Tag: مارچ وفیات

  • مشہور موسیقار اور گائیک استاد عاشق علی خان کی برسی

    مشہور موسیقار اور گائیک استاد عاشق علی خان کی برسی

    کلاسیکی موسیقی اور غزل گائیکی میں‌ نام و مرتبہ رکھنے والے استاد عاشق علی خان 10 مارچ 1948ء کو وفات پاگئے تھے۔ ان کا تعلق فنِ موسیقی اور گائیکی کے‌ لیے مشہور پٹیالہ گھرانے سے تھا۔

    استاد عاشق علی خان کافیاں گانے میں‌ خاص مہارت رکھتے تھے اور اس حوالے سے بہت مقبول تھے۔ 1880ء میں پیدا ہونے والے استاد عاشق علی خان نے موسیقی اور گائیکی کے فن کو اپنے شوق کی بدولت اپنایا اور لے کاری میں‌ خاص مہارت حاصل کی۔

    ایک زمانے میں‌ جب پاک و ہند میں بڑی تعداد کلاسیکی موسیقی اور گائیکی کا شوق رکھتی تھی تو استاد عاشق علی خان سے اس فن کی تربیت لینے اور گائیکی کے اسرار و رموز سیکھنے والے بھی ان کے گرد موجود رہتے تھے، جن میں سے بعض نے آگے چل کر اس فن میں بڑا نام پیدا کیا اور پاکستان کے نام ور گلوکاروں میں‌ شمار ہوئے۔

    استاد عاشق علی خان کے کئی شاگردوں‌ نے غزل گائیکی اور صوفیانہ کلام کو اپنے انداز میں‌ پیش کرکے مقبولیت حاصل کی۔ ان کے شاگردوں میں استاد بڑے غلام علی خان، چھوٹے عاشق علی خان، حسین بخش ڈھاڑی، اللہ دینو خاں، مختار بیگم، فریدہ خانم اور زاہدہ پروین نمایاں ہیں۔

  • پاکستان کے مشہور فلمی ہدایت کار مسعود پرویز کی برسی

    پاکستان کے مشہور فلمی ہدایت کار مسعود پرویز کی برسی

    پاکستان کے مشہور فلمی ہدایت کار مسعود پرویز 10 مارچ 2001ء کو لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ صدارتی ایوارڈ یافتہ مسعود پرویز کا تعلق ایک علمی اور ادبی گھرانے سے تھا۔ اردو کے نام ور ادیب سعادت حسن منٹو ان کے قریبی عزیز تھے۔

    مسعود پرویز 1918ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے قیامِ پاکستان سے قبل بننے والی فلم منگنی سے ہیرو کی حیثیت سے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ بعد وہ ہدایت کاری کی طرف آگئے۔ انھوں نے قیامِ پاکستان کے بعد یہاں انڈسٹری سے وابستہ ہوتے ہوئے ہدایت کاری کے شعبے میں اپنے تجربے اور مہارت کو آزمایا اور بیلی، انتظار، زہرِ عشق، کوئل، مرزا جٹ، ہیر رانجھا، مراد بلوچ، نجمہ، حیدر علی اور خاک و خون جیسی یادگار فلمیں بنائیں۔

    مسعود پرویز نے 1957ء میں فلم انتظار پر بہترین ہدایت کار کا صدارتی ایوارڈ حاصل کیا۔ یہ وہ فلم تھی جس نے مجموعی طور پر 6 صدارتی ایوارڈ حاصل کیے اور ایک اس ہدایت کار کے نام ہوا۔

    پاکستان میں فلمی دنیا کے معتبر اور معروف، نگار ایوارڈ کی بات کی جائے تو مسعود پرویز کو فلم ہیر رانجھا اور خاک و خون پر یہ ایوارڈ دیا گیا جب کہ ان کی ہدایت کاری میں بننے والی دوسری فلموں نے متعدد زمروں میں نگار ایوارڈز حاصل کیے۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کے اس کام گار کو لاہور میں ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • معروف شاعر اور مقبول فلمی گیتوں کے خالق عبدالحمید عدم کی برسی

    معروف شاعر اور مقبول فلمی گیتوں کے خالق عبدالحمید عدم کی برسی

    اردو کے ممتاز اور مقبولِ عام شاعر عبدالحمید عدم 10 مارچ 1981ء کو طویل علالت کے بعد لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔ عدم کو قادرُ الکلام اور زود گو شاعر مانا جاتا ہے۔ وہ شاعری کی مختلف اصناف پر عبور رکھتے تھے، لیکن غزل گوئی ان کی پہچان بنی۔

    10 اپریل 1910ء کو تلونڈی موسیٰ خان، ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہونے والے عبدالحمید عدم کو سہلِ ممتنع کا شاعر کہا جاتا ہے جنھوں نے اپنے خیالات اور جذبات کے اظہار کے لیے سادہ اور رواں بحروں کا انتخاب کیا۔ ان کی شاعری کے مضامین رومان پرور اور داخلی جذبات و کیفیات پر مبنی ہیں۔

    عدم کے کلام کے مختلف مجموعے شائع ہوئے جن میں نقشِ دوام، زلفِ پریشاں، خرابات، قصرِ شیریں، رم آہو، نگار خانہ، صنم کدہ، قول و قرار، زیرِ لب، شہرِ خوباں، گلنار، جنسِ گراں، ساز و صدف، آبِ رواں، سر و سمن شامل ہیں۔

    عالمی شہرت یافتہ موسیقار اور گلوکار نصرت فتح علی کی آواز میں عبدالحمید عدم کا یہ کلام آپ نے بھی سنا ہو گا ’’یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے، یہ تیری نظر کا قصور ہے….‘‘ اس کے علاوہ عدم کے کئی اشعار زباں زدِ عام ہوئے اور ان کی غزلیں فلم کے لیے ریکارڈ کی گئیں۔

    اردو زبان کے اس مقبولِ عام شاعر کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    ہم مے کدے کی راہ سے ہو کر گزر گئے
    ورنہ سفر حیات کا کتنا طویل تھا

    شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
    محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوں میں

    عدمؔ خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے
    ستم ظریف بڑے جلد باز ہوتے ہیں

    اے عدم احتیاط لوگوں سے
    لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں

  • عظیم لوک گلوکار پٹھانے خان کو دنیا سے رخصت ہوئے 21 برس بیت گئے

    عظیم لوک گلوکار پٹھانے خان کو دنیا سے رخصت ہوئے 21 برس بیت گئے

    پاکستان کے نام وَر لوک گلوکار پٹھانے خان کو دنیا سے رخصت ہوئے 21 سال بیت گئے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    پٹھانے خان 1926ء میں مظفر گڑھ کی تحصیل کوٹ ادو میں پیدا ہوئے تھے، ان کا اصل نام غلام محمد تھا۔ سرائیکی خطّے سے تعلق رکھنے والے اس گلوکار کو کافی اور غزل گائیکی میں ملَکہ حاصل تھا۔

    انھوں نے ملتان کے مشہور گلوکار استاد امیر خان سے موسیقی سیکھی اور مختلف محافل کے علاوہ عوامی مقامات پر کافیاں اور لوگ گیت گانے کا سلسلہ شروع کیا۔ پٹھانے خان کو جہاں عوامی سطح پر بہت پزیرائی ملی، وہیں ملک کی نام وَر شخصیات، ذوالفقار علی بھٹو، ضیاءُ الحق سمیت اہلِ اقتدار ان کے کمالِ فن کے معترف رہے۔

    وہ کئی برس تک پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر اپنے فن کا مظاہرہ کرکے ہر خاص و عام سے داد وصول کرتے رہے۔ پٹھانے خان نے صدارتی ایوارڈ سمیت 80 کے قریب قومی و علاقائی ایوارڈ اپنے نام کیے اور اپنے فن کی بدولت شہرت حاصل کی۔ انھیں اپنے صوفیانہ کلام کی وجہ سے پاکستان ہی نہیں‌ بیرونِ ملک بھی سنا اور پہچانا جاتا ہے۔ ”میڈا عشق وی توں، میڈا یار وی توں” وہ کلام تھا جو اس عظیم گلوکار کی آواز میں آج بھی بڑے ذوق و شوق اور عقیدت سے سنا اور گایا جاتا ہے۔

    پٹھانے خان 9 مارچ 2000ء کو کوٹ ادو میں وفات پاگئے تھے اور وہیں آسودۂ خاک ہوئے۔

  • عالمی شہرت یافتہ الغوزہ نواز خمیسو خان کی برسی

    عالمی شہرت یافتہ الغوزہ نواز خمیسو خان کی برسی

    8 مارچ 1983ء کو پاکستان کے نام وَر الغوزہ نواز خمیسو خان وفات پاگئے تھے۔ وہ مختلف راگ راگنیوں پر عبور رکھتے تھے۔ خمیسو خان ایسے فن کار تھے جنھیں‌ نہ صرف ملک بھر میں بلکہ افریقہ، چین، امریکا، روس اور کئی دیگر ممالک میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا اور وہ نام ور ہوئے۔

    الغوزہ بانسری نما ساز ہے جسے منہ سے بجایا جاتا ہے۔ آج جدید سازوں‌ اور آلاتِ موسیقی کے ساتھ طرزِ گائیکی بھی بدل گیا ہے۔ کئی روایتی ساز اور لوک موسیقی بھی مٹ چکی ہے، اور انہی میں پاک و ہند کا یہ مقبول ساز الغوزہ بھی شامل ہے جس کے بجانے والے بھی اب نہیں‌ رہے۔

    خمیسو خان 1923ء میں گوٹھ گاجاموری تعلقہ ٹنڈو محمد خان، ضلع حیدرآباد میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی، اور اپنے زمانے کے مشہور الغوزہ نواز، استاد سید احمد شاہ کی شاگردی اختیار کرکے ان سے موسیقی اور الغوزہ بجانے کی تربیت لینے کے بعد مختلف تقریبات اور شادی بیاہ کی محفلوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے لگے، وہ مختلف عوامی مقامات پر الغوزہ بجا کر لوگوں کو متوجہ کرتے رہتے تھے۔ جلد ہی کسی طرح ریڈیو پاکستان تک ان کی رسائی ہو گئی اور اس کے بعد پاکستان ٹیلی وژن پر بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ یوں خمیسو خان کی شہرت میں اضافہ ہوا اور انھیں بیرونِ ملک جانے کا بھی موقع ملا۔

    حکومتِ پاکستان نے خمیسو خان کے فن کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی اور حکومتِ سندھ نے شاہ لطیف ایوارڈ عطا کیا تھا۔

  • معروف شاعر یوسف ظفر کی برسی

    معروف شاعر یوسف ظفر کی برسی

    اردو زبان کے ممتاز شاعر یوسف ظفر مشہور ادبی جریدے ہمایوں کے مدیر اور حلقہ ارباب ذوق کی بنیاد ڈالنے والوں میں شامل ہیں جن کا آج یومِ وفات ہے۔

    یکم دسمبر 1914ء کو مری میں پیدا ہونے یوسف ظفر نے 1936ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اردو زبان و ادب کے فروغ اور اپنے تخلیقی کاموں کی بدولت نام و مقام پانے والے یوسف ظفر کا تذکرہ آج بہت کم ہی ہوتا ہے، اور بالخصوص نئی نسل ان سے واقف نہیں ہے۔ وہ ایک کہنہ مشق شاعر، ادیب اور صحافی تھے۔ یوسف ظفر معروف ادبی جریدے ہمایوں کے مدیر اور حلقۂ اربابِ ذوق کی بنیاد ڈالنے والوں میں سے ایک تھے۔

    یوسف ظفر یکم دسمبر 1914ء کو مری میں پیدا ہوئے۔ 1936ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ وہ پندرہ سال کے تھے جب والد اور اسی روز بڑی بہن کی اچانک وفات کا صدمہ اٹھانا پڑا۔ والد کے انتقال کے بعد گھر کی ذمہ داری ان کے کندھوں پر آ پڑی تھی۔ یوسف ظفر معاش کے لیے مشکلات کے سائے تلے جدوجہد میں مصروف رہے۔ اس کے ساتھ ان کا شعری سفر اور ادبی سرگرمیاں بھی ان کے ذوق و شوق کی تسکین کے ساتھ غمِ دوراں سے ان کے فرار کا بہانہ بنی رہیں۔ 1939ء میں یوسف ظفر نے مشہور شاعر میرا جی کے ساتھ حلقہ ارباب ذوق کی بنیاد ڈالی۔ قیامِ پاکستان کے بعد انھوں نے جہاں ادبی جریدے کی ادارت سنبھالی وہیں ریڈیو پاکستان سے بھی وابستہ ہوئے۔ وہ اسٹیشن ڈائریکٹر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔

    ان کے شعری مجموعوں میں نوائے ساز، عشق پیماں، حریمِ وطن، صدا بہ صحرا، زہر خند اور زنداں شامل ہیں جب کہ ان کی سوانح عمری بھی شایع ہوچکی ہے۔

    یوسف ظفر نے نثر بھی لکھی اور اس حوالے سے ان کی یہودیت موضوع پر لکھی گئی کتاب بہت وقیع مانی جاتی ہے۔

    یوسف ظفر 7 مارچ 1972ء کو راولپنڈی میں وفات پاگئے تھے اور وہیں ایک قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔ یوسف ظفر کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    غزل
    جو حروف لکھ گیا تھا مری آرزو کا بچپن
    انھیں دھو سکے نہ دل سے مری زندگی کے ساون

    وہ جو دن بکھر چکے ہیں وہ جو خواب مر چکے ہیں
    میں انہی کا ہوں مجاور مرا دل انہی کا مدفن

    یہی ایک آرزو تھی کہ مجھے کوئی پکارے
    سو پکارتی ہے اب تک مجھے اپنے دل کی دھڑکن

    کوئی ٹوٹتا ستارہ مجھے کاش پھر صدا دے
    کہ یہ کوہ و دشت و صحرا ہیں سکوتِ شب سے روشن

    تری منزلِ وفا میں ہُوا خود سے آشنا میں
    تری یاد کا کرم ہے کہ یہی ہے دوست دشمن

    ترے روبرو ہوں لیکن نہیں روشناس تجھ سے
    تجھے دیکھنے نہ دے گی ترے دیکھنے کی الجھن

    ظفرؔ آج دل کا عالم ہے عجب میں کس سے پوچھوں
    وہ صبا کدھر سے آئی جو کھلا گئی یہ گلشن

  • عوامی حقوق کی جدوجہد کرنے والوں میں‌ سرِفہرست جام ساقی کا یومِ وفات

    عوامی حقوق کی جدوجہد کرنے والوں میں‌ سرِفہرست جام ساقی کا یومِ وفات

    آج پاکستان میں عوام کے حقوق کی جدوجہد اور سیاسی محاذ پر اپنے نظریات اور فکر و فسلفے پر ڈٹے رہنے والے جام ساقی کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ پاکستان کمیونسٹ پارٹی کے عہدے دار تھے جنھوں نے حیدرآباد میں 5 مارچ 2018ء کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں موند لی تھیں۔ وفات کے وقت ان کی عمر 74 برس تھی۔

    جام ساقی نے غیر طبقاتی سماج کے لیے جہدِ مسلسل کے دوران مفاہمت کا راستہ اپنایا اور نہ ہی ہتھیار ڈالے بلکہ ہر قسم کی مشکلات جھیلتے ہوئے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والوں میں سر فہرست رہے۔ وہ پاکستان کی عوامی تاریخ کا ایک ایسا کردار ہیں جس نے کبھی اصولوں پر سمجھوتا نہیں کیا۔

    جام ساقی 31 اکتوبر 1944ء کو تھرپارکر کی تحصیل چاچھرو کے ایک چھوٹے سے گاؤں جھنجھی میں پیدا ہوئے۔ یہ وہ وقت تھا جب دنیا کی پہلی سوشلسٹ ریاست سوویت یونین جرمن فوج کو شکست دینے والی تھی۔ جنگ اور بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا سنتے ہوئے جام ساقی ابتدائی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ بعد میں چھاچھرو سے میٹرک کیا اور مزید تعلیم حاصل کرنے حیدرآباد چلے گئے اور وہیں اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔

    حیدرآباد اور بعد میں سندھ یونیورسٹی میں وہ طلبہ تنظیموں میں سرگرم رہے اور بائیں بازو کی سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ انھوں نے کمیونسٹ پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور ان کا شمار چار مارچ کی سندھ کی طلبہ تحریک کے ہیروز میں ہوتا ہے۔

    جام ساقی کو سیاسی و عوامی جدوجہد کے دوران بڑا عرصہ زیرِ زمین روپوش رہ کر یا جیلوں میں گزارنا پڑا۔ اسیری کے دوران صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔ 1980ء کی دہائی میں کمیونسٹوں کے خلاف کریک ڈاؤن میں گرفتار ہوئے اور بعد میں یہ کیس جام ساقی کیس کے نام سے مشہور ہوا جس کی سماعت کے دوران محترمہ بے نظیر بھٹو، ولی خان، غوث بخش بزنجو جیسی سرگرم سیاسی شخصیات ان کی گواہی دینے پہنچی تھیں۔ انھوں نے بعد میں پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی، لیکن یہ سفر جلد تمام ہو گیا۔

    کامریڈ جام ساقی نے سندھی میں ناول کھاڑوی کھجن تحریر کیا جب کہ جام ساقی کیس کی تفصیلات اور بیانات ’آخر فتح عوام کی ہو گی‘ اور ’ضمیر کے قیدی‘ کے نام سے محفوظ کیے تھے۔

  • عظیم شاعر اور نقّاد فراق گورکھپوری کا یومِ وفات

    عظیم شاعر اور نقّاد فراق گورکھپوری کا یومِ وفات

    اردو کے نام وَر شاعر اور نقّاد فراق گورکھپوری 3 مارچ 1982ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ اُن کا شمار بیسویں صدی کے اردو زبان کے صفِ اوّل کے شعرا میں ہوتا تھا۔ اردو ادب میں فراق کو تنقید کے حوالے سے بھی اہم مقام حاصل ہے۔

    ان کا اصل نام رگھو پتی سہائے تھا۔ وہ 28 اگست 1896ء کو گورکھپور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد منشی گورکھ پرشاد عبرت اردو اور فارسی کے عالم، ماہرِ قانون اور اچھّے شاعر تھے۔ اسی علمی و ادبی ماحول میں فراق کی تعلیم و تربیت ہوئی اور وہ بھی اردو زبان و ادب کی طرف متوجہ ہوئے۔

    فراق گورکھپوری نے انگریزی زبان میں ایم اے کرنے کے بعد سول سروسز کا امتحان پاس کیا مگر اس سے متعلق ملازمت اختیار نہ کی بلکہ تدریس سے منسلک ہوگئے۔

    وہ اردو اور انگریزی ادب کا وسیع مطالعہ رکھتے تھے اور شاعری کے ساتھ نقد و نظر کے میدان میں بھی اپنے قلم کو متحرک رکھا۔ فراق نے اردو شاعری میں‌ اپنے تنقیدی میلانات کو کتابی شکل دی جس کا بہت شہرہ ہوا۔ ان کی کتاب اردو کی عشقیہ شاعری کے علاوہ حاشیے بھی تنقیدی مضامین پر مشتمل ہے۔

    فراق اردو کے ان شاعروں میں شمار ہوتے ہیں جنھوں نے بیسویں صدی میں اردو غزل کو ایک نیا رنگ اور آہنگ عطا کیا۔ انھوں نے کسی کی پیروی نہیں‌ کی بلکہ ان کا سب سے جدا اور اپنا ہی رنگ ان کے کلام سے جھلکتا ہے۔ فراق کو عہد ساز شاعر بھی کہا جاتا ہے جب کہ تنقید کے میدان میں‌ بھی ان کا مرتبہ بلند ہے۔ ان کے متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں روحِ کائنات، شبنمستان، رمز و کنایات، غزلستان، روپ، مشعل اور گلِ نغمہ شامل ہیں۔

    دلّی میں‌ وفات پاجانے والے فراق گورکھپوری کو بھارتی حکومت نے پدم بھوشن اور گیان پیٹھ کے اعزازات دیے تھے۔

  • یومِ وفات: سیاست سے ادب تک میاں بشیر احمد کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں

    یومِ وفات: سیاست سے ادب تک میاں بشیر احمد کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں

    آج تحریکِ پاکستان کے راہ نما، شاعر اور ادیب میاں بشیر احمد کی برسی ہے جو 3 مارچ 1971ء کو وفات پاگئے تھے۔ قائدِ اعظم کے ایک قابلِ اعتماد ساتھی اور مسلم لیگ کے جاں نثار کارکن کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے جن کی سیاست اور ادب کے لیے خدمات نمایاں‌ ہیں۔

    میاں بشیر احمد اس خانوادے کے فرد تھے جس کا تذکرہ کیے بغیر پاکستان کے قیام کی تاریخ ادھوری معلوم ہوتی ہے۔ میاں بشیر احمد 29 مارچ 1893ء کو باغبان پورہ، لاہور میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد جسٹس میاں شاہ دین ہمایوں برصغیر کی ایک معروف علمی اور ادبی شخصیت تھے۔

    میاں بشیر احمد نے گورنمنٹ کالج، لاہور سے گریجویشن کرنے کے بعد آکسفورڈ یونیورسٹی سے بی اے آنرز اور بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔ وطن واپسی کے بعد کچھ عرصے بیرسٹری کے بعد‌ اسلامیہ کالج لاہور میں اعزازی لیکچرار رہے۔ یہ سلسلہ تیس سال چلا اور 1922ء میں انھوں نے مشہور ادبی جریدہ ہمایوں جاری کیا جو نہایت معیاری تھا۔ ان کا یہ رسالہ 35 برس تک جاری رہا اور اردو زبان و ادب کے لیے اس کے تحت بڑا کام ہوا۔

    میاں بشیر احمد ایک جانب پنجاب میں انجمنِ ترقیِ اردو کو منظّم کرتے رہے اور دوسری جانب مسلم لیگ کو مضبوط بناتے رہے۔ میاں بشیر احمد ایک اچھے شاعر بھی تھے۔ 1940ء کے تاریخی اجلاس میں جب قراردادِ پاکستان پیش کی گئی تو اس میں انہی کی مشہور نظم ’’ملّت کا پاسباں ہے محمد علی جناح‘‘ پڑھی گئی جس نے ہندوستان بھر کے مسلمانوں‌ میں ایک جوش اور ولولہ پیدا کردیا تھا۔

    1946ء کے عام انتخابات میں میاں‌ بشیر احمد مسلم لیگ کے ٹکٹ پر مجلسِ قانون ساز پنجاب کے رکن منتخب ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد 1949ء میں انہیں ترکی میں پاکستان کا سفیر مقرر کیا گیا تھا۔ وطن واپسی کے بعد میاں بشیر احمد زبان و ادب کی خدمت کرنے لگے۔ انھوں نے چند کتابیں بھی مرتب کیں جن میں طلسمِ زندگی، کارنامہ اسلام اور مسلمانوں کا ماضی، حال اور مستقبل شامل ہیں۔

  • نام وَر موسیقار، گلوکار اور اداکار رفیق غزنوی کا یومِ وفات

    نام وَر موسیقار، گلوکار اور اداکار رفیق غزنوی کا یومِ وفات

    آج برصغیر کے نام ور موسیقار، گلوکار اور اداکار رفیق غزنوی کی برسی ہے۔ وہ 2 مارچ 1974ء کو وفات پاگئے تھے۔

    1907ء میں راولپنڈی میں آنکھ کھولنے والے رفیق غزنوی نے گورڈن کالج راولپنڈی سے گریجویشن کیا۔ انھیں شروع ہی سے موسیقی سے لگاؤ تھا۔ ان کا یہی شوق انھیں استاد عبدالعزیز خان صاحب کے پاس لے گیا جن سے اس فن کے اسرار و رموز سیکھے اور بعد کے برسوں میں ان کا شمار صفِ اوّل کے موسیقاروں میں ہوا۔

    رفیق غزنوی نے اپنے فلمی کیریر کا آغاز اداکاری سے کیا تھا۔ انھوں نے لاہور میں بننے والی پہلی ناطق فلم ہیر رانجھا کا مرکزی کردار نبھایا اور اس فلم کی موسیقی بھی ترتیب دی تھی۔ بحیثیت اداکار خود پر فلمائے گئے نغمات بھی انھوں نے گائے تھے۔ بعد ازاں وہ دہلی چلے گئے جہاں آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہوگئے۔ کچھ عرصہ بعد بمبئی منتقل ہوگئے اور وہاں‌ کئی فلموں کی موسیقی ترتیب دی۔

    رفیق غزنوی نے یوں تو پاک و ہند میں بننے والی کئی فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دی، لیکن ’اپنی نگریا، بہو رانی، سکندر، سوامی، کلجگ اور سوسائٹی نے انھیں‌ خوب شہرت دی۔ فلم کلجگ اور سوسائٹی کے گیت خاصے مقبول ہوئے۔

    قیامِ پاکستان کے بعد رفیق غزنوی نے کراچی کو اپنا مستقر ٹھہرایا اور ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوگئے۔ رفیق غزنوی نے تقسیمِ ہند سے قبل بڑا عروج دیکھا، لیکن پاکستان آنے کے بعد انھوں نے زندگی کا بڑا حصّہ فن و تخلیق سے دور رہ کر گزارا۔ ریڈیو پاکستان میں اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل زیڈ اے بخاری سے اختلافات کے بعد ملازمت بھی چھوڑ دی تھی۔

    رفیق غزنوی نے کسی موسیقار گھرانے سے تعلق نہ رکھنے کے باوجود اپنے شوق اور لگن سے اس فن میں‌ وہ نام و مقام پیدا کیا جس کی مثال کم ہی ملتی ہے، لیکن ان جیسے نہایت قابل اور باصلاحیت فن کار کو ان کے معاشقوں اور رومان پرور مزاج نے بھی فلم انڈسٹری اور سنیما کے شائقین تک بجائے خود ایک موضوع بنائے رکھا۔