Tag: مارچ برسی

  • علّامہ ابنِ خلدون: فلسفۂ تاریخ و عمرانیات کے بانی کا تذکرہ

    علّامہ ابنِ خلدون: فلسفۂ تاریخ و عمرانیات کے بانی کا تذکرہ

    مقدمہ، علّامہ ابنِ خلدون کی علمیت اور قابلیت کا ایک شاہکار ہے۔ ابنِ خلدون اسلامی دنیا کی ایک معتبر شخصیت ہیں اور اپنے علمی ذوق و شوق اور تصانیف کی وجہ سے عالمِ اسلام ہی نہیں پوری دنیا میں‌ مشہور ہیں۔

    انھیں فلسفۂ تاریخ کا موجد و بانی ہی نہیں تسلیم کیا جاتا بلکہ عمرانیات، سیاسیات اور اقتصادیات کے کئی مبادی اصول بھی اُنہی سے منسوب ہیں۔ علّامہ ابنِ خلدون کے خاندان اور حسب نسب کے حوالے سے تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں‌ کہ یمن کے قدیم شہر حضرُ الموت سے ان کے اجداد نے اندلس کے شہر قرمونہ ہجرت کی اور بعد میں تیونس کو اپنا مستقر ٹھیرایا جہاں 27 مئی 1332ء کو ابنِ خلدون پیدا ہوئے۔ ان کا گھرانا علمی تھا اور ابنِ خلدون کو ابتدائی عمر ہی میں‌ جیّد علمائے کرام اور اہلِ علم کی صحبت نصیب ہوگئی۔ انھوں نے حفظِ قرآن اور ضروری دینی تعلیم کے ساتھ باقاعدہ علومِ اصول و فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں فلسفہ، منطق، ریاضی اور لسانیات کا درس لیا۔

    نوجوانی میں ابن خلدون نے ہجرت کے ساتھ سیّاحت کا شوق بھی پورا کیا اور اس دور میں انھوں نے مختلف اہلِ علم اور عبقری شخصیات سے بہت کچھ سیکھا اور اپنے علم کے زور پر دوسروں کی نظر میں بھی احترام اور مقام پایا۔ ان کے فہم و ذکا اور علم کا چرچا اس قدر ہونے لگا کہ شاہانِ وقت اور امرا ان کے قریب ہونے لگے۔ انھیں سلاطین نے عزّت و شرف سے نوازا اور عہدوں پر فائز کیا۔ اسی سبب ان کے حاسد اور مخالف بھی پیدا ہوگئے اور ایک موقع پر انھیں قید میں‌ بھی ڈالا گیا۔

    ابنِ خلدون کی کئی تصانیف کا آج نام و نشان نہیں ملتا، لیکن مقدمہ کے بعد سب سے مشہور کتاب’’ تاریخِ ابنِ خلدون‘‘ ہے، اس کے علاوہ، روزنامچے اور مشاہدات بھی ابنِ خلدون نے قلم بند کیے ہیں۔ وہ جب اسکندریہ اور پھر قاہرہ پہنچے تو خلافتِ عباسیہ میں‌ شہرۂ آفاق جامعہ ازہر میں مدرّس مقرر ہوئے۔ اسی زمانے میں‌ انھوں نے اپنے اہلِ خانہ کو تیونس سے قاہرہ اپنے پاس بلوایا، مگر کہتے ہیں کہ جہاز کو سمندر میں‌ حادثہ پیش آیا اور وہ سب موت کے منہ میں‌ چلے گئے جس کی اطلاع ملنے کے بعد صدمے سے دوچار ابنِ خلدون سب کچھ چھوڑ کر حج کے لیے روانہ ہوگئے۔ تاریخی تذکروں میں آیا ہے کہ انھوں نے ایک سال مکّہ مکرمہ میں قیام کیا اور مصر لوٹ آئے جہاں آج ہی کے دن 1406ء میں وفات پائی۔

    جہاں تک سائنس اور فلسفۂ تاریخ کا تعلق ہے عربی لٹریچر میں آج ابن خلدون کا نام بقائے دوام حاصل کر چکا ہے۔ جدت طرازی، فکر کی گہرائی اور وسعتِ نظری ابن خلدون کی امتیازی خصوصیات ہیں۔

    ”مقدمہ ابن خلدون‘‘ دیباچہ تمہید اور چھ ابواب پر مشتمل ہے، جس میں اس نے فلسفۂ تاریخ سے متعلق یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ تاریخ بادشاہوں، سلطنتوں اور جنگوں ہی کا نام نہیں بلکہ تاریخ نام ہے ان وجوہات کے تجسس اور اس کے جاننے کا جو سماجی انقلابات اور اقوام عالم کے رست خیز کے عقب میں کار فرما رہتی ہیں۔ تاریخ پر اس نقطۂ نگاہ سے بحث کرنے سے ابن خلدون کا منشا یہ تھاکہ تاریخ کو ایک محدود اور تنگ دائرے سے اٹھا کر سائنس کے بلند اور ارفع مقام پر لاکھڑا کیا جائے۔ اس تصنیف کے پہلے باب میں وہ سوسائٹی پر عمومیت کے ساتھ اور نسل انسانی کے تنوع اور مختلف طبقات زمین پر خصوصیت کے ساتھ بحث کرتے ہیں۔ باب دوئم میں مصنف خانہ بدوش اور نیم وحشی اقوام کے تہذیب و تمدن پر بحث کرتے ہیں جب کہ تیسرے باب میں بتایا گیا ہے کہ صحرا نشین قبائل میں باہمی اتحاد و یگانگت کا راز رشتۂ خون یا اور کسی ایسی ہی محکم وجہ اشتراک میں مضمر ہے۔ باب چہارم بڑے بڑے شہروں کے معرض وجود میں آنے کے اسباب، ان کی سلطنتوں سے باہمی ربط اور اضلاع پر اثر اور ان سے متعلق دیگر امور پر مشتمل ہے۔ پانچویں باب میں قومی بقا کے ذرائع اور ممالک میں خوش حالی کے حوالے سے شعبہ جات اور کئی نکات زیر بحث لائے گئے ہیں۔

    ان سے قبل ان موضوعات پر کسی نے بھی اتنے مبسوط انداز سے بحث و تمحیض نہیں کی اور نہ ہی کوئی تصنیف اس سلسلہ میں سامنے آئی۔ اگرچہ قبل ازیں یونانی فلسفیوں نے اس موضوع کو جزوی طور پر موضوع تحریر بنایا، تاہم ان کے ہاں اس مضمون کی کوئی مستقل حیثیت نہیں تھی۔ قوموں کی تاریخ کے ساتھ ساتھ ابنِ خلدون نے جن موضوعات پہ قلم اٹھا کر شہرتِ دوام حاصل کی ان میں نظریہ عصبیت، قوموں کے عروج و زوال اور ان کے اسباب، انسانی اخلاق، اخلاق کا تجارت پر اثر، تجارت کی اقسام، معاشرہ و ثقافت، نظریہ ریاست، ریاست کی اقسام سے لے کر امامت، قانون، فکرِ معاش اور فلسفۂ تعلیم تک الغرض ہر وہ موضوع جس کا تعلق کہیں نہ کہیں بھی معاشرہ سے متصل و منسلک ہو اس پر اپنے علم اور مشاہدے کی بنیاد پر ٹھوس اور منطقی انداز میں‌ بات کرنے کی کوشش کی ہے۔

  • غلام جیلانی برق: معروف علمی و ادبی شخصیت

    غلام جیلانی برق: معروف علمی و ادبی شخصیت

    اگرچہ غلام جیلانی برق کو ان کی ایک تصنیف کی وجہ سے پاکستان میں مطعون بھی کیا گیا اور ان کی شخصیت اپنے بعض افکار اور خیالات کے سبب متنازع بھی رہی، مگر ان کی ذہانت اور علمی و ادبی حیثیت سے کسی کو انکار بھی نہیں بلکہ آج بھی ان کو ایک مذہبی اسکالر کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔

    غلام جیلانی برق ایک ماہرِ تعلیم، مصنّف، مترجم اور شاعر تھے جن کا انتقال 1985ء میں آج ہی کے روز ہوا۔ برق کو ان کی علمی استعداد، قابلیت اور تحقیقی کام کی وجہ سے جہاں بہت سراہا جاتا ہے، وہیں مذہبی موضوع پر اپنی ایک تصنیف کے بعد انھیں سخت تنقید اور تنازع کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا لیکن کہا جاتا ہے کہ انھوں نے بعد میں اپنے مؤقف پر نظر ثانی کی اور رجوع کرلیا تھا۔ اس تنازع کے باوجود غلام جیلانی برق کو ہر مکتبِ‌ فکر میں خاص اہمیت ضرور دی جاتی رہی ہے اور انھیں‌ ایک ذی فہم اور دانش ور تسلیم کیا جاتا ہے۔

    26 اکتوبر 1901ء کو پنڈی گھیپ، ضلع کیمبل پور میں پیدا ہونے والے غلام جیلانی برق نے عربی، فارسی اور اردو میں اسنادِ فضیلت حاصل کیں۔ بعد میں عربی اور فارسی میں ایم اے کیا۔ 1940ء میں غلام جیلانی برق نے امام ابنِ تیمیہ کی زندگی اور کارناموں پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔ بعدازاں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوئے اور ملازمت کے ساتھ مختلف موضوعات پر لگ بھگ 40 کتابیں تحریر کیں۔ ان کی قابلِ ذکر تصنیف میں دو اسلام، فلسفیانِ اسلام، مؤرخینِ اسلام، حکمائے عالم، فرماں روایانِ اسلام، دانشِ رومی و سعدی، ہم اور ہمارے اسلاف شامل ہیں۔

    ڈاکٹر غلام جیلانی برق کا انتقال اٹک میں ہوا اور قبرستان عید گاہ میں سپردِ‌ خاک کیے گئے۔

  • ادا جعفری: شعورِ‌ حیات اور دل آویزیٔ فن نے بطور شاعرہ انھیں‌ ممتاز کیا

    ادا جعفری: شعورِ‌ حیات اور دل آویزیٔ فن نے بطور شاعرہ انھیں‌ ممتاز کیا

    اردو ادب میں ادا جعفری کا نام بطور شاعرہ اس لیے بھی امتیازی حیثیت کا حامل ہے کہ انھوں نے اپنے اشعار کو شعورِ حیات کے ساتھ بہت دل آویزیٔ فن سے سجایا ہے۔ انھوں نے جس خوش سلیقگی سے اپنے جذبات اور خیالات کو غزل اور نظم کا پیکر عطا کیا، وہ ان کی شناخت بنا۔

    ادا جعفری کا اصل نام عزیز جہاں تھا۔ وہ 1924ء میں بدایوں کے اک خوش حال گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ تین برس کی تھیں جب ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ بعد کا دور ننھیال میں گزرا۔ ابتدائی تعلیم کے ساتھ اردو فارسی اور انگریزی زبان بھی سیکھی۔ لیکن باقاعدہ کالج نہیں جاسکیں اور گھر پر ہی پڑھنے لکھنے کے ساتھ مطالعہ کے شوق کو اپنائے رکھا۔ نو سال کی عمر میں انھوں نے پہلا شعر کہا۔ ادا جعفری کی زندگی میں کتابیں اور مظاہر فطرت سے لگاؤ بچپن ہی سے شامل رہا تھا اور اسی محبت نے ان کے اندر چھپی ہوئی شاعرہ کو بیدار کیا تھا۔ ان کی شادی 1947ء میں نور الحسن جعفری سے انجام پائی۔ ادا جعفری اختر شیرانی اور اثر لکھنوی سے اصلاح لیتی رہیں۔ ان کے متعدد شعری مجموعہ سامنے آئے جن میں شہرِ درد کو 1968ء میں آدم جی ایوارڈ دیا گیا۔ اس کے علاوہ ’’جو رہی سو بے خبری رہی ‘‘ کے عنوان سے انھوں نے خود نوشت سوانح عمری بھی 1995ء میں لکھی۔ 1991ء میں حکومت پاکستان نے ادا جعفری کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں تمغائے امتیاز سے نوازا تھا۔

    ادا جعفری کے شعری سفر کا آغاز ترقی پسند تحریک کے عروج کے وقت ہوا۔ دوسری جنگ عظیم کی ہنگامہ خیز فضا اور تحریک آزادی کے ساتھ اس وقت کے پُر آشوب ماحول میں ادا جعفری نے اپنی فکر اور جذبے کا اظہار کرنے کے لیے شاعری کی صنف کو اپنایا۔ ادا جعفری نے جاپانی صنف سخن ہائیکو میں بھی طبع آزمائی کی اور ایک مجموعہ ”ساز سخن“ کے نام سے شائع کروایا۔ ان کی تصانیف میں ’’حرف شناسائی‘‘، ”ساز سخن بہانہ ہے‘‘، ”سفر باقی ہے‘‘، ”شہر در‘‘، ’’غزالاں تم تو واقف ہو‘‘ اور ’’میں ساز ڈھونڈتی رہی‘‘ شامل ہیں۔

    اگر جدید شعر و ادب کے معماروں کا تذکرہ کیا جائے تو ادا جعفری کا نام بھی لیا جائے گا جن کو اکثر شاعری کی دنیا کی خاتونِ اوّل بھی کہا جاتا ہے۔ وہ اردو شاعرات میں شعور و کیفیت کے ایک نئے سلسلہ کی پیشرو تھیں۔ انھوں نے نسائی جذبات اور ایک خاص فضا سے آگے نکل کر عام موضوعات اور لوگوں کے مسائل کو بھی اپنے اشعار میں پرویا ہے۔

    ادا جعفری کی ابتدائی غزلیں اور نظمیں 1940ء کے آس پاس اختر شیرانی کے رسالہ "رومان” کے علاوہ اس وقت کے معیاری ادبی رسالوں "شاہکار” اور "ادب لطیف” وغیرہ میں شائع ہونے لگی تھیں اور ان کی پہچان بن چکی تھی۔ شادی کے بعد وہ پاکستان چلی آئیں اور یہاں انھوں نے شاعری کی کتابوں اور خودنوشت سوانح کے علاوہ قدیم اردو شعراء کے حالات بھی قلم بند کیے۔

    شاعرہ ادا جعفری 2014 میں آج ہی کے روز انتقال کر گئی تھیں۔ ان کی ایک غزل بہت مشہور ہوئی اور اسے خاص طور پر استاد امانت علی کی آواز میں پاکستان ہی نہیں بھارت میں بھی بہت پسند کیا گیا جس کا مطلع ہے۔

    ہونٹوں‌ پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے
    آئے تو سہی برسرِ الزام ہی آئے

  • خطاطِ اعظم کہلانے والے محمد یوسف دہلوی کا تذکرہ

    خطاطِ اعظم کہلانے والے محمد یوسف دہلوی کا تذکرہ

    خوش نویسی اور خطاطی نہ صرف ایک فن ہے بلکہ خاص طور پر اسلامی خطاطی کو نہایت متبرک اور باعثِ اجر و ثواب سمجھا جاتا ہے۔ محمد یوسف دہلوی نے اسی فنِ میں بڑا نام و مقام پایا۔

    محمد یوسف دہلوی کو پاکستان ہی نہیں‌ ہندوستان میں بھی استاذُ الاساتذہ تسلیم کیا گیا جنھوں نے اپنے تخلیقی وفور اور اختراع کاری سے خطِ نستعلیق کی طرز ایجاد کی جو ” دہلوی طرزِ نستعلیق” مشہور ہوئی۔ یوسف دہلوی کو اکثر خطّاطِ‌ اعظم بھی لکھا جاتا ہے۔

    خوش نویسی کی مختلف شکلیں ہیں۔ ان میں طغریٰ اور عام خطاطی شامل ہے اور اسی فن میں محمد یوسف دہلوی نے بڑا کمال دکھایا اور ایک خطاط کے طور پر شہرت پائی۔ 11 مارچ 1977 کو یوسف دہلوی ٹریفک حادثے میں زندگی کی بازی ہار گئے تھے۔ ان کے والد منشی محمد الدین جنڈیالوی بھی خطاط تھے جنھوں نے 1932 میں غلافِ کعبہ پر خطاطی کا شرف حاصل کیا۔ یوسف دہلوی نے انہی سے ذوقِ خوش نویسی سمیٹا تھا۔ وہ مختلف خوش نویسوں اور اپنے دور کے باکمال خطاطوں کے فن پاروں کا گہرائی سے مطالعہ کرتے رہے اور اس فن میں اپنی اختراع اور اجتہادی صلاحیتوں کے سبب ممتاز ہوئے۔ انھوں نے ایک نیا طرز متعارف کروایا جسے دہلوی طرزِ نستعلیق کہا جاتا ہے۔

    قیامِ پاکستان کے بعد محمد یوسف دہلوی نے اس وقت کے وزیرِاعظم لیاقت علی خان کی درخواست پر اور ڈاکٹر ذاکر حسین کی کوششوں سے پاکستان کے کرنسی نوٹوں پر اپنے فنِ خطاطی کا مظاہرہ کرنے پر آمادگی ظاہر کی اور یہ کام انجام تک پہنچایا۔ بعد ازاں پاکستان ہجرت کرکے مستقل سکونت اختیار کرلی اور ایک بار پھر یہاں سکوں پر لفظ حکومتِ پاکستان نہایت خوب صورت انداز میں تحریر کیا۔

    یوسف صاحب کے فن سے متعلق متعدد واقعات بھی مشہور ہیں۔ یہاں ہم ایک ایسا ہی واقعہ پیش کررہے ہیں جس کے راوی محمد یوسف دہلوی کے ایک شاگرد نسیمُ الحق عثمانی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

    "یوسف صاحب جب دہلی بلّی ماراں کے ایک کوٹھے پر بیٹھتے تو اس وقت کے ممتاز خطاط وہاں روزانہ حاضری دیتے۔ حضرت باقی امروہوی جو نہ صرف بہت اچھّے خوش نویس تھے بلکہ ایک بلند پایہ شاعر بھی تھے، آپ کے بے تکلّف دوستوں میں سے تھے۔

    ایک روز سب دوستوں کے مشورے سے باقی صاحب نے یوسف صاحب کے سامنے خطّاطی کے ایک مقابلے کی تجویز رکھی اور کہا کہ ناکام ہونے والے کو ہم سب کو بٹیر کھلانا ہوگا۔ یوسف صاحب نے یہ شرط منظور کر لی۔ طے یہ پایا تھا کہ سب دوست وقتِ معینہ پر دریائے جمنا کے کنارے پہنچیں‌ گے۔ ایسا ہی ہوا۔ وہاں‌ سب سے پہلے یوسف صاحب نے لکھنا شروع کیا اور مچھلی کے شکار کی چھڑی سے اردو حروف تہجّی (ا۔ ب۔ ج۔ د) لکھنے شروع کر دیے۔ ابھی س۔ ش تک ہی پہنچے تھے کہ کئی فرلانگ کا سفر طے ہو گیا۔ اس پر سب لوگوں نے کہا کہ خدا کے لیے بس کرو، تم جیتے اور ہم ہارے۔ لیکن یوسف صاحب کا تقاضا تھا کہ نہیں پورے حروف لکھے بغیر نہیں مانوں گا، خواہ آگرے تک جانا پڑے اور پھر بڑی منت سماجت کے بعد منشی جی اپنی ضد سے باز آئے اور بعد میں فرمایا کہ اس ریت پر جو حروف میں نے لکھے ہیں اس کی تصویر جہاز کے ذریعے لے لی جائے اور تصویر میں اگر کوئی حرف فنِ خطاطی کے اصولوں کے خلاف ہو تو میں خطا وار۔”

    محمد یوسف دہلوی نے ریڈیو پاکستان کا مونو گرام بھی بنایا تھا جو قرآنی آیت قُولُوالِلنَّاسِ حُسناً پر مشتمل ہے اور ان کے کمالِ فن کا ایک خوب صورت نمونہ ہے۔

  • آغا شاعر قزلباش: زبان داں، مشہور شاعر اور ادیب

    آغا شاعر قزلباش: زبان داں، مشہور شاعر اور ادیب

    متحدہ ہندوستان میں آغا شاعر قزلباش ایک استادِ فن اور زبان داں کے طور پر شہرت اور اپنے ہم عصروں میں امتیاز رکھتے تھے۔ انھوں نے نثر و نظم کی مختلف اصناف میں‌ اپنی حیثیت کو منوایا۔ آغا صاحب کی قابلیت اور علمی استعداد کا عالم یہ تھا کہ شاعرِ‌ مشرق علّامہ اقبال اور ان جیسے کئی بڑی شخصیات بھی زبان و بیان کے معاملہ میں ان سے رجوع کرتی تھیں۔

    11 مارچ 1940ء کو آغا شاعر قزلباش انتقال کرگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ وہ شاعر، ادیب اور ڈرامہ نویس تھے۔ وہ اردو کے استاد شاعر داغ دہلوی کے شاگردوں‌ میں سے تھے، لیکن ان کی شاگردی اختیار کرنے سے پہلے ہی آغا صاحب زبان دانی اور مشاعروں میں‌ اپنی خوش گوئی کی وجہ سے مشہور ہوچکے تھے۔ ان کے ہم عصر زبان و بیان اور شاعری میں ان کی فصاحت و برجستگی کے معترف رہے۔ آغا شاعر قزلباش کے شاگردوں کی تعداد بھی سیکڑوں‌ میں‌ تھی جو ہندوستان بھر سے تعلق رکھتے تھے اور براہِ راست یا بلواسطہ بھی ان کے علم سے استفادہ کرتے رہے۔

    شاعر اور ادیب آغا صاحب 5 مارچ 1871ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام آغا مظفر علی بیگ قزلباش تھا۔ ان کے جد اعلٰی ان سپاہیوں میں تھے جو نادر شاہ کی فوج میں شامل ہو کر دہلی آئے اور وہیں بس گئے۔ آغا شاعر کے والد آغا عبد علی بیگ بھی شاعر تھے اور فدائی تخلص کرتے تھے۔ دہلی کے کشمیری گیٹ کے محلّہ کھڑکی ابراہیم خاں میں سکونت پذیر یہ کنبہ آسودہ حال تھا۔ وہ اپنی ماں کے بہت لاڈلے تھے۔ آغا صاحب کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ عربی اور قرآن کا درس گھر پر لیا جب کہ فارسی ان کے گھر کی زبان تھی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد دہلی کی مشہور درس گاہ اینگلو عربک اسکول میں داخلہ ہوگیا اور وہیں سے آٹھویں جماعت کا امتحان پاس کیا، اسکول کے زمانہ میں ہی مضمون نویسی اور شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ اسی زمانہ میں آغا صاحب کی ماں وفات پاگئیں اور باپ کی دوسری شادی کے بعد وہ سوتیلی ماں کے ہاتھوں تنگ ہوتے رہے اور پھر انہیں گھر سے نکال دیا گیا۔ بعد میں انھوں نے اپنی علمی استعداد میں خود اضافہ کیا اور اپنے لکھنے پڑھنے کے شوق اور لگن کی بدولت کام یاب ہوئے۔ ان کا خط بہت عمدہ تھا اور اسی سے متاثر ہوکر ایک بیگم صاحبہ نے انھیں نہ صرف پناہ دی بلکہ اپنی غزلیں خوش خط لکھنے کا کام سونپ دیا۔ انہی کے توسط سے بعد میں وہ قدم جمانے میں کام یاب ہوئے اور دہلی کے مشاعروں میں ان کی شرکت لازمی ہوگئی۔ ان کی غزلیں گانے والیوں کے کوٹھوں میں گونجنے لگیں اور گلی کوچوں میں گائی جانے لگیں۔ بعد میں حیدرآباد دکن کا رخ کیا تو وہاں داغ دہلوی کے شاگرد ہوگئے۔ وہیں سے شوخیٔ مضمون اور روزمرہ کا بے تکلف استعمال آپ کے کلام کا جزوِ لازم بنا۔ آغا شاعر قزلباش ایک اچھے ڈرامہ نگار بھی تھے۔ انھوں نے جو چند ڈرامے لکھے ان میں حورِ عرب مشہور ہوا۔

    گوناگوں صلاحیتوں کے مالک آغا شاعر قزلباش نے غزلوں کے علاوہ نظمیں، مرثیے اور منظوم تراجم بھی کیے۔ ڈرامہ اور انشائیہ نگاری کے ساتھ انھوں نے ناول بھی تحریر کیے۔ آغا شاعر قزلباش نے قرآن پاک کا منظوم ترجمہ اور عمر خیام کے رباعیات کا بھی منظوم اردو ترجمہ کیا۔ ان کی نثر کا بھی ایک مجموعہ خمارستان کے نام سے شایع ہوا تھا۔ آغا شاعر قزلباش دہلوی کی شعری تصانیف میں تیر و نشر، آویزۂ گوش، دامنِ مریم اور پرواز شامل ہیں۔

    آغا شاعر قزلباش کا ایک شعر بہت مشہور ہے

    لو ہم بتائیں غنچہ و گل میں ہے فرق کیا
    اک بات ہے کہی ہوئی اک بے کہی ہوئی

    آغا شاعر کو آخری عمر میں مختلف بیماریوں نے گھیر رکھا تھا، جگر اور معدہ جواب دے گئے تھے۔ مہاراجہ کشن پرشاد شاد نے ان کا ماہانہ وظیفہ مقرر کر رکھا تھا جب کہ ریاست خیر پور سے بھی سالانہ وظیفہ پاتے تھے اور گزر بسر اسی پر تھی۔ وہ صفدر جنگ کے قریب قبرستان درگاہ شاہ مرداں میں سپردِ‌ خاک ہوئے۔

  • ممتاز شیریں: اردو ادب کی ناقابلِ فراموش شخصیت

    ممتاز شیریں: اردو ادب کی ناقابلِ فراموش شخصیت

    ممتاز شیریں اردو ادب کی وہ افسانہ نگار، نقّاد اور مترجم ہیں جن کی تخلیقات اور ادبی بصیرت کا اعتراف اپنے وقت کے ہر بڑے اہلِ قلم نے کیا۔ ممتاز شیریں نے ادبی سفر کے ساتھ زندگی کے آخری ایّام میں بطور مشیر وفاقی وزاتِ تعلیم کے لیے بھی خدمات انجام دیں۔

    ممتاز شیریں نہ صرف یہ کہ خود بہت اچھی قلم کار اور صحافی تھیں، مطالعے کا نکھرا ستھرا ذوق بھی رکھتی تھیں بلکہ ان کی جستجو تھی کہ ادیبوں شاعروں کے ساتھ ساتھ با ذوق قارئین تک ہر زبان کی معیاری کتابیں بھی پہنچیں۔ چنانچہ انھوں نے اعلیٰ پیمانے پر کتابوں کی ایک فرم بھی کراچی میں قائم کر رکھی تھی۔

    اُردو ادب کو ممتاز شیریں نے اپنے ادبی شعور، تخلیقی حساسیت اور ذہانت سے عمدہ افسانے اور معیاری تنقید کے ساتھ بہترین تراجم بھی دیے۔ اسی طرح مشاہیر، ہم عصر ادیبوں اور احباب کے نام اُن کے خطوط نہ صرف ان کی شخصیت کے مختلف النوع پہلوؤں کو اُجاگر کرتے ہیں بلکہ اپنے دور کے حالات، ادبی تاریخ و رجحانات کے ساتھ علم و ادب کی دنیا میں مسائل اور سرگرمیوں کا احاطہ بھی بڑی خوبی سے کرتے ہیں۔

    ممتاز شیریں 11 مارچ 1973ء کو انتقال کرگئی تھیں۔ آج ان کی برسی ہے۔ ممتاز شیریں سے ایک ملاقات کے عنوان سے میرزا ادیب لکھتے ہیں: "ممتاز شیریں جس وقت دنیائے ادب میں داخل ہوئیں تو ان کی حیثیت افسانوں کے ایک سخت گیر نقاد کی تھی۔ ان کے مضامین پڑھے تو پتہ چلا کہ یہ خاتون اردو کے افسانے تو رہے ایک طرف انگریزی، روسی اور فرانسیسی افسانوی ادب کا بھی بالاستیعاب مطالعہ کرچکی ہیں۔

    ان کا مقالہ” تکنیک کا تنوع” سویرا میں چھپا تو ہر طرف اس کی دھوم مچ گئی۔ یہ مقالہ ایک ایسے ذہن کی پیداوار معلو ہوتا تھا جس نے برسوں افسانے کی متنوع تکنیک سمجھنے کی کوشش کی اور دنیا کے نام ور افسانہ نگاروں کے مشہور افسانوں کو غور و فکر کی گرفت میں لے چکا ہے۔ یہ مضمون اور ان کے دوسرے مضامین پڑھ کر میں نے ان کے بارے میں ایک خاص تصویر بنالی تھی اس کے بعد ان کے افسانے چھپنے لگے معلوم ہوا کہ وہ جتنی اچھی نقاد ہیں اسی قدر ماہر فن افسانہ نگار بھی ہیں۔

    اپنی افسانوی تحقیقات میں وہ زندگی کی ہر حقیقت کو، وہ کتنی بھی تلخ اور مکروہ کیوں نہ ہو، اس کی پوری جزیات کے ساتھ پیش کردیتی تھیں۔ جنتی موضوعات کے سلسلے میں ان کا قلم خاص طور پر بڑا بے باک تھا۔ سعادت حسن منٹو ان کا پسندیدہ افسانہ نگار تھا۔ اس سے بھی ان کے تخلیقی رجحانِ طبع کا اندازہ ہو جاتا ہے۔”

    انگڑائی، ممتاز شیریں کا پہلا افسانہ تھا جو مشہور ادبی مجلّہ ساقی (دہلی) میں 1944ء میں شائع ہوا تھا۔ اس افسانہ کو اس وقت کے اہل قلم نے بہت سراہا۔ ممتاز شیریں نے بعد میں‌ افسانہ نگاری کے ساتھ اپنی تنقید اور تراجم سے بھی ادب کی دنیا کو مالا مال کیا۔ وہ معروف ادبی جریدے نیا دور کی مدیر بھی رہیں۔ ممتاز شیریں کا شمار ان خواتین ادیبوں میں ہوتا ہے جنھوں نے روایتی سوچ کو مسترد کردیا اور اپنے بے باکی سے اپنے افکار کا اظہار ادبی تحریروں میں کرتی رہیں۔

    12 ستمبر 1924ء کو آندھرا پردیش کے ایک علاقہ ہندو پور میں پیدا ہونے والی ممتاز شیریں کا بچپن ننھیال میں گزرا۔ ان کے نانا میسور میں مقیم تھے اپنی نواسی کو تعلیم و تربیت کی غرض سے اپنے رکھ لیا تھا۔ ممتاز شیریں نہایت ذہین اور قابل طالبہ ثابت ہوئیں۔ گھر کا ماحول بھی علمی و ادبی تھا جس نے انھیں بھی مطالعہ کا شوقین بنا دیا اور پھر وہ لکھنے لکھانے کی طرف راغب ہوئیں۔ 1942ء میں ممتاز شیریں کی شادی صمد شاہین سے ہو گئی۔ ان کے شوہر تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان میں سرکاری عہدے پر فائز رہے اور بیرونِ ملک بھی قیام کیا۔ ممتاز شیریں نے پاکستان میں کراچی کو اپنا مستقر ٹھہرایا تھا۔

    ممتاز شیریں کے افسانوی مجموعوں میں اپنی نگریا، حدیثِ دیگراں اور میگھ ملہار شامل ہیں جب کہ ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے معیار اور منٹو، نہ نوری نہ ناری کے نام سے شایع ہوئے۔ انھوں نے جان اسٹین بک کے مشہور ناول دی پرل کا اردو ترجمہ دُرِشہوار کے نام سے کیا تھا۔ ممتاز شیریں کی آپ بیتی اور خطوط بھی لائقِ مطالعہ ہیں۔

  • شہزادی بمبا: گم نامی کی زندگی گزارنے والی مہاراجہ رنجیت سنگھ کی پوتی

    شہزادی بمبا: گم نامی کی زندگی گزارنے والی مہاراجہ رنجیت سنگھ کی پوتی

    لاہور کے گورا قبرستان میں ایک قبر کے سرہانے خالصہ راج کا امتیازی نشان دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ نشان سکھوں کے دورِ حکومت اور شاہی خاندان کی یاد تازہ کرتا ہے۔ یہ قبر شہزادی بمبا سدرلینڈ کی ہے جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی پوتی تھیں۔

    بمبا سدرلینڈ لاہور میں وفات پانے والی سکھ شاہی خاندان کی آخری فرد تھیں۔ ان کا انتقال 10 مارچ 1957ء کو ہوا۔ یہ وہ شہر تھا جہاں سے ان کے دادا کے بعد دلیپ سنگھ نے پنجاب پر حکومت کی جو ان کے والد بھی تھے۔ شہزادی کو نوجوانی میں گویا لاہور سے عشق ہو گیا تھا۔ وہ دنیا کے کسی بھی امیر اور ترقی یافتہ ملک کی شہریت حاصل کرسکتی تھیں، مگر انھوں نے ایسا نہیں‌ کیا اور یہیں‌ وفات پائی۔

    رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد 1848ء میں انگریزوں نے پنجاب فتح کر کے اس وقت کے مہاراجہ دلیپ سنگھ کو ایک معاہدے کے تحت برطانیہ بھیج دیا تھا۔ دلیپ سنگھ اور ان کے خاندان کو وہاں ملکہ کی سرپرستی حاصل ہوگئی۔ بعدازاں دلیپ سنگھ نے مذہب تبدیل کرلیا اور عیسائیت قبول کرکے برطانوی اشرافیہ کا حصّہ بن گئے، لیکن وہ ایک عیاش اور شاہ خرچ انسان بھی تھے جس نے کثرتِ مے نوشی اور ایسے ہی دوسرے کاموں میں‌ اپنی زندگی برباد کرلی اور اپنا مال و متاع اڑا دیا۔ 1895ء میں دلیپ سنگھ پیرس میں چل بسے۔ سابق حکم راں دلیپ سنگھ اپنی پہلی بیوی سے چھے بچّوں کے والد بنے۔ انہی میں سے ایک بمبا صوفیہ جنداں (Bamba Sofia Jindan) تھیں۔ 29 ستمبر 1869ء کو لندن میں پیدا ہونے والی شہزادی بمبا کی تعلیم و تربیت مشنری اسکول میں ہوئی۔ بمبا کو شروع ہی سے اپنے بزرگوں اور ان کی سلطنت کا احوال جاننے میں دل چسپی رہی تھی۔ وہ اپنی ہندوستانی شناخت کو کھوجنا چاہتی تھیں۔ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنے دادا کی سلطنت کے خاتمے اور اپنے خاندان کی یوں برطانیہ منتقلی کو ذہنی طور پر قبول نہیں کر سکی تھیں۔

    رنجیت سنگھ کا راج شمال مغرب میں درّۂ خیبر سے مشرق میں دریائے ستلج تک اور برصغیر پاک و ہند کی شمالی حد سے جنوب کی طرف صحرائے تھر تک پھیلا ہوا تھا۔ لاہور اس سکھ حکم راں‌ کی سلطنت کا صدر مقام تھا اور اسی شہر سے دلیپ سنگھ کو لندن جانا پڑا تھا۔ ان کی بیٹی بمبا سدرلینڈ نے 88 برس کی عمر پائی۔ لاہور میں مقیم بمبا سدرلینڈ اس عمر میں ضعف اور ناتوانی کا شکار ہوچکی تھیں۔ شہزادی کا جسم فالج سے متاثر تھا۔ شہزادی نے لندن میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ پھر آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور بعد میں امریکی شہر شکاگو کے ایک میڈیکل کالج میں تعلیم مکمل کی۔ بیسویں صدی کے آغاز میں شہزادی بمبا نے ہندوستان آنا جانا شروع کیا اور لاہور میں سکھ دور کی تاریخ کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ شاہی خاندان کی یادگاروں نے ان کو اسی شہر میں قیام کرنے پر مجبور کر دیا۔ سنہ 1915 میں شہزادی بمبا کی شادی لاہور میں‌ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر ڈیوڈ سدرلینڈ سے ہوئی جو 1939 میں انتقال کر گئے۔ لاہور میں سابق شہزادی کی رہائش گاہ ’گلزار‘ کے نام سے مشہور تھی جس میں انھوں نے کئی اقسام کے گلاب کے پودے لگائے ہوئے تھے اور یہ ان کا شوق ہی نہیں وقت گزاری کا ایک ذریعہ بھی تھا۔ اگرچہ وہ کئی سال پہلے لاہور آچکی تھیں، لیکن یہاں مستقل قیام کا اٹل فیصلہ تقسیمِ ہند کے موقع پر کیا اور پنجاب میں اپنے والد دلیپ سنگھ کی جائیداد اور اس سے جڑے دیگر امور سنبھال لیے۔

    شہزادی بمبا کو آرٹ سے گہرا لگاؤ تھا اور ان کے پاس بیش قیمت پینٹگز کا ایک خزانہ تھا جسے شہزادی کی وصیت کے مطابق ملازمِ خاص پیر کریم بخش سپرا کو سونپ دیا گیا۔ اس میں واٹر کلر، ہاتھی کے دانتوں پر پینٹنگز، مجسمے اور آرٹ کے دیگر شاہکار شامل تھے۔ لندن میں سکھ خاندان کے نوادرات کو وصیت کے مطابق جب ملازم پیر کریم بخش نے حکومتِ پاکستان کے تعاون سے لاہور منگوانے کی درخواست دی تو اس کا احترام کیا گیا اور ایک ہفتے میں نوادرات لاہور پہنچ گئے۔ ان اشیا کو شہزادی بمبا کی رہائش گاہ میں محفوظ کر دیا گیا۔ بعد میں اسے قومی اثاثہ قرار دے کر لاہور کے شاہی قلعے میں منتقل کیا گیا۔ شہزادی بمبا کی شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال سے بھی ملاقاتیں‌ رہیں جو ان کی بے انتہا عزّت کرتے تھے۔

  • عبدالحمید عدمؔ: جب کوٹھے پر ایک مغنیہ نے ان کی مشہور غزل چھیڑی

    عبدالحمید عدمؔ: جب کوٹھے پر ایک مغنیہ نے ان کی مشہور غزل چھیڑی

    اردو زبان کے مقبول رومانوی شاعر عبدالحمید عدمؔ کو قادر الکلام اور زود گو شاعر کہا جاتا ہے۔ عدم نے غزل جیسی مقبول صنف کو مختصر بحروں کے انتخاب‌ کے ساتھ خوب برتا۔ ان کا انداز سادہ مگر دل نشیں ہے اور سلاست و روانی ان کے کلام کی وہ خوبی ہے جس نے انھیں ہم عصروں‌ میں انفرادیت بخشی۔

    عبدالحمید عدم کے متعدد اشعار زبان زدِ عام ہوئے۔ یہ اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    ہم مے کدے کی راہ سے ہو کر گزر گئے
    ورنہ سفر حیات کا کتنا طویل تھا

    شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
    محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوں میں

    عدمؔ خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے
    ستم ظریف بڑے جلد باز ہوتے ہیں

    عبدالحمید عدم 10 مارچ 1981ء کو طویل علالت کے بعد لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ یہاں ہم جمیل یوسف کی کتاب ’’باتیں کچھ ادبی کچھ بے ادبی کی‘‘ سے ایک واقعہ نقل کررہے ہیں جو عدم کی شخصیت اور ان کی مقبولیت سے متعلق ہے۔ یاد رہے کہ عدم بھی اکثر شعرا کی طرح مے نوش تھے اور اسی باعث ان کی عراقی نژاد بیوی نے ان سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔

    ایک شام میں نے عدم صاحب سے کہا، ’’عدم صاحب! یہاں ہیرا منڈی میں ایک گانے والی آپ کی غزلیں بڑے شوق سے گاتی ہے۔ اس کی دلی خواہش ہے کہ اُسے کبھی آپ کے سامنے بیٹھ کر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملے۔‘‘

    کہنے لگے ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ میں آپ کو اس گانے والی کے کوٹھے پر لے جاؤں۔ اگر آپ کو اس کی گائیکی پسند آ گئی اور آپ کو وہ محفل اچھی لگی تو میں بتا دوں گا کہ آپ سید عبدالحمید عدم ہیں ورنہ آپ کا تعارف کرائے بغیر وہاں سے اٹھ آئیں گے۔ کچھ سوچ بچار کے بعد عدم صاحب راضی ہو گئے۔ ہم کوٹھے پر جا پہنچے۔ جونہی میرے پیچھے لڑکھڑاتے ہوئے جھومتے جھامتے عدم صاحب تشریف لائے، اُن لوگوں نے فوراً انہیں پہچان لیا۔ ساز و آواز یک لخت خاموش ہوگئے۔ گانے والی پہلے تو اپنی بڑی بڑی آنکھیں کھول کر حیرت سے عدم صاحب کو دیکھنے لگی پھر ایک دم اٹھ کر ان کے پاس آکر جھکی، ان کے پاؤں کو چھوا، اور ان کے ساتھ ہاتھ باندھ کر کھڑی ہو گئی۔

    میں نے عدم صاحب کو بیٹھنے کو کہا۔ ایک بڑی بی نے عدم صاحب کو مخاطب کر کے کہا، ’’شاہ جی! تشریف رکھیں۔ یہ آپ نے بڑا کرم کیا جو ہم غریبوں کے گھر آئے ہیں۔‘‘

    گانے والی کا چہرہ تو شرم و حیا سے لال ہو رہا تھا۔ میں حیران ہوا کہ بازار میں بیٹھی ہوئی ایک گانے والی عدم صاحب سے شرما رہی ہے۔ عدم صاحب بالکل خاموش، پھٹی پھٹی نظروں سے سب کو دیکھ رہے تھے۔ کمرے میں کچھ دیر بالکل سکوت طاری رہا۔ پھر میں نے اس گانے والی سے کہا، ’’تمہیں بڑا شوق تھا کہ عدم صاحب کو ان کی غزلیں سناؤ۔ اب اپنا شوق پورا کر لو۔‘‘ پان اور کوک وغیرہ سے خاطر تواضع ہونے لگی۔ میں نے عدم صاحب پر نظر ڈالی۔ وہ بالکل گم صم بیٹھے تھے۔ جیسے وہاں موجود ہی نہ ہوں۔

    بڑی بی نے کہا ’’شاہ جی فرمائیں۔ آپ کیسے ہیں۔‘‘ اس پر عدم تو بدستور خاموش رہے۔ میں نے کہا، ’’شاہ صاحب نے کیا فرمانا ہے۔ ہم تو سننے آئے ہیں۔ آپ عدم صاحب کو ان کی کوئی غزل سنوائیں۔‘‘ کچھ توقف کے بعد طبلے پر اچانک تھاپ پڑی اور ساز و آواز گونج اٹھے۔ اُس حسینہ نے سب سے پہلے عدم کی یہ مشہور غزل چھیڑی۔

    یہ باتیں تری، یہ فسانے ترے
    شگفتہ شگفتہ بہانے ترے

    یہ محفل دیر تک جمی رہی۔ عدم صاحب مبہوت بیٹھے رہے۔ زبان سے کچھ نہ بولے۔

  • مسعود پرویز:‌ لالی وڈ کو متعدد یادگار اور معیاری فلمیں دینے والا ہدایت کار

    مسعود پرویز:‌ لالی وڈ کو متعدد یادگار اور معیاری فلمیں دینے والا ہدایت کار

    مسعود پرویز نے بطور ہدایت کار پاکستانی سنیما کو متعدد یادگار فلمیں دیں اور وہ ان ہدایت کاروں میں سے تھے جنھوں نے اپنی فنی صلاحیتوں کو منواتے ہوئے فلم بینوں کو معیاری تفریح فراہم کی۔

    صدارتی ایوارڈ یافتہ ہدایت کار مسعود پرویز 2001ء میں ‌آج ہی کے روز انتقال کرگئے تھے۔ وہ ایک علمی و ادبی گھرانے کے فرد تھے۔ اردو کے معروف افسانہ نگار اور فلم نویس سعادت حسن منٹو کا شمار بھی مسعود پرویز کے قریبی عزیزوں میں ہوتا تھا۔ ہدایت کار مسعود پرویز بھی امرتسر کے باسی تھے۔ تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان ہجرت کی اور بطور ہدایت کار فلمی صنعت سے وابستہ ہوئے۔ 1918ء میں پیدا ہونے والے مسعود پرویز نے قیامِ پاکستان سے قبل بننے والی فلم منگنی میں بطور ہیرو بھی کام کیا تھا۔ پاکستانی فلمی صنعت میں مسعود پرویز نے کئی برس کے سفر میں اپنی فنی مہارت اور تجربے سے بیلی، انتظار، زہرِ عشق، کوئل، مرزا جٹ، ہیر رانجھا، مراد بلوچ، نجمہ، حیدر علی اور خاک و خون جیسی فلموں کو یادگار بنا دیا۔ انھوں نے اردو زبان میں 13 اور پنجابی میں اٹھ فلمیں بنائیں۔ مسعود پرویز کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ نیف ڈیک نے ان کے فن و تجربہ سے استفادہ کیا۔ یہ وہ ادارہ تھا جس کے تحت قوم میں جذبۂ حب الوطنی ابھارنے اور جوش و ولولہ پیدا کرنے کے لیے فلمیں‌ بنائی گئیں۔ اس ادارے کے تحت تاریخی ناول نگار نسیم حجازی کی کہانی سے ماخوذ فلم 1979 میں‌ خاک و خون کے نام سے بنائی گئی تھی۔

    1957ء میں مسعود پرویز کو بطور ہدایت کار فلم انتظار کے لیے صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ مجموعی طور پر اس فلم کو 6 صدارتی ایوارڈ دیے گئے تھے جن میں سے ایک مسعود پرویز کے نام ہوا۔

    مسعود پرویز نے فلم ہیر رانجھا اور خاک و خون پر فلم انڈسٹری کا سب سے متعبر نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کیا جب کہ ان کی ڈائریکش میں دوسری فلمیں بھی نگار ایوارڈ لینے میں کام یاب رہیں۔

    فلم ڈائریکٹر مسعود پرویز نے لاہور میں وفات پائی اور ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔

  • اختر الایمان: معروف نظم گو شاعر اور بہترین فلمی مکالمہ نویس

    اختر الایمان: معروف نظم گو شاعر اور بہترین فلمی مکالمہ نویس

    اختر الایمان کا نام اردو نظم کے لیے نئے معیارات متعین کرنے والے منفرد شاعر کے طور پر لیا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنے دور میں جب غزل کا بول بالا تھا، اس صنف سے کنارہ کرتے ہوئے صرف نظم کو شعری اظہار کا ذریعہ بنایا۔

    وہ 12 نومبر 1915 کو مغربی اتر پردیش کے ضلع بجنور میں بستی قلعہ پتھر گڑھ کے ایک مفلوک الحال گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام حافظ فتح محمد تھا جو پیشہ سے امام تھے۔ اس گھرانے نے بڑی غربت اور تنگی دیکھی جب کہ ماں اور باپ کے کشیدہ تعلقات نے بھی ان پر منفی اثر ڈالا۔ جلد ہی وہ اپنی چچی جو ان کی خالہ بھی تھیں، ان کے ساتھ دہلی چلے گئے اور وہیں آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ ان کے ایک استاد نے اختر الایمان کو لکھنے لکھانے کی ترغیب دی اور ان کی حوصلہ افزائی سے اختر نے سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں شاعری شروع کی۔ فتحپوری اسکول سے 1937 میں میٹرک پاس کیا۔ اور اینگلو عربک کالج میں‌ داخلہ لیا۔ کالج میں وہ اک آتش نوا مقرراور رومانی نظموں کی بدولت سب کی نظروں میں اہمیت اختیار کرگئے۔ اسی زمانہ میں ان کی مرضی کے خلاف ان کی شادی کر دی گئی جو طلاق پر ختم ہوئی۔ اختر نے کئی رومانس کیے اور مایوس و ناکام بھی رہے۔ شہروں شہروں معاش کے لیے پھرے اور پھر بطور کہانی نویس اور مکالمہ نگار ملازمت کر لی۔ بمبئی گئے تو فلموں میں مکالمے لکھنے کا کام مل گیا۔ 1947 میں انھوں نے سلطانہ منصوری سے شادی کی جو کام یاب رہی۔ بمبئی میں اختر الایمان کی مالی حالت میں بہتری آئی، وہاں اختر الایمان نے سو(100) سے زیادہ فلموں کے مکالمے لکھے جن میں نغمہ، رفتار، زندگی اور طوفان، مغل اعظم، قانون، وقت، ہمراز، داغ، آدمی، مجرم، میرا سایہ، آدمی اور انسان جیسی کام یاب فلمیں شامل تھیں۔ ان کا نام بھی ادبی حلقوں میں ان کی نظموں اور غزل مخالف شاعر کے طور پر مشہور ہوا۔

    9 مارچ 1996 کو اخترالایمان عارضۂ قلب کے سبب انتقال کرگئے تھے۔ یہاں ہم ہندوستان کے مشہور شاعر اور ادیب رفعت سروش کے اخترالایمان سے متعلق ایک مضمون سے چند پارے نقل کررہے ہیں جو اس شاعر اور ادیب کی زندگی اور تخلیقی سفر کو بیان کرتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ادب میں اختر الایمان کی پہچان ایک شاعر کی طرح ہے، لیکن وہ تنہا شاعر ہیں جنھوں نے فلم میں رہ کر اپنی شاعری کو ذریعۂ معاش نہیں بنایا۔ تقریباً نصف صدی وہ فلم انڈسٹری سے وابستہ رہے، فلموں کے لیے اسکرین پلے اور مکالمے لکھتے رہے لیکن (سوائے فلم ’’غلامی‘‘ کے اوپیرا کے) کوئی گانا انھوں نے فلم کے لیے نہیں لکھا۔

    ایسا نہیں کہ فلم کی سطح تک اتر کر شاعری نہیں کرسکتے تھے مگر ان کا شاعری کے لیے جذبۂ احترام تھا کہ انھوں نے اسے میوزک ڈائریکٹروں کی دھنوں کی تان پر قربان نہیں کیا۔ بلکہ اپنے ’’شعری جینیس‘‘ کو صرف سنجیدہ اور فکر انگیز شاعری کے لیے ہی محفوظ رکھا اور فلمی ادیبوں کی بھیڑ میں منفرد رہے۔ آج کے دور میں اپنے فن کے لیے اس قدر پرخلوص ہونا بے مثال ہے۔

    اخترالایمان نے نہ صرف یہ کہ فلمی شاعری نہیں کی، بلکہ سیاسی اور نیم سیاسی قصیدے بھی نہیں لکھے۔ اپنی شاعری کو ہر مصلحت سے دور رکھا اور وہی کہا جو شدت سے محسوس کیا اس لیے وہ اپنے پہلے مجموعۂ کلام ’’گرداب‘‘ کی اشاعت (۱۹۴۳ء) کے ساتھ ہی صفِ اوّل کے شاعروں میں شمار کیے جانے لگے تھے اور یہ بلند مرتبہ انھیں اپنے ہم عصروں میں ممتاز کرتا ہے۔ اخترالایمان کی شاعرانہ عظمت نہ کسی ’’تحریک‘‘ کی رہین منت ہے نہ کسی سیاسی یا غیرسیاسی گروہ یا شخصیت کی۔ وہ تنہا اپنے بل پر نمایاں رہے، بھیڑ میں سب سے الگ۔

    راقم الحروف کی ملاقات اختر الایمان سے ٹھیک ساٹھ سال پہلے ہوئی۔ ۱۹۴۲ء ماہ جون، میرے آبائی قصبہ نگینہ میں آل انڈیا انصار کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں ہندوستان کے کونے کونے سے انصاری برادری کے لیڈران آئے تھے۔ میرا مطلب ہے ’’انصاری جدید‘‘ اور اس کانفرنس کی وجہ سے قصبہ کے ایک مشہور حکیم ایوب انصاری اپنی بدنامی سے اس قدر ڈرے ہوئے تھے کہ تین روزہ کانفرنس کے دوران اپنے گھر سے ہی نہ نکلے۔ اس کانفرنس کے سکریٹری مشہور رہنما قیوم انصاری نے ایسی گرم تقریر کی کہ غیر انصاریوں کو جوش آگیا اور نقصِ امن کا اندیشہ ہونے لگا۔ تب صدر محفل کے کہنے پر اخترالایمان نے جو ان ’جغادریوں‘ کے سامنے ’’طفلِ مکتب‘‘ معلوم ہو رہے تھے، وہ دھواں دھار تقریر کی کہ دونوں فریقوں کو شکایت کی گنجائش نہ رہی۔ انھوں نے کہا کہ دراصل یہ انگریزی سامراج کی حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ ملّتِ اسلامیہ کے دو گروپ ایک دوسرے کے حریف بنے ہوئے ہیں۔ اختر الایمان اس انصار کانفرنس کے ہیرو ٹھہرے۔ اور بعد میں ہم نوجوانوں نے جو ’’ساقی‘‘ میں ان کی نظمیں پڑھتے تھے، ان سے کلام سنانے کی فرمائش کی تو اخترالایمان نے اپنی دو نظمیں ’’نقش پا‘‘ اور ’’محلکے‘‘ ترنم سے سنائیں۔ تب تک ان کا مجموعۂ کلام شائع نہیں ہوا تھا۔ چند ماہ بعد پھر وہ نگینہ تشریف لائے اور اس رات ہم نے ان کی زبانی وہ سب نظمیں سنیں جو ’’گرداب‘‘ میں شائع ہوئیں۔

    ’’انصار کانفرنس‘‘ کی لیڈری ان کے قدموں میں تھی مگر اختر نے اس سلسلے کو منقطع کردیا۔ ان دنوں وہ ساغر نظامی کے رسالے ’ایشیا‘ کے نائب مدیر تھے۔ نگینہ کے بعد اخترالایمان سے میری ملاقاتیں دہلی میں ہوئیں مگر وہ جلد ہی علی گڑھ ایم۔ اے کرنے چلے گئے۔ وہاں بھی ایک سال رکے اور ان کے کچھ عرصہ کے لیے قدم تھمے۔ پونا میں اور پھر پونا سے بمبئی۔ بمبئی میں اخترالایمان کو خاصی جدوجہد کرنی پڑی۔ انھوں نے فلم کا اسکرین پلے اور مکالمے لکھنا اپنا ذریعہ معاش بنالیا۔ باندرہ میں ان کا دو کمرے کا ایک فلیٹ تھا، گراؤنڈ فلور پر۔ پھر جب ان کی مقبولیت اور آمدنی میں اضافہ ہونے لگا تو انھوں نے اس مکان میں اپنی لائبریری بنالی اور باندرہ میں ہی ایک بڑا فلیٹ خرید لیا۔ بمبئی آنے کے بعد ان کی شادی ہوئی۔ اس نئے فلیٹ میں وہ ایک خوش حال زندگی گزار رہے تھے۔ ان کی لکھی ہوئی فلم ’’قانون‘‘ جس میں کوئی گانا نہیں تھا، ان کے مکالموں کے باعث بہت مقبول ہوئی اور وہ ان کی کامیابی اور خوش حالی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ البتہ آخری دنوں میں انھوں نے بیماری اور مالی مجبوریوں کے باعث وہ بڑا فلیٹ بیچ دیا تھا اور باندرہ میں ہی دو کمرے کا فلیٹ خرید لیا تھا۔

    میں ان کے عقیدت مندوں میں تھا اور اکثر ان کے گھر ان سے ملنے جاتا تھا اور مجھے اخترالایمان نے ہمیشہ ایک مشفق بزرگ کا پیار دیا۔

    جس طرح اخترالایمان نے غزل نہیں لکھی اور فلمی شاعری نہیں کی اسی طرح ان کی وضع داری کا ایک گواہ ان کا لباس بھی تھا۔ وہ ہمیشہ بغیر کالر کا کھدر کا کرتہ اور پاجامہ پہنتے تھے۔ دہلی میں تو سردیوں میں شیروانی پہنتے تھے مگر بمبئی میں بس ان کا یہی ایک لباس تھا۔ کھدر کا سفید کرتہ اور پاجامہ۔ اس لباس میں میں نے انھیں پہلی بار نگینہ میں دیکھا تھا۔ اور اسی لباس میں ان کے انتقال سے کچھ دن پہلے تک دیکھا۔

    اختر الایمان کا ایک وصف بہت کاٹ دار تقریر کرنا تھا۔ ان کی سب سے پہلے تقریر تو میں نے انصار کانفرنس کے اسٹیج پر سنی اور دوسری تقریر ۱۹۴۴ء میں دہلی کے دربار ہال میں جہاں ترقی پسندوں اور رجعت پرستوں کے درمیان باقاعدہ مناظرہ ہوا تھا۔ ایک طرف خواجہ محمد شفیع، مولانا سعید احمد اکبر آبادی اور سلطان اور دوسری طرف سید سجاد ظہیر، فیض احمد فیض اور اخترالایمان تھے۔ اختر الایمان کی تقریر مدلل اور برجستہ تھی۔ ایک کامیاب ڈبیٹر کی تقریر اخترالایمان کی تیسری معرکۃ الآراء تقریر میں نے بمبئی میں صابو صدیق انسٹی ٹیوٹ کے ہال میں سنی۔ یہ بھی ایک مناظرہ ہی تھا۔

    یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ سردار جعفری کی انانیت نے اختر الایمان کو پنپنے نہ دیا لیکن جب ۱۹۶۰ء میں جدیدیت کی رو چلی تو اس گروپ نے اختر الایمان کو اپنا بنالیا تو اختر الایمان کو دیر سے ہی سہی، اپنی کاوشوں کا صلہ ملا اور ادبی حلقوں میں وہ سردار جعفری سے کہیں بہتر شاعر تسلیم کیے جانے لگے۔ مگر اپنے وقت کے ان دونوں بڑے شاعروں میں ایک محتاط دوستی تھی۔ محفلی زندگی میں دونوں ایک دوسرے کے دوست تھے۔ ایک دوسرے کے گھر آنا جانا بھی تھا، ملنا جلنا بھی تھا۔ لیکن معاصرانہ چشمک کی ایک لہر دونوں طرف تھی۔

    اختر الایمان ذاتی طور پر نہایت شریف، رقیق القلب اور ہمدرد انسان تھے۔ انھوں نے زندگی کا تلخ ذائقہ بچپن سے چکھا تھا، اس لیے ان کے دل میں ضرورت مندوں کی امداد کرنے کا جذبہ تھا۔ میں اختر الایمان کی ایک بات کبھی نہیں بھولتا۔ مجھے اپنے کالج میں فیس جمع کرنی تھی اور پیسے کا کہیں سے انتظام نہیں ہوسکا تھا۔ میں اختر الایمان کے پاس باندرہ گیا، ان کے پاس بھی گھر میں روپے نہیں تھے مگر بینک میں تھے۔ وہ میری خاطر شدید بارش میں اپنے گھر باندرہ سے میرے ساتھ نکلے اور فلورا فاؤنٹین آئے۔ اپنے بینک سے روپیہ نکالا اور میری ضرورت پوری کی۔ اخترالایمان کی پوری زندگی ثابت قدمی، خود اعتمادی، قناعت اور انسان دوستی سے عبارت ہے۔ ان کی نظمیں ان کے دل کی گہرائیوں سے نکلی ہیں۔ ان کا رنگِ سخن اور ان کا لب ولہجہ کسی قدیم شاعر کی صدائے بازگشت نہ تھا اور نہ ان کے بعد کوئی ان کے رنگ و آہنگ میں لب کشائی کرسکا۔ ان سے ملاقات کا شوق ہو تو ان کی نظم ’’ایک لڑکا‘‘ پڑھ لیجیے جس کے متعلق سجاد ظہیر نے پاکستان سے واپس آنے پر کہا تھا کہ اردو کا گزشتہ دس سال کا ادب ناکارہ ہے سوائے ایک نظم ’’ایک لڑکا‘‘ کے۔