Tag: مارچ وفات

  • ورجینا وولف کی خود کُشی اور آخری خط

    ورجینا وولف کی خود کُشی اور آخری خط

    ’’اگر کوئی مجھے اس تکلیف سے بچا سکتا تھا، تو وہ تم ہی تھے۔ ہر چیز مجھ سے جدا ہو رہی ہے، سوائے اس محبت کے جو تم نے مجھ سے ہمیشہ کی۔‘‘

    یہ سطور ورجینا وولف کی آخری تحریر سے لی گئی ہیں جو انھوں نے اپنے شوہر کے نام چھوڑی تھی۔ ایک ادیب، مضمون نویس اور نقّاد کی حیثیت سے آج بھی انھیں‌ ادب کی دنیا میں پہچانا جاتا ہے۔ ورجینا وولف نے 1914ء میں آج ہی کے دن خود کُشی کر لی تھی۔ انھوں نے ایک ندی میں‌ چھلانگ لگا دی تھی اور پانی نے ان کی یہ کوشش قبول کرلی۔

    ورجینا وولف 25 جنوری 1882ء کو برطانیہ میں پیدا ہوئیں۔ ان کا مکمل نام ایڈلن ورجینا وولف تھا۔ وہ ایک متمول گھرانے کی فرد تھیں اور یہ کنبہ فنونِ لطیفہ کے مختلف شعبوں میں فعال اور تخلیقی کاموں کے لیے مشہور تھا۔ یہ آٹھ بہن بھائی تھے جن میں ورجینا وولف کو دنیا میں‌ بھی پہچان ملی۔ ان کے والد قلم کار، مؤرخ اور نقّاد، والدہ ماڈل جب کہ ایک بہن مصورہ اور ڈیزائنر تھیں۔

    ورجینا وولف نے دستور کے مطابق اسکول کی بجائے گھر پر تعلیم و تربیت کے مراحل طے کیے، ادب پڑھا، گھر میں کتابیں موجود تھیں اور علمی و ادبی موضوعات پر گفتگو بھی سننے کا موقع ملتا رہتا تھا۔ اور پھر وہ وقت آیا جب انھوں نے خود مضمون نویسی اور کہانیاں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔

    ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے کنگز کالج میں داخلہ لیا اور اس عرصے میں تاریخ اور ادب کے گہرا مطالعہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا باعث بنا، اسی دوران عورتوں کے حقوق اور مسائل سے بھی آگاہی حاصل کی جس نے ورجینا وولف کی فکر اور تخلیقی صلاحیتوں کو اجالا اور والد نے حوصلہ افزائی کی تو باقاعدہ لکھنے کا آغاز کیا۔ اسی سفر کے آغاز پر انھیں والد کی جدائی کا صدمہ بھی برداشت کرنا پڑا۔ اس سے قبل والدہ داغ مفارقت دے چکی تھیں۔ ورجینا وولف کی زندگی میں ایسی تبدیلیاں اور رنج و غم کے مواقع آئے جنھوں نے ان کے ذہن پر گہرا اثر کیا۔ وہ ایک نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہوگئیں، جس میں مریض اپنی جان لینے کی کوشش کرتا ہے۔ ورجینا وولف موت سے پہلے بھی خود کُشی کی متعدد کوششیں کرچکی تھیں۔

    اس برطانوی مصنّفہ کا پہلا ناول’’دا ووئیج آؤٹ‘‘ تھا۔ 1925ء میں ’’مسز ڈالووے‘‘ اور 1927ء میں ’’ٹو دا لائٹ ہاؤس‘‘اور 1928ء میں ’’اورلینڈو‘‘ کے عنوان سے ان کے ناول منظرِ‌عام پر آئے جو ان کی پہچان ہیں۔ ان کے ایک مضمون بعنوان ’’اپنا ایک خاص کمرہ‘‘ دنیا بھر میں‌ قارئین تک پہنچا اور اسے بے حد پسند کیا گیا۔

    ورجینا وولف کی تخلیقات کا پچاس سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہوا اور ان کی تحریر کردہ کہانیوں کو تھیٹر اور ٹیلی وژن پر پیش کیا گیا۔ ’’مسز ڈالووے‘‘ ان کا وہ ناول ہے جس پر فلم بنائی گئی تھی۔

    موت کو گلے لگانے سے قبل ورجینا نے اپنے شوہر کے نام جو پیغام لکھا، وہ یہ ہے:

    پیارے…
    مجھے لگتا ہے کہ میں دوبارہ پاگل پن کی طرف لوٹ رہی ہوں اور مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہم دوبارہ اس بھیانک کرب سے نہیں گزر پائیں گے۔ میں دوبارہ اس تکلیف سے اَب ابھر نہیں پاؤں گی۔ مجھے پھر سے آوازیں سنائی دیتی ہیں جس کی وجہ سے میں کسی چیز پہ اپنی توجہ مرکوز نہیں کر پا رہی ۔ میں وہ کرنے جا رہی ہوں…… جو بظاہر ان حالات میں کرنا بہتر ہے۔

    تم نے مجھے زندگی کی ہر ممکنہ خوشی دی۔ تم میرے ساتھ ہر طرح کے حالات میں ساتھ ساتھ رہے، جتنا کوئی کسی کے ساتھ رہ سکتا ہے۔ نہ میں سمجھ ہی سکتی ہوں کہ دو انسان اس قدر اکٹھے خوش رہ سکتے ہیں، جیسے ہم رہ رہے تھے، جب تک کہ اس اذیت ناک بیماری نے مجھے شکار نہ کرلیا۔

    اب میں مزید اس بیماری سے نہیں لڑ سکتی۔ میں یہ بھی سمجھتی ہوں کہ میری وجہ سے تمہاری زندگی بھی تباہ ہو رہی ہے، جو میرے بغیر شاید کچھ پُرسکون ہو جائے۔ مجھے یقین ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔

    بس میں یہی کہنا چاہتی ہوں کہ میری ساری زندگی کی خوشی تم سے منسوب رہی ہے۔ تم ہمیشہ میرے ساتھ بہت اچھے اور پُرسکون رہے ہو، اور میں کہنا چاہتی ہوں کہ یہ حقیقت سب ہی جانتے ہیں۔ اگر کوئی مجھے اس تکلیف سے بچا سکتا تھا، تو وہ تم ہی تھے۔ ہر چیز مجھ سے جدا ہو رہی ہے، سوائے اس محبت کے جو تم نے میرے ساتھ ہمیشہ کی۔

    میں ہرگز یہ نہیں چاہتی کہ میری بیماری کی وجہ سے تمہاری زندگی مزید تباہ ہو۔ میں ایسا مزید نہیں کرسکتی۔ میں نہیں سمجھتی کہ دنیا میں دو انسان ایک ساتھ اتنا خوش رہے ہوں…… جتنا ہم!

  • ستار طاہر کا تذکرہ جو بھٹو صاحب پر کتاب لکھنے کی پاداش میں‌ جیل گئے

    ستار طاہر کا تذکرہ جو بھٹو صاحب پر کتاب لکھنے کی پاداش میں‌ جیل گئے

    اردو کے کثیر التصانیف مصنّف اور ماہر مترجم ستّار طاہر نے کئی موضوعات پر دل چسپ اور معیاری کتابوں کے ساتھ اردو زبان کے قارئین کو غیرملکی ادب سے محظوظ ہونے کا موقع دیا۔ ستار طاہر 1993ء میں‌ آج ہی کے دن وفات پاگئے تھے۔

    ستار طاہر کا وطن گورداس پور تھا جہاں یکم مئی 1940ء کو پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد فیصل آباد منتقل ہوگئے۔ زمانۂ طالبِ علمی ہی سے لکھنے پڑھنے سے لگاؤ رہا اور اسی شوق نے انھیں ادب کی طرف مائل کیا جہاں انھوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور زورِ قلم سے شہرت اور مقام پایا۔ وہ ایک ادیب، مترجم، کالم نگار، صحافی اور محقّق تھے۔

    ستّار طاہر نے 250 سے زائد کتابیں مرتب کیں اور تین روسی کتب کا ترجمہ بھی کیا۔ اپنا قائدِاعظم ایک، دنیا کی سو عظیم کتابیں اور مارشل لاء کا وائٹ پیپر سمیت کئی کتابیں ستار طاہر کی پہچان بنیں۔ وعدے کی زنجیر اور میرا نام ہے محبت جیسی مشہور فلموں کی کہانیاں بھی انہی کے قلم سے نکلی تھیں۔ انھوں نے ایک مضمون نگار، کہانی کار کی حیثیت سے مختلف موضوعات کو اپنی تحریروں میں‌ سمیٹا اور اپنے نظریات اور افکار کے سبب بھی پہچانے گئے۔

    ستار طاہر کو جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھٹو صاحب پر کتاب لکھنے کی پاداش میں جیل کی ہوا بھی کھانا پڑی تھی۔ ستار طاہر کا شمار ان مصنفین میں ہوتا ہے جو عمر بھر جمہوریت اور اصولوں کے پرچارک رہے اور آمریت کے خلاف محاذ پر ڈٹے رہے۔

    ان کی تحریر کردہ کتب میں سورج بکف و شب گزیدہ، حیاتِ سعید، زندہ بھٹو مردہ بھٹو، صدام حسین، مارشل لا کا وائٹ پیپر، تعزیت نامے سرِ فہرست ہیں۔ ان کی ترجمہ شدہ کتب میں ری پبلک، حسن زرگر، دو شہروں کی ایک کہانی، شہزادہ اور فقیر، سرائے، تاراس بلبا اور دنیا کی سو عظیم کتابیں شامل ہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے ستّار طاہر کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے بعد از مرگ انھیں صدارتی اعزاز عطا کیا تھا۔ وہ لاہور میں اسلام پورہ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • شہناز بیگم: مشرقی پاکستان کی پہلی گلوکارہ جنھوں نے اردو میں ملّی نغمات پیش کیے

    شہناز بیگم: مشرقی پاکستان کی پہلی گلوکارہ جنھوں نے اردو میں ملّی نغمات پیش کیے

    پاکستان میں‌ شہناز بیگم کا نام اور ان کی مسحور کن آواز اردو زبان میں‌ ان کے گائے ہوئے ملّی نغمات کی وجہ سے آج بھی مقبول ہے۔ اس گلوکارہ کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا جو بنگلہ دیش بن جانے کے بعد اپنے آبائی وطن منتقل ہوگئی تھیں۔

    یہ اتفاق ہے کہ پاکستان کے ملّی نغمے گانے والی اس مشہور گلوکارہ کی تاریخِ وفات 23 مارچ ہے جب قراردادِ پاکستان پیش کی گئی تھی۔

    2019ء میں‌ وفات پانے والی شہناز بیگم مشرقی پاکستان کی وہ پہلی گلوکارہ تھیں جنھوں نے اردو زبان میں ملّی نغمات کو اپنی آواز دی اور لازوال شہرت حاصل کی۔ انھوں‌ نے شہنشاہِ غزل مہدی حسن سے گلوکاری کے اسرار و رموز سیکھے تھے۔

    سابق مشرقی پاکستان کی شہناز بیگم کی پُراثر آواز آج بھی ارضِ پاک کی فضاؤں میں سنائی دیتی ہے اور ان کے گائے ہوئے قومی نغمات ہر چھوٹے بڑے کی زبان پر ہوتے ہیں۔ خوب صورت شاعری اور گلوکارہ کی دل پذیر آواز ہر قومی دن پر گلی گلی اور ہر تقریب میں‌ ہماری سماعتوں کو لطف و سرور اور سرشاری عطا کرتی ہے۔ شہناز بیگم جب بھی پاکستان آتیں تو ان سے قومی نغمات ”جیوے جیوے پاکستان، اور ”سوہنی دھرتی اللہ رکھے” سنانے کی فرمائش کی جاتی جسے وہ ضرور پورا کرتیں۔ اس پر وہ بنگلہ دیش میں مطعون بھی کی جاتیں اور انھیں غدارِ وطن بھی کہا گیا، مگر جن نغمات نے انھیں شہرت اور جن لوگوں‌ نے انھیں‌ عزّت اور پیار دیا، ان کی فرمائش ٹالنا شاید ان کے لیے ممکن نہیں‌ تھا۔

    شہناز بیگم کا اصل نام شہناز رحمت اللہ تھا جو 1952ء کو مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکہ کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئی تھیں۔ شہناز بیگم نے اسکول کے زمانے میں گانا شروع کردیا تھا۔ وہ دس سال کی تھیں جب ریڈیو پاکستان، ڈھاکہ اسٹیشن سے ایک پروگرام کا حصّہ بنیں اور بنگلہ زبان میں پاکستانی قومی نغمہ گایا۔ 65ء کی جنگ میں بھی انھوں نے اپنی آواز میں‌ گانے ریکارڈ کروائے اور خوب داد و تحسین وصول کی۔

    ڈھاکہ میں حالات شدید خراب ہوئے تو شہناز بیگم کراچی منتقل ہوگئیں اور یہاں ” جییں تو اس دھرتی کے ناتے، مریں تو اس کے نام” جیسا خوب صورت نغمہ گایا۔ شہناز بیگم نے 1971ء میں بھارت کے مشرقی پاکستان پر حملے کے بعد کراچی میں ریڈیو سے مہدی حسن خاں کے ساتھ مل کر نغمۂ یکجہتی گایا جس کے اشعار یہ تھے:

    پاک زمیں کے سارے ساتھی، سارے ہم دَم ایک ہیں
    پورب پچھم دور نہیں ہیں، پورب پچھم ایک ہیں
    وہ سلہٹ ہو یا خیبر ہو، سُندر بن ہو یا کشمیر
    ہم دونوں کا ایک وطن ہے اِک نظریہ اک تقدیر

    اس گلوکارہ کی آواز میں پاکستان ٹیلی ویژن پر قومی نغمہ ”وطن کی مٹی گواہ رہنا” سب سے پہلے گونجا تھا۔ جنگ کے بعد بھی شہناز بیگم نے ایک بار پھر حبُ الوطنی کا ثبوت دیتے ہوئے صہبا اختر کا تحریر کردہ نغمہ ” آیا نیا زمانہ آیا ، بھیا بھول نہ جانا، پاکستان بچانا” گا کر ہم وطنوں کا دل جیت لیا۔

    ”سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے” وہ گیت تھا جسے پاکستان کی گولڈن جوبلی کے موقع پر پاکستان ٹیلی ویژن کی طرف سے پہلا انعام دیا گیا اور یہ بتایا گیا کہ پاکستانی عوام اس عظیم گلوکارہ کو نہیں بھولے ہیں۔

    یہ منفرد قومی نغمہ "موج بڑھے یا آندھی آئے، دیا جلائے رکھنا ہے” کس نے نہیں‌ سنا ہو گا۔ آج بھی شہناز بیگم کی آواز میں یہ شاعری دلوں کو گرماتی اور جوش و ولولہ بڑھاتی ہے۔

  • شاعرِ مزدور احسان دانش کا تذکرہ

    شاعرِ مزدور احسان دانش کا تذکرہ

    احسان دانش کی زندگی جہدِ مسلسل سے عبارت تھی۔ روزی روٹی کا چکر ان کے پیروں میں‌ ایسا پڑا کہ عمر اسی میں گزر گئی اور وہ شاعرِ مزدور مشہور ہوگئے۔

    اردو کے اس مشہور شاعر کی زندگی کے ابتدائی ایّام بے حد سخت اور کٹھن تھے، جب احسان دانش کو جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے بڑے جتن کرنا پڑے۔ انھوں نے کبھی مزدوری کی تو کبھی باروچی گیری، کہیں چپڑاسی بھرتی ہوئے تو کبھی مالی بن کر دو وقت کی روٹی کا انتظام کیا، لیکن اس کے ساتھ قلم بھی تھامے رکھا اور تخلیقی ادب کے ساتھ زبان و بیان، تحقیق اور تدوین کا کام بھی انجام دیتے رہے۔

    احسان دانش ایسے کج کلاہ تھے جنھوں نے ضمیر فروشی کے علاوہ ہر معمولی مگر جائز کام کر کے پیسے کمائے۔ ان کا اصل نام قاضی احسانُ الحق تھا، مگر شعر و ادب میں احسان دانش کے نام سے شہرت پائی۔ 22 مارچ 1982ء کو وفات پانے والے احسان دانش نام وَر شاعر، ادیب اور ماہرِ لسان تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی کی مشکلات اور تلخیوں کے ساتھ اردو زبان و ادب میں‌ جو نام و مرتبہ پایا اس کی مثال کم ہی نظر آتی ہے۔

    قاضی احسان الحق 1914ء میں کاندھلہ، مظفر نگر (یو پی) میں پیدا ہوئے تھے۔ غربت کی وجہ سے چوتھی جماعت سے آگے نہ پڑھ سکے، لیکن مطالعہ کے شوق اور لگن سے اردو، فارسی اور عربی کے ساتھ شاعری میں کمال حاصل کیا۔ نوعمری میں تلاشِ معاش کی غرض سے لاہور آگئے اور یہیں عمر تمام کی۔

    احسان دانش شاعری نے ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی۔ غزلوں کے ساتھ ساتھ مختلف موضوعات پر کہی گئی نظمیں احسان دانش کے تخلیقی شعور اور انسان دوستی کی مثال ہیں۔ ان کے شعری مجموعوں میں حدیثِ ادب، دردِ زندگی، تفسیرِ فطرت، آتشِ خاموش، چراغاں اور گورستان سرِفہرست ہیں۔

    لسانیات کا مضمون بھی احسان دانش کی علمی قابلیت اور استعداد کا ثبوت ہے۔ اس میدان میں دستورِ اردو، تذکیر و تانیث اور اردو مترادفات ان کی یادگار کتابیں ہیں۔ حضرت احسان دانش کی خود نوشت سوانح عمری جہانِ دانش بھی علمی اور ادبی حلقوں میں بے حد مقبول ہوئی جس پر پاکستان رائٹرز گلڈ نے انھیں آدم جی ادبی ایوارڈ دیا اور حکومتِ پاکستان نے اس کتاب پر احسان دانش کو انعامی رقم دی۔

    علمی اور ادبی خدمات پر انھیں‌ ستارۂ امتیاز اور نشانِ امتیاز بھی عطا کیے گئے تھے۔ احسان دانش کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔

    آج اس نے ہنس کے یوں پوچھا مزاج
    عمر بھر کے رنج و غم یاد آ گئے

    ان کا یہ شعر بہت مشہور ہے:

    یہ اڑی اڑی سی رنگت یہ کھلے کھلے سے گیسو
    تری صبح کہہ رہی ہے تری رات کا فسانہ

    یہ کون ہنس کے صحنِ چمن سے گزر گیا
    اب تک ہیں پھول چاک گریباں کیے ہوئے

  • جب قسمت کی دیوی موسیقار نثار بزمی پر مہربان ہوئی!

    جب قسمت کی دیوی موسیقار نثار بزمی پر مہربان ہوئی!

    پاکستان میں فضل احمد کریم فضلی کی فلم ’ایسا بھی ہوتا ہے‘ نثار بزمی کی پہلی فلم تھی، لیکن تقسیمِ‌ ہند سے قبل اور بعد میں‌ وہ بھارت میں رہتے ہوئے 40 سے زائد فلموں کی موسیقی ترتیب دے چکے تھے۔

    آج پاکستان کے اس مایہ ناز موسیقار کی برسی ہے۔ انھوں نے 2007ء میں‌ زندگی کا سفر تمام کیا تھا۔ نثار بزمی نے پہلی بار فلم جمنار پار کے لیے موسیقی ترتیب دی تھی۔ یہ 1946ء کی بات ہے اور 1961ء تک وہ بھارت میں فلم انڈسٹری کے لیے کام کرتے رہے۔ تاہم کوئی خاص کام یابی ان کا مقدّر نہیں بنی تھی۔

    نثار بزمی نے 1962ء میں پاک سرزمین پر قدم رکھا تو جیسے قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہوگئی۔ وہ اپنے عزیز و اقارب سے ملنے کے لیے کراچی آئے تھے اور پھر یہیں کے ہو رہے۔ پاکستان میں نثار بزمی نے جب فلم انڈسٹری سے وابستگی اختیار کی تو کام یاب ترین موسیقار شمار ہوئے۔ بھارت سے پاکستان منتقل ہوجانا ان کی زندگی کا بہترین فیصلہ ثابت ہوا۔

    فلم ‘لاکھوں میں ایک’ کا مشہور گیت ’چلو اچھا ہوا تم بھول گئے‘ کی دھن نثار بزمی نے ترتیب دی تھی۔ اس کے علاوہ ‘اے بہارو گواہ رہنا، اک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا، رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ، آپ دل کی انجمن میں حسن بن کر آ گئے، دل دھڑکے، میں تم سے یہ کیسے کہوں، کہتی ہے میری نظر شکریہ، کاٹے نہ کٹے رتیاں، سیاں تیرے پیار میں جیسے لازوال گیتوں کے اس موسیقار نے یہاں‌ عزّت، مقام و مرتبہ پایا۔ ان کی ترتیب دی ہوئی دھنوں پر اپنے دور کے مشہور و معروف گلوکاروں نے اپنی آواز کا جادو جگایا۔

    دسمبر 1924ء کو صوبہ مہاراشٹر کے ایک ضلع میں آنکھ کھولنے والے نثار بزمی کا اصل نام سید نثار احمد تھا۔ نوعمری ہی سے انھیں موسیقی سے لگاؤ پیدا ہوگیا تھا اور ان کا شوق اور موسیقی سے رغبت دیکھتے ہوئے والد نے انھیں استاد امان علی خان کے پاس بمبئی بھیج دیا جن سے انھوں نے اس فن کے اسرار و رموز سیکھے۔

    نثار بزمی نے آل انڈیا ریڈیو میں چند سال میوزک کمپوزر کی حیثیت سے کام کیا اور 1946ء میں فلم نگری سے موسیقار کے طور پر اپنا سفر شروع کیا، وہ تقسیم کے پندرہ برس تک ہندوستان کی فلم انڈسٹری سے وابستہ رہے اور پھر پاکستان آگئے جہاں اپنے فن کی بدولت بڑا نام اور مرتبہ پایا۔

    نثار بزمی نے طاہرہ سیّد، نیرہ نور، حمیرا چنا اور عالمگیر جیسے گلوکاروں کو فلمی دنیا میں آواز کا جادو جگانے کا موقع دیا۔ مختلف شعرا کے کلام پر دھنیں ترتیب دینے والے نثار بزمی خود بھی شاعر تھے۔ ان کا مجموعۂ کلام ’پھر سازِ صدا خاموش ہوا‘ کے نام سے شایع ہوا تھا۔

    حکومتِ‌ پاکستان نے نثار بزمی کو پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا تھا۔

  • علّامہ ابنِ خلدون: اسلامی تاریخ کی عبقری شخصیت

    علّامہ ابنِ خلدون: اسلامی تاریخ کی عبقری شخصیت

    مقدمہ، علّامہ ابنِ خلدون کی علمیت اور قابلیت کا ایک شاہکار ہے۔ مصنّف کو اسلامی تاریخ کی ایک عبقری شخصیت مانا جاتا ہے جنھیں مغرب اور دنیا بھر میں آج بھی ان کے علم و فضل اور تصانیف کی وجہ سے بڑا امتیاز حاصل ہے۔

    علّامہ ابنِ خلدون کو فلسفۂ تاریخ کا موجد و بانی ہی نہیں تسلیم کیا جاتا بلکہ عمرانیات، سیاسیات اور اقتصادیات کے کئی مبادی اصول بھی اُن سے منسوب ہیں۔

    حضرُ الموت سے جو قدیم یمن کا ایک شہر تھا، ان کے اجداد نے اندلس کے شہر قرمونہ ہجرت کی تھی اور بعد میں تیونس پہنچے تھے جہاں 27 مئی 1332ء کو ابنِ خلدون نے آنکھ کھولی۔ ان کا گھرانا علمی تھا اور ابنِ خلدون کو بھی جیّد علمائے کرام کی صحبت سے فیض اٹھانے کا موقع ملا۔ انھوں نے حفظِ قرآن اور ضروری دینی تعلیم کے ساتھ باقاعدہ علومِ اصول و فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں فلسفہ، منطق، ریاضی اور لسانیات کا درس لیا۔

    نوجوانی میں ہجرت کے ساتھ انھوں نے سیّاحت کا شوق بھی پورا کیا اور سیکھنے سکھانے کا سلسلہ بھی جاری رکھا، جس کے دوران مختلف شاہانِ وقت اور امرا کی قربت حاصل کی جنھوں نے انھیں عزّت و شرف سے نوازا اور منصب پر فائز کیا۔ تاہم انھیں حاسدوں اور مخالفین کی وجہ سے قید میں‌ بھی ڈالا گیا۔

    ابنِ خلدون کی کئی کتابوں کا آج نام و نشان نہیں ملتا، لیکن مقدمہ کے بعد سب سے مشہور کتاب’’ تاریخِ ابنِ خلدون‘‘ ہے، اس کے علاوہ، روزنامچے اور مشاہدات بھی ابنِ خلدون نے قلم بند کیے ہیں۔ وہ جب اسکندریہ اور پھر قاہرہ پہنچے تو خلافتِ عباسیہ میں‌ شہرۂ آفاق جامعہ ازہر میں مدرّس مقرر ہوئے۔ اسی زمانے میں‌ انھوں نے اپنے اہلِ خانہ کو تیونس سے قاہرہ اپنے پاس بلوایا، مگر کہتے ہیں کہ جہاز کو سمندر میں‌ حادثہ پیش آیا اور وہ سب موت کے منہ میں‌ چلے گئے جس کی اطلاع ملنے کے بعد صدمے سے دوچار ابنِ خلدون سب کچھ چھوڑ کر حج کے لیے روانہ ہوگئے۔ تاریخی تذکروں میں آیا ہے کہ انھوں نے ایک سال مکّہ مکرمہ میں قیام کیا اور مصر لوٹ آئے جہاں آج ہی کے دن 1406ء میں وفات پائی۔

  • کارل مارکس: ایک عظیم مفکّر اور انقلابی

    کارل مارکس: ایک عظیم مفکّر اور انقلابی

    نوبیل انعام یافتہ ادیب البرٹ کامیو نے کہا تھا، ’’وہ ظلم جو ہم نے مارکس کے ساتھ کیا ہے، اس کا مداوا ہم کبھی بھی نہیں کر سکتے۔‘‘

    کارل مارکس جرمنی کا وہ دانش ور اور فلسفی تھا جس نے گزشتہ صدی میں اپنے افکار سے دنیا کو متوجہ کرلیا اور وہ اس کے نظریات سے متاثر ہوئی۔ بیسویں صدی میں دنیا کی کئی حکومتوں کی اساس ظاہری طور پر مارکس کے بنیادی نظریات پر استوار کی گئی تھی، لیکن بعد میں انہی سوشلسٹ نظریات کی حکومتوں نے مطلق العنانیت کو اپنا کر مارکس کے تصوّرات کا مفہوم ہی تبدیل کر دیا۔ البرٹ کامیو نے 1956ء میں اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے افسوس کا اظہار کیا ہے۔

    آج کارل مارکس کا یومِ وفات ہے۔ 1883ء میں‌ اس نے یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔ کارل مارکس نے 5 مئی 1818ء کو پرشیا (موجودہ جرمنی) میں ایک یہودی وکیل کے گھر آنکھ کھولی تھی۔ اس زمانے میں سیاسی، سماجی اور مذہبی لحاظ سے بھی دنیا نت نئے فلسفوں اور تبدیلیوں کے ساتھ تحریکوں کے زیرِ اثر تھی۔ کارل مارکس کی پیدائش سے ایک سال قبل اس کے والد نے عیسائیت اختیار کر لی تھی۔ اس کی وجہ حکومت کی جانب سے یہودیوں کے لیے سرکاری ملازمت اور وکالت پر پابندی عائد کیا جانا تھا۔

    کارل مارکس نے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بون اور پھر برلن کی درس گاہوں کا رخ کیا اور اسی زمانے میں وہ ہیگل جیسے فلسفی کو پڑھ کر اس سے بہت متاثر ہوا۔ برلن ہی میں کارل نے قانون کی تعلیم حاصل کی۔ علمِ قانون اس کا پسندیدہ مضمون تھا لیکن فلسفہ اور تاریخ میں بھی اس کی گہری دل چسپی تھی۔ یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کرکے ایپیکیورس (Epicurus) کے فلسفے پر اپنا تحقیقی مقالہ ڈاکٹری کی سند حاصل کرنے کے لیے پیش کیا۔ کارل نے 1842ء میں وہ کولون شہر چلا گیا اور وہاں صحافت میں اپنا کیریئر بنانے کی کوشش کی۔ جلد ہی وہ ایک اخبار کا مدیر بھی بن گیا۔ اس نے مضمون نگاری کا آغاز پہلے ہی کردیا تھا اور باقاعدہ لکھنے لکھانے کا سلسلہ بھی اخبار کی وجہ سے شروع ہو گیا۔

    اس زمانے میں آزادیٔ صحافت پر پابندیاں عائد کی گئیں تو کارل نے اس کے خلاف آواز بلند کی اور شاہی نظام کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ وہ عوام کی آواز بننے لگا تھا جس میں اس نے روس کے زار کے خلاف ایک مضمون بھی شایع کردیا اور اس جرم میں اخبار پر پابندی عائد کر دی گئی۔ 1843ء میں فرانس کا عظیم شہر پیرس جہاں بہت سے انقلابی پہلے سے موجود تھے، وہیں کارل بھی پہنچا اور ایک ماہ نامے کا آغاز کردیا۔ لیکن اس کا صرف ایک شمارہ چھپ سکا۔ اس شمارے میں کارل نے لکھا تھا کہ جرمن وفاق قائم نہیں رہ سکتا اور اس حوالے سے اپنے خیالات اور حقائق سامنے لایا تھا۔ فرانس میں‌ تو اسے اہمیت نہیں‌ دی گئی لیکن پرشیا میں کارل پر بغاوت کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔ 1845ء میں کارل کو فرانس سے جلا وطن کردیا گیا۔

    فرانس کے بعد کارل نے اپنے ساتھیوں سمیت بیلجیئم کا رخ کیا اور برطانیہ کا بھی دورہ کیا جہاں اسے محنت کش طبقے کے حالات جاننے کا موقع ملا جس نے اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ بدحالی عروج پر تھی، اور جس نظام میں لوگ پس رہے تھے، اس میں ان کی سماجی و معاشی حالت میں سدھار ممکن نظر نہیں آرہا تھا۔ ہر لحاظ سے پستی اور بدترین طرزِ زندگی عوام کا مقدر بن چکا تھا۔ کارل مارکس نے بیلجیئم میں قیام کے دوران اپنے دوست اور مفکر اینگلز کے ساتھ مل کر اس سب پر لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا اور یورپ کے محنت کشوں کے حقوق کے لیے تنظیم قائم کی۔

    1848ء میں کارل کا وہ کتابچہ شایع ہوا جس میں اس نے محنت کشوں کو اکٹھے ہونے کا پیغام دیا تھا۔ اسے دنیا کمیونسٹ مینی فسٹو کے عنوان سے پہچانتی ہے۔ بعد میں وہ لندن چلا گیا جہاں رہ کر اپنی جدوجہد اور نظریات کا پرچار کرتا رہا۔ اس نے فلسفہ، سیاست اور معاشیات پر اپنے افکار کی بدولت انسانوں کی سوچ کو اپنے حق میں‌ نئے زاویے اور راستے سجھائے۔

    کارل مارکس نے نوجوانی ہی میں شادی کرلی تھی تاہم اپنے وطن میں‌ باغی اور غیرملک میں‌ اپنے افکار و نظریات کی وجہ سے روزگار اور معاش کے لیے مسائل کا شکار رہنے والا کارل مارکس مالی مشکلات جھیلتا رہا۔ اس کی خانگی زندگی بھی غم و اندوہ سے دوچار ہوئی کیوں کہ اس کے چار بچّے نوعمری میں ہی چل بسے تھے جب کہ تین بیٹیاں جو جوان ہوئیں، ان میں سے بھی دو نے خود کشی کرلی تھی۔

    کارل مارکس کو اس کی وفات کے بعد زبردست پذیرائی حاصل ہوئی اور اس کے نظریات میں کچھ آمیزش کرنے بعد روس میں لینن اور اس کے ساتھیوں نے زار کی آمریت کا خاتمہ کیا اور مزدور طبقے کا علَم بلند کیا تھا۔

    وہ سرمایہ دارانہ نظام کا سب سے بڑا ناقد اور ایسا مفکر تھا جس نے اپنے انقلابی نظریات کی وجہ سے زندگی کا بیش تر حصہ جلاوطنی اور مالی تنگ دستی میں گزار دیا جب کہ زندگی میں اس کے فلسفے اور کتابوں کو بھی خاص پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی۔ تاہم بعد میں دنیا اس کے فلسفے کی طرف متوجہ ہوئی اور اسے اہمیت بھی دی گئی۔ ان کی مشہورِ زمانہ تصنیف ’داس کیپیٹل‘ کو آج بھی دنیا بھر میں غور و فکر کے عادی اور کہیں‌ بھی ابھرنے والی محنت کشوں کی تحریکوں کے لیے راہ نما کتاب کہا جاتا ہے۔

    دنیا بھر کے عظیم فلسفی اور علم و ادب سے وابستہ شخصیات یہ تسلیم کرتی ہیں کہ آج وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اس فلسفی، معیشت دان اور مزدور دوست انقلابی راہ نما کو اتنی ہی مقبولیت اور پذیرائی ملی ہے جتنی کہ مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام نے اسے مٹانے کی کوشش کی ہے۔ مارکس کے نظریات کو غلط ثابت کرنے اور اس کی ذات پر الزامات لگانے کی کوششیں بھی کی گئیں۔ سامراجی قوتوں اور سرمایہ دارانہ نظام کے رکھوالوں نے اس کے نظریات کو مسترد کرتے ہوئے ان کے خلاف کتابیں لکھوائیں اور لاکھوں مضامین شائع کروائے، لیکن مارکس کا نظریہ توانا ہوتا چلا گیا اور سرمایہ دارانہ نظام کی موت اور اس کی خرابیوں سے متعلق اس کی پیش گوئیاں درست ثابت ہوئی ہیں۔

  • یومِ وفات: ممتاز شیریں کو اردو کی پہلی خاتون نقّاد کہا جاتا ہے

    یومِ وفات: ممتاز شیریں کو اردو کی پہلی خاتون نقّاد کہا جاتا ہے

    ممتاز افسانہ نگار، نقّاد اور مترجم ممتاز شیریں نے 11 مارچ 1973ء کو اس دنیا سے کوچ کیا۔ آج ان کا یومِ‌ وفات ہے۔ زندگی کے آخری ایّام میں وہ وفاقی وزارتِ تعلیم میں بہ حیثیت مشیر خدمات انجام دے رہی تھیں۔

    ممتاز شیریں سے ایک ملاقات کے عنوان سے میرزا ادیب لکھتے ہیں: "ممتاز شیریں جس وقت دنیائے ادب میں داخل ہوئیں تو ان کی حیثیت افسانوں کے ایک سخت گیر نقاد کی تھی۔ ان کے مضامین پڑھے تو پتہ چلا کہ یہ خاتون اردو کے افسانے تو رہے ایک طرف انگریزی، روسی اور فرانسیسی افسانوی ادب کا بھی بالاستیعاب مطالعہ کرچکی ہیں۔

    ان کا مقالہ” تکنیک کا تنوع” سویرا میں چھپا تو ہر طرف اس کی دھوم مچ گئی۔ یہ مقالہ ایک ایسے ذہن کی پیداوار معلو ہوتا تھا جس نے برسوں افسانے کی متنوع تکنیک سمجھنے کی کوشش کی اور دنیا کے نام ور افسانہ نگاروں کے مشہور افسانوں کو غور و فکر کی گرفت میں لے چکا ہے۔ یہ مضمون اور ان کے دوسرے مضامین پڑھ کر میں نے ان کے بارے میں ایک خاص تصویر بنالی تھی اس کے بعد ان کے افسانے چھپنے لگے معلوم ہوا کہ وہ جتنی اچھی نقاد ہیں اسی قدر ماہر فن افسانہ نگار بھی ہیں۔

    اپنی افسانوی تحقیقات میں وہ زندگی کی ہر حقیقت کو، وہ کتنی بھی تلخ اور مکروہ کیوں نہ ہو، اس کی پوری جزیات کے ساتھ پیش کردیتی تھیں۔ جنتی موضوعات کے سلسلے میں ان کا قلم خاص طور پر بڑا بے باک تھا۔ سعادت حسن منٹو ان کا پسندیدہ افسانہ نگار تھا۔ اس سے بھی ان کے تخلیقی رجحانِ طبع کا اندازہ ہوجاتا ہے۔”

    ممتاز شیریں کا پہلا افسانہ انگڑائی ادبی مجلّہ ساقی، دہلی میں 1944ء میں شائع ہوا تھا جسے ادبی حلقوں میں زبردست پزیرائی حاصل ہوئی اور بعد میں بھی انھوں نے اپنے تنقیدی مضامین اور تراجم سے علم و ادب کی دنیا کو مالا مال کیا۔ ممتاز شیریں معروف ادبی جریدے نیا دور کی مدیر بھی تھیں۔ وہ اس زمانے کی روایتی سوچ اور عورتوں سے متعلق مخصوص ذہنیت کو مسترد کرتے ہوئے اپنے افکار اور قلم کی بے باکی کی وجہ سے بھی مشہور ہوئیں۔

    ممتاز شیریں 12 ستمبر 1924ء کو ہندو پور (آندھرا پردیش) میں پیدا ہوئیں۔ ان کے نانا جو میسور میں مقیم تھے، انھوں نے اپنی اس نواسی کو تعلیم و تربیت کی غرض سے اپنے پاس میسور بلا لیا۔ اس طرح بچپن ان کا ننھیال میں گزرا۔ ممتاز شیریں نہایت ذہین اور قابل طالبہ تھیں اور گھر کا ماحول بھی علمی و ادبی تھا جس نے انھیں لکھنے لکھانے کی طرف راغب کرلیا۔ یوں تعلیم کے ساتھ ان کا ادبی سفر بھی جاری رہا اور 1942ء میں ان کی شادی صمد شاہین سے ہو گئی جو بعد میں پاکستان میں سرکاری عہدے پر فائز ہوئے۔ یہ جوڑا بیرونِ ملک بھی مقیم رہا اور قیامِ پاکستان کے بعد اس خاندان نے کراچی میں سکونت اختیار کی تھی۔

    ممتاز شیریں کے افسانوی مجموعوں میں اپنی نگریا، حدیثِ دیگراں اور میگھ ملہار شامل ہیں جب کہ ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے معیار اور منٹو، نہ نوری نہ ناری کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔ انھوں نے جان اسٹین بک کے مشہور ناول دی پرل کا اردو ترجمہ دُرِشہوار کے نام سے کیا تھا۔ ان کی آپ بیتی اور خطوط بھی لائقِ مطالعہ ہیں۔

  • یہودی تاجر کی بیٹی کے کردار سے شہرت پانے والی طاہرہ واسطی کا تذکرہ

    یہودی تاجر کی بیٹی کے کردار سے شہرت پانے والی طاہرہ واسطی کا تذکرہ

    پاکستان ٹیلی ویژن کے یادگار ڈرامہ سیریل افشاں میں یہودی تاجر کی بیٹی اور آخری چٹان میں ملکہ ازابیل کے کردار سے طاہرہ واسطی نے غیر معمولی شہرت پائی۔ طاہرہ واسطی بارعب اور پُروقار شخصیت کی مالک تھیں جنھیں خاص طور پر اُن کرداروں‌ کے لیے منتخب کیا جاتا تھا، جن کے لیے شاہانہ کرّوفر اور رعب و دبدبہ ضروری ہوتا تھا۔

    طاہرہ واسطی 1980ء اور 1990ء کے عشرے میں پاکستان ٹیلی ویژن کے ناظرین میں بے حد بہت مقبول تھیں۔ آج اس اداکارہ کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 2012ء میں اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔

    1968ء میں طاہرہ واسطی نے پاکستان ٹیلی ویژن سے اداکاری کا آغاز کیا تھا۔ ان کا پہلا ڈرامہ سیریل ’جیب کترا‘ تھا جو بہت مشہور ہوا۔ یہ اردو کے نام ور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی کہانی پر مبنی سیریل تھا۔

    طاہرہ واسطی نے 1944ء میں‌ سرگودھا میں‌ آنکھ کھولی تھی۔ وہیں ابتدائی تعلیم مکمل کی اور بعد میں لاہور کی درس گاہ میں داخلہ لیا۔ ان کی شادی رضوان واسطی سے ہوئی جو معروف ٹی وی اداکار اور انگریزی نیوز کاسٹر تھے۔ ان کی صاحبزادی لیلیٰ واسطی بھی ٹیلی ویژن پر اداکاری کرچکی ہیں۔

    پی ٹی وی کی معروف اداکارہ طاہرہ واسطی کے تاریخی کہانیوں پر مبنی ڈراموں میں غرناطہ، شاہین، ٹیپو سلطان کے علاوہ شمع اور دلدل شامل ہیں جو اپنے وقت کے مقبول ترین اور یادگار ڈرامے ثابت ہوئے۔

    وہ ایک منجھی ہوئی اداکارہ ہی نہیں قابل رائٹر بھی تھیں جنھوں نے خود بھی متعدد ڈرامے لکھے۔ ایڈز جیسے موضوع پر ان کا تحریر کردہ کھیل کالی دیمک کے نام سے نشر ہوا تھا جسے بہت پسند کیا گیا۔ طاہرہ واسطی نے سائنس فکشن بھی لکھا۔

  • دلّی والے آغا صاحب جن سے علّامہ اقبال بھی زبان و بیان کے معاملے میں‌ رجوع کرتے تھے

    دلّی والے آغا صاحب جن سے علّامہ اقبال بھی زبان و بیان کے معاملے میں‌ رجوع کرتے تھے

    آغا صاحب کے سیکڑوں شاگرد تھے اور علّامہ اقبال جیسی بلند مرتبہ ہستیاں اور ادیب و شاعر زبان و بیان کے معاملے میں ان سے رجوع کرتی تھیں۔ وہ استاد شاعر داغ دہلوی کے شاگرد تھے۔ آغا شاعر قزلباش دہلوی خوش گوئی اور عمدہ نثر کی وجہ سے عوام اور خواص میں خاصے مقبول بھی تھے۔

    تابش دہلوی نے اپنی کتاب دید و باز دید میں آغا صاحب کے بارے میں‌ لکھا: "دلّی کے بزرگ شعرا میں آغا قزلباش بڑے طباع اور دل چسپ شخصیت کے مالک تھے۔ جوانی میں غیرمعمولی خوب صورت رہے ہوں گے۔ بڑھاپے میں بھی سرخ و سفید تھے۔ وضع قطع سے بالکل دلّی والے معلوم نہیں ہوتے تھے۔

    سَر پر پشاوری کلاہ دار پگڑی، اُٹنگی چھوٹی مہری کی شلوار، بند گلے کی قمیص اس پر لمبا کوٹ، پاؤں میں انگریزی جوتا اور ہاتھ میں موٹا ڈنڈا۔

    آغا صاحب مشاعروں میں کم شریک ہوتے تھے۔ جب غزل پڑھنے کی باری آتی تو نہایت منمنی آواز میں ہائے آغا شاعر مر گیا، ارے مُردے کو کیوں گھسیٹ لائے کا نعرہ لگاتے اور ہائے ہائے کرتے شعر پڑھنے بیٹھ جاتے۔ غزل شروع کرنے سے پہلے فرماتے۔

    صاحبو، میرا قاعدہ ہے کہ میں تبرکاً استاد کے دو اشعار پہلے پڑھا کرتا ہوں اور یہ کہہ کر داغؔ کے منتخب شعر نہایت پاٹ دار آواز میں پڑھتے۔

    آغا صاحب نہایت عمدہ تحت اللفظ پڑھتے اور الفاظ اور لہجے کی تصویر بن جاتے۔ اس طرح وہ داغ کے شعروں سے مشاعرہ الٹ پلٹ کر دیتے اور داد کے اسی تأثر میں وہ اپنی غزل پر زیادہ داد حاصل کر لیتے۔”

    آغا شاعر قزلباش دہلوی 11 مارچ 1940ء کو یہ نادرِ روزگار اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ آج ان کی برسی ہے۔ دہلی ان کا وطن تھا، جہاں 5 مارچ 1871ء کو پیدا ہوئے۔ اصل نام آغا مظفر علی بیگ قزلباش تھا۔ ان کے جدِ اعلیٰ ان سپاہیوں میں تھے جو نادر شاہ کی فوج میں شامل ہو کر دہلی آئے اور وہیں کے ہو رہے۔ آغا صاحب کے والد بھی شاعر تھے جن کا تخلّص فدائی تھا اور ان کا گھرانہ آسودہ حال تھا۔ آغا شاعر اپنی ماں کے بہت لاڈلے تھے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ فارسی تو گھر کی زبان تھی۔ عربی اور قرآن کا درس حاصل کیا اور دہلی کی مشہور درس گاہ اینگلو عربک اسکول میں داخل کروائے گئے جہاں سے آٹھویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔ انھیں اسکول کے زمانہ میں ہی مضمون نویسی اور شاعری کا شوق پیدا ہو گیا تھا۔ اسی زمانے میں ان کی ماں کا انتقال ہو گیا۔ والد نے دوسری شادی کر لی اور سوتیلی ماں کے ستم کا نشانہ بنے جس نے انھیں ایک روز گھر سے نکال دیا۔

    اسے خوش قسمتی کہیے کہ اس زمانے کی ایک بیگم صاحبہ نے جو شاعرہ تھیں، انھیں پناہ ہی نہیں دی بلکہ خوش خط آغا صاحب کو اپنی غزلیں لکھنے کا کام بھی سونپ دیا۔ بعد میں انہی کے توسط سے علم و ادب سے وابستہ شخصیات سے میل جول بڑھا اور وہ اپنی خداداد صلاحیت اور محنت و ریاضت کی بدولت دہلی کے مشاعروں میں مقبول ہونے لگے۔ شاعر اور زبان دان کی حیثیت سے شہرت پاتے ہوئے ان کی غزلیں گانے والیوں کے کوٹھوں پر گونجنے لگیں اور یوں ان کا کلام گلی گلی پھیلا۔

    اس دور میں حیدرآباد دکن میں داغ دہلوی موجود تھے جنھیں استاد تسلیم کیا جاتا تھا اور ہر طرف ان کا نام و شہرہ تھا۔ آغا شاعر قزلباش ان کے شاگرد ہوگئے اور وہیں سے شوخیٔ مضمون اور روزمرّہ کا بے تکلف استعمال آپ کے کلام کا جزوِ لازم بن گیا۔

    آغا شاعر قزلباش ایک اچھے نثر نگار بھی تھے۔ انھوں نے ڈرامہ نویسی بھی کی جن میں حورِ عرب بہت مشہور ہوا۔ آغا صاحب نے قرآنِ پاک کا منظوم ترجمہ بھی کیا تھا۔ اس کے علاوہ عمر خیام کے رباعیات کو بھی اردو میں نظم کیا۔ نثری مجموعہ خمارستان کے ساتھ ان کی شعری تصانیف تیر و نشر، آویزۂ گوش، دامنِ مریم اور پرواز کے نام سے شایع ہوئیں۔ آغا صاحب گوناگوں صلاحیتوں کے مالک تھے۔ غزلوں کے علاوہ ان کی نظمیں، مرثیے اور منظوم تراجم بھی بہت مقبول ہوئے۔

    انھوں نے مہاراجہ کشن پرشاد شاد، کلکتہ میں سفیرِ ایران نصیرُ الملک مرزا شجاعت علی بیگ، راجہ جھالا واڑ (راجستھان) راج رانا بھوانی سنگھ، خیر پور (سندھ) کے والی نواب میر علی نواز خاں تالپور کے دربار میں بڑی عزّت پائی اور وظیفہ حاصل کیا۔

    اردو کے اس مشہور شاعر کو دکن میں صفدر جنگ کے قریب قبرستان درگاہ شاہِ مرداں میں سپردِ خاک کیا گیا تھا، لیکن ان کے مدفن کا کوئی نشان باقی نہیں۔

    ان کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے

    پہلے اس میں اک ادا تھی ناز تھا انداز تھا
    روٹھنا اب تو تری عادت میں شامل ہو گیا

    لو ہم بتائیں غنچہ و گل میں ہے فرق کیا
    اک بات ہے کہی ہوئی اک بے کہی ہوئی

    کس طرح جوانی میں چلوں راہ پہ ناصح
    یہ عمر ہی ایسی ہے سجھائی نہیں دیتا