Tag: مارکیز

  • مارکیز: شہرۂ آفاق ناولوں کے خالق کا تذکرہ

    مارکیز: شہرۂ آفاق ناولوں کے خالق کا تذکرہ

    مارکیز نے ”طلسمی حقیقت نگاری“ کی اصطلاح سے اتفاق نہ کیا، جب کہ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ اصطلاح انہی کے لیے وضع کی گئی تھی۔ مارکیز اپنی تحریروں کو حقیقت نگاری کہتے تھے۔

    عصرِ حاضر کے سب سے بڑے ناول نگار کا درجہ رکھنے والے مارکیز نوبیل انعام یافتہ ادیب تھے۔ ان کے شہرۂ آفاق ناولوں میں ’تنہائی کے سو سال‘ اور ’وبا کے دنوں میں محبت‘ شامل ہے۔ آج مارکیز کا یومِ وفات ہے۔

    گیبریئل گارشیا مارکیز اپنے عہد میں سب سے بڑے اور قارئین کے محبوب فکشن نگار بھی کہلائے۔ 2014 میں مارکیز 87 برس کی عمر میں‌ آج ہی کے دن چل بسے تھے۔ انھیں ان کے احباب اور مداح گابو کے نام سے بھی پکارتے تھے۔

    مارکیز کو 1982ء میں ادب کا نوبیل انعام دیا گیا تھا، جب ان کی عمر لگ بھگ 55 برس تھی۔ گیبریل گارسیا مارکیز کی ایک انفرادیت یہ تھی کہ ان کی تخلیقات کا قاری ماضی، حال اور مستقبل کو ان تحریروں میں ایک ساتھ دیکھتا تھا۔ وہ واقعات کو طلمساتی انداز میں یوں گوندھتے تھے کہ قاری خود کو ان میں‌ گرفتار پاتا۔ مارکیز کے تخلیقی کام کی ایک خوبی یہ تھی وہ کسی مغربی ادیب یا مغربی روایت کے نقال نہیں بنے بلکہ اپنے حالات، مقامی کرداروں اور محسوسات، تجربات ہی کو اپنی تخلیقات میں پیش کیا۔ انھوں نے محبّت جیسے قدیم اور لافانی جذبے، خاندان اور آمریت کی دل موہ لینے والے واقعات کو کہانی میں پیش کیا۔ ان کے انوکھے موضوعات، کردار نگاری کا مخصوص انداز اور واقعات کی طلسماتی بنت نے انھیں ہم عصروں کے مقابلے میں ازحد مقبول بنا دیا۔ کارسیا مارکیز کی تقریباً تمام تحریریں اردو سمیت دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ کی گئیں۔

    گابو دنیا کے مشہور ترین لاطینی امریکی ناول نگاروں میں سے ایک اور ادبی تحریک کے روح رواں تھے۔ وہ کیوبا کے مشہور راہ نما فیدل کاسترو کے قریبی دوست بھی تھے۔ مارکیز کے مشہور ناولوں کے نام یہ ہیں۔

    (1967) One Hundred Year of Solitude
    (1975) The Autum of the Patriarch
    (1985) Love in the Time of Cholera
    (2002) Living to Tell the Tale

    1927ء میں مارکیز نے کولمبیا کے ایک قصبے میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد کیمسٹ تھے اور بیٹے کی پیدائش کے بعد انھوں نے بغرضِ کاروبار اپنا قصبہ چھوڑ دیا اور بڑے شہر میں منتقل ہوگئے۔ وہاں مارکیز کے ریٹائرڈ کرنل دادا، دادی اور آنٹی رہتی تھیں جن کے زیرِ سایہ مارکیز نے تربیت پائی۔ وہ گھر میں ان بزرگوں سے مختلف قصّے اور پراسرار کہانیاں سنتے ہوئے بڑے ہوئے۔ ان کے یہ بڑے بہت اچھے قصّہ گو تھے اور ان کے ساتھ مارکیز کو تفریح اور گھومنے پھرنے کا بھی موقع ملتا تھا۔ مارکیز دراصل ہسپانوی آباد کاروں، مقامی آبادی اور سیاہ فاموں کی غلامی کے ورثے میں پروان چڑھے تھے۔ مارکیز نے گریجویشن کے بعد قانون کی تعلیم بھی حاصل کی، اور ناول نگاری کا آغاز 1961 میں کیا۔ اس وقت وہ کولمبیا سے میکسکو سٹی منتقل ہوچکے تھے۔ اس دور میں مارکیز نے سخت مالی مشکلات اور کئی مسائل کا بھی سامنا کیا، لیکن ان کا قلم محبّت کی حدت اور حالات کی شدّت کے ساتھ تیزی سے کہانیاں بُننے لگا تھا اور وہ اپنے مسائل سے نمٹتے ہوئے مسلسل لکھتے رہے۔ بالآخر انھیں دنیا بھر میں پہچان ملی اور مارکیز نوبیل انعام سے بھی نوازے گئے۔

    عالمی شہرت یافتہ مارکیز ایک عرصے تک صحافت کے شعبے سے بھی منسلک رہے۔ وہ اسے دنیا کا سب سے خوب صورت پیشہ گردانتے تھے۔ ان کی پہلی ملازمت بھی ایک اخبار میں تھی جس نے 1947 میں ان کی پہلی مختصر کہانی شائع کی۔ اس وقت ان کے قلم سے نکلا ہوا ایک آرٹیکل فوجی حکام کا پسند نہ آیا اور تب مارکیز کو اپنا وطن چھوڑ کر یورپ جانا پڑا۔ وہ جنیوا، روم اور پیرس میں رہے اور اپنے تخلیقی سفر کو جاری رکھا۔

    اس عظیم ناول نگار نے 23 برس کی عمر میں اپنا پہلا ناول لکھا تھا اور اس کے بعد وہ اپنے ملک میں جاری جنگ و جدل، بدامنی اور بے چینی کے ساتھ محبّت کے جذبے اور دوسرے واقعات کو اپنی کہانیوں میں سموتے رہے۔ ان کی کہانیوں کے بیشتر کردار خاندان اور شہر کے وہ لوگ تھے جن کی زندگیوں کو مارکیز نے قریب سے دیکھا اور ان کا مشاہدہ کیا تھا۔

    میکسیکو میں‌ مارکیز کی موت کی اطلاع نے فضا کو سوگوار کردیا تھا۔ لوگ ان کو بہت چاہتے تھے۔ مداحوں کی بڑی تعداد نے مارکیز کا آخری دیدار کیا دنیا بھر سے اہلِ علم شخصیات، قلم کاروں اور مشہور لوگوں نے تعزیتی پیغامات کے ساتھ انھیں خراجِ عقیدت پیش کیا۔

  • مارکیز کا کاسترو!

    مارکیز کا کاسترو!

    فیدل کاسترو اور مارکیز، دونوں کا شمار مشاہیر میں کیا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک نام وَر انقلابی اور مدبّر سیاست داں تھا اور دوسرا شہرۂ آفاق ناولوں کا خالق۔ آج یہ دونوں ہی اس دنیا میں نہیں، لیکن ان کا نظریہ اور ان کی تخلیق آج بھی انھیں زندہ رکھے ہوئے ہے۔

    لاطینی امریکہ کی ان معتبر شخصیات نے دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کو اپنے افکار و نظریات سے متأثر کیا اور اپنی جرأت و صداقت کے سبب ان کا بڑا احترام کیا جاتا ہے۔

    کیوبا کے انقلابی راہ نما اور صدر فیدل کاسترو کی بات کی جائے تو وہ ایک زبردست مقرر بھی تھے۔ وہ فنِ خطابت ہی میں‌ ماہر نہیں تھے بلکہ کتب بینی کا شوق رکھنے والے اور اعلیٰ پائے کے قلم کار تھے۔ کاسترو ایک کالم نویس بھی تھے اور کیوبا کے اخبارات میں باقاعدگی سے ان کی تحریریں شایع ہوتی تھیں۔ سیاست کے ساتھ ساتھ کاسترو کو ادب سے گہری دل چسپی تھی۔ وہ انگریزی اور ہسپانوی ادب کے قاری ہی نہیں‌ بلکہ نقّاد بھی تھے۔ کئی ادیبوں سے ان کی دوستی تھی۔ لاطینی امریکہ کے منفرد اسلوب کے حامل ادیب مارکیز سے بھی کاسترو کا تعلق رہا۔ مارکیز کولمبیا کے ناول نگار اور صحافی تھے جن کی کہانیوں اور مضامین کا دنیا کی کئی زبانوں میں‌ ترجمہ کیا گیا۔ گبریئل گارشیا مارکیز کا مشہور ناول ”تنہائی کے سو سال‘‘ کاسترو کو بہت پسند تھا۔ مارکیز بھی کاسترو کو ایک زبردست قاری اور بہترین نقّاد مانتے تھے اور مشہور ہے کہ اس ادیب نے اپنے کئی مسودے تنقیدی جائزہ لینے کی غرض سے کاسترو کے سامنے رکھے تھے۔

    مارکیز نے اپنے سوانحی انٹرویوز پر مبنی کتاب میں کاسترو کی تنقیدی بصیرت کا تذکرہ کیا ہے جس سے ایک دل چسپ پارہ ہم یہاں‌ نقل کر رہے ہیں۔ اجمل کمال نے مارکیز کی کتاب کا اردو ترجمہ "امرود کی مہک” کے نام سے کیا تھا۔ اسی ترجمہ سے یہ انتخاب پیشِ خدمت ہے جو اپنے وقت کی ایک غیر معمولی ذہین اور مدبّر شخصیت فیدل کاسترو کے علمی و ادبی ذوق کی گواہی بھی ہے۔

    ”فیدل کاسترو” سے میری قریبی اور دِلی دوستی کا آغاز ادب کے حوالے سے ہوا۔ 1960ء کی دہائی میں ”پرینسا لاطینا” میں ملازمت کے دنوں میں، میں اسے سرسری طور پر جاننے لگا تھا، لیکن مجھے کبھی یہ محسوس نہیں ہوا تھا کہ ہمارے درمیان کچھ زیادہ چیزیں مشترک ہیں۔

    بعد میں جب میں ایک مشہور ادیب اور وہ دنیا کا معروف ترین سیاست داں بن چکا تھا، ہماری کئی بار ملاقات ہوئی، مگر تب بھی، باہمی احترام اور خیر سگالی کے باوجود، میں نے محسوس نہیں کیا کہ اس تعلق میں سیاسی ہم آہنگی سے بڑھ کر بھی کوئی چیز ہوسکتی ہے۔

    چھے برس پہلے ایک روز صبح منہ اندھیرے اس نے مجھ سے اجازت چاہی، کیوں کہ اسے گھر جاکر بہت سا مطالعہ کرنا تھا۔ اس نے کہا کہ اگرچہ یہ کام اسے لازماً کرنا پڑتا ہے لیکن بیزار کن اور تھکا دینے والا کام لگتا ہے۔ میں نے مشورہ دیا کہ اس لازمی مطالعے کی تھکن دور کرنے کے لیے وہ کوئی ایسی چیز پڑھا کرے جو ذرا ہلکی پھلکی ہو، مگر اچھا ادب ہو۔ میں نے مثال کے طور پر چند کتابوں کے نام لیے، اور یہ جان کر حیران ہوا کہ نہ صرف اس نے یہ تمام کتابیں پڑھ رکھی تھیں بلکہ اس پر اچھی نگاہ تھی۔

    اُس رات مجھ پر اِس بات کا انکشاف ہوا جس سے چند ہی لوگ واقف ہیں کہ فیدل کاسترو بے حد پُرجوش پڑھنے والا ہے کہ اسے ہر زمانے کے اچھے ادب سے محبت ہے، اور یہ کہ وہ اس کا نہایت سنجیدہ ذوق رکھتا ہے۔ دشوار ترین حالات میں بھی، فرصت کے لمحات میں پڑھنے کے لیے اس کے پاس ایک نہ ایک عمدہ کتاب ضرور رہتی ہے۔

    اس شب رخصت ہوتے ہوئے میں نے اسے پڑھنے کے لیے ایک کتاب دی۔ اگلے روز 12 بجے میں اس سے دوبارہ ملا تو وہ اسے پڑھ چکا تھا۔ وہ اس قدر محتاط اور باریک بیں قاری ہے کہ وہ نہایت غیر متوقع مقامات پر تضادات اور واقعاتی غلطیوں کی نشان دہی کر دیتا ہے۔

    میری کتاب ”ایک غرقاب شدہ جہاز کے ملاح کی داستان” پڑھنے کے بعد وہ صرف یہ بتانے کے لیے میرے ہوٹل آیا کہ میں نے کشتی کی رفتار کا حساب لگانے میں غلطی کی ہے، اور اس کے پہنچنے کا وقت ہرگز وہ نہیں ہوسکتا جو میں نے بیان کیا ہے۔ اس کی بات درست تھی۔ اس لیے” ایک پیش گفتہ موت کی روداد” کو شائع کرانے سے پہلے میں مسودہ اس کے پاس لے گیا، اور اس نے شکاری رائفل کی خصوصیات کے بارے میں ایک غلطی کی نشان دہی کی۔

    لگتا ہے اسے ادب کی دنیا سے محبت ہے، یہاں اس کا جی لگتا ہے، اور اسے اپنی بے شمار تحریر شدہ تقریروں کے ادبی اسلوب پر محنت کرنے میں لطف آتا ہے۔ ایک موقعے پر اس نے حسرت زدہ انداز میں، مجھے بتایا: ” اپنے اگلے جنم میں میں ایک ادیب بننا چاہتا ہوں۔

  • وہ دن جب ایک طلسمی حقیقت نگار ہم سے جدا ہوا!

    وہ دن جب ایک طلسمی حقیقت نگار ہم سے جدا ہوا!

    مارکیز کو ”طلسمی حقیقت نگاری“ کی اس اصطلاح سے قطعی اتفاق نہ تھا جو انہی کے لیے وضع کی گئی۔ وہ اپنی تحریروں اور اپنے اسلوب کو حقیقت نگاری کہتے تھے۔ ’تنہائی کے سو سال‘ اور ’وبا کے دنوں میں محبت‘ مارکیز کے شہرۂ آفاق ناول ہیں۔ آج نوبیل انعام یافتہ مارکیز کا یومِ وفات ہے۔

    گیبریئل گارشیا مارکیز کو عصرِ حاضر کا سب سے بڑا ناول نگار کہا جاتا ہے۔ وہ دورِ حاضر کے سب سے بڑے اور قارئین کے محبوب فکشن نگار کہلائے۔ 2014 میں 87 برس کی عمر میں‌ مارکیز آج ہی کے دن چل بسے تھے۔ انھیں ان کے احباب اور مداح گابو کے نام سے بھی پکارتے ہیں۔

    مارکیز کو 1982ء میں ادب کا نوبیل انعام دیا گیا تھا، جب ان کی عمر لگ بھگ 55 برس تھی۔ گیبریل گارسیا مارکیز کی ایک انفرادیت یہ تھی کہ ان کی تخلیقات کا قاری ماضی، حال اور مستقبل کو ان تحریروں میں ایک ساتھ دیکھتا تھا۔ وہ واقعات کو طلمساتی انداز میں یوں گوندھتے تھے کہ قاری خود کو ان میں‌ گرفتار پاتا۔ مارکیز کے تخلیقی کام کی ایک خوبی یہ تھی وہ کسی مغربی ادیب یا مغربی روایت کے نقال نہیں بنے بلکہ اپنے حالات، مقامی کرداروں اور محسوسات، تجربات ہی کو اپنی تخلیقات میں پیش کیا۔ انھوں نے محبّت جیسے قدیم اور لافانی جذبے، خاندان اور آمریت کی دل موہ لینے والے واقعات کو کہانی میں پیش کیا۔ ان کے انوکھے موضوعات، کردار نگاری کا مخصوص انداز اور واقعات کی طلسماتی بنت نے انھیں ہم عصروں کے مقابلے میں ازحد مقبول بنا دیا۔ کارسیا مارکیز کی تقریباً تمام تحریریں اردو سمیت دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ کی گئیں۔

    گابو دنیا کے مشہور ترین لاطینی امریکی ناول نگاروں میں سے ایک اور ادبی تحریک کے روح رواں تھے۔ وہ کیوبا کے مشہور راہ نما فیدل کاسترو کے قریبی دوست بھی تھے۔ مارکیز کے مشہور ناولوں کے نام یہ ہیں۔
    (1967) One Hundred Year of Solitude
    (1975) The Autum of the Patriarch
    (1985) Love in the Time of Cholera
    (2002) Living to Tell the Tale

    مارکیز 1927ء میں کولمبیا کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے۔ ان کا باپ ایک کیمسٹ تھا اور بیٹے کی پیدائش پر کاروبار کی غرض سے اپنی بیوی کے ساتھ ایک بڑے شہر میں منتقل ہوگیا تھا۔ یوں‌ مارکیز نے دادا، دادی اور آنٹی کے زیرِ سایہ تربیت پائی۔ وہ گھر میں ان بزرگوں سے مختلف قصّے اور پراسرار کہانیاں سنتے ہوئے بڑے ہوئے تھے۔ ان کے یہ بڑے بہت اچھے قصّہ گو تھے اور مارکیز کو تفریح کے ساتھ گھومنے پھرنے کا بھی موقع ملتا تھا اور وہ اپنے شوق پورے کرتے تھے۔ مارکیز دراصل ہسپانوی آباد کاروں، مقامی آبادی اور سیاہ فاموں کی غلامی کے ورثے میں پروان چڑھے تھے۔ ان کے دادا ایک ریٹائر کرنل تھے۔ مارکیز نے گریجویشن کے بعد قانون کی تعلیم بھی حاصل کی، مگر پھر عملی زندگی میں‌ قدم رکھنا پڑا۔ انھوں نے ناول نگاری کا آغاز 1961 میں اپنے کنبے کے ساتھ کولمبیا سے میکسکو سٹی منتقل ہونے کے بعد کیا۔ اس دور میں مارکیز نے سخت مالی مشکلات اور کئی مسائل کا بھی سامنا کیا، لیکن ان کا قلم محبّت کی حدت اور حالات کی شدّت کے ساتھ تیزی سے کہانیاں بُننے لگا تھا اور وہ اپنے مسائل سے نمٹتے ہوئے لکھتے رہے۔ بالآخر انھیں دنیا بھر میں پہچان ملی اور وہ نوبیل انعام سے بھی نوازے گئے۔ وہ ایک عرصے تک صحافت کے شعبے سے منسلک رہے۔ مارکیز اسے دنیا کا سب سے خوب صورت پیشہ گردانتے تھے۔ ان کی پہلی ملازمت بھی ایک اخبار کے ساتھ تھی جس نے 1947 میں ان کی پہلی مختصر کہانی شائع کی تھی۔ اس عالمی شہرت یافتہ ناول نگار کے قلم سے نکلا ہوا ایک آرٹیکل اس زمانے کے فوجی حکام کا پسند نہ آیا اور تب مارکیز کو اپنا وطن چھوڑ کر یورپ جانا پڑا۔ وہ جنیوا، روم اور پیرس میں رہے اور اپنے تخلیقی سفر کو جاری رکھا۔

    اس عظیم ناول نگار نے 23 برس کی عمر میں اپنا پہلا ناول لکھا تھا اور اس کے بعد وہ اپنے ملک میں جاری جنگ و جدل، بدامنی اور بے چینی کے ساتھ محبّت کے جذبے اور دوسرے واقعات کو اپنی کہانیوں میں سموتے رہے۔ اس عہد ساز ادیب کی کہانیوں کے بیشتر کردار ان کے خاندان اور شہر کے باسی تھے جن کی زندگیوں کو مارکیز نے اپنے ناولوں میں نیا مفہوم دیا۔

    مارکیز کی میکسیکو میں‌ موت پر فضا سوگوار ہوگئی اور ان کے مداحوں کی بڑی تعداد ان کے آخری دیدار کو پہنچی۔ دنیا بھر کے ادیبوں، فن کاروں اور سیاست دانوں نے بھی تعزیتی پیغامات میں اس عظیم ناول نگار کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔