Tag: ماحولیات

  • تیرتا ہوا شہر حقیقت بننے والا ہے؟

    تیرتا ہوا شہر حقیقت بننے والا ہے؟

    دنیا بھر میں موسمی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج اور اس کے بدترین اثرات کو دیکھتے ہوئے ان سے بچاؤ اور مطابقت کے لیے نئے نئے منصوبے بنائے جارہے ہیں اور انہی میں سے ایک ’تیرتا ہوا شہر‘ بھی ہے جو جلد حقیقت بننے والا ہے۔

    کچھ عرصے پہلے اس کا تصور پیش کیے جانے کے بعد اسے دیوانے کی بڑ قرار دیا گیا تھا، تاہم اب اقوام متحدہ نے خود اس منصوبے کی سرپرستی لے لی ہے اور اسی دہائی میں یہ منصوبہ مکمل کردیے جانے کا امکان ہے جس کے بعد تیرتے ہوئے شہر ایک حقیقت بن جائیں گے۔

    اس شہر کی تعمیر سطح سمندر میں اضافے کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جارہی ہے، گلیشیئرز کے پگھلنے اور سمندر کی سطح بلند ہونے سے دنیا کے 90 فیصد شہروں کے زیر آب آجانے کا خدشہ ہے۔

    منصوبے کے ابتدائی خاکے کے مطابق یہاں ہزاروں افراد کے رہنے کے لیے گھر ہوں گے، جبکہ یہاں ٹاؤن اسکوائرز اور مارکیٹس بھی بنائی جائیں گی۔

    اقوام متحدہ کے صدر دفتر میں ہونے والی ایک میٹنگ میں اس منصوبے کی تکمیل کے لیے 10 سال کا عرصہ پیش کیا گیا ہے۔

    یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ شہرسونامی اور دیگر خطرناک سمندری طوفانوں کے دوران قائم رہ سکیں گے؟

    اس حوالے سے پروجیکٹ کی ٹیم میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے شعبہ اوشیئن انجینئرنگ کے ساتھ بھی کام کر رہی ہے اور ان کی کوشش ہے کہ اس شہر کو ایسا بنایا جائے کہ یہ درجہ 5 کے طوفانوں میںبھی  قائم رہ سکے۔

    کہا جارہا ہے کہ اس طرح کے تعمیراتی منصوبے بنانے کا مقصد کلائمٹ چینج کی اصل وجوہات اور انہیں کم کرنے کے اقدامات سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہیں۔

    ایک اور خدشہ یہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ یہ منصوبہ صرف امرا کے لیے مخصوص ہوجائے گا جیسا اس سے قبل دبئی میں ہوچکا ہے اور غریب افراد زمین پر کلائمٹ چینج کے شدید اثرات سہنے کے لیے رہ جائیں گے۔

    مذکورہ عالیشان منصوبے کے حوالے سے پیش رفت اقدامات جلد سامنے آنے شروع ہوجائیں گے۔

  • ہم اپنی زندگی میں کتنا پلاسٹک کھاتے ہیں؟

    ہم اپنی زندگی میں کتنا پلاسٹک کھاتے ہیں؟

    پلاسٹک ہماری کرہ ارض کا بہت بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے اور یوں لگتا ہے بہت جلد ہماری زمین پلاسٹک کی ایک دبیز تہہ سے ڈھک جائے گی۔

    پلاسٹک کی موجودگی سمندر کی گہری تہوں سے لے کر برفانی علاقوں میں برف کی موٹی تہہ تک کے نیچے پائی گئی اور یہ وہ مقامات تھے جہاں بہت کم انسان پہنچ پائے ہیں۔

    چونکہ پلاسٹک زمین میں تلف نہیں ہوتا چنانچہ غیر ضروری سمجھ کر پھینکا جانے والا پلاسٹک ٹوٹ کر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ جاتا ہے اور اس کے بعد یہ دریاؤں، ندی نالوں حتی کہ زمین کی مٹی میں بھی شامل ہوجاتا ہے۔

    پلاسٹک کے ان ننھے ٹکڑوں کو مائیکرو پلاسٹک کہا جاتا ہے جن کا اوسط وزن 5 ملی میٹر سے کم ہوتا ہے۔ یہ پلاسٹک ہمارے جسم کے اندر بھی جارہا ہے۔

    جی ہاں، ہم سانس لینے، کھانے اور پینے کے ساتھ پلاسٹک کے ان ننھے ٹکڑوں کو بھی اپنے جسم کے اندر لے کر جارہے ہیں اور اگر جانچ پڑتال کی جائے تو ہمارے جسم کے اندر اچھا خاصا پلاسٹک مل سکتا ہے۔

    عالمی ادارہ ماحولیات ڈبلیو ڈبلیو ایف نے کچھ عرصہ قبل ایک تحقیق میں لوگوں کو آگاہ کیا تھا کہ ان کی غذا میں پلاسٹک کی اچھی خاصی مقدار موجود ہوتی ہے اور وہ تقریباً ہر ہفتے ایک کریڈٹ کارڈ جتنا پلاسٹک کھا رہے ہیں۔

    آئیں دیکھتے ہیں ہم اپنی پوری زندگی میں کتنا پلاسٹک کھاتے ہیں؟

    ایک ہفتہ = 5 گرام

    ہم ہر ہفتے 5 گرام پلاسٹک کو اپنے جسم کا حصہ بناتے ہیں۔ یہ مقدار ایک کریڈٹ کارڈ جتنی ہے گویا ایک ہفتے میں ہم ایک سوپ کا چمچ بھر کر پلاسٹک کے ٹکڑے کھاتے ہیں۔

    ایک مہینہ = 21 گرام

    ایک بڑا پلاسٹک سے نصف بھرا ہوا پیالہ

    6 ماہ = 125 گرام

    پلاسٹک سے بھرا ایک بڑا پیالہ

    ایک سال = 250 گرام

    پلاسٹک سے بھری ایک پلیٹ

    10 سال = ڈھائی کلو گرام

    یہ پلاسٹک کی اتنی مقدار ہے گویا ہم پانی میں ڈوبنے سے بچانے والی ٹیوب اپنے جسم میں اتار رہے ہیں۔

    پوری زندگی = 20 کلو گرام

    ایک 79 سالہ شخص اپنی زندگی میں اوسطاً اتنا پلاسٹک کھاتا ہے جومندرجہ بالا 2 پلاسٹک بنز کے برابر ہوتا ہے۔

    یہ پلاسٹک کہاں سے آرہا ہے؟

    ایک تحقیق کے مطابق اس وقت ہماری زمین پر استعمال ہونے والے پلاسٹک میں سے 80 لاکھ ٹن پلاسٹک سمندروں میں جارہا ہے۔

    ان میں پلاسٹک کے نہایت ننھے منے ذرات یعنی مائیکرو پلاسٹک بھی ہوتے ہیں۔ یہ مزید چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ کر نینو ذرات میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ چونکہ یہ بہت چھوٹے ہوتے ہیں لہٰذا یہ ہر قسم کے فلٹر پلانٹ سے باآسانی گزر جاتے ہیں اور جھیلوں، دریاؤں اور مٹی میں شامل ہوجاتے ہیں۔

    زراعتی مٹی میں شامل پلاسٹک ہمارے کھانے پینے کی اشیا بشمول سبزیوں اور پھلوں میں شامل ہوجاتا ہے جبکہ سمندروں میں جانے والا پلاسٹک مچھلیوں اور دیگر آبی حیات کی خوراک بن جاتا ہے۔

    بعد ازاں جب یہ مچھلیاں پک کر ہماری پلیٹ تک پہنچتی ہیں تو ان میں پلاسٹک کے بے شمار اجزا موجود ہوتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے دریا اور سمندر پلاسٹک سے اٹ چکے ہیں اور سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات اور مچھلیوں سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگا۔

    نیدر لینڈز کے ماحولیاتی ادارے گرین پیس کے مطابق دنیا بھر میں 26 کروڑ ٹن پلاسٹک پیدا کیا جاتا ہے جس میں سے 10 فیصد ہمارے سمندروں میں چلا جاتا ہے۔

  • کلائمٹ چینج اب اسکولوں میں پڑھایا جائے گا

    کلائمٹ چینج اب اسکولوں میں پڑھایا جائے گا

    اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے اسکولوں میں موسموں میں ہونے والے تغیرات یعنی کلائمٹ چینج اور اس کے اثرات کے حوالے سے تعلیم دینے کا فیصلہ کرلیا گیا۔

    یہ اقدام وزارت برائے کلائمٹ چینج اور وزارت تعلیم کی مشترکہ کوششوں سے اٹھایا جارہا ہے جس میں انہیں تحفظ ماحولیات کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں اور کلائمٹ چینج ماہرین کی معاونت حاصل ہے۔

    منصوبے کے تحت وفاقی دارالحکومت کے 400 اسکولوں میں کلائمٹ چینج کے حوالے سے تعلیم دی جائے گی جبکہ مختلف تربیتی ورکشاپس اور ٹریننگز کا بھی انعقاد کیا جائے گا۔

    ترجمان برائے محکمہ کلائمٹ چینج محمد سلیم کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج کے حوالے سے انسانی رویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے سب سے بہترین جگہ اسکول ہیں جہاں سے اس تبدیلی کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔

    محمد سلیم کے مطابق یہ اقدام وزیر اعظم عمران خان کے شروع کیے گئے پروگرام کلین گرین پاکستان موومنٹ کا حصہ ہے۔

    مذکورہ پروگرام کے تحت وفاقی دارالحکومت کے سرکاری اسکولوں میں کلائمٹ چینج، تحفظ ماحولیات، پانی کے بچاؤ اور صفائی ستھرائی کے بارے میں تعلیم دی جائے گی۔ اس پروگرام سے ایک لاکھ کے قریب بچے کلائمٹ چینج کے بارے میں تعلیم حاصل کرسکیں گے۔

    ترجمان کے مطابق مذکورہ پروگرام کو بہت جلد پورے ملک میں شروع کیا جائے گا اور ملک کے تمام اسکولوں میں کلائمٹ چینج کی تعلیم دی جائے گی۔

  • ہمیں مستقبل کی نسلوں کا احساس کر کے فیصلے کرنے ہیں: وزیر اعظم عمران خان

    ہمیں مستقبل کی نسلوں کا احساس کر کے فیصلے کرنے ہیں: وزیر اعظم عمران خان

    اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ماحولیات کا تحفظ ہم سب کا فرض ہے، ہمیں مستقبل کی نسلوں کا احساس کر کے فیصلے کرنے ہوتے ہیں، خوش قسمت پاکستانی ہوں جو تمام پاکستانی علاقے گھوم چکا ہوں۔

    وزیر اعظم عمران خان آج اسلام آباد میں منعقدہ 7 ویں ایشین ریجنل کنزرویشن کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے، انھوں نے کہا پاکستان قدرتی خوب صورتی اور وسائل سے مالا مال ملک ہے، کے پی میں حکومت بنانے کے بعد بلین ٹری منصوبہ شروع کیا، پہلی بار کسی حکومت نے ماحولیاتی تحفظ کے لیے قدم اٹھایا۔

    انھوں نے کہا ماضی میں فضائی اور آبی آلودگی کی روک تھام پر توجہ نہیں دی گئی، میں لاہور میں پلا بڑا ہوں، جس کی آب و ہوا بہت صاف ستھری تھی، ہماری توجہ شہروں کو پھیلانے کی بہ جائے بلند عمارتوں پر ہے۔

    وزیر اعظم کا کہنا تھا مجھے جلد ہی قدرتی ماحول کو درپیش نقصانات کا احساس ہو گیا تھا، جب میں پیدا ہوا تو آبادی 4 کروڑ تھی، آج 22 کروڑ ہے، شہروں میں رہنے والے زیادہ تر لوگ پاکستانی خوب صورتی نہیں دیکھ پاتے، پاکستان میں گھنے جنگلات، طویل صحرا اور بلند و بالا پہاڑی سلسلے ہیں، پاکستان کے بعض علاقوں جیسے حسین نظارے دنیا میں کہیں نہیں۔

    انھوں نے کہا جب کے پی میں بلین ٹری منصوبہ شروع کیا گیا تو اس میں مقامی آبادی کو بھی شامل کیا گیا، خیبر میں ٹمبر مافیا کی صورت میں بڑے ہم نے چیلنج کا مقابلہ کیا، ٹمبر مافیا کی وجہ سے 10 فاریسٹ گارڈز نے جانوں کا نذرانہ دیا۔

  • کچرے سے آلودہ کراچی کے لیے سنگاپور بہترین مثال

    کچرے سے آلودہ کراچی کے لیے سنگاپور بہترین مثال

    کراچی کے کچرے نے نہ صرف شہریوں بلکہ ارباب اختیار کو بھی پریشان کر رکھا ہے کہ روزانہ پیدا ہونے والے لاکھوں ٹن کچرے کو کیسے اور کہاں ٹھکانے لگایا جائے۔

    نہ صرف کراچی بلکہ کچرے سے پریشان دنیا کے ہر شہر کو اس معاملے میں سنگاپور کے نقش قدم پر چلنا چاہیئے۔

    براعظم ایشیا کا سب سے جدید، ترقی یافتہ اور خوبصورت ترین ملک سنگاپور نہایت چھوٹا سا ملک ہے اور یہاں کچرے کے بڑے بڑے ڈمپنگ پوائنٹس بنانے کی قطعی جگہ نہیں۔

    سنگاپور کی صفائی ستھرائی مغربی ممالک کو بھی پیچھے چھوڑ دیتی ہے، آئیں دیکھتے ہیں کہ سنگاپور اپنے کچرے کو کس طرح ٹھکانے لگاتا ہے۔

    سنگاپور میں روزانہ کی بنیاد پر ہر جگہ سے کچرا اکٹھا کیا جاتا ہے۔ پورے ملک سے اکٹھا کیا جانے والا کچرا ایک بڑی سی عمارت میں لایا جاتا ہے۔

    اس عمارت میں اس کچرے کو جلایا جاتا ہے، یہاں جلنے والی آگ سال کے 365 دن جلتی رہتی ہے، 1000 ڈگری سیلسیئس پر جلنے والی یہ آگ سب کچھ جلا دیتی ہے۔

    کچرے جلانے کے اس عمل سے بجلی پیدا کی جاتی ہے، یہ عمارت سنگاپور میں توانائی پیدا کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔

    اور سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ اس عمارت سے نکلنے والا دھواں ماحول کو ذرہ برابر بھی نقصان نہیں پہنچاتا۔

    دراصل اس عمارت میں صرف مزدور یا کاریگر موجود نہیں ہوتے جو آگ جلا کر کچرا اس میں پھینک دیں، یہاں سائنسدان اور اپنے شعبے کے ماہرین موجود ہوتے ہیں جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ یہاں سے نکلنے والا دھواں صاف ستھرا ہو۔

    زہریلے دھوئیں کو صاف یا فلٹر کرنے کا عمل جدید سائنسی بنیادوں پر استوار اور نہایت پیچیدہ ہے، اور اس مشکل عمل کے بعد اس عمارت کی چمنیوں سے خارج سے ہونے والی ہوا بالکل صاف ستھری ہوتی ہے۔

    اس عمارت میں 90 فیصد کچرا جل کر غائب ہوجاتا ہے، صرف 10 فیصد راکھ کی صورت میں باقی رہ جاتا ہے۔ اس راکھ کو دور دراز واقع انسانی ہاتھوں سے بنائے گئے ایک جزیرے پر لے جایا جاتا ہے اور پانی میں ڈال دیا جاتا ہے۔

    یہ پانی سمندر اور دریاؤں سے بالکل الگ تھلگ ہے لہٰذا اس میں ڈالی جانے والی راکھ یہیں رہتی ہے۔

    سنگاپور کی اس حکمت عملی سے وہ پلاسٹک جسے غائب ہونے میں 500 برس لگتے ہیں، 1 دن میں غائب ہوجاتا ہے۔

    اور یہ سارا عمل اس قدر صاف ستھرا ہے کہ سنگاپور کا قدرتی ماحول اور حسن برقرار ہے، جنگلی و آبی حیات اور نباتات تیزی سے نشونما پا رہے ہیں اور جنگل سرسبز ہیں۔

  • گرین ہاؤس گیس کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فی صد سے بھی کم ہے: وزیر اعظم

    گرین ہاؤس گیس کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فی صد سے بھی کم ہے: وزیر اعظم

    نیویارک: وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی پر کوئی ملک اکیلے کچھ نہیں کر سکتا، گرین ہاؤس گیس کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فی صد سے بھی کم ہے۔

    ان خیالات کا اظہار انھوں نے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے کیا، وزیر اعظم نے کہا کہ عالمی موسمیاتی تبدیلی پر ساری دنیا کو مل کر کام کرنا ہوگا۔

    انھوں نے کہا کہ پاکستان گلوبل وارمنگ سے متاثرہ ممالک میں ساتویں نمبر پر ہے، موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے موسمیاتی ہجرت وجود میں آ رہی ہے، گلوبل وارمنگ سے جو ممالک متاثر نہیں وہ مسئلے کو سنجیدہ نہیں لے رہے۔

    تازہ ترین:  امریکا کو افغانستان میں امن کے لیے اپنی فوج نکالنا ہوگی: عمران خان

    عمران خان نے کہا آج بہت سے ملک معاملے کی سنجیدگی کو نہیں سمجھ رہے، دنیا کو سوچنا ہوگا گلوبل وارمنگ انفرادی نہیں اجتماعی مسئلہ ہے۔

    انھوں نے کہا میں آج طاقت ور ملکوں سے اپیل کرتا ہوں کہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں، یہ انسانی صلاحیت ہے کہ جب وہ کسی چیلنج کو قبول کرتا ہے تو وہ اسے پورا کر لیتا ہے۔

    وزیر اعظم کا کہنا تھا ہمارے دریاؤں کا 80 فی صد پانی گلیشیئرز سے آتا ہے، گلوبل وارمنگ کی وجہ سے 5 ہزار نئی جھیلیں وجود میں آ چکی ہیں، ہمارے گلیشیئرز انتہائی تیزی سے پگھل رہے ہیں، اسی لیے ہم نے بلین ٹری منصوبہ شروع کیا۔

    انھوں نے مزید کہا پاکستان نے گزشتہ 5 سال میں ڈیڑھ ارب درخت لگائے، آیندہ 10 سالوں میں مزید 10 ارب درخت لگانے کا منصوبہ ہے۔

  • کراچی کا ساحل اور آبی حیات آلودگی کی زد میں، سیکڑوں مچھلیاں مر گئیں

    کراچی کا ساحل اور آبی حیات آلودگی کی زد میں، سیکڑوں مچھلیاں مر گئیں

    کراچی: شہر قائد کے ساحل پر سینکڑوں مچھلیاں آبی آلودگی کے باعث مر گئیں، مردہ مچھلیوں سمیت متعدد آبی حیات ساحل سمندر پر بکھری پڑی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کا ساحل اور آبی حیات آلودگی کی زد میں ہے، سیکڑوں مردہ مچھلیاں ساحل پر آ گئیں، مردہ مچھلیوں سمیت متعدد آبی حیات سمندر کنارے موجود ہیں۔

    مختلف اقسام کی مردہ مچھلیوں کے علاوہ کیکڑے اور آبی نباتات بھی ساحل پر بہہ کر آ گئی ہیں۔

    گندگی کی بنا پر ساحل پر شدید تعفن پھیل گیا ہے، شہری گندے ساحل پر ہی پکنک منانے پر مجبور ہیں، دوسری طرف مردہ مچھلیاں کھانے کے لیے ساحل پر پرندوں کی بھی بہتات ہو گئی ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  بارش کے بعد آبی حیات متاثر، سینکڑوں مردہ مچھلیاں کلفٹن ساحل پر آ گئیں

    یاد رہے کہ گزشتہ ماہ بارشوں کے بعد بھی آبی حیات بری طرح متاثر ہو گئی تھی اور کلفٹن کے ساحل پر سینکڑوں مردہ مچھلیاں آ گئی تھیں۔

    ڈائریکٹر ڈبلیو ڈبلیو ایف معظم علی خان کا کہنا تھا کہ بارش کے بعد آبی حیات کا متاثر ہونا انوکھی بات نہیں ہے، بارشوں میں ندی نالوں کا گندا پانی بڑی مقدار میں سمندر میں گرتا ہے۔

    گندا پانی اپنے ساتھ نامیاتی اورگینک پانی ساتھ لے کر جاتا ہے، جس کے باعث وہاں آکسیجن کی کمی ہو جاتی ہے، جس کے سبب سمندری حیات متاثر ہوتی ہے۔

    انھوں نے بتایا کہ کلفٹن کے ساحل پر مردہ آنے والی مچھلیاں بوئی کہلاتی ہیں، جو عموماً کنارے کے قریب پائی جاتی ہیں، کنارے کے قریب رہنے کی وجہ سے مچھلی کی یہ قسم زیادہ متاثر ہوتی ہے۔

  • "یہ سیارہ ہمارا اپنا ہے”: 16 سالہ طالبہ کی اپیل پر دنیا بھر میں مظاہرے

    "یہ سیارہ ہمارا اپنا ہے”: 16 سالہ طالبہ کی اپیل پر دنیا بھر میں مظاہرے

    لندن: ماحولیاتی بگاڑ کے خلاف دنیا بھر میں‌ مظاہرے جاری ہیں، ان مظاہروں کا محرک ایک سولہ سالا سویڈش طالبہ ہے، جو ماحول کے تحفظ کی توانا ترین آواز بن گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق آج  دنیا کے سو بڑوں شہروں میں ہونے والا  احتجاج بین الاقوامی تحریک ’فرائیڈے فار فیوچر‘ کی اپیل پر کی جارہا ہے۔  اس منفرد تحریک کی بنیاد سویڈن کی ٹین ایجر گریٹا تھون برگ نے رکھی.

    ایمنسٹی انٹرنیشنل کا اعلیٰ ترین اعزاز اپنے نام کرنے والی اس بچی کی جدوجہد اور کہانی ٹائم میگزین کے سرورق کی بھی زینت بن چکی ہے۔

    گریٹا تھون برگ کی شہرت کی ابتدا اگست 2018 میں اسٹاک ہولم میں سویڈش پارلیمان کے باہر  ہر جمعے کو  کیے جانے والے احتجاج سے ہوئی، جو وہ اکیلے کیا کرتی تھی۔

    دھیرے دھیرے لوگ اس تحریک میں شامل ہوتے گئے، کاررواں بنتا گیا اور آج سو سے زاید شہروں میں ماحول کو بچانے کے لیے احتجاج جاری ہے۔ 

    احتجاج کا سلسلہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ہونے والے مظاہروں سے شروع ہوا، بعد ازاں برطانیہ میں‌ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد بینر اٹھائے سڑکوں پر نکلے.

    یہ مظاہرے ایشیا، یورپ، افریقہ اور امریکی براعظموں کے تمام بڑے شہروں میں کیے جا رہے ہیں۔

    اس مہم کے تحت دنیا کے سو دس سے زائد بڑے شہروں میں مظاہروں کا اہتمام کیا گیا ہے، اس وقت بھی مختلف خطوں میں ریلیاں جاری ہیں۔

  • برازیل نے ایمازون جنگلات کے لیے دیا جانے والا عطیہ ٹھکرا دیا

    برازیل نے ایمازون جنگلات کے لیے دیا جانے والا عطیہ ٹھکرا دیا

    پیرس: جی 7 ممالک نے برازیل میں ایمازون کے بارانی جنگلات میں لگی آگ کو بجھانے کے لیے اٹھارہ ملین یورو (1 کروڑ 80 لاج یورو) کی فوری امداد کی پیشکش کی تاہم برازیل نے یہ پیشکش ٹھکرا دی۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق چلی کے صدر سباستیان پینیئرانے کہا کہ اس امداد کے علاوہ دوسرے مرحلے میں ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ایمازون نامی ایک مہم بھی شروع کی جائے گی۔

    دوسری جانب برازیل کے صدر جیئر بولسونارو نے اسے اپنے ملک کے داخلی معاملات میں دخل اندازی سے تعبیر کیا ہے۔

    رین فاریسٹ کی خاصیت رکھنے والے ایمازون کا یہ جنگل یعنی جہاں بارشیں سب سے زیادہ ہوتی ہیں، دنیا میں موجود برساتی جنگلات کا 60 فیصد حصہ ہیں۔

    سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس برازیل کے جنگل میں 78 ہزار 383 مرتبہ آگ لگنے کے واقعات پیش آئے جو 2013 کے بعد سے سب سے زیادہ ہیں۔

    رپورٹس کے مطابق برازیل کے جنگلات میں 72 ہزار سے زائد مرتبہ آگ لگ چکی ہے اور گزشتہ برس کے مقابلے ان واقعات میں 84 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

    برازیل کی نیشنل انسٹیٹوٹ فار اسپیس ریسرچ (این آئی پی ای) کے مطابق نصف آگ جس حصے میں لگی وہاں تقریباً 2 کروڑ آبادی رہائش پذیر ہے۔

    آگ سے متعلق نئے اعداد و شمار کے بعد برازیل کے صدر جیئر بولسونارو نے عسکری قیادت کو آتشزدگی سے نمٹنے اور خطے میں مجرمانہ کارروائیوں کے خاتمے کی اجازت بھی دے دی۔

  • پلانٹ فار پاکستان کا مقصدملک کے ہر چپے کو سبزوشاداب بنانا ہے، فردوس عاشق اعوان

    پلانٹ فار پاکستان کا مقصدملک کے ہر چپے کو سبزوشاداب بنانا ہے، فردوس عاشق اعوان

    اسلام آباد: معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے شجرکاری کو خصوصی اہمیت دی۔

    تفصیلات کے مطابق سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر فردوس عاشق اعوان نے اپنے پیغام میں کہا کہ پلانٹ فار پاکستان کا مقصدملک کے ہر چپے کو سبزوشاداب بنانا ہے۔

    فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ عمران خان واحد رہنما ہیں جنہوں نے ماحولیاتی چیلنجز سےنمٹنے کے لیے اقدام اٹھائے، وزیراعظم عمران خان نے شجرکاری کوخصوصی اہمیت دی۔

    معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ تمام شہری مہم کا حصہ بنیں اور پودا لگائیں، درخت لگانا سنت نبویﷺ اور صدقہ جاریہ ہے۔

    مشیر تجارت عبد الرزاق داؤد نے پارلیمنٹ لاجز میں پھل دار پودا لگایا

    یاد رہے کہ گزشتہ روز مشیر تجارت رزاق داؤد نے بھی کلین اینڈ گرین مہم میں حصہ لیتے ہوئے پارلیمنٹ کے لان میں پودا لگایا تھا۔ اس موقع پر وزارت تجارت کے اعلیٰ حکام بھی ان کے ہم راہ موجود تھے۔

    اس سے قبل گزشتہ دنوں اسلام آباد میں وزیر اعظم عمران خان نے کلین اینڈ گرین پاکستان مہم کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کو درختوں کی بہت ضرورت ہے، پانچ سال بعد پاکستان یورپ سے زیادہ صاف نظر آئے گا، ایسا پاکستان چھوڑ کر جائیں گے کہ یقین ہی نہیں آئے گا۔