Tag: ماحول

  • درخت اگانے والی کتاب

    درخت اگانے والی کتاب

    اگر آپ کتاب دوست انسان ہیں تو آپ نے بے شمار کتابیں پڑھی ہوں گی، کچھ کو سنبھال کر رکھا ہوگا، جبکہ کچھ کتابوں کو اپنے عزیز و اقارب اور دوستوں کو دے دیا ہوگا۔

    تاہم ہر شخص یہ زحمت نہیں کرتا۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کتابوں کو بے مصرف جان کر ردی میں ڈال دیتی ہے جس سے اور کوئی نقصان ہو نہ ہو، ان درختوں کی قربانی ضرور ضائع ہوجاتی ہے جو اس کتاب کے کاغذ بنانے کے لیے کاٹے گئے ہوتے ہیں۔

    ایک محتاط اندازے کے مطابق کاغذ بنانے کے لیے ہر سال پوری دنیا میں 3 سے 6 ارب درخت کاٹے جاتے ہیں جس کے باعث دنیا بھر کے جنگلات کے رقبے میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے۔

    اسی طرح نئے سال میں بچوں کی پرانی نصابی کتابیں بھی ردی میں دے دی جاتی ہیں جو بہر صورت ہمارے شہروں کے کچرے میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔

    تاہم ارجنٹائن سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے کتاب کو ردی میں جانے سے بچانے کے لیے اسے کارآمد بنا ڈالا اور اسے درخت اگانے والی کتاب بنا دیا۔

    بیونس آئرس کے اس شہری نے بچوں کی اس کتاب کے کاغذات کو تیزاب کی آمیزش کے بغیر تیار کیا ہے۔ اس کے بعد اسے پرنٹ کر لینے کے بعد کاغذ پر ہاتھ سے جاکرندا نامی درخت کے بیج سی دیے جاتے ہیں۔

    جاکرندا نامی نیلے پھولوں کا یہ درخت وسطی و جنوبی امریکا کا مقامی درخت ہے۔

    کتاب کو پڑھ لینے کے بعد بچوں کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ اسے زمین میں دفن کردیں اور روزانہ اسے پانی دیں۔ تھوڑے ہی عرصے بعد اس کتاب سے پودا اگ آتا ہے جو کچھ عرصے میں تناور درخت بن جاتا ہے۔

    کتاب کے اشاعتی ادارے کا کہنا ہے کہ درخت اگانے والی اس کتاب کے ذریعے وہ بچوں میں زمین کے تحفظ اور ماحول اور درختوں سے محبت کا شعور اجاگر کر رہے ہیں۔

    ادارے نے کتاب کے لیے ٹیگ لائن متعارف کروائی ہے، ’بچے اور درخت ایک ساتھ نشونما پائیں‘۔

    ان کے مطابق بچپن سے ہی کتاب کے ذریعے درخت کی دیکھ بھال بچوں کو ایک ماحول دوست انسان بننے میں مدد دے گی۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس درخت سے ان کی جذباتی وابستگی بھی ہوگی جو مرتے دم تک انہیں درخت کا خیال رکھنے پر مجبور کرے گی۔

    جنگل میں مہمات پر مبنی اس کتاب کو بچوں اور بڑوں میں یکساں مقبولیت مل رہی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • دین اسلام میں ماحول کی حفاظت کا سبق

    دین اسلام میں ماحول کی حفاظت کا سبق

    دین اسلام تمام شعبہ ہائے زندگی کے بارے میں انسانی فطرت کے مطابق ہدایات فراہم کرتا ہے۔ آج دنیا بھر میں کی جانے والی سائنسی تحقیقات قرآن میں لکھے گئے الفاظ کی تصدیق کر رہی ہیں۔

    قرآن کریم کے ذریعے 14 سو سال پہلے ہمیں جو رہنمائی فراہم کی گئی اگر ہم اس پر عمل کرتے تو آج دنیا اور انسانیت ایک محفوظ موڑ پر کھڑی ہوتی جہاں کسی کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔

    اس وقت ہماری دنیا کو سب سے بڑا چیلنج موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کا درپیش ہے جو ماہرین کے مطابق دہشت گردی سے بھی بڑا خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: قرآن شریف میں‌ زمین کے خشک حصے غرق آب ہونے کی پیش گوئی

    زمین کو بچانے کے لیے سائنسدان اور ماہرین آج جو مشورے اور اقدامات کر رہے ہیں قرآن کریم اس کی 14 سو سال پہلے ہدایات دے چکا ہے۔

    قرآن کریم اور اسوہ حسنہ میں جہاں انسانوں اور جانوروں سے محبت و شفقت کا سلوک کرنے کی تاکید کی گئی ہے، وہیں درختوں، پھولوں، پودوں، ماحول کا خیال رکھنے اور قدرتی وسائل کے اسراف سے بھی ممانعت کی ہدایت کی گئی ہے۔

    آئیں دیکھتے ہیں کہ اسلام ہمیں کس طرح ماحول کی حفاظت کرنے کا سبق دیتا ہے۔

    صفائی نصف ایمان ہے

    کیا آپ نے بچپن سے پڑھی اس حدیث کے مفہوم پر کبھی غور کیا ہے؟ صفائی ہمارے ایمان کا آدھا حصہ ہے یعنی اگر ہم صفائی پسند نہیں تو ہمارا ایمان بھی آدھا ہے۔ جسم اور لباس کی صفائی سے لے کر گھر، گلی، محلے، اور پورے شہر تک کی صفائی لوگوں کے اہل ایمان ہونے کا ثبوت دیتی ہے۔

    لیکن بدقسمتی سے ہم اس پر عمل نہیں کر رہے جس کا ثبوت ہمارے شہروں میں جابجا لگے گندگی کے ڈھیر ہیں۔ گندگی اور کچرا نہ صرف ماحول کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ انسانی صحت و جذبات پر بھی منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔

    صاف ستھرے علاقوں اور شہروں کے لوگوں کی صحت بھی بہتر ہوتی ہے جبکہ ان کی جذباتی و دماغی کیفیت بھی مثبت رہتی ہے اور وہ غصے، ڈپریشن اور ذہنی تناؤ سے محفوظ رہتے ہیں۔

    اصراف سے بچیں

    اسلام میں اصراف یا فضول خرچی کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ اسلام کے پیروکار ہوتے ہوئے ہمیں ہر شے خصوصاً قدرتی وسائل جیسے پانی، غذا یا توانائی کے غیر ضروری استعمال سے بچنا چاہیئے۔

    قرآن کی ایک آیت کا مفہوم ہے، ’اللہ اصراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘۔

    درخت لگانا

    ایک درخت لگانے کے بے شمار فوائد ہیں۔ یہ ہمیں تازہ ہوا میسر کرتا ہے، آب و ہوا کو صاف کرتا ہے، پھل اور سایہ فراہم کرتا ہے، جبکہ ماحول میں ٹھنڈک پیدا کرتا ہے۔

    حضور اکرم ﷺ نے ایک بار فرمایا (مفہوم)، ’زمین بہت خوبصورت اور سرسبز ہے، اللہ نے انسان کو اس کا محافظ بنایا ہے۔ جو شخص ایک پودا لگائے اور اس کی دیکھ بھال کرے، یہاں تک کہ وہ درخت بن کر پھل دینے لگے، تو ایسے شخص کو اس کا انعام ضرور ملے گا‘۔

    اسی طرح حضور اکرم ﷺ نے اپنی زندگی میں جنگ کی جو اخلاقیات طے کی تھیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی، ’جنگ کے دوران دشمن علاقے کا کوئی پھل دار درخت نہ کاٹا جائے اور نہ کھیتیاں جلائی جائیں‘۔

    ذمہ داری کا احساس

    اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، ’اللہ نے انسان کو اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا ہے‘۔ لہٰذا ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ بطور ایک ذمہ دار ہونے کے ہم اپنی ذمہ داری کا احساس کریں، دیگر جانداروں کو اس زمین پر سکون سے رہنے دیں، ماحول کو صاف ستھرا رکھیں اور گندگی اور کوڑا کرکٹ نہ پھیلائیں۔

  • صحرا میں جنگل اگانے کا حیرت انگیز طریقہ

    صحرا میں جنگل اگانے کا حیرت انگیز طریقہ

    براعظم افریقہ میں صحرا زدگی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو ایک عام زمین کو آہستہ آہستہ خشک اور بنجر کردیتی ہے جس کے بعد ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ مکمل طور پر صحرا میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

    افریقہ میں یہ مسئلہ اس لیے سنگین ہے کیونکہ اس خطے میں پانی کی شدید کمی ہے۔ یہاں رہنے والے 1 بلین کے قریب افراد کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں جبکہ یہاں آلودہ پانی سے مرنے والے بچوں اور بڑوں کی شرح بھی دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔

    مزید پڑھیں: آبی آلودگی سے دنیا بھر کی آبادی خطرات کا شکار

    ماہرین کے مطابق صحرا زدگی سے بچنے کا حل یہ ہے کہ زمینوں پر زیادہ سے زیادہ درخت اگائے جائیں تاکہ یہ زمین کو بنجر ہونے سے روک سکیں تاہم ان درختوں کی افزائش کے لیے بھی پانی کی ضرورت ہے جو افریقہ میں ویسے ہی نایاب ہے۔

    desert-2

    البتہ ماہرین نے اس کے باوجود اس کا حل نکال لیا۔

    بین الاقوامی ماہرین کی جانب سے تجویز کیے جانے والے اس منصوبے کے تحت صحراؤں میں درخت اگائے جارہے ہیں۔ اس منصوبے کا آغاز مصر کے دارالحکومت قاہرہ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع صحرائی علاقہ میں کیا گیا۔

    یہاں آب پاشی کے لیے بڑے بڑے پائپ بچھائے گئے جس میں قاہرہ میں واقع ایک ٹریٹ منٹ پلانٹ سے پانی آتا ہے۔

    desert-5

    desert-4

    اس پلانٹ سے آنے والا پانی کسی حد تک آلودہ ہے لہٰذا یہ زراعت کے لیے تو موزوں نہیں البتہ درخت اگانے کا بہترین ذریعہ ہے۔

    ماہرین کے مطابق آلودہ پانی ہمیں سرسبز اور صحت مند درخت تو نہیں دے سکتا، تاہم یہ ایسے درخت ضرور دے سکتا ہے جو صرف فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کر کے ٹھنڈی ہوا اور سایہ فراہم کریں۔

    مزید پڑھیں: دنیا کے طویل ترین درختوں کا کلون تیار کرنے کی کوشش

    یہاں کے موسم کی وجہ سے درختوں کی افزائش کی رفتار حیران کن طور پر تیز ہے اور صرف 2 سے 3 سال میں یہاں قد آور درخت اگ آئے۔

    صحرا میں اگنے والے اس جنگل کے بے شمار فوائد ہیں۔ یہ صحرائی طوفانوں سے حفاظت فراہم کر رہا ہے جبکہ ان درختوں کی لکڑی تعمیرات اور ایندھن جلانے کے لیے بھی استعمال کی جاسکتی ہے۔

    desert-3

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس طریقہ کار سے صحرا کے 5 لاکھ ایکڑ کے رقبہ پر درخت اگائے جاسکتے ہیں۔

    دنیا بھر میں اس وقت درختوں اور جنگلات کی کٹائی ایک اہم مسئلہ ہے جس سے زمین کے ماحول پر خطرناک اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کی بھی اہم وجہ ہے جس سے دنیا بھر کے درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • چار سالوں کا کچرا ایک چھوٹے سے جار میں

    چار سالوں کا کچرا ایک چھوٹے سے جار میں

    آپ اپنی روزمرہ زندگی میں کتنی چیزیں پھینک دیتے ہیں؟ یقیناً بہت ساری۔ لیکن نیویارک میں ایک خاتون اس قدر کم کچرا پھینکتی ہیں کہ ان کے 4 سال کا کچرا ایک چھوٹے سے جار میں سما سکتا ہے۔

    نیویارک کی رہائشی لورین سنگر زیرو ویسٹ طرز زندگی گزار رہی ہیں یعنی اپنے ماحول کی کم سے کم چیزوں کو ضائع کرنا۔

    jar-2

    وہ استعمال کی ہوئی چیزوں کو دوبارہ استعمال یعنی ری سائیکل کرتی ہیں۔

    jar-5

    یہی نہیں وہ اپنے گھر میں استعمال ہونے والی اکثر چیزیں مختلف چیزوں کے ذریعہ خود ہی تیار کرتی ہیں۔

    اس کی ایک مثال درخت کی ٹہنی سے بنایا ہوا ٹوتھ برش ہے جسے وہ کئی سالوں سے استعمال کر رہی ہیں۔

    jar-4

    واضح رہے کہ امریکا میں ہر شخص روزانہ اوسطاً 4.4 پاؤنڈ کچرا پھینکتا ہے۔

    لورین کہتی ہیں کہ انہیں اس طرح زندگی گزارتے ہوئے 4 سال ہوگئے لیکن انہیں ایک بار بھی اسے تبدیل کرنے کا خیال نہیں آیا۔

    jar-3

    وہ کہتی ہیں کہ کم سے کم چیزیں ضائع کرنا ماحول کے لیے ایک بہترین قدم ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • آلودگی سے بچانے والی نئی ایجادات پر اقوام متحدہ پاکستانی ںوجوانوں کا معترف

    آلودگی سے بچانے والی نئی ایجادات پر اقوام متحدہ پاکستانی ںوجوانوں کا معترف

    اسلام آباد : اقوام متحدہ کی تنظیم برائے صنعتی ترقی (UNIDO) نے صفائی اور توانائی کے بچاؤ سے متعلق نئی مشینریاں ایجاد کرنے پر 5 پاکستانی کمپنیوں کو نوازا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق یہ ایوارڈز گلوبل کلین ٹیک انوویشن پروگرام (GCIP) کے تحت ایک پُر وقار تقریب میں دیے گئے جس کا انعقاد دارالحکومت اسلام آباد میں کیا گیا تھا جس میں وفاقی سیکرٹری برائے ماحولیات نے بہ طور مہمان خصوصی شرکت کی۔

    گلوبل کلین ٹیک انوویشن پروگرام کے تحت 5 مختلف پاکستانی کمپنیوں کو ماحولیاتی صفائی اور توانائی کے بچاؤ سے متعلق نئ ایجادات متعارف کرانے پر دیے گئے ہیں۔

    پہلا انعام پاکستانی کمپنی کو کم قیمت ’ قدرتی توانائی کو موثر طریقے سے استعمال کرنے والے مکانات‘ ( Energy Efficient Houses) کا ماڈل پیش کرنے پر دیا گیا جس کےذریعے انسولیشن کے ذریعے قدرتی روشنی، ہوا اور درجہ حرارت کو موثر طور پر استعمال کر کے توانائی کی مد میں استعمال ہونے والے اخراجات سے بچا جا سکتا ہے۔

    دوسرا انعام ایک ایسی کمپنی کو دیا گیا جس نے بجلی سے چلنے والی پانی کی موٹرز اور فلور ملز کو چلانے کے لیے شمسی توانائی کے استعمال کے لیے ایسا نظام ایجاد کیا جو دور دراز دیہاتوں میں نہایت کار آمد ہوگا اور نہایت ارزاں قیمت پر دستیاب ہوگا۔

    تقریب کی سب سے امید افزاء بات اسلام آباد چیمبر آف کامرس کی خواتین پر مشتل ٹیم کا انعام جیتنا تھا جنہوں نے شمسی توانائی سے آراستہ گاڑیاں یا ٹھیلے متعارف کرائے جس سے دور دراز علاقوں یا سڑکوں کے کنارے پہنچایا جا سکے گا اور یوں چلتی پھرتی اور روشنی پھیلاتی ایجاد کافی کارآمد ثابت ہو سکتی ہیں۔

    دوسری جانب سے اس سال دو نئے ایوارڈز کا آغاز بھی کیا گیا جس میں سے ایک صنعتوں میں پیدا ہونے والے فالٹس کا پتہ چلانے والا خود کار سسٹم متعارف کرانے والی کمپنی اور دوسرا ایوارڈ پرانی بیٹریوں کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کے لیے پروجیکٹ تیار کرنے والی کمپنی کو دیا گیا۔

    تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی سیکرٹری برائے ماحولیات سید ابو احمد عاکف نے کلین ٹیکنالوجی کی اہمیت اور ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ فطری توانائی آرٹیفیشل توانائی کی وجہ سے ماحول کو درپیش خطرات کو کم کرنے میں کارگرت ثابت ہو سکتی ہے اس لیے اس ٹیکنالوجی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

  • مجھے کیوں کاٹا: اسلام آباد میں درختوں کی کٹائی کے خلاف خواتین کا احتجاج

    مجھے کیوں کاٹا: اسلام آباد میں درختوں کی کٹائی کے خلاف خواتین کا احتجاج

    اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایمبسی روڈ پر موجود درختوں کو کاٹے جانے کے خلاف اسلام آباد کے شہری خصوصاً خواتین ریڈ زون میں جمع ہوگئیں اور درختوں کی کٹائی کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ درختوں کی کٹائی کے خلاف سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ’مجھے کیوں کاٹا‘ کا ہیش ٹیگ مقبول ہوگیا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کے ریڈ زون میں واقع ایمبسی روڈ پر موجود درختوں کو بے دردی سے کاٹ دیا گیا جس کے خلاف خواتین بڑی تعداد میں ریڈ زون میں جمع ہوگئیں۔

    مظاہرین میں سماجی کارکنان، مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد اور عام شہری بھی شامل تھے۔

    احتجاج سے قبل تمام مظاہرین اسلام آباد پریس کلب میں جمع ہوئے اور دارالحکومت میں ہونے والی درختوں کی غیر قانونی کٹائی کے خلاف بھرپور احتجاج کا عزم ظاہر کیا۔

    پریس کانفرنس میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر اور ماہر ماحولیات اور سابق وزیر ماحولیات ملک امین اسلم نے بھی شرکت کی۔

    احتجاج کے دوران خواتین نے ٹوٹے درختوں کی جگہ باقی رہ جانی والی جھاڑیوں کو تھام کر افسوس کا ظہار کیا۔

    باقی رہ جانے والے درختوں پر سرخ ربن کے ساتھ مختلف کارڈز بھی منسلک کیے گئے جن پر لکھا تھا، ’انہوں نے اسلام آباد کو گنجا کر ڈالا‘، ’میں تو انسان دوست ہوں مجھے کیوں کاٹا‘۔

    اس احتجاجی مہم کا نام ’ایمبسی روڈ کے درختوں کی فریاد ۔ مجھے کیوں کاٹا‘ رکھا گیا جو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بے حد مقبول ہوگیا اور نہ صرف اسلام آباد بلکہ پورے پاکستان سے لوگوں نے درختوں کی کٹائی کے خلاف برہمی کا اظہار کیا۔

    دارالحکومت کی خواتین کا کہنا ہے کہ ملک بھر کی طرح اسلام آباد میں بھی درختوں کو بے دردی سے کاٹے جانے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے اور وہ اس کے خلاف بھرپور آواز اٹھائیں گی، اور انہیں امید ہے کہ مرد حضرات بھی ان کا ساتھ دیں گے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • قاتل پلاسٹک نے ایک اور نایاب مچھلی کی جان لے لی

    قاتل پلاسٹک نے ایک اور نایاب مچھلی کی جان لے لی

    کراچی: صوبہ سندھ کے ساحلی دارالحکومت کراچی کے ساحل پر پلاسٹک کی بہتات نے ایک اور نایاب نڈل مچھلی کی جان لے لی۔ مچھلی سمندر میں پھینکے جانے والے پلاسٹک کے کپ میں پھنس گئی تھی۔

    جنگلی حیات کے تحفظ کی عالمی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق نایاب نڈل فش پلاسٹک کے کپ میں پھنس گئی تھی۔

    ماہی گیروں نے پھنسی ہوئی مچھلی کو نکالنے کی کوشش کی لیکن وہ بچ نہ سکی۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق سمندر میں پھینکے جانے والے پلاسٹک نے ایک طرف تو سمندر کو آلودہ ترین کردیا ہے، دوسری جانب مختلف آبی حیات کو نہایت خطرے میں ڈال دیا ہے۔

    ساحل پر سیر و تفریح کے لیے آنے والے افراد کھانے پینے کی اشیا کا پلاسٹک ریپر سمندر میں بہا دیتے ہیں جس کے باعث سمندر آہستہ آہستہ پلاسٹک کے سمندر میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق کراچی کے ساحل پر 200 کلومیٹر تک پلاسٹک کا کچرا پھیلا ہوا ہے۔

    یہ پلاسٹک آبی حیات کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔

    اکثر مچھلیاں اور دیگر آبی جاندار اس پلاسٹک کو نگل لیتے ہیں جو ان کے جسم میں رہ جاتی ہے، جس کے بعد ان کا جسم پھولنے لگتا ہے، بھوک لگنے کی صورت میں وہ کچھ بھی نہیں کھا سکتے کیونکہ پلاسٹک ان کے معدے کی ساری جگہ گھیر چکا ہوتا ہے۔

    یوں آہستہ آہستہ وہ بھوک اور پلاسٹک کے باعث ہلاکت کے دہانے پر پہنچ جاتے ہیں اور بالآخر مر جاتے ہیں۔

    اکثر سمندری جانور پلاسٹک کے ٹکڑوں میں بھی پھنس جاتے ہیں اور اپنی ساری زندگی نہیں نکل پاتے۔ اس کی وجہ سے ان کی جسمانی ساخت ہی تبدیل ہوجاتی ہے۔

    اس صورت میں اگر یہ پلاسٹک ان کے نظام تنفس کو متاثر کرے تو یہ پلاسٹک میں پھنسنے کے باعث بھی مرجاتے ہیں جیسے کراچی کی اس نڈل مچھلی کے ساتھ ہوا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ سمندر میں براہ راست پھینکے جانے والے پلاسٹک کے علاوہ، زمین پر استعمال کیے جانے والے پلاسٹک کا بھی 80 فیصد حصہ سمندر میں چلا جاتا ہے۔ ان میں زیادہ تر پلاسٹک کی بوتلیں اور تھیلیاں شامل ہوتی ہیں۔

    یاد رہے کہ پلاسٹک ایک تباہ کن عنصر اس لیے ہے کیونکہ دیگر اشیا کے برعکس یہ زمین میں تلف نہیں ہوسکتا۔ ایسا کوئی خورد بینی جاندار نہیں جو اسے کھا کر اسے زمین کا حصہ بناسکے۔

    ماہرین کے مطابق پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے 1 سے 2 ہزار سال لگ سکتے ہیں۔

    پلاسٹک کی تباہ کاریوں کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • میکسیکو میں ماحول دوست سیاحتی ریزورٹ

    میکسیکو میں ماحول دوست سیاحتی ریزورٹ

    سورج کی روشنی سے توانائی حاصل کرنے اور اس سے مختلف کام انجام دینے کا طریقہ دنیا کے کئی ممالک میں مستعمل ہے۔ اکثر ممالک میں چھوٹے یا بڑے پیمانے پر سورج کی روشنی سے توانائی پیدا کی جارہی ہے۔

    میکسیکو میں ایک ریزورٹ بھی اپنے مہمانوں کو ایسے کمرے فراہم کر رہا ہے جس میں تمام سہولیات سورج کی روشنی سے فراہم کی گئی ہیں۔

    2

    3

    4

    یہ ماحول دوست ریزورٹ درختوں کے تنوں میں بنایا گیا ہے اور ان کا مقصد مہمانوں کو ایک پرتعیش کمرے کے ساتھ ساتھ فطرت کے نظاروں سے لطف اندوز ہونے کا موقع بھی فراہم کرنا ہے۔

    5

    6

    ان کمروں میں دن بھر تو سورج کی روشنی آتی ہے، تاہم رات ہوتے ہی شمسی توانائی سے روشن بلب جل اٹھتے ہیں۔ کمروں میں سورج ہی کی حرارت سے گرم کیا ہوا پانی فراہم کیا جاتا ہے۔

    7

    8

    یہ ریزورٹ میکسیکو کے ساحلی جنگل کے قریب واقع ہے جہاں یہ کمرے قدرتی مناظر، تیمر کے جنگلات اور مختلف اقسام کے جنگلی حیات جیسے کچھوے وغیرہ سے گھرے ہوئے ہیں۔

    9

    10

    اسے بنانے والے ڈیزائنرز کا کہنا ہے کہ اس طرز کے ریزورٹ سے وہ پائیدار سیاحت اور ماحول دوستی کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔

  • ماحولیاتی آلودگی کے خلاف لڑنے والا سپر ہیرو بڑی اسکرین پر

    ماحولیاتی آلودگی کے خلاف لڑنے والا سپر ہیرو بڑی اسکرین پر

    آپ کو نوے کی دہائی کی مشہور کارٹون سیریز کیپٹن پلینٹ اینڈ دا پلینٹیرز تو ضرور یاد ہوگی جس میں ایک سپر ہیرو زمین پر آلودگی پھیلانے والوں کے خلاف لڑتا تھا۔ اب خوش ہوجایئے کیونکہ اب وہی کیپٹن پلینٹ بہت جلد بڑی اسکرینوں پر بھی آنے والا ہے۔

    آسکر ایوارڈ یافتہ مشہور اداکار لیونارڈو ڈی کیپریو اس منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کی پہلی کوشش اس سیریز کے کاپی رائٹس کو حاصل کرنا ہے۔

    فلم کا اسکرپٹ لکھنے کے لیے ’سنز آف انارکی‘ میں کام کرنے والے جونو میٹ اور ’سکریم کوئینز‘ کے اداکار گلین پاول مشاورت اور تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔

    leo-1

    فلم میں مرکزی کردار کے لیے گلین پاول کو ہی لیے جانے کا امکان ہے تاہم ابھی اس کی تصدیق نہیں کی گئی۔

    اگر اس پروجیکٹ پر مزید کام جاری رہتا ہے تو یہ ہالی ووڈ کے سپر ہیروز میں ایک اور اضافہ ہوگا جو ماحول کو بچانے کے لیے بچوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کرے گا۔

    واضح رہے کہ لیونارڈو ڈی کیپریو اقوام متحدہ کے نمائندہ برائے امن ہیں اور ان کا شعبہ ماحول سے متعلق موسمیاتی تغیرات کا ہے۔

    لیو کی پروڈکشن میں ایک فلم ’بیفور دا فلڈ‘ بھی پیش کی جانے والی ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کے
    بارے میں ہے۔ یہ فلم 21 اکتوبر کو ریلیز کردی جائے گی۔

  • ٹوکیو کی ماحول دوست پہلی خاتون گورنر

    ٹوکیو کی ماحول دوست پہلی خاتون گورنر

    ٹوکیو: جاپانی دارالحکومت ٹوکیو کی عوام نے اپنی پہلی خاتون گورنر کا انتخاب کرلیا۔ یوریکو کوئیکے ایک سابق ٹی وی اینکر ہیں جبکہ وہ وزیر برائے دفاع بھی رہ چکی ہیں۔

    یوریکو تحفظ ماحول کی ایک سرگرم کارکن بھی ہیں۔ وہ ٹوکیو کی پہلی خاتون گورنر ہیں جبکہ بطور وزیر دفاع بھی وہ پہلی خاتون ہیں جو اس عہدے پر فائز رہیں۔

    tokyo-2

    یوریکو نے وزیر اعظم شنزو ایبے کے حمایت یافتہ امیدوار ہیرویا ماسودا کو شکست دے کر فتح حاصل کی۔ انہوں نے آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑا اور 2.9 ووٹ حاصل کیے۔

    واضح رہے کہ ان کی حکومت کا سب سے بڑا چیلنج 2020 کے ٹوکیو اولمپکس کی تیاریاں ہوں گی جو کہ پہلے ہی تاخیر کا شکار ہیں۔ اولمپکس کی تیاریوں کے اخراجات میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے جس کے باعث شنزو ایبے اور ان کی حکومت سخت تنقید کی زد میں ہے۔

    اہم عہدوں کی دوڑ میں خواتین نے مردوں کو پیچھے چھوڑ دیا *

    یوریکو 2003 سے 2005 کے دوران جاپان کی وزیر ماحولیات بھی رہ چکی ہیں اور انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران حامیوں سے اپیل کی تھی کہ وہ سبز کپڑے اور بینڈز پہن کر تحفظ ماحول کے لیے اپنی حمایت ظاہر کریں۔

    اپنے دور حکومت میں انہوں نے کئی ماحول دوست اقدامات متعارف کروائے جس میں سب سے اہم ’کیوٹو پروٹوکول‘ کی تکمیل کے لیے کاربن ٹیکس کا نفاذ تھا۔

    tokyo-3

    کیوٹو پروٹوکول 1997 میں اقوام متحدہ کی جانب سے متعارف کروایا جانے والا ایک معاہدہ تھا جس کے تحت وہ ممالک جو کاربن کے اخراج میں حصہ دار ہیں، ان غریب ممالک کو ہرجانہ ادا کریں گے جو ان کاربن گیسوں کی وجہ سے نقصانات اٹھا رہے ہیں۔

    یوریکو کا متعارف کروایا جانے والا کاربن ٹیکس مختلف اقسام کے فیول کے استعمال پر لاگو کیا گیا تھا جو بڑی بڑی فیکٹریوں اور صنعتوں کو ادا کرنا تھا۔

    برطانیہ میں پلاسٹک بیگ کا استعمال ختم کرنے کے لیے انوکھا قانون *

    سال 2005 میں یوریکو نے ایک پروگرام بھی شروع کیا جس کے تحت دفاتر میں کام کرنے والے مرد ملازمین سے کہا گیا کہ وہ گرمیوں میں کوٹ پہننے سے گریز کریں تاکہ ایئر کنڈیشنرز کا استعمال کم ہوسکے۔

    یوریکو نے عوام پر ماحول کے لیے نقصان دہ پلاسٹگ بیگز کی جگہ ’فروشکی‘ استعمال کرنے پر زور دیا۔ فروشکی روایتی جاپانی کپڑے کے تھیلے ہیں جو مختلف چیزیں لانے اور لے جانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

    tokyo-4

    نو منتخب گورنر یوریکو نے قاہرہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا ہے اور وہ روانی کے ساتھ عربی زبان بول سکتی ہیں۔ ان کا عزم ہے کہ وہ ٹوکیو میں خواتین دوست پالیسیاں متعارف کروائیں گی۔