Tag: مارخور

  • پاکستان کا نایاب قومی جانور مارخور شکاریوں کے نرغے میں

    پاکستان کا نایاب قومی جانور مارخور شکاریوں کے نرغے میں

     ملکی و غیر ملکی شکاریوں نے پاکستان کے قومی جانور مارخور کے شکار کے لیے گلگت بلتستان اور کشمیر کا رخ کر لیا، شکاریوں کے نرغے میں مارخور معدومی کے خطرے سے دوچار ہو گیا ہے۔

    پاکستان میں پہاڑی بکری کی نہایت قیمتی نسل مارخور کو قانونی طور پر بھی شکار کیا جاتا ہے، جس کے لیے نومبر سے لے کر اپریل کے مہینے تک قانونی شکار کا موسم چلتا ہے، تاہم اس دوران غیر قانونی شکار بھی جاری رہتا ہے۔

    [bs-quote quote=”شکاریوں کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ اپنی زندگی میں کم از کم ایک مارخور شکار کرنے کا اعزاز ضرور حاصل کریں۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    پاکستان میں دیگر نایاب اور قیمتی پرندوں کا بھی باقاعدہ شکار کیا جاتا ہے، اور اس کے لیے فیسیں مقرر ہیں تاہم مارخور اس حوالے سے سرِ فہرست ہے کہ اس کے شکار کی فیس ایک لاکھ ڈالر ہے، جس کے لائسنس کے لیے مقامی اور غیر ملکی شکاری بولی دیتے ہیں۔

    مارخور کے شکار کے لیے بولی گلگت بلتستان کے وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے دفتر میں منعقد کی جاتی ہے، جہاں جنگلی حیات اور ماحولیات کے شعبے کے وزرا اور حکام بھی موجود ہوتے ہیں، ہر سال ایک سروے کے بعد ٹرافی شکار کے لیے کوٹا بھی مقرر کیا جاتا ہے۔ مارخور کے شکار کے لیے ٹرافی ہنٹنگ پروگرام کا آغاز 1980 کی دہائی میں ہوا۔

    شکاریوں کے نزدیک اچھا وقت دسمبر کے مہینے کا ہوتا ہے، کیوں کہ جنوری، فروری اور مارچ میں موسم کے تغیر کے باعث شکار میں ناکامی ہوسکتی ہے، تاہم اپریل میں برف پگھلنے کے بعد سبز گھاس اگتی ہے تو مارخور پہاڑوں سے خوراک کی تلاش میں نیچے اترتے ہیں اس لیے یہ مہینا بھی شکار کے لیے بہترین سمجھا جاتا ہے۔

    گلگت بلتستان میں مارخور 2 ہزار سے 3 ہزار میٹر کی بلندی پر پلتے ہیں، تاہم کشمیر کے مارخور کا تعاقب دیگر پہاڑی شکاروں کی مانند بے پناہ جسمانی مشقت کا حامل ہوتا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  گلگت: امریکی شکاری کا ایک لاکھ ڈالر کے عوض مارخور کا شکار

    یہ پہاڑی بکرے خوب صورت جنگلی حیات میں سے ایک سمجھے جاتے ہیں بالخصوص نر ماخور جس کے سینگ لمبے اور چکردار ہوتے ہیں، برفانی لیپرڈ اور بھیڑیوں سے بچنے کے لیے یہ خطرناک کھڑی چٹانوں میں اپنا مسکن بناتے ہیں، یہ کھڑی چٹانیں انھیں شکاریوں سے بھی محفوظ رکھتی ہیں۔

    یہی وجہ ہے کہ شکاریوں کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ اپنی زندگی میں کم از کم ایک مارخور شکار کرنے کا اعزاز ضرور حاصل کریں، سرکاری سطح پر بھی اس شکار کو ہنٹنگ ٹرافی ایوارڈ کہا جاتا ہے۔

    مارخور چوں کہ نایاب جانور ہے اور صرف پاکستان میں پایا جاتا ہے، اس لیے قانونی اور غیر قانونی شکار، محکمہ جنگلی حیات کی غفلت اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث اس کی معدومی کا شدید خطرہ لاحق ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  پاکستان میں پرندوں کا شکار، امریکی ڈالرز میں فیس مقرر

    یہ مغربی کوہِ ہماليہ ميں اپنا ٹھکانا رکھتا ہے، مارخور کا کندھے تک کا قد 115-65 سينٹی ميٹر تک اور اس کے بل کھاتے سينگوں کی لمبائی نر مارخور 160 سينٹی ميٹر اور مادہ 25 سينٹی ميٹر تک ہوتی ہے۔

    يہی سينگ شکاريوں کو ان خوب صورت جانوروں کی طرف راغب کرتے ہيں جو کہ شکاری بہ طور ٹرافی رکھتے اور بيچتے ہيں، سينگ کے علاوہ گوشت حاصل کرنے اور بيچنے کی لالچ بھی اس کے غير قانونی شکار پر مائل کرتی ہے۔

    پاکستان کے اس خوبصورت قومی جانور کی نایاب نسل کو معدومی سے بچانے کے لیے حکومتِ پاکستان کو اس کے ہر قسم کے شکار پر پابندی عائد کرنی ہوگی۔

  • گلگت: امریکی شکاری کا ایک لاکھ ڈالر کے عوض مارخور کا شکار

    گلگت: امریکی شکاری کا ایک لاکھ ڈالر کے عوض مارخور کا شکار

    گلگت: امریکی شہری نے گلگت بلتستان میں قانونی شکار کے تحت 1 لاکھ ڈالر فیس کے عوض مارخور شکار کر لیا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی شہری جان ایمسٹوسو نے گلگت بلتستان میں استور کے مقام پر مارخور کا شکار کھیلا، یہ استور کے مقام پر پہلی ہنٹنگ ٹرافی ایوارڈ کا انعقاد تھا۔

    [bs-quote quote=”فیس کی رقم سے 80 ہزار ڈالر مقامی کمیونٹی، جب کہ 20 ہزار ڈالر حکومت کو ملیں گے۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_name=”محکمہ وائلڈ لائف”][/bs-quote]

    ذرائع محکمہ جنگلات نے بتایا کہ شکاری جان ایمسٹوسو نے مارخور کے شکار کے لیے 1 لاکھ ڈالر فیس ادا کی ہے۔

    ذرائع نے کہا ہے کہ فیس کی رقم سے 80 ہزار ڈالر مقامی کمیونٹی، جب کہ 20 ہزار ڈالر حکومت کو ملیں گے۔ خیال رہے کہ مارخور کے شکار کے لیے ٹرافی ہنٹنگ کے نام پر حکومت کی جانب سے شکار کا پرمٹ جاری کیا جاتا ہے۔

    مارخور کے شکار کی قیمت ایک کروڑ سے ڈیڑھ دو کروڑ تک ہو سکتی ہے، ہر سال مارخور کی شکار کے لیے ہنٹنگ ٹرافی کے لیے بین الاقوامی سطح پر بولی ہوتی ہے، جو شکاری سب سے زیادہ بولی دیتا ہے اسی کو شکار کا لائسنس دے دیا جاتا ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  پاکستان میں پرندوں کا شکار، امریکی ڈالرز میں فیس مقرر

    یاد رہے کہ چھ جنوری کو چترال کے گول نیشنل پارک میں ایک مارخور غیر قانونی شکار کے دوران زخمی ہوکر دریا میں گر کر ہلاک ہوگیا تھا، شکاری کی نشان دہی کرلی گئی ہے تاہم جرم ثابت ہونے پر اسے محض چند ہزار روپے جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔

    واضح رہے کہ مارخور پاکستان کا قومی جانور ہے جو کہ مغربی کوہِ ہماليہ ميں اپنا ٹھکانہ رکھتا ہے۔

  • غیرقانونی طورشکارمیں زخمی  ہونے والا مارخوردریا میں گرکرہلاک

    غیرقانونی طورشکارمیں زخمی  ہونے والا مارخوردریا میں گرکرہلاک

    چترال: گول نیشنل پارک میں غیر قانونی شکار کے دوران زخمی ہونے والا مارخور  دریا میں گر کر ہلاک ہوگیا، شکاری کی نشاندہی کرلی گئی ہے تاہم جرم ثابت ہونے پر اسے محض چند ہزار روپے جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔

    مارخور پاکستان کے قومی جانور ہونے کے ساتھ ساتھ یہ نہایت نایاب نسل کے جانور ہے جو پہاڑوں کے اونچائی پر رہتے ہیں۔ مارخور کی شکار کیلئے ٹرافی ہنٹنگ کے نام پر شکار کا پرمٹ جاری کیا جاتا ہے جس کی قیمت ایک کروڑ سے ڈیڑھ دو کروڑ تک بھی ہوسکتا ہے۔ ہر سال مارخور کی شکار کیلئے ہنٹنگ ٹرافی کیلئے بین الاقوامی سطح پر بولی ہوتی ہے اور جو شکاری سب سے زیادہ بولی یعنی ریٹ بتائے گا اسی کو شکار کا لائسنس ملے گا۔

    چترال گول نیشنل پارک میں اس قسم کے قانونی شکار بھی ممنوع ہے مگر اس کے باوجود بھی یہاں غیر قانونی شکار کیا جاتا ہے جس سے چترال کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ مارخور کے شکار سے ملنے والی رقم میں سے اسی فی صد مقامی لوگوں کو دی جاتی ہے جبکہ بیس فی صد سرکاری خزانے میں جمع ہوتا ہے۔

    گزشتہ دنوں چترال گول نیشنل پارک کی ایک مارخور کو کسی شکاری نے غیر قانونی طور پر فائر کرکے زخمی کردیا۔ یہ زخمی مارخور علاقہ شغور میں آوی کی طرف بھا گاور جھاڑیوں میں چھپنے کی کوشش کی گئی۔ علاقے کے لوگوں نے دیکھا تو محکمہ جنگلی حیات چترال گول نیشنل پارک کے عملہ کو بتایا۔ تاہم وہ اسے پکڑنے میں ناکام رہے اور مارخور دریا میں گر کر اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھا۔

     اس سلسلے میں محکمہ جنگلی حیات چترال گول نیشنل پارک کے  ڈی ایف او ارشاد احمد سے بات کی گئی تو انہوں نے تصدیق کرلی کہ اس مارخور کو کسی شکاری نے غیر قانونی طور پر مارنے کی کوشش میں زخمی کیا تھا ۔ ڈی ایف او نے مزید بتایا کہ اسے اسلم بیگ نامی شحص نے مارا ہے جو آوی کا باشندہ ہے اور اس کے خلاف باقاعدہ قانونی کاروائی کی جائے گی ۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک عام سا کیس ہوتا ہے  جس میں ملزم کچھ رقم جمع کرکے آزاد ہوجاتا ہے۔  یا پھر وہ عدالت میں خود کو بے گناہ ثابت کردیتا ہے ۔ گناہ گار ثابت ہونے کی صورت میں  بھی  اسے جرمانہ  لے کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔

     واضح رہے کہ مارخور ہنٹنگ ٹرافی میں اس کی قیمت ایک کروڑ تک شکاری ادا کرتا ہے مگر جب اسے غیر قانونی طور پر مارا جاتا ہے تو اس صورت میں چند ہزار روپے جرمانہ لے کر ملزم چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اگر اس کی اصل قیمت کے برابر جرمانہ لیا جاتا تو  یقیناً  مارخور کے غیر قانونی شکار میں کمی آسکے گی۔

  • قومی جانور ’ مارخور ‘  کا غیر قانونی شکار اور بدترین سلوک

    قومی جانور ’ مارخور ‘ کا غیر قانونی شکار اور بدترین سلوک

    پشاور: چترال میں واقع نیشنل پارک میں شکاریوں کے اناڑی پن اور محکمہ وائلڈ لائف کے عملے نے قومی جانور کو بدترین سلوک کر کے بعد مار ڈالا۔

    نمائندہ اے آر وائی کے مطابق چترال میں واقع نیشنل پارک میں شکاری نے قومی جانور مارخور کا غیر قانونی شکار کیا اور اُسے گولی ماری۔

    سرکاری اجازت (لائسنس) کے بغیر شکار کرنے والے اناڑی شخص نے مارخور کو زخمی کرنے کے بعد اُسے پکڑنے کی کوشش کی اور اُسے رسیوں سے جکڑ دیا۔

    زخمی مارخور پہاڑ سے نیچے آیا تو محکمہ جنگلی حیات (وائلڈ لائف) کے رضاکاروں نے اُسے پکڑ کر رسیوں میں جکڑ دیا اور اُس کے ساتھ بدترین سلوک کیا۔ جیسے ہی مارخور قابو آیا تو رضاکار اُس پر چڑھ کر بیٹھ گئے۔

    محکمہ وائلڈ لائف کے ترجمان نے مؤقف اختیار کیاکہ مارخور اُن کے چنگل سے بھاگ گیا تھا اور اُس نے بچنے کے لیے دریا میں چھلانگ لگائی البتہ وہ بچ نہ سکا اور مرگیا۔

    پہاڑ سے نیچے آنے والا قومی جانور شکاریوں کے بعد سرکاری حکام کا بدترین سلوک برداشت نہ کرسکا اور اُس نے دریا میں چھلانگ لگا دی جس کی وجہ سے وہ اپنی جان کی بازی ہار گیا۔

    یاد رہے کہ نایاب جانور کے شکار پر مکمل پابندی عائد ہے مگر اُسے گولی مار کر قتل کردیا گیا، مارخور کی قیمت ڈیڑھ سے 2 کروڑ روپے کے درمیان بتائی جاتی ہے۔

    مارخور کے شکار کے لیے لائسنس کی تقسیم عالمی سطح پر بولی لگا کر کی جاتی ہے، شکار کی اجازت حاصل کرنے کے لیے 65 ہزار ڈالر کا اجازت نامہ حاصل کیا جاتا ہے۔  نمائندہ اے آر وائی کے مطابق 80 فیصد لائسنس مقامی افراد کو ہی دیے جاتے ہیں۔

  • پی آئی اے نے چیف جسٹس کے احکامات ہوا میں اڑا دیے

    پی آئی اے نے چیف جسٹس کے احکامات ہوا میں اڑا دیے

    کراچی:  پی آئی اے  طیارے پر  سے مارخور کا نشان ہٹانے کے احکامات پر  عملدرآمد کرنے میں ناکام ہوگئی اور  مارخور کی تصویر والے طیارے کا استعمال جاری ہے، سپریم کورٹ نے طیارے پر سے مارخورکا نشان ہٹانے کا حکم دیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود قومی ایئر لائن پی آئی اے کے طیارے پر سے مارخور کا نشان نہیں ہٹایا جاسکا، مارخور کی تصویر کا حامل پروازوں کے لیے بدستور استعمال کیا جارہا ہے جبکہ قومی ایئر لائن انتظامیہ کی ویب سائٹ اور اسٹیشنری پر بھی مارخور کا نشان موجود ہے۔

    ترجمان پی آئی اے کا کہنا ہے کہ طیارے کی دُم پر سے مارخور کی تصویر ہٹانے کے لیے وقت درکار ہے۔

    یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے قومی ایئرلائن پی آئی اے کے جہازوں پر قومی پرچم کی جگہ مارخور کی تصویرلگانے پر پابندی عائد کی تھی، چیف جسٹس نے حکم دیا تھا کہ آئندہ کسی جہاز سے قومی پرچم نہیں ہٹایا جائے گا، کسی جہازسے قومی پرچم ہٹایا گیا تو حکم عدولی سمجھا جائے گا۔


    مزید پڑھیں : پی آئی اے کے جہازوں پرقومی پرچم کی جگہ مارخورکی تصویرلگانے پرپابندی عائد


    گذشتہ ماہ پی آئی اے کے طیارے کی دُم سے قومی پرچم ہٹا کر مارخور کا ایک اسٹیکر لگا دیا گیا تھا، صرف ایک جہاز کی دُم پر مارخور پینٹ کرنے سے پی آئی اے کے ایک طیارے پر پچاس ہزار ڈالر کے اخراجات آئے تھے جبکہ ڈیزائنر کو ڈیزائن بنانے کی مد میں پی آئی اے نے تین کروڑ پچاس لاکھ روپے بھی ادا کئے گئے تھے۔

    خیال رہے کہ قومی ایئر لائن کی ناقص حکمت عملی کے باعث خسارے میں بے تحاشہ اضافہ ہوا، جس کے بعد پی آئی اے کو 9 ماہ کے دوران 41 ارب 25 کروڑ سے زائد کا خسارہ ہوا، جو پچھلے سال کی نسبت پونے 7 ارب سے زائد ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • معدومی سے بال بال بچنے والے 5 جانور

    معدومی سے بال بال بچنے والے 5 جانور

    جانوروں کا شکار، فضائی و آبی آلودگی، ان کی پناہ گاہوں کا ختم ہونا اور موسموں میں تغیر یعنی کلائمٹ چینج، یہ تمام وہ عوامل ہیں جو انسان کے تخلیق کردہ ہیں اور ان کی وجہ سے دنیا میں موجود جانور بے شمار خطرات کا شکار ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہماری کائنات میں اس سے قبل 5 عظیم معدومیاں وقوع پذیر ہو چکی ہیں اور ہم بہت تیزی سے چھٹی عظیم معدومی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ان کے مطابق زمین پر موجود جنگلی حیات کی 75 فیصد آبادی کے بہت جلد خاتمے کا خدشہ ہے۔

    ان جانوروں کو درجہ حرارت میں اضافے اور ان کی رہائش گاہوں جیسے جنگلات وغیرہ میں کمی کا سامنا ہے جبکہ انسانوں کی جانب سے بے تحاشہ شکار ان کی آبادی کو کم کرتا جارہا ہے۔

    مزید پڑھیں: کیا ہم جانوروں کو معدومی سے بچا سکیں گے؟

    کچھ عرصہ قبل موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے باعث آسٹریلیا میں پائے جانے والے ایک چوہے کی نسل معدوم ہوچکی ہے اور یہ پہلا ممالیہ ہے جو موسم کی وجہ سے اپنے خاتمے کو پہنچا۔

    تاہم کچھ جانور ایسے ہیں جنہیں انسانوں ہی نے خاتمے سے بچانے کے لیے کوششیں کیں اور ان کوششوں کے باعث یہ معدومی کے خطرے سے باہر نکل آئے۔ اب ان کی آبادی خطرے کا شکار ضرور ہے، تاہم انہیں بالکل معدومی کا خدشہ نہیں ہے۔

    :پاکستان کا قومی جانور ۔ مارخور

    markhor

    پاکستان کا قومی جانور مار خور کچھ عرصہ قبل تک اپنی بقا کے خطرے سے دو چار تھا۔ مارخور پاکستان اور چین سمیت مغربی ایشیا کے کئی ممالک میں پایا جاتا ہے۔

    اس کی آبادی میں کمی کی سب سے بڑی وجہ اس کا بے دریغ شکار ہے جو اس کے سینگ کے لیے کیا جاتا ہے۔ یہ سینگ چین کی قدیم دوائیوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کی آبادی میں کمی کی ایک اور وجہ ٹرافی ہنٹنگ بھی ہے۔ اس مقابلے میں جیتنے والے کو کسی جانور (عموماً مارخور) کا سر انعام میں دیا جاتا ہے۔

    نوے کی دہائی میں اس جانور کی آبادی میں 70 فیصد کمی واقع ہوگئی تھی جس کے بعد ہنگامی بنیادوں پر اس کی حفاظت کے لیے اقدامات اٹھائے گئے۔ پاکستان میں مقامی قبیلوں کو تربیت دی گئی کہ وہ اپنے علاقوں میں مار خور کی حفاظت کریں اور اس کے شکار سے گریز کریں۔

    پاکستان میں اس جانور کے لیے اٹھائے جانے والے حفاظتی اقدامات نے تاجکستان کو بھی متاثر کیا اور وہاں رہنے والے قبائل نے بھی اس کا شکار کرنے کے بجائے اس کی حفاظت کرنا شروع کی۔

    :امریکا کی ننھی لومڑیاں

    fox

    امریکا کے فش اینڈ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے مطابق کیلیفورنیا میں پائی جانے والی لومڑیوں کی ایک قسم، جن کا قد چھوٹا ہوتا ہے اور انہیں ننھی لومڑیاں کہا جاتا ہے، گزشتہ برس معدومی کے خطرے سے باہر نکل آئیں۔

    ماہرین کے مطابق اگلے ایک عشرے تک اس لومڑی کی 50 فیصد آبادی ختم ہونے کا خطرہ تھا۔ یہ لومڑی نوے کی دہائی میں ’کینن ڈسٹمپر‘ نامی بیماری کے باعث اپنی 90 فیصد سے زائد نسل کھو چکی تھی۔ کینن ڈسٹمپر کتوں اور لومڑیوں کو لگنے والی ایک بیماری ہے جس کا تاحال کوئی خاص سبب معلوم نہیں کیا جاسکا ہے۔

    حکام کے مطابق ان لومڑیوں کے تحفظ کے لیے ان کی پناہ گاہوں میں اضافے اور ویکسینیشن کے خصوصی اقدامات اٹھائے گئے۔ ان لومڑیوں کو سؤر کی جانب سے بھی شکار کا خطرہ تھا جس کا حل ماہرین نے یوں نکالا کہ سؤروں کو اس علاقہ سے دوسری جگہ منتقل کردیا گیا۔

    ان اقدامات کے باعث اس لومڑی کی آبادی میں اضافہ شروع ہوا اور بالآخر یہ معدومی کی زد سے باہر نکل آئیں۔

    :افریقی جنگلات کا اہم حصہ ۔ گوریلا

    gorilla

    عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این کے مطابق افریقی جنگلی حیات کا اہم حصہ گوریلا کی آبادی میں پچھلی 2 دہائیوں میں خطرناک حد تک کمی آگئی تھی جس کے بعد آئی یو سی این نے اسے خطرے کا شکار جانوروں کی فہرست سے نکال کر شدید خطرے کا شکار جانوروں کی فہرست میں ڈال دیا ہے۔ یہ درجہ معدومی سے قبل کا آخری درجہ ہے۔

    صرف براعظم افریقہ میں پایا جانے والا گوریلا مغربی افریقہ کے متعدد ممالک کے جنگلات میں رہتا ہے اور ماہرین کے مطابق گوریلاؤں کی آبادی میں کمی کی سب سے بڑی وجہ ان افریقی ممالک میں ہونے والی خانہ جنگیاں ہیں جس کے باعث گوریلا کے زیر رہائش جنگلات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

    تاہم گوریلا کی ایک قسم پہاڑی گوریلا کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ماحولیات یو این ای پی کے مطابق ان گوریلاؤں کے تحفظ کے لیے خصوصی اقدامات کیے جارہے ہیں جو بار آور ہو رہے ہیں۔

    :سائبیرین چیتا

    tiger

    سائبیرین چیتا جسے امور ٹائیگر بھی کہا جاتا ہے مشرقی ایشیائی مقامات پر پایا جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک زمانے میں یہاں بے شمار چیتے تھے۔ لیکن پھر 90 کی دہائی میں ان کی موجودگی کے آثار ختم ہوگئے جس سے یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ ہم اس جانور کو کھو چکے ہیں۔

    تاہم کچھ عرصہ قبل آئی یو سی این نے چین اور روس میں حفاظتی پروگرام شروع کیے جن کے باعث ان کی آبادی میں اضافہ ہونے لگا۔ اس وقت دنیا بھر میں 400 سائبیرین چیتے موجود ہیں۔

    :کاکاپو طوطا

    kakapo

    نیوزی لینڈ کو صدیوں سے اپنا مسکن بنائے کاکاپو طوطا 90 سال تک زندہ رہ سکتا ہے۔ یہ منفرد طوطا انسانوں کی جانب سے بے تحاشہ شکار کے باعث اپنے خاتمے کے دہانے پر پہنچ چکا تھا۔

    سنہ 1970 میں جب ان کے تحفظ پر کام شروع کیا گیا تو یہ مشکل سے درجن بھر تعداد میں تھے اور وہ بھی سب نر تھے۔ تکنیکی طور پر یہ نسل معدوم ہوچکی تھی۔

    لیکن پھر نیوزی لینڈ کے جنوبی ساحل کے قریب ایک جزیرے پر 4 مادہ طوطیاں دیکھی گئیں۔ انہیں فوری طور پر محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا اور ان کی دیکھ بھال شروع کردی گئی۔ آہستہ آہستہ ان کی آبادی میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا اور اب یہ طوطا بھی ایک مستحکم تعداد میں موجود ہے۔

  • چترال میں جنگلی حیات کے تحفظ پر تربیتی ورکشاپ کا انعقاد

    چترال میں جنگلی حیات کے تحفظ پر تربیتی ورکشاپ کا انعقاد

    چترال: جنگلی حیات کے واچرز اور مقامی لوگوں کے لیے وائلڈ لائف رولز ریگولیشن اینڈ حیاتیاتی تنوع پر 6 روزہ تربیتی ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔ کامیاب شرکا میں اسناد تقسیم کیے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق محکمہ جنگلی حیات چترال کی جانب سے ضلع بھر میں کام کرنے والے جنگلی حیات کے واچرز (محافظ) اور مقامی افراد کے لیے جنگلی حیات کی قانونی اور حیاتیاتی تنوع کے حوالے سے استعداد کار بڑھانے کے موضوع پر 6 روزہ تربیتی ورکشاپ منعقد کی گئی جس میں 50 شرکا نے حصہ لیا۔ اس پروگرام میں 3 روزہ ورکشاپ اور 3 روزہ فیلڈ وزٹ شامل تھا۔

    ورکشاپ کے احتتام پر کامیاب شرکا میں اسناد بھی تقسیم کیے گئے۔ اس سلسلے میں ڈویژنل فارسٹ آفیسر برائے جنگلی حیات (ڈی ایف او وائلڈ لائف)کے دفتر میں تقسیم اسناد کی ایک تقریب بھی منعقد ہوئی۔ اس موقع پر ضلع ناظم چترال مغفرت شاہ مہمان خصوصی تھے۔

    جنگلی حیات کے شکاریوں کو پکڑنے کے لیے خونخوار کتوں کی تربیت *

    تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈی ایف او چترال ڈویژن امتیاز حسین لال نے کہا کہ چترال واحد خطہ ہے جہاں قومی جانور مارخور، قومی پھول چنبیلی، قومی پرندہ چکور اور قومی درخت دیار یہاں پائے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر جنگلی حیات کو فروغ دیا جائے تو ماحولیات اور سیاحت کو خود بخود ترقی ملے گی اور دنیا بھر سے سیاح یہاں کا رخ کریں گے جس سے یقینی طور پر چترال کی معیشت پر مثبت اثرات پڑے گی۔

    ضلع ناظم چترال مغفرت شاہ نے تمام واچرز (محافظین جنگلی حیات) پر زور دیا کہ اپنے فرض منصبی کو عبادت سمجھ کر کریں۔ اگر وہ بے زبان جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کرے تو اس سے نہ صرف جنگلی حیات کو ترقی ملے گی بلکہ اس سے معاشی فائدے بھی لیے جاتے ہیں کیونکہ یہاں مار خور کے ہنٹنگ ٹرافی کے لیے ایک سے ڈیڑھ کروڑ روپے کی ادائیگی کرنی پڑتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ وہ ان جنگلی حیات کی حفاظت میں کسی کا بھی لحاظ نہ کریں اور جو بھی ان قومی اثاثوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرے ان کے خلاف بلا امتیاز قانونی کاروائی کریں۔

    انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے وائلڈ لائف اینڈ حیاتیاتی تنوع ایکٹ 2015 نافذ کیا ہے اس سے ان کے کام میں مزید بہتری آئے گی اور جنگلی حیات کو بھی تحفظ ملے گا۔

    ڈی ایف او جنگلی حیات امتیاز حسین، ڈی ایف او محکمہ جنگلات سلیم خان مروت اور چند واچروں نے اے آر وائی نیوز کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہو ئے بتایا کہ اس تربیت سے جنگلات کو بھی تحفظ ملے گا کیونکہ زیادہ تر جنگلی حیات جنگلوں میں رہتے ہیں اور ان جانوروں کی حفاظت پر مامور واچر یقینی طور پر جنگلات کی بھی حفاظت کریں گے اور ان کو غیر قانونی طور پر کٹائی سے روکنے میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔

    chitral-2

    chitral-1

    chitral-3

    chitral-4

    آخر میں کامیاب شرکاء میں اسناد تقسیم کیے گئے۔ اس تقریب میں محکمہ جنگلی حیات کے واچروں کے علاوہ مقامی لوگوں، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور سماجی کارکنان نے بھی بھر پور شرکت کی۔

  • کراچی: ایم کیو ایم کے دفتر سے 5 مارخور برآمد

    کراچی: ایم کیو ایم کے دفتر سے 5 مارخور برآمد

    کراچی: کراچی کے علاقہ کورنگی میں ایم کیو ایم کے سیکٹر آفس پر چھاپہ کے دوران 5 مارخور برآمد کرلیے گئے۔ محکمہ جنگلی حیات نے مارخوروں کو اپنے قبضہ میں لے لیا۔

    گذشتہ کچھ دن سے ایم کیو ایم کے سیکٹر دفاتر کو منہدم کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ گذشتہ روز کورنگی میں بھی ایک سیکٹر آفس کو منہدم کیا گیا جہاں سے 5 مارخور برآمد کیے گئے۔

    محکمہ جنگلی حیات نے ان مارخوروں کو اپنی تحویل میں لے کر سپر ہائی وے پر قائم ایدھی اینیمل ویلفیئر منتقل کردیا۔

    مارخور پاکستان کا قومی جانور ہے اور افغانستان کے شمالی علاقوں، جنوبی تاجکستان، ازبکستان، کشمیر اور ہمالیہ کے پہاڑوں میں پایا جاتا ہے۔

    معدومی کا شکار جانور اور انہیں لاحق خطرات *

    مارخور خطرے کا شکار جانوروں کی فہرست میں شامل ہے اور اسے معدومیت کا خطرہ لاحق ہے۔ ماہرین کے طابق اگر مارخور کے تحفظ کے لیے ہنگامی اقدامات نہ اٹھائے گئے تو اس کی نسل مکمل طور پر معدوم ہوجائے گی۔

    تاہم پاکستان میں اس کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں جس کے باعث پچھلے عشرے کی نسبت اس کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔ اب پاکستان میں تقریباً 3ہزار سے زائد مار خور موجود ہیں۔

    markhor-3
    قراقرم کے پہاڑوں پر ایک مارخور ۔ تصویر بشکریہ آئیرا لی

    واضح رہے کہ ایم کیو ایم کے اکثر سیکٹر دفاتر میں جانور موجود ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ کچھ سیکٹر انچارجز جانور پالنے کے شوقین ہیں۔ ان میں سرفہرست کورنگی کے سابق سیکٹر انچارج اور شاہ فیصل کے سیکٹر انچارج شامل ہیں۔

    ان سیکٹر انچارجز نے مشرف دور میں کراچی میں قائم کیے گئے منی زو کے لیے منگوائے گئے جانوروں کی لاٹ میں سے کچھ جانور سیکٹر آفس میں رکھ لیے تھے۔ ایم کیو ایم کے رکن سندھ اسمبلی رؤف صدیقی کا فیڈرل بی ایریا میں اپنا منی زو ہے جو بعد ازاں انہوں نے مقامی حکومت کے حوالے کردیا۔

    ایم کیو ایم کے دفاتر میں موجود جانوروں میں مگر مچھ، ہرن، فش ایکوریم اور مختلف اقسام کے پرندے شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق ایک سیکٹر آفس میں شیر کو بھی رکھا گیا ہے۔