Tag: ماسٹر رام چندر

  • امید اور توقعات…

    امید اور توقعات…

    امید اور ناامیدی، توقعات اور ان کے پورے ہونے پر خوشی یا مراد پوری نہ ہونے پر رنجیدہ ہونا انسان کی فطرت ہے اور یہ وہ موضوع ہے جو آج بھی ہم مختلف کتابوں اور ویڈیوز کی شکل میں پڑھتے اور سنتے ہیں لیکن یہ قدیم طرزِ انشا میں ایک خوب صورت مضمون ہے جس کے مصنّف ماسٹر رام چندر ہیں۔

    ماسٹر رام چندر متحدہ ہندوستان کے برطانوی راج کے ایک عالم فاضل، مدرس اور قابل مضمون نگار تھے۔ مضمون ملاحظہ کیجیے۔

    ہم دیکھتے ہیں کہ مدار کار خانۂ عالم کا امید و توقع کے ساتھ مربوط ہے۔ کوئی شخص دنیا میں ایسا نہیں پایا جاتا کہ جو امید و توقع سے خالی ہو۔ کوئی شخص یہ توقع کرتا ہے کہ مجھے دار عقبیٰ میں یہ یہ نعمتیں اور خوشیاں حاصل ہوں گی اور واسطے کامیابی کے اپنے اوقات کو عبادت حق تعالیٰ میں صرف کرتا ہے۔ کسی کو یہ امید ہے کہ مجھے دنیا میں یہ اسباب خوشی اور راحت کے نصیب ہوں گے اور وہ واسطے ان مطالب کے مساعی ہے۔

    ہم خاصہ طبیعتِ انسانی کا دیکھتے ہیں کہ اسے امید و توقع میں بڑی خوشی رہتی ہے اور وہ اس امید میں اپنے نفس پر بڑی تکالیف اور محنتیں اختیار کرتا ہے۔ جن لوگوں کو یہ آرزو ہوتی ہے کہ ہم نیک نامی حاصل کریں اور مراتبِ عالیہ کو پہنچیں، وہ اپنے تئیں بڑی بڑی مہلکہ مصائب میں ڈالتے ہیں اور ان مصیبتوں کو راحت خیال کرتے ہیں۔ جن لوگوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ہم بہت سا روپیہ اور عزت حاصل کریں وہ بڑے بڑے دور دراز ملکوں کا سفر اختیار کرتے ہیں اور اپنے نفس پر جبر کر کے محنت سے منھ نہیں پھیرتے۔

    اگر سکندر فتوحِ ممالک کی کوشش، نہ توقع کرتا تو وہ سفر بحری اور بری نہ اختیار کرتا اور سرحد ہندوستان تک نہ پہنچتا۔ بعضے لوگوں کا ہم یہ حال دیکھتے ہیں کہ جب ان کو امید کی طرف سے مایوسی ہوجاتی ہے تو اپنی زندگانی کو تلف کر دیتے ہیں اور اپنے تئیں اپنے ہاتھ سے ہلاک کرتے ہیں۔ اہلِ خطا کا تاریخوں میں یہ حال دیکھا ہے کہ وہاں کے لوگوں میں یہ رسم ہے کہ جب ان پر فقر وفاقہ گزرتا ہے اور صفائی و عیش سے مایوسی ہو جاتی ہے یا اور کسی طرح کی مصیبت آتی ہے تو وہ اپنے تئیں ہلاک کرتے ہیں۔ اس طرح جب ان میں سے کسی کے ہاں اس حال میں لڑکا پیدا ہوتا ہے، وہ پہلے پہلے اس کی زندگانی سے مایوس ہو کر اس کو راستے میں ڈال دیتے ہیں۔ اگر اس کو کسی نے وہاں سے اٹھایا تو اس کی جان باقی رہی، وگرنہ ہاتھی یا گھوڑوں کے پاؤں کے تلے دب کر مر جاتے ہیں۔

    واقعی میں آدمی کے تئیں ایسا نہ چاہیے کہ تھوڑی سی مایوسی کے ساتھ اپنی جان کو تلف کردے۔ حقیقت میں دنیا جگہ آزمائش کی ہے۔ خدا تعالیٰ اپنے بندوں کے صبر اور محنت کا امتحان کرتا ہے۔ مرد وہ ہے کہ مصیبت پر صبر کرے اور جو کچھ اس پر گزرے تحمل کرے، نہ یہ کہ اس کا متحمل نہ ہوکر اپنے تئیں ہلاک کر دے۔ جس شخص نے حال فرہاد کوہکن کا دیکھا ہوگا اس پر شہادت اس امر کی روشن ہوگی کہ اس کی جان کھونے کا یہی باعث ہوا کہ جب وہ کوہِ بے ستوں کو کاٹ چکا، اور اس کی امید بر آنے میں ایک دو دن کا عرصہ باقی رہا تو خسرو نے از راہ فریب ایک عورت کے ہاتھ یہ کہلا بھیجا کہ شیریں کا وصال ہوا۔ جب اس نے یہ خبر سنی تو وہ وصال شیریں سے مایوس ہوگیا اور اپنے سر میں تیشہ مار کے مر گیا۔

    آدمی کے تئیں چاہئے کہ اس طرح کی امیدیں نہ کرے کہ جو اس کی نسبت محال اور غیر ممکن معلوم ہوتی ہوں۔ اس طرح کی امید کو خبط سمجھنا چاہئے۔ آدمی وہ امیدیں کرے جو جلدی حاصل ہو جاویں اور اس کی سعی اور کوشش اس میں بیکار نہ ہو۔ بعضے لوگوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ بڑے ذی اقتداروں کا حال دیکھ کر یہ جانتے ہیں کہ ہمارے تئیں بھی یہی حاصل ہو۔ جب وہ ان کے عیش و عشرت اور کامیابی مقاصد کو دیکھتے ہیں تو جانتے ہیں کہ ہمارے تئیں بھی یہ نعمتیں اور یہی حکومت اور اختیار حاصل ہو جاوے۔ حالانکہ وہ ہنر سے بے بہرہ اور کوشش سے بیزار ہیں۔ گھر بیٹھے چاہتے ہیں کہ ہم کو ملک دنیا کا مل جاوے۔ پس اس صورت میں سوائے رنج و الم اور کیا انہیں حاصل ہو سکتا ہے۔

    بعض لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کہیں سے مدفون خزانہ ہمارے ہاتھ لگ جاوے تو بہت خوب ہے اور خوب چین سے زندگی گزرے۔ اب دیکھو پانا خزانے کا کیسی بعید بات ہے اور شاید اس طرح دولت کسی بشر کو نصیب ہوتی ہوگی۔ بعض لوگ بتوقع کیمیاء کی اپنی بہت سی دولت اور روپیہ پھونک دیتے ہیں۔ کیمیاء بنانی تو نہیں آتی مگر اور گھر کے نقد کو بھی کھو دیتے ہیں اور اسی توقع میں مر جاتے ہیں۔

  • ماسٹر رام چندر: صحافی اور ایک علمی شخصیت کا تذکرہ

    ماسٹر رام چندر: صحافی اور ایک علمی شخصیت کا تذکرہ

    ماسٹر رام چندر کا تذکرہ آج شاذ ہی کسی کتاب، کسی رسالہ میں‌ پڑھنے کو ملتا ہے، لیکن آج بھی نوجوان نسل کو علمی میدان میں ان کے کارناموں سے روشناس کروانے کی ضرورت ہے۔ وہ متحدہ ہندوستان کے معروف صحافی، ایک ریاضی داں، معلّم اور محقق بھی تھے۔ رام چندر نے الجبرا اور علمِ مثلث پر وقیع مضامین سپردِ قلم کیے اور کئی مقالے لکھے جو اس دور کے مشہور رسائل میں شایع ہوئے۔

    رام چندر کی دو تصنیفات کا برطانیہ میں بھی چرچا ہوا اور حکومت نے ان کی گراں قدر علمی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انعام و اکرام سے نوازا۔ کائنات اور علمِ ہیئت بھی ماسٹر رام چندر کی دل چسپی کا میدان تھا۔ اس سلسلہ میں‌ ان کے ایک مضمون اور اس پر ضمیمہ کو ہندوستان بھر میں شہرت ملی تھی۔

    رام چندر ہریانہ کے مشہور علاقہ پانی پت کے ایک ہندو گھرانے میں‌ 1821ء میں‌ پیدا ہوئے اور 11 اگست 1880ء کو وفات پاگئے۔ وہ شروع ہی سے سائنس اور علمی موضوعات میں‌ دل چسپی رکھتے تھے۔ رام چندر خوب صورت طرزِ نگارش کے حامل تھے۔ وہ تعلیمِ نسواں کے بڑے حامی ہی نہیں‌ تھے بلکہ قوتِ‌ سماعت و گویائی سے محروم افراد کی تربیت اور تعلیم کو بھی ضروری خیال کرتے تھے۔ ان کے والد رائے سندر لال ماتھر محکمۂ مالیات میں ملازم تھے۔ بارہ برس کی عمر میں رام چندر انگریزی مدرسے میں داخل ہوئے، بعد میں دہلی کالج میں داخلہ لیا اور وہاں اپنی قابلیت کی وجہ سے وظیفہ پایا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد رام چندر اسی کالج میں مدرس ہو گئے اور اردو میں الجبرا اور علمِ مثلث پر کتابیں لکھیں۔ 1854ء میں انھوں نے ہندو مذہب ترک کیا اور عیسائی مذہب کو اپنا لیا جس پر ان کے خاندان اور دوسرے لوگوں نے ان سے قطع تعلق کرلیا تھا۔

    ان کی دو کتابوں کی شہرت انگلستان تک پہنچی اور ایک کتاب کے لیے برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی کورٹ آف ڈائریکٹرز نے ایک خلعت پنج پارچہ اور دو ہزار روپیہ نقد عطا کیا۔ وہ ہندوستان میں 1845ء میں ان کا ایک پندرہ روزہ علمی اخبار فوائد الناظرین اور 1847ء میں ایک علمی اور ادبی ماہنامہ محبِّ ہند جاری ہوا۔ پھر غدر مچ گیا اور اس دوران میں رام چندر نے چھپ چھپا کر زندگی بسر کی۔ تاہم غدر کے بعد اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ روڑکی میں ایک بڑے تعلیمی ادارے سے منسلک رہنے کے بعد دہلی آئے تو یہاں ڈسٹرکٹ اسکول کے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوگئے اور اسی منصب سے خرابیِ صحت کی بنا پر سبک دوش ہوئے۔

    ماسٹر صاحب نے راجا مہندر سنگھ کے اتالیق کی حیثیت سے ریاست پٹیالہ کے دربار میں ملازمت بھی کی اور ریاست پٹیالہ میں سر رشتہ تعلیم کا قیام عمل میں آیا تو رام چندر اس کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ ان کے دورِ ملازمت میں پٹیالہ میں تعلیم کو بہت فروغ ملا۔

    رام چندر کی صحت کبھی اچھی نہ رہی تھی۔ وہ چالیس برس کے تھے جب خرابیِ صحت کی بنا پر پنشن کی درخواست دے دی تھی۔ رفتہ رفتہ صحت گرتی ہی گئی اور ان کا انتقال ہوگیا۔

    کائنات سے متعلق رام چندر کے سوالات اور ان کی فکر ملاحظہ کیجیے۔

    "اس عاصی نے شائقینِ علمِ ہیئت سے یہ سوال کیا تھا کہ کیا باعث ہے کہ چاند گرہن بہ نسبت سورج گرہن کے تعداد میں زیادہ ہوتے ہیں، لیکن اب تک کسی نے جواب اس سوال کا نہ دیا۔ پس یہ احقر اس کا جواب خود لکھتا ہے….۔”

    "واضح ہو کہ چاند ایک جسم نورانی بالذّات نہیں ہے بلکہ جو روشنی اس پر نظر آتی ہے وہ اس پر آفتاب سے آتی ہے۔ پس ظاہر ہے کہ اگر کوئی شے چاند اور سورج کے مابین آجائے تو چاند پر تاریکی ہو جائے گی اور اس تاریکی کو گرہن کہتے ہیں۔

    پس اب دیکھنا چاہیے کہ چاند گرہن کی صورت میں کون سی شے حائل چاند اور آفتاب میں ہو جاتی ہے۔ واضح ہو کہ شے مذکور کرّۂ زمین ہے کہ جب یہ چاند اور سورج کے بیچ میں آتی ہے، اس وقت روشنی آفتاب کی چاند پر گرنے سے موقوف ہو جاتی ہے۔ اس کا خیال شکل ذیل کے ملاحظہ کرنے سے خوب اچھی طرح سے دل میں آجائے گا۔

    چاند گرہن کے نقشے سے واضح ہے کہ جس وقت زمین ٹھیک مابین آفتاب اور چاند کے ہوتی ہے اس وقت پرچھائیں یعنی سایہ زمین کا اوپر چاند کے گرتا ہے اور چوں کہ زمین نسبت چاند کے بہت بڑی ہے، اس، واسطے اس کا سایہ بھی بڑا ہے۔ یہاں تک کہ جس وقت چاند زمین کے سایہ میں آجاتا ہے تو تھوڑی دیر کے بعد اسے طے کر کے وہ نکلتا ہے اور شکل سے واضح ہے کہ چاند گرہن اس خلقت کو جو اس نصف کرّۂ زمین پر رہتے ہیں، جو سامنے چاند کے ہیں نظر آئے گا یعنی جن کو کہ چاند اس وقت نظرآنا ہوگا ان کو اس کا گرہن بھی دکھائی دے گا۔

    پس یہاں سے یہ معلوم ہوا کہ سارے چاند گرہن نظر آتے ہیں، لیکن سورج گرہن کی صورت میں یہ نہیں ہوتا اور اس کا باعث یہ ہے کہ جس وقت کہ چاند ٹھیک مابین زمین اور آفتاب کے آتا ہے اس وقت چاند کے حائل ہونے سے روشنی آفتاب کی زمین تک نہیں پہنچتی ہے لیکن چاند ایک چھوٹا کرّہ ہے اور اس کی پرچھائیں یعنی سایہ اس قدر بڑا نہیں ہوتا کہ ساری زمین کو گھیر لے یعنی ساری زمین پر سایہ کردے فقط ایک تھوڑا حصہ کرّۂ زمین کی تاریکی میں آتا ہے اور باقی پر روشنی بدستور قائم رہتی ہے۔

    یہاں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سورج گرہن سب خلقت کو نظر نہ آوے (آئے) یعنی بعض جائے (جگہ) وہ دکھائی دیتا ہے اور بعض جائے نہیں۔

    اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سورج گرہن فقط کسی جائے سمندر میں دکھلائی دے سکتا ہے اور چوں کہ وہاں کوئی آدمی نہیں ہوتا تو اس گرہن کی کسی کو بھی خبر نہیں ہوتی۔ پس معلوم ہوا کہ باعث سورج گرہن کے کم ہونے کا یہ ہے کہ وہ سب مقاموں پر نظر نہیں آتے۔ سورج گرہن کے کم واقع ہونے کی ایک خوب مثال یہ ہے۔

    واضح ہو کہ بادل زمین سے بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور اسی واسطے ان کا سایہ ساری زمین پر نہیں ہو سکتا ہے۔ تھوڑی سی دور تک ان کا سایہ ہوتا ہے اور باقی مقاموں سے آفتاب بخوبی نظر آتا ہے اور وہاں دھوپ کھلی ہوتی ہے۔ یہی حال سورج گرہن کا ہے کہ چاند مانند ایک نہایت بڑے بادل کے ہے لیکن تب بھی زمین سے چھوٹا ہے اور اس باعث سے اس کا سایہ آفتاب کو ساری زمین سے نہیں چھپا سکتا ہے یعنی گرہن سورج کا سارے نصف کرّۂ زمین پر نظر نہیں آتا ہے۔”

  • لق و دق جنگل اور دریائے گنگ

    لق و دق جنگل اور دریائے گنگ

    واضح ہو کہ ہردوار ایک چھوٹا سا شہر کنارے پر واقع ہے۔ یہ مقام درمیان لق و دق جنگل اور دریائے گنگ کے واقع ہے اور جنگل مذکور مشرق میں اس کے ہے۔

    چونکہ ہندو گنگا کو بہت پاک سمجھتے ہیں، اس واسطے جوق در جوق ہنود ہر ضلع ہندوستان سے وہاں ماہ اپریل میں نہانے جاتے ہیں۔ اگرچہ بعض اوقات اس میلے میں دس لاکھ آدمیوں سے بھی زیادہ ہوتے ہیں لیکن اکثر تین لاکھ آدمیوں سے زیادہ جمع نہیں ہوتے۔ جس میں سے ایک تھوڑا حصہ زائرین کا ہوتا ہے اور سب تماشہ بین اور سوداگر لوگ ہوتے ہیں۔ اس موقع پر صاحبان انگریز بھی قریب تین سو کے جاتے ہیں، جن میں بعض تو صاحبان واسطے انتظام کے تشریف لاتے ہیں اور بعض بحکم سرکار گھوڑے خریدنے آتے ہیں، باقی صرف بطور سیاح جاتے ہیں۔

    بہتیرے دولت مند مسلمان بھی واسطے سیر کے جاتے ہیں اور اکثر واسطے خرید و فروخت اشیاء کے، جو کہ دور دور سے آتی ہیں، جاتے ہیں۔

    شہر کسکل جو تین میل کے فاصلے پر ہردوار سے ہے، نہایت خوبصورت اور قلیل سیر کے جگہ ہے۔ وہاں مکانات پتھر کے کنارے دریا پر بنے ہوئے ہیں اور امیر لوگ ان کو جا کر بطور کرایہ لیتے ہیں یا بعض شخص خرید لیتے ہیں۔ بہتیرے لوگ ڈیرے ساتھ لے جاتے ہیں اور ان میں رہتے ہیں اور باقی لوگ چھپروں اور سائے بانوں اور درخت کے سایہ کے نیچے اترتے ہیں۔ صاحبان انگریز کے ڈیرے دو طرفہ سڑک پر مشکل سے کھڑے کئے جاتے ہیں اور بہت خوبصورت معلوم ہوتے ہیں اور مسلمان لوگوں کے بھی ڈیرے بہت آراستگی کے ساتھ ہوتے ہیں اور ہرطرف گھوڑے اور ہاتھی اور نوکروں وغیرہ کا بھی ان کے ساتھ ہجوم ہوتا ہے جس سے کہ آرائشِ میلہ کی اور بھی زیادہ معلوم ہوتی ہے۔

    جب کہ ہردوار کے نزدیک پہنچتے ہیں تو سڑک پر عجب سیر آنے والوں کی ہوتی ہے۔ ہزارہا موٹے موٹے برہمن اور سادہ لوگ چارپائیوں پر چلے آتے ہیں اور لوگ ڈولیوں اور پالکیوں اور شتروں اور گاڑیوں اور چھکڑوں اور بیلوں پر آتے ہیں۔ قریب ہردوار کے جہاں سے کہ سڑک نیچے کو جھکتی ہے، وہاں سے شہر ہردوار اور میلہ دکھائی دینے لگتا ہے اور عجیب گڈمڈ ہجوم اور طرح طرح کی چیزیں معلوم ہوتی ہیں کہ آدمی کی نگاہ ایک جگہ قائم نہیں رہ سکتی۔ امیر کبیر، ہندو عورتوں وغیرہ کے واسطے الگ گھاٹ نہانے کے مقرر ہو جاتے ہیں اور دریا کے اندر بھی وہ نہایت عمدہ ڈولوں میں بیٹھ کے جاتی ہیں اور باقی عورتیں اس وقت کچھ پردہ نہیں کرتیں جبکہ نہان کا وقت آتا ہے۔ اس وقت گھنٹے بجتے ہیں اور ایک دفعہ ہی لاکھوں آدمی ڈیروں اور جھونپڑیوں میں سے نہانے کے واسطے جاتے ہیں اور اس ہجوم میں ایک دفعہ تین سو آدمی مر گئے تھے۔

    اس وقت عجب تماشہ ہوتا ہے کہ ہر ایک آدمی اپنے اپنے کام میں مشغول ہوتا ہے۔ برہمن لوگ بڑی گرم جوشی سے اپنا خراج زائرین سے جمع کرتے ہیں اور دیکھتے رہتے ہیں کہ کوئی شخص بغیر ادا کرنے کے نہا کر نہ چلا جاوے اور ہر طرح کے فقیر اپنی معاش کے حاصل کرنے میں مشغول ہوتے ہیں اور تماشہ بین ادھر ادھر پیدل اور سواریوں پر دیکھتے پھرتے ہیں۔باوجودیکہ لاکھوں آدمیوں کا وہاں غل ہوتا ہے لیکن اس پر بھی صدہا گھنٹے اور نفریں بجتی ہیں۔

    اس موقعے پر ہر ملک کا شخص مثلاً پہاڑی اور اوزبک اور تاتار اور اہلِ عرب اور افغان اور سکھ اور کشمیری اور اہلِ تبت اور چین جمع ہوتے ہیں اور مختلف اشیاء واسطے فروخت کے لاتے ہیں۔ اور گھوڑے اور ہاتھی اور اونٹ نہایت کثرت سے بکنے کو آتے ہیں۔ اس میلہ میں ہر طرح کے دکان دار اور سوداگر نہایت آراستگی اور شان کے ساتھ دکانیں لگاتے ہیں۔ انواع انواع کے جواہرات اور دوشالہ اور کھلونا اور انگریزی اسباب بکنے کو آتا ہے۔ صدہا خوانچے والے اور پھیری والے بساطی ہر ایک قماش کی چیزیں لئے غل کرتے پھرتے ہیں اور کسی طرف ہزار ہا من اناج کے ڈھیر اور کسی طرف میوے کے تھیلے لگے ہوتے ہیں اور چونکہ اس میلہ پر شیرینی کا بہت خرچ ہوتا ہے تو ہزار ہا من مٹھائی ہر طرح کے حلوائیوں کی دکانوں پر پائی جاتی ہے۔

    شام کے وقت امیروں کے گھر پر ناچ ہوتے ہیں اور راستے میں بھان متی اور مداری اور نٹ اپنا اپنا تماشہ دکھاتے ہیں۔ رات کو روشنی کی نہایت عجیب کیفیت ہوتی ہے۔ گنگا پر لوگ چراغ رکھتے ہیں اور چراغ رکھ رکھ کر دریا میں چھوڑتے ہیں اور تمام سطح پانی کی روشن چراغوں سے سرخ معلوم ہوتی ہے اور جب آدھی رات سے زیادہ گزر جاتی ہے اور غل کم ہوتا ہے اور روشنی میں بھی کمی ہوتی ہے اس وقت چور اور قزاق اور بڑے بڑے اس فن کے جاننے والے نکلتے ہیں اور جو کچھ ان کا قابو ہوتا ہے، لے جاتے ہیں۔ اکثر ہندوستانیوں کا قاعدہ ہے کہ وہ اپنا روپیہ اشرفی تکیوں میں رکھ کر اپنے سرہانے دھر کر سویا کرتے ہیں تو چور لوگ اس میں عجب چالاکی کرتے ہیں۔ جب جانا کہ سب سوتے ہیں تب ایک تنکا لے کر ناک کے اندر یا کان میں ہلکے سے کرتے ہیں اور جب اس کو گدگدی معلوم ہوتی ہے، وہ کروٹ لیتا ہے اور چور تکیہ نکال کر بھاگ جاتے ہیں۔

    قبل اس کے کہ صاحبانِ انگریز کی عملداری وہاں نہیں تھی، میلہ میں بڑی جنگ وجدل ہوا کرتی تھی اور خوب خونریزی ہوتی تھی۔ اب ضلع کا مجسٹریٹ جاتا ہے اور پولیس قائم ہوتا ہے اور پلٹن انگریزی بھی آتی ہے اور بخوبی انتطام ہوتا ہے اور یہ چوری اور خونریزی نہیں ہوتی اور شراب وہاں بکنے نہیں پاتی جو کہ مخزن خرابیوں کی ہے۔ کوئی آدمی مسلح نہیں میلے میں داخل ہونے پاتا۔ ہر شخص کے ہتھیار ایک خاص مقام پر حکم سرکار سے چھین کر جمع کرتے ہیں اور اس کو ایک ٹکٹ ملتا ہے اور بر وقتِ مراجعت میلہ کے، مالک کو اس کا ہتھیار مل جاتا ہے کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ساٹھ لاکھ تلواریں جمع ہوئی تھیں۔

    (معروف ہندوستانی ریاضی دان، صحافی اور مضمون نگار ماسٹر رام چندر کی قدیم اسلوب میں ہندوؤں کے مشہور مذہبی اجتماع پر 1880ء سے قبل لکھی گئی ایک تحریر)

  • حال فردوسی کا!

    حال فردوسی کا!

    ہماری رائے میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں ہے جہاں اس قدر شاعر گذرے ہوں گے جس قدر کہ فارس میں پائے گئے ہیں۔ بہت سی کتابیں فارسی نظم میں ایسی ہیں کہ پڑھنے کے لئے زندگی انسان کی کافی نہیں ہے۔ لیکن سب شاعر ایسے نہیں ہیں کہ ان کی تصنیفات لائق پڑھنے کے ہیں لیکن چند ایسے ہیں جو لاثانی ہیں اور جن کی تصنیفات لائق پڑھنے کے ہیں۔ مثلاً حافظ، فردوسی اور سعدی وغیرہ۔

    واضح ہو کہ پہلے لوگ ایران کے دین محمدی نہیں رکھتے تھے۔ وہ آتش پرست تھے اور اس وقت میں بہت سی کتابیں تاریخ وغیرہ کی نظم میں بیچ زبان فارسی کے تھیں اور ان نظم کی کتابوں میں بہت خوبی اور فصاحت سے حال دلیروں اور بادشاہوں سلف کا لکھا ہوا تھا اور از بسکہ بعض آدمی بڑے شجاع اور زوردار زمانۂ سلف میں ملک ایران میں گذرے تھے تو شاعروں نے ان کو دیو ٹھہرا دیا ہے۔ ساتویں صدی عیسوی میں مسلمانوں نے ایران کو فتح کیا۔ اس وقت بہ سبب لحاظِ دین کے خلیفہ اور حکام اہلِ اسلام نے اکثر پرانی کتابوں ایرانی کو غارت کیا اور اس ترکیب سے قدیم اشعار اور نظم کی کتابیں ملک فارس میں کا نام و نشان نہیں رہا۔

    ایسے برے حال میں نویں صدی عیسوی تک فارس رہا اور اس وقت خاندان عباسی کو تنزل ہوا اور کئی صوبہ دار اہل اسلام میں سے خاندان شاہی سے آزاد ہوگئے اور علیحدہ علیحدہ بادشاہ بن بیٹھے اور ان بادشاہوں نے قدر دانی علوم وفنون کی بخوبی کی لیکن اس وقت تک کوئی بڑا شاعر فاضل نہ نمودار ہوا تھا لیکن جب آخر کو دسویں صدی عیسوی میں محمود غزنوی نے شرقی اضلاع ایران کے فتح کئے تو اس عہد میں ہم فردوسی کا نام سنتے ہیں۔ حقیقت میں یہ بڑا شاعر تھا اور ایران کے فنِ شاعری کا رونق دینے والا۔

    یہ شخص سنہ 940 عیسوی میں بیچ گاؤں شاداب کے کہ ضلع طوس میں جو ملک خراسان میں واقع ہے، پیدا ہوا تھا۔ اس کا باپ بطور باغبان کے حاکم طوس کا نوکر تھا اور فردوسی کا یہ طریقہ تھا کہ وہ اپنی محنت مزدوری کرتا جاتا اور دل میں مختلف مضامین سوچا کرتا اور تحصیل علوم میں بھی مشغول رہتا اور اس طرح سے بہت سے سال گزر گئے۔ اخیر کو ایک شخص ان کے ہمسایوں میں سے فردوسی اور اس کے برادران سے عداوت رکھنے لگا تھا اور ان سے اکثر تنازع رکھتا تھا اور اس باعث سے فردوسی بہت پریشان خاطر ہوا اور اپنے بھائی سے کہا کہ اپنے وطن کو چھوڑ کر کسی اور ملک میں چل بسو۔ لیکن یہ بات اس کے بھائی نے قبول نہ کی اور فردوسی اکیلا وطن چھوڑ کر طرف غزنی کے راہی ہوا، اور وہاں ان دنوں سلطان محمود سلطنت کرتا تھا۔ یہ بادشاہ قدر دان علم کا تھا اور اہلِ علم اور ہنر کی بہت خاطر کرتا۔ چنانچہ اس کے دربار میں بہت سے شاعر اور فاضل موجود رہتے تھے۔

    اس اوقات میں ایک پرانی تاریخ جس میں حال بادشاہوں ایران کا جو قبل از پیدائش حضرت پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گزرے تھے مندرج تھا، ظاہر ہوئی تھی اور سلطان محمود نے یہ چاہا تھا کہ کوئی شاعر سب حال اس پرانی تاریخِ ایرانِ مذکور کو شاعری میں اچھی طرح سے بیان کرے اور اس کتاب کے ذریعے سے اس کی نیک نامی ہمیشہ رہے۔ اکثر شاعروں نے کچھ کچھ نمونہ اپنی اپنی لیاقتوں کا سلطانِ مذکور کی خدمت میں پیش کیا اور فردوسی بیان کرتا ہے کہ جب میں شہر غزنی میں وارد ہوا تو میں نہایت حیران ہوا کہ میں کس طور سے رسائی سلطان تک حاصل کروں اور اپنی لیاقت اس کے روبرو ظاہر کروں لیکن اخیر کو ایک کتاب مسمی ’’ماسہ نامہ‘‘ کہ جس کے نام کی ہم کو صحّت نہیں ہے، ایک نسخہ اس کے ہاتھ آیا، اس میں سے اس نے چند مقاموں کو نظم میں لکھ کر ایک اپنے دوست کی معرفت سلطان محمود کی خدمت میں بھیجا اور محمود نے ان اشعار کو ملاحظہ کرکے انھیں نہایت پسند کیا اور فرمایا کہ تاریخِ مذکور زمانہ سلف ایران کے فردوسی تیار کرے اور سلطان نے قرار کیا کہ فی شعر ایک اشرفی دوں گا اور فردوسی نے یہ معلوم کر کے خوشی خوشی اس کارِ عظیم کو اس امید سے کہ بذریعہ اس ترکیب کے ایک تو ہمیشہ کو نیک نامی اور دوم دولت حاصل ہوگی، اختیار کیا۔

    فردوسی ہمہ تن اس کتاب کے تیار کرنے میں مصروف ہو گیا اور تیس برس تک محنت کرتا رہا اور آخر کو وہ کتاب مذکورہ تاریخ کی کہ جس کا نام ’’شاہنامہ‘‘ رکھا گیا، تیار ہوئی لیکن اس عرصہ میں بہت سی تبدیلیاں واقع ہوئی تھیں۔ جو پرانے دوست فردوسی کے تھے وہ یا تو راہی ملک عدم کے ہوگئے تھے یا ان میں سے جوش و خروش دوستی کا جاتا رہا تھا اور بعض موقوف ہو گئے تھے اور دربارِ سلطان میں نئی نئی صورتیں نظر آتی تھیں اور یہ نئے اشخاص بڈھے فردوسی کو دیکھ کر اس کی حقارت کرتے تھے جو بہ سبب تیزیٔ فکروں اور کمال محنت کے بہت کم زور اور ناتواں ہو گیا تھا اور علاوہ از ایں بد نصیبی فردوسی کا سبب یہ بھی ہوا کہ ایک شخص ایاز تھا، اسے بادشاہ بہت چاہتا تھا۔ اس شخص اور فردوسی میں دشمنی ہوگئی اور اس واسطے اس نے سلطان کے کان میں بڑی بڑی باتیں نسبت فردوسی کے پھونکیں اور یہ بیان کیا کہ فردوسی بادشاہ کے خلاف ہے اور دینِ محمدی سے پھرا ہوا ہے اور واسطے مضبوطی اس کلام کے اس نے یہ کہا کہ فردوسی نے اپنی کتاب شاہنامہ میں طریقہ زر دشت کی تعریف لکھی ہے۔

    اگرچہ اور امور میں محمود بڑا عاقل تھا لیکن اس نے غیب فردوسی کو مان لیا اور جب اس شاعر بزرگ نے شاہنامہ کو تمام کرکے سلطان کی نذر کیا تو اس نے کچھ تعریف یا آفرین اس کی محنت پر نہ کی اور انعام مقرری کا تو کچھ ذکر بھی نہ کیا۔ فردوسی نے بہت مدت تک انتظار کیا کہ بادشاہ اسے اقرار کیا ہوا انعام بخشے تاکہ وہ اپنے وطن طوس جاکر اپنی باقی زندگی کو آرام سے بسر کرے لیکن سلطان نے اسے ایک کوڑی بھی نہ دی۔ آخرکار فردوسی نے چند اشعار کہے کہ مضمون ان کا یہ تھا کہ سلطان جو کہ مثال ایک بحر کے ہے اور گو میں نے اس میں غوطہ مارا لیکن موتی میرے ہاتھ نہ لگا تو وہ میری قسمت کی خطا ہے اور نہ سلطان کی فیاض کے بحر کی۔

    لیکن چند عاقل آدمیوں نے سچ کہا ہے کہ جب کہ محمود ’’شاہنامہ‘‘ کے ملاحظہ سے نہ نرم ہوا تو چند اشعار کا تو اسے کیا خیال ہو، تو محمود نے بجائے اپنے اقرار پورا کرنے کے فردوسی کو ایک رنج دیا۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ سلطان نے جو یہ فردوسی سے اقرار کیا تھا کہ میں فی شعر ایک اشرفی دوں گا تو شاہنامہ کے ساٹھ ہزار اشعار ہیں تو بموجب اقرار کے اسے ساٹھ ہزار اشرفی فردوسی کو دینی لازم تھیں لیکن برعکس اس کے سلطان محمود نے بجائے ساٹھ ہزار اشرفی ساٹھ ہزار درہم فردوسی کے پاس بھیجے اور یہ کہا کہ یہ انعام تیاریٔ شاہنامے کا ہے۔ جس وقت یہ روپیہ پہنچا اس وقت فردوسی حمام میں غسل کر رہا تھا اور یہ خبر سن کر نہایت رنجیدہ اور غضب ناک ہوا اور سلطان کو بہت سی گالیاں سنائیں اور اس سب روپے کو اپنے نوکروں میں جو اس وقت موجود تھے تقسیم کر دیا۔

    یہ دیکھ کر جو افسر یہ درہم لے کرآئے تھے واپس بادشاہ کے پاس گئے اور سب ماجرا بیان کیا۔ یہ سن کر محمود نہایت برہم ہوا اور حکم دیا کہ اس وقت فردوسی کو ہاتھی کے پاؤں کے نیچے کچلوا کر مروا ڈالو لیکن فردوسی نے بہت ہی عاجزی کی اور اپنی زندگی سلطان سے بخشوائی لیکن محنت بیس برس کی برباد گئی اور تمام اس کی امیدیں جاتی رہیں اور وہ دربار سے گھر کو چلا آیا اور از بسکہ اس کے دل میں نہایت رنج تھا تو اس نے ایک ہجو سلطان کی لکھ کر اور اس پر اپنی مہر کر کے ایک کو حاضرینِ دربار کے پاس بھیج دی اور یہ کہا کہ جب سلطان امورِ ریاست کے باعث بہت دق ہو، اس وقت یہ کاغذ اس کے ہاتھ میں دے دینا۔ اس ہجو میں سلطان کی نہایت برائی لکھی ہے اور اس میں یہ بھی اشارہ تھا کہ محمود بیٹا ایک غلام کا ہے۔

    جب سلطان محمود نے یہ ہجو ملاحظہ کی تو وہ نہایت غضب میں آیا اور اس نے فردوسی کی تلاش میں اپنے آدمیوں کو ہر سمت میں بھیجا۔ اس وقت میں فردوسی نے شہر بغداد میں پناہ لی تھی اور جو وہاں خلیفہ تھے انہوں نے اس شاعر کی بڑی خاطر کی اور فردوسی نے ان کی تعریف میں ایک ہزار شعر اپنی کتاب شاہنامے میں زیادہ کر دیے۔ ان دنوں میں قادر باللہ خلیفہ بغداد میں تھے اور ان کے پاس محمود غزنوی نےایک سخت پیغام واسطے حوالہ کر دینے فردوسی کے بھیجا اور چونکہ خلیفہ مذکور اس قدر طاقت نہ رکھتا تھا کہ سلطان غزنوی کا مقابلہ کرسکے تو اس باعث سے فردوسی یہاں سے بھی بھاگا اور منزلیں طے کرتا ہوا مدت تک آوارہ پھرا کیا اور یہ خوف اس پر ہر وقت طاری رہا کہ کوئی ملازم محمود کا اسے گرفتار نہ کرے۔

    اخیر کو جب وہ بہت مفلس اور بیمار ہو گیا تب اس نے طرف اپنے وطن طوس کے کوچ کیا اس ارادے سے کہ قبل از مرنے کے ایک دفعہ اپنے وطن کو اور دیکھ لوں۔ اس وقت میں فردوسی کی ایک بیٹی تھی اور یہ اس کے ساتھ تھی اور اسی کے باعث اس ایّامِ پیری میں ذرا تشفی تھی۔ پس وہ اپنے وطن طوس میں پہنچ گیا۔ یہاں وہ اپنی اوائل عمر میں بطور باغباں کے نوکر تھا۔ اس نے یہیں وفات پائی اور اسی مقام میں دفن ہوا۔

    جب سلطان غزنوی نے حالِ وفات فردوسی کا سنا، اس نے بہت افسوس کیا۔ اب اس نے ساٹھ ہزار اشرفیاں اس کی بیٹی مذکور کے پاس بھیج دیں لیکن اس شاعر کی بیٹی بھی اسی قدر عالی مزاج جس قدر کہ اس کا باپ رکھتا تھا، رکھتی تھی اور اس عورت نے یہ اشرفیاں قبول نہ کیں اور کہا کہ ہمیں بادشاہوں کی دولت سے کیا غرض ہے۔

    (متحدہ ہندوستان کے نام وَر ریاضی داں، اور تحقیقی مضمون نگار ماسٹر رام چندر کی تحریر)

  • "خواب”

    "خواب”

    ماسٹر رام چندر متحدہ ہندوستان میں ایک نہایت ذہین اور قابل شخص تھے جنھیں جدید علوم بالخصوص علمِ سائنس میں گہری دل چسپی تھی‌۔ اپنے دور میں ماہر ریاضی داں تسلیم کیے گئے اور دہلی کالج میں‌ سائنس کے استاد رہے۔

    ماسٹر رام چندر نے 1880ء میں وفات پائی۔ ان کے متعدد تحقیقی مضامین اور کتابیں‌ مشہور ہیں۔ ان کی علمی و تحقیقی کاوشوں کا چرچا برطانیہ میں‌ بھی ہوا اور سرکار کی جانب سے انھیں‌ انعام و اعزاز سے بھی نوازا گیا تھا۔ یہاں ہم ‘خواب’ (نیند میں ایک قسم کی حالت و کیفیت اور ہمارے ساتھ واقعات کا پیش آنا) سے متعلق ماسٹر صاحب کی ایک تحریر نقل کررہے ہیں‌ جس میں‌ آپ کو پرانے دور کی اردو اور کچھ الفاظ نامانوس بھی پڑھنے کو ملیں‌ گے۔ یہ مضمون آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔

    کوئی ایسا آدمی نہیں ہے جس کو خواب نہیں آیا ہوگا لیکن سب آدمی حیران ہیں کہ خواب کیا ہے؟ اور کس طور سے پیدا ہوتا ہے۔

    حقیقت یہ ہے کہ خواب کا باعث بالتحقیق دریافت کرنا ہر صورت میں ایک امرِ محال معلوم ہوتا ہے۔ پھر بھی عاقلوں اور ذہینوں نے کچھ کچھ حال اس عجیب شے کا لکھا ہے اور چونکہ یہ مضمون بہت دل چسپ ہے اس واسطے ہم بھی اس جائے حال خواب کا لکھتے ہیں اور جہاں تک حکمائے فرنگ نے اس امر میں تحقیقات کی ہیں وہاں تک اس رسالے میں درج کریں گے۔

    واضح ہو کہ خواب دو باعثوں سے اکثر ہوتے ہیں۔
    (۱) اثنائے نیند میں ہم یہ یقین کر لیتے ہیں کہ جو جو خیالات ہمارے ذہن میں موجود ہیں، وہ حقیقت میں درست اور صحیح ہیں اور وہ باتیں جن کا ہمیں خیال آتا ہے وہ حقیقت میں موجود ہیں اور اس غلطی کو کہ یہ باتیں خواب کی درست نہیں ہیں بلکہ غلط، نیند میں درست نہیں کرسکتے ہیں۔ کسی واسطے کہ سوتے ہوئے ہمیں یہ اختیار نہیں ہوتا کہ ہم حقیقی باتوں سے انھیں مطابق کر کے ان کی غلطی دریافت کرلیں۔ خلاف اس کے ہم جاگتے ہوئے ان کی غلطی باآسانی دریافت کر لیتے ہیں۔

    مثلاً جس وقت ہم جاگتے ہوتے ہیں اور اپنے گھر میں بیچ مقام دہلی کے بیٹھے ہوئے ہیں، اس وقت ہم یہ خیال کریں کہ ہم مقام لندن میں موجود ہیں اور وہاں کے ملک کی سواری دیکھ رہے ہیں۔ پس اس صورت میں ہمارے دل میں خیال بندھ جائے گا اور ایسا معلوم ہو جائے گا کہ ہم گویا لندن میں موجود ہیں، لیکن اس وقت ہمیں یہ اختیار ہے کہ اس خیال کو دور کردیں اور ادھر ادھر دیکھ کر یہ جان لیں کہ لندن کہاں ہے اور ہم تو دہلی میں اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ خلاف اس کے نیند میں ہمیں یہ اختیار نہیں ہوتا۔ جب ہم سوتے ہوتے ہیں، اس وقت اس غلطی کو درست نہیں کر سکتے ہیں۔ مثلاً ہمیں نیند میں یہ خیال آتا ہے کہ ہم شہر لندن میں سیر کر رہے ہیں اور چونکہ اس خیال کی غلطی کو اس صورت میں درست نہیں کر سکتے ہیں جب کہ ہم جاگتے ہوئے خیال کر سکتے ہیں تو ہمیں اس وقت یقینِ کلّی ہو جاتا ہے کہ ہم جو دیکھ رہے ہیں، وہ حقیقت میں موجود ہے اور اس خیال کے یقین کو خواب کہتے ہیں۔

    (۲) نیند میں جو خیال پیدا ہوتے ہیں وہ ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس طور سے کہ جہاں ایک خیال آیا اسی وقت اور سب خیال بھی جو اس سے کچھ بھی علاقہ رکھتے ہیں، آدمی کے دل میں آجاتے ہیں اور ان خیالوں کو ہم روک نہیں سکتے۔ جیسا کہ ہمیں جاگتے کے وقت میں اختیار ہوتا ہے۔

    ان دونوں باتوں پر غور کرنا چاہیے اور بعد ازاں معلوم ہوگا کہ اکثر خوابوں کے باعث دو باتیں ہوتی ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ خیالات ایسی ایسی باتوں کے جو چند روز پہلے واقع ہوئے تھے ایک دوسرے سے پیوستہ ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک بات خواب میں واقع ہوئی وہ ایک ایسی بات سے پیوستہ ہو جاتی ہے جو بہت مدت پہلے واقع ہوئی تھی اور اس صورت میں جب ایک کا ان باتوں میں سے خیال آتا ہے اس وقت دوسرے کا بھی خیال آ جاتا ہے اور یہ دونوں باتوں کا خیال ایک ایسی بات سے آ جاتا ہے جو ان دونوں سے مشترک ہے۔

    مثلاً جس وقت ہماری طبیعت نادرست اور رنجیدہ ہو اور اس وقت ہمیں اپنے بھائی کا جو فاصلہ بعید پر سفر کرتا پھرتا ہے، خیال آئے اور یہ بھی ہو کہ اسے کچھ تکلیف ہے اور اسی وقت کچھ اور دوسری خبر سنی، ان سب باتوں سے مل کر ایک خواب پیدا ہو جائے گا۔ ان سب باتوں میں ایک ایسی شئے ہے کہ وہ سب میں پائی جاتی ہے یعنی وہ کچھ تکلیف ہے۔ کیونکہ ان سب باتوں سے تکلیف پیدا ہوئی۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کچھ تکلیف جسم میں ہوتی ہے مثلاً بدہضمی یا کوئی اور بیماری معدے کی اور جب اس حالت تکلیف میں نیند آجاتی ہے، اس وقت برے برے خواب دیکھنے میں آتے ہیں کیونکہ ساتھ تکلیف معدہ کے اور خیال بھی تکلیف کے آجاتے ہیں۔ اگر یہ تکلیف معدے کی نہ ہوتی تو خواب میں بری بری باتیں نہ دیکھتے۔

    اگرچہ وہ اشخاص اور مکان جو خواب میں مشاہدہ کیا جاتا ہے ویسا ہی ہوتا ہے لیکن کوئی شئے خوفناک نظر آتی ہے۔ یہ سب ناظرین کو معلوم ہوگا کہ اکثر ڈراؤنے خواب عورتوں کو آیا کرتے ہیں جو ضعیف ہوتی ہیں اور جن کو خلل معدہ کا اکثر رہتا ہے کیونکہ بہ سبب تکلیف معدہ کے انہیں خیالات تکلیف کے وقت نیند کے دل میں آ جاتے ہیں اور ان کو خواب برے برے دکھائی دیتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم کسی ایک واقف کار سے ملتے ہیں جس سے ہماری سال ہا سال سے ملاقات نہیں ہوئی تھی اور اس سے ہم حال اپنے اور قدیم دوستوں اور واقف کاروں کا پوچھتے ہیں اور باتوں کا آپس میں ذکر کرتے ہیں۔ بعد اس کے سوتے ہوئے ایک خواب پیدا ہوتا ہے کہ اس میں ان سب پرانے دوستوں سے جن کا ذکر دن میں آیا تھا، ملاقات ہوئی ہے اور مختلف ذکر ان سے ہوتے ہیں لیکن وہ خاص شخص جس سے ان پرانے دوستوں کا حال معلوم ہوا تھا، خواب میں نہیں موجود ہوتا ہے اور اس کا باعث ظاہر ہے کہ اس سلسلہ خیالات میں جس سے خواب پیدا ہوا تھا، اس شخص کو دخل نہیں۔

    ایک ڈاکٹر انگلیشہ بہت سے خوابوں کا حال، جو اس کو اور اس کے واقف کاروں کو واقع ہوئے تھے، لکھتا ہے اور چونکہ وہ آدمی بہت محقق ہے تو اکثر اس کی بات کا یقین ہوتا ہے۔ وہ یہ لکھتا ہے کہ ایک دن میں گرم پانی میں اپنے پاؤں ڈال کر لیٹ رہا اور سو رہا اور بعد ازاں یہ خواب دیکھا کہ میں دہانہ پہاڑِ آتشی پر پھر رہا ہوں اور مارے گرمی کے میرے پاؤں جلے جاتے ہیں۔ اب باعث اس خواب کا یہ معلوم ہوتا ہے کہ چند روز پہلے وقوع اس خواب کے اس نے مفصل حالِ آتشی پہاڑ پڑھا، یہاں تک کہ اس عجیب شئے کا خیال اس کے دل میں جم گیا تھا۔ چونکہ گرمی پانی کی نے اس کے پاؤں کو ذرا گرمی پہنچائی، اس نے خیالات پہاڑ آتشی کے اس کے دل میں اٹھائے اور گرمی پانی کی اس نے گرمی دہانہ پہاڑ آتشی کی تصور کر لی۔ اب اگر یہ شخص جاگتا ہوتا تو اپنے گھر اور اسباب کو ادھر ادھر دیکھ کر یہ جان لیتا کہ پہاڑ آتشی کہاں ہے، یہ تو میرا گھر ہے اور گرم پانی میں میرے پاؤں رکھے ہوئے ہیں، لیکن سوتے ہوئے یہ خیال نہیں رہا اور جو جو خیالات پڑھنے حال آتشی پہاڑ کے پیدا ہوتے تھے اس کو صحیح اور تحقیق معلوم ہوئے اور اس کو شک نہ ہوا کہ یہ سب خیالات ہیں اور نفسُ الامر میں ان کا وجود نہیں ہے۔

    ایک دفعہ اسی ڈاکٹر نے یہ خواب دیکھا کہ میں قریب خلیج ہڈسن کے مقیم ہوں اور وہاں سردی اور برف کے باعث مجھے نہایت تکلیف ہے۔ باعث اس خواب کا یہ ہوا کہ چند روز پہلے وقوع اس خواب کے اس ڈاکٹر نے حال خلیج ہڈسن کے آس پاس کے ملک کا پڑھا تھا، اور یہ بھی وہاں لکھا دیکھا تھا کہ وہاں نہایت سردی اور برف پڑتی ہے اور باعث اس کا یہ بھی خیالات نیند میں کیونکر دل میں آگئے یہ ہوا کہ نیند کی بے خبری میں ڈاکٹر مذکور نے اپنی رضائی اپنے اوپر سے الگ پھینک دی تھی اور اس سبب انھیں سردی معلوم ہوئی اور تکلیف اس سردی نے خیالات سردی خلیج ہڈسن کے دل میں اٹھائے۔

    اس ڈاکٹر نے ایک عجیب حال خواب ایک انگریز اور اس کی بیوی کا لکھا ہے کہ ان دونوں کو ایک ہی وقت ایک ہی خواب واقع ہوا۔ واضح ہو کہ جس اوقات کا یہ ذکر ہے ان اوقات میں ملک فرانس میں ایک بڑی گڑبڑ ہوئی تھی اور اہل فرانس نے اسکاٹ لینڈ پر، جس کا دار الخلافہ اے ڈن برا ہے، مہم کرنے کا ارادہ کیا تھا اور اس باعث شہر ایڈن برا میں تہلکہ عظیم واقع ہوا، اور ہر وقت سپاہ واسطے جنگ کے موجود رہتی تھی۔ غرض یہ کہ ہر آدمی اس شہر میں بیچ اس وقت کے ایک سپاہی بن گیا تھا اور سب یہ توقع کر رہے تھے کہ اب فرانس والے حملہ آور ہوتے ہیں۔

    ان دنوں میں انگریز مذکور نے یہ خواب دیکھا کہ سپاہ فرانس ایڈن برا میں داخل ہوئی اور جنگ و جدل طرفین سے شروع ہوئی۔ جب یہ حال اس انگریز کا تھا اس وقت اس کی بیوی نے بھی یہی خواب دیکھا اور گھبرا کے جاگ گئی۔ اب ظاہر ہے کہ باعث اس خواب کا یہ ہوا کہ اول تو ان دونوں بیوی اور خاوند کے خیال نیند میں جنگ اور جدل کے جمع ہوئے تھے اور باعث اس کا یہ کہ خیال رات کو نیند میں ان دونوں کے دل میں کیوں آگئے یہ تحقیق ہوا کہ جب یہ دونوں سوئے تھے اس وقت ایک بڑا دست پناہ جو بری طرح سے ایک جائے اونچا رکھا ہوا تھا، زمین پر گر پڑا اور اس کی آواز مثل اوزار تلواروں اور ہتھیاروں جنگ کی معلوم ہوئی اور فوراً سب خیالات جنگ و جدل کے جو ان کے دل میں جمع تھے، ان کے خیال میں آگئے اور خواب پیدا ہوگیا۔

    ڈاکٹر فرائیڈ جو ایک بڑا فاضل تھا، ایک خواب کا حال اس نے خود دیکھا تھا اس طور پر لکھتا ہے۔ میرے سر پر ایک پھوڑا ہوگیا تھا اور اس کے اوپر میں نے ایک پھایا لگا رکھا تھا۔ رات کے وقت جب میں سوتا تھا کسی باعث سے وہ پھایا اپنی جائے سے ہل گیا اور اس باعث سے مجھے تکلیف ہوتی اور مجھے یہ خواب دکھائی دیا کہ جنگل کے وحشی آدمی مجھے گرفتار کر کے میری پوست سر سے اتارتے ہیں۔ باعث اس خواب کا ظاہر ہے کہ اس ڈاکٹر مذکور کو حال وحشیوں کی زیادتیوں اور عادتوں کا خوب معلوم تھا اور اس کا باعث کہ یہ سب خیالات نسبت وحشیوں کے خاص اسی رات اس کے دل میں کیوں آگئے یہ ہے کہ اس رات کو پھایا اس کے سر کے پھوڑے کا ذرا اکھڑ گیا تھا اور اکھڑنا ایک پھائے کا بہت مشابہ چمڑی اتارنے کے ہے۔

    اس جائے واضح ہوکہ بعض آدمیوں کو یہ عادت ہوتی ہے کہ جس وقت وہ سوتے ہوں اس وقت کوئی آدمی یا ان کا دوست ان کے کانوں میں کچھ باتیں آہستہ سے کہہ دے تو ان سوتے ہوئے آدمیوں کو خواب ان ہی باتوں کا آجائے، جو جاگتے ہوئے آدمیوں نے ان کے کانوں میں کہی تھیں۔ ڈاکٹر مذکور نے اپنی کتاب میں ایک عجیب حال اس قسم کے خواب دیکھنے والے آدمی کا لکھا ہے۔

    واضح ہو کہ سنہ 1758ء میں ایک مہم مقام لواس برگ پر ہوئی تھی اور فوج مقررہ اس مہم میں ایک افسر عادت ایسے خواب دیکھنے کی رکھتا تھا کہ اس کے دوست جو اس سے بے تکلف تھے، اور اسے اکثر حیران کرتے تھے یعنی جب وہ سوتا تو اس کے کان پر منہ لگا کر چاہے جو کچھ کہہ دیتے اور ویسا ہی خواب اس افسر کو آجاتا اور وہ انھیں خواب کے موافق عمل کرنے لگتا۔ ایک بار اس کے دوستوں نے کان میں ایسی ایسی باتیں کہیں کہ اس کو ایک اور آدمی سے خواب میں خفا کروا دیا، یہاں تک کہ دونوں میں جنگ کی تیاری کروا دی اور طبنچہ اس کے ہاتھ میں دیا اور اسی خواب کا اس قدر غلبہ ہوا کہ اس طبنچہ کو جس میں گولی نہیں تھی سر کیا اور اس کی آواز سے جاگ اٹھا اور اس کی بڑی ہنسی ہوئی۔

    ایک اور دفعہ سوتے ہوئے اس کے دوستوں نے اس کے کان میں یہ کہا کہ تو دریا میں گر پڑا اور یہ بھی اسے صلاح دی کہ اب تیرنا لازم ہے، نہیں تو ڈوب جائے گا، چنانچہ اسے بھی خواب نظر آیا کہ میں پانی میں گر پڑا اور اس نے ہاتھ پاؤں مارنے بطور تیرنے کے شروع کیے اور بعد اس کے دوستوں نے یہ کہا کہ ایک مگرمچھ تجھے پکڑنے کو آیا ہے۔ پس تجھے لازم ہے کہ تو بہت تیر کے خشکی پر آجا، چنانچہ اس نے بہت کوشش کی اور اس کوشش کے باعث سے وہ پلنگ پر سے گر پڑا اور اس کی بڑی ہنسی ہوئی۔

  • ماسٹر رام چندر: ریاضی کا ماہر اور کائنات کا کھوجی جس سے گھر والوں نے قطع تعلق کرلیا

    ماسٹر رام چندر: ریاضی کا ماہر اور کائنات کا کھوجی جس سے گھر والوں نے قطع تعلق کرلیا

    ماسٹر رام چندر برطانوی راج میں ایک ریاضی داں، معلّم اور محقق کی حیثیت سے معروف تھے۔ انھوں نے الجبرا اور علمِ مثلث پر وقیع مضامین سپردِ قلم کیے اور علمی و تحقیقی مقالے ان کی وجہِ شہرت بنے۔

    رام چندر کی دو تصنیفات کا برطانیہ میں بھی چرچا ہوا اور حکومت نے ان کی گراں قدر علمی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انعام و اکرام سے نوازا۔ کائنات اور علمِ ہیئت بھی ماسٹر رام چندر کی دل چسپی کا میدان تھا۔ انھوں نے اس سے متعلق اپنے ایک مضمون میں چند سوالات اٹھائے تھے اور بعد میں اپنی تحقیق اور قیاس کی بنیاد پر اس کی وضاحت بھی کی جو ایک رسالے میں شایع ہوئی۔ ہم یہاں ان کا وہ مضمون قارئین کے ذوقِ مطالعہ کی نذر کررہے ہیں، لیکن اس سے پہلے رام چندر کے حالاتِ زندگی اور ان کی علمی کاوشوں کا مختصر احوال جان لیجیے۔

    وہ ہریانہ کے مشہور علاقہ پانی پت کے ایک ہندو گھرانے میں‌ 1821ء میں‌ پیدا ہوئے تھے۔ 11 اگست 1880ء کو رام چندر نے وفات پائی۔ وہ شروع ہی سے سائنس اور علمی موضوعات میں‌ دل چسپی رکھتے تھے۔ 1945ء میں رام چندر نے اخبار فوائد النّاظرین اور 1847ء میں ایک علمی اور ادبی ماہ نامہ محبِّ ہند بھی جاری کیا۔ وہ ایک خوب صورت طرزِ نگارش کے حامل صحافی بھی تھے۔ رام چندر کا شمار متحدہ ہندوستان کی ان شخصیات میں‌ ہوتا ہے جو تعلیمِ نسواں کے بڑے حامی تھے جب کہ گونگوں اور بہروں کو بھی تعلیم دینے کی حمایت کرتے تھے۔ ان کے والد رائے سندر لال ماتھر محکمۂ مالیات میں ملازم تھے۔ بارہ برس کی عمر میں انگریزی مدرسے میں داخل ہوئے، بعد میں دہلی کالج میں داخلہ لیا اور وہاں اپنی قابلیت کی وجہ سے وظیفہ پایا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد رام چندر اسی کالج میں مدرس ہو گئے اور اردو میں الجبرا اور علمِ مثلث پر کتابیں لکھیں۔ 1854ء کی بات ہے جب انھوں نے ہندو مذہب ترک کیا اور عیسائی مذہب کو اپنا لیا جس پر ان کے خاندان اور دوسروں لوگوں نے ان سے سماجی تعلق قطع کر دیا تھا۔

    کائنات سے متعلق رام چندر کے سوالات اور ان کی فکر ملاحظہ کیجیے۔

    "اس عاصی نے شائقینِ علمِ ہیئت سے یہ سوال کیا تھا کہ کیا باعث ہے کہ چاند گرہن بہ نسبت سورج گرہن کے تعداد میں زیادہ ہوتے ہیں، لیکن اب تک کسی نے جواب اس سوال کا نہ دیا۔ پس یہ احقر اس کا جواب خود لکھتا ہے….۔”

    "واضح ہو کہ چاند ایک جسم نورانی بالذّات نہیں ہے بلکہ جو روشنی اس پر نظر آتی ہے وہ اس پر آفتاب سے آتی ہے۔ پس ظاہر ہے کہ اگر کوئی شے چاند اور سورج کے مابین آجائے تو چاند پر تاریکی ہو جائے گی اور اس تاریکی کو گرہن کہتے ہیں۔

    پس اب دیکھنا چاہیے کہ چاند گرہن کی صورت میں کون سی شے حائل چاند اور آفتاب میں ہو جاتی ہے۔ واضح ہو کہ شے مذکور کرّۂ زمین ہے کہ جب یہ چاند اور سورج کے بیچ میں آتی ہے، اس وقت روشنی آفتاب کی چاند پر گرنے سے موقوف ہو جاتی ہے۔ اس کا خیال شکل ذیل کے ملاحظہ کرنے سے خوب اچھی طرح سے دل میں آجائے گا۔

    چاند گرہن کے نقشے سے واضح ہے کہ جس وقت زمین ٹھیک مابین آفتاب اور چاند کے ہوتی ہے اس وقت پرچھائیں یعنی سایہ زمین کا اوپر چاند کے گرتا ہے اور چوں کہ زمین نسبت چاند کے بہت بڑی ہے، اس، واسطے اس کا سایہ بھی بڑا ہے۔ یہاں تک کہ جس وقت چاند زمین کے سایہ میں آجاتا ہے تو تھوڑی دیر کے بعد اسے طے کر کے وہ نکلتا ہے اور شکل سے واضح ہے کہ چاند گرہن اس خلقت کو جو اس نصف کرّۂ زمین پر رہتے ہیں، جو سامنے چاند کے ہیں نظر آئے گا یعنی جن کو کہ چاند اس وقت نظرآنا ہوگا ان کو اس کا گرہن بھی دکھائی دے گا۔

    پس یہاں سے یہ معلوم ہوا کہ سارے چاند گرہن نظر آتے ہیں، لیکن سورج گرہن کی صورت میں یہ نہیں ہوتا اور اس کا باعث یہ ہے کہ جس وقت کہ چاند ٹھیک ما بین زمین اور آفتاب کے آتا ہے اس وقت چاند کے حائل ہونے سے روشنی آفتاب کی زمین تک نہیں پہنچتی ہے لیکن چاند ایک چھوٹا کرّہ ہے اور اس کی پرچھائیں یعنی سایہ اس قدر بڑا نہیں ہوتا کہ ساری زمین کو گھیر لے یعنی ساری زمین پر سایہ کردے فقط ایک تھوڑا حصہ کرّۂ زمین کی تاریکی میں آتا ہے اور باقی پر روشنی بدستور قائم رہتی ہے۔

    یہاں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سورج گرہن سب خلقت کو نظر نہ آوے (آئے) یعنی بعض جائے (جگہ) وہ دکھائی دیتا ہے اور بعض جائے نہیں۔

    اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سورج گرہن فقط کسی جائے سمندر میں دکھلائی دے سکتا ہے اور چوں کہ وہاں کوئی آدمی نہیں ہوتا تو اس گرہن کی کسی کو بھی خبر نہیں ہوتی۔ پس معلوم ہوا کہ باعث سورج گرہن کے کم ہونے کا یہ ہے کہ وہ سب مقاموں پر نظر نہیں آتے۔ سورج گرہن کے کم واقع ہونے کی ایک خوب مثال یہ ہے۔

    واضح ہو کہ بادل زمین سے بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور اسی واسطے ان کا سایہ ساری زمین پر نہیں ہو سکتا ہے۔ تھوڑی سی دور تک ان کا سایہ ہوتا ہے اور باقی مقاموں سے آفتاب بخوبی نظر آتا ہے اور وہاں دھوپ کھلی ہوتی ہے۔ یہی حال سورج گرہن کا ہے کہ چاند مانند ایک نہایت بڑے بادل کے ہے لیکن تب بھی زمین سے چھوٹا ہے اور اس باعث سے اس کا سایہ آفتاب کو ساری زمین سے نہیں چھپا سکتا ہے یعنی گرہن سورج کا سارے نصف کرّۂ زمین پر نظر نہیں آتا ہے۔”

  • کیا سورج کے مقابلے میں چاند گرہن تعداد میں زیادہ ہوتے ہیں؟

    کیا سورج کے مقابلے میں چاند گرہن تعداد میں زیادہ ہوتے ہیں؟

    ماسٹر رام چندر برطانوی ہند کی ایک عالم فاضل شخصیت اور ریاضی کے مشہور معلّم تھے جنھوں نے الجبرا اور علمِ مثلث پر کتابیں لکھیں اور اپنے علمی و تحقیقی مضامین کے سبب قارئین میں مقبول ہوئے۔

    رام چندر کی دو تصنیفات کا انگلستان میں بھی چرچا ہوا اور اس وقت کی سرکار نے انھیں گراں قدر علمی کاوش پر انعام و اکرام سے نوازا۔ کائنات اور علمِ ہیئت بھی ماسٹر رام چندر کی دل چسپی کا میدان رہا ہے۔

    انھوں نے اس سلسلے میں ایک رسالے کے توسط سے اپنی تحریر میں چند سوالات اٹھائے تھے اور بعد میں خود ہی اپنے مشاہدہ و تحقیق سے اسے واضح کیا تھا۔ ان کا یہ مضمون ہم آپ کے حسنِ مطالعہ کی نذر کررہے ہیں۔

    واضح رہے کہ ماسٹر رام چندر کا سنِ‌ وفات 1880ء ہے۔ پیشِ نظر تحریر مصنّف کے مخصوص اور منفرد طرزِ بیان کی حامل ہے جو پُرلطف اور زبان کی چاشنی لیے ہوئے ہے۔ مضمون ملاحظہ کیجیے۔

    "اس عاصی نے شائقینِ علمِ ہیئت سے یہ سوال کیا تھا کہ کیا باعث ہے کہ چاند گرہن بہ نسبت سورج گرہن کے تعداد میں زیادہ ہوتے ہیں، لیکن اب تک کسی نے جواب اس سوال کا نہ دیا۔ پس یہ احقر اس کا جواب خود لکھتا ہے….۔”

    "واضح ہو کہ چاند ایک جسم نورانی بالذّات نہیں ہے بلکہ جو روشنی اس پر نظر آتی ہے وہ اس پر آفتاب سے آتی ہے۔ پس ظاہر ہے کہ اگر کوئی شے چاند اور سورج کے مابین آجائے تو چاند پر تاریکی ہو جائے گی اور اس تاریکی کو گرہن کہتے ہیں۔

    پس اب دیکھنا چاہیے کہ چاند گرہن کی صورت میں کون سی شے حائل چاند اور آفتاب میں ہو جاتی ہے۔ واضح ہو کہ شے مذکور کرّۂ زمین ہے کہ جب یہ چاند اور سورج کے بیچ میں آتی ہے، اس وقت روشنی آفتاب کی چاند پر گرنے سے موقوف ہو جاتی ہے۔ اس کا خیال شکل ذیل کے ملاحظہ کرنے سے خوب اچھی طرح سے دل میں آجائے گا۔

    چاند گرہن کے نقشے سے واضح ہے کہ جس وقت زمین ٹھیک مابین آفتاب اور چاند کے ہوتی ہے اس وقت پرچھائیں یعنی سایہ زمین کا اوپر چاند کے گرتا ہے اور چوں کہ زمین نسبت چاند کے بہت بڑی ہے، اس، واسطے اس کا سایہ بھی بڑا ہے۔ یہاں تک کہ جس وقت چاند زمین کے سایہ میں آجاتا ہے تو تھوڑی دیر کے بعد اسے طے کرکے وہ نکلتا ہے اور شکل سے واضح ہے کہ چاند گرہن اس خلقت کو جو اس نصف کرّۂ زمین پر رہتے ہیں، جو سامنے چاند کے ہیں نظر آئے گا یعنی جن کو کہ چاند اس وقت نظرآنا ہوگا ان کو اس کا گرہن بھی دکھائی دے گا۔

    پس یہاں سے یہ معلوم ہوا کہ سارے چاند گرہن نظر آتے ہیں، لیکن سورج گرہن کی صورت میں یہ نہیں ہوتا اور اس کا باعث یہ ہے کہ جس وقت کہ چاند ٹھیک ما بین زمین اور آفتاب کے آتا ہے اس وقت چاند کے حائل ہونے سے روشنی آفتاب کی زمین تک نہیں پہنچتی ہے لیکن چاند ایک چھوٹا کرّہ ہے اور اس کی پرچھائیں یعنی سایہ اس قدر بڑا نہیں ہوتا کہ ساری زمین کو گھیر لے یعنی ساری زمین پر سایہ کردے فقط ایک تھوڑا حصہ کرّۂ زمین کی تاریکی میں آتا ہے اور باقی پر روشنی بدستور قائم رہتی ہے۔

    یہاں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سورج گرہن سب خلقت کو نظر نہ آوے (آئے) یعنی بعض جائے (جگہ) وہ دکھائی دیتا ہے اور بعض جائے نہیں۔

    اکثر ایسا ہوتا ہے کہ سورج گرہن فقط کسی جائے سمندر میں دکھلائی دے سکتا ہے اور چوں کہ وہاں کوئی آدمی نہیں ہوتا تو اس گرہن کی کسی کو بھی خبر نہیں ہوتی۔ پس معلوم ہوا کہ باعث سورج گرہن کے کم ہونے کا یہ ہے کہ وہ سب مقاموں پر نظر نہیں آتے۔ سورج گرہن کے کم واقع ہونے کی ایک خوب مثال یہ ہے۔

    واضح ہو کہ بادل زمین سے بہت چھوٹے ہوتے ہیں اور اسی واسطے ان کا سایہ ساری زمین پر نہیں ہو سکتا ہے۔ تھوڑی سی دور تک ان کا سایہ ہوتا ہے اور باقی مقاموں سے آفتاب بخوبی نظر آتا ہے اور وہاں دھوپ کھلی ہوتی ہے۔ یہی حال سورج گرہن کا ہے کہ چاند مانند ایک نہایت بڑے بادل کے ہے لیکن تب بھی زمین سے چھوٹا ہے اور اس باعث سے اس کا سایہ آفتاب کو ساری زمین سے نہیں چھپا سکتا ہے یعنی گرہن سورج کا سارے نصف کرّۂ زمین پر نظر نہیں آتا ہے۔”