Tag: ماحولیات

  • مادہ پانڈا کو دھوکا دے کر اس کے بچے بدل دیے گئے

    مادہ پانڈا کو دھوکا دے کر اس کے بچے بدل دیے گئے

    چین میں پانڈا کے تحفظ کے لیے بنائے جانے والے ایک سینٹر میں ایک مادہ پانڈا کو بے خبر رکھ کر اس کے بچوں کی پرورش کروائی جارہی ہے۔

    چین کے شہر چنگژو میں اس مادہ پانڈا نے دراصل جڑواں بچوں کو جنم دیا ہے۔ مادہ پانڈوں کی اکثریت زیادہ تر جڑواں بچوں کو ہی جنم دیتی ہیں تاہم پیدائش کے بعد وہ ایک بچے کو لاوارث چھوڑ دیتی ہیں۔

    خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ایسا اس لیے کرتی ہیں کیونکہ وہ بیک وقت دو بچوں کو دودھ نہیں پلا سکتیں اور نہ ان میں اتنی توانائی ہوتی ہے کہ 2 بچوں کی نگہداشت کرسکیں۔

    تاہم اس سینٹر میں کوشش کی جارہی ہے کہ پانڈا کے دونوں بچے اپنی ماں کے زیر نگہداشت ہی بڑھ سکیں۔

    اس کے لیے سینٹر کی انتظامیہ کچھ وقت کے بعد ایک بچے کو دوسرے سے بدل کر ماں کے قریب رکھ دیتی ہے۔ یوں مادہ پانڈا دونوں بچوں کو دودھ پلاتی ہے اور ان کا خیال رکھتی ہے۔

    مزے کی بات یہ ہے کہ مادہ پانڈا اب تک اس دھوکے میں ہے کہ اس کا ایک ہی بچہ ہے جسے وہ پال رہی ہے۔

    اس عمل کے لیے سینٹر کی انتظامیہ کو نہایت تحمل کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے۔ وہ دن میں تقریباً 10 سے 11 بار بچے بدلنے کا یہ عمل انجام دیتے ہیں۔

    سینٹر کی انتظامیہ کا یہ عمل دراصل پانڈا کی آبادی میں اضافے کے لیے کی جانے والی کوششوں کی ایک کڑی ہے۔

  • پرفیومز خطرناک طبی نقصانات اور ہوا کو آلودہ کرنے کا سبب

    پرفیومز خطرناک طبی نقصانات اور ہوا کو آلودہ کرنے کا سبب

    ہم روزانہ مختلف اقسام کے صابن، پرفیومز اور ڈیوڈرینٹس کا استعمال کرتے ہیں، لیکن کیا آپ جانتے ہیں یہ اشیا ماحول کو آلودہ کرنے کا سبب بنتی ہیں؟

    یہ حیران کن انکشاف جرنل سائنس میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں ہوا ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے پیٹرولیم سے بنائے جانے والے کیمیکلز جو عموماً پرفیومز اور رنگ و روغن میں استعمال کیے جاتے ہیں ایسے گیسی مرکبات خارج کرتے ہیں جو ہوا کو آلودہ کردیتے ہیں۔

    تحقیق کے مطابق یہ وہی مرکبات ہیں جو گاڑیوں کے دھوئیں میں شامل ہوتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ مرکبات ہوا میں پہلے سے موجود مرکبات کے ساتھ مل کر اسموگ کی ایک تہہ تشکیل دے دیتے ہیں۔ یہ تہہ دمہ، امراض قلب، فالج اور پھیپھڑوں کا کینسر پیدا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ مرکبات ہیئر اسپرے اور کیڑے مار ادویات میں بھی استعمال کیا جاتے ہیں، کاسمیٹکس اشیا گھر کے اندر استعمال ہونے کے سبب گھر میں رہنے والے افراد کو طبی خطرات کا شکار بنا دیتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ تحقیق کے لیے جب انہوں نے لاس اینجلس کی فضا کی جانچ کی تو اس میں نصف سے زائد آلودہ مرکبات ایسے اجزا پر مشتمل تھے جن کا اخراج روزمرہ کی پرسنل کیئر پروڈکٹس سے ہوتا ہے۔

    تحقیق میں شامل ماہرین کے مطابق اس سے قبل گاڑیوں کے زہریلے دھوئیں کو ماحول اور صحت کے لیے خطرناک سمجھا جاتا تھا اور اس کی کمی کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں، تاہم روزمرہ کے استعمال کی ان پروڈکٹس کی طرف بھی توجہ دینی ہوگی اور انہیں ماحول دوست بنانا ہوگا۔

  • سندھ حکومت نے پولی تھین بیگ پر پابندی کی منظوری دے دی

    سندھ حکومت نے پولی تھین بیگ پر پابندی کی منظوری دے دی

    کراچی: سندھ حکومت نے محکمہ ماحولیات کی سفارشات منظور کرتے ہوئے پولی تھین بیگز پر مرحلہ وار پابندی لگانے کی منظوری دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق وزیرِ اعلی سندھ مراد علی شاہ کی زیرِ صدارت صوبائی کابینہ کا اجلاس منعقد ہوا، اجلاس میں پلاسٹک کی تھیلیوں پر مرحلہ وار پابندی کی منظوری دی گئی۔

    [bs-quote quote=”پولی تھین بیگ کی تیاری اور در آمد قانوناً جرم ہے” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_job=”محکمہ ماحولیات”][/bs-quote]

    قبل ازیں، کابینہ اجلاس میں پولی تھین بیگز کے استعمال پر پابندی کا معاملہ زیرِ غور آیا، محکمہ ماحولیات نے کہا کہ پولی تھین بیگ کی تیاری اور در آمد قانوناً جرم ہے۔

    سندھ کابینہ نے پولی تھین بیگز کے استعمال پر محکمۂ ماحولیات کی سفارشات منظور کر لیں، اجلاس میں پولی تھین بیگز کے استعمال پر مرحلہ وار پابندی لگانے کی تجویز پیش کی گئی۔

    پہلے مرحلے میں سکھر اور اس سے ملحقہ اضلاع میں پولی تھین بیگ کے استعمال پر پابندی عائد کی جائے گی، جب کہ اگلے مراحل میں کراچی اور حیدر آباد میں اس کا اطلاق کیا جائے گا۔


    یہ بھی پڑھیں:  پانی میں گُھل جانے والا ماحول دوست پلاسٹک کا تھیلا


    کابینہ فیصلے کے مطابق 3 ماہ میں مرحلہ وار تمام اضلاع میں پلاسٹک کی تھیلیوں کے استعمال پر پابندی لگائی جائے گی۔

    پولی تھین بیگز پر پابندی کو مؤثر بنانے کے لیے ان تھیلیوں کے تیار کنندہ گان اور تاجروں کو اعتماد میں لیا جائے گا۔

  • درختوں پر چڑھنے والی بکریاں جنگلات میں اضافے کا سبب

    درختوں پر چڑھنے والی بکریاں جنگلات میں اضافے کا سبب

     کیا آپ نے ایسی بکریاں دیکھی ہیں جو درختوں پر چڑھ کر باآسانی اس کے اوپر پہنچ جاتی ہیں؟

    ایسی بکریاں عموماً شمالی افریقی ملک مراکش میں پائی جاتی ہیں اور انہیں درختوں پر چڑھتے دیکھنا خاصا دلچسپ تجربہ ہوسکتا ہے۔

    ایک عمومی خیال تھا کہ یہ بکریاں درختوں کو برباد کرنے کا سبب بنتی ہیں کیونکہ یہ درختوں کے اوپر چڑھ کر ان کے پھل کھا لیتی ہیں جبکہ ان کے چڑھنے اترنے کے باعث ٹہنیوں اور شاخوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔

    تاہم ماہرین نے جب غور سے ان کی حرکات و سکنات کا مشاہدہ کیا تو انہیں علم ہوا کہ یہ بکریاں دراصل جنگلات اور درختوں میں اضافے کا سبب بن سکتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جب یہ بکریاں درختوں پر چڑھ کر مختلف پھل اور پھول کھاتی ہیں تو اس دوران ان کے بیج وہیں تھوک دیتی ہیں۔ یہ بیج زمین میں جا کر نئے پودے اگانے کا سبب بنتے ہیں۔

    گویا ان بکریوں کی حیثیت بیجوں کو پھیلانے والوں کی سی ہے جو جنگلات، درختوں اور پودوں میں اضافے کا سبب بن سکتے ہیں۔

    یہ کام بکریوں کے علاوہ پرندے اور مکھیاں بھی انجام دیتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: انسان کی بقا کے لیے مکھیاں ضروری

    پرندے اور مکھیاں جب پودوں پر بیٹھتی ہیں تو پودوں کے پولی نیٹس ان کے پیروں سے چپک کر جا بجا پھیل جاتے ہیں اس کے بعد جس جگہ یہ گرتے ہیں وہاں نئے پودے اگ آتے ہیں اور یوں پودوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔

  • پانی کی بچت کرنے والا نلکا

    پانی کی بچت کرنے والا نلکا

    ہم میں سے اکثر افراد اپنے نلکوں سے ضائع ہوتے پانی سے پریشان رہتے ہیں۔ اس کے لیے وہ نلکوں کو کم کھول کر استعمال کرتے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی اس کی ترغیب دیتے ہیں۔

    لیکن اس کے باوجود کچھ کاموں خاص طور پر کچن میں پانی ضائع ہونے کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے۔ پھل، سبزیوں اور برتن دھونے میں پانی کی خاصی مقدار خرچ ہوتی ہے جس میں سے 50 فیصد تو ضائع ہی ہوتی ہے۔

    water-post-1

    اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایک ’آلٹرڈ‘ نامی امریکی کمپنی نے نلکوں پر لگانے کے لیے ایسا نوزل بنایا ہے جو اس نلکے سے خارج ہونے والے پانی کے استعمال میں 98 فیصد کمی کردیتا ہے۔

    دراصل یہ نوزل نلکے پر لگانے کے بعد پانی کو بے شمار قطروں میں تبدیل کردیتا ہے۔ یہ نوزل پانی کو زیادہ حجم میں بھی نکالتا ہے یعنی اس سے نکلنے والے پانی کی دھار تیز اور پھیلاؤ وسیع ہوگا۔

    اس طریقہ کار کے ذریعہ جب اس نوزل کے نیچے کسی پھل یا سبزی کو دھونے کے لیے رکھا جائے گا تو یہ زیادہ جلدی دھونے کی ضرورت کو پورا کردے گی اور ہم کم وقت میں زیادہ چیزوں کو دھونے کے قابل ہوں گے۔

    water-post-2

    water-post-3

    اسے بنانے والی کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ نوزل تیار کر کے وہ ماحول سے محبت کرنے والے ان افراد میں شامل ہوگئے ہیں جو پانی سمیت دنیا بھر کے قدرتی وسائل کو بچانے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کا حصہ ہیں۔

    واضح رہے کہ دنیا بھر میں موجود آبی ذخائر میں سے صرف 2 فیصد حصہ ایسا ہے جسے میٹھا پانی کہا جاسکتا ہے اور جو پینے کے قابل ہے۔ یہ پانی دریاؤں اور گلیشیئرز کی صورت میں موجود ہے۔

    مزید پڑھیں: آبی مسائل کے باعث جنوبی ایشیائی ممالک میں تنازعوں کا خدشہ

    لیکن ماہرین کے مطابق میٹھے پانی کے ان ذخائر میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے جس کے باعث کئی ممالک میں پانی کی شدید قلت پیدا ہوچکی ہے۔ اگلے چند برسوں میں یہی صورتحال پاکستان سمیت دیگر کئی ملکوں میں پیدا ہوجائے گی۔

    دوسری جانب دنیا میں اس وقت تقریباً ایک ارب افراد ایسے ہیں جو پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔

  • وزیر اعظم کا ماحولیات و پودوں سے متعلق وژن واضح ہے، فواد چوہدری

    وزیر اعظم کا ماحولیات و پودوں سے متعلق وژن واضح ہے، فواد چوہدری

    اسلام آباد : وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے وزیر اعظم پاکستان کی شجر کاری مہم ’پلانٹ فار پاکستان‘ کے دوران پودا لگاتے ہوئے کہا ہے کہ آج ملک بھر میں 15 لاکھ پودے لگائے جا رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم عمران کی جانب سے’پلانٹ فار پاکستان‘ کے نام سے ملک بھر میں شجر کاری کے لیے شروع کی جانے والی مہم کے دوران وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بھی پودا لگا دیا۔

    وزیر اطلاعات پاکستان فواد چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں جنگلات کو شدید نقصان پہنچایا گیا ہے۔

    فواد چوہدری نے پلانٹ فار پاکستان مہم کے دوران کہا ہے کہ خیبر پختونخوا میں 5 سال میں پاکستان تحریک انصاف نے بلین ٹری منصوبہ شروع کیا تھا، ہمارا آئندہ 5 سال میں ملک بھر میں 10 ارب پودے لگانے کا ہدف ہے۔

    وزیر اطلاعات کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کا ماحولیات اور پودوں سے متعلق وژن واضح ہے، پاکستان تحریک انصاف کے سوا ملک میں کوئی اور سیاسی جماعت ماحولیات کی بات نہیں کرتی۔

    وزیر اطلاعات پاکستان نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک کا منشور بھی ماحولیات کی آگاہی سے متعلق واضح ہے، آج ملک بھر میں 15 لاکھ پودے لگائے جا رہے ہیں۔

    واضح رہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے شروع کی جانے والی ملک بھر میں شجرکاری کرنے کی مہم کے حوالے سے حکومت کے پاکستان کے آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ پر بھی ایک ویڈیو شیئر کی گئی ہے جو دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہوگئی۔

    وزیر اعظم پاکستان عمران خان ’پلانٹ فار پاکستان مہم‘ کے حوالے سے کہا ہے کہ شجر کاری مہم کا مقصد موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنا ہے، شجر کاری مہم تمام شہروں میں شروع کررہے ہیں، پورے پاکستان میں 10 ارب درخت لگانے کا ہدف ہے۔

    وزیر اعظم پاکستان کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ کے باعث پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہوگا، 5 سال میں پورے پاکستان کو سرسبز و شاداب کرنا ہے، جو بھی خالی علاقے اور زمین ملے گی وہاں پر پودے لگائیں گے۔

  • زمیں کیوں کانپتی ہے، زلزلے کیوں آتے ہیں؟

    زمیں کیوں کانپتی ہے، زلزلے کیوں آتے ہیں؟

    لاہور: پاکستان کے صوبہ پنجاب کے مختلف شہروں میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے ، تاہم کسی جانی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے، پنجاب اسمبلی کے اجلاس کے دوران بھی زلزلہ محسوس کیا گیا ، ا ٓپ کی معلومات کے لئے بتاتے ہیں کہ زلزلے کیوں آتے ہیں۔

    گزرے وقتوں میں جب سائنس اورٹیکنالوجی کا وجود نہیں تھااور تحقیق کے باب نہیں کھلے تھے تو مختلف ادوار میں مختلف اقوام زلزلوں سے متعلق عجیب و غریب نظریات رکھتی تھی. کسی قوم کا یہ نظریہ تھا کہ ایک طویل وعریض چھپکلی زمین کواپنی پشت پر اٹھائے ہوئے ہے اور اس کی حرکت کرنے کی وجہ سے زمین ہلتی ہے. مذہبی عقیدے کی حامل قوم کا یہ خیال تھا کہ خدا اپنے نافرمان بندوں کوزمین ہلا کر ڈراتا ہے. اسی طرح ہندودیو مالائی تصوریہ تھا کہ زمین کو ایک گائے نے اپنے سینگوں پر اٹھا رکھا ہے اور جب وہ تھک کر سینگ بدلتی ہے تو اسکے نتیجے میں زمین ہلتی ہے جبکہ ارسطو اور افلاطون کے نظریات کچھ ملتے جلتے تھے جن کے مطابق زمین کی تہوں میں موجود ہوا جب گرم ہوکر زمین کے پرتوں کو توڑ کر باہر آنے کی کوشش کرتی ہے توزلزلے آتے ہیں۔

    لاہوراورگردونواح میں زلزلے کے شدید جھٹکے

    سائنس کی ترقی کے ساتھ ساتھ علمی تحقیق کے دروازے کھلتے چلے گئے اوراس طرح ہرنئے سا نحے کے بعد اس کے اسباب کے بارے میں جاننے کی جستجونے پرانے نظریات کی نفی کردی ہے. یوں تو بہت سی قدرتی آفات کے ظہور پذیرہونے سے پہلے پیشگی اطلاع فراہم ہوجاتی ہواوراحتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے باعث کافی بڑے جانی و مالی نقصانات سے بچا جاسکتا ہےمثلاً سمندر میں بننے والے خطرناک طوفانوں، انکی شدت اوران کے زمین سے ٹکرانے کی مدت کا تعین سٹلائیٹ کے ذریعے کیا جاسکتا ہے اوراس سے بچاؤ کی تدابیر بروقت اختیار کی جاسکتی ہیں مگر زلزلے کی آمد نہایت خاموشی سے ہوتی ہے اور پتہ اس وقت چلتا ہے جب وہ اپنے پیچھے تباہی اور بربادی کی ۔۔ایک داستان رقم کرکے جاچکا ہوتا ہے۔

    بیشک ایسے آلات ایجاد ہوچکے ہیں جو زلزلے گزرنے کے بعد انکی شدت، انکے مرکزاورآفٹر شاکس کے بارے میں معلومات فراہم کردیتے ہیں؛ ماہرین ارضیات نے زلزلوں کی دو بنیادی وجوہات بیان کی ہیں ایک وجہ زیر زمیں پلیٹوں (فالٹس) میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل ہے اوردوسری آتش فشاں کا پھٹنا بتایا گیا ہے. زمین کی بیرونی سطح کے اندر مختلف گہرائیوں میں زمینی پلیٹیں ہوتی ہیں جنہیں ٹیکٹونک پلیٹس کہتے ہیں۔ ان پلیٹوں کے نیچے ایک پگھلا ہوامادہ جسے میگما کہتے ہیں موجود ہوتا ہے .میگما کی حرارت کی زیادتی کے باعث زمین کی اندرونی سطح میں کرنٹ پیدا ہوتا ہے جس سے ان پلیٹوں میں حرکت پیداہوتی ہے اور وہ شدید ٹوٹ پھوت کا شکار ہوجاتی ہیں.ٹوٹنے کے بعد پلیٹوں کا کچھ حصہ میگما میں دھنس جاتا ہے اورکچھ اوپرکو ابھر جاتا ہے جس سے زمیں پر بسنے والی مخلوق سطح پر ارتعاش محسوس کرتی ہے.

    زلزلے کی شدت اور دورانیہ کا انحصار میگما کی حرارت اور اس کے نتیجے میں پلیٹوں میں ٹوٹ پھوٹ کے عمل پرمنحصر ہے اسی طرح جب آتش فشاں پھٹتے ہیں تو لاوا پوری شدت سے زمین کی گہرائیوں سے سطح زمیں کی بیرونی تہوں کو پھاڑتا ہوخارج ہوتا ہے جس سے زمیں کی اندرونی پلیٹوں میں شدید قسم کی لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ لہریں زیر زمین تین سے پندرہ کیلومیٹر فی سیکنڈ کے حساب سے سفرکرتی ہیں اورماہیت کے حساب سے چار اقسام میں ان کی درجہ بندی کی گئی ہے۔

    دو لہریں زمیں کی سطح کے ساتھ ساتھ سفر کرتی ہیں جبکہ دیگر دو لہریں جن میں سے ایک پرائمری ویو اور دوسری سیکنڈری ویو ہے زیر زمین سفر کرتی ہیں.پرائمری لہریں آواز کی لہروں کی مانند سفرکرتی ہوئی زیر زمین چٹانوں اور مائعات سے گزر جاتی ہیں جبکہ سیکنڈری ویوز کی رفتار پرائمری ویوز کے مقابلے میں کم ہوتی ہے اور وہ صرف زیر زمین چٹانوں سے گزر سکتی ہے. سیکنڈری ویوز زمینی مائعات میں بے اثر ہوتی ہیں مگر وہ جب چٹانوں سے گزرتی ہے توایل ویوز بنکر ایپی سینٹر یعنی مرکز کو متحرک کردیتی ہیں اور زلزلے کا سبب بنتی ہیں. ایل ویوز جتنی شدید ہونگی اتنی ہی شدت کا زلزلہ زمین پر محسوس ہوگا۔

    زلزلے اگر زیر سمندر آتے ہیں تو انکی قوت سے پانی میں شدید طلاطم اور لہروں میں ارتعاش پیدا ہوتا ہے اور کافی طاقتور اور اونچی لہریں پیدا ہوتی ہیں جو سطح سمندر پر پانچ سو سے ایک ہزار کیلومیٹر کی رفتار سے بغیر اپنی قوت اور رفتار توڑے ہزاروں میل دور خشکی تک پہنچ کرناقابل یقین تباہی پھیلاتی ہے جس کی مثال 2004 ء کے انڈونیشیا کے زلزلے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سونامی ہے جس کی لہروں نے ہندوستان اور سری لنکا جیسے دور دراز ملکوں کے ساحلی علاقوں میں شدید تباہی پھیلائی تھی جس کی گونج آج بھی متاثرہ علاقوں میں سنائی دیتی ہے۔

  • ٹریفک جام آپ کی صحت کو متاثر کرسکتا ہے

    ٹریفک جام آپ کی صحت کو متاثر کرسکتا ہے

    بڑے شہروں میں رہنا یوں تو بے شمار فوائد کا باعث ہے، دنیا کی تمام جدید سہولیات یہاں رہنے والوں تک قابل رسائی ہوتی ہیں۔ لیکن بڑے شہروں میں رہنے کے کئی نقصانات بھی ہیں جن میں سرفہرست ٹریفک کا اژدہام اور اس سے پیدا ہونے والی فضائی آلودگی ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹریفک کا شور اور دھواں ایک طرف تو آپ کی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے، دوسری طرف ٹریفک جام میں پھنسنا اور بھانت بھانت کے ڈرائیوروں سے الجھنا آپ کی دماغی کیفیات اور مزاج کو تبدیل کردیتا ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ شہروں میں رہنے والے افراد میں امراض قلب، ہائی بلڈ پریشر اور ڈپریشن کا مرض عام ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں: کیا آپ شور شرابہ کے نقصانات جانتے ہیں؟

    ماہرین نے کئی سروے اور رپورٹس کے ذریعے واضح کیا ہے کہ ٹریفک کس طرح ہمیں متاثر کرتا ہے۔


    دماغی و نفسیاتی مسائل

    traffic-post-3

    کیلیفورنیا کے ماہرین نفسیات نے ایک تحقیقاتی سروے کے بعد بتایا کہ ایک طویل عرصے تک روزانہ ٹریفک جام میں پھنسنا، قطاروں میں انتظار کرنا اور سڑک پر دوسرے ڈرائیوروں کی اوور ٹیکنگ اور غلط گاڑی چلانا آپ کے دماغ کو تناؤ اور بے چینی میں مبتلا کرتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق روزانہ اس طرح کے مسائل کا سامنا کرنا یا تو آپ کے اعصاب کو توڑ پھوڑ دے گا، یا پھر آپ اس کے عادی ہوجائیں گے اور ایک وقت آئے گا کہ آپ اس کو محسوس کرنے سے عاری ہو جائیں گے۔

    لیکن ایک بات پر ماہرین متفق ہیں کہ یہ ساری چیزیں مل کر دماغ پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں اور اس کے اثرات کم از کم 10 سال بعد ظاہر ہونا شروع ہوتے ہیں جب عمر بڑھنے کے ساتھ مختلف ذہنی امراض جیسے الزائمر، ڈیمینشیا اور دیگر نفسیاتی مسائل آپ کو گھیر لیتے ہیں۔


    سانس کے امراض

    traffic-post-6

    وال اسٹریٹ جنرل کی ایک رپورٹ کے مطابق ٹریفک کے دھویں میں آدھے گھنٹے تک سانس لینا دماغ میں برقی حرکت کو بڑھا دیتا ہے جس کے نتیجے میں مزاج اور شخصیت کی منفیت میں اضافہ ہوتا ہے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔

    ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کے مطابق ٹریفک کا دھواں نومولود بچوں کی جینیات کو بھی متاثر کرتا ہے جو ساری زندگی منفی عادات و حرکات کی صورت میں ان کے ساتھ رہتا ہے۔


    بچوں کی ذہنی کارکردگی متاثر

    traffic-post-7

    مختلف یورپی ممالک میں کی جانے والی تحقیق کے مطابق ٹریفک کا شور اور دھواں بچوں کی دماغی کارکردگی پر بھی اثر انداز ہوتا ہے اور وہ اپنی نصابی سرگرمیوں میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پاتا۔

    علاوہ ازیں روزانہ ٹریفک کا شور اور دھواں انہیں بچپن ہی سے مختلف نفسیاتی مسائل کا شکار بنا دیتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ہر 7 میں سے 1 بچہ فضائی آلودگی کے نقصانات کا شکار


    الزائمر کا خطرہ

    traffic-post-2

    بوسٹن یونیورسٹی میں کی جانے والی تحقیق کے مطابق وہ معمر افراد جو براہ راست ٹریفک کے دھویں اور شور کا شکار ہوتے ہیں ان میں الزائمر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    ٹریفک کی آلودگی سے پیدا ہونے والے ذرات ان کے دماغ میں جا کر یادداشت اور دماغی خلیات کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: فضائی آلودگی دماغی بیماریاں پیدا کرنے کا باعث


    کیا کینسر کا خطرہ بھی موجود ہے؟

    traffic-post-1

    عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹریفک کا دھواں کینسر کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

    اس سے قبل کئی تحقیقی رپورٹس میں بتایا جاچکا ہے کہ فضائی آلودگی مختلف اقسام کے کینسر کا سبب بن سکتی ہے اور ٹریفک کا دھواں آلودگی پیدا کرنے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

  • تحفظ فطرت کے دن پر ماحول دوست بننے کا عزم کریں

    تحفظ فطرت کے دن پر ماحول دوست بننے کا عزم کریں

    آج دنیا بھر میں فطرت کے تحفظ کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد لوگوں میں زمین کے وسائل، ماحول، اور فطرت کے تحفظ کے حوالے سے شعور بیدار کرنا ہے۔

    ہم زمین پر موجود قدرتی وسائل جیسے ہوا، پانی، مٹی، معدنیات، درخت، جانور، غذا اور گیس پر انحصار کرتے ہیں۔

    زندگی میں توازن رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ زمین پر موجود تمام جانداروں کی بقا قائم رہے۔ کسی ایک جاندار کو بھی خطرہ ہوگا تو پوری زمین خطرے میں ہوگی کیونکہ تمام جاندار اور وسائل ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔

    ورلڈ وائلڈ لائف فاؤنڈیشن کے مطابق 1970 سے دنیا کی آبادی میں اس قدر تیزی سے اضافہ ہوا ہے کہ ہماری زمین پر پڑنے والا بوجھ دگنا ہوگیا ہے جبکہ قدرتی وسائل میں 33 فیصد کمی واقع ہوگئی۔

    مزید پڑھیں: آبادی میں اضافہ پائیدار ترقی کے لیے خطرہ

    ماہرین کے مطابق زندگی میں سسٹین ایبلٹی یعنی پائیداری بہت ضروری ہے۔ اس پائیداری سے مراد ہماری ذاتی زندگی میں ایسی عادات ہیں جو فطرت اور ماحول کی پائیداری کا سبب بنیں۔

    مثال کے طور پر اگر ہم زیادہ پانی خرچ کرتے ہیں تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ زمین سے پینے کے پانی کے ذخائر ختم ہوجائیں گے۔

    یا اگر ہم صنعتی ترقی کرتے ہیں اور زہریلی گیسوں کا اخراج کرتے ہیں، تو ان گیسوں سے زمین کے درجہ حرارت میں تبدیلی ہوگی، گلیشیئرز پگھلیں گے، سطح سمندر میں اضافہ ہوگا، اور زمین کی وہ ساخت جو اربوں سال سے قائم ہے، اس میں تبدیلی ہوگی جس کا نتیجہ قدرتی آفات کی صورت میں نکلے گا۔

    مزید پڑھیں: دنیا کے مستقبل کے لیے پائیدار ترقیاتی اہداف

    معروف اسکالر، ماہر ماحولیات اور سابق وزیر جاوید جبار کہتے ہیں، ’فطرت اور زمین کسی سے مطابقت پیدا نہیں کرتیں۔ یہاں آنے والے جاندار کو اس سے مطابقت پیدا کرنی پڑتی ہے۔ ڈائنوسار اور دیگر جانداروں نے جب زمین کے ماحول سے مطابقت پیدا نہیں کی تو ان کی نسل مٹ گئی۔ زمین ویسی کی ویسی ہی رہی۔ اور ہم (انسان) جنہیں اس زمین پر آ کر چند ہزار سال ہی ہوئے، ہمیں لگتا ہے کہ ہم زمین کو اپنے مطابق کرلیں گے‘۔

    ان کے مطابق جب ہم فطرت کو تباہ کرنے کی ایک حد پر آجائیں گے، اس کے بعد ہمارا وجود شدید خطرے میں پڑجائے گا، جبکہ زمین ویسی ہی رہے گی۔

    فطرت سے چھیڑ چھاڑ کے نتیجے میں کئی منفی اثرات واقع ہو رہے ہیں جن میں سے ایک کلائمٹ چینج یعنی موسمیاتی تغیر ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ مستقبل قریب میں دنیا کے لیے امن و امن کے مسئلہ سے بھی بڑا خطرہ ہوگا جبکہ اس کے باعث جانداروں کی کئی نسلیں معدوم ہوجائیں گی۔

    ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ ہر شخص اپنی انفرادی زندگی میں کچھ عادات اپنا کر فطرت کے تحفظ میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔


    آپ کیا کرسکتے ہیں؟

    اپنے آس پاس ہونے والی ماحول دوست سرگرمیوں میں حصہ لیں۔

    ماحول کے تحفظ کے بارے میں دوسروں میں آگاہی پیدا کریں۔

    وسائل کا احتیاط سے استعمال کریں۔ جیسے ایندھن کے ذرائع یا کاغذ۔ واضح رہے کہ کاغذ درختوں سے بنتے ہیں اور کاغذ کو ضائع کرنے کا مطلب درختوں کی کٹائی میں اپنا حصہ ڈالنا ہے۔

    گھروں پر پانی، بجلی اور ایندھن کا احتیاط سے استعمال کیاجائے اور بچوں کو بھی اس کی تربیت دی جائے۔

    پلاسٹک بیگز کا استعمال ختم کیا جائے۔ پلاسٹک ایک ایسی شے ہے جو ہزاروں سال بعد زمین میں تلف ہوتی ہے نتیجتاً زمین کی آلودگی میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔

    سفر کرتے ہوئے ہمیشہ ماحول دوست بنیں۔ خصوصاً کچرا پھیلانے سے گریز کریں۔

    ماحول کی تباہ کرنے والی کوئی بھی سرگرمی جیسے درخت کٹتا ہوا دیکھیں تو فوراً متعلقہ حکام کو اطلاع دیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • آئی جی سندھ کا ’گرین پولیس لائنز‘ کا منصوبہ

    آئی جی سندھ کا ’گرین پولیس لائنز‘ کا منصوبہ

    کراچی: آئی جی سندھ نے’’گرین پولیس لائنز‘‘ کا منصوبہ پیش کرتے ہوئے محکمے کی اراضی اور عمارتوں کے اطراف میں پودے لگانے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق آئی جی سندھ نے محکمۂ پولیس کی اراضی اور عمارتوں میں شجر کاری کا منصوبہ بناتے ہوئے ذمہ داران کو اس کے لیے اقدامات کا حکم جاری کر دیا۔

    گرین پولیس لائنز منصوبے کے تحت شجر کاری مہم میں صرف نیم، مینگرو، اشوکا اور الوسٹونیا کے پودے لگانے کی اجازت دی گئی ہے۔

    محکمۂ پولیس کی جانب سے جاری اعلامیے میں ہدایت کی گئی ہے کہ آئی جی سندھ کے حکم نامے پر ترجیحی بنیادوں پر عمل در آمد کیا جائے۔

    باضابطہ نوٹیفکیشن میں پولیس افسران کو شجر کاری مہم سے متعلق ہفتہ وار رپورٹ ارسال کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔

    کراچی: این اے243، انتخابی مہم میں ’شجر کاری‘

    نوٹیفکیشن میں تنبیہہ کی گئی ہے کہ جاری اعلامیے پر سنجیدگی کے ساتھ عمل کیا جائے، آئی جی سندھ اچانک دورے کر کے شجرکاری مہم کا جائزہ بھی لیں گے۔

    واضح رہے کہ تین دن قبل این اے 243 میں ایم کیو ایم پاکستان کے امیدوار علی رضا عابدی نے بھی شہرِ قائد میں شجر کاری کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے عوامی سطح پر مہم کا آغاز کیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔