Tag: مارچ وفات

  • احسان دانش: بڑے دل کا مالک ایک شاعرِ مزدور

    احسان دانش: بڑے دل کا مالک ایک شاعرِ مزدور

    احسان دانش کو زندگی کی تلخیوں، مصائب و آلام اور معاش کے لیے سخت دوڑ دھوپ نے جو کچھ سکھایا، وہ ان کی فکر اور تخیّل میں ڈھل کر بطور شاعر ان کی وجہِ شہرت بنا۔ احسان دانش شاعرِ مزدور کہلائے۔ لیکن اردو زبان و ادب میں انھیں ایک ماہرِ لسانیات، نثر نگار اور لغت نویس کے طور پر بھی پہچانا جاتا ہے۔ آج احسان دانش کا یومِ وفات ہے۔

    احسان دانش نے غربت کی گود میں آنکھ کھولی تھی۔ انھیں مزدوری اور یومیہ اجرت پر کام کرنا پڑا، کبھی وہ مالی بنے اور کبھی چپڑاسی اور قاصد کی ذمہ داری نبھائی۔ دو وقت کی روٹی کے لیے انھیں جو بھی کام ملا کیا۔ کہتے ہیں کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب انھوں نے جمعدار بننے تک کا سوچا اور صفائی ستھرائی کے اس کام سے وابستہ لوگوں کی نگرانی اور ان سے کام لینے کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار ہو گئے۔ انھوں نے محنت سے جی نہ چرایا اور ہر قسم کا کام کرنا قبول کیا لیکن کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلایا۔ احسان دانش 1982ء میں آج ہی کے دن انتقال کرگئے تھے۔

    اردو کے صاحبِ‌ اسلوب ادیب اور خاکہ نگار اعجاز الحق قدوسی نے اپنی کتاب میں مزدو احسان دانش کو درویش صفت، قناعت پسند اور بڑے دل کا مالک لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔

    "احسان دانش مجموعۂ خوبی ہیں۔ پیکرِ شرافت ہیں۔ پرانی وضع داریوں کا نمونہ ہیں۔ قناعت کی دولت سے مالا مال ہیں۔ فن کا پندار ان میں بالکل نہیں۔ زندگی محنت کی عظمت سے بھرپور ہے اسی لیے شاعرِ مزدور کہلاتے ہیں۔”

    احسان دانش کو عوامی شاعر کہا جاتا ہے۔ وہ انشا پرداز بھی تھے اور زبان و بیان پر ان کی گرفت بھی خوب تھی۔ انھوں نے لغت کے علاوہ اردو کے مترادفات اور اردو الفاظ سے متعلق کتب تصنیف کیں۔ احسان دانش کا کلام ہر خاص و عام میں مقبول ہوا اور بالخصوص ان کے انقلاب آفریں نغمات اور اشعار کو تحریر سے تقریر تک موقع کی مناسبت سے برتا گیا۔ انھوں نے عام آدمی اور مزدور کے جذبات کی ترجمانی کے ساتھ فطرت اور رومان پرور خیالات کو بھی اپنے اشعار میں سمویا۔ احسان دانش کا ایک شعر ہے۔

    احسان اپنا کوئی برے وقت میں نہیں
    احباب بے وفا ہیں، خدا بے نیاز ہے

    احسان دانش نے کسی طرح مڈل پاس کرلیا لیکن آگے نہیں‌ پڑھ سکے۔ حالات نے انھیں کم عمری میں کمانے پر مجبور کردیا۔ مشہور ہے کہ اس تنگی کے باوجود وہ دل کے بادشاہ تھے۔ حالات کی سختیوں کے باوجود ان کی طبیعت میں‌ شگفتگی اور شوخی برقرار رہی۔ ان سے متعلق مشہور ایک دل چسپ واقعہ ہم یہاں نقل کر رہے ہیں۔

    کسی مشاعرہ کے منتظم نے احسان دانش سے درخواست کی کہ ہم نے شہر میں ایک مشاعرے کا اہتمام کیا ہے، اس میں شریک ہو کر ممنون فرمائیے۔

    احسان نے دریافت کیا، ’’مشاہرہ کیا ہو گا؟‘‘

    منتظم نے نہایت انکساری سے جواب دیا۔ ’’آپ اس مشاعرہ میں معاوضہ کے بغیر شرکت فرما کر اس ادنیٰ کو شکر گزاری کا موقع دیں۔‘‘

    احسان دانش اس کی انکساری سے قطعاً متاثر نہ ہوئے اور خاصا کاروباری انداز اپناتے ہوئے کہا۔

    ’’بندہ نواز! آپ کو ممنون فرمانے میں مجھے کوئی اعتراض نہ تھا اور میں بغیر معاوضہ کے آپ کے مشاعرہ میں چلا آتا، لیکن اُس وقت جب میرے شعروں سے میرے بچّوں کا پیٹ بھر سکتا۔ آپ خود ہی غور فرمائیے قبلہ کہ گھوڑا گھاس سے محبت کرے گا تو کیا آپ کے شکریہ پر زندہ رہ سکے گا؟‘‘

    احسان دانش کے اس جواب نے یقیناً منتظم کو ناراض اور ان سے متعلق بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہو گا، لیکن جو لوگ ان سے واقف تھے، وہ جانتے تھے کہ احسان دانش نے ایسا جواب کیوں‌ دیا‌۔

    احسان دانش کا ایک شعر بہت مشہور ہے۔

    یہ اڑی اڑی سی رنگت، یہ کھلے کھلے سے گیسو
    تری صبح کہہ رہی ہے تری رات کا فسانہ

    قاضی احسان الحق ان کا نام اور احسان تخلص تھا۔ ان کے والد قاضی دانش علی باغ پت ضلع میرٹھ کے رہنے والے تھے، لیکن بعد میں کاندھلا میں سکونت اختیار کر لی۔ احسان یہیں 1913ء میں پیدا ہوئے۔ احسان کے والد کے پاس اچھی خاصی جائیداد بھی تھی لیکن آہستہ آہستہ سب کچھ ختم ہوگیا۔ یوں احسان دانش نے غربت اور تنگ دستی دیکھی اور تعلیم بھی مڈل سے آگے نہ بڑھ سکی۔ حالات کچھ ایسے ہوئے کہ وہ اپنی چپڑاسی کی نوکری چھوڑ کر لاہور چلے آئے اور یہاں محنت مشقت اور مزدوری کرنے لگے۔ ان حالات کے باوجود احسان دانش کو علم حاصل کرنے اور مطالعہ کا شوق تھا اور انھوں نے کتابوں سے اپنا رشتہ نہیں توڑا۔ انھیں کام نمٹانے کے بعد جو وقت بھی ملتا کتب بینی میں صرف کرتے۔ جو بھی شعری صلاحیت ان میں پیدا ہوئی وہ کتب بینی ہی سے ہوئی۔

    شاعرِ‌ مزدور احسان دانش طبقاتی کشمکش سے بیزار تھے۔ انھوں نے مروجہ نظامِ حکومت اور عدم مساوات کے خلاف آواز اٹھائی۔ ان کی شاعری میں‌ مزدوروں کو متحد ہوجانے کی تلقین، برابری اور بھائی چارگی کا درس بھی ملتا ہے۔ ان کی نظر میں شعر و ادب زندگی کا آئینہ رہا۔ فطرت سے انھیں پیار تھا اور رومان بھی ان کے اشعار میں بہت بے ساختہ ہے۔

    ان کے مجموعہ ہائے کلام اور دیگر کتب میں ابلاغ دانش، تشریح غالب، آواز سے الفاظ تک، اردو مترادفات شامل ہیں جب کہ ان کی خودنوشت بھی جہانِ دانش کے نام سے شایع ہوئی تھی۔

    احسان دانش کی یہ غزل ملاحظہ کیجیے

    یوں نہ مل مجھ سے خفا ہو جیسے
    ساتھ چل موج صبا ہو جیسے

    لوگ یوں دیکھ کے ہنس دیتے ہیں
    تو مجھے بھول گیا ہو جیسے

    عشق کو شرک کی حد تک نہ بڑھا
    یوں نہ مل ہم سے خدا ہو جیسے

    موت بھی آئی تو اس ناز کے ساتھ
    مجھ پہ احسان کیا ہو جیسے

    زندگی بیت رہی ہے دانشؔ
    ایک بے جرم سزا ہو جیسے

    احسان دانش کی خود نوشت سوانح عمری جہانِ دانش بھی علمی اور ادبی حلقوں میں بے حد مقبول ہے۔ اس کتاب کو نہ صرف پاکستان رائٹرز گلڈ نے آدم جی ادبی انعام کا مستحق قرار دیا بلکہ اس پر حکومت پاکستان نے بھی پانچ ہزار روپے کا انعام عطا کیا۔ حکومتِ پاکستان نے شاعرِ‌ مزدور کو ستارۂ امتیاز اور نشانِ امتیاز عطا کیے۔

  • پیر علی محمد راشدی: سیاست سے ادب تک

    پیر علی محمد راشدی: سیاست سے ادب تک

    پیر علی محمد راشدی اُن شخصیات میں سے ایک ہیں‌ جنھوں‌ نے برصغیر میں تاریخی اہمیت کی حامل قراردادِ پاکستان کی ڈرافٹنگ کا کام سَر انجام دیا۔ وہ تحریکِ پاکستان کے کارکن اور قائد اعظم محمد علی جناح کے رفقا میں سے ایک تھے۔

    قیامِ پاکستان کے بعد پیر علی محمد راشدی نے مختلف سرکاری عہدوں پر خدمات انجام دیں۔ لیکن سیاست اور سفارت کاری کے علاوہ انھیں ایک صحافی، مؤرخ اور ادیب کی حیثیت سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ پیر علی محمد راشدی 14 مارچ 1987ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    علی محمد راشدی نے اردو، انگریزی اور سندھی زبانوں میں لکھا اور صحافت سے سیاست تک اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کو منوایا۔ وہ 1905ء میں‌ سندھ کے ضلع لاڑکانہ کے چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مسلم لیگ قائدِ اعظم کی شمولیت اور بعد میں ان کی قیادت میں تاریخی فیصلے کرنے جارہی تھی۔ پیر صاحب نے بھی اس دور میں‌ جلسے جلوس اور آزادی سے متعلق بڑے لوگوں کی جدوجہد اور ان کی سیاسی سرگرمیاں دیکھیں‌ اور پھر تحریکِ پاکستان کا حصّہ بنے۔ ان کا تعلق سندھ کے ممتاز روحانی گھرانے سے تھا۔ پیر صاحب نے کسی اسکول یا کالج سے تعلیم حاصل نہیں کی بلکہ گھر پر اپنی علمی استعداد بڑھائی اور اہلِ علم کی مجالس اور بڑے لوگوں کی صحبت میں رہ کر قابلیت میں اضافہ کیا۔ انھیں‌ لکھنے لکھانے کا شوق ہوا تو صحافت کی طرف آنکلے اور اس میدان میں بحیثیت قلم کار شہرت پائی۔ علی محمد راشدی نے صحافتی زندگی کے ساتھ ہی ادبی اور سیاسی سفر کا آغاز بھی کردیا۔ سیاست میں‌ انھوں نے پہلا قدم 1924ء میں حیدر آباد میں سندھی تعلیمی کانفرنس کے بعد رکھا۔ اگلے برسوں‌ میں وہ نہایت متحرک اور فعال رہے اور قائد اعظم کے رفقاء میں ان کا شمار ہوا۔ انھوں نے مسلمانوں کی وکالت اور سیاسی اکابرین کے ساتھ ان کی جدوجہد میں بھرپور کردار ادا کیا۔ قیام پاکستان کے بعد کئی عہدوں پر فائز رہے اور مختلف تنظیموں اور مجالس کے رکن بنائے گئے۔ اس کے علاوہ پیر صاحب نے ادب، تاریخ و ثقافت اور تحقیق کے میدان میں‌ بھی نمایاں کام کیا۔ بالخصوص راشدی صاحب نے سندھ کی تاریخ پر مضامین اور تحقیقی مقالے تحریر کیے، جو ان کا بڑا کام ہے۔ پیر علی محمد راشدی کی یادداشت پر مبنی سندھی زبان میں کتاب اھے ڈینھن اھے شینھن کو کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔ یہ کتاب تین جلدوں پر مشتمل ہے۔

    پیر صاحب کو اپنے سیاسی سفر اور حکومتی عہدے پر فائز ہونے کے بعد مختلف مواقع پر مخالفت بھی برداشت کرنا پڑی اور علمی و ادبی میدان میں بھی ان کو بعض خامیوں اور کم زوریوں کی بنیاد پر مطعون کیا گیا جب کہ مختلف حلقوں میں ان کی مخالفت اور ناپسندیدگی بھی عروج پر رہی، لیکن علم و ادب کی دنیا میں ان خدمات کا اعتراف بھی کیا جاتا ہے۔ ان کی چند تصانیف میں رودادِ چمن (اردو)، فریادِ سندھ (سندھی)، چین جی ڈائری (سندھی)، ون یونٹ کی تاریخ (اردو)، کراچی کی کہانی (اردو) شامل ہیں۔

  • غلام جیلانی برق: ایک عالی دماغ اور نبّاض

    غلام جیلانی برق: ایک عالی دماغ اور نبّاض

    غلام جیلانی برق کی ایک تصنیف نے اگرچہ انھیں متنازع بنا دیا تھا، مگر ان کی علمی اور ادبی حیثیت سے کسی کو انکار نہیں بلکہ انھیں آج بھی ایک مذہبی اسکالر کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔وہ ایک ماہرِ تعلیم، مصنّف، مترجم اور شاعر بھی تھے۔ غلام جیلانی برق 1985ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    برق کی علمی استعداد، قابلیت اور تحقیقی کام کو جہاں سراہا جاتا ہے، وہیں مذہبی موضوع پر ایک تصنیف کے بعد وہ مذہبی حلقوں میں متنازع ہوگئے لیکن بعد میں اپنے مؤقف سے رجوع کرلیا تھا۔ برق کو اس کے باوجود ہر مکتبِ‌ فکر میں خاص اہمیت ضرور دی جاتی ہے اور انھیں‌ ایک لائق شخص اور دانش ور تسلیم کیا جاتا ہے۔

    غلام جیلانی برق 26 اکتوبر 1901ء کو پنڈی گھیپ، ضلع کیمبل پور میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے عربی، فارسی اور اردو میں اسنادِ فضیلت حاصل کیں۔ بعد میں عربی اور فارسی میں ایم اے کیا۔ 1940ء میں غلام جیلانی برق نے امام ابنِ تیمیہ کی زندگی اور کارناموں پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔ بعدازاں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوئے اور ملازمت کے ساتھ مختلف موضوعات پر لگ بھگ 40 کتابیں تحریر کیں۔ ان کی قابلِ ذکر تصنیف میں دو اسلام، فلسفیانِ اسلام، مؤرخینِ اسلام، حکمائے عالم، فرماں روایانِ اسلام، دانشِ رومی و سعدی، ہم اور ہمارے اسلاف شامل ہیں۔

    ڈاکٹر غلام جیلانی برق کا انتقال اٹک میں ہوا۔ انھیں قبرستان عید گاہ میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

  • طاہرہ واسطی: ‘افشاں’ اور ‘آخری چٹان’ سے غیرمعمولی شہرت حاصل کرنے والی اداکارہ

    طاہرہ واسطی: ‘افشاں’ اور ‘آخری چٹان’ سے غیرمعمولی شہرت حاصل کرنے والی اداکارہ

    طاہرہ واسطی کا شمار پاکستان ٹیلی ویژن کے ان اداکاروں‌ میں ہوتا ہے جن کی ہر پرفارمنس یادگار ثابت ہوئی۔ پُر وقار اور با رعب شخصیت کے باعث طاہرہ واسطی کو اُن کرداروں‌ کے لیے منتخب کیا جاتا تھا، جو شاہانہ کرّوفر اور رعب و دبدبہ کے متقاضی تھے۔ ڈرامہ سیریل افشاں میں اداکارہ نے ایسا ہی ایک کردار نبھا کر غیرمعمولی شہرت حاصل کی۔ آج طاہرہ واسطی کی برسی ہے۔

    پاکستان ٹیلی ویژن کی تاریخ کے لازوال اور نہایت مقبول ڈراموں میں ایک افشاں بھی تھا جس میں طاہرہ واسطی نے یہودی تاجر کی بیٹی کا کردار نبھایا۔ آخری چٹان وہ ڈرامہ تھا جس میں طاہرہ واسطی ملکہ ازابیل کے روپ میں اسکرین پر نظر آئیں اور دونوں ہی کرداروں نے انھیں غیرمعمولی شہرت دی۔ طاہرہ واسطی 1980ء اور 1990ء کے عشرے میں پاکستان ٹیلی ویژن کے ناظرین میں بے حد بہت مقبول تھیں۔ 2012ء میں اداکارہ آج ہی کے دن اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔

    1968ء میں طاہرہ واسطی نے پاکستان ٹیلی ویژن سے اداکاری کا آغاز کیا۔ ان کا پہلا ڈرامہ سیریل ’جیب کترا‘ تھا جو بہت مشہور ہوا۔ یہ اردو کے نام ور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی کہانی پر مبنی سیریل تھا۔ طاہرہ واسطی نے 1944ء میں‌ سرگودھا میں‌ آنکھ کھولی۔ وہیں ابتدائی تعلیم مکمل کی اور بعد میں لاہور کی درس گاہ میں داخلہ لیا۔ ان کی شادی رضوان واسطی سے ہوئی جو معروف ٹی وی اداکار اور انگریزی نیوز کاسٹر تھے۔ ان کی صاحبزادی لیلیٰ واسطی بھی ٹیلی ویژن پر اداکاری کرچکی ہیں۔

    پی ٹی وی کی معروف اداکارہ طاہرہ واسطی کے تاریخی کہانیوں پر مبنی ڈراموں میں غرناطہ، شاہین، ٹیپو سلطان کے علاوہ شمع اور دلدل شامل ہیں جو اپنے وقت کے مقبول ترین اور یادگار ڈرامے ثابت ہوئے۔

    وہ ایک منجھی ہوئی اداکارہ ہی نہیں قابل رائٹر بھی تھیں۔ طاہرہ واسطی نے چند ڈرامے بھی تحریر کیے اور سائنس فکشن بھی لکھا۔ ایڈز کے موضوع پر ان کا تحریر کردہ ایک کھیل بعنوان کالی دیمک بہت پسند کیا گیا تھا۔

  • آسیہ:‌ پاکستانی فلم انڈسٹری کی ایک مقبول اداکارہ

    آسیہ:‌ پاکستانی فلم انڈسٹری کی ایک مقبول اداکارہ

    70 کی دہائی میں آسیہ کا نام پاکستانی فلم انڈسٹری کی مصروف اداکارہ کے طور پر لیا جاتا تھا اور وہ مقبولیت کی بلندیوں کو چھو رہی تھی۔ صرف ایک دہائی میں آسیہ نے ڈیڑھ سو کے لگ بھگ فلموں میں کام کیا تھا اور جب اداکارہ نے فلمی دنیا کو خیرباد کہا تو اس کی چالیس کے قریب فلمیں زیرِ تکمیل تھیں۔

    آسیہ کی پہلی ریلیز ہونے والی فلم ہدایت کار شباب کیرانوی کی شاہکار فلم انسان اور آدمی تھی اور 1970 کی یہ فلم زیبا اور محمدعلی کی بھی بڑی فلم تھی۔ آسیہ کی جوڑی لیجنڈ ٹی وی اداکار طلعت حسین کے ساتھ بنی تھی جن پر رنگیلا کا گایا ہوا ایک گیت بھی فلمایا گیا تھا۔ اداکارہ آسیہ کی بطور ہیروئن پہلی سپرہٹ اردو فلم 1971ء میں ریلیز ہوئی تھی اور اسی سال اداکارہ کی چھ فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں سے بطور سولو ہیروئن اکلوتی فلم دل اور دنیا تھی۔ اس سپرہٹ فلم نے آسیہ کو صف اوّل کی اداکارہ بنا دیا تھا۔ 1973ء تک آسیہ پاکستانی فلموں کی ایک مصروف ترین اداکارہ بن چکی تھی۔ سوا درجن فلموں میں سے بیشتر پنجابی فلمیں تھیں۔ 1980ء کے بعد اداکارہ کی چالیس کے قریب فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں اتھراپتر 1981 جب کہ یہ آدم 1986 کی مشہور فلمیں ثابت ہوئیں۔ چن میرے 1991 میں آسیہ کی آخری فلم تھی۔

    پاکستانی فلم انڈسٹری کی ماضی کی یہ اداکارہ کراچی میں 1952ء میں پیدا ہوئی تھی۔ آسیہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا تعلق بازار حسن سے تھا۔ 9 مارچ 2013ء کو کینیڈا میں آسیہ کا انتقال ہوگیا تھا۔

  • ترقی پسند اور اجتہادی نقطۂ نظر کے جمال الدّین افغانی کا تذکرہ

    ترقی پسند اور اجتہادی نقطۂ نظر کے جمال الدّین افغانی کا تذکرہ

    برصغیر کی تاریخ میں خلافتِ عثمانیہ کے زوال اور ہندوستان پر انگریزوں کے قبضے کے زمانے میں جن علماء، سیاسی راہ نماؤں اور سماجی شخصیات نے مسلمانوں کو اپنے دینی اور ملّی تشخص کو زندہ رکھنے اور اتحاد پر زور دیا اور اس کے لیے عملی جدوجہد کی ان میں ایک نام سید جمال الدّین افغانی کا ہے۔

    انیسویں صدی عیسوی کے صفِ اوّل کے بااثر مسلم زعما میں سے ایک جمال الدّین افغانی کے نظریات اور ان کی مساعی کو شاعرِ مشرق علاّمہ اقبال نے بھی سراہا اور ان کے معترف رہے۔ علّامہ اقبال نے اپنی تصانیف اور بیانات میں بھی جمال الدّین افغانی کا ذکر کیا اور ان کی متنوع اور انقلابی خدمات کو سراہا۔

    جس زمانہ میں خلافتِ عثمانیہ کا زوال شروع ہوا اور برِصغیر کے مسلمان انگریزوں کی غلامی کے ساتھ ان کے اثرات قبول کررہے تھے، اس وقت دنیا کے کئی مسلم ممالک میں بے چینی اور عدم تحفظ کا احساس پیدا ہورہا تھا۔ یہ خلافت کے خاتمے سے پریشان ممالک تھے اور اس وقت ہندوستان کے علاوہ بھی مسلم ریاستوں‌ کو طاقتور ملکوں کی نوآبادیات میں‌ کئی مسائل کا سامنا تھا۔ ان حالات میں جمال الدین افغانی نے مسلم ممالک کو اِس بات پر قائل کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا کہ اسلامی ممالک متحد ہوں‌ ایک مرکز پر اکٹھے ہوکر اپنے دین اور روایات کے غلبے کی کوشش کریں۔ مؤرخین کے مطابق یوں تو شاہ ولی اللہ دہلوی نے سب سے پہلے بیداریٔ روح کا احساس دلایا مگر اس کی اہمیت کو جمال الدّین افغانی نے اپنی سیاسی بصیرت سے اجاگر کیا۔

    جمال الدین افغانی طباطبائی سیّد تھے۔ جلال آباد کے قریب ایک گاؤں‌ اسد آباد میں 1839ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے مولد میں حاصل کی۔ تکمیلِ علوم و فنون کی غرض سے آپ نے کابل اور بعد میں ایران کے شہروں مشہد، اصفہان اور ہمدان کا رخ کیا۔ اپنی فطری ذہانت اور ذکاوت کے بل بوتے پر اٹھارہ برس کی عمر میں تاریخ، حکمت و فلسفہ، ریاضی اور نجوم وغیرہ مکمل کیے۔ اسی سال ہندوستان چلے آئے اور ایک سال تک یہاں قیام کے دوران اردو اور انگریزی بھی سیکھی۔ بعد میں‌ فرماں روائے افغانستان امیر دوست محمد خاں کی ملازمت اختیار کر لی اور اس کے بڑے بیٹے کے اتالیق مقرر ہوئے۔ بعد میں سیاسی اور ملکی حالات بدلے تو ملازمت ترک کر دی اور ترکی، استنبول چلے گئے۔ اسی طرح لندن، امریکا اور پیرس کا سفر کیا۔ پیرس میں فرانسیسی زبان سیکھی۔ انھیں سیاسی زعما اور والیانِ ریاست کے قریب رہنے اور ان سے بدلتے ہوئے حالات میں‌ صلاح مشورے کا شرف تو حاصل رہا، مگر حاسدین اور بدخواہوں‌ نے انھیں کہیں‌ ٹکنے نہ دیا۔ شاہِ ایران سے اختلاف کے بعد وہ 1893ء میں سلطان عبدالحمید عثمانی کی دعوت پر استنبول آگئے۔ وہیں سید جمال الدّین افغانی نے 9 مارچ 1897ء کو وفات پائی اور ان کی تدفین استنبول میں کی گئی۔ کئی برس بعد ان کا جسدِ خاکی کابل منتقل کیا گیا۔

    وہ ترقی پسند اور ہمہ گیر اجتہادی نقطۂ نظر کے حامل تھے۔ ایک صحافی، دانش ور اور خطیب کی حیثیت سے انھوں نے افغانستان، ایران، ترکی اور مصر کے حکام و سلاطین کے ساتھ اپنے روابط کو اصلاحی مشن کے لیے استعمال کیا۔ سیّد افغانی نے اپنے وطن (افغانستان) میں اصلاحات کے لیے جو تجاویز اور مشورے دیے ان میں فوج کی تشکیلِ نو، سفیروں اور نمائندوں کے تقرر، ڈاک کے نظام کی بہتری شامل ہیں۔ کہتے ہیں کہ روس میں ان کی کوشش کے نتیجے میں زار نے قرآنِ مجید کے روسی ترجمے اور بعض اسلامی کتب کی اشاعت کی اجازت دی تھی۔ افغانی کے مخالفین بھی ان کی خداداد صلاحیتوں اور استعداد و قابلیت کے معترف رہے۔

    سید افغانی اردو، انگریزی، پشتو، ترکی، جرمن، عربی، فارسی اور فرانسیسی زبانوں میں‌ دستگاہ رکھتے تھے اور تحریر و تقریر کے ذریعے اصلاح اور انقلاب کے لیے کوششیں‌ کرتے رہے۔

  • مالا بیگم: پاکستانی فلمی صنعت کی سریلی آواز

    مالا بیگم: پاکستانی فلمی صنعت کی سریلی آواز

    گلوکارہ مالا کی مدھر اور رسیلی آواز میں ایک گیت بہت مقبول ہوا تھا جس کے بول ہیں، ’’دل دیتا ہے رو رو دہائی کسی سے کوئی پیار نہ کرے، بڑی منہگی پڑے گی یہ جدائی کسی سے کوئی پیار نہ کرے‘‘ اور مالا کو اس گیت پر فلمی صنعت کا سب سے معتبر نگار ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ آج گلوکارہ مالا کی برسی ہے۔

    مالا کی آواز میں یہ سدا بہار گیت 1963 میں ریلیز ہونے والی فلم ’’عشق پر زور نہیں‘‘ میں شامل تھا اور شاعر تھے قتیل شفائی۔ مالا نے پسِ پردہ گلوکاری کا آغاز معروف موسیقار ماسٹر عبداللہ کی فلم ’’سورج مکھی‘‘ سے 1962 میں کیا تھا۔ مالا کا اصل نام نسیم نازلی تھا۔ فلمی موسیقار شمیم نازلی ان کی بڑی بہن تھیں اور وہی نسیم کی فنِ موسیقی میں اوّلین استاد بھی تھیں۔ فلمی دنیا میں نسیم نازلی نے ’’مالا‘‘ کے نام سے شہرت اور مقبولیت پائی۔ وہ 9 نومبر 1942ء میں پیدا ہوئی تھیں۔ نسیم بیگم نے دو شادیاں کی تھیں اور دونوں ہی ناکام رہیں۔ فلمی دنیا میں مالا نے المیہ اور طربیہ دونوں طرح‌ کے گیت گائے۔ انھوں نے اردو اور پنجابی زبانوں میں‌ اپنی آواز کا جادو جگایا۔ 1965 میں فلم ’’نائلہ‘‘ کے گیت ’’اب ٹھنڈی آہیں بھر پگلی جا اور محبت کی پگلی‘‘ پر انھیں دوسری مرتبہ نگار ایوارڈ دیا گیا۔ مالا نے اپنے وقت کے بڑے اور نام ور موسیقاروں کے ساتھ کام کیا اور آخری مرتبہ ان کی آواز فلم ہنڈریڈ رائفلز کے لیے ریکارڈ کی گئی تھی جو 1981 میں ریلیز ہوئی۔ مالا بیگم نے فلم ارمان، احسان، دوراہا، دل میرا دھڑکن تیری، ہمراز، پھول میرے گلشن کا، پردہ نہ اٹھاؤ، فرنگی، انسانیت، مسٹر بدھو، ہل اسٹیشن، مہمان، اک نگینہ، سنگ دل اور چھوٹے صاحب نامی فلموں کے لیے گیت گائے جو بہت مقبول ہوئے۔ مالا نے اپنے وقت کے نام ور گلوکاروں کے ساتھ دو گانے بھی ریکارڈ کروائے۔

    1990 میں آج ہی کے دن پاکستانی فلم انڈسٹری کی اس سریلی گلوکارہ نے لاہور میں اپنی زندگی کا سفر تمام کیا۔ تاہم مالا بیگم کی قبر کے کتبے پر یوم وفات 5 مارچ درج ہے۔

  • ناصر کاظمی:‌ ہجر اور یاسیت کا شاعر

    ناصر کاظمی:‌ ہجر اور یاسیت کا شاعر

    اردو کے ممتاز شاعر ناصر کاظمی کی مقبولیت کی ایک وجہ ان کا وہ طرزِ بیان ہے جس میں شدّتِ جذبات کے ساتھ سوز اور برجستگی نمایاں‌ ہے۔ اس کے ساتھ اردو غزل کو ناصر نے اپنے احساسِ تحیّر سے وہ انفرادیت بخشی جو انھیں‌ آج بھی زندہ رکھے ہوئے ہے۔

    دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
    وہ تری یاد تھی اب یاد آیا

    دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی
    کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی

    یہ ناصر کی غزل کے وہ اشعار ہیں‌ جن میں‌ حسن و عشق کا موضوع اور وہ کسک نمایاں‌ ہے جس کے لیے ناصر پہچانے گئے۔ انھوں نے اردو شاعری کے روایتی مضامین یعنی زندگی کی تلخیوں، محرومیوں، سرشاری اور حسرتوں کو بڑی شدّت سے اپنے اشعار میں‌ سمویا۔ روایتی شاعری سے انحراف کیے بغیر ناصر کاظمی نے جدید لب و لہجہ اپنایا، جو عام فہم بھی تھا اور نہایت دل نشیں‌ بھی۔

    ناصر کا ایک مشہور شعر پڑھیے۔

    ہمارے گھر کی دیواروں‌ پہ ناصر
    اداسی بال کھولے سو رہی ہے

    ناصر کاظمی کا اصل نام سیّد ناصر رضا کاظمی تھا۔ وہ 8 دسمبر 1952ء کو انبالہ میں‌ پیدا ہوئے۔ ان کے والد سیّد محمد سلطان کاظمی فوج میں صوبے دار میجر تھے۔ والدہ بھی تعلیم یافتہ اور انبالہ میں‌ اسکول ٹیچر تھیں۔ یوں‌ وہ ایک خوش حال گھرانے کے فرد تھے جس نے بچپن لاڈ پیار میں‌ گزارا۔ تعلیم حاصل کرتے ہوئے گلستاں، بوستاں، شاہنامۂ فردوسی، قصہ چہار درویش، فسانۂ آزاد، الف لیلٰی، صرف و نحو اور اردو شاعری کی کتابیں بھی پڑھ لیں۔ کم عمری میں ہی شاعری شروع کر دی تھی۔ ان کا ترنم بہت اچھا تھا۔

    ناصر کاظمی نے دسویں کا امتحان مسلم ہائی اسکول انبالہ سے پاس کیا۔ بی اے کے لیے لاہور گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا، لیکن تقسیمِ ہند کے ہنگاموں کے سبب تعلیم چھوڑنی پڑی۔ آزادی سے قبل وہ ایک بڑے گھر میں‌ نہایت آسودہ زندگی بسر کررہے تھے لیکن تقسیم کے بعد پاکستان میں‌ انھوں‌ نے چھوٹے سے معمولی گھر میں‌ نوکریاں‌ کرتے ہوئے زندگی گزار دی۔

    عوامی مقبولیت حاصل کرنے والے اس شاعر کی لفظیات اور ان کی حسّیات کا پیمانہ رومان رہا، لیکن وہ جس عہد اور سماج سے جڑے ہوئے تھے، اُس کے مسائل کو بھی نظر انداز نہیں کرسکے اور چھوٹی بحروں‌ کے ساتھ منفرد استعاروں‌ سے یوں‌ اپنے کلام کو سجایا کہ شہرت ان کا مقدر بنی۔

    ناصر کا پہلا مجموعۂ کلام ’برگِ نے‘ سنہ 1954ء میں منظرِعام پر آیا تھا جسے زبردست پذیرائی نصیب ہوئی۔ اس کے بعد ’پہلی بارش‘، ’نشاطِ خواب‘، ’دیوان‘ اور ’سُر کی چھایا‘ کے نام سے ان کی کتابیں‌ شایع ہوئیں۔ وہ ایک اچھے نثر نگار بھی تھے اور ان کے مضامین کا ایک مجموعہ بھی شایع ہوا۔

    ناصر کاظمی معروف ادبی رسالوں ’اوراقِ نو‘ ، ’ہمایوں‘ اور ’خیال‘ کی مجلسِ ادارت میں شامل تھے۔ بعد میں ریڈیو پاکستان لاہور سے بطور اسٹاف ایڈیٹر وابستہ ہوگئے۔

    2 مارچ 1972ء کو ناصر کاظمی اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ ان کی قبر کے کتبے پر اُنہی کا ایک شعر کندہ ہے۔

    دائم آباد رہے گی دنیا
    ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا

    وہ لاہور میں مومن پورہ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • اعجاز درّانی:‌ پاکستانی فلمی صنعت کے معروف اداکار اور کام یاب فلم ساز

    اعجاز درّانی:‌ پاکستانی فلمی صنعت کے معروف اداکار اور کام یاب فلم ساز

    اعجاز درانی فلم انڈسٹری کے ان فن کاروں میں سے ایک تھے جو شہرت اور دولت کے پیچھے نہیں بھاگے اور ہمیشہ اپنے کام کو اہمیت دی۔ وہ خوش اخلاق اور ملنسار مشہور تھے۔ اعجاز درانی 1960 اور 1970 کی دہائی کے معروف اداکار تھے اور بعد میں بطور فلم ساز بھی کام کیا۔ یکم مارچ 2021ء کو اعجاز درانی انتقال کرگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    اعجاز درانی نے ڈیڑھ سو کے قریب اردو اور پنجابی فلموں میں بطور اداکار کام کرنے کے علاوہ ہدایت کار کی حیثیت سے فلم انڈسٹری کو کئی کام یاب فلمیں بھی دیں جن میں پنجابی زبان کی سپر ہٹ فلم ‘ہیر رانجھا’ بھی شامل ہے۔

    اداکار اور فلم ساز اعجاز درانی 18 اپریل 1935 کو جلال پور جٹاں کے قریب ایک ضلع کے نواحی گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جہلم سے بی اے پاس کیا اور اس وقت متحدہ ہندوستان کے ایک فلمی مرکز کے طور پر پہچان رکھنے والے شہر لاہور آ گئے۔ یہاں 21 سالہ اعجاز نے فلم ‘حمیدہ’ سے اداکاری کا سفر شروع کیا۔ اعجاز درانی وجیہ صورت اور جاذبِ نظر شخصیت کے مالک تھے اور جلد ہی وہ فلمی دنیا کے دیگر مرد اداکاروں میں نمایاں‌ ہوگئے۔ ان کی اداکاری اور شخصیت نے انھیں سنیما بینوں میں مقبول بنایا۔

    1960 کی دہائی میں اعجاز درانی کی کئی فلمیں کام یاب ہوئیں جن میں ‘شہید’، ‘بدنام’، ‘لاکھوں میں ایک’، ‘بہن بھائی’ اور ‘زرقا’ کے نام شامل ہیں۔ ان فلموں میں اعجاز کی اداکاری کو سب نے پسند کیا۔ اداکارہ اعجاز نے اپنے وقت کی مقبول ہیروئن اور گلوکارہ نورجہاں سے شادی کی تھی لیکن بعد میں‌ نور جہاں‌ نے ان سے طلاق لے لی تھی۔

    ‘لاکھوں میں ایک’ ، ‘بدنام’ جیسی فلموں کے بعد اعجاز کو 70 کی دہائی میں بھی کام یابی ملتی رہی۔ ان کی پنجابی فلم ‘انورہ’ اور پھر ‘ہیر رانجھا’ نے انھیں شہرت کی بلندیوں‌ پر پہنچا دیا۔ اعجاز نے رانجھا کا کردار نبھا کر سنیما بینوں کے دل جیت لیے۔ یہ وہ فلم تھی جس کا خوب شہرہ ہوا اور خوب صورت نین نقش والی اداکارہ فردوس کے ساتھ اعجاز کی جوڑی بہت پسند کی گئی۔ اعجاز نے اپنے وقت کے مقبول اور باکمال فن کاروں کے ساتھ کام کیا اور منفی کردار بھی بخوبی نبھائے۔ہیر رانجھا کے بعد اعجاز کی ایک کام یاب فلم ‘دوستی’ تھی جس کا گانا ‘چٹھی زرا سیاں جی کے نام لکھ دے’ آج بھی سماعتوں‌ میں‌ رس گھول رہا ہے اور لوگ اسے سننا پسند کرتے ہیں۔ ملکۂ ترنم میڈم نور جہاں سے علیحدگی کے بعد اعجاز نے فلم ‘دوستی’ کے ہدایت کار کی بیٹی سے شادی کر لی تھی۔

    اعجاز درانی لاہور اور راولپنڈی میں سنگیت سنیما کے مالک بھی تھے۔ انھوں نے بطور فلم ساز پنجابی فلم ‘شعلے’ اور ‘مولا بخش’ بھی فلمی صنعت کو دیں جو باکس آفس پر نہایت کام یاب رہیں۔بطور اداکارہ اعجاز درانی کی آخری فلم ‘جھومر چور’ تھی جو 1986 میں ریلیز ہوئی۔

  • ایک چینی کسان کی کہانی جو پرل بَک کی وجہِ شہرت بنی

    ایک چینی کسان کی کہانی جو پرل بَک کی وجہِ شہرت بنی

    پرل ایس بَک (Pearl Sydenstricker Buck) پہلی امریکی خاتون ہیں جنھیں 1938 میں ادب کا نوبیل انعام ملا۔ یہ انعام اُن کے ناول ‘گڈ ارتھ’ پر دیا گیا تھا۔

    پرل بک امریکی تھیں‌، لیکن چینیوں سے ان کا ذہنی اور قلبی تعلق نہایت گہرا تھا۔ وہ چار ماہ کی تھیں جب والدین کے ساتھ چین چلی گئی تھیں اور پھر وہاں پرل بَک نے دو دہائیاں گزاریں۔ بچپن اور نوعمری کے ساتھ اپنے عنفوانِ شباب میں وہ عام چینی باشندوں سے میل جول کے ساتھ اُس سماج میں گھل مل گئی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ پرل بَک نے جب قلم تھاما تو چین کے ہر طبقاتِ عوام اور ان کی معاشرت کو اپنی تحریروں میں شامل کرتی چلی گئیں۔ اسی لیے وہ اپنی وفات تک امریکہ میں چینی تہذیب و ثقافت کی ایک ماہر کے طور پر بھی مشہور رہیں۔ ایک موقع پر پرل بَک نے کہا تھا “میں پیدائشی طور پر امریکی ہوں، لیکن کہانی کا میرا ابتدائی علم، کہانیاں سنانے اور لکھنے کا طریقہ بھی میں‌ نے چین میں رہ کر سیکھا۔”

    پرل بَک (Pearl Sydenstricker Buck) والد کے غصّے کے باوجود بچّوں کا ادب پڑھنے لگی تھیں، ناول اور کہانیوں میں‌ ان کی دل چسپی وقت کے ساتھ بڑھتی گئی اور بعد میں‌ چین ہی میں‌ رہتے ہوئے انھوں‌ نے فکشن رائٹر کی حیثیت سے اپنا سفر شروع کیا، پرل بَک نے اپنے مشاہدات اور تجربات کو اپنی تحریروں کا حصّہ بنایا۔ ناول نگار پرل بَک 1892ء میں امریکا میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد عیسائیت کے پرچارک تھے اور اپنی شریکِ حیات کے ساتھ تبلیغی مشن پر چین میں‌ مقیم تھے اور ولادت کا وقت قریب آیا تو یہ جوڑا امریکہ لوٹ آیا جہاں پرل بَک نے جنم لیا۔ والدین ننھّی پرل بَک کو لے کر دوبارہ چین چلے گئے۔

    اردو زبان میں‌ ناول دا گڈ ارتھ کا ترجمہ پیاری زمین کے نام سے ممتاز ادیب اور مترجم ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری نے کیا تھا۔ یہ وہ ناول تھا جس پر نوبیل انعام حاصل کرنے سے چھے سال پہلے یعنی 1932ء پرل بَک کو پلٹزر پرائز دیا جا چکا تھا۔ 1937ء میں ان کے اس ناول پر فلم بھی بنائی گئی تھی جو آسکر کے لیے نام زد ہوئی اور اس بات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس ناول کو اُس کی اشاعت کے اوّلین برسوں ہی میں کس قدر توجہ اور پذیرائی ملی تھی۔ امریکہ میں دا گڈ ارتھ بیسٹ سیلر ناول بھی رہا۔ اس ناول کو نوبیل انعام دینے کی وجہ یہ تھی کہ مصنّفہ نے چین کی دیہاتی زندگی کی سچّی اور دل چسپ تصویر کشی کی اور یہ سوانحی شاہ کاروں پر مشتمل تھا۔

    پرل بَک نے اپنے ناول میں ایک کسان وانگ لنگ کی زندگی کو دکھایا ہے جس نے انتہائی غربت جھیلی اور اسی دوران ہمّت کرکے اپنا کام شروع کیا۔ ایک باندی سے شادی کے بعد اس کی مستقل مزاجی اور محنت نے اس کی زمینوں کو وسعت دی۔ حالات موافق رہے اور وہ ایک کسان سے زمین دار بنتا گیا۔ ناول میں مصنفہ نے یہ بتایا ہے کہ انسان بالخصوص ایک کسان کا زمین کے ساتھ اٹوٹ رشتہ ہوتا ہے، وہ اسے کبھی ختم نہیں‌ کر پاتا۔

    اس ناول میں ایک تاریخی قحط کا ذکر بھی کیا گیا ہے جس کے بعد کسان اور اس کا خاندان بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی زمین چھوڑ کر شہر میں آباد ہوتا ہے۔ وہ بھیک مانگ کر بھی گزارہ کرتے ہیں۔ پرل بَک نے نہایت خوب صورتی سے ناول کے مرکزی کردار کی زندگی کے اتار چڑھاؤ کو واضح کیا ہے۔ مصنّفہ نے انسانی فطرت، غربت اور اس کے بطن سے پھوٹنے والے مسائل، مال و دولت کی فراوانی کے نتیجے میں جنم لینے والی خرابیوں کے علاوہ سماجی نفسیات کے کئی پہلوؤں کو بھی بیان کیا ہے جو اس ناول کو اہم بناتا ہے۔

    پرل ایس بَک کا پورا نام پرل سیڈنسٹریکر تھا، جن کی شادی 1917ء میں جان لوسنگ بَک نامی شخص سے ہوئی اور اسی نسبت سے وہ پرل سیڈنسٹریکر بَک ہو گئیں‌۔ انھیں‌ پرل بَک کے نام سے پکارا گیا۔

    پرل بَک نے چارلس ڈکنز کو شوق سے پڑھا۔ اور ساتھ ساتھ تعلیمی میدان میں بھی آگے رہیں۔ وہ 1911ء میں گریجویشن کرنے کے لیے امریکہ گئیں‌ اور ورجینیا کی ایک جامعہ سے 1914ء میں سند یافتہ ہوئیں۔ اگرچہ تعلیم کا یہ مرحلہ طے کرنے کے بعد خود پرل بَک چین جاکر مشنری خدمات انجام دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی تھیں‌، لیکن اپنی والدہ کی بیماری کی وجہ سے انھیں چین لوٹنا پڑا۔ اس کے بعد ان کی شادی ہوگئی اور وہ انوہی صوبے کے ایک چھوٹے سے قصبے سوزہو میں منتقل ہو گئیں۔ اس علاقے کا ذکر انھوں‌ نے “دا گڈ ارتھ” کے علاوہ اپنے ناول “سنز” میں بھی کیا ہے۔ چند سال بعد وہ مزید تعلیم کے حصول کی غرض سے امریکہ لوٹیں۔ انھوں نے 1924ء میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور اس کے اگلے ہی برس چین چلی گئیں۔

    یہ 1929ء کی بات ہے جب پرل بَک نے اپنے ایک ناول “ایسٹ ونڈ: ویسٹ ونڈ” کا مسودہ نیویارک میں پبلشر کو تھمایا تھا۔ اگلے سال ان کا یہ ناول شائع ہوگیا۔ اس کی کہانی بھی چین کے گرد گھومتی ہے۔ 1931ء وہ سال تھا جب پرل ایس بَک نے دا گڈ ارتھ کی اشاعت کے بعد عالمی سطح پر ادیبوں کی صف میں نام و مقام پا لیا۔ اس شناخت کے ساتھ وہ اہم اعزازات بھی اپنے نام کرنے میں‌ کام یاب ہوئیں۔

    1934ء میں پرل بَک نے نیویارک میں مشنری خدمات سے متعلق ایک بیان دیا اور پھر وہ اُس ملک کا دوبارہ رخ نہ کیا جس کی کہانیوں نے انھیں‌ دنیا بھر میں‌ پہچان دی تھی۔ 1935ء میں اپنے پہلے خاوند سے علیحدگی کے بعد پرل بَک نے رچرڈ والش سے دوسری شادی کی اور 1960ء میں رچرڈ کی وفات تک دونوں پینسلوینیا میں مقیم رہے۔

    پرل ایس بَک کی کہانیوں میں‌ تنوع نظر آتا ہے جو خواتین کے حقوق، ایشیائی ثقافتوں، ہجرت، مذہب اور تبلیغ کے ساتھ جنگ اور ایٹم بم جیسے موضوعات پر مشتمل ہے۔ 43 ناولوں کے علاوہ پرل بَک نے کئی کہانیاں‌ اور غیر افسانوی ادب بھی تخلیق کیا اور ان کی درجنوں کتابیں شایع ہوئیں۔

    نوبیل انعام یافتہ پرل بَک 1973ء میں اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔