Tag: مارچ وفیات

  • معروف شاعرہ، ادیب اور ماہرِ تعلیم شبنم شکیل کی برسی

    معروف شاعرہ، ادیب اور ماہرِ تعلیم شبنم شکیل کی برسی

    اردو زبان و ادب میں شبنم شکیل ایک شاعرہ، ادیب اور ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہیں جو 2 مارچ 2013ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ آج شبنم شکیل کی برسی منائی جارہی ہے۔ ان کے والد سید عابد علی عابد بھی شاعر، نقّاد اور ادیب کی حیثیت سے ممتاز ہوئے۔

    شبنم شکیل 12 مارچ 1942ء کو لاہور میں پیدا ہوئیں۔ اردو ادب میں ماسٹرز کیا اور متعدد کالجوں میں بطور لیکچرر تدریس کے فرائض انجام دیے۔ ان کی تنقیدی مضامین پر مشتمل پہلی کتاب 1965ء میں شائع ہوئی۔

    شبنم شکیل کے شعری مجموعے شب زاد، اضطراب اور مسافت رائیگاں تھی کے نام سے جب کہ نثر پر مبنی کتب تقریب کچھ تو ہو، نہ قفس نہ آشیانہ، اور آواز تو دیکھو شایع ہوئیں۔ انھوں نے متعدد ادبی ایوارڈز اپنے نام کیے اور حکومتَ پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا۔

    شبنم شکیل اسلام آباد کے ایک قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔ ان کے مشہور اشعار پیشِ خدمت ہیں

    چلتے رہے تو کون سا اپنا کمال تھا
    یہ وہ سفر تھا جس میں ٹھہرنا محال تھا

    اب مجھ کو رخصت ہونا ہے اب میرا ہار سنگھار کرو
    کیوں دیر لگاتی ہو سکھیو جلدی سے مجھے تیار کرو

  • تاریخی ناول نگار نسیم حجازی کی برسی

    تاریخی ناول نگار نسیم حجازی کی برسی

    مشہور ناول نگار نسیم حجازی 2 مارچ 1996ء کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ اردو زبان میں تاریخی واقعات اور عالمِ اسلام کے نام وَر حکم رانوں، سپہ سالاروں اور مشہور جنگجو کرداروں پر مبنی ان کے ناول ہر خاص و عام میں بے انتہا مقبول ہوئے۔ نسیم حجازی کے ناولوں کو ڈرامائی تشکیل کے بعد ٹیلی ویژن پر بھی پیش کیا گیا اور یہ بھی اپنے وقت کے مقبول ڈرامے ثابت ہوئے۔

    نسیم حجازی 19 مئی 1914ء کو ضلع گورداسپور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام محمد شریف تھا۔ انھوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا اور متعدد ہفت روزہ اور روزناموں سے وابستہ رہے۔

    نسیم حجازی نے قلم کو ہندوستان کی آزادی اور اس دور کی برائیوں کے خلاف جہاد کے لیے استعمال کیا اور بلوچستان اور شمالی سندھ میں ان کی تحریروں نے تحریکِ پاکستان کو مہمیز دی۔ نسیم حجازی کی وجہِ شہرت ان کی تاریخی ناول نگاری ہے جن میں انسان اور دیوتا، محمد بن قاسم، آخری چٹان، شاہین، خاک اور خون، یوسف بن تاشقین، آخری معرکہ، معظم علی، اور تلوار ٹوٹ گئی، قیصر و کسریٰ، قافلہ حجاز اور اندھیری رات کے مسافر وہ ناول تھے جنھوں نے قارئین کی بڑی تعداد کو ان کا مداح بنادیا۔

    نسیم حجازی نے طنز و مزاح کے حوالے سے پورس کے ہاتھی، ثقافت کی تلاش اور سو سال بعد نامی کتابیں بھی تحریر کیں۔ ان کا ایک سفر نامہ پاکستان سے دیارِ حرم تک بھی شایع ہوا۔ اردو کے اس عظیم ناول نگار کی تصانیف کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا جب کہ آخری چٹان اور شاہین ان کے مقبول ترین ناولوں پر مبنی ڈرامے ہیں۔ خاک اور خون نسیم حجازی کا وہ ناول ہے جس پر فلم بنائی گئی۔

    راولپنڈی میں وفات پانے والے نسیم حجازی اسلام آباد کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • ہم سخن تیری خامشی ہے ابھی: ناصر کاظمی کی برسی

    ہم سخن تیری خامشی ہے ابھی: ناصر کاظمی کی برسی

    2 مارچ 1972ء کو نام وَر شاعر ناصر کاظمی جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ ناصر کاظمی کا شمار اردو کے صاحبِ اسلوب شعرا میں ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنے تخیل کے ساتھ غزل کے اشعار کو وہ لب و لہجہ اور آہنگ بخشا جس کی تازگی آج بھی قائم ہے۔

    ناصر کاظمی 8 دسمبر 1925ء کو انبالہ میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ اوراقِ نو، ہمایوں اور خیال کی مجلسِ ادارت میں شامل رہے جب کہ ریڈیو پاکستان سے اپنی وابستگی وفات تک برقرار رکھی۔

    برگِ نے اردو کے اس شاعر کا وہ مجموعہ کلام تھا جس نے انھیں‌ اپنے ہم عصروں میں ممتاز کیا اور باذوق حلقے نے انھیں سندِ مقبولیت بخشی۔ یہ 1954ء میں شایع ہونے والا ناصر کاظمی کا پہلا شعری مجموعہ تھا۔

    بعد کے برسوں میں‌ ناصر کاظمی کا شمار اردو غزل کے صفِ اوّل کے شعرا میں ہوا۔ ان کے دیگر شعری مجموعے پہلی بارش، نشاطِ خواب اور سُر کی چھایا شایع ہوئے جب کہ نثری مضامین کا مجموعہ خشک چشمے کے کنارے ناصر کاظمی کی وفات کے بعد سامنے آیا۔ ناصر نے اردو کے چند بڑے شعرا کے کلام کو بھی مرتب کیا جن میں میر، نظیر، ولی اور انشا شامل ہیں۔

    ناصر کاظمی کا کلام اپنے زمانے کے معروف گلوکاروں نے گایا جن میں غلام علی، عابدہ پروین اور دیگر شامل ہیں۔ ان کی ایک مشہور غزل ہم یہاں آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر کررہے ہیں۔

    دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی
    کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی

    کچھ تو نازک مزاج ہیں ہم بھی
    اور یہ چوٹ بھی نئی ہے ابھی

    شور برپا ہے خانۂ دل میں
    کوئی دیوار سی گری ہے ابھی

    بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
    جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی

    تُو شریک سخن نہیں ہے تو کیا
    ہم سخن تیری خامشی ہے ابھی

    یاد کے بے نشاں جزیروں سے
    تیری آواز آ رہی ہے ابھی

    شہر کی بے چراغ گلیوں میں
    زندگی تجھ کو ڈھونڈتی ہے ابھی

    سو گئے لوگ اس حویلی کے
    ایک کھڑکی مگر کھلی ہے ابھی

    وقت اچھا بھی آئے گا ناصرؔ
    غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی

    ناصر کاظمی لاہور میں مومن پورہ کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • ”آپ کی محبوبہ کون ہے؟“

    ”آپ کی محبوبہ کون ہے؟“

    ممتاز حسین نے بی ایڈ کیا۔ کیسے کیا اللہ جانتا ہے یا ہم لوگ۔ ان کا وہ آرام کا سال تھا۔ انھوں نے دیوانِ غالب خریدا اور جتنے دن وہ علی گڑھ رہے، صرف وہی پڑھتے رہے۔ ایک لڑکی پر عاشق ہوگئے اور اسی عشق کی بدولت بی ایڈ ہوگئے۔ ورنہ مجھے یقین تھا کہ وہ علی گڑھ سے یوں ہی چلے جاتے۔

    یہ عشق بھی عجیب و غریب تھا۔ اس زمانے میں علی گڑھ میں لڑکیاں برقع پہنتیں، اور پوسٹ گریجویٹ کلاسوں میں علاحدہ بیٹھتیں۔ بڑی دعاﺅں کے بعد اگر کسی کا برقع سرک جاتا تو ایک ہلکا سا دیدار ہوجاتا۔ دیدار بھی کیا ہوتا۔ یوں سمجھیے کہ غالب کے قول کے مطابق: وہ اک نگہ جو بظاہر نگاہ سے کم ہے

    ایک روز شامتِ اعمال، ایک لڑکی برقع پہنے ممتاز بھائی کے پاس آئی اور اس نے ممتاز بھائی سے نوٹس مانگ لیے۔ چوں کہ وہ اپنی کلاس کے سب سے پڑھے لکھے طالب علم تھے، ان کے استاد بھی ان کے علم کا لوہا مانتے تھے۔ لڑکی کو خیال ہوا کہ طالب علم بھی اچّھے ہوں گے۔ اس نے اظہارِ خیال کردیا۔ ممتاز بھائی نے اس کی شکل نہیں دیکھی اور عاشق ہوگئے۔

    اس کے لیے راتوں رات نوٹس تیار کیے۔ ایک کاپی بھر دی۔ اب تو وہ متاثر ہوئی اور اس نے باقاعدہ ان سے مدد لینا شروع کردی۔ ممتاز حسین نے اردو میں چند بہترین افسانے بھی لکھے ہیں، لیکن وہ عشقیہ خطوط نہیں لکھ سکتے۔ چناں چہ یہ فرض حسن امام، مونس رضا اور راقم الحروف نے ادا کیا۔ بہرحال یہ سلسلہ چلتا رہا۔

    ایک روز ہم لوگوں نے اصرار کیا کہ ممتاز بھائی ہم لوگ اتنا کام کرتے ہیں، مشورے دیتے ہیں، آخر ہم لوگ بھی تو آپ کی محبوبہ کو دیکھیں۔ چناں چہ ایک روز ہم لوگ بھی پہنچے۔ وہاں متعدد برقع پوش عورتیں تھیں۔ ممتاز بھائی سے پوچھا کہ ”ان میں سے آپ کی محبوبہ کون ہے؟“

    ممتاز بھائی خود بھونچکا تھے۔ کہنے لگے میں کیا بتاﺅں۔ میں نے خود کون سی دیکھی ہے؟

    (یہ دل چسپ واقعہ کتاب "علی گڑھ سے علی گڑھ تک” میں‌ شامل ہے)