Tag: مارچ برسی

  • آسیہ:‌ پاکستانی فلم انڈسٹری کی ایک مقبول اداکارہ

    آسیہ:‌ پاکستانی فلم انڈسٹری کی ایک مقبول اداکارہ

    70 کی دہائی میں آسیہ کا نام پاکستانی فلم انڈسٹری کی مصروف اداکارہ کے طور پر لیا جاتا تھا اور وہ مقبولیت کی بلندیوں کو چھو رہی تھی۔ صرف ایک دہائی میں آسیہ نے ڈیڑھ سو کے لگ بھگ فلموں میں کام کیا تھا اور جب اداکارہ نے فلمی دنیا کو خیرباد کہا تو اس کی چالیس کے قریب فلمیں زیرِ تکمیل تھیں۔

    آسیہ کی پہلی ریلیز ہونے والی فلم ہدایت کار شباب کیرانوی کی شاہکار فلم انسان اور آدمی تھی اور 1970 کی یہ فلم زیبا اور محمدعلی کی بھی بڑی فلم تھی۔ آسیہ کی جوڑی لیجنڈ ٹی وی اداکار طلعت حسین کے ساتھ بنی تھی جن پر رنگیلا کا گایا ہوا ایک گیت بھی فلمایا گیا تھا۔ اداکارہ آسیہ کی بطور ہیروئن پہلی سپرہٹ اردو فلم 1971ء میں ریلیز ہوئی تھی اور اسی سال اداکارہ کی چھ فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں سے بطور سولو ہیروئن اکلوتی فلم دل اور دنیا تھی۔ اس سپرہٹ فلم نے آسیہ کو صف اوّل کی اداکارہ بنا دیا تھا۔ 1973ء تک آسیہ پاکستانی فلموں کی ایک مصروف ترین اداکارہ بن چکی تھی۔ سوا درجن فلموں میں سے بیشتر پنجابی فلمیں تھیں۔ 1980ء کے بعد اداکارہ کی چالیس کے قریب فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں اتھراپتر 1981 جب کہ یہ آدم 1986 کی مشہور فلمیں ثابت ہوئیں۔ چن میرے 1991 میں آسیہ کی آخری فلم تھی۔

    پاکستانی فلم انڈسٹری کی ماضی کی یہ اداکارہ کراچی میں 1952ء میں پیدا ہوئی تھی۔ آسیہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا تعلق بازار حسن سے تھا۔ 9 مارچ 2013ء کو کینیڈا میں آسیہ کا انتقال ہوگیا تھا۔

  • سیّد سجّاد علی شاہ: عدالتی تاریخ کے ایک متنازع منصفِ اعظم

    سیّد سجّاد علی شاہ: عدالتی تاریخ کے ایک متنازع منصفِ اعظم

    ماضی میں عدلیہ کے بعض فیصلوں کے بالخصوص پاکستان میں سیاسی عمل، جمہوریت کے تسلسل اور ملک کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب ہوئے جن میں نہایت متنازع اور ایسے فیصلے شامل ہیں جن کا خمیازہ قوم کو بھی بھگتنا پڑا ہے۔

    سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کا نام پاکستان کی عدالتی تاریخ میں ان کے کچھ فیصلوں کے باعث متنازع رہا ہے۔ آج سجاد علی شاہ کی برسی ہے۔ کراچی کے ایک نجی اسپتال میں سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ 7 مارچ 2017ء کو انتقال کر گئے تھے۔ ڈیفینس میں نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے بعد سجاد علی شاہ کی تدفین سپر ہائی وے پر واقع وادیٔ حسین قبرستان میں کی گئی۔

    13 ویں چیف جسٹس اور اختلافات
    کسی بھی ملک میں ابتری، انتشار اور اداروں کے زوال کی ایک نشانی یہ ہے کہ قوم اپنے حال کو بدتر سمجھتی ہے اور اسے ماضی کی یاد آنے لگتا ہے۔ اس زوال و انحطاط کے اثرات ہر اہم اور بڑے ادارے پر پڑتے ہیں اور ماضی میں پاکستان میں عدلیہ کو اسی طرح کی صورتِ حال کا سامنا رہا ہے۔ اس ضمن میں کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں جس میں جلد بازی میں فیصلہ، پارلیمان کے منظور کردہ قوانین کو کالعدم قرار دینا اور اکثر سپریم کورٹ کے ججوں میں عدم اتفاق اور اس کے نتیجے میں واضح تقسیم بھی نظر آتی ہے، تاہم یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ سجاد علی شاہ سپریم کورٹ کے 13 ویں چیف جسٹس تھے۔ انھوں نے عدالتی تاریخ میں اپنا نام ایسے جج کے طور پر لکھوایا جنھیں انہی کے ساتھی ججوں نے گھر بھیج دیا تھا۔ یہ دس رکنی بینچ تھا جس نے ایک تنازع کے بعد سجاد علی شاہ کے بطور چیف جسٹس تقرری کے حکم نامے کو منسوخ کر دیا تھا۔

    پینشن اور مراعات سے محرومی
    ساتھی ججوں کے فیصلے کے بعد سیّد سجاد علی شاہ کا دور تمام ہوا اور انھیں اپنی پینشن اور مراعات سے بھی محروم ہونا پڑا۔ سجاد علی شاہ عدالت چلے گئے اور یہ 2009ء کی بات ہے۔ اس وقت چیف جسٹس کے منصب پر افتخار محمد چوہدری موجود تھے جن کی بحالی کی تحریک کو مشرف دور میں دنیا بھر میں شہرت ملی تھی۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری ہی نے عدالت سے رجوع کرنے پر حکومت کو حکم دیا تھا کہ جسٹس سجاد علی شاہ کو پینشن کی ادائیگی کی جائے۔

    پیدائش اور تعلیم
    سید سجاد علی شاہ کا تعلق صوبۂ سندھ سے تھا۔ وہ کراچی میں پیدا ہوئے تاہم ان کا آبائی شہر نواب شاہ تھا۔ سجاد علی شاہ 1933ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے جامعۂ کراچی میں داخلہ لیا اور وہاں‌ سے قانون کی ڈگری لے کر نکلے۔ 1989ء میں وہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے۔ اس کے تقریباً ایک سال کے بعد سجاد علی شاہ کی ترقی ہوئی اور وہ سپریم کورٹ بھیجے گئے۔

    نواز حکومت کی بحالی کی مخالفت اور بے نظیر دور میں تعیناتی پر تنازع
    غلام اسحاق خان نے صدرِ مملکت کی حیثیت سے 1993ء میں میاں نواز شریف کی حکومت کی برطرفی کا حکم دیا تھا۔ آٹھویں ترمیم کے تحت اسمبلیاں توڑے جانے کے بعد سپریم کورٹ میں صدر کے اس فیصلے کے خلاف درخواست کی سماعت ہوئی اور حکومت کو بحال کر دیا گیا۔ یہ 11 رکنی بینچ تھا جس میں سجاد علی شاہ وہ واحد جج تھے جنھوں نے میاں نواز شریف کی حکومت کی بحالی کی مخالفت کی تھی۔

    سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس وقت کی وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو نے سجاد علی شاہ کی تعیناتی کی منظوری دی اور اس اس وقت تنازع اٹھا جب یہ الزام لگا کہ دو سینیئر ججوں کی موجودگی میں وزیراعظم نے اپنی مرضی کا چیف جسٹس تعینات کیا۔ تاہم جب صدر پاکستان فاروق لغاری نے بے نظیر بھٹو کی حکومت کو بدانتظامی اور بدعنوانی کے الزامات پر برطرف کیا تو اس وقت چیف جسٹس سجاد علی شاہ اس چھ رکنی بینچ کے سربراہ تھے جس نے ان الزامات کو درست قرار دیا اور اس حکومت کی برطرفی کا فیصلہ برقرار رکھا۔

    ججوں سے اختلافات اور دیگر اہم واقعات
    سنہ 1997ء میں سجاد علی شاہ چیف جسٹس تھے اور سپریم کورٹ میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف توہینِ عدالت کے مقدمے کی سماعت کے دوران لیگی کارکنوں نے دھاوا بول دیا تھا۔ فریقین میں اختلافات کی ایک وجہ چیف جسٹس کی خواہش کے برعکس خصوصی عدالتوں کا قیام بھی تھا۔ دراصل ن لیگ کو دوسری بار بھاری مینڈیٹ ملا اور اقتدار میں‌ آکر حکومت نے کئی دوسرے فیصلوں کے ساتھ ایک فیصلہ انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں کے قیام کا کیا۔ اس پر سجاد علی شاہ کے ساتھ اختلاف کے باعث بعض سیاسی بیانات سامنے آئے تھے اور سپریم کورٹ پر حملہ بھی اسی دور میں‌ ہوا۔

    1997 میں میاں نواز شریف کے دور میں جب پاکستان کے آئین میں 13 ویں ترمیم کے بعد صدرِ مملکت سے قومی اسمبلی کی برطرفی کے اختیارات ختم کیے گئے تو چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں عدالت نے ان اختیارات کو بحال کر دیا۔ یہ دن ملکی تاریخ میں ہنگامہ خیز ثابت ہوا اور اسی روز ایک دوسرے بینچ نے جسٹس سعید الزّمان صدیقی کی سربراہی میں ان اختیارات کو معطل کر دیا۔ اس طرح سجاد علی شاہ کو عدلیہ سے بھی ردعمل اور مخالفت دیکھنا پڑی اور یہ معاملہ اتنا بڑھا کہ اس وقت بعض ججوں نے سجاد علی شاہ کو بطور چیف جسٹس تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا۔ کوئٹہ میں سپریم کورٹ کی رجسٹری میں جسٹس ارشاد حسن خان کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سجاد علی شاہ کی بطور چیف جسٹس تعیناتی پر سوال اٹھایا اور مزید احکامات تک انھیں کام کرنے سے روک دیا گیا اور بعد میں 10 رکنی بینچ نے ان کی بطور چیف جسٹس تعیناتی کا نوٹیفیکیشن معطل کر دیا۔ ان فیصلوں کے بعد آئینی اور عدالتی بحران کا شور ہونے لگا اور اس پر سیاست دان اور ماہر وکلاء کی جانب سے بحث کی جاتی رہی۔

    سجاد علی شاہ کے بعد اجمل میاں چیف جسٹس بنائے گئے اور چند ماہ بعد سعید الزّمان صدیقی اس عہدے تعینات کیے گئے۔

  • فراق گورکھپوری: اردو غزل کو نیا رنگ اور آہنگ عطا کرنے والا شاعر

    فراق گورکھپوری: اردو غزل کو نیا رنگ اور آہنگ عطا کرنے والا شاعر

    فراق کا اصل نام رگھو پتی سہائے تھا۔ تخلّص انھوں نے فراق اپنایا اور آبائی علاقے کی نسبت فراق گورکھپوری مشہور ہوئے۔ انھیں عہد ساز شاعر اور اردو ادب کا بڑا نقّاد تسلیم کیا جاتا ہے۔

    بھارتی ادیب، شاعر اور نقّاد ستیہ پال آنند فراق کی علمی قابلیت اور ادبی حیثیت پر لکھتے ہیں، پنجاب یونیورسٹی چنڈی گڑھ کے پوسٹ گریجویٹ ڈیپارٹمنٹ آف انگلش میں میرے رفقائے کار میں ڈاکٹر مسز نرمل مکرجی بھی تھیں، جو امریکا کی کسی یونیورسٹی سے انگریزی کے ہندوستانی ناول نویس آر کے ناراین پر ڈاکٹریٹ کر کے لوٹی تھیں۔ ان سے معلوم ہوا کہ الٰہ آباد میں وہ فراق گورکھپوری کی انڈر گریجویٹ کلاس میں تھیں اور ان سے ذاتی طور پر انس رکھتی تھیں۔ میں چونکہ شعبۂ انگریزی کی لٹریری سوسائٹی The Three Hundred کا پروفیسر انچارج تھا، میں نے انہیں اس بات پر راضی کر لیا کہ اب کے جب وہ اپنے والدین سے ملنے الٰہ آباد جائیں تو فراق گورکھپوری صاحب کو راضی کریں کہ وہ پنجاب یونیورسٹی میں ایک توسیعی لیکچر دینے کے لیے تشریف لائیں۔ ہم ٹرین سے فرسٹ کلاس کا کرایہ اور دیگر متعلقہ اخراجات کے ذمہ دار ہوں گے، ان کی رہائش کا گیسٹ ہاؤس میں بندوبست ہو گا۔ اور میں ذاتی طور پر ایک چپراسی کو ان کی خدمت کے لیے ہر وقت ان کے پاس حاضر رہنے کا انتظام کر دوں گا، اور ان کے آرام کا خیال رکھنے کے لیے خود بھی موجود رہوں گا۔

    فراق گورکھپوری آئے۔ آڈیٹوریم میں ان کی تقریر نے جیسے ہم سب کو مسحور کر لیا۔ شستہ انگریزی لہجہ، اس پر ہر پانچ چھ جملوں کے بعد اردو سے (موضوع سے متعلق) ایک دو اشعار، اور پھر انگریزی میں گل افشانی۔ یہ تجربہ ہم سب کے لیے نیا تھا، کیونکہ ہم تو کلاس روم میں صرف (اور صرف) انگریزی ہی بولتے تھے۔ ایک گھنٹہ بولنے کے بعد تھک گئے۔ میں چونکہ اسٹیج پر تھا اور مجھے بطور شاعر جانتے تھے، مجھے کہا کہ جب تک وہ تھرموس سے ’’پانی‘‘ پی کر سانس لیں گے، میں کچھ سناؤں۔ میں نے اپنی ایک نظم انگریزی میں اور ایک اردو میں سنائی۔ تین چار گھونٹ ’’پانی‘‘ پینے اور دس پندرہ منٹ تک آرام کرنے کے بعد پھر تازہ دَم ہو گئے۔ ایک بار پھر چالیس پنتالیس منٹوں تک بولے۔ کیا اساتذہ اور کیا طلبہ، سبھی مسحور بیٹھے تھے، کسی کو خیال ہی نہ آیا کہ کتنا وقت گزر چکا ہے۔ تب کلائی کی گھڑی کی طرف دیکھا اور کہا، ’’بھائی، کوئی کھانا وانا بھی ملے گا کہ نہیں!‘‘ اور تب طلبہ کو بھی خیال آیا کہ انہیں ہوسٹل کے میس میں کھانے کے لیے پہنچنا ہے، جس کا وقت گزر چکا ہے۔

    شام کو میں گیسٹ ہاؤس پہنچا تو انتظار ہی کر رہے تھے۔ میں وہسکی کی ایک بوتل اپنے اسکوٹر کے بیگ میں رکھ کر لایا تھا اور باورچی خانے میں سوڈے کی بوتلیں پہلے ہی لا کر رکھ دی گئی تھیں۔ تھوڑی دیر میں ڈاکٹر راج کمار بھی آ گئے۔ خاموش طبع انسان تھے اور بہت کم پیتے تھے، اس لیے گفتگو کا فرض ہم دونوں نے ہی ادا کیا۔ میں مودبانہ انداز سے ، لیکن کوئی چبھتی ہوئی بات کہہ دیتا اور پھر ان کے منہ سے گل افشانی شروع ہو جاتی۔ ایک موضوع جو زیرِ بحث آیا اور جس میں مراتب کا خیال رکھے بغیر میں نے کھل کر بحث کی، وہ شعرا کے لیے ایک آفاقی موضوع کے طور پر ’’عشق‘‘ تھا۔ فارسی اور اردو کے حوالے سے بات شروع ہوئی اور فراق صاحب نے کہا کہ دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں ہے، جس میں دنیائے قدیم سے آج تک یہ موضوع اوّل و آخر نہ رہا ہو۔ ’’شعرا کے لیے تو التمش و اولیات سے لے کر آخرت اور عاقبت تک عشق ہی عشق ہے۔‘‘ انہوں نے اردو اور فارسی سے درجنوں مثالیں گنوانی شروع کر دیں تو میں نے ’’عذر مستی‘‘ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عرض کیا کہ ہم تینوں انگریزی کے اساتذہ یہ جانتے ہیں کہ یورپ کی سب زبانوں کے قدیم ادب میں’’ عشق ‘‘ کی وہ pre-eminent position نہیں، جس کا دعویٰ آپ فرما رہے ہیں۔ ہومرؔ کا موضوع ہیلنؔ کا اغوا نہیں ہے، حالانکہ سمجھا یہی جاتا ہے، بلکہ دیوتاؤں کے دو الگ الگ فرضی گروپوں ، مسئلہ جبر و قدر کے عمل اور ردِّعمل کی نقاشی ہے۔ دو تمدنوں کے بیچ کا سنگھرش ہے۔ دانتےؔ کا موضوع بھی عشق نہیں ہے (جنس تو بالکل نہیں ہے، جیسے کہ فارسی ادب میں امرد پرستی کے حوالے سے ہے)۔ دانتےؔ کے بارے میں یہ سوچنا غلط ہے کہ چونکہ ’’ بیاترچےؔ ‘‘ جنت میں اسے راہ دکھاتی ہے، اس لیے تانیثی حوالہ فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لیے وہ اپنے تصور میں آگ کی بھٹّیوں میں ’’پاولوؔ ‘‘ اور ’’فرانچسکاؔ ‘‘ کو حالتِ جماع میں دیکھتا ہے کہ یہ ظاہر ہو کہ جنسی آزاد روی دوزخ کا پیش خیمہ ہے۔

    فراق جیسے حالتِ استغراق میں مبہوت سے بیٹھے میری طرف دیکھتے رہے۔ تب میں نے کہا کہ شیکسپیئر نے اتنی بڑی تعداد میں ڈرامے لکھے لیکن ان میں صرف تین ایسے ہیں جنہیں کھینچ تان کر عشق کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے۔ ’’انتھونی اینڈ کلیوپیٹرا‘‘، ’’رومیو اینڈ جولیٹ‘‘، تو یقیناً مرد اور عورت کے عشق کے موضوع پر ہیں، لیکن ’’اوتھیلو‘‘ عشق کے علاوہ رنگ و نسل اور ازدواجی زندگی کے بارے میں بھی ہے۔ اس سے پیچھے جائیں تو چودھویں صدی میں ہمیں ’’داستان‘‘ کے زمرے میں چاسرؔ کا طویل بکھان ملتا ہے، جس میں عشق سرے سے ہے ہی نہیں۔ اس سے پہلے زمان وسطیٰ کی تخلیق Beowolf ہے، اس کا بھی عشق سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں، تو انگریزی ادب کی شروعات تو عشق کے الوہی یا جنسی مسائل سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔ لواطت تو خیر، …..میں کچھ کہتے کہتے رک گیا، کیونکہ فراق چونکے۔ بوتل سے وہسکی انڈیل کر میرا گلاس پوری طرح بھر دیا اور بولے، ’’انگریز سالے تو نا مرد ہیں، لیکن آپ درست کہتے ہیں، فارسی کے حوالے سے جو اردو کی مائی باپ ہے، البتہ اوّل و آخر عشق صحیح ہے کہ نہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا، ’’جی ہاں، صحیح ہے۔‘‘ خوش ہو گئے۔ فرمایا، ’’کبھی الٰہ آباد آئیں تو غریب خانے پر بھی تشریف لائیں۔

    فراق کی زندگی کا سفر 3 مارچ 1982ء کو تمام ہوا تھا۔ آنجہانی فراق گورکھپوری کے فنِ شاعری اور ان کے کلام پر کئی مضامین سپردِ قلم کیے گئے اور اردو زبان و ادب کے بڑے نقادو‌ں نے فراق کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف کیا ہے رگھو پتی سہائے المروف بہ فراق گورکھپوری 28 اگست 1896ء کو منشی گورکھ پرشاد کے گھر پیدا ہوئے۔ ان کے والد بھی شاعر تھے اور عبرت تخلّص کرتے تھے۔ وہ اردو اور فارسی کے عالم اور ماہرِ قانون بھی تھے۔ فراق کو ان زبانوں کی تعلیم گھر پر ہی دی گئی اور بعد میں فراق نے باقاعدہ مکتب میں‌ داخلہ لیا۔ فراق کو گھر میں علمی و ادبی ماحول ملا تھا جس میں وہ بھی شعر و ادب کی طرف متوجہ ہوگئے۔انگریزی زبان میں ایم اے کرنے کے بعد فراق نے سول سروسز کا امتحان پاس کیا مگر اس سے متعلق ملازمت اختیار نہ کی بلکہ تدریس سے منسلک ہوگئے۔ لیکن ان کا مزاج ایسا تھا کہ ہفتوں کمرۂ جماعت میں داخل نہ ہوتے اور ان کی بعض ناپسندیدہ عادات نے بھی ان کی شہرت خراب کی تھی، لیکن علم و ادب کی دنیا میں بہرحال ان کی بڑی قدر کی جاتی تھی۔

    فراق اردو ہی نہیں انگریزی ادب کا بھی وسیع مطالعہ رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اردو کو بھی اپنے تنقیدی موضوعات سے نئی راہ دکھائی اور جب ان کے مضامین کتابی شکل میں سامنے آئے تو ان کا بہت شہرہ ہوا۔ ان کی دو کتابیں اردو کی عشقیہ شاعری اور حاشیے تنقیدی مضامین پر مشتمل ہیں۔

    ڈاکٹر خواجہ احمد فاروقی کے بقول اگر فراق نہ ہوتے تو ہماری غزل کی سرزمین بے رونق رہتی، اس کی معراج اس سے زیادہ نہ ہوتی کہ وہ اساتذہ کی غزلوں کی کاربن کاپی بن جاتی یا مردہ اور بے جان ایرانی روایتوں کی نقّالی کرتی۔ فراق نے ایک نسل کو متاثر کیا۔ نئی شاعری کی آب یاری میں اہم کردار ادا کیا اور حسن و عشق کا شاعر ہونے کے باوجود ان موضوعات کو نئے زاویے سے دیکھا۔ فراق کو نوجوانی میں ہی شاعری کا شوق پیدا ہو گیا تھا اور 1916ء میں جب ان کی عمر 20 سال تھی، انھوں نے پہلی غزل کہی۔ ان کا کلام ادبی جرائد میں‌ شایع ہونے لگا اور یوں ان کی شہرت کا سفر شروع ہوا۔

    فراق کی نجی زندگی کے حالات پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ 18 سال کی عمر میں ان کی شادی کشوری دیوی سے کر دی گئی تھی، لیکن یہ تعلق ان کے لیے سوہانِ روح بن گیا۔ اس کے بعد والد کا انتقال ہوگیا جو فراق کے لیے کڑا وقت تھا۔ ان پر بھائی بہنوں کی پرورش اور تعلیم کی ذمہ داری آن پڑی۔ ادھر بے جوڑ شادی نے الگ انھیں توڑ کر رکھ دیا تھا۔ اسی زمانہ میں وہ انگریزوں سے آزادی کی جدوجہد میں شریک ہوگئے اور سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے 1920ء میں گرفتاری کے بعد 18 ماہ جیل میں گزارے۔ تاہم آزادی کے بعد فراق سیاست کا حصّہ نہیں رہے۔ فراق کی زندگی کا ایک بڑا المیہ ان کے اکلوتے بیٹے کی سترہ سال کی عمر میں خود کشی تھا جب کہ ان کی بیوی بھی اپنے بھائی کے گھر جا بیٹھی تھیں، یوں فراق تنہائی کا شکار رہے۔ اس کے باوجود فراق نے اردو ادب کو اپنی شاعری اور تنقیدی مضامین کی صورت میں بیش بہا خزانہ دیا انھیں ایسا شاعر مانا جاتا ہے جس نے بیسویں صدی میں اردو غزل کو ایک نیا رنگ اور آہنگ عطا کیا۔ فراق نے کسی کی پیروی نہیں‌ کی بلکہ شاعری میں ان کا اپنا ہی رنگ تھا۔ ان کے متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں روحِ کائنات، شبنمستان، رمز و کنایات، غزلستان، روپ، مشعل اور گلِ نغمہ شامل ہیں۔

    اردو کے اس ممتاز شاعر اور نقّاد کو بھارتی حکومت نے پدم بھوشن اور گیان پیٹھ جیسے اعزازات سے نوازا۔

  • اورنگزیب عالمگیر: مغل بادشاہ جس نے مذہبی رواداری کو فروغ دیا

    اورنگزیب عالمگیر: مغل بادشاہ جس نے مذہبی رواداری کو فروغ دیا

    اورنگزیب عالمگیر کا دورِ حکومت 49 سال پر محیط ہے اور ان کے دور میں پہلی بار تقریباً پورا برصغیر مغلیہ سلطنت کا حصّہ بن گیا تھا۔ احمد نگر میں بیماری کے باعث 3 مارچ 1707ء کو اورنگزیب عالمگیر نے اس فانی دنیا کو خیرباد کہا۔ آج اس مغل بادشاہ کا یومِ وفات ہے۔ اورنگزیب عالمگیر کو ان کی وصیت کے مطابق خلد آباد میں دفن کیا گیا۔

    زندگی کے آخری دنوں میں اورنگزیب اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کامبخش کی ماں ادے پوری کے ساتھ رہے جو ایک گلوکارہ تھی۔ مؤرخین کے مطابق بسترِ مرگ پر مغل بادشاہ نے اپنے بیٹے کو ایک خط میں لکھا کہ ادے پوری بیماری کے اس وقت میں ان کے ساتھ ہیں اور موت کے موقع پر بھی ساتھ ہوں گی۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ اورنگزیب کو ایک کچی قبر میں اتارا گیا تھا۔ اسی سال جب اورنگزیب کے انتقال کو چند ماہ گزرے تھے ادے پوری بھی چل بسی تھی۔

    مغل بادشاہ اورنگزیب تین نومبر 1618 میں پیدا ہوئے۔ اس وقت ان کے دادا جہانگیر ہندوستان کے حکم راں تھے۔ عالمگیر شاہجہاں کی تیسری اولاد تھے اور ممتاز محل ان کی ماں تھیں۔

    مشاہیر سے متعلق کئی قصّے اور باتیں مشہور ہیں، تاہم صدیوں بعد ہم تک پہنچنے والے اکثر واقعات اور حالات کی صحت بھی بہت حد تک مشکوک ہوگئی ہے۔ اگرچہ تاریخ کی مستند کتب اور معتبر مؤرخیں یا سیاح وغیرہ کی تصانیف میں مغل دور اور بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کی ذاتی زندگی اور اس کے دور حکومت سے متعلق بہت کچھ پڑھنے کو ملتا ہے، مگر عام لوگوں میں کئی غلط فہمیاں بھی پائی جاتی ہیں اور بہت واقعات جو ہم تواتر سے سنتے اور پڑھتے رہے ہیں من گھڑت ہیں۔ تاریخ کی مستند کتابوں‌ میں‌ جس ہندوستان کا ذکر ملتا ہے وہ دنیا کا امیر ترین ملک تھا۔ اس عہد کے مؤرخین نے اس ملک کی معاشرت اور حکم رانی کا آنکھوں دیکھا حال رقم کیا اور مغل خاندان، شاہی دربار کے فیصلے اور اشرافیہ کے حالات بھی تحریر کیے ہیں۔ مگر عوام میں اورنگزیب عالمگیر سے ایسے قصّے بھی منسوب ہیں‌ جن کا کوئی مستند حوالہ موجود نہیں۔ اگر بات کی جائے مسلمانوں کے دور میں ہندوستان میں مذہبی رواداری کی تو غیرمسلم رعایا جن میں ہندو، سکھ، عیسائی اور دیگر عقائد کے ماننے والے شامل ہیں، وہ اس سے اختلاف کرتے ہیں۔

    ہندوستان کے تختِ شاہی پر محی الدّین اورنگزیب کے لقب سے متمکن ہوئے۔ ان کے والد شاہجہان نے ان کو عالمگیر کا خطاب دیا۔ اورنگزیب عالمگیر نے قرآن حفظ کیا اور اسلامی علوم کے علاوہ ترکی ادب کی تعلیم بھی حاصل کی۔ وہ ایک ماہر خطاط بھی تھے۔ دوسرے مغل بادشاہوں کی طرح اورنگزیب بھی بچپن سے ہی ہندوی میں فراٹے کے ساتھ گفتگو کرتے تھے۔ انھوں نے گھڑ سواری، تیراندازی اور فنونِ سپہ گری بھی سیکھے۔ عالمگیر سترہ برس کے ہوئے تو 1636ء میں انھیں دکن کا صوبیدار مقرر کردیا گیا۔ اس منصب پر رہتے ہوئے کئی بغاوتوں کو فرو کرنے والے عالمگیر نے چند علاقے بھی فتح کیے۔ بادشاہ شاہجہان کی بیماری کے بعد افراتفری اور سلطنت کے کچھ دور دراز کے علاقوں میں انفرادی حکومت قائم ہونے کا سلسلہ شروع ہوا تو عالمگیر نے کئی معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے اور تخت کے حصول کی کوشش شروع کردی۔ اس کے لیے انھوں نے اپنے والد شاہجہاں کی بیماری کا فائدہ اٹھاکر اپنے بھائیوں سے جنگ کی۔ شاہجہاں کے چاروں بیٹے خود کو تخت کا حق دار سمجھنے لگے تھے۔ شاہجہاں کی خواہش تھی کہ وہ اپنے سب سے بڑے بیٹےا دارا شکوہ کو اپنا جانشین مقرر کریں، لیکن اورنگزیب سمجھتا تھا کہ بھائیوں کے مقابلے میں بادشاہت اس کا حق ہے۔ اورنگزیب نے تلوار کے زور مختلف بغاوتوں کچلنے کے بعد پر ہندوستان کا شاہی تخت بھی حاصل کرلیا۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ اقتدار میں آکر اورنگزیب عالمگیر نے ہندوؤں اور مسلمانوں میں‌ رائج کئی فضول رسموں کا خاتمہ کیا اور نشہ آور اشیاء پر پابندی عائد کردی تھی۔ اسی طرح‌ کھانے پینے کی مختلف اجناس سے محصول ختم کرکے رعایا کی خوش نودی حاصل کی۔ اکثر مؤرخین نے بادشاہ کو پرہیز گار، مدبر اور اعلیٰ درجے کا منتظم لکھا ہے۔ ان کے بارے میں‌ یہ بھی مشہور ہے کہ وہ قرآن مجید لکھ کر اور ٹوپیاں سی کر گزارہ کرتے تھے۔ بادشاہ فارسی کے اچھے مضمون نویس تھے جن کے خطوط رقعاتِ عالمگیر کے نام سے مرتب ہوئے۔ ہندوستان کی اسلامی تاریخ میں اس مغل بادشاہ کی کتاب فتاویٰ عالمگیری کو بھی خاص اہمیت اور شہرت حاصل ہے۔

  • اعجاز درّانی:‌ پاکستانی فلمی صنعت کے معروف اداکار اور کام یاب فلم ساز

    اعجاز درّانی:‌ پاکستانی فلمی صنعت کے معروف اداکار اور کام یاب فلم ساز

    اعجاز درانی فلم انڈسٹری کے ان فن کاروں میں سے ایک تھے جو شہرت اور دولت کے پیچھے نہیں بھاگے اور ہمیشہ اپنے کام کو اہمیت دی۔ وہ خوش اخلاق اور ملنسار مشہور تھے۔ اعجاز درانی 1960 اور 1970 کی دہائی کے معروف اداکار تھے اور بعد میں بطور فلم ساز بھی کام کیا۔ یکم مارچ 2021ء کو اعجاز درانی انتقال کرگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    اعجاز درانی نے ڈیڑھ سو کے قریب اردو اور پنجابی فلموں میں بطور اداکار کام کرنے کے علاوہ ہدایت کار کی حیثیت سے فلم انڈسٹری کو کئی کام یاب فلمیں بھی دیں جن میں پنجابی زبان کی سپر ہٹ فلم ‘ہیر رانجھا’ بھی شامل ہے۔

    اداکار اور فلم ساز اعجاز درانی 18 اپریل 1935 کو جلال پور جٹاں کے قریب ایک ضلع کے نواحی گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جہلم سے بی اے پاس کیا اور اس وقت متحدہ ہندوستان کے ایک فلمی مرکز کے طور پر پہچان رکھنے والے شہر لاہور آ گئے۔ یہاں 21 سالہ اعجاز نے فلم ‘حمیدہ’ سے اداکاری کا سفر شروع کیا۔ اعجاز درانی وجیہ صورت اور جاذبِ نظر شخصیت کے مالک تھے اور جلد ہی وہ فلمی دنیا کے دیگر مرد اداکاروں میں نمایاں‌ ہوگئے۔ ان کی اداکاری اور شخصیت نے انھیں سنیما بینوں میں مقبول بنایا۔

    1960 کی دہائی میں اعجاز درانی کی کئی فلمیں کام یاب ہوئیں جن میں ‘شہید’، ‘بدنام’، ‘لاکھوں میں ایک’، ‘بہن بھائی’ اور ‘زرقا’ کے نام شامل ہیں۔ ان فلموں میں اعجاز کی اداکاری کو سب نے پسند کیا۔ اداکارہ اعجاز نے اپنے وقت کی مقبول ہیروئن اور گلوکارہ نورجہاں سے شادی کی تھی لیکن بعد میں‌ نور جہاں‌ نے ان سے طلاق لے لی تھی۔

    ‘لاکھوں میں ایک’ ، ‘بدنام’ جیسی فلموں کے بعد اعجاز کو 70 کی دہائی میں بھی کام یابی ملتی رہی۔ ان کی پنجابی فلم ‘انورہ’ اور پھر ‘ہیر رانجھا’ نے انھیں شہرت کی بلندیوں‌ پر پہنچا دیا۔ اعجاز نے رانجھا کا کردار نبھا کر سنیما بینوں کے دل جیت لیے۔ یہ وہ فلم تھی جس کا خوب شہرہ ہوا اور خوب صورت نین نقش والی اداکارہ فردوس کے ساتھ اعجاز کی جوڑی بہت پسند کی گئی۔ اعجاز نے اپنے وقت کے مقبول اور باکمال فن کاروں کے ساتھ کام کیا اور منفی کردار بھی بخوبی نبھائے۔ہیر رانجھا کے بعد اعجاز کی ایک کام یاب فلم ‘دوستی’ تھی جس کا گانا ‘چٹھی زرا سیاں جی کے نام لکھ دے’ آج بھی سماعتوں‌ میں‌ رس گھول رہا ہے اور لوگ اسے سننا پسند کرتے ہیں۔ ملکۂ ترنم میڈم نور جہاں سے علیحدگی کے بعد اعجاز نے فلم ‘دوستی’ کے ہدایت کار کی بیٹی سے شادی کر لی تھی۔

    اعجاز درانی لاہور اور راولپنڈی میں سنگیت سنیما کے مالک بھی تھے۔ انھوں نے بطور فلم ساز پنجابی فلم ‘شعلے’ اور ‘مولا بخش’ بھی فلمی صنعت کو دیں جو باکس آفس پر نہایت کام یاب رہیں۔بطور اداکارہ اعجاز درانی کی آخری فلم ‘جھومر چور’ تھی جو 1986 میں ریلیز ہوئی۔

  • فراق صاحب کی موت، جیسے ہمالیہ پہاڑ گر پڑا!

    فراق صاحب کی موت، جیسے ہمالیہ پہاڑ گر پڑا!

    جو شخص کل جوش کے گزرنے پر پھوٹ کر رو رہا تھا، وہ آج گزر گیا اور اب وہی بات جو اس نے جوش کے اٹھ جانے پر کہی تھی اس کے بارے میں درست ٹھہری ہے۔

    اک ستون اور گرا ایک چراغ اور بجھا

    آگے پیچھے اردو شاعری کے دو ستون گرے، دو چراغ بجھے۔

    ویسے تو جوش اور فراق دونوں ہی اپنی اپنی جگہ اپنے عہد کے چراغ تھے مگر دونوں کی روشنی میں بہت فرق تھا۔ جوش پر ایک روایت ختم ہو رہی تھی، فراق سے ایک عہد شروع ہو رہا تھا۔ پابند نظم میں جتنا کچھ اظہار ہونا تھا ہو لیا۔ اب وہ آگے نہیں چل سکتی تھی کہ نئی نظم شروع ہو چکی تھی۔ جوش کے ساتھ اس نظم کا سفر تمام ہوا۔ مگر فراق صاحب جہاں سے شروع ہوئے وہاں سے غزل کا نیا سفر شروع ہوا۔ فراق صاحب کو نئی غزل کا باپ کہنا چاہیے۔

    اس صدی کی تیسری دہائی میں ہماری شاعری میں نئی نظم نے اپنا ڈنکا بجایا۔ اس وقت یوں لگتا تھا کہ تخلیقی اظہار کی ساری ذمہ داری نئی نظم نے سنبھال لی ہے، غزل بس مشاعرے کی ضرورتیں پوری کیا کرے گی مگر اسی دہائی میں غزل کے ساتھ ایک واقعہ گزر گیا۔ فراق صاحب غزل گوئی تو پچھلی دہائی سے کرتے چلے آ رہے تھے۔ مگر اس دہائی میں آ کر ان کی غزل نے ایک عجیب سی کروٹ بدلی۔ اس کروٹ کا اچھے خاصے عرصے تک کسی کو پتہ ہی نہ چلا۔ مشاعرے جگر صاحب لوٹ رہے تھے۔ اس نقار خانے میں فراق کی دھیمی آواز کہاں سنی جا سکتی تھی ادھر ادبی رسالوں میں بھی بہت شور تھا۔ نظمِ آزاد کا شور انقلابی شاعری کا شور، فراق کی دھیمی آواز یہاں بھی دبی دبی تھی۔ نئی نظم والے اس وقت بہت زور دکھا رہے تھے انہیں یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ یہ دھیمی آواز ان کی نئی شاعری کے لیے موقع کی منتظر تھی۔ ادب میں نئے رجحان کے طاقت بننے کا عمل بھی عجب ہوتا ہے۔ اکثر یوں ہوا ہے کہ کوئی نیا رجحان ابھرا اور ایک عرصہ تک اکیلی آواز طاقت پکڑ کر عہد کا رجحان بن گئی۔ فراق صاحب کی غزل میری دہائی میں اور ہمسر دہائی سے نکل کر 1947ء تک مشاعروں اور نئی نظم کے ہنگاموں کے بیچ اکیلی آواز تھی۔ بس 47ء میں جب تقسیم کا واقعہ نما ہوا تو اچانک اس اکیلی آواز کے ہمنوا پیدا ہو گئے۔ ہمنواؤں نے اس آواز کو عہد کی آواز بنا دیا۔

    یہ بھی عجب ہوا کہ فراق صاحب ہندستان میں رہے اور ہمنوا پاکستان میں پیدا ہوئے۔ پاکستان کے ابھرنے کے ساتھ ناصر کاظمی کی غزل ایک نئی آواز بن کر ابھری۔ اردگرد اور آوازیں ابھریں اور اب غزل نے پھر سے اپنے عہد کے ساتھ پیوست ہو کر تخلیقی اظہار کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ لیکن اگر فراق صاحب نے اتنے عرصے تک اس میں اپنی جان کو نہ کھپایا ہوتا تو اس میں یہ توانائی کیسے پیدا ہوتی۔

    اس ایک چراغ سے کتنے چراغ جل اٹھے

    اور پھر عسکری صاحب نے اعلان کیا کہ ’’اب جو غزلیں لکھی جا رہی ہیں ان میں فراق کا دیا ہوا طرزِ احساس گونجتا ہے۔ فراق کے محاورے سنائی دیتے ہیں، فراق کی آواز لرزتی ہے۔ بالکل اس طرح جیسے غزل گو شعراء کے یہاں میر اور غالب کا احساس اور محاورہ جا بجا لپک اٹھتا ہے۔ پچھلے تین چار سال میں جو غزل کا احیاء ہوا ہے وہ 75 فیصد فراق کا مرہون منت ہے۔ فراق کی شاعری نے اردو میں ایک ادارے کی حیثیت اختیار کر لی ہے۔‘‘

    فراق صاحب کی غزل کی وہ کروٹ جسے ہم نئی غزل سے عبارت کرتے ہیں عسکری صاحب کی دانست میں 28ء سے شروع ہوتی ہے۔ مگر فراق صاحب تو دوسری دہائی کے آغاز کے ساتھ شروع ہوئے تھے اس عرصہ کو ہم کس کھاتے میں ڈالیں اور اس کی توجیہ کیسے کریں۔

    بات یہ ہے کہ بڑا شاعر پیدا ہوتے ہی بڑا شاعر نہیں بن جاتا یا اگر کسی شاعر کو کسی نئے رجحان کا نقیب بنتا ہے تو شروع ہی سے اسے یہ حیثیت حاصل نہیں ہو جاتی۔ ابتدائی مراحل میں تو بس کچھ پر چھائیاں نظر آتی ہیں۔ اپنے اصل مقام تک پہنچنے کے لیے اسے ریاضت کے ایک پورے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ فراق صاحب کا 38ء تک کا زمانہ شاعری کی ریاضت کا زمانہ ہے۔ یہ ریاضت کس نوعیت کی تھی۔ اس کا اندازہ فراق صاحب کی اکیلی اردو غزل کی روایت سے استفادے پر قانع نہیں تھے۔ مختلف ادبی روایتوں اور مختلف تہذیبی سر چشموں سے اپنے آپ کو سیراب کر رہے تھے ان کا یہ بیان دیکھیے۔

    ’’میری شاعرانہ شخصیت و وجدان کی تخلیق و نشو و نما میں بہت سے اثرات شامل تھے۔ پہلا اثر سنسکرت ادب اور قدیم ہندو تہذیب کے وہ آدرش تھے جن میں مادی کائنات اور مجازی زندگی پر ایک ایسا معصوم اور روشن خیال ایمان ہمیں ملتا ہے جو مذہبی عقائد سے بے نیاز ہو کر اور بے نیاز کر کے شعور میں انتہائی گہرائی پیدا کر دیتا ہے۔

    اس ضمن میں فراق صاحب کا یہ موقف بھی سنتے چلئے کہ اردو شاعری نے عربی اور فارسی سے تو بہت فیض اٹھایا ہے مگر اسے دوسری زبانوں کے ادب اور تہذیبوں میں جو آفاقی عناصر ہیں انہیں بھی اپنے اندر سمو نا چاہیے بالخصوص کالی داس، بھر تری ہری اور تلسی داس سے شناسا ہونا چاہیے۔ خیر اب ان کا دوسرا بیان دیکھیے۔

    ’’میری جستجو یہی رہی کہ شروع سے لے کر اب تک کی اردو غزل میں ان اشعار کو اپنی روحانی اور نفسیاتی غذا بناؤں جن میں روشن خیالی اور شرافت کوٹ کوٹ کر بھری ہو۔ قدیم یونانی تہذیب اور دوسری قدیم تہذیبوں میں جو اعلیٰ ترین فکریات مجھے مل سکیں، انہیں بھی میرے شعور اور لہجے نے اپنایا پھر جدید مغربی ادب کے جواہر پاروں نے میری زندگی اور شاعری کو مالا مال کیا۔ ‘‘

    دیکھیے کہ کس طرح ایک شاعر مختلف ادبی روایتوں سے مختلف تہذیبوں سے اپنی تخلیقی روح کے لیے غذا حاصل کر رہا ہے اور اپنے فکر و احساس میں وسعت پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ عمل چھوٹا عمل تو نہیں ہے اس میں وقت تو لگتا ہی تھا اور اتفاق یا اردو شاعری کی روح کا انتظام دیکھیے کہ یہ عمل ٹھیک اس برس جا کر تکمیل کو پہنچتا ہے جب علامہ اقبال اس دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں۔

    علامہ اقبال کا حوالہ میں نے یہ سوچ کر دیا کہ اس بیسوی صدی میں ہماری شعری روایت میں بلکہ ہماری ادبی روایت میں وہ پہلے آدمی ہیں جنہوں نے کچھ اس طور شاعری میں قدم رکھا کہ مغرب کے فکر و فلسفہ سے بھی پوری طرح سیراب تھے اور مشرق کی بالخصوص اسلام کی فکری روایت میں بھی رچے بسے تھے۔ اس طور پر انہوں نے اردو شاعری کی فکری بنیادوں کو پختہ کیا۔ وہ دنیا سے رخصت ہونے لگتے ہیں کہ ایک دوسرا شاعر اسی طور مشرق و مغرب کی عملی، ادبی اور تہذیبی روایات سے فیض پا کر غزل سراہوتا ہے یعنی اقبال کے بعد فراق دوسرے شاعر ہیں جو ایک بڑے دماغ کے ساتھ ایک علمی کمک کے ساتھ اور ایک وسیع قلب و نظر کے ساتھ اردو شاعری کی دنیا میں داخل ہوئے اسی لیے اگر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے اپنے تعزیتی بیان میں فراق صاحب کو اردو ادب کا ہمالیہ پہاڑ کہا ہے تو اس میں ایسا مبالغہ نہیں ہے اور میں نے تو یہاں صرف فراق کی غزل کا ذکر کیا ہے۔ دوسری اصناف میں فراق نے کیا کہا ہے اور اردو تنقید کو اس شخص نے کیا دیا ہے، اس کا تو ذکر آیا ہی نہیں مگر یہ تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ جس شخص نے گھاٹ گھاٹ علم کا اور ادب کا پانی پیا ہو وہ جب تنقید لکھنے بیٹھا ہو گا تو اس نے کیا کچھ دیا ہو گا۔

    اس پس منظر میں دیکھیے پھر سمجھ میں آتا ہے کہ فراق صاحب کی موت اردو ادب کے لیے کتنا بڑا سانحہ ہے سچ مچ جیسے ہمالیہ پہاڑ گر پڑا۔

    ایک روشن دماغ تھا نہ رہا
    شہر میں اک چراغ تھا نہ رہا

    (اردو کے ممتاز فکشن رائٹر، صاحبِ طرز ادیب انتظار حسین کی ایک تحریر)

  • ایک چینی کسان کی کہانی جو پرل بَک کی وجہِ شہرت بنی

    ایک چینی کسان کی کہانی جو پرل بَک کی وجہِ شہرت بنی

    پرل ایس بَک (Pearl Sydenstricker Buck) پہلی امریکی خاتون ہیں جنھیں 1938 میں ادب کا نوبیل انعام ملا۔ یہ انعام اُن کے ناول ‘گڈ ارتھ’ پر دیا گیا تھا۔

    پرل بک امریکی تھیں‌، لیکن چینیوں سے ان کا ذہنی اور قلبی تعلق نہایت گہرا تھا۔ وہ چار ماہ کی تھیں جب والدین کے ساتھ چین چلی گئی تھیں اور پھر وہاں پرل بَک نے دو دہائیاں گزاریں۔ بچپن اور نوعمری کے ساتھ اپنے عنفوانِ شباب میں وہ عام چینی باشندوں سے میل جول کے ساتھ اُس سماج میں گھل مل گئی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ پرل بَک نے جب قلم تھاما تو چین کے ہر طبقاتِ عوام اور ان کی معاشرت کو اپنی تحریروں میں شامل کرتی چلی گئیں۔ اسی لیے وہ اپنی وفات تک امریکہ میں چینی تہذیب و ثقافت کی ایک ماہر کے طور پر بھی مشہور رہیں۔ ایک موقع پر پرل بَک نے کہا تھا “میں پیدائشی طور پر امریکی ہوں، لیکن کہانی کا میرا ابتدائی علم، کہانیاں سنانے اور لکھنے کا طریقہ بھی میں‌ نے چین میں رہ کر سیکھا۔”

    پرل بَک (Pearl Sydenstricker Buck) والد کے غصّے کے باوجود بچّوں کا ادب پڑھنے لگی تھیں، ناول اور کہانیوں میں‌ ان کی دل چسپی وقت کے ساتھ بڑھتی گئی اور بعد میں‌ چین ہی میں‌ رہتے ہوئے انھوں‌ نے فکشن رائٹر کی حیثیت سے اپنا سفر شروع کیا، پرل بَک نے اپنے مشاہدات اور تجربات کو اپنی تحریروں کا حصّہ بنایا۔ ناول نگار پرل بَک 1892ء میں امریکا میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد عیسائیت کے پرچارک تھے اور اپنی شریکِ حیات کے ساتھ تبلیغی مشن پر چین میں‌ مقیم تھے اور ولادت کا وقت قریب آیا تو یہ جوڑا امریکہ لوٹ آیا جہاں پرل بَک نے جنم لیا۔ والدین ننھّی پرل بَک کو لے کر دوبارہ چین چلے گئے۔

    اردو زبان میں‌ ناول دا گڈ ارتھ کا ترجمہ پیاری زمین کے نام سے ممتاز ادیب اور مترجم ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری نے کیا تھا۔ یہ وہ ناول تھا جس پر نوبیل انعام حاصل کرنے سے چھے سال پہلے یعنی 1932ء پرل بَک کو پلٹزر پرائز دیا جا چکا تھا۔ 1937ء میں ان کے اس ناول پر فلم بھی بنائی گئی تھی جو آسکر کے لیے نام زد ہوئی اور اس بات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس ناول کو اُس کی اشاعت کے اوّلین برسوں ہی میں کس قدر توجہ اور پذیرائی ملی تھی۔ امریکہ میں دا گڈ ارتھ بیسٹ سیلر ناول بھی رہا۔ اس ناول کو نوبیل انعام دینے کی وجہ یہ تھی کہ مصنّفہ نے چین کی دیہاتی زندگی کی سچّی اور دل چسپ تصویر کشی کی اور یہ سوانحی شاہ کاروں پر مشتمل تھا۔

    پرل بَک نے اپنے ناول میں ایک کسان وانگ لنگ کی زندگی کو دکھایا ہے جس نے انتہائی غربت جھیلی اور اسی دوران ہمّت کرکے اپنا کام شروع کیا۔ ایک باندی سے شادی کے بعد اس کی مستقل مزاجی اور محنت نے اس کی زمینوں کو وسعت دی۔ حالات موافق رہے اور وہ ایک کسان سے زمین دار بنتا گیا۔ ناول میں مصنفہ نے یہ بتایا ہے کہ انسان بالخصوص ایک کسان کا زمین کے ساتھ اٹوٹ رشتہ ہوتا ہے، وہ اسے کبھی ختم نہیں‌ کر پاتا۔

    اس ناول میں ایک تاریخی قحط کا ذکر بھی کیا گیا ہے جس کے بعد کسان اور اس کا خاندان بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی زمین چھوڑ کر شہر میں آباد ہوتا ہے۔ وہ بھیک مانگ کر بھی گزارہ کرتے ہیں۔ پرل بَک نے نہایت خوب صورتی سے ناول کے مرکزی کردار کی زندگی کے اتار چڑھاؤ کو واضح کیا ہے۔ مصنّفہ نے انسانی فطرت، غربت اور اس کے بطن سے پھوٹنے والے مسائل، مال و دولت کی فراوانی کے نتیجے میں جنم لینے والی خرابیوں کے علاوہ سماجی نفسیات کے کئی پہلوؤں کو بھی بیان کیا ہے جو اس ناول کو اہم بناتا ہے۔

    پرل ایس بَک کا پورا نام پرل سیڈنسٹریکر تھا، جن کی شادی 1917ء میں جان لوسنگ بَک نامی شخص سے ہوئی اور اسی نسبت سے وہ پرل سیڈنسٹریکر بَک ہو گئیں‌۔ انھیں‌ پرل بَک کے نام سے پکارا گیا۔

    پرل بَک نے چارلس ڈکنز کو شوق سے پڑھا۔ اور ساتھ ساتھ تعلیمی میدان میں بھی آگے رہیں۔ وہ 1911ء میں گریجویشن کرنے کے لیے امریکہ گئیں‌ اور ورجینیا کی ایک جامعہ سے 1914ء میں سند یافتہ ہوئیں۔ اگرچہ تعلیم کا یہ مرحلہ طے کرنے کے بعد خود پرل بَک چین جاکر مشنری خدمات انجام دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی تھیں‌، لیکن اپنی والدہ کی بیماری کی وجہ سے انھیں چین لوٹنا پڑا۔ اس کے بعد ان کی شادی ہوگئی اور وہ انوہی صوبے کے ایک چھوٹے سے قصبے سوزہو میں منتقل ہو گئیں۔ اس علاقے کا ذکر انھوں‌ نے “دا گڈ ارتھ” کے علاوہ اپنے ناول “سنز” میں بھی کیا ہے۔ چند سال بعد وہ مزید تعلیم کے حصول کی غرض سے امریکہ لوٹیں۔ انھوں نے 1924ء میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور اس کے اگلے ہی برس چین چلی گئیں۔

    یہ 1929ء کی بات ہے جب پرل بَک نے اپنے ایک ناول “ایسٹ ونڈ: ویسٹ ونڈ” کا مسودہ نیویارک میں پبلشر کو تھمایا تھا۔ اگلے سال ان کا یہ ناول شائع ہوگیا۔ اس کی کہانی بھی چین کے گرد گھومتی ہے۔ 1931ء وہ سال تھا جب پرل ایس بَک نے دا گڈ ارتھ کی اشاعت کے بعد عالمی سطح پر ادیبوں کی صف میں نام و مقام پا لیا۔ اس شناخت کے ساتھ وہ اہم اعزازات بھی اپنے نام کرنے میں‌ کام یاب ہوئیں۔

    1934ء میں پرل بَک نے نیویارک میں مشنری خدمات سے متعلق ایک بیان دیا اور پھر وہ اُس ملک کا دوبارہ رخ نہ کیا جس کی کہانیوں نے انھیں‌ دنیا بھر میں‌ پہچان دی تھی۔ 1935ء میں اپنے پہلے خاوند سے علیحدگی کے بعد پرل بَک نے رچرڈ والش سے دوسری شادی کی اور 1960ء میں رچرڈ کی وفات تک دونوں پینسلوینیا میں مقیم رہے۔

    پرل ایس بَک کی کہانیوں میں‌ تنوع نظر آتا ہے جو خواتین کے حقوق، ایشیائی ثقافتوں، ہجرت، مذہب اور تبلیغ کے ساتھ جنگ اور ایٹم بم جیسے موضوعات پر مشتمل ہے۔ 43 ناولوں کے علاوہ پرل بَک نے کئی کہانیاں‌ اور غیر افسانوی ادب بھی تخلیق کیا اور ان کی درجنوں کتابیں شایع ہوئیں۔

    نوبیل انعام یافتہ پرل بَک 1973ء میں اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔

  • ورجینا وولف کی خود کُشی اور آخری خط

    ورجینا وولف کی خود کُشی اور آخری خط

    ’’اگر کوئی مجھے اس تکلیف سے بچا سکتا تھا، تو وہ تم ہی تھے۔ ہر چیز مجھ سے جدا ہو رہی ہے، سوائے اس محبت کے جو تم نے مجھ سے ہمیشہ کی۔‘‘

    یہ سطور ورجینا وولف کی آخری تحریر سے لی گئی ہیں جو انھوں نے اپنے شوہر کے نام چھوڑی تھی۔ ایک ادیب، مضمون نویس اور نقّاد کی حیثیت سے آج بھی انھیں‌ ادب کی دنیا میں پہچانا جاتا ہے۔ ورجینا وولف نے 1914ء میں آج ہی کے دن خود کُشی کر لی تھی۔ انھوں نے ایک ندی میں‌ چھلانگ لگا دی تھی اور پانی نے ان کی یہ کوشش قبول کرلی۔

    ورجینا وولف 25 جنوری 1882ء کو برطانیہ میں پیدا ہوئیں۔ ان کا مکمل نام ایڈلن ورجینا وولف تھا۔ وہ ایک متمول گھرانے کی فرد تھیں اور یہ کنبہ فنونِ لطیفہ کے مختلف شعبوں میں فعال اور تخلیقی کاموں کے لیے مشہور تھا۔ یہ آٹھ بہن بھائی تھے جن میں ورجینا وولف کو دنیا میں‌ بھی پہچان ملی۔ ان کے والد قلم کار، مؤرخ اور نقّاد، والدہ ماڈل جب کہ ایک بہن مصورہ اور ڈیزائنر تھیں۔

    ورجینا وولف نے دستور کے مطابق اسکول کی بجائے گھر پر تعلیم و تربیت کے مراحل طے کیے، ادب پڑھا، گھر میں کتابیں موجود تھیں اور علمی و ادبی موضوعات پر گفتگو بھی سننے کا موقع ملتا رہتا تھا۔ اور پھر وہ وقت آیا جب انھوں نے خود مضمون نویسی اور کہانیاں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔

    ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے کنگز کالج میں داخلہ لیا اور اس عرصے میں تاریخ اور ادب کے گہرا مطالعہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا باعث بنا، اسی دوران عورتوں کے حقوق اور مسائل سے بھی آگاہی حاصل کی جس نے ورجینا وولف کی فکر اور تخلیقی صلاحیتوں کو اجالا اور والد نے حوصلہ افزائی کی تو باقاعدہ لکھنے کا آغاز کیا۔ اسی سفر کے آغاز پر انھیں والد کی جدائی کا صدمہ بھی برداشت کرنا پڑا۔ اس سے قبل والدہ داغ مفارقت دے چکی تھیں۔ ورجینا وولف کی زندگی میں ایسی تبدیلیاں اور رنج و غم کے مواقع آئے جنھوں نے ان کے ذہن پر گہرا اثر کیا۔ وہ ایک نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہوگئیں، جس میں مریض اپنی جان لینے کی کوشش کرتا ہے۔ ورجینا وولف موت سے پہلے بھی خود کُشی کی متعدد کوششیں کرچکی تھیں۔

    اس برطانوی مصنّفہ کا پہلا ناول’’دا ووئیج آؤٹ‘‘ تھا۔ 1925ء میں ’’مسز ڈالووے‘‘ اور 1927ء میں ’’ٹو دا لائٹ ہاؤس‘‘اور 1928ء میں ’’اورلینڈو‘‘ کے عنوان سے ان کے ناول منظرِ‌عام پر آئے جو ان کی پہچان ہیں۔ ان کے ایک مضمون بعنوان ’’اپنا ایک خاص کمرہ‘‘ دنیا بھر میں‌ قارئین تک پہنچا اور اسے بے حد پسند کیا گیا۔

    ورجینا وولف کی تخلیقات کا پچاس سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہوا اور ان کی تحریر کردہ کہانیوں کو تھیٹر اور ٹیلی وژن پر پیش کیا گیا۔ ’’مسز ڈالووے‘‘ ان کا وہ ناول ہے جس پر فلم بنائی گئی تھی۔

    موت کو گلے لگانے سے قبل ورجینا نے اپنے شوہر کے نام جو پیغام لکھا، وہ یہ ہے:

    پیارے…
    مجھے لگتا ہے کہ میں دوبارہ پاگل پن کی طرف لوٹ رہی ہوں اور مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہم دوبارہ اس بھیانک کرب سے نہیں گزر پائیں گے۔ میں دوبارہ اس تکلیف سے اَب ابھر نہیں پاؤں گی۔ مجھے پھر سے آوازیں سنائی دیتی ہیں جس کی وجہ سے میں کسی چیز پہ اپنی توجہ مرکوز نہیں کر پا رہی ۔ میں وہ کرنے جا رہی ہوں…… جو بظاہر ان حالات میں کرنا بہتر ہے۔

    تم نے مجھے زندگی کی ہر ممکنہ خوشی دی۔ تم میرے ساتھ ہر طرح کے حالات میں ساتھ ساتھ رہے، جتنا کوئی کسی کے ساتھ رہ سکتا ہے۔ نہ میں سمجھ ہی سکتی ہوں کہ دو انسان اس قدر اکٹھے خوش رہ سکتے ہیں، جیسے ہم رہ رہے تھے، جب تک کہ اس اذیت ناک بیماری نے مجھے شکار نہ کرلیا۔

    اب میں مزید اس بیماری سے نہیں لڑ سکتی۔ میں یہ بھی سمجھتی ہوں کہ میری وجہ سے تمہاری زندگی بھی تباہ ہو رہی ہے، جو میرے بغیر شاید کچھ پُرسکون ہو جائے۔ مجھے یقین ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔

    بس میں یہی کہنا چاہتی ہوں کہ میری ساری زندگی کی خوشی تم سے منسوب رہی ہے۔ تم ہمیشہ میرے ساتھ بہت اچھے اور پُرسکون رہے ہو، اور میں کہنا چاہتی ہوں کہ یہ حقیقت سب ہی جانتے ہیں۔ اگر کوئی مجھے اس تکلیف سے بچا سکتا تھا، تو وہ تم ہی تھے۔ ہر چیز مجھ سے جدا ہو رہی ہے، سوائے اس محبت کے جو تم نے میرے ساتھ ہمیشہ کی۔

    میں ہرگز یہ نہیں چاہتی کہ میری بیماری کی وجہ سے تمہاری زندگی مزید تباہ ہو۔ میں ایسا مزید نہیں کرسکتی۔ میں نہیں سمجھتی کہ دنیا میں دو انسان ایک ساتھ اتنا خوش رہے ہوں…… جتنا ہم!

  • ستار طاہر کا تذکرہ جو بھٹو صاحب پر کتاب لکھنے کی پاداش میں‌ جیل گئے

    ستار طاہر کا تذکرہ جو بھٹو صاحب پر کتاب لکھنے کی پاداش میں‌ جیل گئے

    اردو کے کثیر التصانیف مصنّف اور ماہر مترجم ستّار طاہر نے کئی موضوعات پر دل چسپ اور معیاری کتابوں کے ساتھ اردو زبان کے قارئین کو غیرملکی ادب سے محظوظ ہونے کا موقع دیا۔ ستار طاہر 1993ء میں‌ آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    ستار طاہر کا وطن گورداس پور تھا جہاں یکم مئی 1940ء کو پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد فیصل آباد منتقل ہوگئے۔ زمانۂ طالبِ علمی ہی سے لکھنے پڑھنے سے لگاؤ رہا اور اسی شوق نے انھیں ادب کی طرف مائل کیا جہاں انھوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور زورِ قلم سے شہرت اور مقام پایا۔ وہ ایک ادیب، مترجم، کالم نگار، صحافی اور محقّق تھے۔

    ستّار طاہر نے 250 سے زائد کتابیں مرتب کیں اور تین روسی کتب کا ترجمہ بھی کیا۔ اپنا قائدِاعظم ایک، دنیا کی سو عظیم کتابیں اور مارشل لاء کا وائٹ پیپر سمیت کئی کتابیں ستار طاہر کی پہچان بنیں۔ وعدے کی زنجیر اور میرا نام ہے محبت جیسی مشہور فلموں کی کہانیاں بھی انہی کے قلم سے نکلی تھیں۔ انھوں نے ایک مضمون نگار، کہانی کار کی حیثیت سے مختلف موضوعات کو اپنی تحریروں میں‌ سمیٹا اور اپنے نظریات اور افکار کے سبب بھی پہچانے گئے۔

    ستار طاہر کو جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھٹو صاحب پر کتاب لکھنے کی پاداش میں جیل کی ہوا بھی کھانا پڑی تھی۔ ستار طاہر کا شمار ان مصنفین میں ہوتا ہے جو عمر بھر جمہوریت اور اصولوں کے پرچارک رہے اور آمریت کے خلاف محاذ پر ڈٹے رہے۔

    ان کی تحریر کردہ کتب میں سورج بکف و شب گزیدہ، حیاتِ سعید، زندہ بھٹو مردہ بھٹو، صدام حسین، مارشل لا کا وائٹ پیپر، تعزیت نامے سرِ فہرست ہیں۔ ان کی ترجمہ شدہ کتب میں ری پبلک، حسن زرگر، دو شہروں کی ایک کہانی، شہزادہ اور فقیر، سرائے، تاراس بلبا اور دنیا کی سو عظیم کتابیں شامل ہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے ستّار طاہر کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے بعد از مرگ انھیں صدارتی اعزاز عطا کیا تھا۔ وہ لاہور میں اسلام پورہ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • شہناز بیگم: مشرقی پاکستان کی پہلی گلوکارہ جنھوں نے اردو میں ملّی نغمات پیش کیے

    شہناز بیگم: مشرقی پاکستان کی پہلی گلوکارہ جنھوں نے اردو میں ملّی نغمات پیش کیے

    پاکستان میں‌ شہناز بیگم کا نام اور ان کی مسحور کن آواز اردو زبان میں‌ ان کے گائے ہوئے ملّی نغمات کی وجہ سے آج بھی مقبول ہے۔ اس گلوکارہ کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا جو بنگلہ دیش بن جانے کے بعد اپنے آبائی وطن منتقل ہوگئی تھیں۔

    یہ اتفاق ہے کہ پاکستان کے ملّی نغمے گانے والی اس مشہور گلوکارہ کی تاریخِ وفات 23 مارچ ہے جب قراردادِ پاکستان پیش کی گئی تھی۔

    2019ء میں‌ وفات پانے والی شہناز بیگم مشرقی پاکستان کی وہ پہلی گلوکارہ تھیں جنھوں نے اردو زبان میں ملّی نغمات کو اپنی آواز دی اور لازوال شہرت حاصل کی۔ انھوں‌ نے شہنشاہِ غزل مہدی حسن سے گلوکاری کے اسرار و رموز سیکھے تھے۔

    سابق مشرقی پاکستان کی شہناز بیگم کی پُراثر آواز آج بھی ارضِ پاک کی فضاؤں میں سنائی دیتی ہے اور ان کے گائے ہوئے قومی نغمات ہر چھوٹے بڑے کی زبان پر ہوتے ہیں۔ خوب صورت شاعری اور گلوکارہ کی دل پذیر آواز ہر قومی دن پر گلی گلی اور ہر تقریب میں‌ ہماری سماعتوں کو لطف و سرور اور سرشاری عطا کرتی ہے۔ شہناز بیگم جب بھی پاکستان آتیں تو ان سے قومی نغمات ”جیوے جیوے پاکستان، اور ”سوہنی دھرتی اللہ رکھے” سنانے کی فرمائش کی جاتی جسے وہ ضرور پورا کرتیں۔ اس پر وہ بنگلہ دیش میں مطعون بھی کی جاتیں اور انھیں غدارِ وطن بھی کہا گیا، مگر جن نغمات نے انھیں شہرت اور جن لوگوں‌ نے انھیں‌ عزّت اور پیار دیا، ان کی فرمائش ٹالنا شاید ان کے لیے ممکن نہیں‌ تھا۔

    شہناز بیگم کا اصل نام شہناز رحمت اللہ تھا جو 1952ء کو مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکہ کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئی تھیں۔ شہناز بیگم نے اسکول کے زمانے میں گانا شروع کردیا تھا۔ وہ دس سال کی تھیں جب ریڈیو پاکستان، ڈھاکہ اسٹیشن سے ایک پروگرام کا حصّہ بنیں اور بنگلہ زبان میں پاکستانی قومی نغمہ گایا۔ 65ء کی جنگ میں بھی انھوں نے اپنی آواز میں‌ گانے ریکارڈ کروائے اور خوب داد و تحسین وصول کی۔

    ڈھاکہ میں حالات شدید خراب ہوئے تو شہناز بیگم کراچی منتقل ہوگئیں اور یہاں ” جییں تو اس دھرتی کے ناتے، مریں تو اس کے نام” جیسا خوب صورت نغمہ گایا۔ شہناز بیگم نے 1971ء میں بھارت کے مشرقی پاکستان پر حملے کے بعد کراچی میں ریڈیو سے مہدی حسن خاں کے ساتھ مل کر نغمۂ یکجہتی گایا جس کے اشعار یہ تھے:

    پاک زمیں کے سارے ساتھی، سارے ہم دَم ایک ہیں
    پورب پچھم دور نہیں ہیں، پورب پچھم ایک ہیں
    وہ سلہٹ ہو یا خیبر ہو، سُندر بن ہو یا کشمیر
    ہم دونوں کا ایک وطن ہے اِک نظریہ اک تقدیر

    اس گلوکارہ کی آواز میں پاکستان ٹیلی ویژن پر قومی نغمہ ”وطن کی مٹی گواہ رہنا” سب سے پہلے گونجا تھا۔ جنگ کے بعد بھی شہناز بیگم نے ایک بار پھر حبُ الوطنی کا ثبوت دیتے ہوئے صہبا اختر کا تحریر کردہ نغمہ ” آیا نیا زمانہ آیا ، بھیا بھول نہ جانا، پاکستان بچانا” گا کر ہم وطنوں کا دل جیت لیا۔

    ”سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے” وہ گیت تھا جسے پاکستان کی گولڈن جوبلی کے موقع پر پاکستان ٹیلی ویژن کی طرف سے پہلا انعام دیا گیا اور یہ بتایا گیا کہ پاکستانی عوام اس عظیم گلوکارہ کو نہیں بھولے ہیں۔

    یہ منفرد قومی نغمہ "موج بڑھے یا آندھی آئے، دیا جلائے رکھنا ہے” کس نے نہیں‌ سنا ہو گا۔ آج بھی شہناز بیگم کی آواز میں یہ شاعری دلوں کو گرماتی اور جوش و ولولہ بڑھاتی ہے۔