Tag: مارچ وفیات

  • وہ مشہور کھیل جس کے قواعد و ضوابط کراچی میں‌ وضع کیے گئے!

    وہ مشہور کھیل جس کے قواعد و ضوابط کراچی میں‌ وضع کیے گئے!

    یہ تذکرہ ہے پروفیسر حشمت اللہ لودھی کا جو شہر کراچی کو دنیا کے ایک مقبول کھیل کا ‘وطن’ بتاتے ہیں۔ پاکستان بالخصوص کراچی کے باسیوں جن میں اس کھیل کے شیدائی بھی شامل ہیں، ان کے لیے یہ تحریر دل چسپ ہی نہیں معلوماتی بھی ثابت ہوگی۔

    پروفیسر صاحب ایک علمی شخصیت، ماہرِ تعلیم اور کھلاڑی تھے جو معلوماتِ عامّہ سے متعلق تصنیف و تالیف میں‌ مشغول رہے۔ یہی مشغلہ ان کی قابلِ ذکر پہچان بھی بنا۔ حشمت اللہ لودھی 2019ء میں آج ہی کے دن انتقال کر گئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ ان کی عمر 90 برس تھی۔ وہ لکھنؤ میں 1929ء کو پیدا ہوئے اور تقسیم ہند کے بعد کراچی آئے جہاں شعبۂ تعلیم کے لیے خدمات انجام دینے کے ساتھ بالخصوص نوجوانوں اور طلبہ میں معلوماتِ عامّہ کے فروغ کے لیے کتب تصنیف کیں۔ سائنس کے موضوع اور معلوماتِ عامّہ پر ان کے ترتیب دیے ہوئے متعدد پروگرام ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر نشر ہوئے۔ یہاں ہم ان کی ایک کتاب سے بیڈمنٹن کے کھیل سے متعلق دل چسپ اور معلوماتی پارے نقل کر رہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "آج دنیا میں جتنے بھی کھیل عالمی سطح پر کھیلے جارہے ہیں، تقریباً ان سب کی ابتدا مغرب ہی سے ہوئی، لیکن چند کھیل ایسے بھی ہیں جنھوں نے مشرق میں جنم لیا ہے۔ ہاکی اور پولو کا آغاز ایران سے ہوا ہے۔ بیڈمنٹن کے بارے میں مختلف مؤرخین کی مختلف آراء ہیں۔ چند تاریخ دانوں نے بیڈمنٹن کو دنیا کے قدیم ترین کھیلوں میں سے ایک کھیل قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کھیل آج سے دو ہزار سال قبل چین اور ایشیا کے دوسرے حصوں میں کھیلا جاتا تھا۔ چند محققین نے یہ خیال بھی ظاہر کیا ہے کہ بیڈمنٹن بچوں کے اس کھیل کی جدید شکل ہے جسے یورپ میں بیٹل ڈور اور شٹل کاک کہا جاتا تھا۔

    تاریخ کی کتابوں میں یہ بھی ملتا ہے کہ بیڈمنٹن سے ملتا جلتا ایک کھیل برصغیر میں بھی کھیلا جاتا تھا جسے لوگ پونا کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس کھیل کا نام بمبئی کے قریب واقع ایک شہر پونا سے منسوب کر دیا گیا ہو، تاہم ان آراء کے پیشِ نظر یہ بات زیادہ قرین قیاس ہے کہ بیڈمنٹن کی ابتدا برصغیر ہی سے ہوئی اور یہ کھیل یہاں سے شروع ہو کر مغرب میں پہنچا اور وہاں سے نئی شکل اختیار کر کے دنیا کے دوسرے ممالک میں کھیلا جانے لگا۔

    بیڈمنٹن کے ابتدائی مراحل نہ صرف برصغیر میں تشکیل دیے گئے بلکہ پاکستان کے سب بڑے تجارتی شہر کراچی میں انجام پائے۔ ابھی برصغیر پر انگریزوں کی حکومت کا ابتدائی دور تھا کہ برصغیر میں مقیم چند انگریز فوجیوں نے اس کھیل کو پسند کیا اور جب وہ اپنی مدّتِ ملازمت ختم کر کے اپنے وطن انگلستان پہنچے تو یہی کھیل ان کی دل چسپی اور دل بستگی کا مرکز بن گیا۔ اور بالآخر انگلستان کے جنوب مغرب میں واقع گلوسٹر شائر نامی کاؤنٹی کے ایک گاؤں بیڈمنٹن سے نئی آب و تاب لے کر ایسا ابھرا کہ تمام عالم پر چھا گیا۔ واضح رہے کہ 1974 میں برطانیہ کی مختلف کاؤنٹیوں کی نئی حد بندی کے بعد اب اس گاؤں کو ایک نئی کاؤنٹی ایون میں شامل کر دیا گیا ہے۔

    کہا جاتا ہے کہ غالباً 1870 کی ایک شامل ڈیوک آف بیو فورٹ نے ایک شان دار دعوت کا اہتمام کیا۔ مہمانوں کی خاطر تواضع کے لیے طرح طرح کے کھانے پکوائے گئے اور انھیں نت نئے انداز سے پیش کیا گیا۔ تقریب کو یادگار بنانے کے لیے ایک ایسے کھیل کا بھی اہتمام کیا گیا جو اکثر مہمانوں کے لیے نیا یہ تھا۔ اس سلسلے میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ اس وقت تک بیڈمنٹن اپنی کئی شکلوں سے کھیلا جاتا رہا تھا، لیکن اسے باقاعدہ ایک کھیل کی حیثیت حاصل نہیں ہوئی تھی۔

    ڈیوک آف بیوفورٹ کی رہائش گاہ کا مرکزی ہال خواتین اور حضرات سے بھرا ہوا تھا۔ ہال کے درمیان ایک ڈوری لگا دی گئی تھی اور مہمانوں کو یکے بعد دیگرے ریکٹس دے کر کھیل میں شرکت کے لیے مدعو کیا گیا۔ حاضرین نے اس کھیل میں جو ان کے لیے بالکل نیا تھا، بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا اور سب کے سب اس قدر محظوظ ہوئے کہ وہ دل چسپ شام ان کی زندگی کا ایک یادگار حصّہ بن گئی۔

    بیڈمنٹن نامی گاؤں میں منعقد ہونے والی اس تقریب میں شامل ایک مہمان جب اپنے فرائضِ منصبی کی ادائیگی کے لیے انگلستان سے کراچی پہنچا تو اس کی روح اس وقت تک ان لمحات اور کیفیات سے سرشار تھی جو ڈیوک آف بیوفورٹ کے محل میں اس نے گزارے تھے۔ نوجوان نے اس یاد کو تازہ کرنے کے لیے اس نئے کھیل کا باقاعدہ اہتمام کیا۔ یہ اہتمام کراچی کے ایک ایسے ہال میں کیا گیا جو اپنی چوڑائی کے اعتبار سے موجودہ بیڈمنٹن کورٹ کے برابر تھا، اس ہال میں داخل ہونے کے لیے دو دروازے ہال کے درمیان میں اور اندر کی طرف کھلتے تھے۔ اس ہال کے اندر بیڈمنٹن کا کورٹ Hour Glass کی شکل کا بنایا گیا۔ یعنی اس کا درمیانی حصّہ جس میں‌ جال لگایا گیا تھا، نسبتاً کم چوڑا تھا جب کہ کورٹ کی چوڑائی پیچھے کی جانب بتدریج زیادہ ہوگئی تھی۔ یہ بتانا تو بہت مشکل ہے کہ یہ کراچی کا کون سا ہال تھا، جس میں یہ کھیل کھیلا گیا، لیکن بعد از تحقیق پتا چلا ہے کہ یہ واقعہ 1877ء کے لگ بھگ ظہور پذیر ہوا تھا۔

    کراچی کو صرف یہی اعزاز حاصل نہیں‌ کہ بیڈمنٹن کا پہلا باقاعدہ میچ یہاں کھیلا گیا بلکہ اس کھیل کے قواعد و ضوابط بھی پہلی بار 1877 میں کراچی ہی میں‌ وضع کیے گئے۔ اس کے سولہ سال بعد 1893 میں انگلستان میں بیڈمنٹن ایسوسی ایشین آف انگلینڈ کا قیام عمل میں آیا۔ اس ادارے نے کراچی میں تشکیل دیے گئے قواعد اور قوانین کو ازسرِ نو مرتب کیا۔

    چراغ سے چراغ جلتا ہے کہ مصداق ایسا ہی کچھ بیڈمنٹن کے سلسلے میں پیش آیا۔ بیڈمنٹن کا دیسی کھیل برصغیر سے انگلستان پہنچا اور انگلستان ہی سے بدیسی روپ اختیار کر کے ایک بار پھر برصغیر میں رواج پایا۔”

    پروفیسر صاحب اس مضمون میں مزید لکھتے ہیں:

    پہلی جنگِ عظیم کے بعد یہ کھیل دنیا میں اس قدر مقبول ہوا کہ اس کے فروغ کے لیے ایک عالمی ادارے کی ضرورت شدّت سے محسوس کی جانے لگی۔ 1934ء میں اس کا عالمی ادارہ انٹرنیشنل بیڈمنٹن فیڈریشن قائم کیا گیا۔

  • بالی وڈ کی باکمال اداکارہ کی ایک غزل!

    بالی وڈ کی باکمال اداکارہ کی ایک غزل!

    مینا کماری کو ملکۂ غم کہا جاتا ہے جس کا سبب فلموں میں نبھائے گئے ان کے وہ المیہ اور حزنیہ کردار ہیں‌ جو ان کے کمالِ فن کی یادگار ہیں۔ مہ جبین ان کا اصل نام تھا، لیکن فلم انڈسٹری اور اپنے لاکھوں پرستاروں میں مینا کماری کے نام سے مشہور ہوئیں۔

    اس اداکارہ کی ذاتی زندگی بھی رنج و غم اور دکھوں سے بھری پڑی تھی۔ وہ ازدواجی سفر میں‌ ناکامی کے بعد کئی پریشانیوں اور ذہنی الجھنوں‌ کا شکار رہیں جو 1972ء میں ان کے موت کے ساتھ ہی تمام ہوسکیں۔

    قدرت نے ماہ جبین کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ وہ باکمال اداکارہ تو تھی ہیں، ان کی آواز بھی بہت دل نشیں تھیں، لیکن یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں‌ کہ وہ شاعرہ بھی تھیں۔ مینا کماری کا تخلّص ناز تھا۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ یہاں‌ ہم چار دہائی قبل دنیا سے ناتا توڑ لینے والی مینا کماری کی ایک غزل پیش کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    عیادت ہوتی جاتی ہے، عبادت ہوتی جاتی ہے
    مرے مرنے کی دیکھو سب کو عادت ہوتی جاتی ہے

    تیرے قدموں کی آہٹ کو یہ دل ہے ڈھونڈتا ہر دَم
    ہر اک آواز پر اک تھرتھراہٹ ہوتی جاتی ہے

    یہ کیسی یاس ہے، رونے کی بھی اور مسکرانے کی
    یہ کیسا درد ہے کہ جھنجھناہٹ ہوتی جاتی ہے

    کبھی تو خوب صورت اپنی ہی آنکھوں میں ایسے تھے
    کسی غم خانہ سے گویا محبّت ہوتی جاتی ہے

    خود ہی کو تیز ناخونوں سے ہائے نوچتے ہیں اب
    ہمیں اللہ خود سے کیسی الفت ہوتی جاتی ہے

  • معروف مترجم، مدیر اور متعدد معلوماتی کتب کے مؤلف سیّد قاسم محمود کی برسی

    معروف مترجم، مدیر اور متعدد معلوماتی کتب کے مؤلف سیّد قاسم محمود کی برسی

    آج اردو کے ممتاز مترجم، صحافی، افسانہ نگار اور متعدد معلوماتی اور حوالہ جاتی کتب کے مؤلف سیّد قاسم محمود کا یومِ‌ وفات ہے۔ ان کی زندگی کا سفر 31 مارچ 2010ء کو تمام ہوا تھا۔ سیّد قاسم محمود جوہر ٹائون، لاہور کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

    وہ 17 نومبر 1928ء کو کھرکھودہ، ضلع روہتک میں پیدا ہوئے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد 1951ء میں پنجاب میں مجلسِ زبانِ دفتری سے بطور مترجم منسلک ہوئے۔ بعد کے برسوں میں انھوں نے لیل و نہار، صحیفہ، کتاب، سیّارہ ڈائجسٹ، ادبِ لطیف اور قافلہ جیسے جریدوں کی ادارت کی۔

    1970ء میں لاہور سے انسائیکلو پیڈیا کا اجرا کیا اور 1975ء میں شاہ کار جریدی کتب شایع کرنا شروع کیں۔ 1980ء میں وہ کراچی چلے گئے اور وہاں 1998ء تک مقیم رہے۔ اس عرصے میں انھوں نے ماہ نامہ افسانہ ڈائجسٹ، طالبِ علم اور سائنس میگزین کے نام سے مختلف جرائد جاری کیے اور اسلامی انسائیکلو پیڈیا، انسائیکلو پیڈیا فلکیات، انسائیکلو پیڈیا ایجادات اور انسائیکلو پیڈیا پاکستانیکا شایع کیے جو ان کا بڑا کارنامہ ہیں۔

    وہ ایک اچّھے افسانہ نگاراور مترجم بھی تھے۔ تاہم ان کی علمی کاوشوں اور تالیف کردہ کتب کو زیادہ پذیرائی ملی۔ سید قاسم محمود کے افسانوں کے مجموعے دیوار پتھر کی، قاسم کی مہندی اور وصیت نامہ کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے تھے۔

  • خوش نویسی اور فنِ خطّاطی میں ممتاز محمد صدیق الماس رقم کی برسی

    خوش نویسی اور فنِ خطّاطی میں ممتاز محمد صدیق الماس رقم کی برسی

    پاکستان کے نام ور خطّاط حافظ محمد صدیق الماس رقم 30 مارچ 1972ء کو وفات پاگئے تھے۔ اپنے وقت کے نام ور شعرا اور ادیبوں نے اپنی کتب کے لیے بطور خطّاط ان کی خدمات حاصل کی تھیں جن میں‌ شاعرِ مشرق علّامہ اقبال، مولانا ظفر علی خاں اور قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری بھی شامل ہیں۔

    15 اگست 1907ء کو متحدہ ہندوستان میں پنجاب کے ایک شہر میں پیدا ہونے والے محمد صدیق کو پہلوانی کا بھی شوق تھا اور وہ لاہور کے اکھاڑوں میں‌ کشتی بھی لڑتے رہے۔ خوش نویسی اور کتابت سیکھی اور بعد میں فنِ خطّاطی کو اپنایا۔ خوش نویسی اور خطّاطی کی تعلیم اور تربیت حکیم محمد عالم گھڑیالوی کے زیرِ سایہ مکمل کی اور مشق کے باعث بہت جلد خود بھی نام ور خطّاط شمار ہونے لگے۔

    1934ء میں انھیں شاعرِ مشرق علّامہ اقبال کی مشہور کتاب زبورِعجم کے لیے خوش نویسی کا موقع ملا اور انھوں نے نہایت خوبی سے یہ کام انجام دیا۔ اس کے بعد نام ور شاعر و ادیب اور صحافی مولانا ظفر علی خان نے ان سے اپنی کئی کتابوں کی خطّاطی اور کتابت کروائی اور انھیں خطّاط العصر کا خطاب عطا کیا۔

    حافظ محمد صدیق الماس رقم نے زبورِ عجم کے علاوہ جن نام ور قلم کاروں اور مشہور کتب کے مصنفین کے لیے خوش نویس کے طور پر خدمات انجام دیں ان میں علّامہ عنایت اللہ مشرقی کا تذکرہ اور حفیظ جالندھری کی شاہ نامہ اسلام شامل ہیں۔

    فنِ خطّاطی میں ممتاز اور استاد کا درجہ رکھنے والے محمد صدیق الماس رقم لاہور میں حضرت طاہر بندگی کے مزار کے احاطے میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔

  • معروف شاعر اور ادیب صہبا لکھنوی کی برسی

    معروف شاعر اور ادیب صہبا لکھنوی کی برسی

    30 مارچ 2002ء کو اردو کے ممتاز شاعر اور ادیب صہبا لکھنوی اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ مشہور ماہ نامہ افکار کے مدیر تھے۔

    لکھنؤ ان کا آبائی وطن تھا۔ تاہم صہبا لکھنوی نے بھوپال میں آنکھ کھولی اور ابتدائی تعلیم یہیں حاصل کی۔ بعد میں لکھنؤ اور بمبئی کے تعلیمی اداروں سے تعلیم مکمل کی۔ 25 دسمبر 1919ء کو پیدا ہونے والے صہبا لکھنوی کا اصل نام سیّد شرافت علی تھا۔

    انھوں نے 1945ء میں ماہ نامہ افکار کا اجرا بھوپال سے کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد کراچی آگئے اور یہاں 1951ء میں دوبارہ ماہ نامہ افکار جاری کیا۔ افکار کے ساتھ ان کی یہ وابستگی وفات تک جاری رہی۔ انھوں نے یہ ماہ نامہ 57 برس تک بغیر کسی تعطل کے شایع کیا۔

    صہبا لکھنوی کے شعری مجموعے ماہ پارے اور زیرِ آسماں کے نام اشاعت پذیر ہوئے۔ ان کی نثری کتب میں میرے خوابوں کی سرزمین (سفرنامہ مشرقی پاکستان)، اقبال اور بھوپال، مجاز ایک آہنگ، ارمغان مجنوں، رئیس امروہوی، فن و شخصیت اور منٹو ایک کتاب شامل ہیں۔

    صہبا لکھنوی کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    کتنے دیپ بجھتے ہیں، کتنے دیپ جلتے ہیں
    عزمِ زندگی لے کر پھر بھی لوگ چلتے ہیں

    کارواں کے چلنے سے کارواں کے رکنے تک
    منزلیں نہیں یارو، راستے بدلتے ہیں

    موج موج طوفاں ہے، موج موج ساحل ہے
    کتنے ڈوب جاتے ہیں، کتنے بچ نکلتے ہیں

    اک بہار آتی ہے، اک بہار جاتی ہے
    غنچے مسکراتے ہیں، پھول ہاتھ ملتے ہیں

  • مشہور گلوکارہ روبینہ بدر کی برسی

    مشہور گلوکارہ روبینہ بدر کی برسی

    پاکستان میں موسیقی اور گائیکی کے میدان میں اپنے وقت کے باکمالوں اور مشہور ناموں کے درمیان روبینہ بدر نے اپنی آواز میں کئی گیتوں کو لازوال اور یادگار بنایا اور فلمی صنعت میں اپنے فن کی بدولت نام پیدا کیا۔

    28 مارچ 2006ء کو گلوکارہ روبینہ بدر کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔ انھیں کینسر جیسا مہلک مرض لاحق تھا۔ وفات کے وقت روبینہ بدر کی عمر 50 سال تھی۔

    روبینہ بدر نے ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا تھا۔ پاکستان ٹیلی وژن پر ان کی آواز میں ایک نغمہ تم سنگ نیناں لاگے بہت مشہور ہوا اور اسے روبینہ بدر کے کیریئر کا اہم سنگِ میل سمجھا جاتا ہے۔ بعدازاں انھوں نے متعدد فلموں کے لیے اپنی آواز کا جادو جگایا۔ ان فلموں میں ایمان دار، چکر باز، شوکن میلے دی، حکم دا غلام، انتظار، پردہ نہ اٹھائو، عزت اور خانزادہ شامل ہیں۔

  • بیگم محمد علی جوہر کی وفات

    بیگم محمد علی جوہر کی وفات

    بیگم محمد علی جوہر تحریکِ آزادی کی نام ور خاتون راہ نما تھیں جنھوں نے خواتین کو مسلم لیگ کے پرچم تلے جمع کیا اور خواتین کے دلوں میں آزادی کے جذبے کو اُبھارا۔ وہ ایک نڈر اور سمجھ دار خاتون تھیں جنھوں نے اس وقت کی سیاست میں‌ اپنا کردار بخوبی نبھایا۔ ہندوستان کی جدوجہدِ آزادی کی یہ خاتون راہ نما 1947ء میں وفات پاگئی تھیں۔

    28 مارچ کو دنیا سے رخصت ہوجانے والی بیگم محمد علی جوہر کا اصل نام امجدی بانو تھا۔ وہ 1885ء میں ریاست رام پور میں پیدا ہوئی تھیں۔ وہ 5 فروری 1902ء کو ہندوستانی مسلمانوں کے خیر‌خواہ اور آزادی کے متوالے اور تحریکِ‌ خلافت کے راہ نما مولانا محمد علی جوہر سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔

    1919ء میں جب مولانا محمد علی جوہر کو تحریکِ‌ خلافت کے حوالے سے جیل بھیجا گیا تو بیگم محمد علی جوہر میدانِ عمل میں اتریں۔ اسی برس انہیں خود بھی قید و بند کی صعوبت بھی برداشت کرنی پڑی۔ رہائی کے بعد وہ عملی سیاست میں مکمل طور پر فعال ہوگئیں اور 1931ء میں مولانا محمد علی جوہر کی وفات کے بعد سیاسی میدان میں ان کی نیابت کرنے لگیں۔

    23 مارچ 1940ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں انہوں نے ہندوستان کی مسلمان خواتین کی جانب سے قرار دادِ لاہور کی تائید میں تقریر کی۔ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کی پہلی راہ نما تھیں جنہوں نے اس قرار داد کو قرار دادِ پاکستان کا نام دیا۔ ہندوستانی پریس نے طنز کے طور پر اس نام کو ایسا اچھالا کہ لفظ پاکستان زبان زدِ خاص و عام ہو گیا اور 14 اگست 1947ء کو ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنی طویل جدوجہد سے جو وطن حاصل کیا اس کا نام پاکستان رکھا گیا۔

    مسلم لیگ کے تمام بڑے بڑے راہ نما اور خاص طور پر قائد اعظم محمد علی جناح اُن کی بے حد عزّت کرتے تھے اور اُن کی تجاویز اور آرا کو اہمیت دیتے تھے۔

  • پاکستان کی پہلی فلم کی ہیروئن آشا پوسلے کی برسی

    پاکستان کی پہلی فلم کی ہیروئن آشا پوسلے کی برسی

    26 مارچ 1998ء کو پاکستان کی پہلی فلم ‘تیری یاد’ میں ہیروئن کا کردار نبھانے والی آشا پوسلے وفات پاگئی تھیں۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ آشا پوسلے کا اصل نام صابرہ بیگم تھا جن کے والد موسیقار کی حیثیت سے فلمی دنیا سے منسلک تھے۔

    آشا پوسلے کا تعلق پٹیالہ سے تھا جہاں انھوں نے 1927ء میں آنکھ کھولی تھی۔ تقسیم سے قبل 1946ء میں فلم ‘کملی’ سے اپنے کیریئر کا آغاز کرنے والی آشا پوسلے نے ہیروئن کے علاوہ بڑے پردے پر کئی فلموں میں منفی کردار بھی ادا کیے۔ آشا پوسلے کے والد ماسٹر عنایت علی ناتھ ہی نہیں‌ ان کی ایک بہن رانی کرن بھی اداکارہ اور دوسری کوثر پروین بطور گلوکارہ فلمی دنیا سے منسلک رہیں۔

    7 اگست 1948ء کو لاہور کے پربت تھیٹر میں نمائش کے لیے پیش کی گئی ملک کی پہلی فلم میں ہیروئن کا کردار نبھانے والی آشا پوسلے نے زندگی کے آخری ایّام انتہائی کس مپرسی کے عالم میں بسر کیے اور گڑھی شاہو، لاہور میں انتقال کیا۔ انھیں‌ متعدد اعزازات سے نوازا گیا تھا جن میں خصوصی نگار ایوارڈ بھی شامل تھا۔

  • مشہور موسیقار استاد بیبو خان کی برسی

    مشہور موسیقار استاد بیبو خان کی برسی

    آج مشہور موسیقار استاد بیبو خان کا یومِ وفات ہے۔ وہ 25 مارچ 1952ء کو حیدرآباد میں‌ انتقال کرگئے تھے۔ بیبو خان کا تعلق سندھ کے تاریخی اہمیت کے حامل شہر شکار پور سے تھا۔

    استاد بیبو خان کا اصل نام محمد ابراہیم قریشی تھا۔ وہ 1904ء میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد بھی فنِ موسیقی اور گائیکی سے وابستہ تھے۔ انھیں استاد گامن خان کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ بیبو خان نے موسیقی کے ابتدائی رموز اپنے والد ہی سے سیکھے۔ بعد میں انھوں نے استاد مبارک علی خان اور استاد مراد علی سے موسیقی کی تربیت حاصل کی۔

    ان کے والد دھرپد گانے میں بڑی مہارت رکھتے تھے اور بیبو خان بھی اس میں ماہر ہوئے۔ ان کی گائیکی کا بہت شہرہ ہوا۔ انھیں تقسیم سے قبل آل انڈیا ریڈیو، بمبئی پر ہر ماہ گانے کے پروگرام میں مدعو کیا جاتا تھا اور وہ اپنے فن کا جادو جگا کر داد پاتے تھے۔ اس زمانے میں لوگوں کی تفریح اور موسیقی یا شعر و ادب کے ذوق کی تسکین کا واحد ذریعہ ریڈیو تھا اور استاد بیبو خان کو بھی اس میڈیم کی بدولت دور دور تک سنا اور پہچانا گیا۔

    استاد بیبو خان کے شاگردوں میں‌ متعدد اپنے فن میں‌ ماہر اور نام ور ہوئے۔ ان میں قدرت اللہ خان، نیاز حسین، فدا حسین خان کو استاد کا درجہ حاصل ہوا جب کہ محمد ہاشم کچھی، ہادی بخش خان، مائی اللہ وسائی، محمد صالح ساند اور اللہ دینو نوناری نے بھی خون نام اور مقام پیدا کیا۔

    سندھ کے اس نام ور فن کار کو ٹنڈو یوسف کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • ‘سات لاکھ’ سے شہرت حاصل کرنے والے جعفر ملک کی برسی

    ‘سات لاکھ’ سے شہرت حاصل کرنے والے جعفر ملک کی برسی

    جعفر ملک کا شمار پاکستان کے مشہور فلم سازوں اور ہدایت کاروں میں ہوتا ہے جو 24 مارچ 2006ء کو وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ انھوں نے اپنے وقت کی مشہور اور کام یاب ترین فلم سات لاکھ کے ہدایت کار کی حیثیت سے نہ صرف شہرت حاصل کی بلکہ کئی فلمی اعزازات بھی اپنے نام کیے تھے۔

    اردو زبان میں بننے والی فلم سات لاکھ 1957ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ جعفر ملک نے اپنی فلمی زندگی کا آغاز انور کمال پاشا کے فلم ساز ادارے کمال پکچرز سے کیا تھا۔ انھیں جلد ہی سات لاکھ کی ہدایات دینے کا موقع ملا اور اسی فلم کی بدولت ان کی شہرت اور مقبولیت کا سفر شروع ہوا۔ یہ فلم اپنے نغمات کی وجہ سے بھی ملک بھر میں شائقین کی توجہ کا مرکز بنی، اس فلم نے پانچ نگار ایوارڈز حاصل کیے۔

    جعفر ملک کی اردو اور پنجابی زبانوں کی دیگر فلموں میں مکھڑا، گلشن، شکاری، کمانڈر، پتھر تے لیک، پنج دریا، سجن مندے کدی کدی، سہنا مکھڑا اور گھبرو شامل ہیں۔

    فلم انڈسٹری کے عروج کے زمانے میں جعفر ملک نے خاصا کام کیا اور متحرک رہے، انھوں نے اپنی فلموں کے ذریعے اپنی صلاحیتوں اور فنی مہارت کا اظہار کیا اور خود کو منوایا، لیکن وفات سے تقریبا دو دہائی قبل انڈسٹری سے دور ہوگئے تھے۔