Tag: ماحولیات

  • ماحولیاتی تحفظ کے لیے گزشتہ حکومتوں کے اقدامات

    ماحولیاتی تحفظ کے لیے گزشتہ حکومتوں کے اقدامات

    ملک بھر کی وفاقی و صوبائی حکومتیں تحلیل ہوچکی ہیں اور انتخابات کا وقت قریب آتا جارہا ہے۔ یہ وقت گزشتہ حکومتوں سے سبق سیکھنے اور نئی حکومتوں سے بہتری کی توقعات وابستہ کرنے کا ہے۔

    پاکستان دنیا بھر میں رونما ہونے والے موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے نقصانات سے شدید متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک ہے اور ان نقصانات میں اضافہ متوقع ہے۔

    چنانچہ اگر توقع رکھی جائے کہ کلائمٹ چینج اور ماحولیات تمام حکومتوں کی اولین ترجیح ہونی چاہیئے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔

    آج ہم نے جاننے کی کوشش کی ہے کہ گزشتہ حکومتوں نے اس سنگین مسئلے کو کس حد تک سنجیدگی سے لیا اور اس کے خلاف اقدامات کرنے کی کوشش کی۔

    صوبہ خیبر پختونخواہ

    ماحولیات کے شعبے میں اس وقت صوبہ خیبر پختونخواہ بلاشبہ سب سے آگے نظر آتا ہے۔ پختونخواہ میں شروع کیا جانے والا ایک ارب درختوں کا منصوبہ یعنی بلین ٹری سونامی پروجیکٹ کامیابی سے اپنی تکمیل کی جانب پہنچ چکا ہے اور اس کی کامیابی کا دنیا بھر میں اعتراف کیا جارہا ہے۔

    یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہےکہ دنیا کو کلائمٹ چینج کے نقصانات میں کسی حد تک کمی کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر شجر کاری کی ضرورت ہے۔

    کلائمٹ چینج کی سب سے بڑی وجہ صنعتوں اور گاڑیوں سے نکلنے والا زہریلا دھواں اور خطرناک گیسیں ہے جو زمین کی فضا میں موجود ہے۔ یہ گیسیں زمین کے مجموعی درجہ حرارت میں اضافہ کر رہی ہیں یوں دنیا بھر کا موسم گرم ہورہا ہے۔

    یہ گیسیں ہماری زمین کے اوپر فضا میں قائم اوزون کی حفاظتی تہہ کو بھی نقصان پہنچا رہی ہیں جس سے سورج کی شعاعیں زیادہ مقدار میں زمین پر آرہی ہیں، گو کہ اوزون کی تباہی کی شرح کم ہے۔

    اس کا آسان حل گیسیں خارج کرنے والے ذرائع میں کمی کے ساتھ ساتھ بے تحاشہ شجر کاری ہے۔ جیسے کہ ہم جانتے ہیں درخت کاربن گیس کو اپنے اندر جذب کرتے ہیں۔ وسیع و عریض درختوں کے گھنے جنگل کو قدرتی ’سنک‘ کہا جاتا ہے جو اپنے آس پاس کی ساری کاربن چوس لیتے ہیں۔

    ایسے میں بلین ٹری سونامی پروجیکٹ وقت کی اہم ضرورت تھا اور خوش آئند بات یہ ہے کہ یہ منصوبہ کامیابی سے ہمکنار ہورہا ہے۔

    بلین ٹری سونامی پروجیکٹ کے ڈائریکٹر محمد طہماسپ اس منصوبے کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ مقامی آبادی کی شرکت کو قرار دیتے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اتنے بڑے پروجیکٹ کے لیے ہزاروں افراد کی ضرورت تھی جنہیں ملازمتیں دینا ناممکن تھا۔ ایسے میں واحد حل مقامی افراد کی شرکت تھی اور اسی سے یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچ سکتا تھا۔

    محمد طہماسپ نے بتایا کہ پورے منصوبے میں صرف 20 فیصد شجر کاری حکومت کی طرف سے تھی، باقی 80 فیصد کاوشیں نجی طور پر کی گئیں۔

    اس بارے میں انہوں نے بتایا کہ مقامی افراد، کمیونٹیز اور پرائیوٹ اداروں سے معاہدے کیے گئے جس کے تحت انہیں رقم دی گئی۔ معاہدے میں نہ صرف پودے لگانا بلکہ ان کی دیکھ بھال کر کے ایک مخصوص جسامت تک پہنچانا بھی شامل تھا اور اس کے بعد ہی انہیں رقم دی جانی تھی۔

    تمام متعلقہ افراد کو پہلی قسط دینے کے کچھ عرصے بعد ان کے لگائے گئے پودوں کا معائنہ کیا گیا، دیکھا گیا کہ آیا ان کی صحیح دیکھ بھال کی جارہی ہے یا نہیں، یہ دیکھنے کے بعد رقم کی دوسری قسط جاری کی گئی۔

    اس کے ایک سال بعد جب معاہدے میں پودے کو ایک مخصوص سائز تک پہنچانے کی شق شامل تھی، ایک بار پھر پودوں کا جائزہ لیا گیا اور اس کے بعد رقم کی تیسری قسط جاری کی گئی۔

    محمد طہماسپ نے بتایا کہ خواتین کو بھی شامل کیا گیا تھا اور انہوں نے بڑھ چڑھ کر اس میں شرکت کی۔ پختونخواہ حکومت نے منصوبے میں پرانے تباہ شدہ جنگلات کو بھی بحال کرنے کا ہدف رکھا تھا جسے کامیابی سے مکمل کیا گیا۔

    اس ضمن میں پختونخواہ حکومت نے عالمی معاہدے ’بون چیلنج‘ کو پورا کرتے ہوئے 35 لاکھ ایکڑ زمین پر جنگلات بحال کیے۔

    بون چیلنج کے تحت سنہ 2020 تک دنیا بھر کے تباہ شدہ جنگلات کے 15 کروڑ ایکڑ کے رقبے کو بحال کرنا تھا۔

    پاکستان میں ہر نئی آنے والی حکومت نئے منصوبے شروع کرتی ہے جن پر اس حکومت کے جاتے ہی کام بند ہوجاتا ہے اور یوں وہ منصوبہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ پختونخواہ میں اگر اگلی حکومت پاکستان تحریک انصاف کی نہ ہوئی جس نے بلین ٹری منصوبہ شروع کیا تو ان ایک ارب پودوں کا کیا ہوگا؟

    اس سوال کا جواب دیتے ہوئے محمد طہماسپ نے بتایا کہ یہ خیال شروع سے سب کے ذہن میں تھا۔ ’یہ کسی سڑک کا منصوبہ نہیں جو کسی ایک حکومت کے دور میں شروع ہو، اور پھر کئی سالوں کے بعد وہی حکومت دوبارہ آئے تو اس منصوبے کو مکمل کرے، یہ تو پودے ہیں جو چند دن بھی دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے مر جائیں گے‘۔

    محمد طہماسپ نے بتایا کہ پختونخواہ حکومت کی کوششوں سے منصوبہ بندی کمیشن سنہ 2020 تک اس منصوبے کی منظوری دے چکا ہے جس کے بعد کوئی بھی حکومت آئے، وہ بجٹ میں اس منصوبے کے لیے رقم رکھنے کی پابند ہوگی۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این کی رپورٹ کے مطابق بلین ٹری سونامی منصوبے پر کامیاب عملدر آمد کے بعد خیبر پختونخواہ پاکستان کا واحد صوبہ بن گیا ہے جہاں وسیع پیمانے پر شجر کاری کے ذریعے 35 لاکھ ایکڑ جنگلات کو بحال کیا گیا ہے۔

    عالمی اقتصادی فورم نے بھی منصوبے کو ملک کی سب سے بڑی ماحول دوست سرمایہ کاری قرار دیا تھا۔

    چند دن قبل قومی ادارے اسپیس اینڈ اپر ایٹمو سفیئر ریسرچ کمیشن (سپارکو) نے بھی بلین ٹری سونامی منصوبے کے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹ جاری کرتے ہوئے اسے کامیاب قرار دیا تھا۔

    صوبہ بلوچستان

    بلوچستان کی ایجنسی برائے تحفظ ماحول کے ڈائریکٹر جنرل کیپٹن ریٹائرڈ طارق زہری کا دعویٰ ہے کہ ماحولیات کے حوالے سے سب سے زیادہ کام صوبہ بلوچستان نے کیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد جب صوبوں کو اختیار دیا گیا کہ اپنے قوانین بنائیں تو سب سے پہلے بلوچستان نے اپنا ماحولیاتی قانون بنایا۔

    ان کے دعوے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بقول ان کے سابق وزرائے اعلیٰ بلوچستان عبد المالک بلوچ اور ثنا اللہ زہری بظاہر تو سیاستدان ہیں، تاہم وہ ماحول دوست شخصیات بھی ہیں۔

    سنہ 2016 میں جب پیرس معاہدہ ہوا اور معاہدے کے تحت 195 ممالک کو ماحول دوست اقدامات کرنے کا پابند بنایا گیا تب پاکستان بھی اس معاہدے کا دستخط کنندہ بنا۔ طارق زہری نے بتایا کہ معاہدے کے بعد اس سے نکلنے والے مواقعوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری تھا کہ اس شعبے پر زیادہ توجہ دی جائے۔ بلوچستان میں اس وقت ماحولیات کی وزارت، امور نوجوان اور کھیل کے ساتھ منسلک تھی تاہم اس کے بعد پھر اسے علیحدہ کردیا گیا۔

    زیارت میں واقع صنوبر کے جنگلات

    طارق زہری نے بتایا کہ گزشتہ 5 برسوں کے دوران بلوچستان میں ماحولیات کا ٹریبونل بنایا گیا، ماحولیاتی تحفظ کے لیے نئے قوانین بنائے گئے۔ ان کے مطابق قوانین بنانے کے بعد جتنا ان پر عملدر آمد کیا گیا اس میں گزشتہ برس 3 گنا زیادہ اضافہ ہوچکا ہے۔

    بلوچستان میں گزشتہ برس پلاسٹک کی تھیلیوں پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔

    طارق زہری کے مطابق بلوچستان اس وقت تلف ہوجانے والے یعنی بائیو ڈی گریڈ ایبل بیگز بنا رہا ہے جس کے 4 پلانٹس کوئٹہ میں لگائے گئے ہیں۔ یہ پلانٹس پورے بلوچستان کو یہ بیگز فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    بلوچستان اس وقت پلاسٹک کے حوالے سے نتیجہ خیز اقدامات کرنے کے ساتھ نئی نسل میں پلاسٹک کے خلاف شعور بھی بیدار کر رہا ہے۔

    طارق زہری کے مطابق چند روز قبل کوئٹہ میں 10 ہزار طلبہ و طالبات نے پلاسٹک کے خلاف آگاہی پھیلانے کے لیے ایک واک کی اور اس دوران پلاسٹک کا کچرا بھی سمیٹا۔

    اس سے قبل طلبا نے کوئٹہ کی ہنہ جھیل کی صفائی بھی کی۔

    ہنہ جھیل

    انہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کی ماحولیاتی تجزیہ کاری (انوائرنمنٹ امپکٹ اسسمنٹ) بھی کیا جارہا ہے۔

    شجر کاری کے حوالے سے طارق زہری کا کہنا تھا کہ جب بھی کوئی صنعت یا فیکٹری لگانے کا منصوبہ منظوری کے لیے بھجوایا جاتا ہے تو اس کے لیے شرط رکھ دی جاتی ہے کہ مذکورہ فیکٹری کو پودے لگانے کی صورت میں نو آبجیکشن سرٹیفکٹ (این او سی) دیا جائے گا۔

    مذکورہ صنعت کے لیے پودوں کی تعداد لاکھوں میں رکھی جاتی ہے جن کی حفاظت اور دیکھ بھال کی ذمہ داری بھی انہی کی ہوتی ہے۔ ’اس طرح سے تقریباً 70 سے 80 لاکھ پودے لگانے کی ذمہ داری بلوچستان کی مختلف صنعتوں کے پاس ہے‘۔

    طارق زہری نے بتایا کہ بلوچستان میں اینٹوں کے بھٹوں کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کرنے پر بھی کام کیا جارہا ہے۔ یہ بھٹے نہایت آلودہ اور زہریلا دھواں خارج کرتے ہیں جو ماحول اور انسانی صحت کے لیے بے حد خطرناک ہوتی ہے۔

    زگ زیگ ٹیکنالوجی کے باعث اس دھوئیں کے اخراج میں 40 فیصد کمی ہوجاتی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں ایک اور منصوبہ بہت جلد شروع کیا جانے والا ہے جس کے تحت وہ پودے جو عام پودوں کی نسبت زیادہ آکسیجن خارج کرتے ہیں، ایسے مقامات پر لگائے جائیں گے جہاں ہوا کا معیار بہت زیادہ خراب ہے۔

    طارق زہری کے مطابق بلوچستان نے اپنی کلائمٹ چینج پالیسی پر بھی کام شروع کردیا ہے جو بہت جلد عمل میں لائی جائے گی۔ اس پالیسی کا فوکس خواتین پر رکھا گیا ہے۔

    ’کلائمٹ چینج سے سب سے زیادہ خطرے میں خواتین ہوتی ہیں، جب بھی سیلاب آتا ہے تو خواتین پر دہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ انہیں گھر کا سامان بھی بچانا ہے، بچوں کو بھی بچانا ہے اور اپنے آپ کو بھی بچانا ہے‘۔

    انہوں نے بتایا کہ جب بھی کسی منصوبے میں خواتین کو شامل کیا گیا تو اس منصوبے نے بہترین نتائج دیے۔ ’نئی نسل کا شعور و آگاہی ماؤں سے مشروط ہے۔ ماؤں کو آگاہی ہوگی تو وہ اپنے بچوں کو بھی تحفظ ماحول سکھا سکیں گی‘۔

    صوبہ پنجاب

    صوبہ پنجاب میں تحفظ ماحولیات کے لیے ہونے والے اقدامات کے بارے میں ساؤتھ پنجاب فاریسٹ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر طاہر رشید نے گفتگو کی۔

    ساؤتھ پنجاب فاریسٹ کمپنی صوبائی حکومت کے زیر انتظام کام کرنے والا ادارہ ہے۔

    طاہر رشید نے بتایا کہ پنجاب اپنی کلائمٹ چینج پالیسی تیار کرچکا ہے جو منظوری کی منتظر ہے۔

    گزشتہ 2 برس میں پنجاب کو زہریلی دھند یعنی اسموگ نے بھی بہت متاثر کیا جس کے بعد اسموگ پالیسی بھی بنائی جاچکی ہے، علاوہ ازیں وائلڈ لائف پالیسی بھی تشکیل کے مراحل میں ہے۔

    پنجاب میں چھانگا مانگا کے جنگلات

    طاہر رشید نے بتایا کہ پنجاب میں سب سے بڑا کام گراؤنڈ واٹر ایکٹ کی تیاری ہے جس کے بعد زمینی پانی کو کفایت شعاری سے استعمال کرنے کے لیے اقدامات کیے جاسکیں گے۔ گراؤنڈ واٹر ایکٹ کی تیاری کرنے والا پنجاب پاکستان کا پہلا صوبہ ہے۔

    ساؤتھ پنجاب فاریسٹ کمپنی ایک پروگرام کے تحت 1 لاکھ 34 ہزار 9 سو 95 ایکڑ زمین جزوی طور پر نجی ملکیت میں دے رہی ہے تاکہ ان پر شجر کاری کر کے پنجاب میں جنگلات کے رقبے میں اضافہ کیا جاسکے۔ اس زمین پر 4 کروڑ درخت لگائے جائیں گے۔

    صوبہ پنجاب سابق وزیر اعظم نواز شریف کے شروع کیے ہوئے گرین پاکستان پروگرام میں بھی فعال کردار ادا کر رہا ہے۔

    علاوہ ازیں حکومت پنجاب پلاسٹک کی تھیلیوں کے استعمال کو کم کرنے اور ان کی جگہ زمین میں تلف ہوجانے والے یعنی بائیو ڈی گریڈ ایبل بیگز کی تیاری پر بھی کام کر رہی ہے جبکہ اینٹوں کے بھٹوں کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کرنے کا کام شروع کیا جاچکا ہے۔

    صوبہ سندھ

    گزشتہ کچھ عرصے میں تحفظ ماحول کے لیے صوبہ سندھ نے کیا اقدامات کیے ہیں؟

    اس بارے میں ایجنسی برائے تحفظ ماحول (ای پی اے) کے ڈائریکٹر وقار حسین نے بتایا کہ وسائل کی کمی کے باوجود ادارے نے اپنے طور پر بھرپور اقدامات کیے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ گزشتہ 4 سال کے دوران 500 سے زائد ترقیاتی منصوبے منظوری کے لیے پیش کیے گئے جنہیں اس شرط پر منظوری دی گئی کہ وہ تحفظ ماحول کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔

    ان منصوبوں کے مالکان اور منتظمین کو پابند کیا گیا کہ وہ مخصوص تعداد میں شجر کاری کریں۔

    کراچی کے ساحلی علاقے میں واقع تیمر کے جنگلات

    علاوہ ازیں بڑی صنعتوں کو کہا گیا کہ وہ اپنے استعمال شدہ پانی کو براہ راست سمندر یا دریاؤں، نہروں میں پھینکنے کے بجائے ٹریٹ منٹ پلانٹس لگائیں تاکہ پانی کی زہر ناکی اور اس کے نقصان کو کسی حد تک کم کیا جاسکے۔

    وقار حسین کا کہنا تھا کہ صوبے میں پہلے سے موجود تحفظ ماحولیات ایکٹ میں نئی شقیں شامل کی گئیں اور ان پر سختی سے عملدر آمد بھی شروع کیا گیا۔

    اس سلسلے میں تحفظ ماحول کے قوانین کی خلاف ورزی پر کئی صنعتوں اور اداروں پر جرمانے عائد کیے گئے۔ سرکاری محکمے بھی اس سے مستثنیٰ نہیں رہے اور ان کی خلاف ورزیوں پر بھی جرمانے لگائے گئے۔

    وقار حسین کے مطابق ان میں ڈی ایم سی ایسٹ کورنگی، ڈی ایم سی ایسٹ سینٹرل، کراچی واٹر بورڈ، سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ اور کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ شامل تھے جبکہ کئی سرکاری اسپتالوں پر بھی جرمانے عائد کیے گئے۔

    ان کے مطابق اب تک سرکاری و نجی اداروں کو ملا کر کل 1 کروڑ 45 لاکھ روپے کے جرمانے عائد کیے گئے، تاہم ان کی ریکوری نہ ہوسکی کیونکہ اس کا اختیار ایجنسی کے پاس نہیں۔ ’جرمانوں کی ادائیگی کی شرح صرف 1 فیصد ہے‘۔

    صوبہ بلوچستان کی طرح رواں برس صوبہ سندھ نے بھی پلاسٹک کی تھیلیوں پر پابندی عائد کی ہے۔ وقار حسین کے مطابق تلف ہوجانے والے یعنی بائیو ڈی گریڈ ایبل بیگز کی تیاری کا کام بھی جاری ہے اور اب تک کئی بڑے اسٹورز کو یہ بیگز فراہم کیے گئے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ای پی اے نے محکمہ جنگلات کی مدد کے بغیر کراچی کے ساحلی علاقوں میں 25 ہزار ایکڑ پر تیمر کے درخت لگائے ہیں۔ اسی طرح صحرائے تھر میں بھی بڑے پیمانے پر شجر کاری کی جارہی ہے۔

    مزید پڑھیں: سمندری طوفانوں کے راستے میں مزاحم تیمر

    تھر میں سرگرم عمل اینگرو کمپنی جو توانائی بنانے کے لیے کوئلے کی ڈرلنگ میں مصروف ہے، ای پی اے کی ہدایات پر کٹنے والے ایک درخت کی جگہ 5 سے 10 پودے لگا رہی ہے۔

    ان درختوں کی دیکھ بھال فی الحال اس کمپنی کے ہی ذمے ہے کیونکہ ابھی کچھ عرصہ اس کمپنی کو تھر میں ہی قیام کرنا ہے۔ اس کے بعد یہ درخت مقامی افراد کی ذمہ داری ہوں گے اور اس سلسلے میں ای پی اے ان کی معاونت کرے گا۔

    ان کے مطابق تھر میں اگلے ایک سے 2 برسوں میں 10 لاکھ پودے لگانے کا منصوبہ ہے۔

    وقار حسین نے بتایا کہ ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ وسائل کی کمی ہے۔ ای پی اے کے پورے سندھ میں دفاتر نہیں ہیں بلکہ صرف چند ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں دفاتر موجود ہیں جو محدود وسائل میں پھرپور خدمات انجام دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

  • سبز کائی سے روشن ہونے والے ماحول دوست لیمپ

    سبز کائی سے روشن ہونے والے ماحول دوست لیمپ

    پیرس: فرانس میں زمین کو توانائی کے مضر اثرات سے بچانے کے لیے سبز کائی سے بنائے گئے بلب تیار کیے گئے ہیں۔ یہ بلب ماحول سے کاربن کے اثرات کو کم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

    یہ الجی لیمپس فرانسیسی حیاتیاتی کیمیا دان پیئر سیلجا نے تیار کی ہیں جو ایک عرصے سے خورد بینی مخلوق پر تحقیق کر رہے ہیں۔

    algae-3

    ان کے مطابق ان کی اس تخلیق سے ہمارے گھروں میں موجود تیراکی کے پول مضر گرین ہاؤس گیسوں میں کمی کا سبب بن سکتے ہیں جن کی وجہ سے دنیا بھر کے درجہ حرات میں اضافہ (گلوبل وارمنگ) ہو رہا ہے۔

    واضح رہے کہ پانی کے ذخیرے جیسے سوئمنگ پول، تالاب وغیرہ سبز کائی کی افزائش کے لیے بہترین جگہیں ہیں۔

    پیئر کے مطابق یہ لیمپ دوہرا کام کرسکتے ہیں۔ ایک تو ایسی روشنیوں کی فراہمی جو زمین اور ماحول کو نقصان پہنچانے والی کسی گیس یا توانائی کا اخراج نہیں کرتیں، دوسرا فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کو کم کرنا۔

    algae-4

    انہوں نے بتایا کہ فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کم کرنے کا کام درخت سر انجام دیتے ہیں لیکن سبز کائی میں یہی کام کرنے کی 150 گنا زیادہ صلاحیت موجود ہے۔

    ماہرین کے مطابق دن کی روشنی میں ان لیمپوں کو اگر دھوپ میں رکھا جائے تو یہ دھوپ سے اپنی توانائی حاصل کریں گی جو فوٹو سینتھسس کا عمل کہلاتا ہے۔ یہ وہی عمل ہے جس کے ذریعہ پودے اپنی خوراک خود تیار کرتے ہیں۔

    algae-2

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک ماحول دوست ایجاد ہے لیکن اس پر بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔

    ایک بجلی سے روشن ہونے والے بلب جتنی روشنی حاصل کرنے کے لیے لاکھوں کائی کے خلیات کی ضرورت ہے اور فی الحال جو لیمپ تیار کیے گئے ہیں وہ بہت مدھم روشنی فراہم کر رہے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • گرم جنگلات کے خاتمے میں خوف ناک حد تک تیزی آگئی، گزشتہ ریکارڈ ٹوٹ گئے

    گرم جنگلات کے خاتمے میں خوف ناک حد تک تیزی آگئی، گزشتہ ریکارڈ ٹوٹ گئے

    برازیل: عالمی سطح پر گرم جنگلات کے خاتمے میں خوف ناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے، جنگلات کے خاتمے کے گزشتہ تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے۔

    تفصیلات کے مطابق جنگلات سے متعلق ایک عالمی تنظیم گلوبل فاریسٹ واچ کی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ عالمی سطح پر گرم علاقوں کے جنگلات کے خاتمے کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ہے۔

    گلوبل فاریسٹ واچ کے مطابق گزشتہ دو برسوں میں دنیا بھر میں جنگلات کے رقبے کے خاتمے کی اتنی زیادہ شرح دیکھنے میں آئی ہے کہ اس نے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔

    عالمی جنگلات پر نگاہ رکھنے والی تنظیم نے کہا ہے کہ جنوبی امریکی اور وسطی افریقی استوائی جنگلات کے خاتمے کی رفتار انتہائی تشویش ناک ہے، یہ رجحان زندگی کے لیے تباہ کن ہے۔

    گلوبل فاریسٹ واچ کے تازہ ترین ڈیٹا کے مطابق 2017 میں 72.6 ملین ایکٹر رقبے پر پھیلے ہوئے جنگلات ختم ہو گئے، یہ رقبہ جرمنی کے کُل رقبے کا بھی دوگنا بنتا ہے جب کہ گزشتہ سال زمین سے 73.4 ملین ایکٹر جنگلاتی رقبہ ختم ہو گیا تھا۔

    گلوبل فاریسٹ واچ جنگلات کے رقبے میں کمی کے رجحانات پر گہری نگاہ رکھنے والی تنظیم ہے، اس کا کہنا ہے کہ جنگلات نہ صرف زمین پر جان داروں کو پناہ مہیا کرتے ہیں بلکہ یہی جنگلات نوع انسانی کی خوراک، ایندھن اور پانی کی ضروریات پورا کرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔

    جنگلات کا عالمی دن: شہروں کی ترقی کے لیے جنگلات ضروری


    تنظیم کے مطابق کرۂ ارض کے زمینی حصے پر پائے جانے والے حیوانات اور نباتات کی 80 فی صد اقسام جنگلات میں پائی جاتی ہیں، درخت ہوا کو صاف کرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کرتے ہیں جس میں انسان اور جان ور سانس لیتے ہیں۔

    بین الاقوامی ادارے نے خبردار کیا ہے کہ جنگلات زمین پر پائے جانے والے ماحولیاتی نظاموں یا ’ایکو سسٹمز‘ کی بقا کے لیے بھی ناگزیر ہیں اور اگر یہ جنگلات ختم ہو گئے تو زمین پر زندگی کے لیے اس تبدیلی کے نتائج انتہائی تباہ کن ہوں گے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • درخت اگانے والا ڈرون

    درخت اگانے والا ڈرون

    درخت اگانا ایک مشکل اور انتظار طلب مرحلہ ہے جس کے لیے بہت سا وقت درکار ہے۔ تاہم اب سائنسدانوں نے ڈرون کے ذریعے شجر کاری کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔

    اس سے قبل سری لنکا میں ہیلی کاپٹر سے شجر کاری کرنے کا تجربہ کیا گیا تھا جو نہایت کامیاب رہا۔

    اس ہیلی کاپٹر سے جاپانی کسانوں کے ایجاد کردہ طریقہ کار کے مطابق چکنی مٹی، کھاد اور مختلف بیجوں سے تیار کیے گئے گولے پھینکے گئے جن سے کچھ عرصہ بعد ہی پودے اگ آئے۔

    اب اسی خیال کو مزید جدید طریقے سے قابل عمل بنایا جارہا ہے اور اس مقصد کے لیے ایک برطانوی کمپنی ایسا ڈرون بنانے کی کوشش میں ہے جو شجر کاری کر سکے۔

    یہ ڈرون فضا سے زمین کی طرف بیج پھینکیں گے جس سے ایک وسیع رقبے پر بہت کم وقت میں شجر کاری کا عمل انجام دیا جاسکتا ہے۔

    طریقہ کار کے مطابق سب سے پہلے یہ ڈرون کسی مقام کا تھری ڈی نقشہ بنائے گا۔ اس کے بعد ماہرین ماحولیات اس نقشے کا جائزہ لے کر تعین کریں گے کہ اس مقام پر کس قسم کے درخت اگائے جانے چاہئیں۔

    مزید پڑھیں: کیا درخت بھی باتیں کرتے ہیں؟

    اس کے بعد اس ڈرون کو بیجوں سے بھر دیا جائے گا اور وہ ڈرون اس مقام پر بیجوں کی بارش کردے گا۔ یہ ڈرون ایک سیکنڈ میں 1 بیج بوئے گا۔ گویا یہ ایک دن میں 1 لاکھ جبکہ ایک سال میں 1 ارب درخت اگا سکے گا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہاتھ سے شجر کاری کے مقابلے میں یہ طریقہ 10 گنا تیز ہے جبکہ اس میں رقم بھی بے حد کم خرچ ہوگی۔

    واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت ایف اے او کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں ایک کروڑ 80 لاکھ ہیکٹرز کے رقبے پر مشتمل جنگلات کاٹ دیے جاتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں موجود گھنے جنگلات جنہیں رین فاریسٹ کہا جاتا ہے، اگلے 100 سال میں مکمل طور پر ختم ہوجائیں گے۔

    مزید پڑھیں: جنگلات کے قریب وقت گزارنا بے شمار فوائد کا باعث

    جنگلات کی کٹائی عالمی حدت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ کا ایک اہم سبب ہے جس کے باعث زہریلی گیسیں فضا میں ہی موجود رہ جاتی ہیں اور کسی جگہ کے درجہ حرارت میں اضافہ کرتی ہیں۔

    گو کہ دنیا بھر میں شجر کاری کا عمل بھی تیز کیا جاچکا ہے لیکن ہر سال 15 ارب درخت کاٹے جاتے ہیں اور ان کی جگہ صرف 6 ارب نئے درخت لگائے جاتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • فطرت کا معجزہ: وسیع و عریض رقبے پر مشتمل انوکھا ترین درخت

    فطرت کا معجزہ: وسیع و عریض رقبے پر مشتمل انوکھا ترین درخت

    آپ نے مختلف تصاویر میں دنیا کے انوکھے اور منفرد ترین درختوں کو ضرور دیکھا ہوگا جو اپنی ہیئت و ساخت کی بنا پر دیگر درختوں سے بالکل الگ معلوم ہوتے ہیں۔

    ایسا ہی ایک درخت پانڈو نام کا بھی ہے جسے دنیا کا منفرد ترین درخت ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

    اس تصویر کو دیکھ کر شاید آپ کو خیال آئے کہ یہ تو عام سے درخت ہیں، ان میں انفرادیت کیا ہے؟

    لیکن یہ جان کر آپ کی حیرت کی انتہا نہ رہے گی کہ یہ کسی درخت کا کوئی جنگل نہیں، بلکہ تصویر میں موجود تمام ’درخت‘ دراصل ایک ہی درخت ہے جو وسیع و عریض رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔

    مزید پڑھیں: کیا درخت بھی باتیں کرتے ہیں؟

    امریکی ریاست اوٹاہ کے ایک جنگل میں پایا جانے والا یہ درخت بذات خود ایک جنگل معلوم ہوتا ہے جو 106 ایکڑ کے رقبے پر محیط ہے۔

    قلمی کالونی کے نام سے پکارا جانے والا یہ درخت نر ہے اور اس کا ہر حصہ علیحدہ جینیاتی شناخت رکھتا ہے۔

    اس درخت کا ہر حصہ زیر زمین جڑوں کے ذریعے آپس میں منسلک ہے اور جڑوں کا یہ نظام 80 ہزار سال پرانا ہے جبکہ پورے درخت کا وزن 60 لاکھ کلو گرام ہے۔

    ان منفرد اور اچھوتی خصوصیات کے باعث اسے زمین کے سب سے بڑے، وزنی اور طویل العمر ترین زندہ جاندار ہونے کا درجہ حاصل ہے۔

    اس درخت کی انفرادیت اور خوبصورتی دیکھتے ہوئے اسے فطرت کا معجزہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • چیف جسٹس پشاور میں: فضائی آلودگی اور صنعتی فضلے پر محکموں پر اظہار برہمی

    چیف جسٹس پشاور میں: فضائی آلودگی اور صنعتی فضلے پر محکموں پر اظہار برہمی

    پشاور: چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے خیبر پختونخوا کے صدر مقام پشاور  میں مختلف کیسوں کی سماعت کی، فضائی آلودگی اور صنعتی فضلے کے حوالے سے محکموں پر برہمی کا اظہار کیا۔

    تفصیلات کے مطابق فضائی آلودگی کے حوالے سے کیس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے محکمہ ماحولیات کے پی کی رپورٹ پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کی کارکردگی سے بالکل مطمئن نہیں۔

    محکمہ ماحولیات کے نمائندے نے عدالت کو بتایا کہ محکمے کی جانب سے ٹریبونل کو 10 ماہ میں 818 کیسز بجھوائے گئے ہیں جب کہ 279 پر فیصلہ کیا گیا۔

    چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کا ٹریبونل کام نہیں کررہا ہے، تمام کیسز پر فیصلہ آنا چاہیے تھا، انھوں نے کہا کہ ہمیں اور لوگوں کو ٹھیک تو کرنا ہی ہے تاہم اب اپنی عدلیہ سے بھی کام کرانا ہے۔ بعد ازاں عدالت نے انوائرنمنٹل ٹریبونل کے چیئرمین کو طلب کرلیا۔

    دوسری طرف انڈسٹری کے فضلے سے متعلق ایک کیس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے چیف سیکریٹری سے استفسار کیا کہ کیا یہ بات درست ہے کہ کارخانوں کا پانی دریاؤں میں پھینکا جا رہا ہے؟

    چیف سیکریٹری نے عدالت کو بتایا کہ ہم اس سلسلے میں کام کر رہے ہیں، اس مسئلے کے حل کے لیے 23 بلین روپے درکار ہیں، پہلے رقم مختص نہیں تھی لیکن اب رقم مختص کردی گئی ہے۔

    پشاور: کم عمر لڑکی سے شرمناک سلوک، ملزم نے نیم برہنہ گلیوں میں گھمایا


    چیف جسٹس نے اس صورت حال کے حوالے سے استفسار کیا کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ چیف سیکریٹری نے جواب دیا کہ قانون بنانے والے لوگ ہی ذمہ دار ہیں۔

    چیف سیکریٹری کا کہنا تھا کہ جانے والی حکومت کے پیچھے بات کرنا اچھا نہیں لگتا، تاہم یہ غلطی سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے بھی تسلیم کی۔ چیف سیکریٹری کے جواب پر چیف جسٹس نے مصرع پڑھا: ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • مارگلہ پہاڑیوں پر آگ کا تیسرا دن، پاک فوج سے تعاون طلب

    مارگلہ پہاڑیوں پر آگ کا تیسرا دن، پاک فوج سے تعاون طلب

    اسلام آباد: مارگلہ کی پہاڑیوں پر 29 مئی سے لگی آگ بے قابو ہوگئی ہے، کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا محکمہ ماحولیات اور ایمرجنسی یونٹ آگ بجھانے میں ناکام ہوگیا۔

    تفصیلات کے مطابق سی ڈی اے نے تین دن سے مارگلہ پہاڑیوں پر لگی آگے بجھانے کے لیے نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی سے رابطہ کیا، تاکہ پاک فوج کا تعاون حاصل کیا جاسکے۔

    دوسری طرف این ڈی ایم اے نے پاک فوج سے مدد طلب کر لی ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی نے پاک فوج سے آگ بجھانے کے لیے ہیلی کاپٹر مانگے ہیں۔

    ذرائع کے مطابق این ڈی ایم اے نے پاک فوج سے درخواست کی ہے وہ آگ بجھانے میں ان کی مدد کریں کیوں کہ پہاڑوں تک فائر بریگیڈ کی رسائی ممکن نہیں ہے۔

    خیال رہے کہ ایک ہفتے کے دوران مارگلہ ہلز کے جنگل میں یہ دوسری بار آگ بھڑکی ہے، گزشتہ روز مزید دو مقامات پر آگی بھڑکی جن میں گاؤں صادق پور اور دامن کوہ پکنگ پوائنٹ شامل ہیں۔

    سی ڈی اے کے نمائندے ملک سلیم کا کہنا تھا کہ ان کی ٹیم تمام کوششیں بروئے کار لا کر آگ کے شعلے بجھا رہی ہے، ایک بڑا علاقہ کلیئر کردیا گیا ہے تاہم پہاڑیوں کے اوپر تک فائر بریگیڈ کی رسائی ممکن نہیں ہے۔

    کسٹم ہاؤس کراچی میں پراسرارآتش زدگی


    ان کا کہنا تھا کہ اس موسم میں عام طور پر انسانی غلطی کی وجہ سے پہاڑیوں پر آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ کہا گیا ہے کہ یہ شہری ایجنسی ہر سال مقامی دیہاتیوں کو سینکڑوں کی تعداد میں روزانہ کی تنخوا پر تین ماہ کے لیے آگ بجھانے پر مامور کرتی ہے۔

    واضح رہے کہ رواں سال مارچ کے مہینے میں بھی مارگلہ پہاڑیوں پر آگ بے قابو ہوگئی تھی جسے بجھانے کے لیے ایئر فورس اور پاک فوج کی خدمات حاصل کرلی گئی تھیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانےکے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • اپنے شہر کی گرمی کو آپ بھی کم کرسکتے ہیں

    اپنے شہر کی گرمی کو آپ بھی کم کرسکتے ہیں

    دنیا بھر کے درجہ حرارت میں اضافہ ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے جسے روکنے یا اس سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اقدامات نہ کیے گئے تو یہ زمین سے انسانوں کے خاتمے کا سبب بن سکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ یا درجہ حرارت میں اضافہ ہمارے معاشرتی رویوں سے لے کر معیشتوں اور بین الاقوامی تعلقات تک کو متاثر کرے گا۔ درجہ حرارت بڑھنے کے باعث پینے کے پانی کے ذخائر میں کمی واقع ہوجائے گی جس سے پینے کا پانی کمیاب، اور زراعت کے لیے پانی نہ ہونے کے سبب قحط و خشک سالی کا خدشہ ہے۔

    دوسری جانب بڑھتا ہوا درجہ حرارت برفانی پہاڑوں یعنی گلیشیئرز کو پگھلا دے گا جس سے ان کا سارا پانی سمندروں میں آجائے گا اور یوں سمندر کی سطح بلند ہو کر قریبی ساحلی علاقوں کو تباہ کرنے کا سبب بن جائے گی۔

    مزید پڑھیں: سخت گرمی میں ان طریقوں سے اپنے گھر کو ٹھنڈا رکھیں

    اس فہرست میں کراچی کا نام بھی شامل ہے جو پاکستان کا ساحلی شہر ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سنہ 2025 تک کراچی کے مکمل طور پر ڈوبنے کا خدشہ  ہے۔ شہر قائد اس وقت ویسے ہی قیامت خیز گرمی کی زد میں ہے جس کے بعد اسے کم کرنے کے لیے اقدامات بے حد ضروری ہوگئے ہیں۔

    لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ کچھ اقدامات کے ذریعہ ہم درجہ حرات کو بہت زیادہ بڑھنے سے روک سکتے ہیں اور گلوبل وارمنگ کے نقصانات کو خاصی حد تک کم کرسکتے ہیں۔


    کاربن کا کم استعمال

    چین سمیت دنیا کے کئی ممالک میں کوئلے کو توانائی حاصل کرنے کے لیے جلایا جاتا ہے اور یہ گلوبل وارمنگ اور دیگر ماحولیاتی مسائل کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

    کوئلہ جلنے کے بعد کاربن گیس کا اخراج کرتا ہے جو ماحول میں حد درجہ آلودگی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ فضا میں کاربن کی مقدار بڑھا دیتا ہے اور یوں درجہ حرارت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

    چین سمیت کئی ممالک کوئلے کے استعمال کو کم کرنے پر کام کر رہے ہیں اور اس کی جگہ سورج کی روشنی سے توانائی حاصل کرنے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ شمسی توانائی مہنگی تو ضرور ہے مگر پائیدار اور ماحول دوست ہے۔


    برقی گاڑیاں

    گاڑیوں کا دھواں ماحول کی آلودگی اور درجہ حرات میں اضافے کا ایک اور بڑا سبب ہے۔ تیز رفتار ترقی اور معاشی خوشحالی نے سڑکوں پر کاروں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ کردیا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے لیے پائیدار روڈ انفرا اسٹرکچر تشکیل دیا جانا ضروری ہے۔ ذاتی گاڑیوں کا استعمال کم کر کے ان کی جگہ پبلک ٹرانسپورٹ جیسے بسوں، ریل گاڑیوں اور سائیکلوں کو فروغ دیا جائے۔ یہ دھواں اور آلودگی کم کرنے میں خاصی حد تک مددگار ثابت ہوں گے۔

    دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والا وقت برقی گاڑیوں کا ہے جو ری چارج ایبل ہوں گی اور ان میں پیٹرول اور گیس کی ضرورت نہیں ہوگی۔


    جنگلات و زراعت

    گلوبل وارمنگ کو کم کرنے کا سب سے آسان طریقہ بڑے پیمانے پر شجر کاری کرنا ہے۔ کسی علاقے کے طول و عرض میں جنگلات لگانا اس علاقے کے درجہ حرارت کو کم رکھنے اور ماحول کو صاف رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

    اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ برائے خوراک و زراعت ایف اے او کا کہنا ہے کہ ہر سال دنیا بھر میں ایک کروڑ 80 لاکھ ہیکٹر پر مشتمل جنگلات کاٹ دیے جاتے ہیں۔

    عالمی خلائی ادارے ناسا کے مطابق اگر درختوں اور جنگلات کی کٹائی اسی طریقے سے جاری رہی تو ہم صرف اگلی ایک صدی میں زمین پر موجود تمام جنگلات سے محروم ہوجائیں گے۔

    دوسری جانب زراعت نہ صرف ماحول کو خوشگوار رکھتی ہے بلکہ کسی علاقے کی غذائی ضروریات کو بھی پورا کرتی ہے۔ ماہرین اب شہری زراعت پر زور دے رہے ہیں جس میں شہروں میں عمارتوں اور گھروں کی چھتوں پر زراعت کی جائے۔

    اس سے ایک طرف تو اس عمارت کے درجہ حرات میں کمی آئے گی جس سے اس کے توانائی (اے سی، پنکھے) کے اخراجات میں کمی آئے گی دوسری طرف انفرادی طور پر اس عمارت کے رہائشی اپنی غذائی ضروریات کے لیے خود کفیل ہوجائیں گے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • لاہور ہائیکورٹ نے اسموگ کمیشن کو ماحولیاتی آلودگی پر رپورٹ جمع کرانے کا حکم دے دیا

    لاہور ہائیکورٹ نے اسموگ کمیشن کو ماحولیاتی آلودگی پر رپورٹ جمع کرانے کا حکم دے دیا

    لاہور: ہائیکورٹ میں ماحولیاتی آلودگی کے خلاف درخواست پرسماعت کے دوران جج نے اسموگ کمیشن کو ماحولیاتی آلودگی پر رپورٹ آئندہ سماعت میں جمع کرانے کا حکم دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور کے ایک شہری نے عدالت میں درخواست دے کر کہا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کے باعث شہر میں بیماریاں پھیل رہی ہیں۔

    درخواست گزار نے کہا کہ لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شامل ہوچکا ہے، سابق چیف جسٹس نے حکومت کوآلودگی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے نومبر2017 میں ماحولیاتی کمیشن بنانے کا حکم دیا تھا لیکن ماحولیاتی کمیشن نے کسی قسم کےانتطامات نہیں کیے۔

    دریں اثنا ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سابق چیف جسٹس کے حکم پر مانیٹرنگ اسٹیشن بنا دیا گیا ہے اور آلودگی سے متعلق سینٹرل لیبارٹری کو بھی فعال کردیا گیا ہے۔ عدالت نے درخواست پرمزید کارروائی 9 جون تک ملتوی کردی۔

    دنیا کے اسموگ سے متاثرہ 10 شہر


    واضح رہے کہ باغوں کے شہر لاہور میں ماحولیاتی آلودگی میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے بچے اور بڑے مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں، انسانوں کا سانس لینا بھی محال ہوگیا، جب کہ محکمہ تحفظ ماحولیات آلودگی ختم کرنے کے لیے اقدامات کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔

    آلودگی دنیا بھر کا مسئلہ ہے، وہ چاہے فضائی ہو، آبی ہو، موسمیاتی ہو یا پھر زمینی لیکن شہر لاہور میں دیگر آلودگیوں کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی آلودگی خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے، انسانی سرگرمیوں کو اس آلودگی کی بڑی وجہ کہا جاسکتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • برطانیہ کا پلاسٹک پر پابندی لگانے کا فیصلہ

    برطانیہ کا پلاسٹک پر پابندی لگانے کا فیصلہ

    دنیا بھر میں پلاسٹک کا استعمال ماحول، جنگلی حیات اور انسانی صحت کے لیے سخت نقصان دہ ثابت ہورہا ہے جس کے خوفناک اثرات دن بدن سامنے آتے جا رہے ہیں۔ پلاسٹک کے انہی نقصانات کو دیکھتے ہوئے برطانیہ نے ایک بار کے لیے قابل استعمال پلاسٹک پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔

    اس فیصلے کا اعلان برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے نے کامن ویلتھ اقوام کی میٹنگ کے دوران کیا۔

    فیصلے کے تحت ایسا پلاسٹک جو صرف ایک ہی بار استعمال کیا جاسکے جیسے پلاسٹک کا شاپنگ بیگ، اسٹرا اور کان کی صفائی کرنے والے کاٹن سوئیب پر پابندی لگا دی جائے گی۔

    یہ پابندی برطانیہ کے 25 سالہ ماحولیاتی منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت برطانیہ کی ماحولیاتی بہتری کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔

    میٹنگ کے دوران پیش کیے جانے والے حکومتی اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر کے سمندروں میں اس وقت 15 کروڑ ٹن پلاسٹک موجود ہے اور ہر سال 10 لاکھ پرندے اور ایک لاکھ سے زائد سمندری جاندار اس پلاسٹک کو کھانے یا اس میں پھنسنے کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔

    بریفنگ کے مطابق صرف اسٹرا بھی پلاسٹک کے کچرے میں بے تحاشہ اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ برطانیہ میں ایک سال کے دوران 8 ارب 50 کروڑ اسٹرا کو استعمال کے بعد پھینکا گیا۔

    خیال رہے کہ برطانیہ پلاسٹک کے استعمال کو کم سے کم کرنے کے لیے قابل تقلید اقدامات کر رہا ہے۔ اس سے قبل گزشتہ برس مائیکرو بیڈز پر پاندی عائد کی جاچکی ہے۔

    مائیکرو بیڈز پلاسٹک کے ننھے ننھےذرات ہوتے ہیں جو کاسمیٹکس اشیا، ٹوتھ پیسٹ اور صابنوں میں شامل کیے جاتے ہیں۔

    چونکہ یہ بہت چھوٹے ہوتے ہیں لہٰذا یہ ہر قسم کے فلٹر پلانٹ سے باآسانی گزر جاتے ہیں اور جھیلوں اور دریاؤں میں شامل ہو کر ان کی آلودگی میں اضافہ اور سمندری حیات کی بقا کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں۔

    اسی طرح گزشتہ برس پلاسٹک کی تھیلیوں پر بھی قیمت مقرر کی جاچکی ہے جس کے بعد سپر اسٹورز میں یہ بیگ مفت ملنا بند ہوگئے۔

    قیمت مقرر ہونے کے بعد ان بیگز کے استعمال میں حیرت انگیز کمی دیکھنے میں آئی۔ حکومتی ڈیٹا کے مطابق ان بیگز کی خریداری پر قیمت مقرر کیے جانے کے بعد اس کی طلب میں 99 فیصد کمی آچکی ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔