Tag: مارچ وفیات

  • پنجابی فلم پھیرے اور بابا عالم سیاہ پوش

    پنجابی فلم پھیرے اور بابا عالم سیاہ پوش

    پاکستان کی پہلی پنجابی فلم ’’پھیرے‘‘ تھی جو نذیر صاحب نے بنائی تھی۔ یہ فلم آج ہی کے روز 1949ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم کی کہانی، مکالمے اور گانے بابا عالم سیاہ پوش نے لکھے تھے اور یہ وہ نام ہے جس سے نئی نسل نامانوس بھی ہوگی اور یہ ان کے لیے ایک قسم کی پُراسراریت بھی رکھتا ہے۔ بابا عالم سیاہ پوش اور ان جیسے کئی فن کار، فلم ساز اور دوسرے آرٹسٹ ہی تھے جنھوں نے اس زمانہ میں فلمی صنعت کی بنیاد مضبوط کی اور اپنے کام کی بدولت پہچان بنائی۔

    28 جولائی کو ریلیز ہونے والی فلم پھیرے کو زبردست کام یابی ملی تھی اور اس کے بعد فلم سازوں نے مزید پنجابی فلمیں بنائیں اور خوب بزنس کیا۔ یہ فلم صرف دو ماہ کے دورانیہ میں مکمل کی گئی تھی جس کے نغمات بے حد مقبول ہوئے تھے۔ پھیرے میں فلم ساز نذیر اور ان کی بیوی سورن لتا کے ساتھ بابا عالم سیاہ پوش نے بھی اداکاری کی تھی۔

    بابا عالم سیاہ پوش کے فلمی گیتوں اور مکالموں میں بڑا زور تھا۔ ان کی فلمی کاوشیں پنجاب کی زرخیز مٹی کی مہک میں‌ بسی اور اس کی ثقافت میں رنگی ہوتی تھیں جس کو پنجاب میں فلم بینوں‌ نے بے حد پسند کیا اور فلم سازوں نے مزید پنجابی فلمیں بنائیں۔

    بابا عالم سیاہ پوش 1916ء میں پیدا ہوئے۔ دستیاب معلومات کے مطابق وہ گورداسپور کے تھے۔ ان کا نام محمد حسین تھا۔ لیکن انھیں سب جوانی ہی میں "بابا” کہنے لگے تھے اور "سیاہ پوش” اس لیے کہا جانے لگا کہ ایک ناکام عشق کے بعد انھوں نے دنیا داری ترک کردی تھی۔ وہ زیادہ تر سیاہ لباس میں رہتے تھے جو غم اور سوگ کی علامت تھا۔ لیکن بعد میں‌ ساتھیوں کے سمجھانے پر کافی حد تک بدل گئے تھے۔ وہ پنجاب یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے اور پنجابی زبان پر عبور رکھتے تھے۔

    سیاہ پوش تقسیم سے قبل فلم بھنور (1947) کے گیت نگار اور مکالمہ نویس کے طور پر سامنے آئے تھے۔ پاکستان میں ان کی پہلی فلم پھیرے تھی جو پہلی سپر ہٹ سلور جوبلی فلم ثابت ہوئی۔اس میں ان کا لکھا ہوا گیت عنایت حسین بھٹی نے گایا جس کے بول تھے، "جے نئیں سی پیار نبھانا، سانوں دس جا کوئی ٹھکانا۔” یہ پنجابی گیت بڑا مقبول ہوا تھا۔ پاکستان میں اپنی اوّلین کام یابی کے بعد انھوں نے بے شمار پنجابی فلموں کے لیے گیت اور مکالمے لکھے۔ یہ وہ دور تھا جب فلمی صنعت میں ان کے نام کا ڈنکا بجتا تھا۔ اس وقت کئی دوسرے پنجابی نغمہ نگار اور مکالمہ نویس بھی میدان میں اتر چکے تھے مگر بابا عالم سیاہ پوش کا انداز سب سے جدا تھا۔ ان کے تحریر کردہ پنجابی نغمات میں کئی فلمیں سپر ہٹ ثابت ہوئیں۔ ان فلموں میں چوڑیاں، دلدار، لارا لپّا، تیس مار خان، جانی دشمن، بدلہ، میرا ویر کے علاوہ کئی اور فلمیں شامل ہیں۔

    بابا عالم سیاہ پوش پنجابی فلموں کے گیت نگار ہی نہیں تھے بلکہ انھوں نے اس زبان میں معیاری شاعری بھی کی اور ان کی نظمیں اس وقت کے اخبارات میں شائع ہوئیں۔سیاہ پوش کی نظموں میں سماج اور حکومت پر طنز بھی ملتا ہے۔ ان کی نظم ’’آٹا‘‘ جس زمانہ میں‌ اخبار میں شائع ہوئی تو ممتاز دولتانہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔ اس نظم پر ان کے حکم سے اخبار کو نوٹس بھیجا گیا تھا۔ طنز کی شدّت سے بھرپور اس نظم کو عوام کی طرف سے بہت پذیرائی ملی تھی۔ بابا سیاہ پوش نے شہرت اور مقبولیت تو بہت حاصل کی مگر تمام عمر تنگ دست رہے۔ دراصل بابا عالم سیاہ پوش بھی فلم سازوں کی روایتی چیرہ دستیوں کا شکار رہے تھے اور رائلٹی یا معاوضہ کے معاملے میں ان کو مشکلات کا سامنا ہی رہا۔ کہتے ہیں کہ مالی تنگی کے باوجود وہ زندہ دل اور خوش اخلاق و ملنسار تھے۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جنھیں‌ مایوسیوں کے اندھیروں میں بھی اُمید کی روشنی دکھائی دیتی تھی۔ دو مارچ 1970ء کو بابا عالم سیاہ پوش زندگی کی تمام پریشانیوں اور دکھوں سے نجات پا گئے تھے۔

  • ورجینیا وولف:‌ برطانوی ناول نگار جسے دریا نے قبول کیا

    ورجینیا وولف:‌ برطانوی ناول نگار جسے دریا نے قبول کیا

    بیسویں صدی کی ممتاز ناول نگار ورجینیا وولف کا یہ تذکرہ ان کی موت کی مناسبت سے کیا جارہا ہے۔ وہ موت جو غیرفطری تھی یا جس کے لیے ورجینیا وولف نے 28 مارچ کا انتخاب کیا تھا۔ ناول نگار نے 1941ء میں خود کو دریا کی لہروں کے سپرد کر دیا تھا۔

    خود کشی کے بعد ورجینیا وولف کی آخری تحریر سامنے آئی جس میں وہ اپنے شوہر سے مخاطب ہو کر لکھتی ہیں، ’’اگر کوئی مجھے اس تکلیف سے بچا سکتا تھا، تو وہ تم ہی تھے۔ ہر چیز مجھ سے جدا ہو رہی ہے، سوائے اس محبت کے جو تم نے مجھ سے ہمیشہ کی۔‘‘

    وہ ایک ادیب، مضمون نویس اور نقّاد کی حیثیت سے دنیا بھر میں‌ مشہور ہیں۔ ورجینا وولف 25 جنوری 1882ء کو برطانیہ میں پیدا ہوئیں۔ ان کا مکمل نام ایڈلن ورجینیا وولف تھا۔ وہ ایک متمول گھرانے کی فرد تھیں اور یہ کنبہ فنونِ لطیفہ کے مختلف شعبوں میں فعال اور تخلیقی کاموں کے لیے مشہور تھا۔ یہ آٹھ بہن بھائی تھے جن میں ورجینیا وولف کو دنیا میں‌ بھی پہچان ملی۔ ان کے والد قلم کار، مؤرخ اور نقّاد، والدہ ماڈل جب کہ ایک بہن مصورہ اور ڈیزائنر تھیں۔

    ورجینیا وولف نے دستور کے مطابق اسکول کی بجائے گھر پر تعلیم و تربیت کے مراحل طے کیے، ادب پڑھا، گھر میں کتابیں موجود تھیں اور علمی و ادبی موضوعات پر گفتگو بھی سننے کا موقع ملتا رہتا تھا۔ اور پھر وہ وقت آیا جب انھوں نے خود مضمون نویسی اور کہانیاں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔

    ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ورجینیا وولف نے کنگز کالج میں داخلہ لیا اور اس عرصے میں تاریخ اور ادب کے گہرا مطالعہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا باعث بنا، اسی دوران عورتوں کے حقوق اور مسائل سے بھی آگاہی حاصل کی جس نے ورجینیا وولف کی فکر اور تخلیقی صلاحیتوں کو اجالا اور والد نے حوصلہ افزائی کی تو باقاعدہ لکھنے کا آغاز کیا۔ ابھی انھوں‌ نے نام اور پہچان بنانے کا آغاز ہی کیا تھا کہ ان والد جو خود بھی ایک قلم کار تھے، ان سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے۔ والدہ کے بعد اپنے والد کو کھو دینے والی ورجینیا وولف کی زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ آئے اور بہت سی تکلیف دہ اور دل آزار باتیں انھیں برداشت کرنا پڑیں جن کا ذہن پر گہرا اثر ہوا۔ وہ ایک نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہوگئیں، اور مایوسی نے انھیں اپنی جان لینے پر آمادہ کرلیا۔ ورجینا وولف دریا میں چھلانگ لگانے سے پہلے بھی متعدد مرتبہ خود کُشی کی کوششیں کرچکی تھیں۔

    اس برطانوی مصنّفہ کا پہلا ناول’’دا ووئیج آؤٹ‘‘ تھا۔ 1925ء میں ’’مسز ڈالووے‘‘ اور 1927ء میں ’’ٹو دا لائٹ ہاؤس‘‘اور 1928ء میں ’’اورلینڈو‘‘ کے عنوان سے ان کے ناول منظرِ‌عام پر آئے جو ان کی پہچان ہیں۔ ان کے ایک مضمون بعنوان ’’اپنا ایک خاص کمرہ‘‘ دنیا بھر میں‌ قارئین تک پہنچا اور اسے بے حد پسند کیا گیا۔ ورجینیا وولف کی تخلیقات کا پچاس سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ ہوا اور ان کی تحریر کردہ کہانیوں کو تھیٹر اور ٹیلی وژن پر پیش کیا گیا۔ ’’مسز ڈالووے‘‘ ان کا وہ ناول ہے جس پر فلم بنائی گئی تھی۔

    ورجینیا وولف کا خود کشی سے قبل شوہر کے نام آخری پیغام بھی کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا جس کا ایک حصّہ یہ بھی ہے۔ انھوں‌ نے لکھا تھا:

    پیارے…
    مجھے لگتا ہے کہ میں دوبارہ پاگل پن کی طرف لوٹ رہی ہوں اور مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ہم دوبارہ اس بھیانک کرب سے نہیں گزر پائیں گے۔ میں دوبارہ اس تکلیف سے اَب ابھر نہیں پاؤں گی۔ مجھے پھر سے آوازیں سنائی دیتی ہیں جس کی وجہ سے میں کسی چیز پہ اپنی توجہ مرکوز نہیں کر پا رہی ۔ میں وہ کرنے جا رہی ہوں…… جو بظاہر ان حالات میں کرنا بہتر ہے۔

    تم نے مجھے زندگی کی ہر ممکنہ خوشی دی۔ تم میرے ساتھ ہر طرح کے حالات میں ساتھ ساتھ رہے، جتنا کوئی کسی کے ساتھ رہ سکتا ہے۔ نہ میں سمجھ ہی سکتی ہوں کہ دو انسان اس قدر اکٹھے خوش رہ سکتے ہیں، جیسے ہم رہ رہے تھے، جب تک کہ اس اذیت ناک بیماری نے مجھے شکار نہ کرلیا۔

    اب میں مزید اس بیماری سے نہیں لڑ سکتی۔ میں یہ بھی سمجھتی ہوں کہ میری وجہ سے تمہاری زندگی بھی تباہ ہو رہی ہے، جو میرے بغیر شاید کچھ پُرسکون ہو جائے۔ مجھے یقین ہے کہ ایسا ہی ہوگا۔

    بس میں یہی کہنا چاہتی ہوں کہ میری ساری زندگی کی خوشی تم سے منسوب رہی ہے۔ تم ہمیشہ میرے ساتھ بہت اچھے اور پُرسکون رہے ہو، اور میں کہنا چاہتی ہوں کہ یہ حقیقت سب ہی جانتے ہیں۔ اگر کوئی مجھے اس تکلیف سے بچا سکتا تھا، تو وہ تم ہی تھے۔ ہر چیز مجھ سے جدا ہو رہی ہے، سوائے اس محبت کے جو تم نے میرے ساتھ ہمیشہ کی۔

    میں ہرگز یہ نہیں چاہتی کہ میری بیماری کی وجہ سے تمہاری زندگی مزید تباہ ہو۔ میں ایسا مزید نہیں کرسکتی۔ میں نہیں سمجھتی کہ دنیا میں دو انسان ایک ساتھ اتنا خوش رہے ہوں…… جتنا ہم!

    انھوں نے 1913ء میں معروف ادبی نقاد لیونارڈ وولف سے شادی کی تھی۔ ان کی تحریر سے اندازہ لگایا گیا کہ خود کشی کے روز وہ انتہائی مایوسی کا شکار تھیں اور اپنے حواس کھو بیٹھی تھیں۔ ورجینیا نے اپنی جیبوں میں پتھر بھر لیے تھے تاکہ ان کا مردہ جسم دریا کی تہ میں‌ اتر جائے۔ ان کی لاش تین ہفتوں بعد ملی۔ ورجینیا کی خواہش کے مطابق اس کے جسم کو جلا کر راکھ کردیا گیا اور یہ راکھ خانقاہ میں بکھیر دی گئی۔

  • ستار طاہر: ایک باکمال ادیب اور شان دار مترجم

    ستار طاہر: ایک باکمال ادیب اور شان دار مترجم

    ستّار طاہر ایک باکمال مصنّف، مؤلف اور شان دار مترجم تھے جنھوں نے بحیثیت مدیر بھی اپنی صلاحیتوں‌ کو منوایا اور اپنے دور کے بہترین جرائد کی ادارت کی اور ان کا وقار بڑھایا۔ اردو زبان میں‌ کئی موضوعات پر مضامین اور کتابوں‌ کے علاوہ ستار طاہر نے غیرملکی ادب کا معیاری ترجمہ اردو زبان میں کیا جنھیں قارئین نے بہت پسند کیا۔ ستار طاہر 1993ء میں‌ آج ہی کے روز انتقال کر گئے تھے۔

    اہلِ علم و ادب میں ستار طاہر اپنی صلاحیتوں، قلم کی روانی اور معیاری تراجم کے لیے مشہور تھے۔ ان کی تحریریں اور تصانیف قارئین میں بے حد پسند کی گئیں۔ ستار طاہر گورداس پور میں یکم مئی 1940ء کو پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ ہجرت کرکے فیصل آباد آگئے۔ زمانۂ طالبِ علمی ہی سے لکھنے پڑھنے سے لگاؤ رہا اور شروع ہی سے مطالعہ کی عادت پختہ ہوگئی تھی۔ اسی شوق نے ستار طاہر کو ادب کی طرف مائل کیا اور تصنیف و تالیف کے ساتھ انھوں نے ترجمہ اس طرح کیا کہ اس پر تخلیق کا گمان ہوتا تھا۔ ستار طاہر نے کالم نگاری بھی کی اور 250 سے زائد کتابیں مرتب کیں کرنے کے علاوہ خاص طور پر روسی ادب کا ترجمہ کیا۔ اپنا قائدِاعظم ایک، دنیا کی سو عظیم کتابیں اور مارشل لاء کا وائٹ پیپر سمیت کئی کتابیں ستار طاہر کے زورِ قلم کا نتیجہ ہیں۔ انھوں نے فلموں کی کہانیاں‌ بھی لکھیں۔ ان میں وعدے کی زنجیر اور میرا نام ہے محبت جیسی فلمیں‌ شامل ہیں۔ ستار طاہر نے ایک مضمون نگار اور کہانی کار کی حیثیت سے مختلف طبقات کی زندگیوں کو اپنی تحریروں میں‌ سمیٹا اور داد و تحسین پائی۔

    ستار طاہر کو جنرل ضیاء الحق کے دورِ آمریت میں‌ جیل کی ہوا بھی کھانا پڑی تھی۔ وہ اپنے نظریات اور افکار کی وجہ سے بھی اہل علم و ادب میں نمایاں‌ پہچان رکھتے تھے۔ ستار طاہر کو جمہوریت اور بھٹو صاحب پر کتاب لکھنے کی پاداش میں جیل بھیجا گیا تھا۔ ستار طاہر کا شمار ان مصنفین میں ہوتا ہے جو قلم کی مزدوری کرنے کے ساتھ ساتھ جمہوریت کے حامی و پرچارک رہے۔

    ان کی متعدد تصانیف میں‌ سورج بکف و شب گزیدہ، حیاتِ سعید، زندہ بھٹو مردہ بھٹو، صدام حسین، مارشل لا کا وائٹ پیپر، تعزیت نامے سرِ فہرست ہیں۔ ان کی ترجمہ کردہ کتب میں ری پبلک، حسن زرگر، دو شہروں کی ایک کہانی، شہزادہ اور فقیر، سرائے، تاراس بلبا اور دنیا کی سو عظیم کتابیں شامل ہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے ستّار طاہر کے لیے بعد از مرگ صدارتی ایوارڈ کا اعلان کیا تھا۔ ستار طاہر لاہور میں اسلام پورہ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • ڈاکٹر انور سدید: ادب ان کا پہلا عشق تھا

    ڈاکٹر انور سدید: ادب ان کا پہلا عشق تھا

    ڈاکٹر انور سدید اردو ادب میں بطور افسانہ نگار، نقاد، محقق اور کالم نویس پہچانے جاتے ہیں جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ 20 مارچ 2016ء انور سدید انتقال کرگئے تھے۔

    ڈاکٹر انور سدید 4 دسمبر 1928ء کو ضلع سرگودھا کے دور افتادہ قصبہ مہانی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم سرگودھا اور ڈیرہ غازی خان کے اسکولوں میں مکمل کی اور میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ مزید تعلیم کے لیے اسلامیہ کالج لاہور میں داخل ہوئے۔ اس دور میں اسلامیہ کالج لاہور میں تحریک پاکستان کی سرگرمیاں زور پکڑ چکی تھیں، انور سدید بھی ان میں شرکت کرنے لگے اور ایف ایس سی کا امتحان نہ دے سکے۔ اسی دور میں انھوں نے افسانے لکھنا شروع کردیے تھے جو مشہور ادبی جرائد میں شایع ہونے لگے۔ پیشہ ورانہ زندگی کی ابتدا محکمۂ آبپاشی میں لوئر گریڈ کلرک سے کی۔ بعد ازاں گورنمنٹ انجینئرنگ اسکول رسول (منڈی بہاء الدین) میں داخل ہو گئے۔ اگست 1948ء میں اوّل آنے اور طلائی تمغہ پانے کے بعد آب پاشی کے ڈیپارٹمنٹ میں سب انجینئر ہو گئے۔ اسی دور میں‌ دوبارہ تعلیم کی طرف راغب ہوئے اور ایف اے، بی اے اور ایم اے کے امتحان پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے دیے۔ انور سدید نے”اردو ادب کی تحریکیں” کے عنوان سے مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے نگران و سرپرست ڈاکٹر وزیر آغا جیسے بڑے ادیب اور انشا پرداز تھے۔ بعدازاں انور سدید نے انجینئرنگ کا امتحان اے ایم آئی، انسٹی ٹیوٹ آف انجینئر ڈھاکہ سے پاس کیا۔ محکمۂ آبپاشی پنجاب سے 1988ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد صحافت کا پیشہ اختیار کیا۔ اور "نوائے وقت” سے آخر دم تک وابستہ رہے۔ تنقید، انشائیہ نگاری، شاعری اور کالم نگاری میں اپنی فکر اور تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ اے پی این ایس سے بہترین کالم نگار کا ایوارڈ لینے والے انور سدید کو ۲۰۰۹ میں صدر پاکستان نے انھیں تمغائے امتیاز سے نوازا تھا۔

    ڈاکٹر انور سدید نے ادبی تنقید اور دیگر اصناف پر تصانیف یادگار چھوڑی ہیں جو ان کے کالموں‌ کے علاوہ ہیں۔ ان کی تحریروں اور تصانیف پر نظر ڈالی جائے تو ان میں اُردو اَدب میں سفر نامہ، ادبی تاریخ ”اُردو ادب کی تحریکیں، میر انیس کی اقلیم سخن، غالب کا جہاں اور، فکر و خیال، اختلافات، کھردرے مضامین، برسبیل تنقید کے ساتھ متعدد شخصیات پر کتب شامل ہیں۔ خاکہ نگاری کی بات کی جائے تو اس میں‌ محترم چہرے، قلم کے لوگ، ادیبانِ رفتہ اور زندہ لوگ انور سدید کے قلم سے نکلی ہیں۔

  • اخلاق احمد دہلوی کی "یادوں کا سفر”

    اخلاق احمد دہلوی کی "یادوں کا سفر”

    اخلاق احمد دہلوی نے اپنی خود نوشت سوانح عمری میں کئی دل چسپ واقعات اور پُرلطف تذکرے رقم کیے ہیں جن کا مطالعہ ہمیں متحدہ ہندوستان کی دلّی، تقسیمِ ہند کے واقعات، مختلف شخصیات اور ریڈیو پاکستان کے اہلِ علم و فن سے آشنائی کا موقع دیتا ہے۔ وہ ایک معروف براڈ کاسٹر ہی نہیں ایک ادیب اور خاکہ نگار بھی تھے۔

    اخلاق احمد 12 جنوری 1919ء کو کوچۂ چیلاں، دہلی میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان منتقل ہو گئے اور لاہور میں سکونت اختیار کی۔ وہاں وہ ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے اور چند اہم براڈ کاسٹروں میں سے ایک کہلائے۔ ان کے اپنے وقت کے کئی ادیبوں، شعرا اور بڑے بڑے فن کاروں سے دوستی اور یاد اللہ رہی۔ اخلاق احمد نے انہی مشاہیر کے بہت خوب صورت شخصی خاکے تحریر کیے اور ادبی حلقوں میں پہچان بنائی۔ اخلاق احمد دہلوی کے شخصی خاکوں کے تین مجموعے اور بیان اپنا، پھر وہی بیان اپنا اور میرا بیان کے نام سے شایع ہوئے۔ 20 مارچ 1992ء کو اخلاق احمد دہلوی انتقال کرگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ یہاں ہم اخلاق احمد دہلوی کے تذکرے پر مشتمل ایک کالم سے چند پارے نقل کررہے ہیں جو معروف ادیب اور مشہور کالم نگار رفیع الزّماں زبیری نے تحریر کیا تھا۔

    اخلاق احمد دہلوی کی خود نوشت سوانح عمری یادوں کا سفر کے نام سے شائع ہوئی تھی۔

    زبیری صاحب لکھتے ہیں، دہلی کے مشہور کوچۂ چیلاں میں ان کا بچپن بڑی بڑی شخصیات کے درمیان گزرا۔ مولانا محمد علی جوہر ان کے ہم محلّہ تھے، آصف علی کا مکان ان کے گھر کے بالکل سامنے تھا۔ مولانا محمد علی کے اخبار”کامریڈ” کا دفتر اور پریس بھی تھا۔ اس کے ساتھ جو مسجد تھی وہاں اخلاق احمد قرأت، فارسی اور عربی سیکھتے تھے اور بچوں کو نماز بھی پڑھاتے تھے۔ اخلاق احمد نے نو برس کی عمر میں قرآن شریف حفظ کیا اور رمضان شریف میں دلّی کی جامع مسجد میں محراب سنائی۔ اس تقریب میں مولانا محمد علی، شوکت علی، مولانا احمد سعید، مفتی اعظم کفایت اللہ اور حسن نظامی جیسے بزرگوں نے شرکت کی۔ وہ بتاتے ہیں کہ غدر کے زمانے سے آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کی پوتی شہزادی ہمارے ہاں مقیم تھیں۔ ان کا میں لے پالک تھا اور ان بزرگ خاتون کی وجہ سے ہمارے گھر میں ان نامور شخصیات کا مجمع لگا رہتا تھا۔

    اخلاق احمد جب چوتھی پانچویں جماعت میں تھے تو انھیں شعر کہنے کا شوق پیدا ہوا۔ یہ ایک مشاعرے میں گئے اور وہاں اپنی زندگی کی پہلی اور آخری غزل پڑھی جس کا ایک شعر یہ تھا۔

    شمع سے پوچھے کوئی کیوں اشک بار ہے
    پروانہ اس کے حسن پہ جب خود نثار ہے

    تابش دہلوی اور شان الحق حقی دونوں شاعر اخلاق احمد کے اسکول کے ساتھی تھے۔ ان سے یہ ضرور متاثر ہوئے۔ دہلی کے کوچہ چیلاں میں بھی کچھ ایسی ہستیاں تھیں جن کا اخلاق احمد نے اپنی کتاب میں زور و شور سے ذکر کیا ہے۔ یہ سب ان کے بچپن کے دورکی یادیں ہیں۔ اخلاق احمد نے جب میٹرک پاس کرلیا تو اب یہ فیصلہ ہونا تھا کہ وہ آگے کیا کریں گے۔ ان کی والدہ مرحومہ نے ان کی تعلیم و تربیت کی ذمے داری اپنی پھوپھی زاد بہن بیگم نور الحسن برلاس کو سونپی تھی۔ ان کی خواہش تھی کہ یہ علی گڑھ کالج جاکر پڑھیں۔ ان کی دادی انھیں دینی علوم کی تعلیم کے لیے دیوبند بھیجنا چاہتی تھیں۔ اسی کشمکش کے دوران خواجہ حسن نظامی نے انھیں اپنے ہفتہ وار اخبار ”ڈکٹیٹر” میں نائب ایڈیٹر بنا دیا مگر یہ رسالہ ایک بار چھپ کر بند ہوگیا۔ آصف علی نے یہ دیکھا تو انھیں بلاکر مولوی عبدالحق کے پاس بھیج دیا کہ جاؤ ان کے پاس انجمن ترقی اردو میں کام کرو جب تک آیندہ تعلیم کے بارے میں فیصلہ ہو۔ وہاں کیا ہوا، یہ اخلاق احمد سے سنیے۔ لکھتے ہیں ”مولوی صاحب نے پوچھا، آپ نے کچھ پڑھا لکھا ہے؟ میں نے عرض کیا، جی ہاں۔ اردو پڑھی ہے۔ فرمایا، اردو میں کیا پڑھا ہے؟ میں نے کہا، جتنی کتابیں اردو میں اب تک چھپ چکی ہیں۔ مولوی صاحب کی تیوری چڑھ گئی۔ کہنے لگے، جائیے۔ آصف علی صاحب سے میرا سلام کہیے اور کہیے مجھے اتنا پڑھا لکھا آدمی نہیں چاہیے۔”

    اخلاق احمد نے جب یہ ساری روداد آصف علی کو سنائی تو انھوں نے ڈانٹا اور کہا کہ حصولِ علم اپنی جہالت کی آگاہی کے لیے ہوتا ہے، شیخی بگھارنے کے لیے نہیں۔ پھر انھوں نے دوبارہ مولوی صاحب سے سفارش کی، اخلاق احمد نے بھی اظہار شرمندگی کیا تو مولوی صاحب نے مولوی احتشام الحق حقی کے زیرِ نگرانی اردو لغت کے کام پر ان کا تقرر کر دیا۔

    اخلاق احمد لکھتے ہیں۔ ”1941 میں میری عمر اکیس برس کی ہوگئی، اگر میٹرک کا امتحان پاس کر لینے کے بعد میری تعلیم کا سلسلہ جاری رہتا تو مجھے اب بی اے کر لینا چاہیے تھا لیکن میں میٹرک کرتے ہی خواجہ حسن نظامی کے ہفت روزہ اخبار کا ایڈیٹر بن کر باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے سے ایک طرح سے محروم ہوگیا، پھر مولوی احتشام الحق حقی کے ساتھ اردو لغت کی ترتیب کے کام میں لگ گیا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بقول احمد شاہ بخاری کے پڑھے نہ لکھے نام محمد ترقی پسند۔”

    لغت کا کام حقی صاحب کا انتقال ہوجانے پر ختم ہوگیا تو اخلاق احمد کو ملٹری اکاؤنٹس میں ملازمت مل گئی، پہلی پوسٹنگ میرٹھ میں ہوئی۔ کلرکی ان کے بس کی نہ تھی، چھ مہینے میں واپس دلّی آگئے۔ بیرسٹر آصف علی کے وسیلے سے آل انڈیا ریڈیو دلّی میں اناؤنسر کی جگہ مل گئی۔ یہاں بھی یہ لطیفہ ہوا کہ جس دن یہ اناؤنسر بنے اسی دن سے اناؤنسر سرکاری ملازم نہ رہے، کنٹریکٹ پر اسٹاف آرٹسٹ بن گئے، یعنی پنشن اور دوسری سرکاری مراعات سے محروم ہو گئے۔

    میرٹھ میں اگرچہ ان کا قیام مختصر تھا مگر وہاں کی باتیں دلچسپ ہیں۔ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔

    اخلاق احمد نے جب ریڈیو میں کام شروع کیا توکرشن چندر نے جو وہاں پہلے سے تھے، چاہا کہ اخلاق احمد ریڈیو مسودہ نگار بنیں۔ ان سے انھوں نے ایک مسودہ بھی لکھوایا لیکن ن۔ م۔ راشد اور حفیظ جاوید کا اصرار تھا کہ اخلاق احمد کو اناؤنسر رہنا چاہیے، آغا اشرف استعفیٰ دے کر جاچکے تھے، دوسرے اناؤنسر الیاس کا انتقال ہوگیا، غلام محی الدین بھی چلے گئے۔ اب تین مشہور ڈرامہ آرٹسٹ شکیل احمد، راج نارائن مہرا اور برہما نند متل دلّی ریڈیو اسٹیشن پر اناؤنسر بنا دیے گئے تھے۔ کچھ عرصے بعد اخلاق احمد ریڈیو پر خطوط کا جواب بھی دینے لگے۔ دلّی ریڈیو اسٹیشن پر ان دنوں ادیبوں کا جمگھٹا تھا۔ اخلاق احمد نے اس دورکی یادوں کو خوب تحریرکیا ہے۔ میرا جی، منٹو، اختر الایمان اور دوسرے ساتھیوں کا ذکر کیا ہے، یہ دلچسپ تحریریں ہیں۔

    پھر جب آزادی کی تحریک اور کانگریس اور مسلم لیگ کے اختلافات نے زور پکڑا تو اس کے اثرات ہر طرف نمایاں ہونے لگے۔ اخلاق احمد لکھتے ہیں۔ 1945-46 کا زمانہ خاصا افراتفری کا تھا۔ ہندو مسلم فسادات کا عہد۔ ہر طرف شور شرابا، مار کٹائی، گویا سارے ملک کی اینٹ سے اینٹ بج رہی تھی اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالی جا رہی تھی۔ سردار پٹیل جب انفارمیشن اور براڈ کاسٹنگ کے وزیر مقرر ہوئے تو ریڈیو کے مسلمان ملازمین کے لیے حالات خراب ہونے شروع ہوگئے۔ احمد شاہ بخاری کو یہ کہہ کر سبکدوش کردیا گیا کہ ریڈیو بخاری کے بغیر بھی چل سکتا ہے۔ آخر وہ دن آیا کہ دن گنے جاتے تھے جس دن کے لیے 3 جون 1947 کو پاکستان بننے کا اعلان کر دیا گیا۔

    اخلاق احمد لکھتے ہیں ”3 جون کی یہ شام اس برصغیر میں کوئی بھلا ہی نہیں سکتا۔ ایسی تاریخ ساز شام جس میں پاکستان بننے کا اعلان ہوا اور ہندوستان کی آزادی کی تاریخ مقرر ہوئی۔ میں نے ریڈیو کی اپنی 39 سالہ زندگی میں کوئی ایسی رنگین شام نہیں دیکھی جس میں مہمان خصوصی تھے لارڈ ماؤنٹ بیٹن، قائداعظم محمد علی جناح، جواہر لال نہرو اور سردار بلدیو سنگھ اور میزبان عمومی تھے۔ یعنی سید انصار ناصری، مسعود الحسن تابش، آغا صفدر، بی این متل کلارک اور میں۔”

    اخلاق احمد دہلوی اپنے قافلے کے ہمراہ 10 فروری 48ء کو پاکستان پہنچے۔ لکھتے ہیں ”میں لاہور پہنچتے ہی فکر معاش میں اچھرے سے شملہ پہاڑی پیدل پہنچا۔ جیسے ہی ریڈیو اسٹیشن میں داخل ہوا تو یوں محسوس ہوا جیسے نئے سرے سے ماں کے پیٹ میں آگیا ہوں۔ سب کے سب اس تپاک سے ملے، گویا ایک زبان ہوکر کہہ رہے ہوں۔

    بہت دیر کی مہرباں آتے آتے

  • ممتاز شیریں: اردو ادب کی ناقابلِ فراموش شخصیت

    ممتاز شیریں: اردو ادب کی ناقابلِ فراموش شخصیت

    ممتاز شیریں اردو ادب کی وہ افسانہ نگار، نقّاد اور مترجم ہیں جن کی تخلیقات اور ادبی بصیرت کا اعتراف اپنے وقت کے ہر بڑے اہلِ قلم نے کیا۔ ممتاز شیریں نے ادبی سفر کے ساتھ زندگی کے آخری ایّام میں بطور مشیر وفاقی وزاتِ تعلیم کے لیے بھی خدمات انجام دیں۔

    ممتاز شیریں نہ صرف یہ کہ خود بہت اچھی قلم کار اور صحافی تھیں، مطالعے کا نکھرا ستھرا ذوق بھی رکھتی تھیں بلکہ ان کی جستجو تھی کہ ادیبوں شاعروں کے ساتھ ساتھ با ذوق قارئین تک ہر زبان کی معیاری کتابیں بھی پہنچیں۔ چنانچہ انھوں نے اعلیٰ پیمانے پر کتابوں کی ایک فرم بھی کراچی میں قائم کر رکھی تھی۔

    اُردو ادب کو ممتاز شیریں نے اپنے ادبی شعور، تخلیقی حساسیت اور ذہانت سے عمدہ افسانے اور معیاری تنقید کے ساتھ بہترین تراجم بھی دیے۔ اسی طرح مشاہیر، ہم عصر ادیبوں اور احباب کے نام اُن کے خطوط نہ صرف ان کی شخصیت کے مختلف النوع پہلوؤں کو اُجاگر کرتے ہیں بلکہ اپنے دور کے حالات، ادبی تاریخ و رجحانات کے ساتھ علم و ادب کی دنیا میں مسائل اور سرگرمیوں کا احاطہ بھی بڑی خوبی سے کرتے ہیں۔

    ممتاز شیریں 11 مارچ 1973ء کو انتقال کرگئی تھیں۔ آج ان کی برسی ہے۔ ممتاز شیریں سے ایک ملاقات کے عنوان سے میرزا ادیب لکھتے ہیں: "ممتاز شیریں جس وقت دنیائے ادب میں داخل ہوئیں تو ان کی حیثیت افسانوں کے ایک سخت گیر نقاد کی تھی۔ ان کے مضامین پڑھے تو پتہ چلا کہ یہ خاتون اردو کے افسانے تو رہے ایک طرف انگریزی، روسی اور فرانسیسی افسانوی ادب کا بھی بالاستیعاب مطالعہ کرچکی ہیں۔

    ان کا مقالہ” تکنیک کا تنوع” سویرا میں چھپا تو ہر طرف اس کی دھوم مچ گئی۔ یہ مقالہ ایک ایسے ذہن کی پیداوار معلو ہوتا تھا جس نے برسوں افسانے کی متنوع تکنیک سمجھنے کی کوشش کی اور دنیا کے نام ور افسانہ نگاروں کے مشہور افسانوں کو غور و فکر کی گرفت میں لے چکا ہے۔ یہ مضمون اور ان کے دوسرے مضامین پڑھ کر میں نے ان کے بارے میں ایک خاص تصویر بنالی تھی اس کے بعد ان کے افسانے چھپنے لگے معلوم ہوا کہ وہ جتنی اچھی نقاد ہیں اسی قدر ماہر فن افسانہ نگار بھی ہیں۔

    اپنی افسانوی تحقیقات میں وہ زندگی کی ہر حقیقت کو، وہ کتنی بھی تلخ اور مکروہ کیوں نہ ہو، اس کی پوری جزیات کے ساتھ پیش کردیتی تھیں۔ جنتی موضوعات کے سلسلے میں ان کا قلم خاص طور پر بڑا بے باک تھا۔ سعادت حسن منٹو ان کا پسندیدہ افسانہ نگار تھا۔ اس سے بھی ان کے تخلیقی رجحانِ طبع کا اندازہ ہو جاتا ہے۔”

    انگڑائی، ممتاز شیریں کا پہلا افسانہ تھا جو مشہور ادبی مجلّہ ساقی (دہلی) میں 1944ء میں شائع ہوا تھا۔ اس افسانہ کو اس وقت کے اہل قلم نے بہت سراہا۔ ممتاز شیریں نے بعد میں‌ افسانہ نگاری کے ساتھ اپنی تنقید اور تراجم سے بھی ادب کی دنیا کو مالا مال کیا۔ وہ معروف ادبی جریدے نیا دور کی مدیر بھی رہیں۔ ممتاز شیریں کا شمار ان خواتین ادیبوں میں ہوتا ہے جنھوں نے روایتی سوچ کو مسترد کردیا اور اپنے بے باکی سے اپنے افکار کا اظہار ادبی تحریروں میں کرتی رہیں۔

    12 ستمبر 1924ء کو آندھرا پردیش کے ایک علاقہ ہندو پور میں پیدا ہونے والی ممتاز شیریں کا بچپن ننھیال میں گزرا۔ ان کے نانا میسور میں مقیم تھے اپنی نواسی کو تعلیم و تربیت کی غرض سے اپنے رکھ لیا تھا۔ ممتاز شیریں نہایت ذہین اور قابل طالبہ ثابت ہوئیں۔ گھر کا ماحول بھی علمی و ادبی تھا جس نے انھیں بھی مطالعہ کا شوقین بنا دیا اور پھر وہ لکھنے لکھانے کی طرف راغب ہوئیں۔ 1942ء میں ممتاز شیریں کی شادی صمد شاہین سے ہو گئی۔ ان کے شوہر تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان میں سرکاری عہدے پر فائز رہے اور بیرونِ ملک بھی قیام کیا۔ ممتاز شیریں نے پاکستان میں کراچی کو اپنا مستقر ٹھہرایا تھا۔

    ممتاز شیریں کے افسانوی مجموعوں میں اپنی نگریا، حدیثِ دیگراں اور میگھ ملہار شامل ہیں جب کہ ان کے تنقیدی مضامین کے مجموعے معیار اور منٹو، نہ نوری نہ ناری کے نام سے شایع ہوئے۔ انھوں نے جان اسٹین بک کے مشہور ناول دی پرل کا اردو ترجمہ دُرِشہوار کے نام سے کیا تھا۔ ممتاز شیریں کی آپ بیتی اور خطوط بھی لائقِ مطالعہ ہیں۔

  • یوسف ظفر: شعر و ادب کی دنیا کا ایک بھولا بسرا نام

    یوسف ظفر: شعر و ادب کی دنیا کا ایک بھولا بسرا نام

    اردو زبان و ادب کے فروغ اور اپنے تخلیقی کاموں کی بدولت نام و مقام پانے والے یوسف ظفر کا تذکرہ آج بہت کم ہی ہوتا ہے، اور بالخصوص نئی نسل ان سے واقف نہیں ہے۔ وہ ایک کہنہ مشق شاعر، ادیب اور صحافی تھے۔ یوسف ظفر معروف ادبی جریدے ہمایوں کے مدیر اور حلقۂ اربابِ ذوق کی بنیاد ڈالنے والوں میں سے ایک تھے۔

    یوسف ظفر یکم دسمبر 1914ء کو مری میں پیدا ہوئے۔ 1936ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ وہ پندرہ سال کے تھے جب والد اور اسی روز بڑی بہن کی اچانک وفات کا صدمہ اٹھانا پڑا۔ والد کے انتقال کے بعد گھر کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر آ گئی۔ یوسف ظفر نے کنبے کی ضروریات پوری کرنے کے دوران انتہائی نامساعد حالات میں اپنی زندگی بسر کی۔ وہ معاش کے لیے مشکلات کے سائے تلے جدوجہد میں مصروف رہے۔ اس کے ساتھ ان کا شعری سفر اور ادبی سرگرمیاں بھی ان کے ذوق و شوق کی تسکین کے ساتھ غمِ دوراں سے ان کے فرار کا بہانہ بنی رہیں۔ 1939ء میں یوسف ظفر نے مشہور شاعر میرا جی کے ساتھ حلقہ ارباب ذوق کی بنیاد ڈالی۔ قیامِ پاکستان کے بعد انھوں نے جہاں ادبی جریدے کی ادارت سنبھالی وہیں ریڈیو پاکستان سے بھی وابستہ ہوئے۔ وہ اسٹیشن ڈائریکٹر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔

    شاعر و ادیب یوسف ظفر کے تخلیقی سفر کو سمجھنے کے لیے ان مرکزی تحریکات و رجحانات کو مدنظر رکھنا ہو گا جن سے اردو شعر و ادب توانا ہوتا رہا اور ان تحریکوں میں خاص طور پر ترقی پسند تحریک اور تحریک حلقۂ ارباب ذوق کا نام لیا جائے گا۔ لاہور میں حفیظ ہوشیار پوری کے زیر صدارت پہلے جلسہ کے بعد جب قیوم نظر، میرا جی، ن م راشد جیسے شعرا اور ادیبوں کے ساتھ یوسف ظفر بھی شامل ہوئے تو اس کے اغراض و مقاصد میں بھی توسیع ہوئی اور اس انجمن نے پاکستان بھر میں اہل قلم شخصیات کو اپنی جانب متوجہ کرلیا۔

    یوسف ظفر کے شعری مجموعے نوائے ساز، عشق پیماں، حریمِ وطن، صدا بہ صحرا، زہر خند اور زنداں کے نام سے شایع ہوئی اور سوانح عمری ظفر کی بات کے عنوان سے منظر عام پر آئی۔ یوسف ظفر نے یہودیت موضوع پر بھی ایک کتاب تصنیف کی تھی۔

    7 مارچ 1972ء کو راولپنڈی میں انتقال کرنے والے یوسف ظفر کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    وہ میری جان ہے دل سے کبھی جدا نہ ہوا
    کہ اس کا غم ہی مری زیست کا بہانہ ہوا

    نظر نے جھک کے کہا مجھ سے کیا دم رخصت
    میں سوچتا ہوں کہ کس دل سے وہ روانہ ہوا

    وہ یاد یاد میں جھلکا ہے آئنے کی طرح
    اس آئنہ میں کبھی اپنا سامنا نہ ہوا

    میں اس کے ہجر کی تاریکیوں میں ڈوبا تھا
    وہ آیا گھر میں مرے اور چراغ خانہ ہوا

    وہ لوٹ آیا ہے یا میری خود فریبی ہے
    نگاہ کہتی ہے دیکھے اسے زمانہ ہوا

    اسی کی یاد ہے سرمایۂ حیات ظفرؔ
    نہیں تو میرا ہے کیا میں ہوا ہوا نہ ہوا

  • صوفیانہ کلام گانے والے اقبال باہو کا تذکرہ

    صوفیانہ کلام گانے والے اقبال باہو کا تذکرہ

    پاکستان میں‌ صوفیانہ کلام کی بدولت بطور گلوکار شہرت اور مقبولیت حاصل کرنے والوں میں اقبال باہو بھی شامل ہیں جنھوں نے کلامِ باہو، ہیر، سیف الملوک کے علاوہ دیگر صوفی شعرا کی شاعری کو اپنے مخصوص انداز میں گایا اور اندرونِ ملک ہی نہیں‌ دنیا بھر میں ان کی گائیکی کو سراہا گیا۔

    محمد اقبال ان کا اصل نام تھا اور سلطان باہو کا کلام گانے کی وجہ سے اقبال باہو کے نام سے مشہور ہوئے۔ اقبال باہو قیامِ پاکستان سے تین برس پہلے گورداس پور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والدین ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور لاہور میں محمد اقبال کی تعلیم و تربیت ہوئی۔

    تعلیم مکمل کرنے کے بعد انھوں نے ایک بینک میں ملازمت اختیار کر لی اور ساتھ ہی گائیکی کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ ریڈیو پاکستان سے شہرت کا سفر شروع ہوا اور پھر ٹیلی ویژن پر ناظرین نے انھیں دیکھا اور سنا۔ اقبال باہو بیرونِ ملک بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے لیے مدعو کیے جاتے تھے۔ اقبال باہو کو کئی لوک گیت ازبر تھے اور لوک گیت گانے کے علاوہ جب انھوں نے مشہور صوفی شاعر سلطان باہو کا کلام گانا شروع کیا تو لوگوں‌ نے انھیں بہت پسند کیا اور وہ اقبال باہو مشہور ہوگئے۔

    اقبال باہو ان گلوکاروں‌ میں سے ایک تھے جو صوفیا کا کلام گاتے ہوئے زبان و بیان اور کلاسیکی الفاظ کے تلفظ کا خاص خیال رکھتے تھے۔ سلطان باہو کے علاوہ بابا فرید کا کلام ان کی آواز میں بہت پسند کیا جاتا تھا اور ان کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ قدیم پنجابی الفاظ کو درست تلفظ میں ادا کریں۔

    اقبال باہو نے امریکہ اور یورپ کے علاوہ بھارت کے مختلف شہروں میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ معروف گلوکار اقبال باہو 24 مارچ 2012ء کو لاہور میں انتقال کر گئے تھے۔ ان کی عمر68 برس تھی۔ اقبال باہو کو 2008ء میں تمغائے امتیاز سے نوازا گیا تھا۔

  • اسٹیفن ہاکنگ: حیرت انگیز شخصیت، ناقابلِ یقین کام یابیاں

    اسٹیفن ہاکنگ: حیرت انگیز شخصیت، ناقابلِ یقین کام یابیاں

    دھڑ سے معذور اور وہیل چیئر کے محتاج اسٹیفن ہاکنگ دنیا کے اُن انسانوں کے لیے مثال ہیں جو صحّت مند اور توانا ہونے کے باوجود ناامیدی اور مایوسی کا شکار ہو کر قدرت کی عطا کردہ نعمتوں، وسائل اور امکانات کو پہچاننے میں ناکام رہتے ہیں۔ وہ اپنا بوجھ اٹھانے کے بجائے دوسروں پر بوجھ بن جاتے ہیں اور تقدیر سے شکوہ کناں رہتا ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ سائنس کی دنیا کا وہ نام ہے جسے صدیاں یاد رکھیں گی۔

    14 مارچ آئن سٹائن کا یومِ پیدائش ہے اور اسی تاریخ کو 2018ء میں اسٹیفن ہاکنگ کا انتقال ہوا تھا۔ ان دونوں سائنسدانوں کی بہت سے قدریں مشترک بھی ہیں۔ عظیم سائنس داں آئن اسٹائن کی طرح اسٹیفن ہاکنگ بھی مذہب اور خدا سے متعلق اپنے نظریات کی وجہ سے مختلف مذاہب کے پیروکاروں میں متنازع رہے۔ اسٹیفن ہاکنگ کا تصور یہ تھا کہ خدا کا مادّی وجود نہیں ہے اور وہ اسی کے قائل تھے۔ سائنس داں اسٹیفن ہاکنگ کا خیال تھا کہ کائنات کا نظام آفاقی عالمگیر قوانین کے تحت چل رہا ہے جنہیں تبدیل کرنا ممکن نہیں۔ اسٹیفن ہاکنگ نے دنیا کو کائنات کے راز سمجھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انھیں آئن سٹائن کے بعد گزشتہ صدی کا دوسرا بڑا سائنس داں کہا جاتا ہے۔

    شہرۂ آفاق ماہرِ کونیات اسٹیفن ہاکنگ کی کتاب "اے بریف ہسٹری آف ٹائم” نے انھیں بین الاقوامی سطح‌ پر شہرت دی اور دنیا ان کے علمی اور سائنسی کارناموں سے واقف ہوئی۔ اسٹیفن ہاکنگ 8 جنوری 1942ء کو برطانیہ میں پیدا ہوئے۔ نوجوانی میں ان کی زندگی کا ایک بدترین اور تکلیف دہ موڑ اس وقت آیا جب وہ موٹر نیوران جیسی مہلک اور جسم کو مفلوج کر دینے والے مرض کا شکار ہوگئے۔ جس وقت اسٹیفن ہاکنگ کو یہ مرض لاحق ہوا، وہ صرف 21 سال کے تھے۔ ان کے والدین کو ڈاکٹروں نے بتایا کہ ان کا بیٹا مزید دو سال تک ہی زندہ رہ سکے گا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔قدرت نے اس نوجوان کو اس کی مضبوط قوّتِ ارادی اور ہمّت کی بدولت 55 سال دنیا کو دینے کا موقع دیا۔ یہی نہیں بلکہ اس مرض سے لڑتے ہوئے وہ مکمل طور پر مفلوج ہوجانے کے باوجود عملی سائنس سے جڑے رہے اور اپنے سائنسی تحقیقی کام سے دنیا کو بہت کچھ دے گئے۔ انھوں نے اپنے متحرک اور توانا ذہن کی مدد سے کائنات کی وسعتوں کو کھوجتے، اور سمجھتے ہوئے وقت گزارا اور دنیا کو فلکیات اور خلا کے کئی راز بتائے اور امکانات کا راستہ دکھایا۔

    جین ہاکنگ وہ لڑکی تھی جس نے بیس برس کی عمر میں ہاکنگ سے شادی کی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اُس نے ایک اعصابی اور نہایت خطرناک مرض میں مبتلا نوجوان کا ہاتھ تھاما ہے۔ مگر پھر جین نے اگلے 26 سال تک ہاکنگ کا ساتھ بخوبی نبھایا اور علم و سائنس کے میدان میں اسٹیفن کی کام یابیوں میں جین نے بھی بڑا کردار ادا کیا۔ اس جوڑے کے گھر تین بچّے پیدا ہوئے۔ جین نے اپنے وہیل چیئر تک محدود رہنے والے شوہر کا خیال رکھنے کے ساتھ اپنے بچّوں کی پرورش بھی کی۔ اگرچہ عرصہ بعد ان کے مابین طلاق ہوگئی تھی، لیکن اسٹیفن ہاکنگ اور جین کی یہ رفاقت مثالی ہے۔

    اسٹیفن ہاکنگ کا دھڑ حرکت کرنے سے قاصر تھا، وہ قوتِ گویائی سے بھی محروم تھے، لیکن انھوں نے اپنی ذہنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کیا۔ کائنات کے کئی رازوں سے پردہ اٹھانے والے اس سائنس داں نے اپنے مضامین اور اہم موضوعات پر چونکا دینے والے اور پُرمغز و نہایت مفید مقالوں سے دنیا کی توجہ حاصل کر لی تھی۔ انھوں نے آئن اسٹائن کے نظریۂ اضافت کی تشریح کے علاوہ بلیک ہول سے تابکاری کے اخراج پر اپنا سائنسی نظریہ پیش کیا جو آنے والوں کے لیے کائنات کو سمجھنے اور اسے مسخّر کرنے میں‌ مددگار ثابت ہورہا ہے۔ وہ ریاضیات، طبیعات اور کونیات پر اپنی تحقیق و جستجو کا نچوڑ کتابی شکل میں دنیا کو دے گئے۔ اسٹیفن ہاکنگ کی دل چسپی اور تحقیقی سرگرمیوں کا مرکز اور محور علمِ طبیعیات اور اس کے موضوعات تھے۔

    اسٹیفن ہاکنگ کو بالخصوص بلیک ہول کی پرسراریت اور وقت سے متعلق ان کے نظریات اور
    تحقیقی کام کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

  • آغا شاعر قزلباش: ایک نابغہ روزگار شخصیت کا تذکرہ

    آغا شاعر قزلباش: ایک نابغہ روزگار شخصیت کا تذکرہ

    آغا شاعر قزلباش اردو زبان و ادب کی ایک نہایت مشہور اور ممتاز شخصیت تھے۔ انھیں ہندوستان بھر میں استادِ فن اور زبان داں کے طور پر پہچانا جاتا تھا۔ وہ نظم اور نثر دونوں‌ اصنافِ ادب میں‌ اپنے کمالِ فن کی بدولت مشہور ہوئے۔ آغا صاحب کی قابلیت اور علمی استعداد کا عالم یہ تھا کہ شاعرِ‌ مشرق علّامہ اقبال اور ان جیسے کئی بڑے نام اور قابل شخصیات بھی زبان و بیان کے معاملہ میں ان سے رجوع کرتی تھیں۔ آغا صاحب 11 مارچ 1940ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    آغا شاعر قزلباش دہلوی شاعر اور ڈرامہ نویس بھی تھے۔ وہ اپنے وقت کے استاد شاعر داغ دہلوی کے شاگرد تھے، لیکن اس سے پہلے ہی زبان و بیان پر عبور اور مشاعروں میں‌ اپنی خوش گوئی کے سبب ہر خاص و عام میں مشہور ہوچکے تھے۔ ان کے ہم عصر اور اپنے زمانے میں استاد شاعر کا درجہ رکھنے والے بھی آغا صاحب کے کلام کی فصاحت، روانی اور برجستگی کے معترف رہے۔ ہندوستان میں آغا شاعر قزلباش کے سیکڑوں شاگرد تھے۔

    شاعر اور ادیب آغا صاحب 5 مارچ 1871ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام آغا مظفر علی بیگ قزلباش تھا۔ ان کے جد اعلٰی ان سپاہیوں میں تھے جو نادر شاہ کی فوج میں شامل ہو کر دہلی آئے اور وہیں بس گئے۔ آغا شاعر کے والد آغا عبد علی بیگ بھی شاعر تھے اور فدائی تخلص کرتے تھے۔ دہلی کے کشمیری گیٹ کے محلّہ کھڑکی ابراہیم خاں میں سکونت پذیر یہ کنبہ آسودہ حال تھا۔ وہ اپنی ماں کے بہت لاڈلے تھے۔ آغا صاحب کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ عربی اور قرآن کا درس گھر پر لیا جب کہ فارسی ان کے گھر کی زبان تھی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد دہلی کی مشہور درس گاہ اینگلو عربک اسکول میں داخلہ ہوگیا اور وہیں سے آٹھویں جماعت کا امتحان پاس کیا، اسکول کے زمانہ میں ہی مضمون نویسی اور شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ اسی زمانہ میں آغا صاحب کی ماں وفات پاگئیں اور باپ کی دوسری شادی کے بعد وہ سوتیلی ماں کے ہاتھوں تنگ ہوتے رہے اور پھر انہیں گھر سے نکال دیا گیا۔ بعد میں انھوں نے اپنی علمی استعداد میں خود اضافہ کیا اور اپنے لکھنے پڑھنے کے شوق اور لگن کی بدولت کام یاب ہوئے۔ ان کا خط بہت عمدہ تھا اور اسی سے متاثر ہوکر ایک بیگم صاحبہ نے انھیں نہ صرف پناہ دی بلکہ اپنی غزلیں خوش خط لکھنے کا کام سونپ دیا۔ انہی کے توسط سے بعد میں وہ قدم جمانے میں کام یاب ہوئے اور دہلی کے مشاعروں میں ان کی شرکت لازمی ہوگئی۔ ان کی غزلیں گانے والیوں کے کوٹھوں میں گونجنے لگیں اور گلی کوچوں میں گائی جانے لگیں۔ بعد میں حیدرآباد دکن کا رخ کیا تو وہاں داغ دہلوی کے شاگرد ہوگئے۔ وہیں سے شوخیٔ مضمون اور روزمرہ کا بے تکلف استعمال آپ کے کلام کا جزوِ لازم بنا۔ آغا شاعر قزلباش ایک اچھے ڈرامہ نگار بھی تھے۔ انھوں نے جو چند ڈرامے لکھے ان میں حورِ عرب مشہور ہوا۔

    وہ گوناگوں صلاحیتوں کے مالک تھے۔غزلوں کے علاوہ ان کی نظمیں، مرثیے اور منظوم تراجم بھی مقبول ہوئے۔ انھوں نے ڈرامہ نگاری کے علاوہ انشائیہ بھی لکھا اور ناول نگاری بھی کی۔ انھوں نے قرآن پاک کا منظوم ترجمہ اور عمر خیام کے رباعیات کا بھی منظوم اردو ترجمہ کیا۔ ان کی نثر کا مجموعہ بھی خمارستان کے نام سے شایع ہوا تھا۔ آغا شاعر قزلباش دہلوی کی شعری تصانیف میں تیر و نشر، آویزۂ گوش، دامنِ مریم اور پرواز شامل ہیں۔

    آغا شاعر قزلباش کا ایک شعر دیکھیے

    لو ہم بتائیں غنچہ و گل میں ہے فرق کیا
    اک بات ہے کہی ہوئی اک بے کہی ہوئی

    آغا شاعر کو آخری عمر میں مختلف بیماریوں نے گھیر رکھا تھا، جگر اور معدہ جواب دے گئے تھے۔ مہاراجہ کشن پرشاد شاد نے ماہانہ وظیفہ مقرر کر رکھا تھا، خیر پور سے بھی سالانہ وظیفہ ملتا تھا اسی پر گزر بسر تھی۔ بعد از مرگ صفدر جنگ کے قریب قبرستان درگاہ شاہ مرداں میں تدفین کی گئی تھی۔