Tag: مارچ وفات

  • عبدُالحمید عدم: قادرُالکلام، مقبولِ عام شاعر

    عبدُالحمید عدم: قادرُالکلام، مقبولِ عام شاعر

    عدم کا شمار اردو کے چند مقبول ترین غزل گو شعرا میں‌ ہوتا ہے۔ سہلِ ممتنع کے ساتھ سادہ مگر نہایت دل نشیں پیرایۂ اظہار عدم کی پہچان ہے۔

    ’’نقشِ دوام‘‘ عدم کا اوّلین مجموعۂ کلام تھا۔ بعد میں ان کی شاعری ’خرابات‘، ’چارۂ درد‘، ’زلفِ پریشاں‘، ’سروسمن‘، ’گردشِ جام‘، ’شہرِ خوباں‘، ’گلنار‘، ’عکسِ جام‘، ’رم آہو‘، ’سازِ صدف‘، اور ’رنگ و آہنگ‘کے نام سے کتابی شکل میں شایع ہوئی۔

    عبدالحمید ان کا نام تھا اور تخلّص عدم۔ انھوں نے 10 مارچ 1981ء کو لاہور میں وفات پائی۔ آج عدم کی برسی ہے۔ اس قادرُ الکلام اور زود گو شاعر نے اپریل 1910ء کو تلونڈی موسیٰ خان، ضلع گوجرانوالہ میں آنکھ کھولی۔ تعلیم وتربیت لاہور میں ہوئی۔ بی اے پاس کیا اور ملٹری اکاؤنٹس کے محکمے میں ملازم ہوگئے۔ وہ اکاؤنٹس افسر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔

    اوائلِ عمر ہی سے عدم کو شعر و شاعری کا شوق تھا۔ اسی شوق میں ان پر کھلا کہ وہ موزوں طبع ہیں اور شاعری کا آغاز کیا تو داخلی جذبات اور رومانوی خیالات کے ساتھ غمِ دوراں کو نہایت پُرسوز انداز میں‌ اپنے اشعار میں‌ پروتے چلے گئے جس نے انھیں‌ عوام میں‌ مقبول بنا دیا۔ رندی و سرمستی کے مضامین ان کی شاعری میں‌ جا بجا ملتے ہیں جو روایتی نہیں‌ بلکہ معنی آفرینی اور ندرتِ خیال کے سبب مشہور ہیں۔

    عالمی شہرت یافتہ موسیقار اور گلوکار نصرت فتح علی نے بھی عبدالحمید عدم کا کلام گایا ہے جس میں ’’یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے، یہ تیری نظر کا قصور ہے….‘‘ سب سے مشہور ہے۔ اسی طرح طاہرہ سیّد کی آواز میں ان کی غزل ’’ وہ باتیں‌ تری وہ فسانے ترے، شگفتہ شگفتہ بہانے ترے‘‘ بہت مشہور ہوئی۔ عدم کے کئی اشعار زباں زدِ عام ہوئے اور ان کی غزلیں فلم کے لیے بھی ریکارڈ کی گئیں۔

    عبدُالحمید عدم کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    ہم مے کدے کی راہ سے ہو کر گزر گئے
    ورنہ سفر حیات کا کتنا طویل تھا

    شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
    محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوں میں

    عدمؔ خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے
    ستم ظریف بڑے جلد باز ہوتے ہیں

    وہی شے مقصد‌ِ قلب و نظر محسوس ہوتی ہے
    کمی جس کی برابر عمر بھر محسوس ہوتی ہے

    ہم نے تمہارے بعد نہ رکھی کسی سے آس
    اک تجربہ بہت تھا بڑے کام آ گیا

  • مسعود پرویز، ہیرو سے ہدایت کار تک

    مسعود پرویز، ہیرو سے ہدایت کار تک

    پاکستان فلم انڈسٹری کے معروف ہدایت کار مسعود پرویز نے 2001ء میں ‌آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لی تھیں۔ وہ صدارتی ایوارڈ یافتہ ہدایت کار تھے جنھوں‌ نے فلم انڈسٹری کو متعدد کام یاب فلمیں‌ دیں اور شائقینِ سنیما کو معیاری تفریح فراہم کی۔

    علمی اور ادبی گھرانے سے تعلق رکھنے والے مسعود پرویز امرتسر کے باسی تھے۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ پاکستان آئے اور ہدایت کاری کے شعبے میں کام کرنے کی غرض سے فلمی صنعت سے وابستہ ہوگئے۔ مسعود پرویز 1918ء میں پیدا ہوئے تھے۔ قیامِ پاکستان سے قبل انھوں نے فلم منگنی میں ہیرو کی حیثیت سے کام کیا تھا اور بعد میں ہدایت کاری کی طرف آگئے۔ انھوں نے اس نگری کو کئی سال کے دوران اپنی مہارت اور تجربے سے بیلی، انتظار، زہرِ عشق، کوئل، مرزا جٹ، ہیر رانجھا، مراد بلوچ، نجمہ، حیدر علی اور خاک و خون جیسی یادگار فلمیں دیں۔

    انھوں نے 13 اردو اور 8 پنجابی فلمیں بنائی تھیں۔ انھیں یہ اعزاز بھی حاصل تھا کہ ادارہ نیف ڈیک نے قوم میں جذبۂ حب الوطنی ابھارنے اور جوش و ولولہ پیدا کرنے کے لیے 1979 میں‌ انھیں تاریخی ناول نگار نسیم حجازی کی کہانی پر مبنی فلم خاک و خون بنانے کے لیے منتخب کیا تھا۔

    1957ء میں انھیں ہدایت کار کی حیثیت سے فلم انتظار کے لیے صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ اس فلم نے مجموعی طور پر 6 صدارتی ایوارڈ حاصل کیے جس میں سے ایک مسعود پرویز کے نام ہوا۔

    پاکستان میں فلمی دنیا کے معتبر اور معروف، نگار ایوارڈ کی بات کی جائے تو مسعود پرویز کو فلم ہیر رانجھا اور خاک و خون پر یہ ایوارڈ دیا گیا جب کہ ان کی ہدایت کاری میں بننے والی دوسری فلموں نے متعدد زمروں میں نگار ایوارڈز حاصل کیے۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کے اس نام وَر ہدایت کار نے لاہور میں وفات پائی اور ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

    اردو کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو ان کے قریبی عزیز تھے۔

  • لندن کو فراموش کر کے لاہور میں ’گلزار‘ بسانے والی بمبا سدرلینڈ کا تذکرہ

    لندن کو فراموش کر کے لاہور میں ’گلزار‘ بسانے والی بمبا سدرلینڈ کا تذکرہ

    پنجاب میں‌ ایک مضبوط سکھ سلطنت کی بنیاد رکھنے والے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد 1848ء میں انگریزوں نے پنجاب فتح کر لیا تھا۔ اس وقت سلطنت میں دلیپ سنگھ تخت نشیں تھا جسے ایک معاہدے کے تحت برطانوی راج تسلیم کرنے کے بعد برطانیہ بھیج دیا گیا جہاں‌ ملکہ اس خاندان کی سرپرست بن گئیں۔

    سابق مہاراجہ دلیپ سنگھ نے بعد ازاں اپنا مذہب تبدیل کرلیا اور عیسائیت قبول کرنے کے بعد برطانوی اشرافیہ کا حصّہ بن گیا، لیکن اس کی شاہ خرچیوں اور کثرتِ شراب نوشی نے سب کچھ برباد کر دیا۔ 1895ء میں وہ پیرس میں کسمپرسی کے عالم میں اس جہانِ فانی سے کوچ کر گیا۔

    دلیپ سنگھ کی پہلی بیوی سے چھے بچّے پیدا ہوئے جن میں سے ایک کا نام بمبا صوفیہ جندن (Bamba Sofia Jindan) تھا۔ اس نے 29 ستمبر 1869ء کو لندن میں آنکھ کھولی اور مشنری اسکول میں تربیت اور تعلیم کے مراحل طے کیے، لیکن اوائلِ عمر سے ہی وہ اپنی شاہی اور ہندوستانی شناخت کے بارے میں‌ سنجیدہ رہی۔ اسے اپنے دادا مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سلطنت چلے جانے اور اپنے خاندان کی برطانیہ منتقلی کو ذہنی طور پر قبول کرنے میں‌ بڑی مشکل پیش آئی۔

    بمبا کے دادا کا راج شمال مغرب میں درّۂ خیبر سے مشرق میں دریائے سُتلج تک اور برصغیر پاک و ہند کی شمالی حد سے جنوب کی طرف صحرائے تھر تک پھیلا ہوا تھا۔ لاہور سلطنت کا صدر مقام تھا اور اس کے والد دلیپ سنگھ سلطنت کے آخری مہاراجہ تھے۔شاہزادی بمبا سدرلینڈ 1957ء میں‌ آج ہی کے دن وفات پاگئی تھیں ان کی عمر 88 برس تھی اور وہ خاصی ضعیف اور ناتواں ہو گئی تھیں۔ بمبا سدرلینڈ فالج سے متاثر تھیں اور ان کی بینائی بھی کمزور ہوچکی تھی۔ ان کی تدفین برطانوی ہائی کمشنر کے زیرِ نگرانی گورا قبرستان میں کی گئی۔

    لندن میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد شہزادی بمبا کو آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا تھا اور بعد میں‌ وہ امریکی شہر شکاگو کے ایک میڈیکل کالج چلی گئی تھیں۔ بیسویں صدی کے آغاز میں شہزادی بمبا نے ہندوستان آنا جانا شروع کیا اور لاہور کے حُسن اور سکھ دور اور شاہی خاندان کی یادگاروں نے انھیں یہیں‌ قیام کرنے پر مجبور کر دیا۔ شہزادی نے انگلستان کو چھوڑ کر لاہور کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنا لیا۔ انھوں نے لاہور میں اپنی رہائش گاہ کو ’گلزار‘ کا نام دیا اور اس میں کئی اقسام کے گلاب کے پودے لگا کر ان کی دیکھ بھال میں‌ مصروف ہوگئیں۔

    سنہ 1915 میں شہزادی بمبا نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور کے پرنسپل ڈاکٹر ڈیوڈ سدرلینڈ سے شادی کر لی جو 1939 تک زندہ رہے۔ شہزادی بمبا کی شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال سے بھی ملاقاتیں‌ رہیں جو ان کی بے انتہا عزّت کرتے تھے۔ تقسیمِ ہند کے موقع پر وہ انگلستان، ہندوستان اور دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک میں رہنے کا فیصلہ کرسکتی تھیں جو ان کا حق تھا، لیکن انھوں نے لاہور میں اپنے والد دلیپ سنگھ کی جائیداد اور دیگر معاملات کو سنبھالنے کا فیصلہ کیا۔

    شہزادی بمبا کو آرٹ سے گہرا لگاؤ تھا اور ان کے پاس بیش قیمت پینٹگز کا ایک خزانہ موجود تھا جسے وفات کے بعد ان کی وصیت کے مطابق ان کے خاص ملازم پیر کریم بخش سپرا کے سپرد کردیا گیا۔ اس میں واٹر کلر، ہاتھی کے دانتوں پر پینٹنگز، مجسمے اور آرٹ کے دیگر شاہکار شامل تھے۔ لندن میں سکھ خاندان کے نوادرات کو وصیت کے مطابق جب ملازم پیر کریم بخش نے حکومتِ پاکستان کے تعاون سے لاہور منگوانے کی درخواست دی تو اس کا احترام کیا گیا اور ایک ہفتے میں نوادرات لاہور پہنچ گئے۔ بعد میں ان اشیا کو شہزادی بمبا کی رہائش گاہ میں محفوظ کر دیا گیا اور پھر اسے قومی اثاثہ قرار دے کر لاہور کے شاہی قلعے میں محفوظ کر لیا گیا۔

  • عہد ساز شاعر اور تنقید نگار فراق گورکھپوری کا تذکرہ

    عہد ساز شاعر اور تنقید نگار فراق گورکھپوری کا تذکرہ

    فراق کا اصل نام رگھو پتی سہائے تھا۔ تخلّص انھوں نے فراق اپنایا اور آبائی علاقے کی نسبت تخلّص سے جڑی تو فراق گورکھپوری مشہور ہوئے۔ انھیں ایک عہد ساز شاعر اور اردو زبان و ادب کا بڑا نقّاد تسلیم کیا جاتا ہے۔ فراق کی زندگی کا سفر 3 مارچ 1982ء کو تمام ہوگیا تھا۔

    رگھو پتی سہائے نے 28 اگست 1896ء کو گورکھپور میں منشی گورکھ پرشاد کے گھر آنکھ کھولی جو شاعر تھے اور عبرت تخلّص کرتے تھے۔ وہ اردو اور فارسی کے عالم، ماہرِ قانون بھی تھے۔ انھوں‌ نے گھر پر اپنے بیٹے کو ان زبانوں کی تعلیم دی اور بعد میں انھوں نے اپنی تعلیم مکمل کی۔ فراق کو گھر میں علمی و ادبی ماحول ملا تھا جس میں وہ بھی شعروادب کی طرف متوجہ ہوگئے۔

    انگریزی زبان میں ایم اے کرنے کے بعد فراق نے سول سروسز کا امتحان پاس کیا مگر اس سے متعلق ملازمت اختیار نہ کی بلکہ تدریس سے منسلک ہوگئے۔ لیکن ان کا مزاج ایسا تھا کہ ہفتوں کمرۂ جماعت میں داخل نہ ہوتے اور ان کی بعض ناپسندیدہ عادات نے بھی ان کی شہرت خراب کی تھی، لیکن علم و ادب کی دنیا میں بہرحال ان کی بڑی قدر کی جاتی تھی اور وہ اپنے وقت کے اہم شاعر اور نقّاد تھے۔

    فراق اردو ہی نہیں انگریزی ادب کا بھی وسیع مطالعہ رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اردو کو بھی اپنے تنقیدی موضوعات سے نئی راہ دکھائی اور جب ان کے مضامین کتابی شکل میں سامنے آئے تو ان کا بہت شہرہ ہوا۔ ان کی دو کتابیں اردو کی عشقیہ شاعری اور حاشیے تنقیدی مضامین پر مشتمل ہیں۔

    ڈاکٹر خواجہ احمد فاروقی کے بقول اگر فراق نہ ہوتے تو ہماری غزل کی سرزمین بے رونق رہتی، اس کی معراج اس سے زیادہ نہ ہوتی کہ وہ اساتذہ کی غزلوں کی کاربن کاپی بن جاتی یا مردہ اور بے جان ایرانی روایتوں کی نقّالی کرتی۔ فراق نے ایک نسل کو متاثر کیا۔ نئی شاعری کی آب یاری میں اہم کردار ادا کیا اور حسن و عشق کا شاعر ہونے کے باوجود ان موضوعات کو نئے زاویے سے دیکھا۔ فراق کو نوجوانی میں ہی شاعری کا شوق پیدا ہو گیا تھا اور 1916ء میں جب ان کی عمر 20 سال تھی، انھوں نے پہلی غزل کہی۔ ان کا کلام ادبی جرائد میں‌ شایع ہونے لگا اور یوں ان کی شہرت کا سفر شروع ہوا۔

    فراق کی نجی زندگی کے حالات پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ 18 سال کی عمر میں ان کی شادی کشوری دیوی سے کر دی گئی تھی، لیکن یہ تعلق ان کے لیے سوہانِ روح بن گیا۔ اس کے بعد والد کا انتقال ہوگیا جو فراق کے لیے کڑا وقت تھا۔ ان پر بھائی بہنوں کی پرورش اور تعلیم کی ذمہ داری آن پڑی۔ ادھر بے جوڑ شادی نے الگ انھیں توڑ کر رکھ دیا تھا۔ اسی زمانہ میں وہ انگریزوں سے آزادی کی جدوجہد میں شریک ہوگئے اور سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے 1920ء میں گرفتاری کے بعد 18 ماہ جیل میں گزارے۔ تاہم آزادی کے بعد فراق سیاست کا حصّہ نہیں رہے۔ فراق کی زندگی کا ایک بڑا المیہ ان کے اکلوتے بیٹے کی سترہ سال کی عمر میں خود کشی تھا جب کہ ان کی بیوی بھی اپنے بھائی کے گھر جا بیٹھی تھیں، یوں فراق تنہائی کا شکار رہے۔ اس کے باوجود فراق نے اردو ادب کو اپنی شاعری اور تنقیدی مضامین کی صورت میں بیش بہا خزانہ دیا انھیں ایسا شاعر مانا جاتا ہے جس نے بیسویں صدی میں اردو غزل کو ایک نیا رنگ اور آہنگ عطا کیا۔ فراق نے کسی کی پیروی نہیں‌ کی بلکہ شاعری میں ان کا اپنا ہی رنگ تھا۔ ان کے متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں روحِ کائنات، شبنمستان، رمز و کنایات، غزلستان، روپ، مشعل اور گلِ نغمہ شامل ہیں۔

    بھارت میں‌ فراق گورکھپوری کو پدم بھوشن اور گیان پیٹھ جیسے اعزازات سے نوازا گیا تھا۔

  • اردو غزل کو نئی تب و تاب بخشنے والے ناصر کاظمی کا تذکرہ

    اردو غزل کو نئی تب و تاب بخشنے والے ناصر کاظمی کا تذکرہ

    ناصر کاظمی نے غزل کو اپنی طرزِ ادا کی برجستگی اور ندرت سے سنورا اور اپنے تخلیقی جوہر سے دوسروں کو حیران کیا۔ احساسِ تحیّر اور سوز و تپش ان کی شاعری کا وہ رنگ ہے، جو انھیں اپنے دور کا منفرد غزل گو بناتا ہے۔ آج اردو کے اس مقبول شاعر کی برسی ہے۔

    دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
    وہ تری یاد تھی اب یاد آیا

    دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی
    کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی

    حسن و عشق کے موضوعات اور اردو شاعری کے روایتی مضامین یعنی زندگی کی تلخیاں، محرومیاں اور دکھ، حسرتیں، یاسیت اور میّسر آجانے والے خوشی کے لمحات کا بیان ناصر کی شاعری میں بڑی شدّت سے مگر انفرادیت کے ساتھ ملتا ہے۔ وہ روایتی شاعری سے مںحرف ہوئے بغیر اپنے کلام کو جدید رنگ میں ڈھالتے ہوئے نئے لب و لہجے سے آشنا کرتے چلے گئے، جو عام فہم اور نہایت دل نشیں‌ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عوامی حلقوں‌ میں‌ مقبول اور ہم عصروں‌ میں‌ ممتاز ہوئے۔ ان کا ایک مشہور شعر پڑھیے۔

    ہمارے گھر کی دیواروں‌ پہ ناصر
    اداسی بال کھولے سو رہی ہے

    وہ کوئی دوست تھا اچھے دنوں کا
    جو پچھلی رات سے یاد آ رہا ہے

    ناصر کاظمی کا اصل نام سیّد ناصر رضا کاظمی تھا۔ 8 دسمبر 1952ء کو انبالہ میں‌ پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد سیّد محمد سلطان کاظمی فوج میں صوبے دار میجر تھے۔ والدہ بھی تعلیم یافتہ اور انبالہ میں‌ اسکول ٹیچر تھیں۔ یوں‌ وہ ایک خوش حال گھرانے کے فرد تھے جس نے بچپن لاڈ پیار میں‌ گزارا۔ تعلیم حاصل کرتے ہوئے گلستاں، بوستاں، شاہنامۂ فردوسی، قصہ چہار درویش، فسانۂ آزاد، الف لیلٰی، صرف و نحو اور اردو شاعری کی کتابیں بھی پڑھ لیں۔ کم عمری میں ہی شاعری شروع کر دی تھی۔ ان کا ترنم بہت اچھا تھا۔

    ناصر کاظمی نے دسویں کا امتحان مسلم ہائی اسکول انبالہ سے پاس کیا۔ بی اے کے لیے لاہور گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا، لیکن تقسیمِ ہند کے ہنگاموں کے سبب تعلیم چھوڑنی پڑی۔ وہ آزادی کے بعد کسمپرسی کے عالم میں پاکستان پہنچے تھے۔

    عوامی مقبولیت حاصل کرنے والے اس شاعر کی لفظیات اور ان کی حسّیات کا پیمانہ رومان رہا، لیکن وہ جس عہد اور سماج سے جڑے ہوئے تھے، اُس کے مسائل کو بھی نظر انداز نہیں کرسکے اور چھوٹی بحروں‌ کے ساتھ منفرد استعاروں‌ سے یوں‌ اپنے کلام کو سجایا کہ شہرت ان کا مقدر بنی۔

    ان کا پہلا مجموعۂ کلام ’برگِ نے‘ سنہ 1954ء میں منظرِعام پر آیا تھا جسے زبردست پذیرائی نصیب ہوئی۔ اس کے بعد ’پہلی بارش‘، ’نشاطِ خواب‘، ’دیوان‘ اور ’سُر کی چھایا‘ کے نام سے ان کی کتابیں‌ شایع ہوئیں۔ وہ ایک اچھے نثر نگار بھی تھے اور ان کے مضامین کا ایک مجموعہ بھی شایع ہوا تھا۔

    ناصر کاظمی معروف ادبی رسالوں ’اوراقِ نو‘ ، ’ہمایوں‘ اور ’خیال‘ کی مجلسِ ادارت میں شامل تھے۔ بعد میں ریڈیو پاکستان لاہور سے بطور اسٹاف ایڈیٹر وابستہ ہوگئے۔

    ناصرکاظمی 2 مارچ 1972ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ ان کی قبر کے کتبے پر اُنہی کا ایک شعر کندہ ہے۔

    دائم آباد رہے گی دنیا
    ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا

    وہ لاہور میں مومن پورہ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • اسلامی تاریخی ناول نگاری کو مقبولیت اور شہرتِ دوام بخشنے والے نسیم حجازی کی برسی

    اسلامی تاریخی ناول نگاری کو مقبولیت اور شہرتِ دوام بخشنے والے نسیم حجازی کی برسی

    "ایک مدّت تک میں یہ فیصلہ نہ کر سکا کہ تاریخِ اسلام کے کس واقعے کو اپنے افسانے کی زینت بناؤں۔ میں کسی ایک پھول کی تلاش میں ایک ایسی سر سبز و شاداب وادی میں پہنچ چکا تھا جس کی آغوش میں رنگا رنگ پھول مہک رہے تھے۔ دیر تک میری نگاہیں اس دل فریب وادی میں بھٹکتی رہیں اور میرے ہاتھ ایک پھول کے بعد دوسرے پھول کی طرف بڑھتے رہے۔ میں نے رنگا رنگ پھولوں سے اپنا دامن بھر لیا۔”

    "آج میں ان پھولوں کو ایک گل دستے کی صورت میں پیش کر رہا ہوں۔ اگر اس گلدستے کو دیکھ کر ہمارے نوجوانوں کے دلوں میں اس وادی کی سیاحت کا شوق اور اپنے خزاں رسیدہ چمن کو اس وادی کی طرح سر سبز و شاداب بنانے کی آرزو پیدا ہو جائے تو میں سمجھوں گا کہ مجھے اپنی محنت کا پھل مل گیا۔”

    یہ سطور نسیم حجازی نے اپنے ناول داستانِ مجاہد کے پیش لفظ کے لیے تحریر کی تھیں جس سے ان کی مسلمانوں کے شان دار ماضی اور اپنے دینی تشخص کے احیا کی خواہش جھلکتی ہے۔ آگے چل کر وہ اپنے قومی اور ملّی شعور کے ساتھ ملک کے روشن مستقبل کے لیے اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں‌ کرتے ہیں۔

    "ہر قوم کی تعمیرِ نو میں اس کی تاریخ ایک اہم حصّہ لیتی ہے۔ تاریخ ایک آئینہ ہے جس کو سامنے رکھ کر قومیں اپنے ماضی و حال کا موازنہ کرتی ہیں اور یہی ماضی اور حال کا موازنہ ان کے مستقبل کا راستہ تیار کرتا رہتا ہے۔ ماضی کی یاد مستقبل کی امنگوں میں تبدیل ہو کر ایک قوم کے لیے ترقی کا زینہ بن سکتی ہے اور ماضی کے روشن زمانے پر بے علمی کے نقاب ڈالنے والی قوم کے لیے مستقبل کے راستے بھی تاریک ہو جاتے ہیں۔
    مسلمانوں کے ماضی کی داستان دنیا کی تمام قوموں کی تاریخ سے زیادہ روشن ہے۔ اگر ہمارے نوجوان غفلت اور جہالت کے پردے اٹھا کر اس روشن زمانے کی معمولی سی جھلک بھی دیکھ سکیں تو مستقبل کے لیے انہیں ایک ایسی شاہراہِ عمل نظر آئے گی جو کہکشاں سے زیادہ درخشاں ہے۔”

    نسیم حجازی کا شمار ان تخلیق کاروں‌ اور اہلِ‌ قلم میں‌ ہوتا ہے جنھوں نے پاکستان میں اسلامی تاریخی ناول نگاری کو عوامی مقبولیت اور شہرتِ دوام بخشا۔

    محمد شریف ان کا اصل نام تھا، لیکن قلمی نام نسیم حجازی سے شہرت پائی۔ وہ 19 مئی 1914ء کو سوجان پور، مشرقی پنجاب میں چودھری محمد ابراہیم کے گھر پیدا ہوئے۔ انہیں عربی کے استاد غلام مصطفیٰ نے ’نسیم حجازی‘ کا قلمی نام دیا تھا۔ ان کی ابتدائی تعلیم گاؤں سے کچھ فاصلے پر واقع اسکول سے ہوئی اور بعد میں وہ مشن ہائی اسکول دھاریوال ضلع گورداس پور بھیج دیے گئے۔ 1932ء میں میٹرک کا امتحان اور 1938ء میں اسلامیہ کالج لاہور سے بی اے کرنے کے بعد قلم تھاما۔ ان کا پہلا افسانہ ’شودر‘ ماہنامہ حکایتُ الاسلام میں شائع ہوا۔ اس کے بعد ’جستجو‘ اور پھر ’انسان اور دیوتا‘ کے نام سے افسانہ سامنے آیا۔ ان کہانیوں نے نسیم حجازی کو ادبی دنیا میں‌ متعارف کروایا۔ وہ تحریکِ پاکستان کی تائید میں پُر زور مقالے بھی لکھتے رہے۔ تاہم ان کی وجہِ شہرت سوانحی ناول اور اسلامی تاریخ پر مبنی کہانیاں ہیں۔

    نسیم حجازی نے زندگی کے کئی تلخ ادوار اور نشیب و فراز کا سامنا کیا تھا۔ ان کی عملی زندگی کا آغاز بحیثیت صحافی ہوا اور وہ روزنامہ ’’حیات‘‘ کراچی سے وابستہ ہوئے۔1934ء سے 1948ء تک کوئٹہ کے ایک ہفت روزہ ’تنظیم‘ سے منسلک رہے۔ اس عرصے میں‌ ان کی تحریریں بھی شایع ہوتی رہیں۔ ان میں‌ کہانیاں اور مضامین شامل تھے۔ خاص طور پر وہ روزنامہ ’’کوہستان سے منسلک ہو کر اس کے بیشتر صفحات جو تاریخِ اسلام دینی امور، اسلامی مضامین، اور مسلم دنیا سے متعلق تھے، ان کو پُرمغز اور نہایت شان دار تحریروں سے سجایا۔ یہ اخبار اسلامی تحریکوں اور احیائے اسلام کی کوششوں کا حامی تھا جس سے منسلک ہو کر نسیم حجازی نے پاکستان اور اسلام کی بالادستی کے لیے کام کیا۔

    نسیم حجازی نے جب تاریخی اور اسلامی ناول نگاری کا آغاز کیا تو کئی شاہ کار کہانیاں سامنے آئیں اور ان کی مقبولیت عام ہوتی چلی گئی۔ ان کے برطانوی راج، تقسیمِ ہند اور تحریکِ پاکستان کے پس منظر میں لکھے جانے والے ناول ’خاک اور خون‘ کے بعد ’یوسف بن تاشفین‘، ’آخری چٹان‘، ’آخری معرکہ‘، ’اندھیری رات کے مسافر‘، ’کلیسا اور آگ‘، ’معظم علی‘، ’اور تلوار ٹوٹ گئی‘،’قافلۂ حجاز‘،’قیصر و کسریٰ‘اور’شاہین‘ جیسے شاہ کار ناولوں نے مقبولیت کا ریکارڈ بنایا۔ ’’پاکستان سے دیارِ حرم تک‘‘ ایک سفر نامہ اور پاک بھارت جنگ 1965ء کے پس منظر میں ڈراما ’’پورس کے ہاتھی‘‘ بھی ان کے تحریر کردہ تھے جنھیں بہت پسند کیا گیا۔

    نسیم حجازی نے ناول نگاری میں ایک شان دار باب کا آغاز کرتے ہوئے خود کو معتبر مؤرخ ثابت کیا۔ وہ اپنے فنِ تحریر اور ناول کی تکنیک سے بخوبی واقف تھے اور اپنے ہم عصروں میں الگ ہی راہ نکالی اور بامقصد کہانیاں تخلیق کیں۔ انہوں نے عالمِ اسلام کے خلاف منگولوں کی تباہ کن یلغار، خلافت اور اسلامی دنیا کو لاحق خطرات، مسلم اسپین کا نوحہ سبھی کچھ نہایت خوبی سے بیان کیا۔ نسیم حجازی کو 1992ء میں پرائڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا تھا۔

    ان کے ناولوں کو ڈرامائی تشکیل کے بعد پی ٹی وی پر بھی پیش کیا۔ نسیم حجازی 81 برس کی عمر میں 2 مارچ 1996ء کو وفات پاگئے تھے۔ وہ اسلام آباد میں‌ آسودۂ خاک ہیں۔

  • ڈاکٹر غلام جیلانی برق کا یومِ وفات

    ڈاکٹر غلام جیلانی برق کا یومِ وفات

    معروف ماہرِ تعلیم، مصنّف، مترجم اور شاعر ڈاکٹر غلام جیلانی برق کو مذہبی اسکالر اور دانش وَر کے طور پر بھی یاد کیا جاتا ہے، جو 12 مارچ 1985ء کو وفات پاگئے تھے۔

    برق کی علمی استعداد، قابلیت اور تحقیقی کام کو جہاں سراہا جاتا ہے، وہیں ان کی کتب اور بعض موضوعات نے انھیں متنازع بھی بنایا، لیکن پھر انھوں نے اپنے مؤقف سے رجوع کرلیا اور وضاحت دی جس نے ان کے وقار میں اضافہ کیا۔

    برق 26 اکتوبر 1901ء کو پنڈی گھیپ، ضلع کیمبل پور میں پیدا ہوئے تھے۔ عربی، فارسی اور اردو میں اسنادِ فضیلت حاصل کرنے کے بعد انھوں نے عربی اور فارسی میں ایم اے کیا۔ 1940ء میں انھوں نے امام ابنِ تیمیہ کی زندگی اور کارناموں پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری لی۔ وہ تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوئے اور ملازمت کے ساتھ مختلف موضوعات پر لگ بھگ چالیس کتابیں تحریر کیں۔ ان کی کتاب دو اسلام، فلسفیانِ اسلام، مؤرخینِ اسلام، حکمائے عالم، فرماں روایانِ اسلام، دانشِ رومی و سعدی، ہم اور ہمارے اسلاف قابلِ ذکر ہیں۔