Tag: مارچ وفیات

  • نام وَر ستار نواز استاد کبیر خان کی برسی

    نام وَر ستار نواز استاد کبیر خان کی برسی

    پاکستان کے مشہور ستار نواز استاد کبیر خان 22 مارچ 2001ء کو وفات پاگئے تھے۔ وہ کلاسیکی موسیقی اور سازوں کی دنیا میں اپنے فن کے لیے مشہور دبستان، سینی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ خاندان موسیقار تان سین کی نسبت سے مشہور ہوا جس میں پیدا ہونے والے کبیر خان کو ماہر اور باکمال ستار نواز تسلیم کیا جاتا ہے۔

    برصغیر پاک و ہند میں کلاسیکی موسیقی کے حوالے سے مختلف سازوں میں ستار بہت مشہور ہے جسے بہت دل چسپی اور شوق سے سنا جاتا ہے۔ روایتی طرزِ موسیقی اور گائیکی کے ساتھ قدیم سازوں میں اگرچہ ستار اور اس کے بجانے والے بھی اب بہت کم ہیں، لیکن استاد کبیر کا نام ان کے فن کی بدولت آج بھی زندہ ہے۔

    انھوں نے پچاس برس تک ملکی سطح پر منعقدہ مختلف تقاریب اور محافلِ موسیقی میں اپنے فن کا مظاہرہ کرکے نہ صرف شائقین سے داد پائی بلکہ اس ساز کو بجانے اور اسے سیکھنے والوں کو بھی متاثر کیا، انھیں بیرونِ ملک بھی ثقافتی وفود کے ساتھ اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا۔

    استاد کبیر خان وہ واحد ستار نواز تھے جو اس ساز کے دو معروف اسالیب کے ماہر تھے۔ حکومتِ پاکستان نے ان کے فن کا اعتراف کرتے ہوئے 1989ء میں انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • مزدور شاعر احسان دانش کا یومِ وفات

    مزدور شاعر احسان دانش کا یومِ وفات

    22 مارچ 1982ء کو اردو کے نام وَر شاعر، ادیب اور ماہرِ لسانیات احسان دانش وفات پاگئے تھے۔ زندگی کی تلخیوں اور سختیوں کو جھیلتے، کٹھنائیوں کا سامنا کرتے ہوئے احسان دانش نے شعروسخن کی دنیا میں‌ وہ نام و مرتبہ پایا جو بہت کم شعرا کو نصیب ہوتا ہے۔

    قاضی احسان الحق نام اور احسان تخلص تھا۔ وہ 1914ء میں کاندھلہ، مظفر نگر (یوپی) میں پیدا ہوئے تھے۔ غربت کی وجہ سے چوتھی جماعت سے آگے نہ پڑھ سکے، لیکن مطالعہ کے شوق اور لگن سے اردو، فارسی اور عربی کے ساتھ شاعری میں کمال حاصل کیا۔ نوعمری میں تلاشِ معاش میں لاہور آگئے تھے اور یہیں عمر تمام کی۔ انھوں نے ہر قسم کی نوکری اور وہ کام کیا جس سے دو وقت کی روٹی نصیب ہوسکے۔ وہ کسی دفتر میں چپڑاسی رہے، اور کہیں‌ مالی کا کام سنبھالا تو کبھی بوجھ ڈھو کر اجرت پائی۔ اسی محنت اور مشقّت کے ساتھ شاعری کا سفر بھی جاری رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں‌ مزدور شاعر بھی کہا جاتا ہے۔

    احسان دانش شاعری کی ہر صنف پر عبور رکھتے تھے۔ ان کی کئی غزلیں، نظمیں مشہور ہیں جو ان کے کمالِ فن اور تخلیقی شعور کا نتیجہ ہیں۔ احسان دانش کے شعری مجموعوں میں حدیثِ ادب، دردِ زندگی، تفسیرِ فطرت، آتشِ خاموش، چراغاں اور گورستان سرِفہرست ہیں۔

    لسانیات کا موضوع بھی احسان دانش کی علمی قابلیت اور زبان و بیان پر ان کے عبور کا ثبوت ہے۔ اس میدان میں دستورِ اردو، تذکیر و تانیث اور اردو مترادفات ان کی یادگار کتابیں ہیں۔ حضرت احسان دانش کی خود نوشت سوانح عمری جہانِ دانش بھی علمی اور ادبی حلقوں میں بے حد مقبول ہوئی جس پر پاکستان رائٹرز گلڈ نے انھیں آدم جی ادبی ایوارڈ دیا اور حکومتِ پاکستان نے اس کتاب پر احسان دانش کو انعامی رقم دی۔

    حکومتِ پاکستان کی جانب سے انھیں علمی اور ادبی خدمات انجام دینے پر ستارۂ امتیاز اور نشانِ امتیاز بھی عطا کیے گئے۔ احسان دانش کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں

    آج اس نے ہنس کے یوں پوچھا مزاج
    عمر بھر کے رنج و غم یاد آ گئے

    احسان دانش کا یہ شعر بہت مشہور ہے:

    یہ اڑی اڑی سی رنگت یہ کھلے کھلے سے گیسو
    تری صبح کہہ رہی ہے تری رات کا فسانہ

    یہ کون ہنس کے صحنِ چمن سے گزر گیا
    اب تک ہیں پھول چاک گریباں کیے ہوئے

  • لازوال دھنوں کے خالق نثار بزمی کی برسی

    لازوال دھنوں کے خالق نثار بزمی کی برسی

    پاکستان فلم انڈسٹری سے وابستہ شعرا کے خوب صورت گیتوں کو اپنی مدھر دھنوں سے لازوال اور یادگار بنا دینے والے نثار بزمی کو دنیا سے گئے 14 برس بیت گئے۔ 1997ء میں وفات پانے والے نثار بزمی کا شمار ملک کے صفِ اوّل کے موسیقاروں میں ہوتا ہے۔

    دسمبر 1924ء کو صوبہ مہاراشٹر کے ضلع خان دیش کے ایک گائوں میں پیدا ہونے والے نثار بزمی کا اصل نام سید نثار احمد تھا۔ وہ بچپن ہی سے موسیقی سے شغف رکھتے تھے۔والد نے ان کا شوق اور موسیقی سے رغبت دیکھتے ہوئے انھیں استاد امان علی خان کے پاس بمبئی بھیج دیا جہاں انھوں نے موسیقی کے اسرار و رموز سیکھے۔

    نثار بزمی نے آل انڈیا ریڈیو میں چند سال میوزک کمپوزر کی حیثیت سے کام کیا اور 1946ء میں فلم ‘جمنا پار’ سے فلم نگری میں اپنا سفر شروع کیا، وہ تقسیم کے پندرہ برس تک ہندوستان کی فلم انڈسٹری سے وابستہ رہے اور پھر پاکستان آگئے جہاں انھوں نے اپنے وقت کے باکمال موسیقاروں کے درمیان اپنے فن کی بدولت بڑا نام اور مرتبہ پایا۔

    فضل احمد کریم فضلی کی فلم ’ایسا بھی ہوتا ہے‘سے پاکستانی فلم انڈسٹری میں نثار بزمی نے اپنے کام کا آغاز کیا۔ اسی فلم میں نور جہاں نے نثار بزمی کی تیار کردہ دھن پر غزل "ہو تمنا اور کیا جانِ تمنا آپ ہیں” گائی تو اس کا شہرہ سرحد پار بھی ہوا۔ فلمی دنیا میں اس کام یاب آغاز کے بعد وہ آ گے بڑھتے چلے گئے۔

    نثار بزمی نے فلم ‘لاکھوں میں ایک’ کے مشہور گیت ’چلو اچھا ہوا تم بھول گئے‘ کی دھن ترتیب دی اور یہ گیت آج بھی سماعتوں میں‌ رس گھول رہا ہے۔ ایک اور گانا ‘بڑی مشکل سے ہوا ترا میرا ساتھ پیا…’ نثار بزمی کی یاد دلاتا ہے۔ انھوں نے ‘اے بہارو گواہ رہنا، اک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا، رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ، آپ دل کی انجمن میں حسن بن کر آ گئے، دل دھڑکے، میں تم سے یہ کیسے کہوں، کہتی ہے میری نظر شکریہ، کاٹے نہ کٹے رتیاں، سیاں تیرے پیار میں جیسے لازوال گیتوں کی دھنیں‌ ترتیب دیں جنھیں اپنے وقت کے مشہور و معروف گلوکاروں نے گایا تھا۔

    نثار بزمی نے طاہرہ سید، نیرہ نور، حمیراچنا اور عالمگیر جیسے گلوکاروں کو فلمی دنیا میں آواز کا جادو جگانے کا موقع فراہم دیا۔

    مختلف شاعروں کی نظموں، غزلوں اور فلمی گیتوں کی دھنیں ترتیب دینے والے نثار بزمی خود بھی شاعر تھے۔ ان کا مجموعہ کلام ’پھر سازِ صدا خاموش ہوا‘ کے نام سے شایع ہوچکا ہے۔

    پاکستان میں درجنوں فلموں کے کئی گیتوں کی موسیقی ترتیب دینے والے نثار بزمی کو حکومت نے پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا۔

  • آج اردو کے معروف شاعر اور ادیب خالد احمد کی آٹھویں برسی منائی جارہی ہے

    آج اردو کے معروف شاعر اور ادیب خالد احمد کی آٹھویں برسی منائی جارہی ہے

    آج اردو کے معروف شاعر خالد احمد کی آٹھویں برسی ہے۔ وہ 19 مارچ 2013ء کو وفات پاگئے تھے۔ خالد احمد کا شمار اردو کے اُن شعرا میں ہوتا ہے جنھوں نے غزل کو نئے رجحانات سے آشنا کیا۔

    خالد احمد نے 5 جون 1944ء کو لکھنؤ کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں‌ آنکھ کھولی۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستان آئے اور 1957ء میں مسلم ماڈل ہائی سکول لاہور سے میٹرک کیا، دیال سنگھ کالج سے بی ایس سی کا امتحان پاس کیا اور فزکس میں ماسٹر ڈگری حاصل کرنے کے بعد واپڈا میں انفارمیشن افسر کی حیثیت سے ملازمت شروع کی اور اسی محکمے سے ریٹائرمنٹ تک وابستہ رہے۔

    انھوں نے روزنامہ امروز اور بعد میں نوائے وقت کے لیے کالم لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا، وہ ادبی جریدے فنون سے وابستہ ہوئے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لیے متعدد ڈرامے تحریر کیے، لیکن ان کی وجہِ شہرت ان کی خوب صورت شاعری ہے۔

    خالد احمد کے بھائی توصیف احمد خان نے بھی صحافت، بہنوں ہاجرہ مسرور اور خدیجہ مستور نے اردو‌ افسانہ اور ناول نگاری میں نام پیدا کیا۔ خالد احمد بیاض کے نام سے کئی برس تک ایک ماہ نامہ بھی شایع کرتے رہے۔ ان کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    میرے ناقد میں کوٸی موم کا پتلا تو نہیں
    کوٸی کس طور مرے قد سے گھٹا دے مجھ کو

    کاش کوٸی ہمیں یہ بتلا دے
    کس کے سینے سے لگ کے رونا ہے

    سبھی آنکھیں مری آنکھوں کی طرح خالی تھیں
    کیا کہوں، کون یہاں جاننے والا تھا مرا

    وہ گلی ہم سے چھوٹتی ہی نہیں
    کیا کریں آس ٹوٹتی ہی نہیں

    حکومتِ پاکستان نے ادبی خدمات پر خالد احمد کو تمغہ حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔

  • اردو کے ممتاز مزاح نگار شفیق الرحمٰن کی برسی

    اردو کے ممتاز مزاح نگار شفیق الرحمٰن کی برسی

    آج اردو کے نام وَر ادیب اور ممتاز مزاح نگار شفیق الرحمٰن کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 19 مارچ 2000ء کو ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔ ان کا شمار اردو کے صفِ اوّل کے مزاح نگاروں میں کیا جاتا ہے۔

    شفیق الرّحمٰن 9 نومبر 1920ء کو کلا نور ضلع روہتک میں پیدا ہوئے تھے۔ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج، لاہور سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد برطانوی دور میں انڈین آرمی کے شعبہ طب سے وابستہ ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ پاک فوج کا حصّہ بنے اور میجر جنرل کے عہدے تک ترقّی پائی۔

    شفیق الرّحمٰن کے مزاحیہ مضامین کا مجموعہ شگوفے 1943ء میں پہلی مرتبہ شایع ہوا۔ بعد میں دیگر کتب لہریں، مدوجزر، پرواز، حماقتیں، پچھتاوے، مزید حماقتیں، دجلہ، کرنیں اور دریچے شایع ہوئیں اور انھیں‌ ملک گیر شہرت اور پذیرائی ملی۔ ایک ناولٹ اور افسانوں کے مجموعے کے علاوہ ان کے ترجمہ کردہ ناول بھی کتابی صورت میں سامنے آئے، معاشیات اور صحّت و امراض سے متعلق بھی ان کی کتب شایع ہوئیں۔

    ڈاکٹر شفیق الرّحمٰن کی وجہِ شہرت تو ان کی مزاح نگاری ہے، لیکن ان کے رومانوی افسانے بھی مشہور ہیں۔

    وہ پاک فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد 1980ء سے 1986ء تک اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیتے رہے۔ حکومتِ پاکستان نے وفات کے بعد انھیں ہلالِ امتیاز سے سرفراز کیا تھا۔ ڈاکٹر شفیق الرحمٰن کو راولپنڈی کے فوجی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • پنجابی فلموں کے مشہور کہانی نویس اور نغمہ نگار حزیں قادری کا یومِ وفات

    پنجابی فلموں کے مشہور کہانی نویس اور نغمہ نگار حزیں قادری کا یومِ وفات

    آج پاکستان کی فلمی صنعت کے مشہور کہانی نویس اور نغمہ نگار حزیں قادری کی برسی ہے۔ حزیں قادری 19 مارچ 1991ء کو وفات پاگئے تھے۔

    حزیں قادری کا اصل نام بشیر احمد تھا۔ وہ 1926ء میں گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ اردو زبان میں بننے والی فلم دو آنسو سے حزیں قادری نے انڈسٹری میں نغمہ نگار کے طور پر قدم رکھا، لیکن اس کے بعد صرف پنجابی فلموں تک محدود ہوگئے۔ انھوں نے کئی پنجابی فلموں کے اسکرپٹ اور نغمات لکھے جن میں ہیر، پاٹے خان، چھومنتر، ڈاچی، ملنگی جیسی کام یاب فلمیں‌ شامل ہیں۔

    حزیں قادری کے مشہور نغمات میں فلم ہیر کا نغمہ اسین جان کے میٹ لئی رکھ وے، فلم چھومنتر کا بُرے نصیب مرے، فلم ڈاچی کے لیے انھوں‌ نے ٹانگے والا خیر منگدا جیسا نغمہ تحریر کیا جو بے حد مقبول ہوا۔ حزیں قادری کو ان کی کہانیوں اور فلمی نغمات پر نگار ایوارڈز سے نوازا گیا۔

    وہ لاہور میں ڈی ون، گلبرگ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • نام وَر افسانہ نگار اور برصغیر کی پہلی خاتون ہوا باز حجاب امتیاز علی کی برسی

    نام وَر افسانہ نگار اور برصغیر کی پہلی خاتون ہوا باز حجاب امتیاز علی کی برسی

    اردو کی نام وَر افسانہ نگار حجاب امتیاز علی 19 مارچ 1999ء کو وفات پاگئی تھیں۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ انھیں برصغیر پاک و ہند کی اوّلین خاتون ہوا باز ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ علم و ادب کی رسیا اور فنونِ لطیفہ کی شائق حجاب امتیاز علی نے دنیائے ادب کو متعدد خوب صورت افسانے اور کہانیاں‌ دیں جنھیں‌‌ قارئین نے بے حد پسند کیا۔

    وہ 4 نومبر 1908ء کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد سید محمد اسماعیل نظام دکن کے فرسٹ سیکریٹری تھے اور والدہ عباسی بیگم اپنے دور کی نام ور اہلِ قلم تھیں۔ حجاب امتیاز علی نے عربی، اردو اور موسیقی کی تعلیم حاصل کی اور پھر افسانے لکھنے کا آغاز کیا جو مختلف ادبی رسالوں میں شایع ہوئے۔ حجاب اسماعیل کے نام سے ان کی تحریریں اس زمانے کے مقبول ترین رسالے تہذیبِ نسواں میں شایع ہوتی تھیں جس کے مدیر مشہور ڈراما و ناول نگار امتیاز علی تاج تھے۔ 1929ء میں امتیاز علی تاج نے اپنا مشہور ڈرامہ انار کلی ان کے نام سے معنون کیا اور 1934ء میں یہ دونوں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوگئے۔

    حجاب اسماعیل نے شادی کے بعد حجاب امتیاز علی کے نام سے لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ انھوں نے متعدد افسانوی مجموعے اور ناولٹ یادگار چھوڑے جن میں میری نا تمام محبت اور دوسرے رومانی افسانے، لاش اور ہیبت ناک افسانے، خلوت کی انجمن، نغماتِ موت، ظالم محبّت، وہ بہاریں یہ خزائیں شامل ہیں۔ حجاب امتیاز علی نے تہذیب نسواں کی ادارت بھی کی۔

    ہوا بازی کا شوق رکھنے والی حجاب امتیاز علی نے ایک فلائنگ کلب کی رکنیت اختیار کرکے برصغیر پاک و ہند کی پہلی خاتون ہوا باز ہونے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔ وفات کے بعد انھیں لاہور کے مومن پورہ کے قبرستان میں سپردِ خاک کردیا گیا۔

  • شہنشاہِ جذبات محمد علی کی برسی

    شہنشاہِ جذبات محمد علی کی برسی

    آج پاکستان فلم انڈسٹری کے باکمال اور صاحبِ طرز اداکار محمد علی کی برسی منائی جارہی ہے۔ اداکار محمد علی 19 مارچ 2006ء کو ہمیشہ کے لیے دنیا چھوڑ گئے تھے۔ فلم نگری پر تین دہائیوں سے زائد عرصے تک راج کرنے والے محمد علی کو شہنشاہِ جذبات بھی کہا جاتا ہے۔

    محمد علی کا تعلق رام پور سے تھا۔ وہ 19 اپریل 1931ء کو پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد سیّد مرشد علی امام مسجد تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد ان کے خاندان نے ہجرت کرکے پہلے ملتان اور پھر حیدرآباد کو اپنا مستقر بنایا۔ محمد علی نے سٹی کالج حیدرآباد سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔ ان کے بڑے ارشاد علی ریڈیو پاکستان سے بطور براڈ کاسٹر وابستہ تھے۔ انہی کے توسط سے محمد علی کو ریڈیو پاکستان کے مختلف ڈراموں میں کام ملا۔

    1960ء کی دہائی کے آغاز پر محمد علی کو ہدایت کار قمر زیدی نے اپنی فلم آنکھ اور خون میں کاسٹ کیا، لیکن یہ فلم مکمل نہ ہوسکی۔ 1962ء میں فلم چراغ جلتا رہا ریلیز ہوئی جس میں‌ محمد علی نے اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔ یہ ان کی پہلی فلم تھی، جب کہ بطور ہیرو پہلی نمائش پذیر فلم شرارت تھی۔ اس فلم کے ہدایت کار رفیق رضوی تھے۔ اس سے قبل محمد علی مسٹر ایکس نامی جاسوسی فلم میں ہیرو کے طور پر کام کرچکے تھے، لیکن اس کی نمائش تاخیر سے ہوئی اور یوں پہلی بار شائقین نے انھیں فلم شرارت میں‌ ہیرو کے روپ میں دیکھا تھا۔

    "خاموش رہو” وہ فلم تھی جس نے محمد علی کو شہرت اور مقبولیت دی۔ اس فلم نے مصروف ترین اداکار بنا دیا۔ ان کی کئی فلمیں نمائش پذیر ہوئیں۔ محمد علی نے اداکارہ زیبا سے شادی کی اور دونوں نے فلم نگری میں عزّت، وقار اور نام و مقام پایا۔ محمد علی اور زیبا کی مشترکہ فلموں کی تعداد 70 ہے جن میں پچاس سے زائد فلموں میں وہ ہیرو، ہیروئن کے طور پر نظر آئے۔ 29 ستمبر 1966ء وہ فلم "تم ملے پیار ملا” کی عکس بندی میں مصروف تھے جب انھوں نے شادی کا فیصلہ کیا۔

    محمد علی نے مجموعی طور پر 268 فلموں میں کام کیا جن میں اردو فلموں کی تعداد 251 تھی۔ لیجنڈ اداکار محمد علی نے مجموعی طور پر 9 نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کیے۔

    جذباتی مکالمات کی ادائیگی، آواز کا اتار چڑھاؤ اور تاثرات پر کمال دسترس اور حقیقت سے قریب تر اداکاری محمد علی کو اپنے زمانے کے اداکاروں میں ممتاز کرتی ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ ناقدین انھیں ایشیا میں سلور اسکرین کے عظیم فن کاروں میں شمار کرتے ہیں۔

    محمد علی کو ان کی شان دار پرفارمنس اور بے مثال اداکاری پر حکومت پاکستان کی جانب سے تمغہ حسن کارکردگی اور تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔

  • پی ٹی وی کے معروف اداکار محبوب عالم کی برسی

    پی ٹی وی کے معروف اداکار محبوب عالم کی برسی

    پاکستان ٹیلی وژن، ریڈیو اور فلم کے معروف اداکار محبوب عالم 18 مارچ 1994ء کو اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    محبوب عالم 1948ء میں ٹنڈوغلام علی، ماتلی ضلع حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے تاریخ کے مضمون میں ماسٹرز کیا اور سندھی فلم سورٹھ سے اداکاری کا سفر شروع کیا۔ پاکستان میں ٹیلی وژن نشریات کا آغاز ہوا تو محبوب عالم نے بھی قسمت آزمائی اور متعدد ڈراموں میں چھوٹے بڑے کردار ادا کرتے رہے، لیکن سیریل وارث نے انھیں ملک گیر شہرت اور مقبولیت دی۔

    یہ ڈراما 1979ء میں ٹیلی وژن سے نشر ہوا تھا، جس میں محبوب عالم نے چوہدری حشمت کا کردار اس خوبی اور عمدگی سے نبھایا کہ ہر ایک ان کے کمالِ فن کا معترف ہوگیا۔ وراث پی ٹی وی کے سنہرے دور کا یادگار ڈراما ثابت ہوا۔

    محبوب عالم نے وارث کے بعد ٹیلی وژن پر مزید سیریلز میں بھی کام کیا جن میں دہلیز، سمندر، وقت، لازوال اور پیاس کے نام قابل ذکر ہیں۔ انھوں نے اردو، سندھی، سرائیکی، پنجابی اور پشتو زبانوں میں‌ بننے والی فلموں میں بھی کام کیا، لیکن ان کی وجہِ شہرت پی ٹی وی اور چھوٹی اسکرین پر پرفارمنس ہے۔

    کراچی میں وفات پانے والے محبوب عالم کو ضلع حیدرآباد میں ان کے آبائی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • نام وَر صدا کار اور اداکار ایس ایم سلیم کی برسی

    نام وَر صدا کار اور اداکار ایس ایم سلیم کی برسی

    ایس ایم سلیم پاکستان کے نام وَر صدا کار اور اداکار تھے جو 16 مارچ 1990ء کو وفات پاگئے۔ انھوں نے ریڈیو پاکستان اور ٹیلی ویژن پر اپنی فن اور صلاحیتوں کا اظہار کرکے نام و مقام بنایا۔ ایس ایم سلیم امریکا منتقل ہوگئے تھے جہاں‌ وہ شہر ہیوسٹن میں مقیم تھے اور وہیں زندگی کا سفر تمام کیا۔

    ایس ایم سلیم کا تعلق دہلی سے تھا۔ وہ 18 اگست 1929ء کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنے فنی سفر کا آغاز آل انڈیا ریڈیو سے کیا اور قیامِ پاکستان کے بعد یہاں ہجرت کی اور ریڈیو پاکستان، لاہور سے وابستہ ہوگئے۔ بعد میں انھوں نے کراچی سینٹر سے ناتا جوڑا اور یہاں سے پروگرام کرتے رہے۔

    ایس ایم سلیم کو ریڈیو پاکستان پر ان کے پروگرام "دیکھتا چلا گیا” کے سبب ملک بھر میں پہچان ملی۔ یہ پروگرام ریڈیو کے مقبول ترین پروگراموں میں سے ایک تھا۔ انھوں نے اس میڈیم کے لیے جو یادگار ڈرامے کیے، ان میں رستم اور سہراب سرِفہرست ہے۔ اس مشہور اور مقبولِ عام ڈرامے میں رستم کا کردار زیڈ اے بخاری نے جب کہ سہراب کا کردار ایس ایم سلیم نے ادا کیا تھا۔

    صدا کاری کے ساتھ ایس ایم سلیم نے اداکاری کے میدان میں بھی خود کو منوایا۔ انھوں نے پاکستان ٹیلی وژن کے متعدد ڈراموں میں کام کیا جن میں انسان اور آدمی اور منٹو راما شامل ہیں۔ اس ڈرامے میں ایس ایم سلیم نے نام ور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کا کردار ادا کیا تھا۔