطانوی سائنس دان لیون ہرمن سن کا کہنا ہے کہ درجہ حرارت میں اس دگنے اضافے کی وجہ ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی کی رفتار ہے۔

    پنسلوانیا اسٹیٹ یونی ورسٹی کے موسمیاتی امور کے سائنس دان مائیکل مان کا کہنا ہے کہ کرہ ارض کا درجہ حرارت بڑھنے سے سمندری طوفانوں کی تعداد اور شدت میں اضافہ ہو رہا ہے جو بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان کا سبب بن رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ صورت حال اگلے کئی عشروں تک برقرار رہ سکتی ہے، تاہم اس پر ٹھوس اقدامات کے ذریعے قابو پایا جا سکتا ہے۔

  • امریکا دنیا کے لیے اہم معاہدے سے باضابطہ طور پر نکل گیا

    امریکا دنیا کے لیے اہم معاہدے سے باضابطہ طور پر نکل گیا

    واشنگٹن: امریکا باضابطہ طور پر عالمی ماحولیاتی معاہدے سے علیحدہ ہو گیا۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکا تین سالہ تاخیر کے بعد آخر کار موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے پیرس معاہدے سے نکلنے والا پہلا ملک بن گیا ہے، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ معاہدہ ختم کیا تھا۔

    صدر ٹرمپ نے دراصل جون 2017 میں اس معاہدے سے دست برداری کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد گزشتہ برس اقوام متحدہ کو اس سے باضابطہ طور پر مطلع کیا گیا، تاہم یو این ضابطے کے مطابق مطلع کیے جانے کے بعد ایک سال تک انتظار کرنا پڑتا ہے، یہ انتظار آج بدھ کے روز ختم ہو گیا۔

    معاہدے سے دست برداری کا فیصلہ ایک ایسے دن نافذ العمل ہوا ہے جب کہ محض ایک دن قبل ہی امریکی انتخابات منعقد ہوئے، اور آج دونوں امیدواروں میں سے کسی ایک کی جیت کا اعلان ہوگا۔

    سابق اسٹیٹ سیکریٹری جان کیری اپنی پوتی کو گود میں لیے اقوام متحدہ میں پیرس ایگریمنٹ پر دستخط کر رہے ہیں

    مستقبل میں امریکا اس معاہدے میں دوبارہ شامل ہو سکتا ہے، اس کے لیے آنے والے صدر کو اس کا انتخاب کرنا ہوگا۔

    پیرس معاہدے پر تقریباً 200 ممالک نے دستخط کیے تھے، ان میں سے امریکا پہلا ملک بنا ہے جس نے گرین ہاؤس گیس اخراج کو کم کرنے کے وعدوں سے منہ پھیرا۔

    اٹھارویں صدی کے وسط سے جب سے صنعتی دور شروع ہوا ہے، تب سے امریکا وہ ملک ہے جس نے کسی بھی دوسرے ملک کی نسبت فضا میں مجموعی طور پر سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کیا۔

  • امریکا میں متاثر کن مومی مجسمہ نصب

    امریکا میں متاثر کن مومی مجسمہ نصب

    امریکا میں موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج اور اس کے اثرات کی طرف توجہ دلانے کے لیے ایک متاثر کن مجسمہ نصب کردیا گیا۔

    امریکی ریاست فلوریڈا کے شہر اورلینڈو میں سٹی ہال کے باہر بینچ پر مومی مجسمہ نصب کیا گیا ہے، مجسمہ دادا اور پوتے کا ہے جو آئسکریم کھاتے ہوئے خوشگوار وقت گزار رہے ہیں۔

    اس مجسمے کا پیغام نہایت واضح ہے، دن گزرنے کے ساتھ ساتھ مجسمہ پگھلتا جائے گا جس سے اندازہ ہوگا کہ کلائمٹ چینج کی وجہ سے درجہ حرارت میں کس قدر اضافہ ہورہا ہے۔

    یہ مجسمہ کلائمٹ چینج کے حوالے سے شعور و آگاہی کے لیے کام کرنے والے ایک مقامی ادارے کی جانب سے نصب کیا گیا ہے۔

    ادارے سے وابستہ ڈاکٹر کلارک کا کہنا ہے کہ اورلینڈو شہر میں شدید گرمی کا دورانیہ 22 دن ہوتا تھا لیکن اب کچھ سال میں یہ بڑھ کر 3 ماہ پر محیط ہوجائے گا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کلائمٹ چینج خوفناک تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

    خیال رہے کہ کلائمٹ چینج کے باعث دنیا بھر کے درجہ حرارت میں اضافہ جاری ہے جس سے سطح سمندر بلند ہونے اور کئی شہروں کے زیر آب آجانے کا خطرہ ہے۔

  • کلائمٹ ایکشن: عالمی سطح پر پاکستان کی ایک اور اہم کامیابی، وزیر اعظم کا خوشی کا اظہار

    کلائمٹ ایکشن: عالمی سطح پر پاکستان کی ایک اور اہم کامیابی، وزیر اعظم کا خوشی کا اظہار

    اسلام آباد: پاکستان اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے ہدف کلائمٹ ایکشن میں کامیاب ہو گیا ہے، پاکستان نے’’کلائمٹ ایکشن‘‘ کا ٹارگٹ ڈیڈ لائن سے 10 سال قبل حاصل کر لیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق اقوام متحدہ نے ’’سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ‘‘ 2020 کی جائزہ رپورٹ جاری کر دی، رپورٹ کے مطابق ماحولیات سے متعلق اقدامات کا ہدف پاکستان نے ڈیڈ لائن سے دس سال قبل حاصل کیا۔

    مشیر ماحولیات ملک امین اسلم نے اہم کامیابی سے وزیر اعظم عمران خان کو بھی آگاہ کر دیا، وزیر اعظم نے ماحولیاتی چیلنج کا ٹارگٹ بروقت حاصل کرنے پر خوشی کا اظہار کیا، پاکستان کی کامیابی کا اعلان اقوام متحدہ کے اعلیٰ حکام آج کریں گے۔

    ملک امین اسلم نے بتایا کہ عالمی سطح پر پائیدار ترقی پر 200 ممالک کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا تھا، اقوام متحدہ نے رکن ممالک کے لیے 2030 کی ڈیڈ لائن مختص کی تھی، مذکورہ اہداف ماحولیاتی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے متعارف کرائے گئے تھے۔

    انھوں نے مزید بتایا کہ ان اہداف کا مقصد معاشی، سماجی ترقی سمیت تعلیم و صحت میں بہتری تھا، پاکستان میں اس ٹارگٹ کو مکمل کرنے کے لیے ملک کے جنگلات کے رقبے میں اضافہ کیا گیا، بلین ٹری سونامی اور 10 بلین ٹری سونامی منصوبوں کا اس ہدف کے حصول میں اہم کردار ہے۔

    ملک امین اسلم کا کہنا تھا کہ کلین اینڈ گرین پاکستان، متبادل توانائی کے منصوبے بھی شروع کیے گئے، ان منصوبوں سے ملکی جنگلات کے رقبے میں اضافہ اور ماحول میں بہتری آئی، ماحول دوست الیکٹرک گاڑیوں کی پہلی پالیسی بھی منظور کی گئی ہے۔

  • پاکستان کا ایئر کوالٹی انڈیکس بہتر ہونے لگا

    پاکستان کا ایئر کوالٹی انڈیکس بہتر ہونے لگا

    لاہور: کرونا وائرس کی وبا کے دنوں میں ایک اچھی خبر آئی ہے کہ پاکستان کا ایئر کوالٹی انڈیکس بہتر ہونے لگا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ملک کے کئی شہروں میں لاک ڈاؤن جاری ہے، جس کے باعث فیکٹریوں اور سڑکوں پر گاڑیوں کا دھواں کم ہونے سے پاکستان کا ایئر کوالٹی انڈیکس بہتر ہونے لگا ہے۔

    کرونا سے بچنے کی تدابیر کے اثرات شہروں کی فضا پر بھی مرتب ہونے لگے ہیں، کئی شہروں میں اس وقت لاک ڈاؤن ہے، سڑکوں پر پیٹرول اڑاتی گاڑیاں اور دھواں چھوڑتی فیکٹریاں اور بھٹے چند دن کے لیے بند ہونے باعث لاہور کی ہوا صاف شفاف ہونے لگی۔

    ڈی جی ماحولیات پنجاب تنویر وڑائچ کہتے ہیں کہ اگر سڑکوں پر ٹریفک کو مستقل بنیادوں پر اسی سمت میں کنٹرول کیا جائے تو ہمیں سانس لینے کو شفاف فضا مل سکتی ہے، سموگ کے دنوں میں 400 کراس کر جانے والا پاکستان کا ایئر کوالٹی انڈیکس گزشتہ دس دن میں بہتر ہو کر 100 تک آ گیا ہے۔

    لاہور کی لبرٹی مارکیٹ لاک ڈاؤن کے باعث بند ہے

    کرونا وائرس: نقصانات کے ساتھ فوائد بھی سامنے آگئے

    خیال رہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے متعدد بڑے ممالک میں پیداواری صنعتوں کو بند کیا جا چکا ہے، شاہراہوں پر ٹریفک پر بھی پابندی ہے، سڑکوں سے ٹرانسپورٹ غائب ہے۔ جس کے باعث حال ہی میں موسمیاتی تبدیلیوں پر نظر رکھنے والے ادارے نے کچھ تصاویر جاری کی تھیں جن میں بتایا گیا تھا کہ فضائی آلودگی میں نمایاں کمی ہو گئی ہے جس کی وجہ سے آلودہ شہروں کا ایئر کوالٹی انڈیکس بھی کافی بہتر ہوا۔

  • دنیا کا نایاب ترین سفید زرافہ شکاریوں کے ہاتھوں ہلاک

    دنیا کا نایاب ترین سفید زرافہ شکاریوں کے ہاتھوں ہلاک

    نیروبی: شمالی افریقی ملک کینیا میں دنیا کے 2 نہایت نایاب سفید زرافوں کا شکار کرلیا گیا، ان زرافوں کی تعداد دنیا بھر میں صرف 3 تھی اور ان دو زرافوں کی موت کے بعد اب اپنی نوعیت کا ایک ہی زرافہ واحد بچا ہے۔

    کینیا میں ماحولیات کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق پولیس کو مادہ زرافے اور اس کے بچے کی باقیات شمالی مشرقی کینیا کی گریسا کاؤنٹی سے ملیں۔ یہ تلاش ماں اور بچے کے لاپتہ ہونے کے بعد عمل میں لائی گئی تھی۔

    اب ان کے بعد اس نوعیت کا صرف ایک زرافہ بچا ہے جو تنزانیہ میں ہے اور دنیا بھر میں پایا جانے والا واحد سفید زرافہ ہے۔

    تنزانیہ میں بچنے والا دنیا کا واحد سفید زرافہ

    مقامی تنظیموں کے مطابق ان زرافوں کو سب سے پہلے 2017 میں دیکھا گیا تھا، علاوہ ازیں تنزانیہ میں موجود سفید زرافہ اس سے قبل 2016 میں دیکھا گیا تھا۔

    ان تنظیموں کے ساتھ مقامی اسحٰق بنی ہیرولا کمیونٹی بھی جانوروں کی رکھوالی اور حفاظت کے کام میں شریک تھی اور ان کے مطابق یہ ان کی زندگی کا دکھ بھرا دن ہے۔

    ان لوگوں کے مطابق ان کی کمیونٹی ان نایاب زرافوں کی رکھوالی کرنے والی دنیا کی واحد کمیونٹی ہے۔

    شکار ہونے والا زرافہ

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نایاب زرافے ایک جینیاتی بگاڑ لیوک ازم کا شکار تھے۔ اس بیماری میں خلیوں میں موجود رنگ دینے والے پگمنٹس کم ہوجاتے ہیں۔

    یہ بیماری البانزم (یا برص) سے مختلف ہے، ایک مرض جسم کو جزوی طور پر سفید کرتا ہے جبکہ دوسرا جسم کو مکمل طور پر سفید کردیتا ہے۔ اس کی الٹ بیماری میلینزم کی ہے جس میں رنگ دینے والے پگمنٹس نہایت فعال ہوتے ہیں اور جانور کا جسم مکمل سیاہ ہوجاتا ہے۔

    افریقہ کی وائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے مطابق گزشتہ 30 سال میں گوشت اور کھال کے لیے زرافوں کا بے تحاشہ شکار کیا گیا ہے جس سے زرافوں کی آبادی میں 40 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات (آئی یو سی این) کے مطابق سنہ 1985 میں زرافوں کی آبادی 1 لاکھ 55 ہزار تھی جو سنہ 2015 تک گھٹ کر صرف 97 ہزار رہ گئی۔