Tag: مارچ برسی

  • سروجنی نائیڈو: ہندو مسلم اتحاد کی حامی اور محمد علی جناح کی مداح

    سروجنی نائیڈو: ہندو مسلم اتحاد کی حامی اور محمد علی جناح کی مداح

    سروجنی نائیڈو کا نام متحدہ ہندوستان اور انگریزوں سے آزادی کی جدوجہد کے دوران ایک ایسی شاعرہ اور مدبر خاتون کے طور پر مشہور تھا جو ہندو مسلم یکجہتی اور یگانگت کے لیے متحرک رہیں۔ انھیں ایک آزادی کی تحریک میں‌ اپنے سیاسی کردار اور سماجی خدمات کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔

    سروجنی نائیڈو حیدرآباد دکن کے ایک بنگالی گھرانے کی فرد تھیں۔ ان کے والد اگورناتھ چٹوپادھیا ایک سائنس داں، فلسفی، اور ماہرِ تعلیم تھے اور والدہ بنگالی شاعرہ وردا سندری دیوی تھیں۔ ان کے والد نظام کالج حیدرآباد کے بانی تھے۔ سروجنی نائیڈو ایک قابل اور باصلاحیت خاتون تھیں جنھوں نے سولہ سال کی عمر میں انگلستان سے تعلیم مکمل کی اور انگلینڈ میں قیام کے دوران سفر گیٹ تحریک سے وابستہ رہیں۔ سروجنی نائیڈو کا پہلا مجموعہ The Golden Threshold لندن کے ناشر نے چھاپا تھا اور اس کے بعد دو مزید مجموعے The Bird of Time اور The Broken Wing بتدریج 1912ء اور 1917 ء میں منظر عام پر آئے تھے۔ اگرچہ وہ سیاست کے میدان میں بہت مصروف رہی تھیں لیکن اس کے باوجود نظم نگاری جاری رکھی تاہم کوئی مجموعہ ان کی وفات تک شایع نہیں ہوسکا۔ 1905 میں ان کا پہلا مجموعہ شائع ہوا تھا۔ سروجنی نائیڈو کی نظموں میں ہندوستانی زندگی کا عکس ملتا ہے۔ اسی سال وہ بنگال کی تقسیم کے خلاف احتجاج میں انڈین نیشنل کانگریس کی طرف سے شامل ہوگئی تھیں اور تا دم آخر سیاست میں فعال رہیں۔ سروجنی نائیڈو ہندوستان میں خواتین کے حقوق کی پُر زور حامی اور ہندو مسلم اتحاد کی بڑی داعی تھیں۔

    سروجنی نائیڈو 13 فروری 1879 کو پیدا ہوئی تھیں۔ تحریک آزادی میں ان کا بڑا فعال کردار رہا اور بعد میں‌ وہ انڈین نیشنل کانگریس کی صدر بھی رہیں۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد انھیں اترپردیش کا گورنر بھی مقرر کیا گیا تھا۔

    مسز سروجنی نائیڈو کو بطور شاعرہ بلبل ہندوستان کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ وہ 2 مارچ 1949 کو تقسیم ہند کے ایک سال بعد ہی دل کا دورہ پڑنے سے چل بسی تھیں۔

    سروجنی نائیڈو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بانی محمد علی جناح کی ایک مداح تھیں۔ علمی سیاست اور آزادی کی تحریک میں‌ نمایاں کردار نبھانے کی وجہ سے ان کے ہندوستان کے بڑے سیاست دانوں‌ اور اکابرین سے اور سیاسی اور خاندانی نوعیت کے تعلقات تھے اور ان میں ہندو مسلم اور دیگر اقلیتوں کے سیاسی اور سماجی راہ نما شامل تھے۔ سروجنی نائیڈو ہندوستان کی ہنگامہ خیز سیاست کے کئی ادوار اور اہم فیصلوں کے لیے منعقدہ اجلاسوں میں نہ صرف شریک رہیں بلکہ اپنا مؤقف بھی بڑے اعتماد اور دلیل کے ساتھ سامنے رکھا۔

    قومی تحریک میں شمولیت اور فعال کردار ادا کرنے کے دوران وہ مہاتما گاندھی کے بہت قریب رہیں اور جدوجہد آزادی کے ساتھ گاندھی کا عدم تشدد کا فلسلفہ اور سول نافرمانی کو دل کی گہرائیوں سے قبول کیا جس کے بعد وہ ان کے قریبی ساتھیوں اور حامیوں میں سے ایک بن گئی تھیں۔ 1920 میں وہ عدم تعاون کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی نظر آئیں اور متعدد بار گرفتار بھی ہوئیں۔ ہندوستان میں تحریکِ آزادی کے دوران وہ نہ صرف ہندو اکابرین بلکہ مسلمان قیادت کے ساتھ بھی مسلسل بات چیت کرکے قومی یکجہتی برقرار رکھنے کے لیے کوششیں کرتی رہیں۔ ان کے اسی کردار کے اعتراف میں ان کو کانپور سیشن 1925 میں انڈین نیشنل کانگریس کی صدر کے طور پر مقرر کیا گیا تھا۔

    ان کی شخصیت کا ایک اور پہلو بہترین مقررہ ہونا ہے جس نے زورِ خطابت سے ہندوستان میں‌ بڑی شہرت پائی۔ وہ فصیح و بلیغ مقررہ تھیں اور خطابت کا گُر بخوبی جانتی تھیں۔ ایک موقع پر مسلم یونیورسٹی کے جلسے میں شریک ہوئیں تو کہا: ”میں آج مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں کئی لوگوں کے مشورے کے خلاف اور چند لوگوں کی دھمکی کے باوجود حاضر ہوئی ہوں، مجھے علی گڑھ کی ضلعی اور یو پی کی صوبائی کانگریس نے پہلے مشورہ اور پھر حکم دیا کہ تم مسلم یونیورسٹی کا دورہ منسوخ کر دو۔ انہیں یہ بات بھو ل گئی کہ گورنر کی حیثیت سے میں اب کانگریس کی ممبر نہیں رہی لہٰذا نہ ان کی رائے کی پابند ہوں نہ ان کے ضابطے سے مجبور، اور میں کسی کی دھمکیوں کو کب خاطر میں لاتی ہوں۔ میں حاضر ہوگئی ہوں، بلبل کو چمن میں جانے سے بھلا کون روک سکتا ہے؟،،

    مختار مسعود جیسے صاحبِ طرز ادیب اور انشا پرداز نے اپنی مشہور تصنیف آوازِ دوست میں ان کا شخصی خاکہ کچھ یوں رقم کیا ہے۔

    "دبلی پتلی ،بوٹا قد، تنگ دہن، آنکھیں کشادہ اور روشن، بالوں میں گھنگھر ہیں اور چھوٹا سا جوڑا گردن پر ڈھلکا ہوا ہے، جوڑے میں جڑاؤ پھول ہیں اور گلے میں موتیوں کا ہار۔

    بائیں ہاتھ کی پہلی انگلی میں بڑی سی انگوٹھی ہے، ساڑی کا پلّو کاندھے پر کلپ سے بندھا ہوا، صورت من موہنی، پہلی نظر میں پُراثر، دوسری میں پُراسرار، میں نے بھی جب اس بُت کو دوسری بار نظر بھر کر دیکھا تو صورت ہی بدلی ہوئی تھی۔

    ایک بھاری سانولی اور معمّر عورت نے سلک کی سلیٹی ساڑی باندھی ہے۔ پلّو سَر پر ہے، اور نصف چہرہ بھی اس میں چھپا ہوا ہے۔ اس نے دائیں ہاتھ سے ایک خوش نما قوس بنائی اور اسے ابرو کے سامنے لا کر سَر کی ہلکی سی جنبش کے ساتھ مسلم یونیورسٹی کورٹ کے اراکین کو جو وکٹوریا گیٹ میں صف بستہ کھڑے تھے، یوں آداب کیا، گویا وہ مسلم تمدن کا مرقع ہے یا شائستگی کا مجسمہ۔

    آداب کرتے ہوئے ساڑی کا پلّو چہرے سے ڈھلک گیا تو ہم نے پہچانا کہ یہ سروجنی نائیڈو ہے۔”

  • شبنم شکیل: شاعرہ، افسانہ نگار اور نقاد

    شبنم شکیل: شاعرہ، افسانہ نگار اور نقاد

    شبنم شکیل کی شاعری میں نسائی جذبات اور وہی رنگ غالب ہے جو اردو زبان میں اکثر شاعرات کے ہاں دیکھا جاتا ہے، مگر شبنم شکیل کی شاعری میں روایت کے ساتھ منفرد انداز بھی ان کی پہچان ہے۔

    1960ء کی دہائی میں شاعری سے پہچان بنانے والی شبنم شکیل نے غزل گوئی کو اہمیت دی۔ شبنم شکیل نے ایک علمی و ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی تھی۔ ان کے والد سید عابد علی عابد لاہور کے ادبی اور تعلیمی حلقوں میں ایک مقتدر شخصیت تھے۔ عابد صاحب شاعر، محقق، نقاد اور کئی ادبی حیثیتوں میں‌ ممتاز تھے۔ انھوں نے زبان و بیان اور فن و شخصیت پر کئی کتابیں یادگار چھوڑی ہیں‌۔ شاعرہ، ادیب و نقاد شبنم شکیل انہی کی صاحب زادی تھیں اور ماہرِ تعلیم بھی مشہور تھیں۔ 2 مارچ 2013ء کو شبنم شکیل اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ آج ان کی برسی ہے۔

    لاہور میں‌ 12 مارچ 1942ء کو پیدا ہونے والی شبنم شکیل نے ابتدائی تعلیمی درجات کی تکمیل کے بعد اسی شہر کے اسلامیہ کالج سے گریجویشن مکمل کی۔ اس کے بعد اورینٹل کالج، لاہور سے اردو ادب میں ماسٹرز کیا۔ ماسٹرز کرنے کے بعد وہ بطور لیکچرر تدریس کے لیے ایک کالج سے وابستہ ہوگئیں۔

    شعر و شاعری کا شوق تو شبنم شکیل کو اپنے والد کی وجہ سے ہوا تھا۔ جب کہ کم عمری ہی میں مطالعے کی عادی ہوچکی تھیں اور اسی نے ان کے دل میں لکھنے اور ادب میں نام و مقام بنانے کی لگن بھی پیدا کردی۔ قلم تھاما تو حوصلہ افزائی بھی ہوئی اور پھر شبنم شکیل کے تنقیدی مضامین پر مشتمل پہلی کتاب 1965ء میں شائع ہوگئی جس کے بعد یہ سلسلہ مزید آگے بڑھا۔ شاعرہ اور نقاد شبنم شکیل نے اپنے فنی اور تخلیقی سفر میں متعدد ایوارڈز اپنے نام کیے جن میں 2004ء میں‌ پرائڈ آف پرفارمنس بھی شامل ہے۔ وہ کئی اداروں سے وابستہ رہیں‌ اور متعدد تنظیموں‌ کی اہم رکن تھیں۔ تاہم وہ کسی ادبی تحریک کا باقاعدہ حصہ نہیں بنیں۔

    ان کے شعری مجموعے، مضامین اور افسانوں پر مشتمل کتابیں شب زاد، اضطراب اور مسافت رائیگاں تھی، تقریب کچھ تو ہو، نہ قفس نہ آشیانہ، اور آواز تو دیکھو کے نام سے شایع ہوئیں۔ شبنم شکیل اسلام آباد کے ایک قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

    ان کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے۔

    اب مجھ کو رخصت ہونا ہے اب میرا ہار سنگھار کرو
    کیوں دیر لگاتی ہو سکھیو جلدی سے مجھے تیار کرو

  • لارنس کا تذکرہ جس نے "لیڈی چیٹرلی کا عاشق” لکھ کر تہلکہ مچا دیا

    لارنس کا تذکرہ جس نے "لیڈی چیٹرلی کا عاشق” لکھ کر تہلکہ مچا دیا

    لیڈی چیٹرلی کا عاشق وہ ناول تھا جس پر ڈی ایچ لارنس کو فحش نگار کہا گیا ان کے ناول پر پابندی عائد کردی گئی اور مقدمات چلے، لیکن بعد میں یہی ناول دنیا بھر میں خوب فروخت ہوا اور لارنس کی بہترین تصنیف کہلایا۔ برطانوی مصنف ڈی ایچ لارنس کے ناول اور نظمیں پیچیدہ انسانی جذبات اور بعض حساس سماجی موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں۔

    ادیب، شاعر اور نقاد ڈی ایچ لارنس کا یہ تذکرہ کے ان کے یومِ‌ وفات کی مناسبت سے کیا جارہا ہے۔ فرانس میں قیام کے دوران 2 مارچ 1930 کو لارنس انتقال کرگئے تھے۔

    ڈی ایچ لارنس کی زندگی کی روداد بیان کرنے سے پہلے مختصراََ مذکورہ متنازع ناول کے بارے میں جان لیں جس نے بیسویں صدی کے وسط میں عالمی ادب میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ اس ناول کو اخلاقی قدروں کی پامالی اور فحاشی کو فروغ دینے والا ناول قرار دیتے ہوئے امریکہ، برطانیہ سمیت غیرمنقسم ہندوستان، کینیڈا، آسٹریلیا، جاپان اور دیگر ممالک میں پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ اس کے مصنف پر مقدمات دائر کیے گئے مگر بالآخر دنیا کو اسے انسانی نفسیات، اور اس کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتا ایک بہترین ناول تسلیم کرنا پڑا۔ یہ ناول جنگل کے ایک معمولی رکھوالے اور اعلیٰ طبقے کی ایک مہذب عورت کی وابستگی کا افسانہ ہے جس کے بارے میں بڑے ادیبوں کا کہنا تھا کہ اس ناول میں جنسیت کے پہلو کو جس خوبی سے بیان کیا گیا ہے وہ حقیقت افروز اور موسیقی ریز ہے۔ اس میں ہوس ناکی اور شہوت انگیزی کے بجائے وہ جذبات ہیں جو شاید اونچے طبقے کی مروجہ نام نہاد قدروں کی بنیادوں کو ہلا دیتے ہیں۔

    انگریز ناول نگار ڈیوڈ ہربرٹ لارنس المعروف ڈی ایچ لارنس انگلستان کے صنعتی علاقے نوٹنگھم شائر میں 1885ء کو پیدا ہوئے۔ یہ ایک غریب گھرانے کے فرد تھے اور ان کے والد ان پڑھ کان کن تھے۔ لیکن والدہ اپنی شادی سے پہلے ایک اسکول ٹیچر رہی تھیں۔ انھوں نے لارنس کو پڑھایا اور اسی زمانہ میں لارنس نے شاعری اور فکشن لکھنا شروع کر دیا۔ ان کا پہلا ناول1911ء میں شائع ہوا۔ لارنس نے محکمہ تعلیم میں ملازم ہوچکے تھے اور اس ناول کی اشاعت کے بعد انھیں نوکری سے استعفیٰ دینا پڑا کیونکہ وہ ٹی بی کا شکار ہوگئے تھے۔ یہی موقع تھا جب لارنس نے تخلیقی سفر پر توجہ دی۔ دو برس بعد نیا ناول منظر عام پر آیا اور پھر وہ مزید کہانیاں تخلیق کرنے لگے۔ لارنس نے اپنے ایک جرمن پروفیسر کی بیوی سے شادی کر لی اور 1928ء میں اپنا متنازع ناول بھی شایع کروایا۔ لارنس نے مختصر کہانیوں کے بھی 9 مجموعے شائع کروائے اور یہ کہانیاں، جذبات و ذہانت اور تخلیقی ہنر مندی کا شاہکار سمجھی جاتی ہیں۔ لارنس نے اپنی کہانیوں میں نفسیاتی موضوعات اور ورکنگ کلاس کو موضوع بنایا۔ انھوں نے ادبی تنقید بھی لکھی، ڈرامے اور خطوط کے علاوہ مختلف شخصیات پر مضامین بھی تحریر کیے۔

    لارنس کی تحریریں جنسیت، جذباتی صحت، بے ساختگی اور جبلت جیسے مسائل کو موضوع بناتی ہیں، جو اس دور میں قدامت پسند سوچ کی وجہ سے متنازع اور ناگفتہ بہ تھے۔ انھیں اپنے افکار و خیالات کی وجہ سے معاشرے میں ناپسندیدگی کا سامنا کرنا پڑا اور اپنی مختصر زندگی کے دوسرے نصف حصے میں سرکاری طور پر سنسر شپ اور اپنے تخلیقی کام کی غلط تشریحات کے بعد خود ساختہ جلا وطنی میں گزارے۔

  • شارلٹ برانٹے کا جین آئر اور سیف الدّین حسام

    شارلٹ برانٹے کا جین آئر اور سیف الدّین حسام

    کلاسیکی ادب میں بین الاقوامی سطح پر توجہ حاصل کرنے والے ناولوں میں ایک ناول ’جین آئر‘ بھی ہے۔ یہ ناول نگار اور شاعر شارلٹ برانٹے کی تصنیف ہے لیکن انھوں نے اسے ایک قلمی نام سے شایع کروایا تھا۔ شارلٹ برانٹے 1855 میں چل بسی تھیں۔ اس انگریز مصنف کے والد پادری تھے۔ جین آئر نے شارلٹ برانٹے کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ اس ناول کا متعدد زبانوں‌ میں ترجمہ کیا گیا جن میں اردو بھی شامل ہے۔

    شارلٹ برانٹے ایک حقیقت نگار تھیں اور اپنی کہانیوں میں انیسویں صدی کے انگلستانی معاشرے کی زبردست عکاسی کی ہے۔ شارلٹ برانٹے نے اپنا ناول جین آئر پہلی بار 1847ء میں اصل نام کے بجائے ’کربیل‘ کے قلمی نام سے لندن سے شائع کروایا تھا۔ یہ ایک سوانحی ناول ہے۔ اس کی کہانی ایک ایسی نوجوان لڑکی کی زندگی کی داستان ہے جو نڈر اور بے خوف ہے اور اپنے حالات بدلنے کی کوشش میں مصروف ہے۔

    اس ناول کا اردو ترجمہ سیف الدّین حسام نے بھی کیا جو اردو کے ایک ادیب اور بہترین مترجم تھے لیکن ان کی ایک وجہِ شہرت دست شناسی بھی رہی ہے۔ سیف الدّین حسام کا تعلق لدھیانہ، مشرقی پنجاب سے تھا جو تقسیم کے بعد جہلم آگیا۔ انھوں نے 1949ء میں گورڈن کالج راولپنڈی سے ایف ایس سی کیا۔ مالی مشکلات ایسی تھیں‌ کہ مزید تعلیم حاصل نہ کر سکے اور جہلم واپس لوٹ آئے۔ کچھ عرصہ والد کے کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹایا۔ چند برس کھیوڑہ میں نمک کی کان میں کام کیا اور کچھ ہاتھ سیدھا ہوا تو دوبارہ پڑھائی کا سلسلہ شروع کیا۔ 1958ء میں بی اے آنرز کی تیاری کی اور یونیورسٹی بھر میں اوّل آئے۔ ایم اے اُردو اور ایم اے انگریزی بھی کیا۔ ماہ و انجم میں دل چسپی اور دست شناسی کا شوق نجانے کب پیدا ہوا اور پھر رفتہ رفتہ جنون کی حد تک بڑھ گیا۔ دست شناسی پر کئی مضامین لکھے اور یہ مضامین ’’ہتھیلی کی زبان‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوئے۔ بچّوں کے لیے کئی غیرملکی ادیبوں کی کہانیوں کے تراجم کیے اور خود بھی کہانیاں لکھتے رہے۔ 4 مارچ 1995ء کو سیف الدّین حسام وفات پاگئے تھے۔

  • آشا پوسلے: پہلی پاکستانی فلم ‘تیری یاد’ کی ہیروئن

    آشا پوسلے: پہلی پاکستانی فلم ‘تیری یاد’ کی ہیروئن

    آشا پوسلے فلمی ہیروئن کے طور پر تو ناکام رہی تھیں، مگر انھوں نے معاون اداکارہ، ویمپ اور مزاحیہ کرداروں کے علاوہ سائیڈ ہیروئن کے طور پر بھی کئی فلموں میں عمدہ پرفارمنس دی۔ آشا پوسلے کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ قیامِ پاکستان کے بعد بننے والی پہلی پاکستانی فلم ‘تیری یاد’ کی ہیروئن تھیں۔

    آج فلمی اداکارہ آشا پوسلے کی برسی ہے۔ وہ 26 مارچ 1998ء کو وفات پاگئی تھیں۔ آشا پوسلے کا اصل نام صابرہ بیگم تھا۔ ان کے والد موسیقار کی حیثیت سے فلمی دنیا سے منسلک تھے اور انہی کے توسط سے آشا پوسلے تقسیمِ ہند سے قبل فلم نگری میں‌ بطور اداکارہ وارد ہوئی تھیں۔

    آشا پوسلے پاکستان میں‌ بھی اس وقت کے فلم بینوں کے لیے نیا چہرہ نہیں تھیں بلکہ قیامِ پاکستان سے قبل لاہور میں وہ ایک درجن سے زائد فلموں میں ہیروئن اور معاون اداکارہ کے طور پر جلوہ گر ہو چکی تھیں لیکن بطور فلمی ہیروئن وہ فلم بینوں کو متاثر نہیں کرسکیں۔ البتہ انھوں نے معاون اداکارہ اور مزاحیہ کرداروں کو بخوبی نبھایا۔ آشا پوسلے نے بطور گلوکارہ بھی قسمت آزمائی لیکن یہ سلسلہ جاری نہیں رہ سکا۔ آشا پوسلے نے تیری یاد کے علاوہ فلم غلط فہمی جو 1950ء میں بنی تھی، کے بھی چند گیتوں کو اپنی آواز دی تھی۔ فلمی ریکارڈ کے مطابق آشا پوسلے کا آخری گیت 1965ء میں فلم من موجی میں "سن میری بھابھی، تینوں نچناں نہ آوے۔۔” تھا جس میں آئرن پروین کے ساتھ ان کی آواز سنی گئی تھی۔

    1960ء کی دہائی میں پاکستان میں فلمی صنعت اپنا عروج دیکھ رہی تھی اور کئی نئے فن کاروں کو مقبولیت مل رہی تھی تو آشا پوسلے کو بہت کم فلموں میں کاسٹ کیا جانے لگا۔ وہ معمولی اور غیر اہم کردار قبول کرنے لگی تھیں۔

    آشا پوسلے کا تعلق پٹیالہ سے تھا جہاں انھوں نے 1927ء میں آنکھ کھولی۔ تقسیم سے قبل 1946ء میں انھوں نے فلم ‘کملی’ سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ آشا پوسلے نے بڑے پردے پر کئی فلموں میں منفی کردار بھی ادا کیے۔ آشا پوسلے کے والد ماسٹر عنایت علی ناتھ ہی نہیں‌ ان کی ایک بہن رانی کرن بھی اداکاری اور دوسری کوثر پروین نے گلوکارہ کے طور پر فلمی دنیا میں مقام بنانے کی کوشش کی۔

    اداکارہ اور گلوکارہ آشا پوسلے نے زندگی کے آخری ایّام انتہائی کس مپرسی کے عالم میں بسر کیے اور لاہور کے علاقہ گڑھی شاہو میں ان کا انتقال ہوا۔ آشا پوسلے کو فلمی دنیا کے متعدد اعزازات کے علاوہ خصوصی نگار ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔

  • احسان دانش: بڑے دل کا مالک ایک شاعرِ مزدور

    احسان دانش: بڑے دل کا مالک ایک شاعرِ مزدور

    احسان دانش کو زندگی کی تلخیوں، مصائب و آلام اور معاش کے لیے سخت دوڑ دھوپ نے جو کچھ سکھایا، وہ ان کی فکر اور تخیّل میں ڈھل کر بطور شاعر ان کی وجہِ شہرت بنا۔ احسان دانش شاعرِ مزدور کہلائے۔ لیکن اردو زبان و ادب میں انھیں ایک ماہرِ لسانیات، نثر نگار اور لغت نویس کے طور پر بھی پہچانا جاتا ہے۔ آج احسان دانش کا یومِ وفات ہے۔

    احسان دانش نے غربت کی گود میں آنکھ کھولی تھی۔ انھیں مزدوری اور یومیہ اجرت پر کام کرنا پڑا، کبھی وہ مالی بنے اور کبھی چپڑاسی اور قاصد کی ذمہ داری نبھائی۔ دو وقت کی روٹی کے لیے انھیں جو بھی کام ملا کیا۔ کہتے ہیں کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب انھوں نے جمعدار بننے تک کا سوچا اور صفائی ستھرائی کے اس کام سے وابستہ لوگوں کی نگرانی اور ان سے کام لینے کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار ہو گئے۔ انھوں نے محنت سے جی نہ چرایا اور ہر قسم کا کام کرنا قبول کیا لیکن کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلایا۔ احسان دانش 1982ء میں آج ہی کے دن انتقال کرگئے تھے۔

    اردو کے صاحبِ‌ اسلوب ادیب اور خاکہ نگار اعجاز الحق قدوسی نے اپنی کتاب میں مزدو احسان دانش کو درویش صفت، قناعت پسند اور بڑے دل کا مالک لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔

    "احسان دانش مجموعۂ خوبی ہیں۔ پیکرِ شرافت ہیں۔ پرانی وضع داریوں کا نمونہ ہیں۔ قناعت کی دولت سے مالا مال ہیں۔ فن کا پندار ان میں بالکل نہیں۔ زندگی محنت کی عظمت سے بھرپور ہے اسی لیے شاعرِ مزدور کہلاتے ہیں۔”

    احسان دانش کو عوامی شاعر کہا جاتا ہے۔ وہ انشا پرداز بھی تھے اور زبان و بیان پر ان کی گرفت بھی خوب تھی۔ انھوں نے لغت کے علاوہ اردو کے مترادفات اور اردو الفاظ سے متعلق کتب تصنیف کیں۔ احسان دانش کا کلام ہر خاص و عام میں مقبول ہوا اور بالخصوص ان کے انقلاب آفریں نغمات اور اشعار کو تحریر سے تقریر تک موقع کی مناسبت سے برتا گیا۔ انھوں نے عام آدمی اور مزدور کے جذبات کی ترجمانی کے ساتھ فطرت اور رومان پرور خیالات کو بھی اپنے اشعار میں سمویا۔ احسان دانش کا ایک شعر ہے۔

    احسان اپنا کوئی برے وقت میں نہیں
    احباب بے وفا ہیں، خدا بے نیاز ہے

    احسان دانش نے کسی طرح مڈل پاس کرلیا لیکن آگے نہیں‌ پڑھ سکے۔ حالات نے انھیں کم عمری میں کمانے پر مجبور کردیا۔ مشہور ہے کہ اس تنگی کے باوجود وہ دل کے بادشاہ تھے۔ حالات کی سختیوں کے باوجود ان کی طبیعت میں‌ شگفتگی اور شوخی برقرار رہی۔ ان سے متعلق مشہور ایک دل چسپ واقعہ ہم یہاں نقل کر رہے ہیں۔

    کسی مشاعرہ کے منتظم نے احسان دانش سے درخواست کی کہ ہم نے شہر میں ایک مشاعرے کا اہتمام کیا ہے، اس میں شریک ہو کر ممنون فرمائیے۔

    احسان نے دریافت کیا، ’’مشاہرہ کیا ہو گا؟‘‘

    منتظم نے نہایت انکساری سے جواب دیا۔ ’’آپ اس مشاعرہ میں معاوضہ کے بغیر شرکت فرما کر اس ادنیٰ کو شکر گزاری کا موقع دیں۔‘‘

    احسان دانش اس کی انکساری سے قطعاً متاثر نہ ہوئے اور خاصا کاروباری انداز اپناتے ہوئے کہا۔

    ’’بندہ نواز! آپ کو ممنون فرمانے میں مجھے کوئی اعتراض نہ تھا اور میں بغیر معاوضہ کے آپ کے مشاعرہ میں چلا آتا، لیکن اُس وقت جب میرے شعروں سے میرے بچّوں کا پیٹ بھر سکتا۔ آپ خود ہی غور فرمائیے قبلہ کہ گھوڑا گھاس سے محبت کرے گا تو کیا آپ کے شکریہ پر زندہ رہ سکے گا؟‘‘

    احسان دانش کے اس جواب نے یقیناً منتظم کو ناراض اور ان سے متعلق بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہو گا، لیکن جو لوگ ان سے واقف تھے، وہ جانتے تھے کہ احسان دانش نے ایسا جواب کیوں‌ دیا‌۔

    احسان دانش کا ایک شعر بہت مشہور ہے۔

    یہ اڑی اڑی سی رنگت، یہ کھلے کھلے سے گیسو
    تری صبح کہہ رہی ہے تری رات کا فسانہ

    قاضی احسان الحق ان کا نام اور احسان تخلص تھا۔ ان کے والد قاضی دانش علی باغ پت ضلع میرٹھ کے رہنے والے تھے، لیکن بعد میں کاندھلا میں سکونت اختیار کر لی۔ احسان یہیں 1913ء میں پیدا ہوئے۔ احسان کے والد کے پاس اچھی خاصی جائیداد بھی تھی لیکن آہستہ آہستہ سب کچھ ختم ہوگیا۔ یوں احسان دانش نے غربت اور تنگ دستی دیکھی اور تعلیم بھی مڈل سے آگے نہ بڑھ سکی۔ حالات کچھ ایسے ہوئے کہ وہ اپنی چپڑاسی کی نوکری چھوڑ کر لاہور چلے آئے اور یہاں محنت مشقت اور مزدوری کرنے لگے۔ ان حالات کے باوجود احسان دانش کو علم حاصل کرنے اور مطالعہ کا شوق تھا اور انھوں نے کتابوں سے اپنا رشتہ نہیں توڑا۔ انھیں کام نمٹانے کے بعد جو وقت بھی ملتا کتب بینی میں صرف کرتے۔ جو بھی شعری صلاحیت ان میں پیدا ہوئی وہ کتب بینی ہی سے ہوئی۔

    شاعرِ‌ مزدور احسان دانش طبقاتی کشمکش سے بیزار تھے۔ انھوں نے مروجہ نظامِ حکومت اور عدم مساوات کے خلاف آواز اٹھائی۔ ان کی شاعری میں‌ مزدوروں کو متحد ہوجانے کی تلقین، برابری اور بھائی چارگی کا درس بھی ملتا ہے۔ ان کی نظر میں شعر و ادب زندگی کا آئینہ رہا۔ فطرت سے انھیں پیار تھا اور رومان بھی ان کے اشعار میں بہت بے ساختہ ہے۔

    ان کے مجموعہ ہائے کلام اور دیگر کتب میں ابلاغ دانش، تشریح غالب، آواز سے الفاظ تک، اردو مترادفات شامل ہیں جب کہ ان کی خودنوشت بھی جہانِ دانش کے نام سے شایع ہوئی تھی۔

    احسان دانش کی یہ غزل ملاحظہ کیجیے

    یوں نہ مل مجھ سے خفا ہو جیسے
    ساتھ چل موج صبا ہو جیسے

    لوگ یوں دیکھ کے ہنس دیتے ہیں
    تو مجھے بھول گیا ہو جیسے

    عشق کو شرک کی حد تک نہ بڑھا
    یوں نہ مل ہم سے خدا ہو جیسے

    موت بھی آئی تو اس ناز کے ساتھ
    مجھ پہ احسان کیا ہو جیسے

    زندگی بیت رہی ہے دانشؔ
    ایک بے جرم سزا ہو جیسے

    احسان دانش کی خود نوشت سوانح عمری جہانِ دانش بھی علمی اور ادبی حلقوں میں بے حد مقبول ہے۔ اس کتاب کو نہ صرف پاکستان رائٹرز گلڈ نے آدم جی ادبی انعام کا مستحق قرار دیا بلکہ اس پر حکومت پاکستان نے بھی پانچ ہزار روپے کا انعام عطا کیا۔ حکومتِ پاکستان نے شاعرِ‌ مزدور کو ستارۂ امتیاز اور نشانِ امتیاز عطا کیے۔

  • پیر علی محمد راشدی: سیاست سے ادب تک

    پیر علی محمد راشدی: سیاست سے ادب تک

    پیر علی محمد راشدی اُن شخصیات میں سے ایک ہیں‌ جنھوں‌ نے برصغیر میں تاریخی اہمیت کی حامل قراردادِ پاکستان کی ڈرافٹنگ کا کام سَر انجام دیا۔ وہ تحریکِ پاکستان کے کارکن اور قائد اعظم محمد علی جناح کے رفقا میں سے ایک تھے۔

    قیامِ پاکستان کے بعد پیر علی محمد راشدی نے مختلف سرکاری عہدوں پر خدمات انجام دیں۔ لیکن سیاست اور سفارت کاری کے علاوہ انھیں ایک صحافی، مؤرخ اور ادیب کی حیثیت سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ پیر علی محمد راشدی 14 مارچ 1987ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    علی محمد راشدی نے اردو، انگریزی اور سندھی زبانوں میں لکھا اور صحافت سے سیاست تک اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کو منوایا۔ وہ 1905ء میں‌ سندھ کے ضلع لاڑکانہ کے چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مسلم لیگ قائدِ اعظم کی شمولیت اور بعد میں ان کی قیادت میں تاریخی فیصلے کرنے جارہی تھی۔ پیر صاحب نے بھی اس دور میں‌ جلسے جلوس اور آزادی سے متعلق بڑے لوگوں کی جدوجہد اور ان کی سیاسی سرگرمیاں دیکھیں‌ اور پھر تحریکِ پاکستان کا حصّہ بنے۔ ان کا تعلق سندھ کے ممتاز روحانی گھرانے سے تھا۔ پیر صاحب نے کسی اسکول یا کالج سے تعلیم حاصل نہیں کی بلکہ گھر پر اپنی علمی استعداد بڑھائی اور اہلِ علم کی مجالس اور بڑے لوگوں کی صحبت میں رہ کر قابلیت میں اضافہ کیا۔ انھیں‌ لکھنے لکھانے کا شوق ہوا تو صحافت کی طرف آنکلے اور اس میدان میں بحیثیت قلم کار شہرت پائی۔ علی محمد راشدی نے صحافتی زندگی کے ساتھ ہی ادبی اور سیاسی سفر کا آغاز بھی کردیا۔ سیاست میں‌ انھوں نے پہلا قدم 1924ء میں حیدر آباد میں سندھی تعلیمی کانفرنس کے بعد رکھا۔ اگلے برسوں‌ میں وہ نہایت متحرک اور فعال رہے اور قائد اعظم کے رفقاء میں ان کا شمار ہوا۔ انھوں نے مسلمانوں کی وکالت اور سیاسی اکابرین کے ساتھ ان کی جدوجہد میں بھرپور کردار ادا کیا۔ قیام پاکستان کے بعد کئی عہدوں پر فائز رہے اور مختلف تنظیموں اور مجالس کے رکن بنائے گئے۔ اس کے علاوہ پیر صاحب نے ادب، تاریخ و ثقافت اور تحقیق کے میدان میں‌ بھی نمایاں کام کیا۔ بالخصوص راشدی صاحب نے سندھ کی تاریخ پر مضامین اور تحقیقی مقالے تحریر کیے، جو ان کا بڑا کام ہے۔ پیر علی محمد راشدی کی یادداشت پر مبنی سندھی زبان میں کتاب اھے ڈینھن اھے شینھن کو کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔ یہ کتاب تین جلدوں پر مشتمل ہے۔

    پیر صاحب کو اپنے سیاسی سفر اور حکومتی عہدے پر فائز ہونے کے بعد مختلف مواقع پر مخالفت بھی برداشت کرنا پڑی اور علمی و ادبی میدان میں بھی ان کو بعض خامیوں اور کم زوریوں کی بنیاد پر مطعون کیا گیا جب کہ مختلف حلقوں میں ان کی مخالفت اور ناپسندیدگی بھی عروج پر رہی، لیکن علم و ادب کی دنیا میں ان خدمات کا اعتراف بھی کیا جاتا ہے۔ ان کی چند تصانیف میں رودادِ چمن (اردو)، فریادِ سندھ (سندھی)، چین جی ڈائری (سندھی)، ون یونٹ کی تاریخ (اردو)، کراچی کی کہانی (اردو) شامل ہیں۔

  • اسٹیفن ہاکنگ: حیرت انگیز شخصیت، ناقابلِ یقین کام یابیاں

    اسٹیفن ہاکنگ: حیرت انگیز شخصیت، ناقابلِ یقین کام یابیاں

    دھڑ سے معذور اور وہیل چیئر کے محتاج اسٹیفن ہاکنگ دنیا کے اُن انسانوں کے لیے مثال ہیں جو صحّت مند اور توانا ہونے کے باوجود ناامیدی اور مایوسی کا شکار ہو کر قدرت کی عطا کردہ نعمتوں، وسائل اور امکانات کو پہچاننے میں ناکام رہتے ہیں۔ وہ اپنا بوجھ اٹھانے کے بجائے دوسروں پر بوجھ بن جاتے ہیں اور تقدیر سے شکوہ کناں رہتا ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ سائنس کی دنیا کا وہ نام ہے جسے صدیاں یاد رکھیں گی۔

    14 مارچ آئن سٹائن کا یومِ پیدائش ہے اور اسی تاریخ کو 2018ء میں اسٹیفن ہاکنگ کا انتقال ہوا تھا۔ ان دونوں سائنسدانوں کی بہت سے قدریں مشترک بھی ہیں۔ عظیم سائنس داں آئن اسٹائن کی طرح اسٹیفن ہاکنگ بھی مذہب اور خدا سے متعلق اپنے نظریات کی وجہ سے مختلف مذاہب کے پیروکاروں میں متنازع رہے۔ اسٹیفن ہاکنگ کا تصور یہ تھا کہ خدا کا مادّی وجود نہیں ہے اور وہ اسی کے قائل تھے۔ سائنس داں اسٹیفن ہاکنگ کا خیال تھا کہ کائنات کا نظام آفاقی عالمگیر قوانین کے تحت چل رہا ہے جنہیں تبدیل کرنا ممکن نہیں۔ اسٹیفن ہاکنگ نے دنیا کو کائنات کے راز سمجھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انھیں آئن سٹائن کے بعد گزشتہ صدی کا دوسرا بڑا سائنس داں کہا جاتا ہے۔

    شہرۂ آفاق ماہرِ کونیات اسٹیفن ہاکنگ کی کتاب "اے بریف ہسٹری آف ٹائم” نے انھیں بین الاقوامی سطح‌ پر شہرت دی اور دنیا ان کے علمی اور سائنسی کارناموں سے واقف ہوئی۔ اسٹیفن ہاکنگ 8 جنوری 1942ء کو برطانیہ میں پیدا ہوئے۔ نوجوانی میں ان کی زندگی کا ایک بدترین اور تکلیف دہ موڑ اس وقت آیا جب وہ موٹر نیوران جیسی مہلک اور جسم کو مفلوج کر دینے والے مرض کا شکار ہوگئے۔ جس وقت اسٹیفن ہاکنگ کو یہ مرض لاحق ہوا، وہ صرف 21 سال کے تھے۔ ان کے والدین کو ڈاکٹروں نے بتایا کہ ان کا بیٹا مزید دو سال تک ہی زندہ رہ سکے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔قدرت نے اس نوجوان کو اس کی مضبوط قوّتِ ارادی اور ہمّت کی بدولت 55 سال دنیا کو دینے کا موقع دیا۔ یہی نہیں بلکہ اس مرض سے لڑتے ہوئے وہ مکمل طور پر مفلوج ہوجانے کے باوجود عملی سائنس سے جڑے رہے اور اپنے سائنسی تحقیقی کام سے دنیا کو بہت کچھ دے گئے۔ انھوں نے اپنے متحرک اور توانا ذہن کی مدد سے کائنات کی وسعتوں کو کھوجتے، اور سمجھتے ہوئے وقت گزارا اور دنیا کو فلکیات اور خلا کے کئی راز بتائے اور امکانات کا راستہ دکھایا۔

    جین ہاکنگ وہ لڑکی تھی جس نے بیس برس کی عمر میں ہاکنگ سے شادی کی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اُس نے ایک اعصابی اور نہایت خطرناک مرض میں مبتلا نوجوان کا ہاتھ تھاما ہے۔ مگر پھر جین نے اگلے 26 سال تک ہاکنگ کا ساتھ بخوبی نبھایا اور علم و سائنس کے میدان میں اسٹیفن کی کام یابیوں میں جین نے بھی بڑا کردار ادا کیا۔ اس جوڑے کے گھر تین بچّے پیدا ہوئے۔ جین نے اپنے وہیل چیئر تک محدود رہنے والے شوہر کا خیال رکھنے کے ساتھ اپنے بچّوں کی پرورش بھی کی۔ اگرچہ عرصہ بعد ان کے مابین طلاق ہوگئی تھی، لیکن اسٹیفن ہاکنگ اور جین کی یہ رفاقت مثالی ہے۔

    اسٹیفن ہاکنگ کا دھڑ حرکت کرنے سے قاصر تھا، وہ قوتِ گویائی سے بھی محروم تھے، لیکن انھوں نے اپنی ذہنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کیا۔ کائنات کے کئی رازوں سے پردہ اٹھانے والے اس سائنس داں نے اپنے مضامین اور اہم موضوعات پر چونکا دینے والے اور پُرمغز و نہایت مفید مقالوں سے دنیا کی توجہ حاصل کر لی تھی۔ انھوں نے آئن اسٹائن کے نظریۂ اضافت کی تشریح کے علاوہ بلیک ہول سے تابکاری کے اخراج پر اپنا سائنسی نظریہ پیش کیا جو آنے والوں کے لیے کائنات کو سمجھنے اور اسے مسخّر کرنے میں‌ مددگار ثابت ہورہا ہے۔ وہ ریاضیات، طبیعات اور کونیات پر اپنی تحقیق و جستجو کا نچوڑ کتابی شکل میں دنیا کو دے گئے۔ اسٹیفن ہاکنگ کی دل چسپی اور تحقیقی سرگرمیوں کا مرکز اور محور علمِ طبیعیات اور اس کے موضوعات تھے۔

    اسٹیفن ہاکنگ کو بالخصوص بلیک ہول کی پرسراریت اور وقت سے متعلق ان کے نظریات اور
    تحقیقی کام کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

  • غلام جیلانی برق: ایک عالی دماغ اور نبّاض

    غلام جیلانی برق: ایک عالی دماغ اور نبّاض

    غلام جیلانی برق کی ایک تصنیف نے اگرچہ انھیں متنازع بنا دیا تھا، مگر ان کی علمی اور ادبی حیثیت سے کسی کو انکار نہیں بلکہ انھیں آج بھی ایک مذہبی اسکالر کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔وہ ایک ماہرِ تعلیم، مصنّف، مترجم اور شاعر بھی تھے۔ غلام جیلانی برق 1985ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    برق کی علمی استعداد، قابلیت اور تحقیقی کام کو جہاں سراہا جاتا ہے، وہیں مذہبی موضوع پر ایک تصنیف کے بعد وہ مذہبی حلقوں میں متنازع ہوگئے لیکن بعد میں اپنے مؤقف سے رجوع کرلیا تھا۔ برق کو اس کے باوجود ہر مکتبِ‌ فکر میں خاص اہمیت ضرور دی جاتی ہے اور انھیں‌ ایک لائق شخص اور دانش ور تسلیم کیا جاتا ہے۔

    غلام جیلانی برق 26 اکتوبر 1901ء کو پنڈی گھیپ، ضلع کیمبل پور میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے عربی، فارسی اور اردو میں اسنادِ فضیلت حاصل کیں۔ بعد میں عربی اور فارسی میں ایم اے کیا۔ 1940ء میں غلام جیلانی برق نے امام ابنِ تیمیہ کی زندگی اور کارناموں پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔ بعدازاں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوئے اور ملازمت کے ساتھ مختلف موضوعات پر لگ بھگ 40 کتابیں تحریر کیں۔ ان کی قابلِ ذکر تصنیف میں دو اسلام، فلسفیانِ اسلام، مؤرخینِ اسلام، حکمائے عالم، فرماں روایانِ اسلام، دانشِ رومی و سعدی، ہم اور ہمارے اسلاف شامل ہیں۔

    ڈاکٹر غلام جیلانی برق کا انتقال اٹک میں ہوا۔ انھیں قبرستان عید گاہ میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

  • آغا شاعر قزلباش: ایک نابغہ روزگار شخصیت کا تذکرہ

    آغا شاعر قزلباش: ایک نابغہ روزگار شخصیت کا تذکرہ

    آغا شاعر قزلباش اردو زبان و ادب کی ایک نہایت مشہور اور ممتاز شخصیت تھے۔ انھیں ہندوستان بھر میں استادِ فن اور زبان داں کے طور پر پہچانا جاتا تھا۔ وہ نظم اور نثر دونوں‌ اصنافِ ادب میں‌ اپنے کمالِ فن کی بدولت مشہور ہوئے۔ آغا صاحب کی قابلیت اور علمی استعداد کا عالم یہ تھا کہ شاعرِ‌ مشرق علّامہ اقبال اور ان جیسے کئی بڑے نام اور قابل شخصیات بھی زبان و بیان کے معاملہ میں ان سے رجوع کرتی تھیں۔ آغا صاحب 11 مارچ 1940ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    آغا شاعر قزلباش دہلوی شاعر اور ڈرامہ نویس بھی تھے۔ وہ اپنے وقت کے استاد شاعر داغ دہلوی کے شاگرد تھے، لیکن اس سے پہلے ہی زبان و بیان پر عبور اور مشاعروں میں‌ اپنی خوش گوئی کے سبب ہر خاص و عام میں مشہور ہوچکے تھے۔ ان کے ہم عصر اور اپنے زمانے میں استاد شاعر کا درجہ رکھنے والے بھی آغا صاحب کے کلام کی فصاحت، روانی اور برجستگی کے معترف رہے۔ ہندوستان میں آغا شاعر قزلباش کے سیکڑوں شاگرد تھے۔

    شاعر اور ادیب آغا صاحب 5 مارچ 1871ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام آغا مظفر علی بیگ قزلباش تھا۔ ان کے جد اعلٰی ان سپاہیوں میں تھے جو نادر شاہ کی فوج میں شامل ہو کر دہلی آئے اور وہیں بس گئے۔ آغا شاعر کے والد آغا عبد علی بیگ بھی شاعر تھے اور فدائی تخلص کرتے تھے۔ دہلی کے کشمیری گیٹ کے محلّہ کھڑکی ابراہیم خاں میں سکونت پذیر یہ کنبہ آسودہ حال تھا۔ وہ اپنی ماں کے بہت لاڈلے تھے۔ آغا صاحب کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ عربی اور قرآن کا درس گھر پر لیا جب کہ فارسی ان کے گھر کی زبان تھی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد دہلی کی مشہور درس گاہ اینگلو عربک اسکول میں داخلہ ہوگیا اور وہیں سے آٹھویں جماعت کا امتحان پاس کیا، اسکول کے زمانہ میں ہی مضمون نویسی اور شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ اسی زمانہ میں آغا صاحب کی ماں وفات پاگئیں اور باپ کی دوسری شادی کے بعد وہ سوتیلی ماں کے ہاتھوں تنگ ہوتے رہے اور پھر انہیں گھر سے نکال دیا گیا۔ بعد میں انھوں نے اپنی علمی استعداد میں خود اضافہ کیا اور اپنے لکھنے پڑھنے کے شوق اور لگن کی بدولت کام یاب ہوئے۔ ان کا خط بہت عمدہ تھا اور اسی سے متاثر ہوکر ایک بیگم صاحبہ نے انھیں نہ صرف پناہ دی بلکہ اپنی غزلیں خوش خط لکھنے کا کام سونپ دیا۔ انہی کے توسط سے بعد میں وہ قدم جمانے میں کام یاب ہوئے اور دہلی کے مشاعروں میں ان کی شرکت لازمی ہوگئی۔ ان کی غزلیں گانے والیوں کے کوٹھوں میں گونجنے لگیں اور گلی کوچوں میں گائی جانے لگیں۔ بعد میں حیدرآباد دکن کا رخ کیا تو وہاں داغ دہلوی کے شاگرد ہوگئے۔ وہیں سے شوخیٔ مضمون اور روزمرہ کا بے تکلف استعمال آپ کے کلام کا جزوِ لازم بنا۔ آغا شاعر قزلباش ایک اچھے ڈرامہ نگار بھی تھے۔ انھوں نے جو چند ڈرامے لکھے ان میں حورِ عرب مشہور ہوا۔

    وہ گوناگوں صلاحیتوں کے مالک تھے۔غزلوں کے علاوہ ان کی نظمیں، مرثیے اور منظوم تراجم بھی مقبول ہوئے۔ انھوں نے ڈرامہ نگاری کے علاوہ انشائیہ بھی لکھا اور ناول نگاری بھی کی۔ انھوں نے قرآن پاک کا منظوم ترجمہ اور عمر خیام کے رباعیات کا بھی منظوم اردو ترجمہ کیا۔ ان کی نثر کا مجموعہ بھی خمارستان کے نام سے شایع ہوا تھا۔ آغا شاعر قزلباش دہلوی کی شعری تصانیف میں تیر و نشر، آویزۂ گوش، دامنِ مریم اور پرواز شامل ہیں۔

    آغا شاعر قزلباش کا ایک شعر دیکھیے

    لو ہم بتائیں غنچہ و گل میں ہے فرق کیا
    اک بات ہے کہی ہوئی اک بے کہی ہوئی

    آغا شاعر کو آخری عمر میں مختلف بیماریوں نے گھیر رکھا تھا، جگر اور معدہ جواب دے گئے تھے۔ مہاراجہ کشن پرشاد شاد نے ماہانہ وظیفہ مقرر کر رکھا تھا، خیر پور سے بھی سالانہ وظیفہ ملتا تھا اسی پر گزر بسر تھی۔ بعد از مرگ صفدر جنگ کے قریب قبرستان درگاہ شاہ مرداں میں تدفین کی گئی تھی۔