Tag: ماحولیات

  • کراچی کے شہریوں کا فی ہفتہ 5 گرام پلاسٹک کھانے کا انکشاف

    کراچی کے شہریوں کا فی ہفتہ 5 گرام پلاسٹک کھانے کا انکشاف

    کراچی: ایک حالیہ تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ شہرِ قائد کے شہری ایک ہفتے میں 5 گرام پلاسٹک کھاتے ہیں، غذا میں شامل پلاسٹک کے ذرات انسانی زندگی کے لیے جان لیوا بننے لگے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ڈبلیو ڈبلیو ایف انٹرنیشنل نے پلاسٹک پلوشن کی تازہ تحقیق جاری کر دی ہے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پلاسٹک کے ذرات انسانی زندگی کے لیے جان لیوا ثابت ہو رہے ہیں۔

    یہ رپورٹ یونی ورسٹی آف نیو کاسل آسٹریلیا کے طلبہ نے عالمی ماحولیات پر تیار کی ہے، رپورٹ کے مطابق کراچی میں پلاسٹک کے بڑھتے ذرات شہریوں کی خوراک کا حصہ بننے لگے ہیں۔

    پلاسٹک کی وجہ سے کراچی کے شہریوں کا غذائی نظام بھی متاثر ہوا ہے، تحقیق کے مطابق ایک ہفتے میں 5 گرام پلاسٹک عام آدمی کی غذا کا حصہ بن رہی ہے، پلاسٹک کی آلودگی سے ہوا، پانی اور مٹی کی کوالٹی بہت متاثر ہے، پلاسٹک کی مقدار مہینے کے اوسطاً 21 گرام اور سال کے 250 گرام کے برابر ہے۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کا کہنا ہے کہ کلفٹن کے ساحل پر ایک گرام مٹی میں 300 پیس مائیکرو پلاسٹک رپورٹ ہوئے ہیں، تنظیم کے ٹیکنیکل ایڈوائزر معظم خان نے بتایا کہ مائیکرو پلاسٹک سے آبی جانور اور ماحول متاثر ہو رہا ہے۔

    معظم خان نے مزید بتایا کہ ڈبلیو ڈبلیو ایف اس سلسلے میں پاکستان کے 10 شہروں میں آگاہی پروگرام ترتیب دے رہا ہے۔

  • ہاتھیوں نے اپنے زخمی ساتھی کو چھوڑنے سے انکار کردیا

    ہاتھیوں نے اپنے زخمی ساتھی کو چھوڑنے سے انکار کردیا

    جانوروں میں ایک دوسرے سے محبت اور ان کی حفاظت کا جذبہ بہت طاقتور ہوتا ہے، اس کی ایک مثال افریقہ کے جنگلات میں بھی دیکھنے میں آئی جب ہاتھیوں نے اپنے زخمی بے ہوش ساتھی کو چھوڑ کر جانے سے انکار کردیا۔

    زیر نظر ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک ہاتھی ایک کسان کے پھینکے گئے تیر سے زخمی ہوگیا، زخمی ہاتھی کی مدد کے لیے ویٹ ڈاکٹروں کی ایک ٹیم اور ان کی حفاظت کے لیے رینجرز کا ایک دستہ اس مقام پر پہنچا۔

    ان ڈاکٹرز نے زخمی ہاتھی کو گن سے ڈارٹ پھینک کر بے ہوش کیا تاہم اس کے ساتھ ہی کسی حد تک متوقع صورتحال بھی سامنے آگئی۔

    ہاتھیوں کا جھنڈ اپنے زخمی ساتھی کے گرد جمع ہوگیا۔ رینجرز نے ان ہاتھیوں کو ڈرا کر بھگانے کی کوشش کی لیکن ہاتھی ٹس سے مس نہ ہوئے۔ آخر کار کسی طرح ان ہاتھیوں کو ہٹایا گیا اور زخمی ہاتھی کے گوشت میں دھنسا تیر نکالا گیا۔

    ویٹ ڈاکٹرز کا کہنا تھا کہ یہ ہاتھی کسانوں کی فصل روند ڈالتے ہیں لہٰذا کسان انہیں ایک بڑا خطرہ سمجھتے ہیں، وہ ہاتھی کو اپنی فصل کے ارد گرد دیکھ کر انہیں نقصان پہنچاتے ہیں تاکہ وہ وہاں سے چلے جائیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ کسانوں کے پھینکے گئے ہتھیار جیسے تیر وغیر ان ہاتھیوں کے لیے نہایت خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ ہاتھی خود سے انہیں نہیں نکال سکتے۔ یہ ہتھیار ان کے جسم کے اندر رہ کر انفیکشن پیدا کرسکتے ہیں جس سے ہاتھی کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے۔

    ایک ویٹ ڈاکٹر کا کہنا تھا، ’ہاتھیوں کو زیادہ جگہ کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ہم ان سے ان کی جگہ چھین رہے ہیں، پھر ہم ان کی دخل اندازی پر انہیں نقصان بھی پہنچاتے ہیں‘۔

    مذکورہ واقعے میں صرف 45 منٹ کے اندر نہ صرف ہاتھی ہوش میں آ گیا بلکہ بغیر کسی تکلیف کے اپنے پاؤں پر بھی کھڑا ہوگیا۔

  • استعمال شدہ کین خوبصورت فن پاروں میں تبدیل

    استعمال شدہ کین خوبصورت فن پاروں میں تبدیل

    دنیا بھر میں پھینک دیے جانے والے کچرے کا جمع ہونا اور اسے تلف کرنا ایک بڑا مسئلہ بنتا جارہا ہے جس کی وجہ سے آلودگی میں بے حد اضافہ ہورہا ہے۔ اسی مسئلے کو دیکھتے ہوئے ری سائیکلنگ یعنی اشیا کے دوبارہ استعمال کو فروغ دیا جارہا ہے۔

    ایک افریقی فنکار نے بھی اس کی نہایت شاندار مثال پیش کی۔ مغربی افریقی ملک آئیوری کوسٹ کے شہر عابد جان سے تعلق رکھنے والے فنکار ولفرائیڈ ٹیرور نے استعمال شدہ کینز سے خوبصورت فن پارے تشکیل دے دیے۔

    یہ فنکار گلیوں میں گھوم کر جا بجا پھینکے گئے سوڈا اور بیئر کی کینز جمع کرتا ہے اور انہیں چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ کر ان سے خوبصورت فن پارے بناتا ہے۔

    فرائیڈ کو یہ خیال شہر میں پھیلی ہوئی بے تحاشہ آلودگی دیکھ کر آیا۔ شہر میں پھینکا گیا کچرا ندی نالوں اور دریاؤں میں شامل ہو کر پانی کو آلودہ کر رہا تھا جبکہ اس سے سمندری حیات کو بھی سخت خطرات لاحق ہو رہے تھے۔

    اس شہر میں ہر سال 50 لاکھ ٹن کچرا جمع ہوتا ہے جس میں سے صرف 10 فیصد ری سائیکل ہوتا ہے۔

    فرائیڈ کا کہنا ہے کہ اس کی اس کوشش سے لوگوں میں بھی شعور پیدا ہوگا کہ پھینکا ہوا کچرا بھی ان کی ذمہ داری ہے، وہ سوچ سمجھ کر چیزوں کا استعمال کریں اور چیزوں کو ری سائیکل یعنی دوبارہ استعمال کرنا سیکھیں۔

    اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ اب شہر کے لوگ بھی کین جمع کر کے فرائیڈ کو دیتے ہیں تاکہ وہ مزید فن پارے تخلیق کرسکے۔

  • ننھی چڑیا اپنے محسن کو نہ بھولی، موسم بدلنے پر ہر سال ملنے آتی ہے

    ننھی چڑیا اپنے محسن کو نہ بھولی، موسم بدلنے پر ہر سال ملنے آتی ہے

    امریکی ریاست جارجیا میں ایک سیکیورٹی افسر ہر سال ایک ننھے سے مہمان کا استقبال کرتا ہے، یہ مہمان کوئی اور نہیں ننھا سا ہمنگ برڈ ہے جو ہر سال اپنے اس محسن سے ملنے آتا ہے۔

    دنیا کا سب سے چھوٹا پرندہ ہمنگ برڈ جو نصف انسانی انگلی سے بھی چھوٹا ہے، ہر سال اپنے اس دوست سے ملنے کے لیے آتا ہے۔

    مائیکل کارڈنز نامی یہ سیکیورٹی افسر بتاتا ہے کہ 4 سال قبل اپنے گارڈن میں اسے یہ پرندہ اس حالت میں ملا تھا کہ اس کے پر ٹوٹے ہوئے تھا، یہ زخمی تھا اور اڑ نہیں سکتا تھا۔

    مائیکل نے اس پرندے کی دیکھ بھال کی اور اس کی غذا کا خیال رکھا، 8 ہفتوں بعد جب پرندے کے پر دوبارہ اگ آئے اور وہ اڑنے کے قابل ہوگیا تو وہ واپس اپنے گھر کی طرف لوٹ گیا۔

    اس کے اگلے برس مائیکل نے دیکھا کہ وہ پرندہ پھر اس کی کھڑکی پر موجود تھا۔ یہ پرندہ اس علاقے سے دور جنوب کی طرف رہتا ہے اور مائیکل کے مطابق یہ خاصا لمبا سفر کر کے اس سے ملنے آیا تھا۔

    اس کے بعد یہ ہر برس کا معمول بن گیا۔ ہر سال جب پرندے ہجرت کرنا شروع ہوتے ہیں تو یہ پرندہ اپنے دوسرے گھر جانے سے قبل اپنے محسن سے ملنے ضرور آتا ہے جس نے اس کی جان بچائی تھی۔

    مائیکل کہتا ہے کہ اپنے اس دوست سے ملاقات کر کے اسے بے حد خوشی ملتی ہے اور اب وہ ہر سال شدت سے اس کا انتظار کرتا ہے۔

  • معدوم قرار دیا گیا پودا ڈرون نے ڈھونڈ نکالا

    معدوم قرار دیا گیا پودا ڈرون نے ڈھونڈ نکالا

    امریکی سائنسدانوں کو معدوم قرار دیا گیا پودا دوبارہ مل گیا، ہوائی کے علاقے کا یہ مقامی پودا عالمی سطح پر معدوم قرار دیا جاچکا تھا۔

    امریکی جزیرہ نما خطے ہوائی کے ایک پہاڑی علاقے کوائی میں واقع نیشنل ٹراپیکل بوٹانیکل گارڈن میں تحقیق کے دوران یہ پودا نظر آیا۔ کوائی کا علاقہ نایاب درختوں، پودوں، جڑی بوٹیوں اور جانداروں کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے۔

    جس جگہ پر پودا دکھائی دیا وہ پہاڑی اور دشوار گزار علاقہ ہے جس کا جائزہ لینے کے لیے ڈرون سے مدد لی گئی تھی۔ ماہرین نے جب اس کی ویڈیو دیکھی تو حیرت انگیز طور پر انہیں یہ پودا دکھائی دیا۔

    یہ پودا سنہ 1991 میں ایک ماہرِ نباتیات نے پہلی بار دیکھا تھا اور سنہ 1995 میں اسے ایک نئی قسم کے پودے کے طورپر شامل کرلیا گیا۔ اس کے بعد سنہ 2009 تک یہ دنیا میں کہیں نہیں ملا اور ماہرین نے بالآخر اسے معدوم قرار دے دیا تھا۔

    یہ پودا دراصل ایک بیل ہے جس پر پیلے رنگ کے پھول اگتے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ جامنی مائل سرخ رنگ کے ہوجاتے ہیں۔

    ماہرین نے اس پودے کی افزائش کے لیے کئی جتن کیے تھے لیکن سب میں ناکامی ہوئی، اب دوبارہ اسے دیکھنے کے بعد ماہرین پر امید ہیں کہ نئی ٹیکنالوجی سے اس پودے کے تحفظ میں مدد ملے گی۔

  • عالمی یوم ارض: زمین کی مختلف انواع انسان کی بقا کی ضامن

    عالمی یوم ارض: زمین کی مختلف انواع انسان کی بقا کی ضامن

    دنیا بھر میں آج ہماری زمین کے تحفظ اور اس سے محبت کا شعور اجاگر کرنے کے لیے عالمی یوم ارض یعنی زمین کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔

    عالمی یوم ارض سب سے پہلے سنہ 1970 میں منایا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب تحفظ ماحولیات کے بارے میں آہستہ آہستہ شعور اجاگر ہو رہا تھا اور لوگ فضائی آلودگی اور دیگر ماحولیاتی خطرات کا بغور مشاہدہ کر رہے تھے۔

    رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ہے ’پروٹیکٹ اور اسپیشیز‘ یعنی مختلف انواع کا تحفظ۔

    انسانوں کی صنعتی ترقی اور ماحولیاتی وسائل کے بے دریغ استعمال نے اس وقت زمین پر رہنے والے ہر جاندار کی زندگی داؤ پر لگا دی ہے، چاہے وہ مختلف جانور ہوں یا درخت اور پودے۔

    زمین پر موجود تمام جانوروں اور پودوں کی موجودگی اس زمین اور خود انسانوں کے لیے نہایت ضروری ہے۔ کسی ایک جانور یا پودے کی نسل بھی اگر خاتمے کو پہنچی تو اس سے پوری زمین کی خوراک کا دائرہ (فوڈ سائیکل) متاثر ہوگا اور انسانوں سمیت زمین پر موجود تمام جانداروں پر بدترین منفی اثر پڑے گا۔

    کچھ عرصہ قبل لندن کی زولوجیکل سوسائٹی اور تحفظ جنگلی حیات کی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب سے ایک رپورٹ جاری کی گئی تھی جس میں بتایا گیا کہ سنہ 1970 سے 2012 تک دنیا بھر میں موجود مختلف جانوروں کی آبادی میں 58 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔

    ان کے علاوہ بھی جانوروں کی کئی اقسام معدومی کے خطرے کا شکار ہیں۔ ماہرین کے مطابق معدومی کے خطرے کا شکار جانوروں میں پہاڑوں، جنگلوں، دریاؤں، سمندروں سمیت ہر مقام کے جانور اور ہاتھی، گوریلا سے لے کر گدھ تک شامل ہیں۔

    یہی صورتحال درختوں اور جنگلات کی ہے، ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 1 کروڑ 87 لاکھ ایکڑ رقبے پر مشتمل جنگلات کاٹ دیے جاتے ہیں۔

    عظیم معدومی

    ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین پر ایک اور عظیم معدومی کا وقت تیزی سے قریب آتا جارہا ہے اور اس کی رفتار ہمارے گمان سے بھی تیز ہے۔

    عظیم معدومی ایک ایسا عمل ہے جو کسی تباہ کن آفت یا زمینی و جغرافیائی عوامل کی وجہ سے رونما ہوتی ہے اور اس کے بعد زمین سے جانداروں کی 60 فیصد سے زائد آبادی ختم ہوجاتی ہے۔ بچ جانے والی حیاتیات اس قابل نہیں ہوتی کہ ہھر سے اپنی نسل میں اضافہ کرسکے۔

    زمین پر اب تک 5 عظیم معدومیاں رونما ہوچکی ہیں۔ سب سے خوفناک معدومی 25 کروڑ سال قبل واقع ہوئی جب زمین کی 96 فیصد آبی اور 70 فیصد زمینی حیات صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔

    آخری معدومی اب سے ساڑھے 6 کروڑ سال قبل رونما ہوئی جس میں ڈائنوسارز سمیت زمین کی ایک تہائی حیاتیات ختم ہوگئی۔

    ماہرین کے مطابق ہم انسان جس خود غرضانہ طریقے سے صرف اپنے لیے زمین اور اس کے وسائل کو استعمال کر رہے ہیں، قوی امید ہے کہ زمین سے جنگلی حیات اور دیگر انواع کا خاتمہ ہوجائے، لیکن یہاں یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ اتمام انواع ہی انسان کی بقا کی ضانت ہیں اور ان انواع کا خاتمے کے بعد انسان کی بقا کی امید رکھنا خام خیالی ہے۔

  • ہر 10 مر لے کے گھر میں ایک درخت لازمی قرار دینے کی منصوبہ بندی

    ہر 10 مر لے کے گھر میں ایک درخت لازمی قرار دینے کی منصوبہ بندی

    لاہور: تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور وائس چیئرمین پی ایچ اے لاہور حافظ ذیشان رشید نے کہا ہے کہ ہر 10 مرلہ کے گھر میں ایک درخت لازمی قرار دینے کی منصوبہ بندی کر لی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز علامہ اقبال ٹاﺅن میں ہرا بھرا پاکستان مہم کے تحت پودا لگانے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حافظ ذیشان نے کہا کہ دس مرلے کے مکان میں ایک درخت لازمی قرار دینے کے سلسلے میں وزیر ہاﺅسنگ پنجاب میاں محمود الرشید نے بھی جلد قانون سازی کا عندیہ دے دیا ہے۔

    انھوں نے کہا کہ ہر شہری کو چاہیے کہ قومی فریضہ سمجھ کر کلین اینڈ گرین پاکستان مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے، اپنے نام کا پودا لگا کر اس کی مکمل دیکھ بھال کرے۔

    یہ بھی پڑھیں:  یونیورسٹی سائنس اینڈٹیکنالوجی بنوں میں ڈگری درخت لگانے سے مشروط

    وائس چیئرمین پی ایچ اے کا کہنا تھا کہ دس مرلہ گھر میں درخت لگانا لازمی قرار دینے کا مقصد ایک صحت معاشرے کی تشکیل ہے۔

    حافظ ذیشان نے کہا کہ تحریک انصاف نے ہمیشہ اداروں کی مضبوطی اور اسے مالی طور پر مستحکم بنانے کی بات کی ہے، ہم بھی یہی وژن لے کر چل رہے ہیں۔

    گزشتہ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پارکوں کے باہر پارکنگ فیس ختم کر کے ادارے کو خسارے کی طرف دھکیلا گیا، کوشش ہے شہریوں کی گاڑیوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ پیسا پی ایچ اے کو ملے جو اس کا حق ہے۔

  • دریاے سندھ کو صاف رکھنے کا عزم، پھولوں سے خراجِ تحسین

    دریاے سندھ کو صاف رکھنے کا عزم، پھولوں سے خراجِ تحسین

    ڈی آئی خان: ڈیرہ اسمعیل خان کے شہریوں نے دریائے سندھ کو صاف کرنے کے عزم روایتی ثقافتی طریقے سے احتجاج کرتے ہوئے دریا کو پھولوں سے خراج تحسین پیش کیا۔

    تفصیلات کے مطابق موسم بہار کی آمد کے موقع پر جب ہر طرف رنگوں اور خوشیوں کی بہار نظر آتی ہے ۔ وہیں ڈی آئی خان میں دریائے سندھ کو آلودگی سے پاک کرنے کیلئے پھولوں کا خراج پیش کیا جاتا ہے ۔انتظامیہ نے بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہر کے نکاسی آب اور گندے پانی کے تمام نالے دریائے سندھ میں ڈال دئیے گئے ہیں جس نہ صرف آبی حیات کا نقصان کا اندیشہ ہے بلکہ شہریوں کو پینے کا صاف پانی بھی اب میسر نہیں رہا۔

    انتظامیہ کی اسی بے حسی کے خلاف یہ منفرد اور دلچسپ احتجاج ہر سال موسم بہار کی آمد کے ساتھ منعقد کیا جاتا ہے، جس میں ڈیرہ اسماعیل خان کے باسی دریائے سندھ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے دریا میں پھول کی پتیاں نچھاور کرتے ہیں۔

    ہر سال کی طرح اب کی بار بھی ثقافتی وادبی تنظیم سپت سندھو سلہاڑ کے زیر اہتمام چیت بہار میلہ جسے عرف عام میں پھولوں والا میلہ بھی کہا جاتا ہے کا انعقاد کیاگیا۔جس میں ضلع ڈیرہ اسماعیل خان’ضلع ٹانک اور ضلع بھکر کے علاوہ سرائیکی وسیب کے دیگر شہروں سے بھی عوام نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔

    میلے کے شرکاء ریلی کی صورت میں امامیہ گیٹ پر اکھٹے ہوئے اور ڈھول کی تھاپ پر سرائیکی جھمر کا رقص پیش کرتے ہوئے اپنے روایتی راستے محکمہ موسمیات روڈ سے ہوتے ہوئے دریا ئے سند ھ کے کنارے پر پہنچے تو وہاں پر پہلے سے موجود شہریوں نے ریلی کا استقبال کیا۔جس کے بعدعاطف شہید پارک کے قریب دریا میں پھول بہا کر اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ دریا کے پانی کو کسی صورت گدلا نہیں ہونے دیں گے۔پانی میں ہی انسانوں کی بقاء اس لئے ہم دریا کی بقاء کی جنگ اپنی آخری سانس تک جاری رکھیں گے۔

    تقریب میں شرکت کرنیوالے ملک علی آصف سیال نے بتایا کہ شہر کے نکاسی آب اور گندے پانی کے تمام نالے دریائے سندھ میں ڈال دئیے گئے ہیں جس نہ صرف آبی حیات کا نقصان کا اندیشہ ہے بلکہ شہریوں کو پینے کا صاف پانی بھی اب میسر نہیں رہا ہے ۔گل پاشی کی تقریب کے بعد تمام شرکاء عاطف قیوم شہید پارک میں اکھٹے ہوئے جس سے پنڈال مرد وخواتین سے کچھا کھچ بھر گیا۔

    دریائے سندھ میں گل پوشی کے بعد عاطف قیوم شہید پارک میں سپت سندھو سلہاڑ کی پررونق تقریب سعید اختر سیال کی صدارت میں منعقد ہوئی۔جس میں سعید اختر سیال اور قیصر انور’ملک علی آصف سیال’سید حفیظ گیلانی’سلیم شہزادنے خطاب کیا اور دریا میں پھولوں بہانے کے اغراض ومقاصد اور پانی کی آلودگی پر تفصیلی روشنی ڈالی۔

    ڈاکٹر نعمان لطیف سدوزئی اور محمد عرفان مغل نے بطور مہمان خصوصی شرکاء سے خطاب کیا جبکہ اعجاز قریشی اور آفتاب احمد اعوان نے سٹیج سیکرٹری کے فرائض سرانجام دئیے۔اس موقع پر شرکاء کا کہنا تھا کہ اس وقت ساری دنیا آبی وسائل کی بقاء جنگ لڑ رہی ہے۔بدقسمتی سے ہمارے دریائے سندھ کے پانی کو محفوظ اور شفاف رکھنے کے لئے کوئی اقدامات نہ کئے گئے جس کی وجہ سے آج جہاں پانی ہر طرف پانی کی قلت کاسامنا ہے وہاں پانی کو آلودہ کیا جارہا ہے اور آبی حیات کے ساتھ ساتھ انسانوں کی بقاء بھی خطرے میں پڑگئی ہے۔

    لاکھوں کی کثیر آبادی والے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کا سارا فضلہ دریا میں براہ راست گر رہا ہے جس کی وجہ سے پانی پینے کے قابل نہیں رہا تو دوسری طرف فلٹریشن پلانٹ نصب نہ ہونے کی وجہ سے عوام آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے آرسینک کی مقدار بڑھ گئی ہے۔موذی بیماریاں پھیل رہی ہیں اور وبائیں پھوٹنے کاخدشہ بھی درپیش ہے۔شرکاء نے کہا کہ شومئی قسمت کہ زمانوں پہلے ہمارے اجداد دریاکے کنارے پر آباد ہوئے اور ہمیشہ اس دریا سے محبت وعقیدت کااظہار کیا لیکن آج دریا کی حالت زار دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔

    شرکاء کا کہنا تھا کہ مقامی ڈیرے وال ہر سال 23 مارچ کو دریا پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرکے خاموش اورپرامن احتجاج کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ شہر بھر کی گندگی کو پانی میں نہ انڈیلا نہ جائے ا ور جامعہ منصوبے وحکمت عملی سے شہر سے باہر نکاسی کے گندے پانی کو نکالا جائے تاکہ شہری تعفن زدہ پانی پینے سے محفوظ رہیں۔تاہم ہنگامی بنیادوں پر حکومت فلٹریشن پلانٹ کی تنصیب کو یقینی بنائے اور شہر میں پلاسٹک کے شاپر پر پابندی عائد کی جائے تاکہ دریا میں جمع ہونے والی گندگی کی روک تھام میں مدد مل سکے اور دریائی پانی آلودہ ہونے سے بچ سکے۔

    سپت سندھو سلہاڑ کے زیر انتظام اس میلے میں خواتین کی بڑی تعداد نے بھی شرکت کی جبکہ شعراء نے ڈیرہ اسماعیل خان کی ثقافت کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے سرائیکی میں اپنا کلام پیش کرکے حاضرین کے دل موہ لئے۔اس کے علاوہ دھرتی ڈیرہ اسماعیل خان کے سپوت اور سرائیکی وسیب کے شہرازے لوک فنکار امجد نواز کارلو نے بھی اپنے فن کا جادو جگایا جس پر حاضرین جھومنے پر مجبور ہوگئے۔

  • کیا آپ نے یہ خوبصورت سی جنگلی بلی دیکھی ہے؟

    کیا آپ نے یہ خوبصورت سی جنگلی بلی دیکھی ہے؟

    کیا آپ نے کبھی مٹیالے رنگ کی جنگلی بلی دیکھی ہے؟ صحراؤں میں رہنے والی اس بلی کو سینڈ کیٹ کہا جاتا ہے۔

    بلیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیم پینتھرا نے حال ہی میں اس بلی کو عکسبند کیا اور یہ ان بلیوں کی پہلی عکسبندی ہے۔

    مراکش کے صحرا میں ملنے والے ان بلونگڑوں کی عمریں 6 سے 8 ہفتے تھی جبکہ یہ جھاڑی سے ملتے جلتے رنگ کی وجہ سے بہت مشکل سے دکھائی دیتے تھے۔

    سینڈ کیٹ صحرا میں رہنے والی بلی کی واحد قسم ہے اور یہ شمالی افریقہ، مشرق وسطیٰ، اور وسطی ایشیا کے صحراؤں میں پائی جاتی ہے۔

    یہ بلی سخت سرد اور گرم موسم کی عادی ہوتی ہے جبکہ یہ طویل وقت تک پیاسی بھی رہ سکتی ہے۔

    سنہ 2002 میں اس کی آبادی میں کمی کو دیکھتے ہوئے اسے خطرے کا شکار جانوروں کی فہرست میں شامل کردیا گیا۔

  • گلوبل وارمنگ پر تحریک برپا کرنے والی نوجوان لڑکی امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد

    گلوبل وارمنگ پر تحریک برپا کرنے والی نوجوان لڑکی امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد

    اسٹاک ہوم: سویڈن کی ایک اسکول طالبہ نے وہ کارنامہ انجام دے دیا ہے جو بڑے بڑوں کی نصیب میں نہیں ہوتا، اسکول کے دوران ماحولیات کے تحفظ کے لیے احتجاج کرنے والی یہ لڑکی امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کی گئی ہے۔

    16 سالہ گریٹا تُھن برگ نے نویں جماعت میں ایک بڑا فیصلہ کرتے ہوئے اگست 2018 میں عالمی حدت (گلوبل وارمنگ) اور موسمیاتی تغیر روکنے کے لیے سویڈن کی پارلیمنٹ کی عمارت کے باہر عام انتخابات سے قبل اسکول ہڑتال شروع کیا۔

    سویڈن حکومت سے کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے مطالبے کے بعد گریٹا تھن برگ نے ہر جمعے کے دن ’اسکول ہڑتال برائے ماحولیات‘ کا آغاز کیا اور پوری دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی۔

    نوجوان لڑکی کی یہ انوکھی ہڑتال نہ صرف سویڈین میں مقبول ہوگئی بلکہ اس نے پوری دنیا میں شہرت حاصل کرلی، اور کئی دیگر ممالک میں یہ تحریک شروع ہوئی۔

    ماحولیات کے تحفظ کے لیے خدمات پر گریٹا تھن برگ کو ناروے کے تین اراکینِ اسمبلی نے نوبل انعام کے لیے نامزد کیا ہے، خود گریٹا بھی اتنی کم عمری میں سیاسی ایکٹوسٹ کے طور پر مشہور ہے۔

    گریٹا تھن برگ نے اس خبر کے ردِ عمل میں اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر ایک پیغام میں کہا کہ یہ نامزدگی ان کے لیے اعزاز کی بات ہے۔

    اگر وہ نوبل حاصل کر لیتی ہیں تو وہ یہ انعام جیتنے والی سب سے کم عمر شخصیت ہوں گی، پاکستان کی ملالہ یوس فزئی نے یہ انعام 17 سال کی عمر میں حاصل کیا تھا۔

    یہ بھی پڑھیں:  کلائمٹ چینج کی طرف توجہ دلانے کے لیے دنیا بھر میں آج بچے اسکول سے چھٹی پر

    خیال رہے کہ گریٹا نے ’فرائیڈے فار فیوچر‘ نامی تحریک شروع کی ہے جس کے تحت آئندہ جمعے کو دنیا بھر کے سو سے زائد ممالک میں ہزاروں طلبہ ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف احتجاج کریں گے۔

    اس تحریک کے تحت اب تک جرمنی، برطانیہ، فرانس، آسٹریلیا اور جاپان میں اسکول طلبہ کی طرف سے احتجاج کیا جا چکا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  8 سالہ میکسیکن بچی نے نیوکلیئر سائنس پرائز جیت لیا

    گریٹا ہر جمعے کو اسکول سے ناغہ کرتی ہیں اور ماحولیات کے لیے باقاعدہ اسکول ہڑتال پر ہوتی ہیں، دل چسپ بات یہ ہے کہ گریٹا کو چند ایسی بیماریاں لاحق ہیں جن کی وجہ سے وہ لوگوں میں گھل ملنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔

    دسمبر میں پولینڈ میں اقوام متحدہ کی کلائمیٹ ٹالکس اور جنوری میں ڈیویس میں ورلڈ اکنامک فورم میں تقاریر کرنے کے بعد انھیں عالمی شہرت ملی۔