Tag: مارچ برسی

  • پنجابی فلم پھیرے اور بابا عالم سیاہ پوش

    پنجابی فلم پھیرے اور بابا عالم سیاہ پوش

    پاکستان کی پہلی پنجابی فلم ’’پھیرے‘‘ تھی جو نذیر صاحب نے بنائی تھی۔ یہ فلم آج ہی کے روز 1949ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم کی کہانی، مکالمے اور گانے بابا عالم سیاہ پوش نے لکھے تھے اور یہ وہ نام ہے جس سے نئی نسل نامانوس بھی ہوگی اور یہ ان کے لیے ایک قسم کی پُراسراریت بھی رکھتا ہے۔ بابا عالم سیاہ پوش اور ان جیسے کئی فن کار، فلم ساز اور دوسرے آرٹسٹ ہی تھے جنھوں نے اس زمانہ میں فلمی صنعت کی بنیاد مضبوط کی اور اپنے کام کی بدولت پہچان بنائی۔

    28 جولائی کو ریلیز ہونے والی فلم پھیرے کو زبردست کام یابی ملی تھی اور اس کے بعد فلم سازوں نے مزید پنجابی فلمیں بنائیں اور خوب بزنس کیا۔ یہ فلم صرف دو ماہ کے دورانیہ میں مکمل کی گئی تھی جس کے نغمات بے حد مقبول ہوئے تھے۔ پھیرے میں فلم ساز نذیر اور ان کی بیوی سورن لتا کے ساتھ بابا عالم سیاہ پوش نے بھی اداکاری کی تھی۔

    بابا عالم سیاہ پوش کے فلمی گیتوں اور مکالموں میں بڑا زور تھا۔ ان کی فلمی کاوشیں پنجاب کی زرخیز مٹی کی مہک میں‌ بسی اور اس کی ثقافت میں رنگی ہوتی تھیں جس کو پنجاب میں فلم بینوں‌ نے بے حد پسند کیا اور فلم سازوں نے مزید پنجابی فلمیں بنائیں۔

    بابا عالم سیاہ پوش 1916ء میں پیدا ہوئے۔ دستیاب معلومات کے مطابق وہ گورداسپور کے تھے۔ ان کا نام محمد حسین تھا۔ لیکن انھیں سب جوانی ہی میں "بابا” کہنے لگے تھے اور "سیاہ پوش” اس لیے کہا جانے لگا کہ ایک ناکام عشق کے بعد انھوں نے دنیا داری ترک کردی تھی۔ وہ زیادہ تر سیاہ لباس میں رہتے تھے جو غم اور سوگ کی علامت تھا۔ لیکن بعد میں‌ ساتھیوں کے سمجھانے پر کافی حد تک بدل گئے تھے۔ وہ پنجاب یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے اور پنجابی زبان پر عبور رکھتے تھے۔

    سیاہ پوش تقسیم سے قبل فلم بھنور (1947) کے گیت نگار اور مکالمہ نویس کے طور پر سامنے آئے تھے۔ پاکستان میں ان کی پہلی فلم پھیرے تھی جو پہلی سپر ہٹ سلور جوبلی فلم ثابت ہوئی۔اس میں ان کا لکھا ہوا گیت عنایت حسین بھٹی نے گایا جس کے بول تھے، "جے نئیں سی پیار نبھانا، سانوں دس جا کوئی ٹھکانا۔” یہ پنجابی گیت بڑا مقبول ہوا تھا۔ پاکستان میں اپنی اوّلین کام یابی کے بعد انھوں نے بے شمار پنجابی فلموں کے لیے گیت اور مکالمے لکھے۔ یہ وہ دور تھا جب فلمی صنعت میں ان کے نام کا ڈنکا بجتا تھا۔ اس وقت کئی دوسرے پنجابی نغمہ نگار اور مکالمہ نویس بھی میدان میں اتر چکے تھے مگر بابا عالم سیاہ پوش کا انداز سب سے جدا تھا۔ ان کے تحریر کردہ پنجابی نغمات میں کئی فلمیں سپر ہٹ ثابت ہوئیں۔ ان فلموں میں چوڑیاں، دلدار، لارا لپّا، تیس مار خان، جانی دشمن، بدلہ، میرا ویر کے علاوہ کئی اور فلمیں شامل ہیں۔

    بابا عالم سیاہ پوش پنجابی فلموں کے گیت نگار ہی نہیں تھے بلکہ انھوں نے اس زبان میں معیاری شاعری بھی کی اور ان کی نظمیں اس وقت کے اخبارات میں شائع ہوئیں۔سیاہ پوش کی نظموں میں سماج اور حکومت پر طنز بھی ملتا ہے۔ ان کی نظم ’’آٹا‘‘ جس زمانہ میں‌ اخبار میں شائع ہوئی تو ممتاز دولتانہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔ اس نظم پر ان کے حکم سے اخبار کو نوٹس بھیجا گیا تھا۔ طنز کی شدّت سے بھرپور اس نظم کو عوام کی طرف سے بہت پذیرائی ملی تھی۔ بابا سیاہ پوش نے شہرت اور مقبولیت تو بہت حاصل کی مگر تمام عمر تنگ دست رہے۔ دراصل بابا عالم سیاہ پوش بھی فلم سازوں کی روایتی چیرہ دستیوں کا شکار رہے تھے اور رائلٹی یا معاوضہ کے معاملے میں ان کو مشکلات کا سامنا ہی رہا۔ کہتے ہیں کہ مالی تنگی کے باوجود وہ زندہ دل اور خوش اخلاق و ملنسار تھے۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جنھیں‌ مایوسیوں کے اندھیروں میں بھی اُمید کی روشنی دکھائی دیتی تھی۔ دو مارچ 1970ء کو بابا عالم سیاہ پوش زندگی کی تمام پریشانیوں اور دکھوں سے نجات پا گئے تھے۔

  • ورجینیا وولف:‌ برطانوی ناول نگار جسے دریا نے قبول کیا

    ورجینیا وولف:‌ برطانوی ناول نگار جسے دریا نے قبول کیا

    بیسویں صدی کی ممتاز ناول نگار ورجینیا وولف کا یہ تذکرہ ان کی موت کی مناسبت سے کیا جارہا ہے۔ وہ موت جو غیرفطری تھی یا جس کے لیے ورجینیا وولف نے 28 مارچ کا انتخاب کیا تھا۔ ناول نگار نے 1941ء میں خود کو دریا کی لہروں کے سپرد کر دیا تھا۔

    خود کشی کے بعد ورجینیا وولف کی آخری تحریر سامنے آئی جس میں وہ اپنے شوہر سے مخاطب ہو کر لکھتی ہیں، ’’اگر کوئی مجھے اس تکلیف سے بچا سکتا تھا، تو وہ تم ہی تھے۔ ہر چیز مجھ سے جدا ہو رہی ہے، سوائے اس محبت کے جو تم نے مجھ سے ہمیشہ کی۔‘‘

    وہ ایک ادیب، مضمون نویس اور نقّاد کی حیثیت سے دنیا بھر میں‌ مشہور ہیں۔ ورجینا وولف 25 جنوری 1882ء کو برطانیہ میں پیدا ہوئیں۔ ان کا مکمل نام ایڈلن ورجینیا وولف تھا۔ وہ ایک متمول گھرانے کی فرد تھیں اور یہ کنبہ فنونِ لطیفہ کے مختلف شعبوں میں فعال اور تخلیقی کاموں کے لیے مشہور تھا۔ یہ آٹھ بہن بھائی تھے جن میں ورجینیا وولف کو دنیا میں‌ بھی پہچان ملی۔ ان کے والد قلم کار، مؤرخ اور نقّاد، والدہ ماڈل جب کہ ایک بہن مصورہ اور ڈیزائنر تھیں۔

    ورجینیا وولف نے دستور کے مطابق اسکول کی بجائے گھر پر تعلیم و تربیت کے مراحل طے کیے، ادب پڑھا، گھر میں کتابیں موجود تھیں اور علمی و ادبی موضوعات پر گفتگو بھی سننے کا موقع ملتا رہتا تھا۔ اور پھر وہ وقت آیا جب انھوں نے خود مضمون نویسی اور کہانیاں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔

    ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ورجینیا وولف نے کنگز کالج میں داخلہ لیا اور اس عرصے میں تاریخ اور ادب کے گہرا مطالعہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا باعث بنا، اسی دوران عورتوں کے حقوق اور مسائل سے بھی آگاہی حاصل کی جس نے ورجینیا وولف کی فکر اور تخلیقی صلاحیتوں کو اجالا اور والد نے حوصلہ افزائی کی تو باقاعدہ لکھنے کا آغاز کیا۔ ابھی انھوں‌ نے نام اور پہچان بنانے کا آغاز ہی کیا تھا کہ ان والد جو خود بھی ایک قلم کار تھے، ان سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے۔ والدہ کے بعد اپنے والد کو کھو دینے والی ورجینیا وولف کی زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ آئے اور بہت سی تکلیف دہ اور دل آزار باتیں انھیں برداشت کرنا پڑیں جن کا ذہن پر گہرا اثر ہوا۔ وہ ایک نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہوگئیں، اور مایوسی نے انھیں اپنی جان لینے پر آمادہ کرلیا۔ ورجینا وولف دریا میں چھلانگ لگانے سے پہلے بھی متعدد مرتبہ خود کُشی کی کوششیں کرچکی تھیں۔

    اس برطانوی مصنّفہ کا پہلا ناول’’دا ووئیج آؤٹ‘‘ تھا۔ 1925ء میں ’’مسز ڈالووے‘‘ اور 1927ء میں ’’ٹو دا لائٹ ہاؤس‘‘اور 1928ء میں ’’اورلینڈو‘‘ کے عنوان سے ان کے ناول منظرِ‌عام پر آئے جو ان کی پہچان ہیں۔ ان کے ایک مضمون بعنوان ’’اپنا ایک خاص کمرہ‘‘ دنیا بھر میں‌ قارئین تک پہنچا اور اسے بے حد پسند کیا گیا۔ ورجینیا وولف کی تخلیقات کا پچاس سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہوا اور ان کی تحریر کردہ کہانیوں کو تھیٹر اور ٹیلی وژن پر پیش کیا گیا۔ ’’مسز ڈالووے‘‘ ان کا وہ ناول ہے جس پر فلم بنائی گئی تھی۔

    ورجینیا وولف کا خود کشی سے قبل شوہر کے نام آخری پیغام بھی کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا جس کا ایک حصّہ یہ بھی ہے۔ انھوں‌ نے لکھا تھا:

    پیارے…
    مجھے لگتا ہے کہ میں دوبارہ پاگل پن کی طرف لوٹ رہی ہوں اور مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہم دوبارہ اس بھیانک کرب سے نہیں گزر پائیں گے۔ میں دوبارہ اس تکلیف سے اَب ابھر نہیں پاؤں گی۔ مجھے پھر سے آوازیں سنائی دیتی ہیں جس کی وجہ سے میں کسی چیز پہ اپنی توجہ مرکوز نہیں کر پا رہی ۔ میں وہ کرنے جا رہی ہوں…… جو بظاہر ان حالات میں کرنا بہتر ہے۔

    تم نے مجھے زندگی کی ہر ممکنہ خوشی دی۔ تم میرے ساتھ ہر طرح کے حالات میں ساتھ ساتھ رہے، جتنا کوئی کسی کے ساتھ رہ سکتا ہے۔ نہ میں سمجھ ہی سکتی ہوں کہ دو انسان اس قدر اکٹھے خوش رہ سکتے ہیں، جیسے ہم رہ رہے تھے، جب تک کہ اس اذیت ناک بیماری نے مجھے شکار نہ کرلیا۔

    اب میں مزید اس بیماری سے نہیں لڑ سکتی۔ میں یہ بھی سمجھتی ہوں کہ میری وجہ سے تمہاری زندگی بھی تباہ ہو رہی ہے، جو میرے بغیر شاید کچھ پُرسکون ہو جائے۔ مجھے یقین ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔

    بس میں یہی کہنا چاہتی ہوں کہ میری ساری زندگی کی خوشی تم سے منسوب رہی ہے۔ تم ہمیشہ میرے ساتھ بہت اچھے اور پُرسکون رہے ہو، اور میں کہنا چاہتی ہوں کہ یہ حقیقت سب ہی جانتے ہیں۔ اگر کوئی مجھے اس تکلیف سے بچا سکتا تھا، تو وہ تم ہی تھے۔ ہر چیز مجھ سے جدا ہو رہی ہے، سوائے اس محبت کے جو تم نے میرے ساتھ ہمیشہ کی۔

    میں ہرگز یہ نہیں چاہتی کہ میری بیماری کی وجہ سے تمہاری زندگی مزید تباہ ہو۔ میں ایسا مزید نہیں کرسکتی۔ میں نہیں سمجھتی کہ دنیا میں دو انسان ایک ساتھ اتنا خوش رہے ہوں…… جتنا ہم!

    انھوں نے 1913ء میں معروف ادبی نقاد لیونارڈ وولف سے شادی کی تھی۔ ان کی تحریر سے اندازہ لگایا گیا کہ خود کشی کے روز وہ انتہائی مایوسی کا شکار تھیں اور اپنے حواس کھو بیٹھی تھیں۔ ورجینیا نے اپنی جیبوں میں پتھر بھر لیے تھے تاکہ ان کا مردہ جسم دریا کی تہ میں‌ اتر جائے۔ ان کی لاش تین ہفتوں بعد ملی۔ ورجینیا کی خواہش کے مطابق اس کے جسم کو جلا کر راکھ کردیا گیا اور یہ راکھ خانقاہ میں بکھیر دی گئی۔

  • ستار طاہر: ایک باکمال ادیب اور شان دار مترجم

    ستار طاہر: ایک باکمال ادیب اور شان دار مترجم

    ستّار طاہر ایک باکمال مصنّف، مؤلف اور شان دار مترجم تھے جنھوں نے بحیثیت مدیر بھی اپنی صلاحیتوں‌ کو منوایا اور اپنے دور کے بہترین جرائد کی ادارت کی اور ان کا وقار بڑھایا۔ اردو زبان میں‌ کئی موضوعات پر مضامین اور کتابوں‌ کے علاوہ ستار طاہر نے غیرملکی ادب کا معیاری ترجمہ اردو زبان میں کیا جنھیں قارئین نے بہت پسند کیا۔ ستار طاہر 1993ء میں‌ آج ہی کے روز انتقال کر گئے تھے۔

    اہلِ علم و ادب میں ستار طاہر اپنی صلاحیتوں، قلم کی روانی اور معیاری تراجم کے لیے مشہور تھے۔ ان کی تحریریں اور تصانیف قارئین میں بے حد پسند کی گئیں۔ ستار طاہر گورداس پور میں یکم مئی 1940ء کو پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ ہجرت کرکے فیصل آباد آگئے۔ زمانۂ طالبِ علمی ہی سے لکھنے پڑھنے سے لگاؤ رہا اور شروع ہی سے مطالعہ کی عادت پختہ ہوگئی تھی۔ اسی شوق نے ستار طاہر کو ادب کی طرف مائل کیا اور تصنیف و تالیف کے ساتھ انھوں نے ترجمہ اس طرح کیا کہ اس پر تخلیق کا گمان ہوتا تھا۔ ستار طاہر نے کالم نگاری بھی کی اور 250 سے زائد کتابیں مرتب کیں کرنے کے علاوہ خاص طور پر روسی ادب کا ترجمہ کیا۔ اپنا قائدِاعظم ایک، دنیا کی سو عظیم کتابیں اور مارشل لاء کا وائٹ پیپر سمیت کئی کتابیں ستار طاہر کے زورِ قلم کا نتیجہ ہیں۔ انھوں نے فلموں کی کہانیاں‌ بھی لکھیں۔ ان میں وعدے کی زنجیر اور میرا نام ہے محبت جیسی فلمیں‌ شامل ہیں۔ ستار طاہر نے ایک مضمون نگار اور کہانی کار کی حیثیت سے مختلف طبقات کی زندگیوں کو اپنی تحریروں میں‌ سمیٹا اور داد و تحسین پائی۔

    ستار طاہر کو جنرل ضیاء الحق کے دورِ آمریت میں‌ جیل کی ہوا بھی کھانا پڑی تھی۔ وہ اپنے نظریات اور افکار کی وجہ سے بھی اہل علم و ادب میں نمایاں‌ پہچان رکھتے تھے۔ ستار طاہر کو جمہوریت اور بھٹو صاحب پر کتاب لکھنے کی پاداش میں جیل بھیجا گیا تھا۔ ستار طاہر کا شمار ان مصنفین میں ہوتا ہے جو قلم کی مزدوری کرنے کے ساتھ ساتھ جمہوریت کے حامی و پرچارک رہے۔

    ان کی متعدد تصانیف میں‌ سورج بکف و شب گزیدہ، حیاتِ سعید، زندہ بھٹو مردہ بھٹو، صدام حسین، مارشل لا کا وائٹ پیپر، تعزیت نامے سرِ فہرست ہیں۔ ان کی ترجمہ کردہ کتب میں ری پبلک، حسن زرگر، دو شہروں کی ایک کہانی، شہزادہ اور فقیر، سرائے، تاراس بلبا اور دنیا کی سو عظیم کتابیں شامل ہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے ستّار طاہر کے لیے بعد از مرگ صدارتی ایوارڈ کا اعلان کیا تھا۔ ستار طاہر لاہور میں اسلام پورہ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • رجب علی بیگ سرورؔ: فسانۂ عجائب کے خالق کا تذکرہ

    رجب علی بیگ سرورؔ: فسانۂ عجائب کے خالق کا تذکرہ

    فسانۂ عجائب کو اردو ادب میں نثرِ مقفیٰ کا شاہ کار اور دبستانِ لکھنؤ کی نمائندہ داستان تسلیم کیا گیا ہے جس کے مصنّف رجب علی بیگ سرور ہیں۔ قدیم انشا میں مصنّف کے طرزِ دل نشیں کی یہ یادگار کسی تعارف کی محتاج نہیں۔

    بلاشبہ اردو زبان میں کلاسیکی ادب انتہائی توانا اور زرخیز رہا ہے اور اس کی ایک نمایاں مثال رجب علی بیگ سرور کا فسانۂ عجائب ہے۔ اردو ادب کے طالبِ علم اور باذوق قارئین اس داستان اور اس کے مصنّف سے کسی قدر ضرور واقف ہیں۔ آج رجب علی بیگ سرورؔ کی برسی ہے۔ وہ 1867ء میں آج ہی کے روز وفات پاگئے تھے۔ ان کی داستان اپنے زمانے کے لکھنؤ کی ایسی جیتی جاگتی تصویر ہے جس میں ہم خود کو حیران و ششدر پاتے ہیں۔

    تحریر کردہ اس داستان کے بارے میں شمس الدّین احمد لکھتے ہیں، ”فسانۂ عجائب لکھنؤ میں گھر گھر پڑھا جاتا تھا اور عورتیں بچّوں کو کہانی کے طور پر سنایا کرتی تھیں اور بار بار پڑھنے سے اس کے جملے اور فقرے زبانوں پر چڑھ جاتے تھے۔“ اس داستان کی مقبولیت ایک الگ بات ہے، لیکن فسانۂ عجائب کے طرزِ تحریر اور اس کے محاسن و معائب پر نقّادوں کی رائے مختلف ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے مصنّف کا تعارف اور ان کے تخلیقی سفر پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

    سُرور کا درست سنہ پیدائش معلوم نہیں اور اسی طرح‌ تاریخِ وفات میں اختلاف ہے لیکن قیاس ہے کہ وہ 1786ء میں پیدا ہوئے۔ ان کی وفات کا مہینہ مارچ اور اپریل بھی بتایا جاتا ہے۔ انھیں شاعری کا شوق بھی تھا اور نثر نگاری کے ساتھ شاعری بھی کی۔ رجب علی بیگ ان کا نام تھا اور سُرورؔ تخلّص۔ وطن لکھنؤ تھا۔ تاہم تعلیم و تربیت کے مراحل دہلی میں انجام پائے۔ عربی فارسی زبان و ادب کے علاوہ خوش نویسی اور موسیقی میں بھی دست گاہ رکھتے تھے۔ اس دور میں زبان و تہذیب کا بڑا رواج تھا اور اس کے ساتھ اکثر نوجوانوں کے مشاغل میں شہ سواری اور تیر اندازی وغیرہ بھی شامل ہوتے تھے۔ سرور نے شہ سواری اور تیر اندازی بھی سیکھی۔ کہتے ہیں دوستوں کا حلقہ بہت وسیع تھا جن میں مرزا غالبؔ بھی ایک تھے۔ ان سے سرور کی خوب راہ و رسم رہی۔

    یہ 1824ء کی بات ہے جب والیٔ اودھ غازی الدّین حیدر رجب بیگ سرور سے کسی بات پر خفا ہوگئے اور لکھنؤ بدر کردیا۔ سرورؔ کانپور چلے گئے اور وہیں فسانۂ عجائب لکھی جس نے انھیں بہت شہرت دی۔ اس تصنیف کے لیے انھیں حکیم اسد علی نے تحریک دی تھی بعد میں اجازت ملی تو لکھنؤ لوٹ گئے۔ جب سلطنتِ اودھ کا خاتمہ ہوا تو رجب صاحب وظیفہ سے محروم ہوگئے۔ اور مالی تنگی کا شکار ہوکر ایک مرتبہ پھر لکھنؤ چھوڑنا پڑا۔ تب، مہاراجہ بنارس، مہاراجہ الور اور مہاراجا پٹیالہ کے درباروں سے منسلک ہوئے اور وظیفہ پایا۔ زندگی کے آخری ایّام میں آنکھوں کی بیماری کے علاج کی غرض سے کلکتہ گئے تھے جہاں سے واپسی پر انھیں بنارس میں اجل نے آ لیا۔

    فسانۂ عجائب کے علاوہ رجب علی بیگ سرور کی تصانیف میں سلطانی، گل زارِ سرور، شبستانِ سرور، انشائے سرور اور منظومات شامل ہیں۔

    اگرچہ فورٹ ولیم کالج کی سلیس نگاری نے مولانا فضلی اور مرزا رسوا کے پُرتکلف طرزِ تحریر پر کاری ضرب لگائی اور باغ و بہار جیسی سادہ نثر سامنے آئی، لیکن اس زمانے میں اسے قبول کرنے کے بجائے بعض ادبا نے قدیم طرز کو جاری رکھا اور اس کی حمایت کی۔ ان میں رجب علی بیگ سرور بھی شامل تھے۔ باغ و بہار چوں کہ عام فہم اسلوب کی حامل تھی تو فارسی کے پرستار اور مشکل پسند نثر نگاروں نے اس پر اعتراضات کیے اور سرور نے اسے منوانے کی غرض سے ”فسانۂ عجائب“ کی صورت میں مشکل اور مقفّیٰ عبارت لکھ ڈالی جو ایک طرح سے باغ و بہار کی ضد تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ مصنف کے نزدیک سادہ و سہل زبان کوئی خوبی نہیں، بلکہ عیب تھا۔ وہ صناعی اور عبارت آرائی کو ہی سب کچھ سمجھتے تھے۔ چوں کہ اس زمانے میں یہ اندازِ نگارش عام بھی تھا اور اس کے سمجھنے اور پڑھنے والے بھی موجود تھے، اس لیے سرور کی یہ داستان بہت مقبول ہوئی، لیکن اس کے چند برس بعد ہی زبان اور طرزِ نگارش میں تبدیلیاں آئیں اور بعد میں نقّادوں نے اس داستان کو فقط انشا پردازی کا نمونہ اور ایک یادگارِ ادب شمار کیا۔ اس سے زیادہ اس کی اہمیت تسلیم نہیں کی جاتی۔

    نقّاد مانتے ہیں کہ سرور موقع محل کے مطابق زبان اختیار کرنے پر پوری قدرت رکھتے ہیں۔ منظر کشی، مختلف فنون کی اصطلاحیں، ہر قسم کے سازو سامان کی تفصیلات، عوام النّاس کے مختلف طبقات کا طرزِ کلام، گویا ہر قسم کا بیان نہایت مناسب اور موزوں الفاظ میں کیا گیا ہے۔ عبارت آرائی اور قافیہ بندی میں بھی سرور کی قدرت اور استادی جھلکتی ہے۔

    فسانۂ عجائب کی زبان کو دو حصّوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک قسم سلیس اور بامحاورہ زبان اور دوسری قسم پیچیدہ اور گراں بار ہے جس کو سمجھنے کے لیے قاری کو فرنگی محل کی گلیوں کی خاک چھاننا پڑتی ہے۔

    فسانۂ عجائب سے یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے۔

    "صاحبو! دُنیائے دوں، نیرنگیٔ زمانۂ سِفلَہ پرور، بو قلموں عبرت و دید کی جا ہے۔ گرما گرم آئندہ رَوِندہ کا بازار ہے۔ کس و ناکس جنسِ نا پائیدار، لہو و لعب کا خریدار ہے۔ اپنے کام میں مصروف قضا ہے۔ جو شے ہے، ایک روز فنا ہے۔ معاملاتِ قضا و قدر سے ہر ایک ناچار ہے، یہی مسئلۂ جبر و اختیار ہے۔ کوئی کسی کی عداوت میں ہے، کوئی کسی کا شیدا ہے۔ جسے دیکھا، آزاد نہ پایا؛ کسی نہ کسی بکھیڑے میں مبتلا ہے۔”

    ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
    "دُنيا جائے آزمائش ہے۔ سفیہ جانتے ہیں یہ مقام قابلِ آرام و آسائش ہے۔ دو روزہ زیست کی خاطر کیا کیا ساز و ساماں پیدا کرتے ہیں۔ فرعونِ با ساماں ہو کے زمین پر پاؤں نہیں دھرتے ہیں۔ جب سر کو اٹھا آنکھ بند کر کے چلتے ہیں، خاکساروں کے سر کچلتے ہیں۔ آخرکار حسرت و ارماں فقط لے کر مرتے ہیں۔ جان اُس کی جستجو میں کھوتے ہیں جو شے ہاتھ آئے ذلّت سے، جمع ہو پریشانی و مشقّت سے، پاس رہے خِسَّت سے، چھوٹ جائے یاس و حسرت سے۔ پھر سَر پر ہاتھ دھر کر روتے ہیں۔”

    فسانۂ عجائب 1824ء کی تصنیف ہے۔ حسن و عشق کی اس داستان میں بہت سی غیرفطری باتیں بھی شامل ہیں جنھیں بعض اہلِ نظر نے داستان اور ناول کے بیچ کی کڑی قرار دیا ہے۔ تاہم آج سرور اور ان کی یہ تصنیف اردو ادب کی تاریخ اور نصاب تک محدود ہیں۔

  • نثار بزمی: فلمی موسیقی کو نئی جہت بخشنے والا موسیقار

    نثار بزمی: فلمی موسیقی کو نئی جہت بخشنے والا موسیقار

    فضل احمد کریم فضلی کی فلم ’ایسا بھی ہوتا ہے‘ بطور موسیقار نثار بزمی کی پاکستان میں پہلی فلم تھی، لیکن تقسیمِ‌ ہند سے قبل اور بعد میں‌ بھارت میں قیام کے دوران وہ 40 سے زائد فلموں کی موسیقی ترتیب دے چکے تھے۔

    نثار بزمی نے پہلی بار فلم جمنار پار کے لیے موسیقی ترتیب دی تھی۔ یہ 1946ء کی بات ہے اور 1961ء تک وہ بھارت میں فلم انڈسٹری کے لیے کام کرتے رہے۔ تاہم کوئی خاص کام یابی ان کا مقدّر نہیں بنی تھی۔ نثار بزمی نے 1962ء میں پاکستان ہجرت کی تو جیسے قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہوگئی۔ وہ اپنے عزیز و اقارب سے ملنے کے لیے کراچی آئے تھے اور پھر یہیں کے ہو رہے۔ پاکستان میں نثار بزمی نے فلم انڈسٹری کے لیے لازوال دھنیں تخلیق کیں۔

    فلم ‘لاکھوں میں ایک’ کا مشہور گیت ’چلو اچھا ہوا تم بھول گئے‘ کی دھن نثار بزمی نے ترتیب دی تھی۔ اس کے علاوہ ‘اے بہارو گواہ رہنا، اک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا، رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ، آپ دل کی انجمن میں حسن بن کر آ گئے، دل دھڑکے، میں تم سے یہ کیسے کہوں، کہتی ہے میری نظر شکریہ، کاٹے نہ کٹے رتیاں، سیاں تیرے پیار میں جیسے لازوال گیتوں کے اس موسیقار نے یہاں‌ عزّت، مقام و مرتبہ پایا۔ ان کی ترتیب دی ہوئی دھنوں پر اپنے دور کے مشہور و معروف گلوکاروں نے اپنی آواز کا جادو جگایا۔

    دسمبر 1924ء کو صوبہ مہاراشٹر کے ایک ضلع میں آنکھ کھولنے والے نثار بزمی کا اصل نام سید نثار احمد تھا۔ نوعمری ہی سے انھیں موسیقی سے لگاؤ پیدا ہوگیا تھا اور ان کا شوق اور موسیقی سے رغبت دیکھتے ہوئے والد نے انھیں استاد امان علی خان کے پاس بمبئی بھیج دیا جن سے انھوں نے اس فن کے اسرار و رموز سیکھے۔

    نثار بزمی نے آل انڈیا ریڈیو میں چند سال میوزک کمپوزر کی حیثیت سے کام کیا اور پھر فلمی دنیا میں‌ قدم رکھا، وہ تقسیم کے پندرہ برس تک ہندوستان کی فلم انڈسٹری سے وابستہ رہے تھے اور بعد میں پاکستان ہجرت کرکے فلمی دنیا میں‌ اپنا نیا سفر شروع کیا۔ موسیقار نثار بزمی نے طاہرہ سیّد، نیرہ نور، حمیرا چنا اور عالمگیر جیسے گلوکاروں بھی اپنی آواز کا جادو جگانے کا موقع دیا۔ مختلف شعرا کے کلام پر دھنیں ترتیب دینے والے نثار بزمی خود بھی شاعر تھے۔ ان کا مجموعۂ کلام ’پھر سازِ صدا خاموش ہوا‘ کے نام سے شایع ہوا۔

    کئی فلمی گیتوں کی لازوال دھنوں کے خالق نثار بزمی 22 مارچ 2007ء کو انتقال کرگئے تھے۔ حکومتِ‌ پاکستان نے انھیں پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا تھا۔

  • سلطان محمّد تغلق: برصغیر کی تاریخ کی ایک متنازع شخصیت

    سلطان محمّد تغلق: برصغیر کی تاریخ کی ایک متنازع شخصیت

    سلطان محمّد تغلق کو تاریخ میں ایک متنازع حکم راں کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو بیک وقت اپنی شخصی خامیوں اور خوبیوں کی وجہ سے ناپسندیدہ اور مقبول رہے ہیں۔

    اکثر محققین نے محمد تغلق کو ایک ذہین، عدل پرور اور علم دوست حکم راں کے طور پر متعارف کروایا ہے، مگر ان کے درمیان اختلافِ رائے بھی پایا جاتا ہے۔ سلطان کی شخصیت میں تضاد کی نشان دہی کرتے ہوئے مسلمان مؤرخین کے علاوہ غیرمسلم محققین نے بھی ان کے دورِ حکومت کے بعض اقدامات اور فیصلوں کو ان کی کوتاہ بینی سے تعبیر کیا ہے۔ آج سلطان تغلق کی برسی ہے۔

    مشہور ہے کہ محمد تغلق دینی علم رکھنے کے ساتھ فلسفہ و منطق، ریاضی، فلکیات اور طب جیسے علوم میں گہری دل چسپی رکھتے تھے۔ منشی محمد ذکاء اللہ کی "تاریخ ہندوستان” میں سلطان محمد تغلق کے بارے میں لکھا ہے: "سلطان محمد تغلق، جو اپنی ذہانت اور علم دوستی میں مشہور تھے، انہوں نے مختلف علوم میں مہارت حاصل کی۔ وہ فلسفہ، منطق، ریاضی، فلکیات، اور طب میں گہری دل چسپی رکھتے تھے۔ ان کی یادداشت بہت تیز تھی اور وہ پیچیدہ مسائل کو آسانی سے حل کر لیتے تھے۔ وہ ایک تجربہ کار حکم راں تھے، لیکن ان کے بعض فیصلوں نے ان کی سلطنت کو نقصان پہنچایا۔”

    دوسری طرف اسکاٹش محقق اور مؤرخ، جو برٹش انڈیا کے لیے اپنی خدمات انجام دے رہا تھا، اس نے اپنی تصنیف "ہسٹری آف انڈیا” میں لکھا ہے: "سلطان اپنی ذہانت اور قابلیت میں بے مثال تھے، لیکن ان کی طبیعت میں ایک خاص قسم کی ضد اور جنون تھا۔ ان کے فیصلے اکثر غیر متوقع اور بعض اوقات تباہ کن ہوتے تھے۔ انہوں نے دارالحکومت کو دہلی سے دولت آباد منتقل کرنے کا حکم دیا، جس سے لاکھوں لوگ بے گھر اور پریشان ہوئے۔ ان کا علامتی سکہ جاری کرنے کا تجربہ بھی ناکام رہا اور اس سے معاشی افراتفری پھیل گئی۔”

    تخت نشینی کے بعد سلطان نے اپنی سلطنت کو مستحکم کرنے کے لیے کئی فوجی مہمات کے دوران دکن اور جنوبی ہندوستان کے کچھ حصوں کو فتح کیا۔ گجرات اور مالوا میں بغاوتوں کو کچل دیا، مگر ان کی خراسان، قراجل (ہماچل پردیش) اور دیگر چند چھوٹی ریاستوں میں مہم جوئی ناکام رہی۔ محققین نے ان کی ناکامیوں کی ایک بڑی وجہ دور رس پالیسیوں کا فقدان بتایا ہے۔ سلطان کی فتوحات سے سلطنت دہلی کا رقبہ عارضی طور پر وسیع ہوا، لیکن ان کی پالیسیوں کے منفی اثرات بھی مرتب ہوئے۔

    تغلق، سلاطینِ دہلی کے معروف خاندان میں سے تھے جس خاندان کے تین حکم راں نام وَر ہوئے۔ ان میں‌ بانی حکم راں غیاث الدین تغلق شاہ، سلطان محمد بن تغلق شاہ اور سلطان فیروز شاہ تغلق شامل ہیں۔ لیکن سلاطینِ دہلی کی تاریخ میں محمد تغلق شاہ اپنی شخصی خامیوں اور خوبیوں کی وجہ سے متنازع رہے ہیں۔ انھیں سخت گیر منتظم اور ترقی پسند بادشاہ کہا جاتا ہے اور بعض مؤرخین کے نزدیک وہ بے رحم اور کوتاہ بیں تھے۔ تعجب خیز امر یہ ہے کہ محمد تغلق جن کے بارے میں لکھا جاتا ہے کہ وہ دین کا علم رکھتے تھے، لیکن دوسری طرف ان پر حکومت غیر شرعی سزاؤں اور بعض غیراسلامی احکامات کی وجہ سے بھی تنقید کی گئی ہے۔

    یحییٰ بن احمد سرہندی سلطان محمد تغلق کی بادشاہت کے نتائج پر لکھتے ہیں: ’’اُمورِ سلطنت بالکل چوپٹ ہوگئے اور نظامِ مملکت مکمل طور پر درہم برہم ہو کر رہ گیا، جب ایک طرف سے مملکت میں رونما ہونے والے فتنوں کا سدِ باب کرنے پر توجہ دی جاتی تو دوسری طرف سے فتنوں کا دروازہ کھل جاتا۔ جب ایک طرف ملک میں امن و امان برقرار کرنے کا خیال اس (سلطان) کے دل میں آتا تو دوسری طرف کوئی زبردست خلل واقع ہوجاتا اور وہ (اپنی تدبیروں کے الٹا ہوجانے پر) حیران و پریشان ہو کر رہ جاتا۔ سلطنت کی بنیاد جو کہ گزشتہ بادشاہوں نے ڈالی تھی پوری طرح متزلزل ہوگئی۔ وہ جس کام کا تہیہ کر لیتا تھا (اس کے نتیجے میں) اختلالِ مملکت، نقصانِ دین، اپنی تشویش، ملک داری اور دست گاہِ شہریاری میں سے (اس کے پاس) کچھ بھی باقی نہ رہا۔‘‘

    سلطان محمد بن تغلق کو ایک بہادر، جری حکم راں کے ساتھ ظالم بھی لکھا گیا ہے۔ وہ اپنے مخالفین کو معمولی خطا پر بھی درد ناک سزائیں دینے کے لیے مشہور تھے۔

    سلطان محمد بن تغلق نے مملکتِ ہند اور چین کے درمیان حائل علاقہ قراچل فتح کرنے کے لیے 80 ہزار سواروں پر مشتمل لشکر ترتیب دیا۔ اس مہم کامقصد کیا تھا؟ مذکورہ اَمر میں مؤرخین میں خاصا اختلاف پایا جاتا ہے، کچھ کا خیال ہے کہ وہ چین فتح کرنا چاہتا تھا لیکن یہ بات حقائق کے منافی ہے۔ بعض کی رائے ہے کہ وہ قراچل علاقے کی عورتوں کو اپنے حرم میں دیکھنا چاہتا تھا لیکن یہ اَمر سلطان کے کردار کے تمام جائزوں کے برخلاف ہے۔ کچھ مؤرخین کا خیال ہے کہ وہ پہاڑی علاقے کے سرداروں کو اپنے اقتدارِ اعلیٰ کے زیرِ اثر لانا چاہتا تھا۔ یہ رائے معتبر ہے کیونکہ اشوکِ اعظم کے بعد وہ واحد حکم ران تھا کہ جو’’جنوبی ہند اور شمالی ہند ایک اکائی‘‘ کے نظریہ کا علم بردار تھا۔ یحییٰ بن احمد سرہندی کے مطابق ’’اس نے اپنے سواروں کو حکم دیا کہ وہاں سے جب وہ نشیبی علاقے میں آئیں تو واپسی کے راستے میں (سلسلۂ مواصلات برقرار رکھنے کے لیے) چوکیاں بنائیں تاکہ لوٹتے وقت دشواری نہ ہو۔ جب لشکر وہاں پہنچا تو حسبِ دستور چوکیاں قائم کی گئیں اور سارا لشکر سلسلۂ کوہِ قراچل میں داخل (بھی) ہو گیا لیکن رسد کی کمی اور راستے کی دشواری اِس پر غالب آئی۔ جو چوکیاں قائم ہوئیں تھیں اُن پر پہاڑی لوگوں نے قبضہ کرکے سب چوکیداروں کو قتل کر دیا۔ وہ لشکر جو کہ سلسلۂ کوہِ قراچل میں داخل ہوا تھا سارے کا سارا جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اکثر سردار گرفتار ہوگئے اور کافی عرصہ تک (وہاں) کے راجاؤں کی قید میں رہے۔‘‘

    مہم جوئی کے اخراجات اور بے جا فیاضی کے سبب جب شاہی خزانہ خالی ہوگیا تو سلطان محمد بن تغلق نے اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے سونے کے سکّوں کی جگہ تانبے کے سکّے رائج کرنے کا حکم دیا۔ یہ فیصلہ بھی غلط ثابت ہوا اور اس کے اثرات نے سلطان کی ساکھ و سلطنت کو بہت نقصان پہنچایا۔ جعل ساز اور دھوکے بازوں نے شہروں اور قصبوں میں ٹکسال قائم کر کے دھڑا دھڑ تانبے کے سکّے بنائے اور ان کے عوض سونا، چاندی، گھوڑے، ہتھیار اور دیگر قیمتی اشیا خریدنا شروع کر دیں۔ ایسا کرنے کا منطقی نتیجہ کساد بازاری ہی تھا جس کے بعد سلطان کو ایک بار پھر شاہی فرمان جاری کرنا پڑا کہ لوگ تانبے کے سکّے شاہی خزانے میں جمع کروا کے سونے کے سکّے حاصل کریں۔ اس سے شاہی خزانے کا بھرکس نکل گیا۔

    سلطان محمد بن تغلق نے دکن میں دَیو گری کا شہر آباد کیا جسے بعد ازاں دولت آباد کہا جانے لگا اور پھر اسے سلطنت کا نیا انتظامی شہر قرار دیا۔ اس کے بعد فرمان صادر کیا کہ دہلی اور مضافات کے تمام باشندوں کو کارواں در کارواں دولت آباد میں منتقل کیا جائے اور ان کے لیے مکانات خریدنے کے لیے شاہی خزانے سے پیسے دیے گئے۔ کہتے ہیں کہ اس اَمر سے دہلی شہر ایسا اجڑا کہ چند دنوں بعد یہاں سے بلّی اور کتّے کے بولنے کی آوازیں بھی سنائی نہ دیتی تھیں۔ ایسے میں اوباش لوگ دہلی میں داخل ہوگئے اور جو شہری یہاں رہ گئے تھے ان کو لوٹ لیا گیا لیکن دوسری جانب تمام اطرافی قصبات سے علماء اور مشائخ تک کو دولت آباد میں بسایا گیا۔ حالانکہ دہلی ایک سو ساٹھ سال سے سلطنت کا دارُالحکومت چلا آ رہا تھا۔ دہلی کی بربادی اور دولت آباد کی آبادی بھی سلطان کا غلط فیصلہ تھا۔

    سلطان محمد تغلق 1290ء میں ملتان میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ بادشاہ غیاث الدّین تغلق کی اولاد تھے۔ 1351ء میں آج ہی کے دن سلطان ٹھٹھہ میں بیماری کے سبب انتقال کرگئے تھے۔ وفات کے بعد ان کے چچا زاد بھائی فیروز تغلق کو سلطنتِ دہلی کا نیا حاکم قبول کر لیا گیا۔

  • ڈاکٹر انور سدید: ادب ان کا پہلا عشق تھا

    ڈاکٹر انور سدید: ادب ان کا پہلا عشق تھا

    ڈاکٹر انور سدید اردو ادب میں بطور افسانہ نگار، نقاد، محقق اور کالم نویس پہچانے جاتے ہیں جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ 20 مارچ 2016ء انور سدید انتقال کرگئے تھے۔

    ڈاکٹر انور سدید 4 دسمبر 1928ء کو ضلع سرگودھا کے دور افتادہ قصبہ مہانی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم سرگودھا اور ڈیرہ غازی خان کے اسکولوں میں مکمل کی اور میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ مزید تعلیم کے لیے اسلامیہ کالج لاہور میں داخل ہوئے۔ اس دور میں اسلامیہ کالج لاہور میں تحریک پاکستان کی سرگرمیاں زور پکڑ چکی تھیں، انور سدید بھی ان میں شرکت کرنے لگے اور ایف ایس سی کا امتحان نہ دے سکے۔ اسی دور میں انھوں نے افسانے لکھنا شروع کردیے تھے جو مشہور ادبی جرائد میں شایع ہونے لگے۔ پیشہ ورانہ زندگی کی ابتدا محکمۂ آبپاشی میں لوئر گریڈ کلرک سے کی۔ بعد ازاں گورنمنٹ انجینئرنگ اسکول رسول (منڈی بہاء الدین) میں داخل ہو گئے۔ اگست 1948ء میں اوّل آنے اور طلائی تمغہ پانے کے بعد آب پاشی کے ڈیپارٹمنٹ میں سب انجینئر ہو گئے۔ اسی دور میں‌ دوبارہ تعلیم کی طرف راغب ہوئے اور ایف اے، بی اے اور ایم اے کے امتحان پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے دیے۔ انور سدید نے”اردو ادب کی تحریکیں” کے عنوان سے مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے نگران و سرپرست ڈاکٹر وزیر آغا جیسے بڑے ادیب اور انشا پرداز تھے۔ بعدازاں انور سدید نے انجینئرنگ کا امتحان اے ایم آئی، انسٹی ٹیوٹ آف انجینئر ڈھاکہ سے پاس کیا۔ محکمۂ آبپاشی پنجاب سے 1988ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد صحافت کا پیشہ اختیار کیا۔ اور "نوائے وقت” سے آخر دم تک وابستہ رہے۔ تنقید، انشائیہ نگاری، شاعری اور کالم نگاری میں اپنی فکر اور تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ اے پی این ایس سے بہترین کالم نگار کا ایوارڈ لینے والے انور سدید کو ۲۰۰۹ میں صدر پاکستان نے انھیں تمغائے امتیاز سے نوازا تھا۔

    ڈاکٹر انور سدید نے ادبی تنقید اور دیگر اصناف پر تصانیف یادگار چھوڑی ہیں جو ان کے کالموں‌ کے علاوہ ہیں۔ ان کی تحریروں اور تصانیف پر نظر ڈالی جائے تو ان میں اُردو اَدب میں سفر نامہ، ادبی تاریخ ”اُردو ادب کی تحریکیں، میر انیس کی اقلیم سخن، غالب کا جہاں اور، فکر و خیال، اختلافات، کھردرے مضامین، برسبیل تنقید کے ساتھ متعدد شخصیات پر کتب شامل ہیں۔ خاکہ نگاری کی بات کی جائے تو اس میں‌ محترم چہرے، قلم کے لوگ، ادیبانِ رفتہ اور زندہ لوگ انور سدید کے قلم سے نکلی ہیں۔

  • محمد علی: پاکستانی فلم انڈسٹری کا ناقابلِ‌ فراموش نام

    محمد علی: پاکستانی فلم انڈسٹری کا ناقابلِ‌ فراموش نام

    محمد علی فلم انڈسٹری میں ’’بھیا‘‘ مشہور تھے۔ ان کی فلمیں یادگار بھی ہیں اور بطور اداکار محمد علی کو ایک بے مثال فن کار کے طور پر پیش کرتی ہیں کہ وہ اپنے طرز کے واحد اداکار تھے جن پر پاکستان اور ہندوستان کے کسی بھی دوسرے اداکار کی چھاپ نہیں تھی۔

    اداکار محمد علی 19 اپریل 1931 کو بھارت کے شہر رامپور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا خاندان 1947ء میں تقسیم کے بعد ہندوستان سے کراچی ہجرت کر گیا تھا۔ محمد علی نے 1956ء میں ریڈیو پاکستان حیدرآباد اسٹیشن میں بطور براڈ کاسٹر شمولیت اختیار کی۔ بعد ازاں وہ ریڈیو پاکستان کراچی چلے گئے جہاں اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل ذوالفقار علی بخاری ان کی اداکاری کے لئے ان کے سرپرست بن گئے۔ محمد علی نے اپنے منفرد انداز سے اداکاری کی دنیا کو ایک نئی بلندی سے ہم کنار کیا اور بے مثال کام کیا۔ ان کے فلمی سفر کا آغاز فلم چراغ جلتا رہا سے ہوا تھا اور پھر وہ شوبز کی نگری کا معتبر اور بڑا حوالہ بن گئے۔ بلاشبہ محمد علی کردار میں اس قدر ڈوب جاتے کہ اس پر حقیقت کا گماں ہوتا۔ انہیں اپنی آواز کے اتار چڑھاؤ پر کمال عبور حاصل تھا۔ ان کی آواز اور لب و لہجہ دیگر فن کاروں سے انہیں نمایاں کرتا تھا۔ محمد علی نے اداکارہ شبنم، بابرہ شریف اور دیبا سمیت ماضی کی تمام معروف اداکاراؤں کے ساتھ بطور ہیرو کام کیا، لیکن زیبا کے ساتھ ان کی جوڑی بے حد مقبول ہوئی اور پھر حقیقی زندگی میں بھی وہ رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے اور اس جوڑی نے فلم
    بینوں سے ہی نہایت عزت اور احترام نہیں پایا بلکہ فن و ثقافت کے ہر شعبہ میں وہ ایک مثالی جوڑا سمجھا گیا۔

    محمد علی نے آگ کا دریا، انسان اور آدمی، شمع، آئینہ اور صورت، کنیز اور صاعقہ سمیت درجنوں فلموں میں کام کیا اور فن اداکاری میں اپنا لوہا منوایا۔ ورسٹائل اداکار محمد علی کو تمغائے امتیاز اور تمغائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔ 19مارچ 2006ء کو اداکار محمد علی کا انتقال ہوگیا تھا۔

    محمد علی ان اداکاروں میں سے تھے جو ہر قسم کے کردار کو نبھانا جانتے تھے۔ چاہے وہ المیہ سین ہو یا کامیڈی، چاہے کسی جنگجو ہیرو کا کردار ادا کرنا ہو یا رومانی ہیرو کے طور پر کوئی گانا عکس بند کروانا ہو۔ اداکار محمد علی کی شخصیت ایسی تھی کہ وہ ہر طبقہ سماج کے فلم بینوں میں پسند کیے گئے۔ وہ ذاتی زندگی میں ایک شریف النفس اور دوسروں کے مددگار انسان کے طور پر مشہور تھے۔

  • مزاح‌ نگاری میں نمایاں مقام رکھنے والے شفیق الرحمٰن کا تذکرہ

    مزاح‌ نگاری میں نمایاں مقام رکھنے والے شفیق الرحمٰن کا تذکرہ

    شفیق الرحمٰن کا شمار اردو کے صفِ اوّل کے مزاح نگاروں میں کیا جاتا ہے لیکن وہ ایک عمدہ افسانہ نگار بھی تھے۔ 19 مارچ 2000ء میں شفیق الرحمٰن انتقال کرگئے تھے۔

    9 نومبر 1920ء کو کلا نور ضلع روہتک میں پیدا ہونے والے شفیق الرحمٰن نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج، لاہور سے ایم بی بی ایس کیا تھا۔ وہ قیام پاکستان سے قبل ہی اپنا ادبی سفر شروع کرچکے تھے۔ انھوں نے برطانوی دور میں فوج کے شعبۂ طب سے وابستگی اختیار کی۔ قیامِ پاکستان کے بعد پاک فوج میں خدمات انجام دیں اور میجر جنرل کے عہدے تک ترقّی پائی۔ ان کو لڑکپن اور جوانی میں سیر و سیاحت، کرکٹ، باکسنگ اور تیراکی میں دل چسپی رہی اور کارٹون، مصوری اور فوٹوگرافی بھی ان کا شوق تھا۔ ان کی پہلی کتاب کرنیں 1938 میں اس وقت سامنے آئی جب وہ میڈیکل کے طالب علم تھے۔ 1942 میں انڈین میڈیکل سروس سے جڑنے کے بعد دوسری جنگ عظیم میں مختلف محاذوں پر جانے کا موقع ملا تو کئی ممالک کی سیر بھی کی۔ بذلہ سنج اور نکتہ بیں شفیق الرحمٰن نے اپنے ان اسفار اور واقعات سے بڑی چابک دستی سے مزاح پیدا کیا اور مقبول ہوئے۔ ستمبر 1979 میں فوج کی میڈیکل سروسز ریٹائر ہوئے۔ دسمبر 1980 میں انھیں اکادمی ادبیات پاکستان کا چیئرمین مقرر کیا گیا اور سبک دوشی کے بعد راولپنڈی میں زندگی گزاری۔

    شفیق الرّحمٰن کے مزاحیہ مضامین کا مجموعہ شگوفے 1943ء میں پہلی مرتبہ شایع ہوا۔ بعد میں دیگر کتب لہریں، مدوجزر، پرواز، حماقتیں، پچھتاوے، مزید حماقتیں، دجلہ، کرنیں اور دریچے شایع ہوئیں اور انھیں‌ ملک گیر شہرت اور پذیرائی ملی۔ ایک ناولٹ اور افسانوں کے مجموعے کے علاوہ ان کے ترجمہ کردہ ناول بھی کتابی صورت میں سامنے آئے، معاشیات اور صحّت و امراض سے متعلق بھی ان کی کتب شایع ہوئیں۔

    مزاح نگاری کے ساتھ ڈاکٹر شفیق الرّحمٰن نے افسانے بھی لکھے جن پر رومانوی رنگ غالب نظر آتا ہے۔ حکومتِ پاکستان نے بعد از مرگ ان کے لیے ہلالِ امتیاز کا اعلان کیا تھا۔ مزاح نگار شفیق الرحمٰن راولپنڈی کے ایک فوجی قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • یادِ رفتگاں: معروف صدا کار ایس ایم سلیم کا تذکرہ

    یادِ رفتگاں: معروف صدا کار ایس ایم سلیم کا تذکرہ

    ایس ایم سلیم آج فن و تخیلق کی دنیا میں‌ کئی لوگوں کے لیے ایک اجنبی اور بالخصوص نئی نسل کے لیے نامانوس نام ہے، لیکن کبھی ریڈیو پاکستان پر ان کی آواز ملک کے کونے کونے میں مقبول تھی اور بعد میں ایس ایم سلیم نے ٹیلی وژن پر اپنی اداکاری کی وجہ سے ناظرین کو متوجہ کیا۔ ایس ایم سلیم صدا کار اور اداکار کی حیثیت سے مشہور تھے۔

    16 مارچ 1990ء کو ایس ایم سلیم کا انتقال ہوگیا تھا۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ ایس ایم سلیم نے ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن پر اپنی فن اور صلاحیتوں کا اظہار کر کے شہرت پائی۔ بعد میں وہ امریکا منتقل ہوگئے تھے اور وہیں‌ ہیوسٹن میں ان کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔

    ایس ایم سلیم کا تعلق دہلی سے تھا۔ وہ 18 اگست 1929ء کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنے فنی سفر کا آغاز آل انڈیا ریڈیو سے کیا اور قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کرکے لاہور میں ریڈیو سے وابستہ ہوگئے۔ بعد میں انھوں نے کراچی سینٹر سے ناتا جوڑا اور یہاں سے پروگرام کرتے رہے۔

    ایس ایم سلیم کو ریڈیو پاکستان پر ان کے پروگرام "دیکھتا چلا گیا” کے سبب ملک بھر میں پہچان ملی۔ یہ اس دور میں ریڈیو کا مقبول ترین پروگرام تھا۔ ریڈیو کے لیے ایس ایم سلیم نے یادگار ڈرامے کیے، جن میں رستم اور سہراب سرِفہرست ہیں۔ اس مشہور اور مقبولِ عام ڈرامے میں رستم کا کردار زیڈ اے بخاری نے جب کہ سہراب کا کردار ایس ایم سلیم نے ادا کیا تھا۔

    صدا کاری کے ساتھ ایس ایم سلیم نے اداکاری کے میدان میں بھی خود کو منوایا۔ انھوں نے پاکستان ٹیلی وژن کے متعدد ڈراموں میں کام کیا جن میں انسان اور آدمی اور منٹو راما شامل ہیں۔ اس ڈرامے میں ایس ایم سلیم نے نام ور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کا کردار ادا کیا تھا۔