Tag: مارچ برسی

  • شاعرِ مزدور احسان دانش کا تذکرہ

    شاعرِ مزدور احسان دانش کا تذکرہ

    احسان دانش کی زندگی جہدِ مسلسل سے عبارت تھی۔ روزی روٹی کا چکر ان کے پیروں میں‌ ایسا پڑا کہ عمر اسی میں گزر گئی اور وہ شاعرِ مزدور مشہور ہوگئے۔

    اردو کے اس مشہور شاعر کی زندگی کے ابتدائی ایّام بے حد سخت اور کٹھن تھے، جب احسان دانش کو جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے بڑے جتن کرنا پڑے۔ انھوں نے کبھی مزدوری کی تو کبھی باروچی گیری، کہیں چپڑاسی بھرتی ہوئے تو کبھی مالی بن کر دو وقت کی روٹی کا انتظام کیا، لیکن اس کے ساتھ قلم بھی تھامے رکھا اور تخلیقی ادب کے ساتھ زبان و بیان، تحقیق اور تدوین کا کام بھی انجام دیتے رہے۔

    احسان دانش ایسے کج کلاہ تھے جنھوں نے ضمیر فروشی کے علاوہ ہر معمولی مگر جائز کام کر کے پیسے کمائے۔ ان کا اصل نام قاضی احسانُ الحق تھا، مگر شعر و ادب میں احسان دانش کے نام سے شہرت پائی۔ 22 مارچ 1982ء کو وفات پانے والے احسان دانش نام وَر شاعر، ادیب اور ماہرِ لسان تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی کی مشکلات اور تلخیوں کے ساتھ اردو زبان و ادب میں‌ جو نام و مرتبہ پایا اس کی مثال کم ہی نظر آتی ہے۔

    قاضی احسان الحق 1914ء میں کاندھلہ، مظفر نگر (یو پی) میں پیدا ہوئے تھے۔ غربت کی وجہ سے چوتھی جماعت سے آگے نہ پڑھ سکے، لیکن مطالعہ کے شوق اور لگن سے اردو، فارسی اور عربی کے ساتھ شاعری میں کمال حاصل کیا۔ نوعمری میں تلاشِ معاش کی غرض سے لاہور آگئے اور یہیں عمر تمام کی۔

    احسان دانش شاعری نے ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی۔ غزلوں کے ساتھ ساتھ مختلف موضوعات پر کہی گئی نظمیں احسان دانش کے تخلیقی شعور اور انسان دوستی کی مثال ہیں۔ ان کے شعری مجموعوں میں حدیثِ ادب، دردِ زندگی، تفسیرِ فطرت، آتشِ خاموش، چراغاں اور گورستان سرِفہرست ہیں۔

    لسانیات کا مضمون بھی احسان دانش کی علمی قابلیت اور استعداد کا ثبوت ہے۔ اس میدان میں دستورِ اردو، تذکیر و تانیث اور اردو مترادفات ان کی یادگار کتابیں ہیں۔ حضرت احسان دانش کی خود نوشت سوانح عمری جہانِ دانش بھی علمی اور ادبی حلقوں میں بے حد مقبول ہوئی جس پر پاکستان رائٹرز گلڈ نے انھیں آدم جی ادبی ایوارڈ دیا اور حکومتِ پاکستان نے اس کتاب پر احسان دانش کو انعامی رقم دی۔

    علمی اور ادبی خدمات پر انھیں‌ ستارۂ امتیاز اور نشانِ امتیاز بھی عطا کیے گئے تھے۔ احسان دانش کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔

    آج اس نے ہنس کے یوں پوچھا مزاج
    عمر بھر کے رنج و غم یاد آ گئے

    ان کا یہ شعر بہت مشہور ہے:

    یہ اڑی اڑی سی رنگت یہ کھلے کھلے سے گیسو
    تری صبح کہہ رہی ہے تری رات کا فسانہ

    یہ کون ہنس کے صحنِ چمن سے گزر گیا
    اب تک ہیں پھول چاک گریباں کیے ہوئے

  • جب قسمت کی دیوی موسیقار نثار بزمی پر مہربان ہوئی!

    جب قسمت کی دیوی موسیقار نثار بزمی پر مہربان ہوئی!

    پاکستان میں فضل احمد کریم فضلی کی فلم ’ایسا بھی ہوتا ہے‘ نثار بزمی کی پہلی فلم تھی، لیکن تقسیمِ‌ ہند سے قبل اور بعد میں‌ وہ بھارت میں رہتے ہوئے 40 سے زائد فلموں کی موسیقی ترتیب دے چکے تھے۔

    آج پاکستان کے اس مایہ ناز موسیقار کی برسی ہے۔ انھوں نے 2007ء میں‌ زندگی کا سفر تمام کیا تھا۔ نثار بزمی نے پہلی بار فلم جمنار پار کے لیے موسیقی ترتیب دی تھی۔ یہ 1946ء کی بات ہے اور 1961ء تک وہ بھارت میں فلم انڈسٹری کے لیے کام کرتے رہے۔ تاہم کوئی خاص کام یابی ان کا مقدّر نہیں بنی تھی۔

    نثار بزمی نے 1962ء میں پاک سرزمین پر قدم رکھا تو جیسے قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہوگئی۔ وہ اپنے عزیز و اقارب سے ملنے کے لیے کراچی آئے تھے اور پھر یہیں کے ہو رہے۔ پاکستان میں نثار بزمی نے جب فلم انڈسٹری سے وابستگی اختیار کی تو کام یاب ترین موسیقار شمار ہوئے۔ بھارت سے پاکستان منتقل ہوجانا ان کی زندگی کا بہترین فیصلہ ثابت ہوا۔

    فلم ‘لاکھوں میں ایک’ کا مشہور گیت ’چلو اچھا ہوا تم بھول گئے‘ کی دھن نثار بزمی نے ترتیب دی تھی۔ اس کے علاوہ ‘اے بہارو گواہ رہنا، اک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا، رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ، آپ دل کی انجمن میں حسن بن کر آ گئے، دل دھڑکے، میں تم سے یہ کیسے کہوں، کہتی ہے میری نظر شکریہ، کاٹے نہ کٹے رتیاں، سیاں تیرے پیار میں جیسے لازوال گیتوں کے اس موسیقار نے یہاں‌ عزّت، مقام و مرتبہ پایا۔ ان کی ترتیب دی ہوئی دھنوں پر اپنے دور کے مشہور و معروف گلوکاروں نے اپنی آواز کا جادو جگایا۔

    دسمبر 1924ء کو صوبہ مہاراشٹر کے ایک ضلع میں آنکھ کھولنے والے نثار بزمی کا اصل نام سید نثار احمد تھا۔ نوعمری ہی سے انھیں موسیقی سے لگاؤ پیدا ہوگیا تھا اور ان کا شوق اور موسیقی سے رغبت دیکھتے ہوئے والد نے انھیں استاد امان علی خان کے پاس بمبئی بھیج دیا جن سے انھوں نے اس فن کے اسرار و رموز سیکھے۔

    نثار بزمی نے آل انڈیا ریڈیو میں چند سال میوزک کمپوزر کی حیثیت سے کام کیا اور 1946ء میں فلم نگری سے موسیقار کے طور پر اپنا سفر شروع کیا، وہ تقسیم کے پندرہ برس تک ہندوستان کی فلم انڈسٹری سے وابستہ رہے اور پھر پاکستان آگئے جہاں اپنے فن کی بدولت بڑا نام اور مرتبہ پایا۔

    نثار بزمی نے طاہرہ سیّد، نیرہ نور، حمیرا چنا اور عالمگیر جیسے گلوکاروں کو فلمی دنیا میں آواز کا جادو جگانے کا موقع دیا۔ مختلف شعرا کے کلام پر دھنیں ترتیب دینے والے نثار بزمی خود بھی شاعر تھے۔ ان کا مجموعۂ کلام ’پھر سازِ صدا خاموش ہوا‘ کے نام سے شایع ہوا تھا۔

    حکومتِ‌ پاکستان نے نثار بزمی کو پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا تھا۔

  • کارل مارکس: ایک عظیم مفکّر اور انقلابی

    کارل مارکس: ایک عظیم مفکّر اور انقلابی

    نوبیل انعام یافتہ ادیب البرٹ کامیو نے کہا تھا، ’’وہ ظلم جو ہم نے مارکس کے ساتھ کیا ہے، اس کا مداوا ہم کبھی بھی نہیں کر سکتے۔‘‘

    کارل مارکس جرمنی کا وہ دانش ور اور فلسفی تھا جس نے گزشتہ صدی میں اپنے افکار سے دنیا کو متوجہ کرلیا اور وہ اس کے نظریات سے متاثر ہوئی۔ بیسویں صدی میں دنیا کی کئی حکومتوں کی اساس ظاہری طور پر مارکس کے بنیادی نظریات پر استوار کی گئی تھی، لیکن بعد میں انہی سوشلسٹ نظریات کی حکومتوں نے مطلق العنانیت کو اپنا کر مارکس کے تصوّرات کا مفہوم ہی تبدیل کر دیا۔ البرٹ کامیو نے 1956ء میں اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا ہے۔

    آج کارل مارکس کا یومِ وفات ہے۔ 1883ء میں‌ اس نے یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔ کارل مارکس نے 5 مئی 1818ء کو پرشیا (موجودہ جرمنی) میں ایک یہودی وکیل کے گھر آنکھ کھولی تھی۔ اس زمانے میں سیاسی، سماجی اور مذہبی لحاظ سے بھی دنیا نت نئے فلسفوں اور تبدیلیوں کے ساتھ تحریکوں کے زیرِ اثر تھی۔ کارل مارکس کی پیدائش سے ایک سال قبل اس کے والد نے عیسائیت اختیار کر لی تھی۔ اس کی وجہ حکومت کی جانب سے یہودیوں کے لیے سرکاری ملازمت اور وکالت پر پابندی عائد کیا جانا تھا۔

    کارل مارکس نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بون اور پھر برلن کی درس گاہوں کا رخ کیا اور اسی زمانے میں وہ ہیگل جیسے فلسفی کو پڑھ کر اس سے بہت متاثر ہوا۔ برلن ہی میں کارل نے قانون کی تعلیم حاصل کی۔ علمِ قانون اس کا پسندیدہ مضمون تھا لیکن فلسفہ اور تاریخ میں بھی اس کی گہری دل چسپی تھی۔ یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرکے ایپیکیورس (Epicurus) کے فلسفے پر اپنا تحقیقی مقالہ ڈاکٹری کی سند حاصل کرنے کے لیے پیش کیا۔ کارل نے 1842ء میں وہ کولون شہر چلا گیا اور وہاں صحافت میں اپنا کیریئر بنانے کی کوشش کی۔ جلد ہی وہ ایک اخبار کا مدیر بھی بن گیا۔ اس نے مضمون نگاری کا آغاز پہلے ہی کردیا تھا اور باقاعدہ لکھنے لکھانے کا سلسلہ بھی اخبار کی وجہ سے شروع ہو گیا۔

    اس زمانے میں آزادیٔ صحافت پر پابندیاں عائد کی گئیں تو کارل نے اس کے خلاف آواز بلند کی اور شاہی نظام کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ وہ عوام کی آواز بننے لگا تھا جس میں اس نے روس کے زار کے خلاف ایک مضمون بھی شایع کردیا اور اس جرم میں اخبار پر پابندی عائد کر دی گئی۔ 1843ء میں فرانس کا عظیم شہر پیرس جہاں بہت سے انقلابی پہلے سے موجود تھے، وہیں کارل بھی پہنچا اور ایک ماہ نامے کا آغاز کردیا۔ لیکن اس کا صرف ایک شمارہ چھپ سکا۔ اس شمارے میں کارل نے لکھا تھا کہ جرمن وفاق قائم نہیں رہ سکتا اور اس حوالے سے اپنے خیالات اور حقائق سامنے لایا تھا۔ فرانس میں‌ تو اسے اہمیت نہیں‌ دی گئی لیکن پرشیا میں کارل پر بغاوت کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔ 1845ء میں کارل کو فرانس سے جلا وطن کردیا گیا۔

    فرانس کے بعد کارل نے اپنے ساتھیوں سمیت بیلجیئم کا رخ کیا اور برطانیہ کا بھی دورہ کیا جہاں اسے محنت کش طبقے کے حالات جاننے کا موقع ملا جس نے اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ بدحالی عروج پر تھی، اور جس نظام میں لوگ پس رہے تھے، اس میں ان کی سماجی و معاشی حالت میں سدھار ممکن نظر نہیں آرہا تھا۔ ہر لحاظ سے پستی اور بدترین طرزِ زندگی عوام کا مقدر بن چکا تھا۔ کارل مارکس نے بیلجیئم میں قیام کے دوران اپنے دوست اور مفکر اینگلز کے ساتھ مل کر اس سب پر لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا اور یورپ کے محنت کشوں کے حقوق کے لیے تنظیم قائم کی۔

    1848ء میں کارل کا وہ کتابچہ شایع ہوا جس میں اس نے محنت کشوں کو اکٹھے ہونے کا پیغام دیا تھا۔ اسے دنیا کمیونسٹ مینی فسٹو کے عنوان سے پہچانتی ہے۔ بعد میں وہ لندن چلا گیا جہاں رہ کر اپنی جدوجہد اور نظریات کا پرچار کرتا رہا۔ اس نے فلسفہ، سیاست اور معاشیات پر اپنے افکار کی بدولت انسانوں کی سوچ کو اپنے حق میں‌ نئے زاویے اور راستے سجھائے۔

    کارل مارکس نے نوجوانی ہی میں شادی کرلی تھی تاہم اپنے وطن میں‌ باغی اور غیرملک میں‌ اپنے افکار و نظریات کی وجہ سے روزگار اور معاش کے لیے مسائل کا شکار رہنے والا کارل مارکس مالی مشکلات جھیلتا رہا۔ اس کی خانگی زندگی بھی غم و اندوہ سے دوچار ہوئی کیوں کہ اس کے چار بچّے نوعمری میں ہی چل بسے تھے جب کہ تین بیٹیاں جو جوان ہوئیں، ان میں سے بھی دو نے خود کشی کرلی تھی۔

    کارل مارکس کو اس کی وفات کے بعد زبردست پذیرائی حاصل ہوئی اور اس کے نظریات میں کچھ آمیزش کرنے بعد روس میں لینن اور اس کے ساتھیوں نے زار کی آمریت کا خاتمہ کیا اور مزدور طبقے کا علَم بلند کیا تھا۔

    وہ سرمایہ دارانہ نظام کا سب سے بڑا ناقد اور ایسا مفکر تھا جس نے اپنے انقلابی نظریات کی وجہ سے زندگی کا بیش تر حصہ جلاوطنی اور مالی تنگ دستی میں گزار دیا جب کہ زندگی میں اس کے فلسفے اور کتابوں کو بھی خاص پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی۔ تاہم بعد میں دنیا اس کے فلسفے کی طرف متوجہ ہوئی اور اسے اہمیت بھی دی گئی۔ ان کی مشہورِ زمانہ تصنیف ’داس کیپیٹل‘ کو آج بھی دنیا بھر میں غور و فکر کے عادی اور کہیں‌ بھی ابھرنے والی محنت کشوں کی تحریکوں کے لیے راہ نما کتاب کہا جاتا ہے۔

    دنیا بھر کے عظیم فلسفی اور علم و ادب سے وابستہ شخصیات یہ تسلیم کرتی ہیں کہ آج وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اس فلسفی، معیشت دان اور مزدور دوست انقلابی راہ نما کو اتنی ہی مقبولیت اور پذیرائی ملی ہے جتنی کہ مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام نے اسے مٹانے کی کوشش کی ہے۔ مارکس کے نظریات کو غلط ثابت کرنے اور اس کی ذات پر الزامات لگانے کی کوششیں بھی کی گئیں۔ سامراجی قوتوں اور سرمایہ دارانہ نظام کے رکھوالوں نے اس کے نظریات کو مسترد کرتے ہوئے ان کے خلاف کتابیں لکھوائیں اور لاکھوں مضامین شائع کروائے، لیکن مارکس کا نظریہ توانا ہوتا چلا گیا اور سرمایہ دارانہ نظام کی موت اور اس کی خرابیوں سے متعلق اس کی پیش گوئیاں درست ثابت ہوئی ہیں۔

  • اسٹیفن ہاکنگ: کائنات کی وسعتوں میں گم ہوجانے والا سائنس داں

    اسٹیفن ہاکنگ: کائنات کی وسعتوں میں گم ہوجانے والا سائنس داں

    اسٹیفن ہاکنگ نے دنیا کو کائنات کے راز سمجھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انھیں آئن سٹائن کے بعد گزشتہ صدی کا دوسرا بڑا سائنس داں کہا جاتا ہے جن کے سائنسی کارنامے ہی نہیں‌، ان کی زندگی بھی دنیا بھر کے انسانوں کے لیے ایک مثال ہے۔

    شہرۂ آفاق سائنس داں اسٹیفن ہاکنگ 14 مارچ 2018ء کو لندن میں وفات پاگئے تھے۔

    اسٹیفن ہاکنگ کی کتاب "اے بریف ہسٹری آف ٹائم” نے انھیں بین الاقوامی سطح‌ پر شہرت اور مقام دلوایا۔ وہ 8 جنوری 1942ء کو برطانیہ میں پیدا ہوئے تھے اور نوجوانی میں زندگی کے ایک بدترین اور تکلیف دہ موڑ پر آکھڑے ہوئے۔ جس وقت انھیں‌ موٹر نیوران جیسی مہلک اور جسم کو مفلوج کردینے والا مرض لاحق ہوا، ان کی عمر صرف 21 سال تھی۔

    ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ اسٹیفن مزید دو سال زندہ رہ سکیں گے، لیکن اس نوجوان نے اپنی مضبوط قوّتِ ارادی اور ہمّت سے کام لے کر دنیا کو حیران کر دیا۔ وہ اس مرض کے ساتھ لڑتے ہوئے 55 سال تک زندہ رہے اور اس عرصے میں ایک بے بس اور معذور انسان کی طرح‌ بستر پر اپنی موت کے دن گنتے ہوئے نہیں گزارے بلکہ اپنی پڑھائی جاری رکھی اور توانا اور متحرک ذہن کی مدد سے کائنات کی وسعتوں کو کھوجتے، سمجھتے رہے اور دنیا کو اس بارے میں بتایا۔

    جین ہاکنگ وہ خاتون ہیں، جنھوں نے بیس برس کی عمر میں ہاکنگ سے شادی کی تھی۔ وہ جانتی تھیں‌ کہ جس نوجوان کا ہاتھ تھامنے جارہی ہیں، وہ ایک اعصابی مرض کا شکار ہے جس کے بارے میں ڈاکٹروں نے خیال ظاہر کیا ہے کہ وہ محض دو برس جی سکتا ہے۔ مگر دنیا نے دیکھا کہ جین اگلے 26 سال تک ہاکنگ کا ساتھ نبھاتی رہی۔ اس جوڑے کے گھر تین بچّے پیدا ہوئے اور اپنے بیمار اور وہیل چیئر تک محدود رہنے والے شوہر کے ساتھ وہ اپنے بچّوں کی پرورش اور دیکھ بھال بھی کرتی رہی۔ جین ہاکنگ اپنے شوہر کو حوصلہ دیتے اور ہمّت بڑھاتے ہوئے اس کی بیماری کے سامنے ڈٹی رہی۔ بعد میں‌ ان کے مابین طلاق ہوگئی، لیکن اسٹیفن ہاکنگ اور جین کی یہ رفاقت اور ایثار دنیا کے لیے مثال بن گیا۔

    اسٹیفن ہاکنگ کا دھڑ حرکت کرنے سے قاصر تھا، وہ قوتِ گویائی سے بھی محروم تھے، لیکن انھوں نے اپنی ذہنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کیا۔ کائنات کے کئی رازوں سے پردہ اٹھانے والے اس سائنس داں نے اپنے مضامین اور اہم موضوعات پر چونکا دینے والے اور پُرمغز و نہایت مفید مقالوں سے دنیا کی توجہ حاصل کر لی تھی۔ انھوں نے آئن اسٹائن کے نظریۂ اضافت کی تشریح کے علاوہ بلیک ہول سے تابکاری کے اخراج پر اپنا سائنسی نظریہ پیش کیا جو آنے والوں کے لیے کائنات کو سمجھنے اور اسے مسخّر کرنے میں‌ مددگار ثابت ہورہا ہے۔ وہ ریاضیات، طبیعات اور کونیات پر اپنی تحقیق و جستجو کا نچوڑ کتابی شکل میں دنیا کو دے گئے۔ اسٹیفن ہاکنگ کی دل چسپی اور تحقیقی سرگرمیوں کا مرکز اور محور علمِ طبیعیات اور اس کے موضوعات تھے۔

    76 سال کی عمر میں وفات پانے والے اسٹیفن ہاکنگ کو خصوصاﹰ بلیک ہول کی پرسراریت اور وقت سے متعلق ان کے نظریات اور سائنسی تحقیق کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

  • یومِ وفات: ممتاز شیریں کو اردو کی پہلی خاتون نقّاد کہا جاتا ہے

    یومِ وفات: ممتاز شیریں کو اردو کی پہلی خاتون نقّاد کہا جاتا ہے

    ممتاز افسانہ نگار، نقّاد اور مترجم ممتاز شیریں نے 11 مارچ 1973ء کو اس دنیا سے کوچ کیا۔ آج ان کا یومِ‌ وفات ہے۔ زندگی کے آخری ایّام میں وہ وفاقی وزارتِ تعلیم میں بہ حیثیت مشیر خدمات انجام دے رہی تھیں۔

    ممتاز شیریں سے ایک ملاقات کے عنوان سے میرزا ادیب لکھتے ہیں: "ممتاز شیریں جس وقت دنیائے ادب میں داخل ہوئیں تو ان کی حیثیت افسانوں کے ایک سخت گیر نقاد کی تھی۔ ان کے مضامین پڑھے تو پتہ چلا کہ یہ خاتون اردو کے افسانے تو رہے ایک طرف انگریزی، روسی اور فرانسیسی افسانوی ادب کا بھی بالاستیعاب مطالعہ کرچکی ہیں۔

    ان کا مقالہ” تکنیک کا تنوع” سویرا میں چھپا تو ہر طرف اس کی دھوم مچ گئی۔ یہ مقالہ ایک ایسے ذہن کی پیداوار معلو ہوتا تھا جس نے برسوں افسانے کی متنوع تکنیک سمجھنے کی کوشش کی اور دنیا کے نام ور افسانہ نگاروں کے مشہور افسانوں کو غور و فکر کی گرفت میں لے چکا ہے۔ یہ مضمون اور ان کے دوسرے مضامین پڑھ کر میں نے ان کے بارے میں ایک خاص تصویر بنالی تھی اس کے بعد ان کے افسانے چھپنے لگے معلوم ہوا کہ وہ جتنی اچھی نقاد ہیں اسی قدر ماہر فن افسانہ نگار بھی ہیں۔

    اپنی افسانوی تحقیقات میں وہ زندگی کی ہر حقیقت کو، وہ کتنی بھی تلخ اور مکروہ کیوں نہ ہو، اس کی پوری جزیات کے ساتھ پیش کردیتی تھیں۔ جنتی موضوعات کے سلسلے میں ان کا قلم خاص طور پر بڑا بے باک تھا۔ سعادت حسن منٹو ان کا پسندیدہ افسانہ نگار تھا۔ اس سے بھی ان کے تخلیقی رجحانِ طبع کا اندازہ ہوجاتا ہے۔”

    ممتاز شیریں کا پہلا افسانہ انگڑائی ادبی مجلّہ ساقی، دہلی میں 1944ء میں شائع ہوا تھا جسے ادبی حلقوں میں زبردست پزیرائی حاصل ہوئی اور بعد میں بھی انھوں نے اپنے تنقیدی مضامین اور تراجم سے علم و ادب کی دنیا کو مالا مال کیا۔ ممتاز شیریں معروف ادبی جریدے نیا دور کی مدیر بھی تھیں۔ وہ اس زمانے کی روایتی سوچ اور عورتوں سے متعلق مخصوص ذہنیت کو مسترد کرتے ہوئے اپنے افکار اور قلم کی بے باکی کی وجہ سے بھی مشہور ہوئیں۔

    ممتاز شیریں 12 ستمبر 1924ء کو ہندو پور (آندھرا پردیش) میں پیدا ہوئیں۔ ان کے نانا جو میسور میں مقیم تھے، انھوں نے اپنی اس نواسی کو تعلیم و تربیت کی غرض سے اپنے پاس میسور بلا لیا۔ اس طرح بچپن ان کا ننھیال میں گزرا۔ ممتاز شیریں نہایت ذہین اور قابل طالبہ تھیں اور گھر کا ماحول بھی علمی و ادبی تھا جس نے انھیں لکھنے لکھانے کی طرف راغب کرلیا۔ یوں تعلیم کے ساتھ ان کا ادبی سفر بھی جاری رہا اور 1942ء میں ان کی شادی صمد شاہین سے ہو گئی جو بعد میں پاکستان میں سرکاری عہدے پر فائز ہوئے۔ یہ جوڑا بیرونِ ملک بھی مقیم رہا اور قیامِ پاکستان کے بعد اس خاندان نے کراچی میں سکونت اختیار کی تھی۔

    ممتاز شیریں کے افسانوی مجموعوں میں اپنی نگریا، حدیثِ دیگراں اور میگھ ملہار شامل ہیں جب کہ ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے معیار اور منٹو، نہ نوری نہ ناری کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔ انھوں نے جان اسٹین بک کے مشہور ناول دی پرل کا اردو ترجمہ دُرِشہوار کے نام سے کیا تھا۔ ان کی آپ بیتی اور خطوط بھی لائقِ مطالعہ ہیں۔

  • یہودی تاجر کی بیٹی کے کردار سے شہرت پانے والی طاہرہ واسطی کا تذکرہ

    یہودی تاجر کی بیٹی کے کردار سے شہرت پانے والی طاہرہ واسطی کا تذکرہ

    پاکستان ٹیلی ویژن کے یادگار ڈرامہ سیریل افشاں میں یہودی تاجر کی بیٹی اور آخری چٹان میں ملکہ ازابیل کے کردار سے طاہرہ واسطی نے غیر معمولی شہرت پائی۔ طاہرہ واسطی بارعب اور پُروقار شخصیت کی مالک تھیں جنھیں خاص طور پر اُن کرداروں‌ کے لیے منتخب کیا جاتا تھا، جن کے لیے شاہانہ کرّوفر اور رعب و دبدبہ ضروری ہوتا تھا۔

    طاہرہ واسطی 1980ء اور 1990ء کے عشرے میں پاکستان ٹیلی ویژن کے ناظرین میں بے حد بہت مقبول تھیں۔ آج اس اداکارہ کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 2012ء میں اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔

    1968ء میں طاہرہ واسطی نے پاکستان ٹیلی ویژن سے اداکاری کا آغاز کیا تھا۔ ان کا پہلا ڈرامہ سیریل ’جیب کترا‘ تھا جو بہت مشہور ہوا۔ یہ اردو کے نام ور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی کہانی پر مبنی سیریل تھا۔

    طاہرہ واسطی نے 1944ء میں‌ سرگودھا میں‌ آنکھ کھولی تھی۔ وہیں ابتدائی تعلیم مکمل کی اور بعد میں لاہور کی درس گاہ میں داخلہ لیا۔ ان کی شادی رضوان واسطی سے ہوئی جو معروف ٹی وی اداکار اور انگریزی نیوز کاسٹر تھے۔ ان کی صاحبزادی لیلیٰ واسطی بھی ٹیلی ویژن پر اداکاری کرچکی ہیں۔

    پی ٹی وی کی معروف اداکارہ طاہرہ واسطی کے تاریخی کہانیوں پر مبنی ڈراموں میں غرناطہ، شاہین، ٹیپو سلطان کے علاوہ شمع اور دلدل شامل ہیں جو اپنے وقت کے مقبول ترین اور یادگار ڈرامے ثابت ہوئے۔

    وہ ایک منجھی ہوئی اداکارہ ہی نہیں قابل رائٹر بھی تھیں جنھوں نے خود بھی متعدد ڈرامے لکھے۔ ایڈز جیسے موضوع پر ان کا تحریر کردہ کھیل کالی دیمک کے نام سے نشر ہوا تھا جسے بہت پسند کیا گیا۔ طاہرہ واسطی نے سائنس فکشن بھی لکھا۔

  • دلّی والے آغا صاحب جن سے علّامہ اقبال بھی زبان و بیان کے معاملے میں‌ رجوع کرتے تھے

    دلّی والے آغا صاحب جن سے علّامہ اقبال بھی زبان و بیان کے معاملے میں‌ رجوع کرتے تھے

    آغا صاحب کے سیکڑوں شاگرد تھے اور علّامہ اقبال جیسی بلند مرتبہ ہستیاں اور ادیب و شاعر زبان و بیان کے معاملے میں ان سے رجوع کرتی تھیں۔ وہ استاد شاعر داغ دہلوی کے شاگرد تھے۔ آغا شاعر قزلباش دہلوی خوش گوئی اور عمدہ نثر کی وجہ سے عوام اور خواص میں خاصے مقبول بھی تھے۔

    تابش دہلوی نے اپنی کتاب دید و باز دید میں آغا صاحب کے بارے میں‌ لکھا: "دلّی کے بزرگ شعرا میں آغا قزلباش بڑے طباع اور دل چسپ شخصیت کے مالک تھے۔ جوانی میں غیرمعمولی خوب صورت رہے ہوں گے۔ بڑھاپے میں بھی سرخ و سفید تھے۔ وضع قطع سے بالکل دلّی والے معلوم نہیں ہوتے تھے۔

    سَر پر پشاوری کلاہ دار پگڑی، اُٹنگی چھوٹی مہری کی شلوار، بند گلے کی قمیص اس پر لمبا کوٹ، پاؤں میں انگریزی جوتا اور ہاتھ میں موٹا ڈنڈا۔

    آغا صاحب مشاعروں میں کم شریک ہوتے تھے۔ جب غزل پڑھنے کی باری آتی تو نہایت منمنی آواز میں ہائے آغا شاعر مر گیا، ارے مُردے کو کیوں گھسیٹ لائے کا نعرہ لگاتے اور ہائے ہائے کرتے شعر پڑھنے بیٹھ جاتے۔ غزل شروع کرنے سے پہلے فرماتے۔

    صاحبو، میرا قاعدہ ہے کہ میں تبرکاً استاد کے دو اشعار پہلے پڑھا کرتا ہوں اور یہ کہہ کر داغؔ کے منتخب شعر نہایت پاٹ دار آواز میں پڑھتے۔

    آغا صاحب نہایت عمدہ تحت اللفظ پڑھتے اور الفاظ اور لہجے کی تصویر بن جاتے۔ اس طرح وہ داغ کے شعروں سے مشاعرہ الٹ پلٹ کر دیتے اور داد کے اسی تأثر میں وہ اپنی غزل پر زیادہ داد حاصل کر لیتے۔”

    آغا شاعر قزلباش دہلوی 11 مارچ 1940ء کو یہ نادرِ روزگار اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ آج ان کی برسی ہے۔ دہلی ان کا وطن تھا، جہاں 5 مارچ 1871ء کو پیدا ہوئے۔ اصل نام آغا مظفر علی بیگ قزلباش تھا۔ ان کے جدِ اعلیٰ ان سپاہیوں میں تھے جو نادر شاہ کی فوج میں شامل ہو کر دہلی آئے اور وہیں کے ہو رہے۔ آغا صاحب کے والد بھی شاعر تھے جن کا تخلّص فدائی تھا اور ان کا گھرانہ آسودہ حال تھا۔ آغا شاعر اپنی ماں کے بہت لاڈلے تھے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ فارسی تو گھر کی زبان تھی۔ عربی اور قرآن کا درس حاصل کیا اور دہلی کی مشہور درس گاہ اینگلو عربک اسکول میں داخل کروائے گئے جہاں سے آٹھویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔ انھیں اسکول کے زمانہ میں ہی مضمون نویسی اور شاعری کا شوق پیدا ہو گیا تھا۔ اسی زمانے میں ان کی ماں کا انتقال ہو گیا۔ والد نے دوسری شادی کر لی اور سوتیلی ماں کے ستم کا نشانہ بنے جس نے انھیں ایک روز گھر سے نکال دیا۔

    اسے خوش قسمتی کہیے کہ اس زمانے کی ایک بیگم صاحبہ نے جو شاعرہ تھیں، انھیں پناہ ہی نہیں دی بلکہ خوش خط آغا صاحب کو اپنی غزلیں لکھنے کا کام بھی سونپ دیا۔ بعد میں انہی کے توسط سے علم و ادب سے وابستہ شخصیات سے میل جول بڑھا اور وہ اپنی خداداد صلاحیت اور محنت و ریاضت کی بدولت دہلی کے مشاعروں میں مقبول ہونے لگے۔ شاعر اور زبان دان کی حیثیت سے شہرت پاتے ہوئے ان کی غزلیں گانے والیوں کے کوٹھوں پر گونجنے لگیں اور یوں ان کا کلام گلی گلی پھیلا۔

    اس دور میں حیدرآباد دکن میں داغ دہلوی موجود تھے جنھیں استاد تسلیم کیا جاتا تھا اور ہر طرف ان کا نام و شہرہ تھا۔ آغا شاعر قزلباش ان کے شاگرد ہوگئے اور وہیں سے شوخیٔ مضمون اور روزمرّہ کا بے تکلف استعمال آپ کے کلام کا جزوِ لازم بن گیا۔

    آغا شاعر قزلباش ایک اچھے نثر نگار بھی تھے۔ انھوں نے ڈرامہ نویسی بھی کی جن میں حورِ عرب بہت مشہور ہوا۔ آغا صاحب نے قرآنِ پاک کا منظوم ترجمہ بھی کیا تھا۔ اس کے علاوہ عمر خیام کے رباعیات کو بھی اردو میں نظم کیا۔ نثری مجموعہ خمارستان کے ساتھ ان کی شعری تصانیف تیر و نشر، آویزۂ گوش، دامنِ مریم اور پرواز کے نام سے شایع ہوئیں۔ آغا صاحب گوناگوں صلاحیتوں کے مالک تھے۔ غزلوں کے علاوہ ان کی نظمیں، مرثیے اور منظوم تراجم بھی بہت مقبول ہوئے۔

    انھوں نے مہاراجہ کشن پرشاد شاد، کلکتہ میں سفیرِ ایران نصیرُ الملک مرزا شجاعت علی بیگ، راجہ جھالا واڑ (راجستھان) راج رانا بھوانی سنگھ، خیر پور (سندھ) کے والی نواب میر علی نواز خاں تالپور کے دربار میں بڑی عزّت پائی اور وظیفہ حاصل کیا۔

    اردو کے اس مشہور شاعر کو دکن میں صفدر جنگ کے قریب قبرستان درگاہ شاہِ مرداں میں سپردِ خاک کیا گیا تھا، لیکن ان کے مدفن کا کوئی نشان باقی نہیں۔

    ان کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے

    پہلے اس میں اک ادا تھی ناز تھا انداز تھا
    روٹھنا اب تو تری عادت میں شامل ہو گیا

    لو ہم بتائیں غنچہ و گل میں ہے فرق کیا
    اک بات ہے کہی ہوئی اک بے کہی ہوئی

    کس طرح جوانی میں چلوں راہ پہ ناصح
    یہ عمر ہی ایسی ہے سجھائی نہیں دیتا

  • عبدُالحمید عدم: قادرُالکلام، مقبولِ عام شاعر

    عبدُالحمید عدم: قادرُالکلام، مقبولِ عام شاعر

    عدم کا شمار اردو کے چند مقبول ترین غزل گو شعرا میں‌ ہوتا ہے۔ سہلِ ممتنع کے ساتھ سادہ مگر نہایت دل نشیں پیرایۂ اظہار عدم کی پہچان ہے۔

    ’’نقشِ دوام‘‘ عدم کا اوّلین مجموعۂ کلام تھا۔ بعد میں ان کی شاعری ’خرابات‘، ’چارۂ درد‘، ’زلفِ پریشاں‘، ’سروسمن‘، ’گردشِ جام‘، ’شہرِ خوباں‘، ’گلنار‘، ’عکسِ جام‘، ’رم آہو‘، ’سازِ صدف‘، اور ’رنگ و آہنگ‘کے نام سے کتابی شکل میں شایع ہوئی۔

    عبدالحمید ان کا نام تھا اور تخلّص عدم۔ انھوں نے 10 مارچ 1981ء کو لاہور میں وفات پائی۔ آج عدم کی برسی ہے۔ اس قادرُ الکلام اور زود گو شاعر نے اپریل 1910ء کو تلونڈی موسیٰ خان، ضلع گوجرانوالہ میں آنکھ کھولی۔ تعلیم وتربیت لاہور میں ہوئی۔ بی اے پاس کیا اور ملٹری اکاؤنٹس کے محکمے میں ملازم ہوگئے۔ وہ اکاؤنٹس افسر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔

    اوائلِ عمر ہی سے عدم کو شعر و شاعری کا شوق تھا۔ اسی شوق میں ان پر کھلا کہ وہ موزوں طبع ہیں اور شاعری کا آغاز کیا تو داخلی جذبات اور رومانوی خیالات کے ساتھ غمِ دوراں کو نہایت پُرسوز انداز میں‌ اپنے اشعار میں‌ پروتے چلے گئے جس نے انھیں‌ عوام میں‌ مقبول بنا دیا۔ رندی و سرمستی کے مضامین ان کی شاعری میں‌ جا بجا ملتے ہیں جو روایتی نہیں‌ بلکہ معنی آفرینی اور ندرتِ خیال کے سبب مشہور ہیں۔

    عالمی شہرت یافتہ موسیقار اور گلوکار نصرت فتح علی نے بھی عبدالحمید عدم کا کلام گایا ہے جس میں ’’یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے، یہ تیری نظر کا قصور ہے….‘‘ سب سے مشہور ہے۔ اسی طرح طاہرہ سیّد کی آواز میں ان کی غزل ’’ وہ باتیں‌ تری وہ فسانے ترے، شگفتہ شگفتہ بہانے ترے‘‘ بہت مشہور ہوئی۔ عدم کے کئی اشعار زباں زدِ عام ہوئے اور ان کی غزلیں فلم کے لیے بھی ریکارڈ کی گئیں۔

    عبدُالحمید عدم کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    ہم مے کدے کی راہ سے ہو کر گزر گئے
    ورنہ سفر حیات کا کتنا طویل تھا

    شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
    محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوں میں

    عدمؔ خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے
    ستم ظریف بڑے جلد باز ہوتے ہیں

    وہی شے مقصد‌ِ قلب و نظر محسوس ہوتی ہے
    کمی جس کی برابر عمر بھر محسوس ہوتی ہے

    ہم نے تمہارے بعد نہ رکھی کسی سے آس
    اک تجربہ بہت تھا بڑے کام آ گیا

  • عہد ساز شاعر اور تنقید نگار فراق گورکھپوری کا تذکرہ

    عہد ساز شاعر اور تنقید نگار فراق گورکھپوری کا تذکرہ

    فراق کا اصل نام رگھو پتی سہائے تھا۔ تخلّص انھوں نے فراق اپنایا اور آبائی علاقے کی نسبت تخلّص سے جڑی تو فراق گورکھپوری مشہور ہوئے۔ انھیں ایک عہد ساز شاعر اور اردو زبان و ادب کا بڑا نقّاد تسلیم کیا جاتا ہے۔ فراق کی زندگی کا سفر 3 مارچ 1982ء کو تمام ہوگیا تھا۔

    رگھو پتی سہائے نے 28 اگست 1896ء کو گورکھپور میں منشی گورکھ پرشاد کے گھر آنکھ کھولی جو شاعر تھے اور عبرت تخلّص کرتے تھے۔ وہ اردو اور فارسی کے عالم، ماہرِ قانون بھی تھے۔ انھوں‌ نے گھر پر اپنے بیٹے کو ان زبانوں کی تعلیم دی اور بعد میں انھوں نے اپنی تعلیم مکمل کی۔ فراق کو گھر میں علمی و ادبی ماحول ملا تھا جس میں وہ بھی شعروادب کی طرف متوجہ ہوگئے۔

    انگریزی زبان میں ایم اے کرنے کے بعد فراق نے سول سروسز کا امتحان پاس کیا مگر اس سے متعلق ملازمت اختیار نہ کی بلکہ تدریس سے منسلک ہوگئے۔ لیکن ان کا مزاج ایسا تھا کہ ہفتوں کمرۂ جماعت میں داخل نہ ہوتے اور ان کی بعض ناپسندیدہ عادات نے بھی ان کی شہرت خراب کی تھی، لیکن علم و ادب کی دنیا میں بہرحال ان کی بڑی قدر کی جاتی تھی اور وہ اپنے وقت کے اہم شاعر اور نقّاد تھے۔

    فراق اردو ہی نہیں انگریزی ادب کا بھی وسیع مطالعہ رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اردو کو بھی اپنے تنقیدی موضوعات سے نئی راہ دکھائی اور جب ان کے مضامین کتابی شکل میں سامنے آئے تو ان کا بہت شہرہ ہوا۔ ان کی دو کتابیں اردو کی عشقیہ شاعری اور حاشیے تنقیدی مضامین پر مشتمل ہیں۔

    ڈاکٹر خواجہ احمد فاروقی کے بقول اگر فراق نہ ہوتے تو ہماری غزل کی سرزمین بے رونق رہتی، اس کی معراج اس سے زیادہ نہ ہوتی کہ وہ اساتذہ کی غزلوں کی کاربن کاپی بن جاتی یا مردہ اور بے جان ایرانی روایتوں کی نقّالی کرتی۔ فراق نے ایک نسل کو متاثر کیا۔ نئی شاعری کی آب یاری میں اہم کردار ادا کیا اور حسن و عشق کا شاعر ہونے کے باوجود ان موضوعات کو نئے زاویے سے دیکھا۔ فراق کو نوجوانی میں ہی شاعری کا شوق پیدا ہو گیا تھا اور 1916ء میں جب ان کی عمر 20 سال تھی، انھوں نے پہلی غزل کہی۔ ان کا کلام ادبی جرائد میں‌ شایع ہونے لگا اور یوں ان کی شہرت کا سفر شروع ہوا۔

    فراق کی نجی زندگی کے حالات پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ 18 سال کی عمر میں ان کی شادی کشوری دیوی سے کر دی گئی تھی، لیکن یہ تعلق ان کے لیے سوہانِ روح بن گیا۔ اس کے بعد والد کا انتقال ہوگیا جو فراق کے لیے کڑا وقت تھا۔ ان پر بھائی بہنوں کی پرورش اور تعلیم کی ذمہ داری آن پڑی۔ ادھر بے جوڑ شادی نے الگ انھیں توڑ کر رکھ دیا تھا۔ اسی زمانہ میں وہ انگریزوں سے آزادی کی جدوجہد میں شریک ہوگئے اور سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے 1920ء میں گرفتاری کے بعد 18 ماہ جیل میں گزارے۔ تاہم آزادی کے بعد فراق سیاست کا حصّہ نہیں رہے۔ فراق کی زندگی کا ایک بڑا المیہ ان کے اکلوتے بیٹے کی سترہ سال کی عمر میں خود کشی تھا جب کہ ان کی بیوی بھی اپنے بھائی کے گھر جا بیٹھی تھیں، یوں فراق تنہائی کا شکار رہے۔ اس کے باوجود فراق نے اردو ادب کو اپنی شاعری اور تنقیدی مضامین کی صورت میں بیش بہا خزانہ دیا انھیں ایسا شاعر مانا جاتا ہے جس نے بیسویں صدی میں اردو غزل کو ایک نیا رنگ اور آہنگ عطا کیا۔ فراق نے کسی کی پیروی نہیں‌ کی بلکہ شاعری میں ان کا اپنا ہی رنگ تھا۔ ان کے متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں روحِ کائنات، شبنمستان، رمز و کنایات، غزلستان، روپ، مشعل اور گلِ نغمہ شامل ہیں۔

    بھارت میں‌ فراق گورکھپوری کو پدم بھوشن اور گیان پیٹھ جیسے اعزازات سے نوازا گیا تھا۔

  • معروف شاعرہ اور ادیب شبنم شکیل کی برسی

    معروف شاعرہ اور ادیب شبنم شکیل کی برسی

    اردو ادب میں ایک شاعرہ، ادیب اور نقّاد کی حیثیت سے پہچان بنانے والی شبنم شکیل ماہرِ تعلیم بھی تھیں۔ وہ 2 مارچ 2013ء کو اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔ آج ان کی برسی ہے۔

    شبنم شکیل نے لاہور میں‌ 12 مارچ 1942ء کو ایک علمی اور ادبی گھرانے میں‌ آنکھ کھولی تھی۔ انھوں نے لاہور کے معروف اسلامیہ کالج سے گریجویشن مکمل کی۔ اس کے بعد اورینٹل کالج، لاہور سے اردو ادب میں ماسٹرز کیا۔ ماسٹرز کرنے کے بعد وہ بطور لیکچرر تدریس کے لیے ایک کالج سے وابستہ ہوگئیں۔

    شعر و شاعری کا شغف شبنم شکیل کو اپنے والد سے ورثے میں ملا تھا جو خود بھی شاعر، ادیب، نقّاد اور بہترین مترجم تھے۔ ان کے گھر کا ماحول علمی اور ادبی تھا جس میں وہ کم عمری ہی میں مطالعے کی عادی اور لکھنے کی شوقین بن گئی تھیں۔ ان کی تنقیدی مضامین پر مشتمل پہلی کتاب 1965ء میں شائع ہوئی تھی۔

    شبنم شکیل نے اپنے فنی اور تخلیقی سفر میں متعدد ایوارڈز اپنے نام کیے جن میں 2004ء میں‌ پرائڈ آف پرفارمنس بھی شامل تھا۔ وہ کئی اداروں سے وابستہ رہیں‌ اور متعدد تنظیموں‌ کی اہم رکن تھیں۔

    ان کے شعری مجموعے، مضامین اور افسانوں پر مشتمل کتابیں شب زاد، اضطراب اور مسافت رائیگاں تھی، تقریب کچھ تو ہو، نہ قفس نہ آشیانہ، اور آواز تو دیکھو کے نام سے شایع ہوئیں۔

    انھیں اسلام آباد کے ایک قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔ شبنم شکیل کے یہ اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    چلتے رہے تو کون سا اپنا کمال تھا
    یہ وہ سفر تھا جس میں ٹھہرنا محال تھا

    اب مجھ کو رخصت ہونا ہے اب میرا ہار سنگھار کرو
    کیوں دیر لگاتی ہو سکھیو جلدی سے مجھے تیار کرو