Tag: ماں کا دودھ

  • ماں کا دودھ پینے والے بچوں سے متعلق اہم انکشاف، تحقیق

    ماں کا دودھ پینے والے بچوں سے متعلق اہم انکشاف، تحقیق

    ڈبلن : آئرلینڈ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ماں کا دودھ پینے والے بچے دیگر دودھ پینے والوں کے مقابلے میں زیادہ ذہین ہوتے ہیں۔

    آئرلینڈ کے وفاقی دارالحکومت میں واقع ڈبل کالج یونیورسٹی کے محققین نے بچے کو ماں کا دودھ پلانے سے متعلق تحقیق کی، جس میں یہ بات سامنے آئی کہ ایسے بچے جنہیں ماں کا دودھ میسر ہوتا ہے اُن کی ذہنی نشو نما الگ ہوتی ہے۔

    تحقیق کے دوران سات ہزار سے زیادہ بچوں کی ذہانت جانچنے کے لیے اُن سے مختلف سوالات کیے گئے اور 9 ماہ سے پانچ سال تک کی عمروں کے بچوں کی جسمانی صحت کا جائزہ بھی لیا گیا۔

    محقیقین اس نتیجے پر پہنچنے کہ اپنی والدہ کا دودھ پینے والے بچوں میں 3 سال کی عمر سے مسائل حل کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ جلد بھولنے یا ہائپر ایکٹیویٹی جیسی بیماریوں کو بچے رہتے ہیں۔

    اس طرح تحقیق میں ایسے شواہد نہیں ملے کہ ماں کے دودھ پر پلنے والے بچوں کی زبان دانی اور دیگر صلاحیتیں دیگر کے مقابلے میں بہتر ہوتی ہیں۔

    محققین کا کہنا ہے کہ ماؤں کی تعلیم، غلط عادات کی وجہ سے بچوں کی نشونما پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، تاہم پانچ سال کی عمر کے تمام بچوں کی ذہنی صلاحیتیں ایک جیسی پائی گئیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ نوزائیدہ بچوں کو ماں کا دودھ نہ ملنے اور ان میں بڑھتی شرح اموات میں تعلق دیکھا گیا ہے، جن بچوں کو پیدائش کے بعد ماں کا دودھ میسر آتا ہے ان میں شرح اموات واضح طور پر کم دیکھی گئی ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق پاکستان میں چوالیس فی صد بچوں میں نشوونما سے متعلق مسائل کی وجہ ماؤں کی بریسٹ فیڈنگ نہ کرنا ہے، جس کے اسباب میں غربت، کمزور صحت، اور تعلیم اور شعور کی کمی ہے۔

  • کیا مہنگے فارمولا مِلک مضر صحت ہیں؟ حقیقت سامنے آگئی

    کیا مہنگے فارمولا مِلک مضر صحت ہیں؟ حقیقت سامنے آگئی

    نوزائیدہ بچوں کیلئے ماں کا دودھ انتہائی ضروری ہے، کوئی فارمولا مِلک اس کا متبادل نہیں ہوسکتا، یہی قدرت کا نظام بھی ہے، ڈبہ پیک ملنے والی چیزیں ہرگز دودھ نہیں ہیں۔

    یہ بات سیکریٹری جنرل پاکستان پیڈریاٹرک ایسوسی ایشن ڈاکٹر خالد شفیع نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں گفتگو کرتے ہوئے بتائی۔

    انہوں نے کہا کہ بازاروں میں دودھ کے نام پر فروخت کیے جانے والے مہنگے ڈبے محض آرٹیفشل فارمولا ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ملک میں بچوں کی شرح اموات دوسرے ممالک سے بہت زیادہ ہیں۔

    اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اسے اوپر کا دودھ پلایا جاتا ہے، باقاعدگی سے حفاظتی ٹیکے نہیں لگوائے جاتے جس کی وجہ سے بچوں کو ڈائریا، نمونیا وغیرہ ہوجاتا ہے جس کی وجہ بہت سارے بچے اپنی پہلی سالگرہ بھی نہیں منا پاتے۔

    ڈاکٹر خالد شفیع نے کہا کہ نوزائیدہ بچوں کی زندگی کی شروعات صحت مند بنانے کے لئے انہیں پیدائش کے 1 گھنٹے کے اندر ماں کا دودھ پلانا شروع کرنا چاہیے اور پہلے 6 ماہ کے دوران صرف یہی پلانا چاہیے۔ ماں کا دودھ نوزائیدہ بچوں کو بیماریوں اور انفیکشن سے محفوظ رکھتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ جو ڈاکٹرز ماؤں کو نسخے میں یہ لکھ کر دیتے ہیں کہ چند ماہ کے بعد فلاں ڈبے کا دودھ پلائیں تو یہ سراسر غلط بلکہ قابل سزا جرم ہے۔

    انہوں نے ماؤں کو مشورہ دیا کہ پہلے چھ ماہ تک بچے کو صرف اپنا دودھ پلائیں اور اس کے بعد دو سال تک ماں کے دودھ کے ساتھ گھر میں بنائی گئی ٹھوس غذا دیں، بازاری چیزیں کبھی استعمال نہ کریں۔

  • نوزائیدہ بچوں کو ماں کا دودھ نہ ملنے اور بڑھتی شرح اموات میں کیا تعلق ہے؟

    نوزائیدہ بچوں کو ماں کا دودھ نہ ملنے اور بڑھتی شرح اموات میں کیا تعلق ہے؟

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں ہر سال یکم سے 7 اگست تک ’ورلڈ بریسٹ فیڈنگ ویک‘ منایا جاتا ہے، بریسٹ فیڈنگ ویک منانے کا مقصد بچوں کے لیے ماؤں کے دودھ کی اہمیت اُجاگر کرنا ہے۔

    اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسف اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق بچے کو پیدائش کے فوری بعد ماں کا دودھ دینا ضروری ہے، جن نوزائیدہ بچوں کو فوری طور پر ماں کا دودھ میسر نہیں آتا اُن میں ایک سال کی عمر سے پہلے موت کا خطرہ 14 گنا بڑھ جاتا ہے۔

    دنیا بھر میں ہر سال 5 سال سے کم عمر 8 لاکھ سے زائد بچے پیدائش کے فوری بعد ماں کا دودھ نہ ملنے سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

    پاکستان میں عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف 37.7 فی صد مائیں پیدائش کے 6 ماہ تک بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں، جس کے باعث ملک کے 44 فی صد بچوں میں نشوونما سے متعلق مسائل پائے جاتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ نوزائیدہ بچوں کو ماں کا دودھ نہ ملنے اور ان میں بڑھتی شرح اموات میں تعلق دیکھا گیا ہے، جن بچوں کو پیدائش کے بعد ماں کا دودھ میسر آتا ہے ان میں شرح اموات واضح طور پر کم دیکھی گئی ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق پاکستان میں چوالیس فی صد بچوں میں نشوونما سے متعلق مسائل کی وجہ ماؤں کی بریسٹ فیڈنگ نہ کرنا ہے، جس کے اسباب میں غربت، کمزور صحت، اور تعلیم اور شعور کی کمی ہے۔

  • فیڈنگ اور ینگ چائلڈ نیوٹریشن بل منظور ، بچوں کو کتنے ماہ تک ماں کا دودھ پلانا ہوگا؟

    فیڈنگ اور ینگ چائلڈ نیوٹریشن بل منظور ، بچوں کو کتنے ماہ تک ماں کا دودھ پلانا ہوگا؟

    کراچی : فیڈنگ اور ینگ چائلڈ نیوٹریشن بل منظور کرلیا گیا ، بل کے تحت 36 ماہ تک بچوں کو ماں کا دودھ پلانا ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ اسمبلی نے فیڈنگ اور ینگ چائلڈ نیوٹریشن بل منظور کرلیا، بل کے تحت 36 ماہ تک بچوں کو ماں کا دودھ پلانا ہوگا۔

    بل میں کہا گیا ہے کہ بچوں کے غیر معیاری دودھ کی عام دکانوں پر پابندی ہوگی ، فارمیسی طےشدہ دکانوں پر ہی بچوں کا دودھ ملے سکے گا۔.

    بل کے مطابق بچوں کے دودھ کی پروموشن اورسرکاری سطح پرنمائش پر پابندی ہوگی اور بغیر رجسٹرڈ کمپنیوں کا دودھ تقسیم اورفروخت کرنا بھی جرم ہوگا۔

    اس حوالے سے پارلیمانی سیکریٹری صحت نے کہا کہ سندھ میں غذائی قلت کے بچوں کی بڑی تعداد ہے، فیڈرسمیت دیگر اشیاسے بیماریوں کوپھیلنےسے روکنا مقصد ہے کیونکہ پاؤڈردودھ سے بچوں کی قوت مدافعت کم رہ جاتی ہے۔

  • ماں کا دودھ بچوں کو ایک اور بیماری سے بچانے میں معاون

    ماں کا دودھ بچوں کو ایک اور بیماری سے بچانے میں معاون

    ماں کا دودھ بچے کی پہلی صحت بخش غذا ہے، ماں کا دودھ ہر بچے کا حق ہے کیونکہ یہ اسے نشونما پاتے جسم کے لیے نہایت ضروری ہیں۔

    ماں کے دودھ میں ایسے اجزا پائے جاتے ہیں جو اسے بچپن سے بڑھاپے تک نہ صرف صحت مند رکھتے ہیں بلکہ کئی بیماریوں سے تحفظ بھی فراہم کرتے ہیں، اس میں موجود مالیکیولز بچوں میں مختلف الرجی کے خطرے کو کم کر سکتے ہیں، یہ بات ایک تحقیق کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔

    اس نئی تحقیق کے مطابق ماں کے دودھ میں چھوٹے مالیکیولز بچوں میں دائمی الرجی جیسے ایگزیما اور مختلف غذا سے ہونے والی الرجی پیدا کرنے کے امکانات کو کم کر سکتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس تحقیق کے نتائج ماؤں کو دودھ پلانے کی جانب راغب کرنے کی تحریک پیدا کر سکتے ہیں، ساتھ ہی اس سے دودھ پلانے والوں والی ماؤں کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے جو اپنے اس عمل سے بچوں کو مستقبل میں دائمی الرجی سے محفوظ رکھ سکتی ہیں۔

    ایٹوپک الرجی جیسی مختلف غذا سے ہونی والی الرجی، دمہ، اور جلد کی ایک ایسی حالت جسے ایٹوپک ڈرمیٹائٹس کہتے ہیں، دنیا بھر میں تقریباً ایک تہائی بچوں میں اس وقت جنم لیتی ہے جب یہ بچے کمزور مدافعتی نظام کے ساتھ ماحول کا سامنا کرتے ہیں۔

    پیڈیا ٹرکس کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور پین اسٹیٹ ہیلتھ چلڈرن اسپتال کے ماہر امراض اطفال سٹیون ہکس کا کہنا ہے کہ 3 ماہ سے زیادہ ماں کا دودھ پینے والے شیر خوار بچوں میں اس الرجی کا خطرہ کم ہو سکتا ہے۔

    ماں کے دودھ میں موجود مائیکرو رائبو نیوکلک ایسڈز چھوٹے مالیکیولز کی صورت میں موجود ہوتے ہیں جو بچے کے پورے جسم میں جین کے طریقہ کار کو منظم کر سکتے ہیں۔

    ہکس کا کہنا ہے کہ ماں کے دودھ میں تقریباً 1 ہزار مختلف قسم کے مائیکرو رائبو نیوکلک ایسڈز ہوتے ہیں تاہم اس کی ساخت تمام خواتین میں وزن، غذا کے میعار اور جینیات جیسی زچگی کی خصوصیات کی وجہ سے مختلف ہوتی ہے، تاہم ان میں صرف 4 بچوں کی الرجی کے خلاف تحفظ فراہم کر سکتے ہیں۔

    اس مقصد کے لیے ماہرین نے 163 ماؤں کو تحقیق میں شامل کیا جنہوں نے بچوں کی پیدائش سے لے کر کم از کم 4 ماہ یا 12 ماہ تک دودھ پلانے کا منصوبہ بنایا، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ بچے ایک وقت میں کتنے دیر تک ماؤں سے فیڈ لیتے ہیں۔

    نتائج سے یہ بات سامنے آئی کہ ماں کا دودھ بچوں میں مستقبل میں ہونے والی الرجی سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔

  • ماں کا دودھ بچوں میں متعددی امراض کے خلاف ایک مضبوط ڈھال ہے، طبی ماہرین

    ماں کا دودھ بچوں میں متعددی امراض کے خلاف ایک مضبوط ڈھال ہے، طبی ماہرین

    غذائی اعتبار سے ماں کے دودھ کا نعم البدل آج تک دریافت نہیں ہوسکا نہ ہی کوئی اس کا امکان ہے، نومولود بچوں کو مائیں ایک گھنٹے کے اندر اپنا دودھ پلائیں، پانی، گھٹی، شہید، چائے اور اوپر کا دودھ پلانے سے گریز کیا جائے۔

    حالیہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ بچے جنہیں مائیں اپنا دودھ پلاتی ہیں، ان کی ذہانت اور آئی کیو دوسرے بچوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتا ہے۔

    گزشتہ دنوں پاکستان پیڈیا ٹرک ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام ایک تقریب میں مقررین نے کہا کہ ماں کا دودھ صرف بچے ہی کیلئے نہیں بلکہ خود ماں کی بھی ذہنی و جسمانی صحت کیلئے فائدہ مند ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ غذائی اعتبار سے ماں کے دودھ کا نعم البدل آج تک دریافت نہیں ہوسکا نہ ہی مستقبل میں ایسا ممکن ہے۔

    پاکستان میں نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات دُنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے جس کی بڑی وجہ ماں کا اپنے بچوں کو دودھ نہ پلانا ہے۔

    مقررین نے کہا کہ ماں کا دودھ ایک سفید خون کی حیثیت رکھتا ہے جو کہ بچوں میں مختلف امراض کے بچاﺅکا قدرتی ذریعہ ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ ہمارے ملک میں بچوں کو ماﺅں کا دودھ پلانے کی شرح دن بدن کم ہوتی جارہی ہے جس سے بچوں میں شرح اموات بڑھ رہی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ماﺅں کو بچوں کو اپنا دودھ پیدائش کے ایک گھنٹے کے اندر پلانا چاہیے اور چھ ماہ تک صرف دودھ ہی پلانا چاہیے اس کے بعد ماں کے دودھ کے ساتھ نرم غذائیں بھی شروع کرنی چاہیے۔

     پیدائش کے فوراً بعد کا گاڑھا دودھ بچوں کیلئے انتہائی فائدہ مند ہوتا ہے جس میں مختلف قسم کے اینٹی بائیوٹک اور پروٹین پائے جاتے ہیں لیکن مائیں اس کو پیلا اور گندہ دودھ سمجھ کر بچوں کو نہیں پلاتیں۔

    مقررین نے کہا کہ اﷲپاک نے قرآن پاک میں ماں کے دودھ کی افادیت کو چودہ سو سال پہلے سورہ بقرہ اور سورہ احقاف کی آیات میں بیان فرمادیا تھا کہ ترجمہ : اور مائیں اپنے بچوں کو دو سال تک اپنا دودھ پلائیں ۔۔ جو کہ آج جدید تحقیق کے ذریعے ثابت ہورہی ہے۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ نومولود بچوں کو دودھ کے علاوہ پانی، گُھٹی، شہد، چائے اور اوپر کا دودھ دینے سے قطعاً گریز کیا جائے۔

  • ماں کا دودھ بچے کیلئے مکمل غذا ہے

    ماں کا دودھ بچے کیلئے مکمل غذا ہے

    ماں کا دودھ قدرت کی انمول نعمت ہے بچوں کے لیے ماں کا دودھ اللہ کی نعمت ہے، جس سے بچوں کا نظام ہضم درست رہتا ہے اور اس میں بچوں کی نشو و نما کے تمام ضروری اجزاء موجود ہوتے ہیں۔ ماں کا دودھ جنسی ہارمون پروجسٹرون اور پرولیکٹین سے مل کر بنتا ہے۔ ماں کا دودھ بچے کو آنتوں کی انفیکشن یا عفونت سے بچاتا ہے،

    اُس سے نظام ہضم مضبوط ہوتا ہے۔ ماں کا دودھ پینے والے بچے کے پیٹ میں ابھار یا سوجن نہیں ہوتی، نہ ہی اُسے قبض کی شکایت ہوتی ہے۔ بچے کا مدافعتی نظام مضبوط بنانے اور اُسے مختلف الرجیز سے محفوظ رکھنے میں ماں کے دودھ سے بہتر دنیا کی کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔ اس کے علاوہ ماں کا دودھ پینے والے بچے کے مسوڑے اور جبڑے بھی مضبوط ہوتے ہیں۔

    ماں کے دودھ میں اہم ترین اجزاء معدنیات، وٹامن، چکنائی، امائینو ایسیڈ وغیرہ ہیں۔ اس کے علاوہ ڈی این اے کے لیے بنیادی اہمیت کے حامل نامیاتی مرکب نیوکلیو ٹائیڈ، توانائی فراہم کرنے والا کاربوہائیڈریٹ موجود ہوتا ہے جو بچے کی جسمانی نشو و نما کے لیے نہایت ضروری ہے۔