Tag: ماحول دوست

  • پنجاب میں ماحول دوست الیکٹرک بسیں چلانے کی منظوری

    پنجاب میں ماحول دوست الیکٹرک بسیں چلانے کی منظوری

    وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے صوبے کے مختلف شہروں میں ماحول دوست الیکٹرک بسیں چلانے کی منظوری دے دی گئی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی زیر صدارت پنجاب کابینہ کا 25 واں اجلاس ہوا جس میں صوبے سے متعلق اہم فیصلوں کی منظوری دی گئی جس میں کاشتکاروں سے متعلق بھی اہم فیصلے کیے گئے۔

    اجلاس میں پنجاب کے مختلف شہروں میں ماحول دوست الیکٹرک بسیں چلانے کی منظوری دی گئی اور وزیراعلیٰ مریم نواز نے راجن پور میں بھی الیکٹرک بس سروس شروع کرنے کی ہدایت کی۔

    اس کے علاوہ اجلاس میں فلور ملز کیلیے 25 فیصد گندم خریداری یقینی بنانے کیلیے فوڈ گرینز لائسنسنگ کنٹرول آرڈر میں ترمیم کی منظوری دی گئی اور کابینہ نے متنبہ یا کہ 25 فیصد لازمی گندم خریدارنی نہ کرنے والی فلور ملز کے لائسنس منسوخ ہو سکتے ہیں۔

    کابینہ نے گندم کے کاشتکاروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ویٹ سیکٹر کی ڈی ریگولیشن اور الیکٹرانک ویئر ہاؤس ری سیٹ سسٹم کے نفاذ کی تجویز کی بھی منظوری دی گئی۔ کاشتکار کو گندم اسٹور کرنے کی سہولت ملے گی اور اسٹوریج اخراجات حکومت برادشت کرے گی۔

    کابینہ اجلاس میں 15 لاکھ کارکنوں، مزدوروں اور ورکرز کیلیے سب سے بڑا راشن کارڈ متعارف کرانے کا اصولی فیصلہ کیا گیا۔ اس راشن کارڈ کے ذریعہ 10 ہزار روپے ماہانہ امداد دی جائے گی۔

    اس کے علاوہ پنجاب میں چاول کے کاشتکاروں کیلیے اہم فیصلے کی منظوری دی گئی اور چین کے ادارے اور ایوب ایگریکلچرل ریسرچ انسٹیٹیوٹ فیصل آباد میں ایم او یو بھی منظور کیا گیا۔ چین کا ادارہ پنجاب میں چاول کا ہائبرڈ بیج متعارف کرانے کے لیے معاونت کرے گا۔

    چلڈرن لائبریری کمپلیکس لاہور کے قواعد و ضوابط میں ترمیم کی منظوری دی گئی۔ اس کمپلیکس میں پاکستان کا پہلا نواز شریف ارلی ایجوکیشن سینٹر آف ایکسی لینس قائم ہوگا۔

    اجلاس میں چنگ چی رکشوں کو ریگولیٹ کرنے کیلیے پنجاب موٹر وہیکل رولز 1969 میں ترامیم، ادویات و ڈرگ کی خریداری کی مد میں واجبات ادائیگی کیلیے اضافی فنڈزکی فراہمی، ٹریژری کیئر اسپتالوں کیلیے فرنیچر و آلات خریداری کیلیے فنڈز کی فراہمی کی منظوری دی گئی جب کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے اسپتالوں میں فرنیچر اور طبی آلات کی خریداری کیلیے مطلوبہ فنڈز فراہم کرنے کا حکم بھی دیا۔

  • انقلابی قدم، ’’ماحول دوست احرام‘‘ متعارف، خاص بات کیا ہے؟

    انقلابی قدم، ’’ماحول دوست احرام‘‘ متعارف، خاص بات کیا ہے؟

    حج وعمرہ کی ادائیگی کے لیے احرام لازمی ہے سعودی وزارت ثقافت نے منفرد ماحول دوست احرام متعارف کرا دیا ہے۔

    مکہ مکرمہ میں عمرہ سارا سال جب کہ فریضہ حج کی ادائیگی ماہ ذوالحج میں ہوتی ہے۔ حج اور عمرہ کی ادائیگی کے لیے احرام لازمی ہوتا ہے جو مرد زائرین کے لیے دو چادروں پر مشتمل ہوتا ہے جب کہ خواتین کے لیے ان کا پہنا ہوا لباس ہی احرام ہوتا ہے۔

    عرب نیوز کے مطابق سعودی وزارت ثقافت کے فیشن کمیشن نے احرام کے دوبارہ استعمال کو فروغ دینے کے لیے استعمال شدہ احرام کو ری سائیکلنگ کر کے ’’ماحول دوست احرام‘‘ کے نام سے متعارف کرایا ہے۔

    اس کے لیے گزشتہ حج کے دوران استعمال شدہ احرام جمع کرنے کے لیے منیٰ کے علاقے میں 336 ڈبے نصب کیے گئے تھے، جہاں لاکھوں کی تعداد میں احرام جمع ہوئے۔

    رپورٹ کے مطابق اس عمل میں استعمال شدہ احرام کو ٹیکسٹائل ری سائیکلنگ کے ذریعہ خاص طریقے سے نئے پائیدار احرام میں تبدیل کیا جاتا ہے اور یہ احرام زائر کو ماحول میں آلودگی سے بھی تحفظ فراہم کرتا ہے۔

    اس نئے منصوبے کا مقصد صارفین میں فیشن ری سائیکلنگ کے بارے میں آگہی بڑھانا اور سعودی عرب میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کے فروغ سے معیشت کی ترقی میں مدد فراہم کرنا ہے۔

    سعودی فیشن کمیشن کے سی ای او بوراک شاکماک نے بوراک شاکماک نے بتایا احرام کے جمع شدہ کپڑے کو خاص طریقے سے ری سائیکلنگ کے مراحل سے گزارا جاتا ہے جہاں اسے صاف کر کے دوبارہ خام شکل میں لا کر احرام کے لیے نیا کپڑا تیار کیا جاتا ہے۔

    جدہ میں جنوری میں ہونے والی حج و عمرہ کانفرنس کے دوران تدویم کمپنی نے ری سائیکل شدہ احرام کے کپڑے کو اعلیٰ معیار کے چمڑے کے تھیلے میں رکھ کر پیش کیا۔

    ماحول دوست احرام کہاں سے ملے گا؟

     

    ری سائیکل کپڑے سے تیار کیا گیا احرام مدینہ منورہ میں 98 ریال میں دستیاب ہے مستقبل قریب میں مکہ مکرمہ کے علاوہ ایئرپورٹس اور مارکیٹ میں بھی دستیاب ہو گا۔

    یہ پائیدار احراموں کے لیے مخصوص اسٹورز پر بھی دستیاب ہوں گے اور جدہ میں 25 مئی تک جاری رہنے والے اسلامی آرٹ بینالے میں بھی پیش کیا جائے گا۔

    https://urdu.arynews.tv/6000-kilometer-bicycle-journey-for-hajj-begins-from-germany/

  • وہ جوتے جو ایک سال کے اندر خود بخود تحلیل ہوجائیں گے

    وہ جوتے جو ایک سال کے اندر خود بخود تحلیل ہوجائیں گے

    سمندری آلودگی اس وقت ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے جس سے آبی حیات سخت خطرے میں ہے اور اس سے ہمارا فوڈ سائیکل بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔

    پانی کے ذخائر کو آلودگی سے بچانے کے لیے امریکی سائنس دانوں نے ایسے ماحول دوست جوتے تیار کیے ہیں جن کی تیاری میں کسی بھی قسم کے پیٹرولیم سے بنے کیمیائی مادوں کے بجائے سمندری کائی سے کشید کردہ تیل استعمال کیا گیا ہے۔

    بلیو ویو کے نام سے پیش کیے گئے یہ ماحول دوست جوتے ایک سال کے اندر اندر تحلیل ہو کر ختم ہوجاتے ہیں۔

    ان جوتوں کو تیار کرنے والے یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بلیو ویو جوتے سازی کی صنعت میں انقلابی پیش رفت کے حامل ہیں کیوں کہ ان میں پیٹرولیم پلاسٹک کے بجائے پودوں سے حاصل کی گئی پلاسٹک استعمال کی گئی ہے۔

    یہ جوتے بائیو ڈی گریڈ ایبل مادے سے تیار کیے گئے ہیں اور یہ پائیداری کے ساتھ ماحولیاتی ذمے داری بھی پوری کرتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ امید ہے کہ یہ جوتے ہمارے آبی ذخائر اور سمندوں سے پلاسٹک کی آلودگی کے خاتمے میں اہم کردار ادا کریں گے۔

    بلیو ویو کی تیاری کے بارے میں ماہرین نے بتایا کہ ان جوتوں کی تیاری کے لیے سمندری کائی سے کشید کردہ تیل کو ایک خاص کیمائی عمل سے گزارا گیا ہے، جس کی بدولت اس سے بننے والے تلوے ایک سال کے اندر اندر بے ضرر مادے میں تبدیل ہو کر خود بخود تحلیل ہوجاتے ہیں۔

    اس پلاسٹک میں موجود خردبینی جاندار سطح زمین پر ایک سال جبکہ زیر آب اس جوتے کو 6 ماہ میں تحلیل کرسکتے ہیں۔

    بلیو ویو کے اوپری حصے کو مکمل طور پر ماحول دوست کپاس کے ریشوں سے تیار کیا گیا ہے،

    بلیو ویو کو دو خوبصورت رنگوں ونٹیج بلیک اور سینڈ ڈیون میں 135 ڈالر (25 ہزار پاکستانی) کی قیمت پر فروخت کے لیے پیش کیا گیا ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ہر عمر کے بچوں اور بڑوں کے لیے یکساں قیمت پر دستیاب ہیں۔

  • سعودی عرب کا ایک اور ماحول دوست اقدام

    سعودی عرب کا ایک اور ماحول دوست اقدام

    ریاض: سعودی عرب نے ماحول دوستی میں ایک اور قدم آگے بڑھتے ہوئے نان ہائیڈرو کاربن ذرائع سے کم لاگت بجلی پیدا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی عرب قابل تجدید توانائی کے میدان میں اپنے حریف جرمنی کا مقابلہ کرنے اور ہائیڈروجن کی پیداوار میں قائد کی حیثیت سے آگے آنے کے حوالے سے پرعزم ہے۔

    سعودی وزیر توانائی شہزادہ عبد العزیز بن سلمان کا کہنا ہے کہ قابل تجدید توانائی کے ذرائع کی بات کریں تو ہم ایک اور جرمنی ہوں گے۔ انہوں نے گزشتہ ہفتے ریاض میں فیوچر انویسٹمنٹ انی شی ایٹو (ایف آئی آئی) فورم میں بتایا کہ ہم پہل کرنے والے ہوں گے۔

    سعودی وزیر توانائی کا کہنا تھا کہ ان کا ملک دنیا میں ہائیڈرو کاربنز کے بڑے پروڈیوسرز میں شامل ہے اور آرامکو دنیا کی کسی بھی دوسری کمپنی سے زیادہ تیل پیدا کر رہی ہے، اس تناظر میں سعودی عرب میں شمسی توانائی کے منصوبے ماحول دوست اور گرین ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔

    سعودی عرب کے مستقبل کے توانائی منصوبوں خصوصاً شمسی توانائی اور تونائی کے دیگر قابل تجدید ذرائع کے حوالے سے شہزادہ عبدالعزیز بن سلمان کا کہنا تھا کہ ان منصوبوں سے سنہ 2030 تک ملک کی بجلی کی آدھی ضروریات پوری ہوں گی۔

    انہوں نے واضح کیا کہ یہ بجلی نان ہائیڈرو کاربن ذرائع سے کم لاگت میں پیدا کی جائے گی اور یہ ماحول دوست ہوگی۔

    فیوچرانویسٹمنٹ انیشی ایٹو انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام ورچوئل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شہزادہ عبد العزیز بن سلمان کا کہنا تھا کہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ سعودی عرب ہائیڈرو کاربن کے تیار کردہ ہر مالیکیول کو بہتر طریقے سے استعمال میں لائے گا، یہ کام ماحول کے لیے سازگار اور پائیدار طریقے سے کیا جائے گا۔

  • سعودی عرب کا ماحول دوست ٹرانسپورٹ کے لیے معاہدہ

    سعودی عرب کا ماحول دوست ٹرانسپورٹ کے لیے معاہدہ

    ریاض: سعودی عرب نے ماحول دوست ٹرانسپورٹ کے لیے ایک برطانوی کمپنی سے معاہدہ کرلیا، بجلی اور ہائیڈروجن پر چلنے والی گاڑیاں، جہاز اور بحری تیار کیے جائیں گے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق ریڈ سی ڈویلپمنٹ کمپنی نے منصوبے میں مناسب اور ماحول دوست ٹرانسپورٹ ذرائع کے اسٹینڈرڈ کا تعین کرنے کے لیے عالمی انجینیئرنگ کمپنی کے ساتھ معاہدہ کر لیا ہے۔

    برطانوی کمپنی 28 ہزار مربع میٹر رقبے پر مشتمل منصوبے کے لیے بری، بحری اور فضائی ٹرانسپورٹ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ماحول دوست لائحہ عمل پیش کرے گی۔

    بحیرہ احمر منصوبے کا جزوی افتتاح 2022 میں ہوگا جبکہ اس کی تکمیل 2030 میں متوقع ہے۔

    برطانوی کمپنی منصوبے کے لیے گاڑیوں کے علاوہ، جہاز، بحری جہاز اور ٹرانسپورٹ کے دیگر ذرائع کا خاکہ پیش کرے گی جو بجلی اور ہائیڈروجن پر چلنے والے ہوں گے۔

    ریڈ سی کمپنی کے سربراہ جون باغانو نے کہا ہے کہ ہمارا منصوبہ تجدید پذیر ہے جس میں ماحول دوست لوازمات کا استعمال کیا جاتا ہے، یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہم ماحول دوست خوبصورتی کو برقرار رکھ کر اسے آئندہ نسلوں کو منتقل کرنا چاہتے ہیں۔

    برطانوی کمپنی منصوبے میں بجلی اور ہائیڈروجن سے چلنے والی گاڑیوں کے اسٹیشن کا بھی تعین کرے گی جو منصوبے کی روح کے مطابق ہوں گے اور جن سے تجدید پذیر توانائی کا استعمال یقینی ہوگا۔

    یہ معاہدہ ریڈ سی کمپنی کا ایک اور کارنامہ ہے جس میں تجدید پذیر توانائی کو استعمال کرتے ہوئے منصوبے میں ٹرانسپورٹ کی سہولتیں فراہم کی جائیں گی، ان میں الیکٹرانک بائک، گالف کار، چھوٹے اور بڑے ٹرک، بسیں، بحری جہاز، ہیلی کاپٹر، لانچ، ایئرپورٹ ٹیکسی یہاں تک کہ سیاحتی بسوں کا بھی استعمال شامل ہوگا۔

    دوسری طرف برطانوی کمپنی کے مشرق وسطیٰ میں سربراہ کریس سیمور نے کہا ہے کہ ہم اپنے تجارتی منصوبوں میں تجدید پذیر توانائی اور ماحول دوست ذرائع کو ترجیح دیتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ہم معاشرتی اقدار کو ملحوظ رکھتے ہوئے منصوبے تیار کرتے ہیں جن پر عمل کرتے ہوئے ریڈ سی کمپنی کے ساتھ کام کا معیار تیار کریں گے۔ ہماری کوشش ہے کہ دنیا کے اس بہترین اور نمایاں منصوبے میں ہم تجدید پذیر اور ماحول دوست توانائی کو استعمال کرتے ہوئے اپنا حصہ ڈالیں۔

    معاہدے کے مطابق برطانوی کمپنی صاف، تجدید پذیر اور ماحول دوست توانائی کا استعمال کرے گی اور شمسی توانائی اور پن چکیوں سے پیدا ہونے والی صاف ستھری بجلی استعمال ہوگی۔

  • وزیراعظم کی بلوچستان کےساحلی علاقوں کیلیے ماسٹر پلان بنانے کی ہدایت

    اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے ساحلی علاقے سےمتعلق ماسٹر پلان ترتیب دیاجائے، سرمایہ کاری اور انفرا اسٹرکچر کے قیام میں معاون ثابت ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت ماحول دوست سیاحت کے فروغ سے متعلق اجلاس ہوا جس میں خیبرپختونخوا ، پنجاب اور ساحلی علاقوں میں سیاحت کے فروغ پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

    اجلاس میں گلگت بلتستان اور شمالی علاقہ جات میں سیاحتی توجہ کے مراکز پر تفصیلی غور کیا گیا، قدیم عمارات کے تحفظ اور تزئین وآرائش اور ماحول دوست سیاحت پرگفتگو کی گئی۔

    وزیراعظم کو بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ خیبرپختونخوا میں سیاحت سے متعلق زوننگ کا کام مکمل کر لیاگیا،گلگت بلتستان میں 3 زون قائم ہیں جن میں غذر، استور اور شگر شامل ہیں۔

    وزیراعظم عمران خان نے خیبرپختونخوا کے 4، پنجاب میں ایک علاقے کا ماسٹر پلان ترتیب دینے کی ہدایت کی۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے ساحلی علاقے سے متعلق ماسٹر پلان ترتیب دیا جائے، ماسٹر پلان سرمایہ کاری اور انفرااسٹرکچر کے قیام میں معاون ثابت ہوگا۔

    عمران خان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا میں ریسٹ ہاؤسز کی بحالی کا عمل جلد مکمل کیاجائے، پاکستان میں سیاحت کا بےشمار پوٹینشل موجود ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیاحت کے فروغ سے معیشت کو تقویت ملےگی، سیاحت کےفروغ کے لیے لائحہ عمل ترتیب دیا جائے۔

  • سوویت دور کے تھیلے پلاسٹک کی آلودگی سے نمٹنے کے لیے معاون

    سوویت دور کے تھیلے پلاسٹک کی آلودگی سے نمٹنے کے لیے معاون

    پلاسٹک کرہ زمین کو گندگی کے ڈھیر میں تبدیل کرنے والی سب سے بڑی وجہ ہے کیونکہ پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے ہزاروں سال درکار ہیں۔

    یہی وجہ ہے کہ پلاسٹک بڑے پیمانے پر استعمال کے باعث زمین پر اسی حالت میں رہ کر زمین کو گندگی وغلاظت کا ڈھیر بنا چکا ہے۔ دنیا بھر میں جہاں پلاسٹک کا استعمال کم سے کم کرنے پر زور دیا جارہا ہے وہیں پلاسٹک کی متبادل پیکجنگ اشیا بنانے پر بھی کام جاری ہے۔

    ایسی ہی کوشش روس میں بھی کی جارہی ہے جہاں سوویت یونین کے دور میں استعمال کیے جانے والے تھیلوں کو پھر سے فروغ دیا جارہا ہے۔

    اووسکا نامی یہ تھیلے تاروں سے بنائے جاتے ہیں۔ اس وقت ان تھیلوں کو پلاسٹک کی تباہ کن آلودگی سے نمٹنے کے لیے بہترین خیال کیا جارہا ہے۔

    سوویت دور میں یہ تھیلے نابینا افراد تیار کیا کرتے تھے اور ان سمیت لاکھوں افراد اس کی خرید و فروخت سے منسلک تھے، پلاسٹک کی آمد کے ساتھ ہی اس روزگار سے وابستہ تمام افراد بے روزگار ہوگئے۔

    اب ان تھیلوں کو پھر سے فروغ دینے کا مقصد ان افراد کو روزگار فراہم کرنا اور سب سے بڑھ کر پلاسٹک آلودگی کے اضافے کو روکنا ہے۔

    ان تھیلوں کے دکانوں پر پہنچتے ہی لوگوں کی بڑی تعداد نے انہیں خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی۔ کئی افراد کا کہنا تھا کہ انہیں دیکھ کر انہیں اپنا بچپن یاد آگیا جب ان کی دادی ایسے تھیلے استعمال کیا کرتی تھیں۔

    اس وقت صرف روس میں اس نوعیت کے 5 لاکھ تھیلے فروخت ہوچکے ہیں جبکہ انہیں اٹلی بھی بھیجا جارہا ہے۔ اسے استعمال کرنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ تحفظ ماحول کے لیے اس کوشش کا حصہ بن کر بے حد خوشی محسوس کر رہے ہیں۔

  • سعودی عرب میں دنیا کا سب سے بڑا کاربن سے پاک نظام وضع

    سعودی عرب میں دنیا کا سب سے بڑا کاربن سے پاک نظام وضع

    ریاض: دنیا کے لیے ماحول دوست اور پائیدار ترقی کی کوششوں میں سعودی عرب بھی اپنا حصہ شامل کرنے جارہا ہے، سعودی عرب میں دنیا کا سب سے بڑا کاربن سے پاک اور قابل تجدید توانائی کا مرکز قائم کرنے پر کام جاری ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق سعودی شہر نیوم میں دنیا کا سب سے بڑا کاربن فری نظام وضع کیا جا رہا ہے، یہ دنیا میں قابل تجدید توانائی کا سب سے بڑا مرکز ہوگا۔

    منصوبے میں توانائی کے شعبے کے سربراہ پیٹر ٹیریم کا کہنا ہے کہ سعودی عرب تاریخ میں شمسی اور ہوا سے پیدا ہونے والی توانائی کا سب سے بڑا نیلام کنندہ بننے والا ہے۔ نیوم میں سائنسی محققین فوٹو وولٹیک کے پینلز کی تیاری پر کام کر رہے ہیں۔

    یہ پینل شمسی توانائی کو جذب کر کے اس سے بجلی پیدا کریں گے۔ اس کے علاوہ ہوا سے چلنے والی چکیاں (ونڈ ملز) بھی تیار کی جارہی ہیں جن سے قابل تجدید توانائی پیدا ہوگی۔

    پیٹر ٹیریم نے قابل تجدید توانائی کے شعبے میں ایک نئی ایجاد کے بارے میں بھی بتایا جو نیوم میں پہلی مرتبہ بروئے کار لائی جا رہی ہے۔ اس جدید شہر میں محققین گرین مالی کیولز نامی ایک نئی ٹیکنالوجی متعارف کروا رہے ہیں۔

    اس کے استعمال کے ذریعے پانی کو آکسیجن اور ہائیڈروجن میں تبدیل کیا جائے گا جبکہ اس سے پیدا ہونے والا ایندھن مکمل طور پر پائیدار ہوگا اور اس سے کاربن یا دوسری ضرر رساں گیسوں کا بالکل بھی اخراج نہیں ہوگا۔ اس طرح یہ ٹیکنالوجی کاربن فری ایندھن کا اہم ذریعہ ثابت ہوگی۔

    پیٹر کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کی کامیابی کے لیے نیوم کو دستیاب بہترین دماغوں اور قائدانہ صلاحیتوں کے حامل افراد کو بھرتی کرنے کی ضرورت ہے۔ ’انہیں راغب کیا جائے کہ وہ آئیں اور ہمارے ساتھ کام کریں‘۔

    انہوں نے مزید کہا کہ نیوم دنیا میں پہلا بڑا شہر ہوگا جہاں کاربن فری نظام پر اتنے بڑے پیمانے پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ اس لیے محققین کے پاس یہ موقع بھی ہوگا کہ وہ اس نظام سے متعلق قواعد وضوابط وضع کریں اور مارکیٹ کا ڈیزائن تخلیق کریں تاکہ ہر قسم کی آلودگی سے پاک ہائیڈروجن کی پیداوار کاروباری پیمانے پر شروع کی جا سکے۔

  • پروٹین کے حصول کے لیے اب گوشت کی ضرورت نہیں

    پروٹین کے حصول کے لیے اب گوشت کی ضرورت نہیں

    دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ غذائی ضروریات بھی بڑھتی جارہی ہیں، جس کے لیے موجودہ وسائل ناکافی ہیں اور یوں دنیا کی ایک بڑی آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔

    اسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے چند نوجوانوں نے متبادل پروٹین کی پیداوار کا منصوبہ پیش کیا ہے جسے دنیا بھر کے ماہرین کی پذیرائی حاصل ہوئی۔

    سنگاپور میں منعقد کی جانے والی انوویٹ فار کلائمٹ کانفرنس کے تحت ہونے والے لیو ایبلٹی چیلنج میں دنیا بھر کے تخلیقی ذہن رکھنے والے افراد کو ماحول دوست آئیڈیاز پیش کرنے کی دعوت دی گئی جس کے لیے سینکڑوں آئیڈیاز موصول ہوئے۔ ان تمام آئیڈیاز میں متبادل پروٹین کا آئیڈیا مقابلے کا فاتح ٹھہرا۔

    فاتح کمپنی

    متبادل پروٹین کا یہ منصوبہ امریکی ریاست کیلی فورنیا کے نوجوانوں کی ایک کمپنی صوفیز کچن نے پیش کیا۔

    اس پروٹین کو بنانے کے لیے مختلف غذائی اشیا کی تیاری کے دوران بچ جانے والے خمیر اور ایک قسم کی الجی کو استعمال کیا گیا ہے۔ ان دونوں اشیا کی آمیزش سے اگنے والا پودے میں وافر مقدار میں پروٹین موجود ہوتی ہے۔

    یہ پودا صرف 3 دن میں اگایا جاسکتا ہے جبکہ پروٹین حاصل کرنے کے روایتی ذرائع جیسے گائے کو نشونما کے لیے ایک عرصہ درکار ہے، جبکہ گوشت کی پیداوار کے لیے کم از کم 141 ایکڑ زمین چاہیئے۔ اس کے برعکس پروٹین کے اس پودے کو صرف 0.02 ایکڑ زمین درکار ہے۔

    اسی طرح اس پودے کی تیاری میں پانی بھی کم استعمال ہوگا جبکہ گائے کی افزائش کی نسبت اس کا کاربن فٹ پرنٹ (کاربن اخراج / اثرات) بھی بے حد کم ہوں گے۔

    مزید پڑھیں: برگر ہماری زمین کے لیے سخت خطرات کا باعث

    خیال رہے کہ پروٹین کے حصول کا ذریعہ یعنی مختلف مویشیوں کو رہائش کے ساتھ پینے کے لیے پانی، گھاس (اسے اگانے کے لیے مزید پانی) اور دیگر اناج بھی درکار ہے۔

    گوشت کی کسی دکان پر موجود ایک پاؤنڈ کا گوشت، 35 پاؤنڈ زمینی مٹی، ڈھائی ہزار گیلن پانی اور 12 پاؤنڈز اناج صرف کیے جانے کے بعد دستیاب ہوتا ہے۔

    الجی اور خمیر سے تیار کیے جانے والے اس پودے کو بطور غذا استعمال کیا جاسکتا ہے جو انسانی جسم کو درکار غذائی ضروریات پوری کرسکتا ہے۔

    اس آئیڈیے کو 10 لاکھ سنگاپورین ڈالر یعنی لگ بھگ 7 لاکھ امریکی ڈالر کا انعام دیا گیا تاکہ اس منصوبے کو نہ صرف ایشیا بلکہ دنیا بھر میں فروغ دیا جاسکے اور غذائی بحران اور قلت پر قابو پانے کے لیے قدم اٹھایا جاسکے۔

  • باصلاحیت طالبات نے پلاسٹک سے ڈیزائنر لباس تیار کردیا

    باصلاحیت طالبات نے پلاسٹک سے ڈیزائنر لباس تیار کردیا

    ہماری زمین کو آلودہ کرنے والی سب سے بڑی وجہ پلاسٹک اس وقت دنیا بھر کے ماہرین کے لیے درد سر بن چکا ہے، اس پلاسٹک کے کچرے کو ختم کرنے کے لیے اس کے مختلف استعمالات متعارف کروائے جارہے ہیں اور ایسا ہی ایک اور استعمال سامنے آیا ہے۔

    سنگاپور کے کچھ طالب علموں نے پلاسٹک کو ملبوسات کی صورت میں پیش کیا ہے جسے دنیا بھر کی پذیرائی حاصل ہورہی ہے۔ جیسیکا اور ایوانا، صرف 2 طالبات پر مشتمل اس فیشن ڈیزائننگ ٹیم نے ماحول دوستی میں ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے فیشن میں ایک نئی جہت پیش کی اور پلاسٹک سے بنے ملبوسات متعارف کروائے ہیں۔

    یہ ملبوسات سنگاپور میں ہونے والی انوویٹ فار کلائمٹ کانفرنس میں پیش کیے گئے جہاں دنیا بھر کے ماہرین اور مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد نے اسے دیکھا اور ان طالبات کو سراہا۔ طالبات کو اس کانفرنس میں ان کی تخلیقات پر انعام سے بھی نوازا گیا۔

    جیسیکا اور ایوانا کو سنگاپور میں کام کرنے والی ایک کمپنی کی معاونت حاصل ہے۔ یہ کمپنی روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والی پلاسٹک کی بوتلوں کو جمع کر کے انہیں مختلف مراحل سے گزار کر کپڑے کی شکل میں بدل ڈالتی ہے۔ اس کپڑے کو تجارتی بنیادوں پر تو فروخت کیا ہی جاتا ہے، تاہم یہ کمپنی ان افراد کو یہ کپڑا مفت فراہم کرتی ہے جو استعمال شدہ پلاسٹک بوتلوں کی بڑی مقدار جمع کر کے انہیں دیں۔

    جیسیکا اور ایوانا نے بھی مختلف صفائی مہمات میں جمع ہونے والی پلاسٹک بوتلیں اس کپمنی کو فراہم کیں جس کے بعد انہیں پلاسٹک سے بنا ہوا کپڑا دیا گیا اور ان باصلاحیت طالبات نے اس سادے سے کپڑے پر اپنے ہنر کا جادو جگا کر اسے ڈیزائنر لباس میں تبدیل کرڈالا۔

    ان طالبات کا کہنا ہے کہ وہ فیشن میں رائج اس تصور کو بدلنا چاہتی ہیں کہ لباس صرف کاٹن یا مخمل سے ہی تیار کیا جاسکتا ہے۔

    وہ کہتی ہیں، ’پلاسٹک سے بنا ہوا لباس زمین سے ہماری محبت کا ثبوت ہے، اور خوبصورتی سے ڈیزائن کیے جانے کے بعد یہ لباس کسی بڑے ڈیزائنر کے تیار کردہ لباس سے کسی صورت کم نہیں اور اسے اہم سے اہم ترین موقع پر بھی پہنا جاسکتا ہے‘۔

    سنگاپور میں منعقد کی جانے والی اس نمائش میں پلاسٹک سے بنے صرف ملبوسات ہی نہیں اور بھی بے شمار اشیا پیش کی گئیں۔

    ایک اور کپمنی نے پلاسٹک بوتلوں کے ڈھکن سے بنے ہوئے ٹی میٹس، چشمے، تلف شدہ اسمارٹ فون اسکرین سے بنے گلاس اور سگریٹ بٹ سے بنی آرائشی اشیا بھی پیش کیں۔

    یاد رہے کہ پلاسٹک ایک تباہ کن عنصر اس لیے ہے کیونکہ دیگر اشیا کے برعکس یہ زمین میں تلف نہیں ہوسکتا۔ ایسا کوئی خورد بینی جاندار نہیں جو اسے کھا کر اسے زمین کا حصہ بناسکے۔

    ماہرین کے مطابق پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے 1 سے 2 ہزار سال کا عرصہ درکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا پھینکا جانے والا پلاسٹک کا کچرا طویل عرصے تک جوں کا توں رہتا ہے اور ہمارے شہروں کی گندگی اور کچرے میں اضافہ کرتا ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں