Tag: مارگریٹ تھیچر

  • ماگریٹ تھیچر کا تذکرہ جنھیں آئرن لیڈی کہا جاتا ہے!

    ماگریٹ تھیچر کا تذکرہ جنھیں آئرن لیڈی کہا جاتا ہے!

    1982ء میں‌ مارگریٹ تھیچر برطانیہ کی حکم راں تھیں اور جب جزائر کے مجموعے پر مشتمل فاک لینڈ پر قبضہ کرنے کے لیے ارجنٹائن نے فوجی کارروائی کی اور برطانیہ کی وزیرِ اعظم مارگریٹ تھیچر نے ارجنٹائن کو فوجی طاقت کے استعمال پر اسی کی زبان میں جواب دینے کا فیصلہ کر کے عالمی توجہ حاصل کرلی دنیا بھر میں انھیں اپنی قوّتِ فیصلہ اور سیاسی تدبّر کے باعث شہرت ملی۔ وہ آئرن لیڈی کے لقب سے مشہور ہوئیں۔

    جنوبی بحرِ اوقیانوس میں ارجنٹائن کے ساحل سے 480 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود جزائر کا مجموعہ فاک لینڈ کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں 776 چھوٹے جزائر اور دو بڑے جزیرے مشرقی فاک لینڈ اور مغربی فاک لینڈ کہلاتے ہیں۔ یہ رقبے کے اعتبار سے 12,000 مربع کلومیٹر سے زائد پر محیط ہیں اور یہاں چند ہزار نفوس پر انسانی آبادی بھی ہے۔ 1833ء سے برطانیہ نے ان جزائر کا انتظام سنبھال رکھا تھا، لیکن یہ برطانیہ اور ارجنٹائن کے مابین متنازع علاقہ رہا ہے اور ارجنٹائن ان پر اپنا حقِ ملکیت جتاتا آیا ہے۔ ان جزائر کی عمل داری اور تحویل پر دونوں ممالک کے مابین تعلقات کشیدہ رہے ہیں۔ برطانیہ اور ارجنٹائن نے 1982ء میں ان جزائر پر قبضے کی جنگ لڑی تھی جس میں ارجنٹائن کو پیچھے ہٹنا پڑا تھا۔ اتفاق دیکھیے کہ برطانیہ کی سابق وزیرِ اعظم مارگریٹ تھیچر کی موت سے صرف ایک ماہ قبل یعنی 10 مارچ 2013ء کو فاک لینڈ میں‌ عوامی ریفرنڈم منعقد کیا گیا تھا جس میں‌ وہاں کے باسیوں‌ نے برطانیہ کے حق میں اپنا فیصلہ سنایا تھا۔ ارجنٹائن کے حق میں‌ صرف 3 ووٹ آئے تھے۔ اس ریفرنڈم کے بعد آئرن لیڈی 2013ء میں‌ آج ہی کے دن انتقال کرگئی تھیں۔

    مارگریٹ تھیچر کو برطانیہ میں ‘آئرن لیڈی’ کہا جاتا ہے۔ وہ مضبوط اعصاب کی مالک اور اپنے فیصلے پر ڈٹ جانے والی خاتون تھیں۔ 3 اپریل 1982ء کو ارجنٹائن نے ان جزائر پر مہم جوئی کی تو برطانوی وزیرِ اعظم کے حکم پر ایک سو جنگی بحری جہاز اور 27 ہزار فوجی ارجنٹائن کی فوج کا مقابلہ کرنے کے لیے روانہ ہوئے۔ اپریل میں شروع ہونے والی فاک لینڈ جنگ 74 دنوں تک جاری رہی جس کے بعد ارجنٹائن نے شکست تسلیم کرلی۔ مارگریٹ تھیچر کے فوجی کارروائی کے فیصلے کی برطانوی عوام نے کھل کر تائید اور حمایت کی تھی اور اسی فیصلے نے انھیں‌ برطانیہ کے اگلے عام انتخابات میں بھی کام یاب کروایا۔ اگلے الیکشن میں بھاری کام یابی کے بعد مارگریٹ تھیچر نے اپنے ایک مشکل ترین فیصلے سے خود کو پھر آئرن لیڈی ثابت کیا، ان کے اس دورِ حکومت میں برطانیہ میں نمایاں اقتصادی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔

    برطانیہ کی اس پہلی خاتون وزیرِاعظم کا پورا نام مارگریٹ ہلڈا تھیچر تھا۔ وہ اپنے ارادوں کی پختگی اور سخت گیر مؤقف کے لیے ہی مشہور نہیں‌ تھیں‌ بلکہ ناقدین انھیں‌ سخت اور مفاہمت نہ کرنے والی خاتون بھی کہتے تھے۔ مارگریٹ تھیچر نے ثابت کیا کہ ملکی سیاست اور اس عہدے کے لیے ان کا انتخاب غلط نہ تھا۔ اپنے دور میں انھوں‌ نے کئی سیاسی، اقتصادی اور عسکری فیصلے کیے جو نہایت مشکل تھے، لیکن انھوں نے اس پر اپنی سخت مخالفت اور تنقید کی بھی پروا نہ کی۔ انھیں تین بار برطانیہ کے اہم ترین منصب کے لیے منتخب کیا گیا۔

    مارگریٹ تھیچر کا سنہ پیدائش 1925ء ہے۔ وہ گرانتھم، لنکاشائر میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد سبزی فروش تھے۔ وہ ایک جُز وقتی مبلغ اور مقامی کونسلر بھی تھے جن کا ان کی بیٹی کی زندگی پر اثر تھا۔ وہ کہتی تھیں کہ ’میرے والد نے میری ایسی تربیت کی ہے کہ میں ہر اس چیز پر یقین کروں جس پر مجھے یقین ہو۔‘ آکسفورڈ میں مارگریٹ تھیچر نے کیمسٹری کے مضمون میں ڈگری لینے کے بعد 1947ء سے 1951ء تک ایک ادارے میں علمی و تحقیق کام کیا۔ 1951ء میں ان کی شادی ہوگئی اور بعد میں مارگریٹ تھیچر نے تعلیمی سلسلہ جاری رکھا، مگر اب وکالت ان کا مضمون تھا۔ 1953ء میں امتحان میں کام یابی کے بعد وہ ٹیکس اٹارنی بن گئیں۔ یہاں سے انھیں سیاست کے میدان میں قدم رکھنے کا موقع ملا اور وہ کنزرویٹو پارٹی سے وابستہ ہوئیں۔

    مارگریٹ تھیچر 1959ء میں اپنی جماعت کے ٹکٹ پر دارالعوام کی رکن منتخب ہوئیں۔ ان کی سیاسی بصیرت اور اہلیت نے انھیں آگے بڑھنے کا موقع دیا اور ایک روز وہ برطانیہ کی وزیراعظم بنیں۔ مارگریٹ تھیچر کا دورِ‌ حکومت ان کے مختلف شعبہ جات میں اصلاحات کے فیصلے کی وجہ سے تنقید کی زد میں بھی رہا اور وہاں عوام نے بڑا مشکل وقت بھی دیکھا، لیکن بعد میں‌ ان اصلاحات اور بطور وزیرِ اعظم مارگریٹ تھیچر کے فیصلوں کے مثبت اثرات ظاہر ہونے لگے۔ ان کی پالیسیوں کے باعث برطانیہ میں بے روز گاری کی شرح بہت بڑھ گئی تھی، جس کو ان کے مخالف سیاست دانوں نے اپنے مفاد میں خوب اچھالا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ انہی پالیسیوں کے برطانوی معیشت پر دیرپا اثرات مرتب ہوئے اور وہاں ترقّی دیکھنے میں آئی۔ ان کی پالیسیوں کے تحت برطانیہ میں نجکاری کا عمل تیز ہوا۔ انھوں نے اپنے ملک میں ’فری مارکیٹ اکانومی‘ کی ترقّی کے لیے کام کیا۔ ان کے دور میں مزدور یونین تنظیموں کے اثرات کو کم کرنے اور نجکاری کے لیے قوانین متعارف کرانے کے علاوہ کونسل کے گھروں میں رہنے والوں کو وہی گھر خریدنے کی اجازت جیسے اہم فیصلے کیے گئے تھے۔

    مارگریٹ تھیچر کے دور میں خارجہ پالیسی بھی ان کی وجہِ شہرت رہی۔ خاص طور پر برطانیہ اور ارجنٹائن جنگ کے دوران انھوں نے دوست ممالک اور دنیا کے سامنے اپنا مؤقف بہت اچھے انداز سے پیش کیا اور ان کی کام یاب خارجہ پالیسی کی بدولت ان کی حمایت میں اضافہ ہوا۔

    بعض ناقدین نے انھیں سخت گیر اور مؤقف تبدیل نہ کرنے والی خاتون حکم راں بھی قرار دیا۔ مارگریٹ تھیچر کے بارے میں ان کے بعد وزیرِاعظم کا عہدہ سنبھالنے والے سَر جان میجر نے کہا تھا، ’ان کی اقتصادی اور مزدور تنظیموں کے قوانین میں اصلاحات اور فاک لینڈ جزیروں پر برطانوی کنٹرول یقینی بنانے کے اقدامات نے انھیں ایک اعلیٰ پائے کے سیاست دان ثابت کیا۔ یہ ایسی کام یابیاں تھیں جو شاید کوئی اور راہ نما حاصل نہیں کر سکتا تھا۔‘

    مارگریٹ تھیچر کو بیسویں صدی کی اہم ترین سیاسی شخصیات میں شمار کیا جاتا تھا جس نے 1979ء، 1983ء، اور 1987ء کے عام انتخابات میں کام یابی حاصل کی تھی۔ برطانیہ کی آئرن لیڈی 1992ء میں پارلیمان کے ایوانِ زیریں ریٹائر ہوئیں۔ ان کی سیاست کا بعد میں بھی آنے والے راہ نماؤں کی پالیسیوں پر گہرا اثر رہا۔

  • مارگریٹ تھیچر کی پالیسیوں سے برطانیہ میں بے روزگاری کی شرح بڑھ گئی تھی

    مارگریٹ تھیچر کی پالیسیوں سے برطانیہ میں بے روزگاری کی شرح بڑھ گئی تھی

    جنوبی بحرِ اوقیانوس میں ارجنٹائن کے ساحل سے 480 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود جزائر کا مجموعہ فاک لینڈ کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں 776 چھوٹے جزائر اور دو بڑے جزیرے مشرقی فاک لینڈ اور مغربی فاک لینڈ کہلاتے ہیں۔ یہ رقبے کے اعتبار سے 12,000 مربع کلومیٹر سے زائد پر محیط ہیں اور یہاں کی‌ آبادی 3 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔

    ان جزائر کا انتظام 1833ء سے برطانیہ نے سنبھال رکھا ہے، لیکن ارجنٹائن بھی ان پر اپنا حقِ ملکیت جتاتا ہے اور اس حوالے سے دونوں ممالک کے مابین تعلقات کشیدہ رہے ہیں۔ برطانیہ اور ارجنٹائن کے درمیان 1982ء میں ان جزائر پر قبضے کے لیے جنگ بھی ہوچکی ہے جس میں ارجنٹائن کو پیچھے ہٹنا پڑا تھا۔

    1982ء میں‌ مارگریٹ تھیچر برطانیہ کی حکم راں تھیں اور جب ان جزائر پر قبضے کے لیے ارجنٹائن کی جانب سے فوجی کارروائی کی گئی تو مارگریٹ تھیچر نے طاقت ہی سے اس کا جواب دینے کا فیصلہ کیا۔

    برطانیہ کی سابق وزیرِ اعظم مارگریٹ تھیچر 2013ء میں‌ آج ہی کے روز انتقال کرگئی تھیں۔ ان کی موت سے صرف ایک ماہ قبل یعنی 10 مارچ 2013ء کو فاک لینڈ میں‌ عوامی ریفرنڈم میں‌ وہاں کے باسیوں‌ نے برطانیہ کی عمل داری قبول کی تھی۔ ارجنٹائن کے حق میں‌ صرف 3 ووٹ آئے تھے۔

    مارگریٹ تھیچر کو برطانیہ میں ‘آئرن لیڈی’ کہا جاتا ہے۔ وہ مضبوط اعصاب کی مالک اور اپنے فیصلے پر ڈٹ جانے والی خاتون تھیں۔ 3 اپریل 1982ء کو ارجنٹائن نے ان جزائر پر قبضہ کرنے کے لیے فوج اتاری تو انھوں نے وزیرِ اعظم کی حیثیت سے جنگ کے لیے ایک سو جنگی بحری جہاز اور 27 ہزار فوجی روانہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اپریل میں شروع ہونے والی فاک لینڈ جنگ 74 دنوں تک جاری رہی اور جون کے مہینے میں‌ ارجنٹائن کی فوج نے ہتھیار ڈال دیے۔

    مارگریٹ تھیچر کے فوجی کارروائی کے فیصلے کی برطانوی عوام نے بھی کھل کر تائید اور حمایت کی تھی اور اسی فیصلے نے انھیں‌ برطانیہ کے اگلے عام انتخابات میں بھی کام یاب کروایا۔

    اگلی بار بھاری کام یابی کے بعد مارگریٹ تھیچر نے اپنے ایک مشکل ترین فیصلے سے خود کو پھر آئرن لیڈی ثابت کیا، ان کے اس دورِ حکومت میں برطانیہ میں نمایاں اقتصادی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔

    وہ برطانیہ کی پہلی خاتون وزیرِاعظم تھیں، ان کا پورا نام مارگریٹ ہلڈا تھیچر تھا۔ وہ اپنے ارادوں کی پختگی اور سخت گیر مؤقف کے لیے ہی مشہور نہیں‌ تھیں‌ بلکہ ناقدین انھیں‌ سخت اور مفاہمت نہ کرنے والی خاتون بھی کہتے تھے۔

    مارگریٹ تھیچر نے ثابت کیا کہ ملکی سیاست اور اس عہدے کے لیے ان کا انتخاب غلط نہ تھا۔ اپنے دور میں انھوں‌ نے کئی سیاسی، اقتصادی اور عسکری فیصلے کیے جو نہایت مشکل تھے، لیکن انھوں نے اس پر اپنی سخت مخالفت اور تنقید کی بھی پروا نہ کی۔

    انھیں تین بار اپنے ملک کے اہم ترین منصب کے لیے منتخب کیا گیا۔

    مارگریٹ تھیچر کا سنِ پیدائش 1925ء ہے۔ وہ گرانتھم، لنکاشائر میں پیدا ہوئی تھیں۔
    ان کے والد سبزی فروش تھے۔ وہ ایک جُزوقتی مبلغ اور مقامی کونسلر بھی تھے جن کا ان کی بیٹی کی زندگی پر اثر تھا۔

    وہ کہتی تھیں کہ ’میرے والد نے میری ایسی تربیت کی ہے کہ میں ہر اس چیز پر یقین کروں جس پر مجھے یقین ہو۔‘

    آکسفورڈ میں تعلیم حاصل کرنے والی مارگریٹ تھیچر کیمسٹری کے مضمون میں ڈگری لینے کے بعد 1947ء سے لے کر1951ء تک ایک ادارے میں تحقیق میں مصروف رہیں۔

    1951ء میں شادی کے بعد بھی مارگریٹ تھیچر نے تعلیمی سلسلہ جاری رکھا، مگر اب وکالت ان کا مضمون تھا۔ 1953ء میں امتحان میں کام یابی کے بعد وہ ٹیکس اٹارنی بن گئیں۔ یہاں سے انھیں سیاست کے میدان میں قدم رکھنے کا موقع ملا اور وہ کنزرویٹو پارٹی سے وابستہ ہو گئیں۔

    مارگریٹ تھیچر 1959ء میں اپنی جماعت کے ٹکٹ پر دارالعوام کی رکن منتخب ہوئیں۔ ان کی سیاسی بصیرت اور اہلیت نے انھیں آگے بڑھنے کا موقع دیا اور ایک روز وہ برطانیہ کی وزیراعظم بنیں۔

    مارگریٹ تھیچر کے دور میں برطانیہ میں کئی شعبوں میں اصلاحات کے سبب وہاں عوام کو کئی مشکلات پیش آئیں اور انھیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا، لیکن بعد میں‌ ان اصلاحات اور بطور وزیرِ اعظم مارگریٹ تھیچر کے فیصلوں کے مثبت اثرات ظاہر ہونے لگے۔ ان کی پالیسیوں کے باعث برطانیہ میں بے روز گاری کی شرح بہت بڑھ گئی تھی، تاہم وقت کے ساتھ ساتھ انہی پالیسیوں کی وجہ سے برطانوی معیشت میں دیرپا ترقّی دیکھنے میں آئی۔

    ان کی پالیسیوں کے تحت برطانیہ میں نجکاری کا عمل تیز ہوا۔ انھوں نے اپنے ملک میں ’فری مارکیٹ اکانومی‘ کی ترقّی کے لیے کام کیا۔ ان کے دور میں مزدور یونین تنظیموں کے اثرات کو کم کرنے اور نجکاری کے لیے قوانین متعارف کرانے کے علاوہ کونسل کے گھروں میں رہنے والوں کو وہی گھر خریدنے کی اجازت جیسے اہم فیصلے کیے گئے تھے۔

    برطانیہ اور ارجنٹائن جنگ کے دوران ان کی کام یاب خارجہ پالیسی کو بھی بہت سراہا جاتا ہے۔

    بعض ناقدین کی نظر میں سخت مزاج اور اپنا مؤقف تبدیل نہ کرنے والی مارگریٹ تھیچر کے بارے میں ان کے بعد وزیرِاعظم کا عہدہ سنبھالنے والے سَر جان میجر نے کہا تھا، ’ان کی اقتصادی اور مزدور تنظیموں کے قوانین میں اصلاحات اور فاک لینڈ جزیروں پر برطانوی کنٹرول یقینی بنانے کے اقدامات نے انھیں ایک اعلیٰ پائے کے سیاست دان ثابت کیا۔ یہ ایسی کام یابیاں تھیں جو شاید کوئی اور راہ نما حاصل نہیں کر سکتا تھا۔‘

    مارگریٹ تھیچر بیسویں صدی کی اہم ترین سیاسی شخصیات میں شمار کی جاتی ہیں جنھوں‌ نے 1979ء، 1983ء، اور 1987ء کے عام انتخابات میں کام یابی حاصل کی تھی۔

    برطانیہ کی آئرن لیڈی 1992ء میں پارلیمان کے ایوانِ زیریں ریٹائر ہوئیں۔ ان کی سیاست کا بعد میں بھی آنے والے راہ نماؤں کی پالیسیوں پر گہرا اثر رہا۔

  • سائنس سے سیاست تک "آئرن لیڈی” کے سفر کی کہانی

    سائنس سے سیاست تک "آئرن لیڈی” کے سفر کی کہانی

    برطانیہ بھی کرونا سے متاثرہ ملکوں میں شامل ہے جسں کے موجودہ وزیراعظم بورس جانسن بھی اس وائرس کا شکار ہیں اور پچھلے دنوں انھیں انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں منتقل کیا گیا ہے۔

    اسی برطانیہ کی ایک خاتون وزیرِاعظم تھیں مارگریٹ ہلڈا تھیچر، جنھیں "آئرن لیڈی” کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

    برطانیہ کی یہ سیاست داں اپنے مضبوط ارادوں اور عزم و ہمت کی وجہ سے دنیا بھر میں‌ پہچانی جاتی ہیں۔

    وہ برطانوی تاریخ کی پہلی خاتون وزیرِاعظم تھیں۔ انھوں نے ثابت کیا کہ اس عہدے کے لیے ان کا انتخاب غلط نہ تھا۔ اپنے دور میں کئی سیاسی اور عسکری فیصلوں کے دوران انھوں نے بڑی سے بڑی مشکل اور رکاوٹ کو ہمت اور بہادری سے دور کیا۔ وہ 1979 تک برطانیہ میں اس عہدے پر فائز رہیں۔

    مارگریٹ تھیچر کا سن پیدائش 1925 ہے۔ انھوں نے آکسفورڈ میں تعلیم پائی اور کیمسٹری کے مضمون میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد 1947 سے لے کر1951 تک ایک ادارے میں تحقیق میں مصروف رہیں۔

    1951 میں شادی کے بعد بھی مارگریٹ تھیچر نے تعلیمی سلسلہ جاری رکھا، مگر اب وکالت ان کا مضمون تھا۔ 1953 میں امتحان میں کام یابی کے بعد وہ ٹیکس اٹارنی بن گئیں۔

    یہاں سے انھیں سیاست کے میدان میں قدم رکھنے کا موقع ملا اور وہ کنزرویٹو پارٹی سے وابستہ ہو گئیں۔ 1959 میں اس جماعت کے ٹکٹ پر دارالعوام کی رکن منتخب ہوئیں۔

    ان کی سیاسی بصیرت اور اہلیت نے انھیں ایک روز برطانیہ کی وزیراعظم کے عہدے تک پہنچا دیا۔

    اس منصب پر فائز ہونے کے بعد مارگریٹ تھیچر نے کچھ ایسے فیصلے کیے جن پر سیاسی اور عوامی سطح پر انھیں کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا، مگر وہ ایک قدم پیچھے نہ ہٹیں۔

    ان کے دور میں برطانیہ میں کئی شعبوں میں اصلاحات کی گئیں اور اس حوالے سے بھی انھیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

    مارگریٹ کے دورِ حکومت میں برطانیہ اور ارجنٹائن کے درمیان جنگ ہوئی میں برطانیہ کی کام یاب خارجہ پالیسی کو بہت سراہا جاتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ انھیں مسلسل تین انتخابات میں کام یابی نصیب ہوئی اور ان کا شمار بیسویں صدی کے طاقت ور اور کام یاب سیاست دانوں میں کیا جاتا ہے۔