Tag: ماسٹر رام چندر کی تحریریں

  • حال کچھ سخاوت کا….

    حال کچھ سخاوت کا….

    نہایت بزرگ نیکیوں میں سے سخاوت بھی ایک ہے۔ اس جائے ہم معنی سخاوت کے یہ نہیں لیتے کہ کسی شخص کی روپیہ پیسے یا کھانے کپڑے سے مدد کرنا بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی اور کو اچھی صلاح بتا دے یا گمراہی سے راہ پر لےآوے یا اسے علم سکھاوے یا کسی اور مصیبت میں سے خلاص کرے تو یہی شخص سخی ہے۔

    الغرض جو شخص اپنا کسی طرح کا ہرج ذاتی کر کے دوسرے کے آرام کے واسطے کوشش کرے وہ شخص بے شک سخی ہے۔ جس وقت تعریف سخاوت کی ہوچکی تو لازم ہے کہ ہم اس کے فوائد کثیر کا جو خلقت کو پہنچتے ہیں بیان کریں، اور غور کرو تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نیکی سخاوت کی انسان کو اس نظر سے بخشی ہے کہ جو جو انسان موافق احکام اور قوانین اللہ تعالیٰ کے، بیکس اور مصیبت زدہ ہوں، ان کی حیات اور گزارہ کے واسطے اور انسان جن کے قویٰ درست ہیں کوشش کریں۔ اگر سخاوت انسان میں نہ ہوتی تو حقیقت یہ ہے کہ انسان انسانیت سے خالی ہوتا۔ ہزارہا اشخاص جو کوشش نہیں کر سکتے ہیں بہ سبب نہ ہونے کھانے یا پوشاک کے جہان فانی سے کوچ کرتے اور کسی کو ان کے باب میں کچھ خیال بھی نہ ہوتا۔

    اطباء غریبوں اور محتاجوں کی نبض تک بھی نہ دیکھتے اور نہ کوئی اسپتال محتاجوں کے لئے ہوتا۔ بازاروں اور کوچوں میں لاشیں محتاجوں اور فقیروں کی نظر آتیں جو بہ سبب زیادتیِ بھوک یا نہ ہونے پوشاک کے یا نہ ہونے علاج ان کی بیماری کے مر جاتے۔ یہ دنیا جو کہ باغ کی مانند بذریعہ استعمال اس نیکی بزرگ کے کھلی ہوئی ہے، مانند ایک دوزخ کے نظر آتی ہے، اور انسان چرند اور پرند جانوروں میں کچھ فرق نہیں ہوتا اور چند روز میں خلقت خدا کی برباد ہو جاتی ہے۔ علاوہ اس آرام اور خوشی کے جو بیکسوں وار محتاجوں کو بذریعہ سخاوت کے پہنچتی ہیں۔

    ایک فائدہ عظیم یہ ہے کہ سخی آدمی کو عجیب طرح کا سرور حاصل ہوتا ہے کہ وہ نہ تو ناچ دیکھنے سے آتا ہے اور نہ پلاؤ کھانے سے اور نہ شراب پینے سے۔ یہ خوشیاں پائیدار مانند ہوا کے ہیں۔ جب تک ہم ناچ دیکھتے ہیں ہم خوش ہوتے ہیں لیکن انسان ہمیشہ قابل ناچ دیکھنے کے نہیں ہوتا۔ انسان پر ہزار طرح کی مصیبتیں اور تکالیف ہوتی ہیں۔ ان تکلیفات کے وقت ناچ سے سرور نہیں حاصل ہو سکتا ہے، اس وقت پلاؤ بدمزہ معلوم ہوتا ہے اور شراب کڑوی، لیکن جو سرور سخاوت سے حاصل کرتا ہے وہ ہر مصیبت کو خوشی سے سہہ سکے گا کیوں کہ اس کو یہ دل جمعی ہے کہ میں نے موافق مرضی اللہ تعالیٰ کے کام کیا ہے۔ اگر اس کو نہایت سخت بھی بیماری ہو یا وہ نہایت مفلس ہو، اسے کچھ پروا نہیں ہوگی کیونکہ اس کا دل قوی ہے اور خیال کرتا ہے کہ بیماری اور مفلسی فقط جسم کو رنج دے سکتی ہے اور چند روز کی ہیں۔ بعد اس کے مجھے اس نیکی کے ثمرہ میں بہت کچھ ملے گا۔

    یہ بات تو سب آدمیوں پر روشن ہوگی کہ جس وقت کوئی کار سخاوت کا کوئی آدمی کرتا ہے، اس کو ایک عجیب طرح کی خوشی حاصل ہوتی ہے اور یہ خوشی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ بعض مکار یہ کہا کرتے ہیں کہ انسان نمود اور اپنی تعریف بہت چاہتا ہے، اس واسطے اوروں کو دکھلانے کے لیے وہ سخی ہو جاتا ہے۔ اس جائے ہم دو سوال کرتے ہیں۔ اوّل تو یہ ہے کہ اور شخص کیوں اس کی تعریف کرتے ہیں اور تعریف بھی دلی۔ یہاں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سب انسان کے دل پر یہ نقش ہے کہ سخاوت ایک بڑی نیکی ہے اور سخی آدمی لائق تعریف کے ہے۔ علاوہ اس کے اکثر یہ واقع ہوتا ہے کہ بوقت سخاوت سوائے سخی اور اس شخص کے، جس پر سخاوت کی گئی ہے دوسرا آدمی نہیں ہوتا۔ پس اس صورت میں بھی اس شخص کو نہایت خوشی ہوتی ہے۔

    اب ہم دریافت کرتے ہیں اس بات کو کہ کون کون اشخاص مستحق سخاوت کے ہیں۔ یعنی وہ کون آدمی ہیں کہ جن کی مدد کرنا ہر انسان پر لازم ہے۔ اب واضح ہو کہ فقط وہ آدمی جو اپنی زندگی کے لئے کوششیں نہیں کر سکتے ہیں، وہی مستحق سخاوت کے ہیں۔ علاوہ ازیں وہ مستحق سخاوت کے ہیں جن پر یکایک کوئی آفت ناگہانی آجاوے یا ایسے شخص ہیں جو ایک دفعہ کی مدد سے قابل اس بات کے ہو جائیں گے کہ آئندہ کو وہ اپنے گزارے کے واسطے کوشش کر سکیں گے یا وہ آدمی جو ایسی مصیبت میں ہیں کہ وہ فقط اپنی کوشش سے اپنے تئیں اس مصیبت سے خلاص نہیں کر سکتے۔ سوائے ایسے آدمیوں کے اور آدمیوں پر جو اپنی کوشش سے اپنا گزارہ کر سکتے ہیں، سخاوت کرنا فقط بے فائدہ ہی نہیں ہے بلکہ ایک طرح کی خطا ہے اور موجب رنج اور مصیبت خلقت کا ہے۔

    اکثر اشخاص اہل ہند کی یہ رائے ہے کہ خواہ کسی شخص پر سخاوت کرو، سخاوت ہر صورت میں مفید اور اچھی ہے۔ واضح ہو کہ یہ ان کی بڑی غلطی ہے۔ ہم نے ابھی بیان کیا ہے کہ علّت غائی سخاوت کی پہنچانا آرام اور جہاں تک بنے وہاں تک کم کرنا رنج اور مصیبت خلق خدا کا ہے۔ اب یہ بات صریح ظاہر ہے کہ غیرمستحق کو فائدہ پہنچانا گویا مستحق کو محروم رکھنا ہے۔ کس واسطے اس دنیا میں وہ اشخاص جو مستحق سخاوت کے ہیں یعنی جو اپنی کوشش سے اپنا گزارہ نہیں کر سکتے، تھوڑے سے نہیں ہیں بلکہ بے شمار ہیں۔ پس اس صورت میں یہ بات کوئی سخی نہیں کہہ سکتا کہ میں سب محتاجوں اور مستحقوں پر سخاوت کر چکا۔ اس واسطے میں اب ان آدمیوں کے لئے مدد کرتا ہوں جو محتاج نہیں ہیں یعنی جو اپنے گزارہ کے لئے کوشش کر سکتے ہیں۔

    جب یہ حال ہے اس دنیا کا، تو صاف ظاہر ہے کہ اگر کوئی شخص سخاوت بے جا کرے گا، وہ گویا محتاجوں کے استحاق تلف کرتا ہے۔ مثلاً فرض کرو کہ ایک شخص فقط اتنا مقدور رکھا ہے کہ دس روپیہ مہینہ خیرات اور سخاوت میں خرچ کرے۔ اب اسے یہ بات بے جا ہے کہ یہ دس روپیہ بیس آدمیوں ہٹے کٹوں کو دیوے، کہ وہ اگر ذرا بھی محنت کریں تو اپنی قوت گزاری کر سکتے ہیں۔ اسے چاہئے کہ دس بیکسوں کو مثل اندھوں، لنگڑوں لولوں اور کوڑھیوں اور آدمیوں کے جو اپنے گزارے کے واسطے کوشش نہیں کر سکتے دیوے۔ اب اگر کوئی سخی پہلی قسم کے آدمیوں پر سخاوت کرے تو جو مستحق ہیں سخاوت کے، ان کو محروم رکھے گا۔ جو اشخاص محنت کر سکتے ہیں اگر ان کو وہ دس روپیہ نہ دے تو وہ ناچار ہو کر کوشش کریں گے اور اپنا گزارہ کر سکیں گے لیکن وہ بے چارے جن کے قویٰ درست نہیں وہ بے شک مر جائیں گے۔ اب اس کا عذاب اس شخص پر جس نے سخاوت بے جا کی ہے پڑے گا۔

    مرقومہ بالا پر یہاں کے لوگوں کو خصوص اہل ہنود کو نہایت غور کرنا چاہئے کیونکہ اہل ہنود چھانٹ چھانٹ کے ایسے آدمیوں پر سخاوت کرتے ہیں جو ہٹے کٹے ہیں اور جو خوب اچھی طرح سے کوشش کر سکتے ہیں۔ میں نے بچشم خود دیکھا ہے کہ یہاں کے صاحب سرمایہ دار اور مہاجن وغیرہ سیکڑوں سنڈ مسنڈوں کو جو باباجی کھانا کھلاتے ہیں نقدی پیش کرتے ہیں، اگر کوئی دیکھے تو ان فقیروں کے یہ قوی ہوتے ہیں کہ وہ مانند پہلوانوں کے ہوتے ہیں۔ اب ذرا غور کرنا چاہئے کہ ان کاہل وجود اور مفت خوروں کی مدد کرنا محتاجوں کو ان کے استحقاق سے محروم رکھنا ہے۔ اکثر اہل ہنود یہ سمجھتے ہیں کہ ان فقیروں کی دعا سے نجات ہوتی ہے اور خدا خوش ہوتا ہے۔ افسوس ہزار افسوس! کیا ان کی عقل ہے کہ ان جہنمیوں کی دعا خدا کے یہاں قبول ہوگی۔ واضح ہو کہ خدا منصف ہے اور چاہتا ہے کہ مستحق اپنے استحقاق سے کبھی محروم نہ رہے اور جو باعث محروم رکھنے کا ہو اس پر اس کا غضب بے شک آتا ہے۔

    (یہ مضمون ریاضی داں، استاد اور مضمون نگار ماسٹر رام چندر کا ہے جو انھوں نے بغرض و نیّتِ اصلاحِ سماج تحریر کیا تھا)

  • لق و دق جنگل اور دریائے گنگ

    لق و دق جنگل اور دریائے گنگ

    واضح ہو کہ ہردوار ایک چھوٹا سا شہر کنارے پر واقع ہے۔ یہ مقام درمیان لق و دق جنگل اور دریائے گنگ کے واقع ہے اور جنگل مذکور مشرق میں اس کے ہے۔

    چونکہ ہندو گنگا کو بہت پاک سمجھتے ہیں، اس واسطے جوق در جوق ہنود ہر ضلع ہندوستان سے وہاں ماہ اپریل میں نہانے جاتے ہیں۔ اگرچہ بعض اوقات اس میلے میں دس لاکھ آدمیوں سے بھی زیادہ ہوتے ہیں لیکن اکثر تین لاکھ آدمیوں سے زیادہ جمع نہیں ہوتے۔ جس میں سے ایک تھوڑا حصہ زائرین کا ہوتا ہے اور سب تماشہ بین اور سوداگر لوگ ہوتے ہیں۔ اس موقع پر صاحبان انگریز بھی قریب تین سو کے جاتے ہیں، جن میں بعض تو صاحبان واسطے انتظام کے تشریف لاتے ہیں اور بعض بحکم سرکار گھوڑے خریدنے آتے ہیں، باقی صرف بطور سیاح جاتے ہیں۔

    بہتیرے دولت مند مسلمان بھی واسطے سیر کے جاتے ہیں اور اکثر واسطے خرید و فروخت اشیاء کے، جو کہ دور دور سے آتی ہیں، جاتے ہیں۔

    شہر کسکل جو تین میل کے فاصلے پر ہردوار سے ہے، نہایت خوبصورت اور قلیل سیر کے جگہ ہے۔ وہاں مکانات پتھر کے کنارے دریا پر بنے ہوئے ہیں اور امیر لوگ ان کو جا کر بطور کرایہ لیتے ہیں یا بعض شخص خرید لیتے ہیں۔ بہتیرے لوگ ڈیرے ساتھ لے جاتے ہیں اور ان میں رہتے ہیں اور باقی لوگ چھپروں اور سائے بانوں اور درخت کے سایہ کے نیچے اترتے ہیں۔ صاحبان انگریز کے ڈیرے دو طرفہ سڑک پر مشکل سے کھڑے کئے جاتے ہیں اور بہت خوبصورت معلوم ہوتے ہیں اور مسلمان لوگوں کے بھی ڈیرے بہت آراستگی کے ساتھ ہوتے ہیں اور ہرطرف گھوڑے اور ہاتھی اور نوکروں وغیرہ کا بھی ان کے ساتھ ہجوم ہوتا ہے جس سے کہ آرائشِ میلہ کی اور بھی زیادہ معلوم ہوتی ہے۔

    جب کہ ہردوار کے نزدیک پہنچتے ہیں تو سڑک پر عجب سیر آنے والوں کی ہوتی ہے۔ ہزارہا موٹے موٹے برہمن اور سادہ لوگ چارپائیوں پر چلے آتے ہیں اور لوگ ڈولیوں اور پالکیوں اور شتروں اور گاڑیوں اور چھکڑوں اور بیلوں پر آتے ہیں۔ قریب ہردوار کے جہاں سے کہ سڑک نیچے کو جھکتی ہے، وہاں سے شہر ہردوار اور میلہ دکھائی دینے لگتا ہے اور عجیب گڈمڈ ہجوم اور طرح طرح کی چیزیں معلوم ہوتی ہیں کہ آدمی کی نگاہ ایک جگہ قائم نہیں رہ سکتی۔ امیر کبیر، ہندو عورتوں وغیرہ کے واسطے الگ گھاٹ نہانے کے مقرر ہو جاتے ہیں اور دریا کے اندر بھی وہ نہایت عمدہ ڈولوں میں بیٹھ کے جاتی ہیں اور باقی عورتیں اس وقت کچھ پردہ نہیں کرتیں جبکہ نہان کا وقت آتا ہے۔ اس وقت گھنٹے بجتے ہیں اور ایک دفعہ ہی لاکھوں آدمی ڈیروں اور جھونپڑیوں میں سے نہانے کے واسطے جاتے ہیں اور اس ہجوم میں ایک دفعہ تین سو آدمی مر گئے تھے۔

    اس وقت عجب تماشہ ہوتا ہے کہ ہر ایک آدمی اپنے اپنے کام میں مشغول ہوتا ہے۔ برہمن لوگ بڑی گرم جوشی سے اپنا خراج زائرین سے جمع کرتے ہیں اور دیکھتے رہتے ہیں کہ کوئی شخص بغیر ادا کرنے کے نہا کر نہ چلا جاوے اور ہر طرح کے فقیر اپنی معاش کے حاصل کرنے میں مشغول ہوتے ہیں اور تماشہ بین ادھر ادھر پیدل اور سواریوں پر دیکھتے پھرتے ہیں۔باوجودیکہ لاکھوں آدمیوں کا وہاں غل ہوتا ہے لیکن اس پر بھی صدہا گھنٹے اور نفریں بجتی ہیں۔

    اس موقعے پر ہر ملک کا شخص مثلاً پہاڑی اور اوزبک اور تاتار اور اہلِ عرب اور افغان اور سکھ اور کشمیری اور اہلِ تبت اور چین جمع ہوتے ہیں اور مختلف اشیاء واسطے فروخت کے لاتے ہیں۔ اور گھوڑے اور ہاتھی اور اونٹ نہایت کثرت سے بکنے کو آتے ہیں۔ اس میلہ میں ہر طرح کے دکان دار اور سوداگر نہایت آراستگی اور شان کے ساتھ دکانیں لگاتے ہیں۔ انواع انواع کے جواہرات اور دوشالہ اور کھلونا اور انگریزی اسباب بکنے کو آتا ہے۔ صدہا خوانچے والے اور پھیری والے بساطی ہر ایک قماش کی چیزیں لئے غل کرتے پھرتے ہیں اور کسی طرف ہزار ہا من اناج کے ڈھیر اور کسی طرف میوے کے تھیلے لگے ہوتے ہیں اور چونکہ اس میلہ پر شیرینی کا بہت خرچ ہوتا ہے تو ہزار ہا من مٹھائی ہر طرح کے حلوائیوں کی دکانوں پر پائی جاتی ہے۔

    شام کے وقت امیروں کے گھر پر ناچ ہوتے ہیں اور راستے میں بھان متی اور مداری اور نٹ اپنا اپنا تماشہ دکھاتے ہیں۔ رات کو روشنی کی نہایت عجیب کیفیت ہوتی ہے۔ گنگا پر لوگ چراغ رکھتے ہیں اور چراغ رکھ رکھ کر دریا میں چھوڑتے ہیں اور تمام سطح پانی کی روشن چراغوں سے سرخ معلوم ہوتی ہے اور جب آدھی رات سے زیادہ گزر جاتی ہے اور غل کم ہوتا ہے اور روشنی میں بھی کمی ہوتی ہے اس وقت چور اور قزاق اور بڑے بڑے اس فن کے جاننے والے نکلتے ہیں اور جو کچھ ان کا قابو ہوتا ہے، لے جاتے ہیں۔ اکثر ہندوستانیوں کا قاعدہ ہے کہ وہ اپنا روپیہ اشرفی تکیوں میں رکھ کر اپنے سرہانے دھر کر سویا کرتے ہیں تو چور لوگ اس میں عجب چالاکی کرتے ہیں۔ جب جانا کہ سب سوتے ہیں تب ایک تنکا لے کر ناک کے اندر یا کان میں ہلکے سے کرتے ہیں اور جب اس کو گدگدی معلوم ہوتی ہے، وہ کروٹ لیتا ہے اور چور تکیہ نکال کر بھاگ جاتے ہیں۔

    قبل اس کے کہ صاحبانِ انگریز کی عملداری وہاں نہیں تھی، میلہ میں بڑی جنگ وجدل ہوا کرتی تھی اور خوب خونریزی ہوتی تھی۔ اب ضلع کا مجسٹریٹ جاتا ہے اور پولیس قائم ہوتا ہے اور پلٹن انگریزی بھی آتی ہے اور بخوبی انتطام ہوتا ہے اور یہ چوری اور خونریزی نہیں ہوتی اور شراب وہاں بکنے نہیں پاتی جو کہ مخزن خرابیوں کی ہے۔ کوئی آدمی مسلح نہیں میلے میں داخل ہونے پاتا۔ ہر شخص کے ہتھیار ایک خاص مقام پر حکم سرکار سے چھین کر جمع کرتے ہیں اور اس کو ایک ٹکٹ ملتا ہے اور بر وقتِ مراجعت میلہ کے، مالک کو اس کا ہتھیار مل جاتا ہے کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ساٹھ لاکھ تلواریں جمع ہوئی تھیں۔

    (معروف ہندوستانی ریاضی دان، صحافی اور مضمون نگار ماسٹر رام چندر کی قدیم اسلوب میں ہندوؤں کے مشہور مذہبی اجتماع پر 1880ء سے قبل لکھی گئی ایک تحریر)

  • "خواب”

    "خواب”

    ماسٹر رام چندر متحدہ ہندوستان میں ایک نہایت ذہین اور قابل شخص تھے جنھیں جدید علوم بالخصوص علمِ سائنس میں گہری دل چسپی تھی‌۔ اپنے دور میں ماہر ریاضی داں تسلیم کیے گئے اور دہلی کالج میں‌ سائنس کے استاد رہے۔

    ماسٹر رام چندر نے 1880ء میں وفات پائی۔ ان کے متعدد تحقیقی مضامین اور کتابیں‌ مشہور ہیں۔ ان کی علمی و تحقیقی کاوشوں کا چرچا برطانیہ میں‌ بھی ہوا اور سرکار کی جانب سے انھیں‌ انعام و اعزاز سے بھی نوازا گیا تھا۔ یہاں ہم ‘خواب’ (نیند میں ایک قسم کی حالت و کیفیت اور ہمارے ساتھ واقعات کا پیش آنا) سے متعلق ماسٹر صاحب کی ایک تحریر نقل کررہے ہیں‌ جس میں‌ آپ کو پرانے دور کی اردو اور کچھ الفاظ نامانوس بھی پڑھنے کو ملیں‌ گے۔ یہ مضمون آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا۔

    کوئی ایسا آدمی نہیں ہے جس کو خواب نہیں آیا ہوگا لیکن سب آدمی حیران ہیں کہ خواب کیا ہے؟ اور کس طور سے پیدا ہوتا ہے۔

    حقیقت یہ ہے کہ خواب کا باعث بالتحقیق دریافت کرنا ہر صورت میں ایک امرِ محال معلوم ہوتا ہے۔ پھر بھی عاقلوں اور ذہینوں نے کچھ کچھ حال اس عجیب شے کا لکھا ہے اور چونکہ یہ مضمون بہت دل چسپ ہے اس واسطے ہم بھی اس جائے حال خواب کا لکھتے ہیں اور جہاں تک حکمائے فرنگ نے اس امر میں تحقیقات کی ہیں وہاں تک اس رسالے میں درج کریں گے۔

    واضح ہو کہ خواب دو باعثوں سے اکثر ہوتے ہیں۔
    (۱) اثنائے نیند میں ہم یہ یقین کر لیتے ہیں کہ جو جو خیالات ہمارے ذہن میں موجود ہیں، وہ حقیقت میں درست اور صحیح ہیں اور وہ باتیں جن کا ہمیں خیال آتا ہے وہ حقیقت میں موجود ہیں اور اس غلطی کو کہ یہ باتیں خواب کی درست نہیں ہیں بلکہ غلط، نیند میں درست نہیں کرسکتے ہیں۔ کسی واسطے کہ سوتے ہوئے ہمیں یہ اختیار نہیں ہوتا کہ ہم حقیقی باتوں سے انھیں مطابق کر کے ان کی غلطی دریافت کرلیں۔ خلاف اس کے ہم جاگتے ہوئے ان کی غلطی باآسانی دریافت کر لیتے ہیں۔

    مثلاً جس وقت ہم جاگتے ہوتے ہیں اور اپنے گھر میں بیچ مقام دہلی کے بیٹھے ہوئے ہیں، اس وقت ہم یہ خیال کریں کہ ہم مقام لندن میں موجود ہیں اور وہاں کے ملک کی سواری دیکھ رہے ہیں۔ پس اس صورت میں ہمارے دل میں خیال بندھ جائے گا اور ایسا معلوم ہو جائے گا کہ ہم گویا لندن میں موجود ہیں، لیکن اس وقت ہمیں یہ اختیار ہے کہ اس خیال کو دور کردیں اور ادھر ادھر دیکھ کر یہ جان لیں کہ لندن کہاں ہے اور ہم تو دہلی میں اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ خلاف اس کے نیند میں ہمیں یہ اختیار نہیں ہوتا۔ جب ہم سوتے ہوتے ہیں، اس وقت اس غلطی کو درست نہیں کر سکتے ہیں۔ مثلاً ہمیں نیند میں یہ خیال آتا ہے کہ ہم شہر لندن میں سیر کر رہے ہیں اور چونکہ اس خیال کی غلطی کو اس صورت میں درست نہیں کر سکتے ہیں جب کہ ہم جاگتے ہوئے خیال کر سکتے ہیں تو ہمیں اس وقت یقینِ کلّی ہو جاتا ہے کہ ہم جو دیکھ رہے ہیں، وہ حقیقت میں موجود ہے اور اس خیال کے یقین کو خواب کہتے ہیں۔

    (۲) نیند میں جو خیال پیدا ہوتے ہیں وہ ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس طور سے کہ جہاں ایک خیال آیا اسی وقت اور سب خیال بھی جو اس سے کچھ بھی علاقہ رکھتے ہیں، آدمی کے دل میں آجاتے ہیں اور ان خیالوں کو ہم روک نہیں سکتے۔ جیسا کہ ہمیں جاگتے کے وقت میں اختیار ہوتا ہے۔

    ان دونوں باتوں پر غور کرنا چاہیے اور بعد ازاں معلوم ہوگا کہ اکثر خوابوں کے باعث دو باتیں ہوتی ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ خیالات ایسی ایسی باتوں کے جو چند روز پہلے واقع ہوئے تھے ایک دوسرے سے پیوستہ ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک بات خواب میں واقع ہوئی وہ ایک ایسی بات سے پیوستہ ہو جاتی ہے جو بہت مدت پہلے واقع ہوئی تھی اور اس صورت میں جب ایک کا ان باتوں میں سے خیال آتا ہے اس وقت دوسرے کا بھی خیال آ جاتا ہے اور یہ دونوں باتوں کا خیال ایک ایسی بات سے آ جاتا ہے جو ان دونوں سے مشترک ہے۔

    مثلاً جس وقت ہماری طبیعت نادرست اور رنجیدہ ہو اور اس وقت ہمیں اپنے بھائی کا جو فاصلہ بعید پر سفر کرتا پھرتا ہے، خیال آئے اور یہ بھی ہو کہ اسے کچھ تکلیف ہے اور اسی وقت کچھ اور دوسری خبر سنی، ان سب باتوں سے مل کر ایک خواب پیدا ہو جائے گا۔ ان سب باتوں میں ایک ایسی شئے ہے کہ وہ سب میں پائی جاتی ہے یعنی وہ کچھ تکلیف ہے۔ کیونکہ ان سب باتوں سے تکلیف پیدا ہوئی۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کچھ تکلیف جسم میں ہوتی ہے مثلاً بدہضمی یا کوئی اور بیماری معدے کی اور جب اس حالت تکلیف میں نیند آجاتی ہے، اس وقت برے برے خواب دیکھنے میں آتے ہیں کیونکہ ساتھ تکلیف معدہ کے اور خیال بھی تکلیف کے آجاتے ہیں۔ اگر یہ تکلیف معدے کی نہ ہوتی تو خواب میں بری بری باتیں نہ دیکھتے۔

    اگرچہ وہ اشخاص اور مکان جو خواب میں مشاہدہ کیا جاتا ہے ویسا ہی ہوتا ہے لیکن کوئی شئے خوفناک نظر آتی ہے۔ یہ سب ناظرین کو معلوم ہوگا کہ اکثر ڈراؤنے خواب عورتوں کو آیا کرتے ہیں جو ضعیف ہوتی ہیں اور جن کو خلل معدہ کا اکثر رہتا ہے کیونکہ بہ سبب تکلیف معدہ کے انہیں خیالات تکلیف کے وقت نیند کے دل میں آ جاتے ہیں اور ان کو خواب برے برے دکھائی دیتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم کسی ایک واقف کار سے ملتے ہیں جس سے ہماری سال ہا سال سے ملاقات نہیں ہوئی تھی اور اس سے ہم حال اپنے اور قدیم دوستوں اور واقف کاروں کا پوچھتے ہیں اور باتوں کا آپس میں ذکر کرتے ہیں۔ بعد اس کے سوتے ہوئے ایک خواب پیدا ہوتا ہے کہ اس میں ان سب پرانے دوستوں سے جن کا ذکر دن میں آیا تھا، ملاقات ہوئی ہے اور مختلف ذکر ان سے ہوتے ہیں لیکن وہ خاص شخص جس سے ان پرانے دوستوں کا حال معلوم ہوا تھا، خواب میں نہیں موجود ہوتا ہے اور اس کا باعث ظاہر ہے کہ اس سلسلہ خیالات میں جس سے خواب پیدا ہوا تھا، اس شخص کو دخل نہیں۔

    ایک ڈاکٹر انگلیشہ بہت سے خوابوں کا حال، جو اس کو اور اس کے واقف کاروں کو واقع ہوئے تھے، لکھتا ہے اور چونکہ وہ آدمی بہت محقق ہے تو اکثر اس کی بات کا یقین ہوتا ہے۔ وہ یہ لکھتا ہے کہ ایک دن میں گرم پانی میں اپنے پاؤں ڈال کر لیٹ رہا اور سو رہا اور بعد ازاں یہ خواب دیکھا کہ میں دہانہ پہاڑِ آتشی پر پھر رہا ہوں اور مارے گرمی کے میرے پاؤں جلے جاتے ہیں۔ اب باعث اس خواب کا یہ معلوم ہوتا ہے کہ چند روز پہلے وقوع اس خواب کے اس نے مفصل حالِ آتشی پہاڑ پڑھا، یہاں تک کہ اس عجیب شئے کا خیال اس کے دل میں جم گیا تھا۔ چونکہ گرمی پانی کی نے اس کے پاؤں کو ذرا گرمی پہنچائی، اس نے خیالات پہاڑ آتشی کے اس کے دل میں اٹھائے اور گرمی پانی کی اس نے گرمی دہانہ پہاڑ آتشی کی تصور کر لی۔ اب اگر یہ شخص جاگتا ہوتا تو اپنے گھر اور اسباب کو ادھر ادھر دیکھ کر یہ جان لیتا کہ پہاڑ آتشی کہاں ہے، یہ تو میرا گھر ہے اور گرم پانی میں میرے پاؤں رکھے ہوئے ہیں، لیکن سوتے ہوئے یہ خیال نہیں رہا اور جو جو خیالات پڑھنے حال آتشی پہاڑ کے پیدا ہوتے تھے اس کو صحیح اور تحقیق معلوم ہوئے اور اس کو شک نہ ہوا کہ یہ سب خیالات ہیں اور نفسُ الامر میں ان کا وجود نہیں ہے۔

    ایک دفعہ اسی ڈاکٹر نے یہ خواب دیکھا کہ میں قریب خلیج ہڈسن کے مقیم ہوں اور وہاں سردی اور برف کے باعث مجھے نہایت تکلیف ہے۔ باعث اس خواب کا یہ ہوا کہ چند روز پہلے وقوع اس خواب کے اس ڈاکٹر نے حال خلیج ہڈسن کے آس پاس کے ملک کا پڑھا تھا، اور یہ بھی وہاں لکھا دیکھا تھا کہ وہاں نہایت سردی اور برف پڑتی ہے اور باعث اس کا یہ بھی خیالات نیند میں کیونکر دل میں آگئے یہ ہوا کہ نیند کی بے خبری میں ڈاکٹر مذکور نے اپنی رضائی اپنے اوپر سے الگ پھینک دی تھی اور اس سبب انھیں سردی معلوم ہوئی اور تکلیف اس سردی نے خیالات سردی خلیج ہڈسن کے دل میں اٹھائے۔

    اس ڈاکٹر نے ایک عجیب حال خواب ایک انگریز اور اس کی بیوی کا لکھا ہے کہ ان دونوں کو ایک ہی وقت ایک ہی خواب واقع ہوا۔ واضح ہو کہ جس اوقات کا یہ ذکر ہے ان اوقات میں ملک فرانس میں ایک بڑی گڑبڑ ہوئی تھی اور اہل فرانس نے اسکاٹ لینڈ پر، جس کا دار الخلافہ اے ڈن برا ہے، مہم کرنے کا ارادہ کیا تھا اور اس باعث شہر ایڈن برا میں تہلکہ عظیم واقع ہوا، اور ہر وقت سپاہ واسطے جنگ کے موجود رہتی تھی۔ غرض یہ کہ ہر آدمی اس شہر میں بیچ اس وقت کے ایک سپاہی بن گیا تھا اور سب یہ توقع کر رہے تھے کہ اب فرانس والے حملہ آور ہوتے ہیں۔

    ان دنوں میں انگریز مذکور نے یہ خواب دیکھا کہ سپاہ فرانس ایڈن برا میں داخل ہوئی اور جنگ و جدل طرفین سے شروع ہوئی۔ جب یہ حال اس انگریز کا تھا اس وقت اس کی بیوی نے بھی یہی خواب دیکھا اور گھبرا کے جاگ گئی۔ اب ظاہر ہے کہ باعث اس خواب کا یہ ہوا کہ اول تو ان دونوں بیوی اور خاوند کے خیال نیند میں جنگ اور جدل کے جمع ہوئے تھے اور باعث اس کا یہ کہ خیال رات کو نیند میں ان دونوں کے دل میں کیوں آگئے یہ تحقیق ہوا کہ جب یہ دونوں سوئے تھے اس وقت ایک بڑا دست پناہ جو بری طرح سے ایک جائے اونچا رکھا ہوا تھا، زمین پر گر پڑا اور اس کی آواز مثل اوزار تلواروں اور ہتھیاروں جنگ کی معلوم ہوئی اور فوراً سب خیالات جنگ و جدل کے جو ان کے دل میں جمع تھے، ان کے خیال میں آگئے اور خواب پیدا ہوگیا۔

    ڈاکٹر فرائیڈ جو ایک بڑا فاضل تھا، ایک خواب کا حال اس نے خود دیکھا تھا اس طور پر لکھتا ہے۔ میرے سر پر ایک پھوڑا ہوگیا تھا اور اس کے اوپر میں نے ایک پھایا لگا رکھا تھا۔ رات کے وقت جب میں سوتا تھا کسی باعث سے وہ پھایا اپنی جائے سے ہل گیا اور اس باعث سے مجھے تکلیف ہوتی اور مجھے یہ خواب دکھائی دیا کہ جنگل کے وحشی آدمی مجھے گرفتار کر کے میری پوست سر سے اتارتے ہیں۔ باعث اس خواب کا ظاہر ہے کہ اس ڈاکٹر مذکور کو حال وحشیوں کی زیادتیوں اور عادتوں کا خوب معلوم تھا اور اس کا باعث کہ یہ سب خیالات نسبت وحشیوں کے خاص اسی رات اس کے دل میں کیوں آگئے یہ ہے کہ اس رات کو پھایا اس کے سر کے پھوڑے کا ذرا اکھڑ گیا تھا اور اکھڑنا ایک پھائے کا بہت مشابہ چمڑی اتارنے کے ہے۔

    اس جائے واضح ہوکہ بعض آدمیوں کو یہ عادت ہوتی ہے کہ جس وقت وہ سوتے ہوں اس وقت کوئی آدمی یا ان کا دوست ان کے کانوں میں کچھ باتیں آہستہ سے کہہ دے تو ان سوتے ہوئے آدمیوں کو خواب ان ہی باتوں کا آجائے، جو جاگتے ہوئے آدمیوں نے ان کے کانوں میں کہی تھیں۔ ڈاکٹر مذکور نے اپنی کتاب میں ایک عجیب حال اس قسم کے خواب دیکھنے والے آدمی کا لکھا ہے۔

    واضح ہو کہ سنہ 1758ء میں ایک مہم مقام لواس برگ پر ہوئی تھی اور فوج مقررہ اس مہم میں ایک افسر عادت ایسے خواب دیکھنے کی رکھتا تھا کہ اس کے دوست جو اس سے بے تکلف تھے، اور اسے اکثر حیران کرتے تھے یعنی جب وہ سوتا تو اس کے کان پر منہ لگا کر چاہے جو کچھ کہہ دیتے اور ویسا ہی خواب اس افسر کو آجاتا اور وہ انھیں خواب کے موافق عمل کرنے لگتا۔ ایک بار اس کے دوستوں نے کان میں ایسی ایسی باتیں کہیں کہ اس کو ایک اور آدمی سے خواب میں خفا کروا دیا، یہاں تک کہ دونوں میں جنگ کی تیاری کروا دی اور طبنچہ اس کے ہاتھ میں دیا اور اسی خواب کا اس قدر غلبہ ہوا کہ اس طبنچہ کو جس میں گولی نہیں تھی سر کیا اور اس کی آواز سے جاگ اٹھا اور اس کی بڑی ہنسی ہوئی۔

    ایک اور دفعہ سوتے ہوئے اس کے دوستوں نے اس کے کان میں یہ کہا کہ تو دریا میں گر پڑا اور یہ بھی اسے صلاح دی کہ اب تیرنا لازم ہے، نہیں تو ڈوب جائے گا، چنانچہ اسے بھی خواب نظر آیا کہ میں پانی میں گر پڑا اور اس نے ہاتھ پاؤں مارنے بطور تیرنے کے شروع کیے اور بعد اس کے دوستوں نے یہ کہا کہ ایک مگرمچھ تجھے پکڑنے کو آیا ہے۔ پس تجھے لازم ہے کہ تو بہت تیر کے خشکی پر آجا، چنانچہ اس نے بہت کوشش کی اور اس کوشش کے باعث سے وہ پلنگ پر سے گر پڑا اور اس کی بڑی ہنسی ہوئی۔