Tag: مادام بواری

  • فلابیئر: وہ مصنّف جس کے ناول نے فرانسیسی سماج کو مشتعل کر دیا!

    فلابیئر: وہ مصنّف جس کے ناول نے فرانسیسی سماج کو مشتعل کر دیا!

    مشہور نقاد اور شاعر ایزرا پاؤنڈ نے کہا تھا کہ ’’جو فلابیئر کی نثر سے واقف نہیں، اور جس نے ’’مادام بواری‘‘ کا مطالعہ نہیں کیا وہ نہ اچھی شاعری کرسکتا ہے نہ اچھی نثر لکھ سکتا ہے۔‘‘ اس ستائش کی روشنی میں اگر فرانسیسی ادیب فلابیئر کے ناول ’’مادام بواری‘‘ کی بات کی جائے تو اسے شہرۂ آفاق ناول کہا جاتا ہے جس کا دنیا کی کئی زبانوں میں‌ ترجمہ ہوا۔ ان میں اردو بھی شامل ہے۔ فلابیئر کا یہ ناول متنازع ثابت ہوا اور اسے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔

    گستاف فلابیئر کو انیسویں صدی کا ایک حقیقت نگار کہا جاتا ہے جس نے 1880ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ 1858ء میں اپنے ناول کی اشاعت کے بعد مقدمہ میں فتح فلابیئر کی ہوئی تھی۔ فلابیئر اپنے ایک خط میں‌ لکھتا ہے: ’’ میں جانتا ہوں کہ میں ان دنوں جو کچھ لکھ رہا ہوں اسے کبھی بھی مقبولیت حاصل نہ ہو گی، لیکن میرے نزدیک اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ لکھنے والا خود اپنے لیے لکھے، حسن آفرینی کا یہی ایک طریقہ ہے۔‘‘

    فلابیئر وہ فرانسیسی ناول نگار تھا جو ادیب کی تخلیقی آزادی کو غیر معمولی اہمیت دیتا تھا۔ اسے ایک حقیقت نگار کے طور پر پہلی مرتبہ پہچانا تو گیا، مگر یہ حتمی بات نہیں ہے کہ حقیقت نگاری کا باضابطہ آغاز کس مصنّف کیا۔ محققین یہ تو مانتے ہیں کہ حقیقت نگاری کا آغاز فرانس سے ہوا تھا، لیکن اس ضمن میں متعدد ادیبوں‌ کے نام لیے جاتے ہیں۔ تاہم فلابیئر ان ناول نگاروں‌ میں شامل ہے جسے مادام بواری کی اشاعت کے بعد ادب میں بڑا نام و مرتبہ حاصل ہوا۔

    فلابیئر کے اس ناول کو شاہکار مانا جاتا ہے جس کا مرکزی خیال کچھ یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ رومان، اس ناول کی ہیروئن اور اس کے شوہر کو زوال پذیر کر دیتا ہے۔ یہ عورت کے معاشقے کی داستان ہے جو اس سماج کی نظروں میں مذہب، روایات اور عام اخلاقی قدروں کی پامالی کے مترادف تھا۔ اسی لیے مصنّف کے ساتھ اس ناول کے ناشر اور مطابع کے خلاف عدالت میں کیس دائر کردیا گیا، لیکن فریق یہ ثابت نہ کرسکا کہ ناول کا مواد کس طرح سماجی قدروں کی پامالی کا باعث، زنا کاری کی ترویج اور شادی کے بندھن کے تقدس کو پامال کررہا ہے؟ دراصل اس ناول میں جنسی اعمال و افعال کی تفصیل جس قدر کھل کر بیان کی گئی تھی، پہلے ایسا نہیں ہوا تھا۔ لوگوں نے اسے مصنّف کی بے باکی اور ذہنی عیاشی تصور کیا اور ناول پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ اس ضمن میں‌ مؤقف یہ تھا کہ مصنّف نے بدکاری کو اس طرح پیش کیا ہے جیسے یہ کوئی مقدس کام ہو اور اس کے کردار کو اپنے فعل پر ندامت ہی نہیں ہے۔ یہ اُس دور کا فرانس تھا جس میں مرد اور عورت کے تعلقات کو اس قدر کھل کر بیان کرنا کسی کے لیے بھی آسان نہیں‌ تھا۔ مگر گستاف فلابیئر نے یہ جرأت کی۔ بعد میں فلابیئر کو تمام الزامات سے بری کردیا گیا۔

    وہ ایک شاعرہ لوسی کولٹ سے طوفانی قسم کے عشق کے لیے بھی مشہور ہوا مگر اس سے شادی نہیں‌ کر سکا۔ یہ شاعرہ خود بھی ایک متنازع خاتون تھی۔ لوسی کولٹ ایک موسیقار (Colet) کی بیوی تھی جسے پیرس کے ادبی حلقوں میں شہرت حاصل تھی۔ فلابیئر سے وہ پانچ سال بڑی تھی اور پہلی ملاقات ہی میں فلابیئر اس پر فریفتہ ہوگیا تھا۔ لوسی کولٹ خود بھی فلابیئر سے مل کر اس کی گرویدہ ہو گئی تھی۔ ان کے درمیان خط کتابت کا سلسلہ شروع ہوا مگر ان کے شہر مختلف تھے اور پھر یہ عشق ختم ہوگیا۔

    گستاف فلابیئر کی تحریروں کو رومانویت پسندی اور حقیقت نگاری کا امتزاج کہا جاتا ہے۔ وہ پیرس کے قریب ایک گاؤں کے اسپتال کے ڈاکٹر کی اولاد تھا۔ فلابیر 1821ء میں پیدا ہوا۔ وہ زرخیز ذہن کا مالک تھا۔ فلابیئر چوں کہ ایک خوش حال گھرانے کا فرد تھا تو اس کی تعلیم و تربیت پر بھی خاص توجہ دی گئی۔ اس نے علم الادویہ اور سائنس کے میدان میں‌ تعلیم مکمل کی اور 1841 میں اسے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے والدین نے پیرس بھیج دیا۔ اسی زمانے میں فلابیئر کو مرگی کی تشخیص ہوئی۔ والد کی وفات کے بعد اس کی ایک بہن کا بھی انتقال ہوگیا۔ فلابیئر کی ماں نے خاص طور پر بیٹے کی بیماری کا علم ہونے کے بعد اس پر بڑی توجہ دی۔

    فلابیئر سیرو سیاحت کا دلدادہ تھا۔ اس نے کئی ملکوں کا سفر کیا جس سے اس کے علم اور تجربات میں‌ اضافہ ہوا۔ فلابیئر ادب کی طرف متوجہ ہوا تو اس نے معیاری ادب تخلیق کرنے پر توجہ دی۔ وہ اپنے اسلوب اور انداز کو پُراثر بنانے میں‌ کام یاب رہا۔

    فرانس کے اس باصلاحیت ادیب نے ایک لغت بھی مرتب کی تھی جو اس کی وفات کے بعد شایع ہوئی۔ فلابیئر اپنی زندگی کے آخری ایّام میں ایک ناول لکھ رہا تھا جو اس کی موت کی وجہ سے ادھورا رہ گیا۔

  • شہرۂ آفاق ناول "مادام بواری” کے مصنّف کی کہانی

    شہرۂ آفاق ناول "مادام بواری” کے مصنّف کی کہانی

    فرانسیسی ادیب فلابیر کو حقیقت نگاری کا بانی کہا جاتا ہے جسے اپنے شہرۂ آفاق ناول ’’مادام بواری‘‘ کی وجہ سے مقدمہ اور تنازع کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس ناول کا دنیا کی کئی زبانوں میں‌ ترجمہ ہوا جن میں‌ اردو بھی شامل ہے۔

    1858ء میں ناول کی اشاعت پر مقدمہ میں فتح فلابیر کی ہوئی تھی۔ فلابیر اپنے ایک خط میں‌ لکھتا ہے: ’’ میں جانتا ہوں کہ میں ان دنوں جو کچھ لکھ رہا ہوں اسے کبھی بھی مقبولیت حاصل نہ ہو گی، لیکن میرے نزدیک اس بات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ لکھنے والا خود اپنے لیے لکھے، حسن آفرینی کا یہی ایک طریقہ ہے۔‘‘ فلابیر وہ فرانسیسی ناول نگار تھا جس نے ادیب کی تخلیقی آزادی کو غیر معمولی اہمیت دی۔ حقیقت نگاری کی ابتدا تو فرانس ہی سے ہوئی تھی مگر اس کا باضابطہ آغاز کس مصنّف کیا، محققین کسی ایک نام پر متفق نہیں۔ تاہم مادام بواری کی اشاعت کے بعد فلابیر کو ادب میں بڑا نام و مقام ملا۔

    اس ادبی شاہ کار کا مرکزی خیال کچھ یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ رومان اس ناول کی ہیروئن اور اس کے شوہر کو زوال پذیر کر دیتا ہے۔ یہ عورت کے معاشقے کی داستان ہے جو سماج کی نظروں میں مذہب، روایات اور عوامی اخلاقی قدروں کی پامالی کے مترادف تھا اور اسی لیے مصنّف کے ساتھ ناشر اور مطابع کے خلاف عدالت میں کیس داخل کردیا گیا، لیکن یہ ثابت نہ کیا جاسکا کہ ناول کا مواد کس طرح سماجی قدروں کی پامالی کا باعث، زنا کاری کی ترویج اور شادی کے بندھن کے تقدس کو پامال کرنے والا تھا؟ اس زمانے میں ناول میں جنسی اعمال و افعال کی تفصیل جس قدر کھل کر کبھی بیان کی گئی تھی، پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ ایسی بے باکی پر پابندی عائد کی جائے جو بدکاری اور دھوکے کو فروغ دینے کا سبب بن سکتی ہے۔ مقدمہ میں‌ کہا گیا کہ مصنّف نے اس بدکاری کو یوں‌ بیان کیا ہے جیسے یہ کوئی مقدس کام ہو اور اس پر ناول کے کردار کو پیشمانی ہی نہیں ہے۔ اس وقت معاشرے کو ایسا رویہ قبول نہیں تھا کہ شادی کے مقدس بندھن کو داغ دار کرتے ہوئے عورت اپنے محبوب کے لیے والہانہ جذبات اور لگاوٹ کا اظہار کرتے، لہٰذا ناول کے خلاف شور و غوغا لازمی تھا۔ لیکن گستاف فلابیر اور ناول کے ناشر کو تمام الزامات سے بری کردیا گیا۔ اس مقدمے میں آزادئ اظہار رائے کی فتح ہوئی تھی اور ادیب یہ سمجھنے لگے کہ وہ قاری کو علم اور شعور دینے کے لیے حقیقت نگاری کو اپنا سکتے ہیں۔ یہ بات شاید دل چسپی سے خالی نہ ہو کہ اس ناول پر انگریزی میں تو پانچ مرتبہ فلم بنائی گئی لیکن ہندی سنیما میں بھی 1993 میں فلم "مایا میم صاب” بنائی تھی۔

    آج گستاؤ فلابیر کا یومِ‌ وفات ہے جس کی تحریروں کو رومانویت پسندی اور حقیقت نگاری کا امتزاج کہا جاتا ہے۔ اس کا باپ پیرس کے قریب ایک گاؤں کے اسپتال میں ڈاکٹر تھا۔ فلابیر 1821ء میں پیدا ہوا۔ وہ زرخیز ذہن کا مالک تھا اور بیک وقت مختلف مکتب ہائے فکر کا پرچارک تھا۔ اس کا تعلق خوش حال گھرانے سے تھا۔ اس کی ماں کا خاندان بھی اعلٰی تعلیم یافتہ تھا۔ فلابیر کی ابتدائی تعلیم علم الادویہ اور سائنس کے میدان میں‌ ہوئی، مگر 1841 میں وہ اپنے والد کی خواہش پر قانون کی تعلیم کے حصول کے لیے پیرس چلا گیا۔ اسی زمانے میں وہ ایک پراسرار بیماری کا شکار ہوا اور اسے مرگی کا مرض تشخیص ہوا۔ فلابیر کے والد کے بعد اس کی بہن بھی وفات پاگئی۔ فلابیر اور اس کی ماں نے اپنے گھر میں‌ یتیم بچوں کی پرورش کی اور ان کے درمیان اپنی زندگی گزاری۔

    فلابیر سیرو سیاحت کا دلدادہ تھا اور اس نے کئی ملکوں کا سفر کیا جس نے اس علم اور مشاہدے میں‌ اضافہ کیا۔ وہ ادب کی طرف متوجہ ہوا اور یہاں بھی کمرشل فکشن کے بجائے معیاری ادب تخلیق کیا۔ اس نے اپنے اسلوب اور انداز کو پُراثر بنانے پر خاص توجہ دی اور اس میں‌ کام یاب رہا۔

    فلابیر نے ایک لغت بھی مرتب کی تھی جو اس کی وفات کے بعد شایع ہوئی۔ وہ اپنے ایک ناول پر آدھا کام کر چکا تھا کہ 1880 میں آج ہی کے دن انتقال کرگیا اور یوں وہ تصنیف مکمل نہ ہوسکی۔ اس وقت تک فلابیر پانچ ناول لکھ چکا تھا جنھیں‌ بہت پسند کیا گیا۔ مادام بواری کو ایک معیاری تخلیق قرار دیا جاتا ہے جس کی ہیروئن ایما بواری غریب ہونے کے باوجود اپنے جذبات کا اظہار کرنے کی جرأت کرتی ہے۔