برطانیہ میں ایک شخص نے اپنی 79 سالہ ماں کو قتل کر کے خود کو بھی گولی مار لی، پولیس کے مطابق خودکشی اور قتل پہلے سے طے شدہ تھا۔
مذکورہ واقعہ برطانوی شہر نیو پورٹ میں پیش آیا جہاں ویلفیئر چیک کے اہلکاروں نے ایک گھر کو خالی پا کر پولیس کو اطلاع دی۔ مکان میں 79 سالہ ماں کیتھرین ہوورڈ اور اس کا 55 سالہ بیٹا مارک اینڈریو رہائش پذیر تھا۔
پولیس کو ان کی گاڑی گھر سے 9 میل کے فاصلے پر ملی جس میں دونوں کی لاشیں موجود تھیں، دونوں کے سر پر گولی ماری گئی تھی۔
بیٹے نے اپنی شناختی دستاویز سینے پر چپساں کر رکھی تھی جبکہ گاڑی میں خودکشی سے قبل اس کا آخری نوٹ بھی ملا۔
پولیس کے مطابق خودکشی اور قتل کا یہ واقعہ پہلے سے طے شدہ لگ رہا ہے، بیٹے نے پہلے پچھلی سیٹ پر بیٹھی ماں کو سر میں گولی ماری اور پھر وہی بندوق اپنی کنپٹی پر رکھ کر خودکشی کرلی۔
پولیس واقعے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر مزید تفتیش کر رہی ہے۔
آج دنیا بھر میں ماؤں کا عالمی دن منایا جارہا ہے، آج کے دن کا مقصد ماؤں کی عظمت کا اعتراف اور انہیں ادنیٰ سا خراج تحسین پیش کرنا ہے۔
ماؤں کا عالمی دن منانے کی تاریخ بہت قدیم ہے اور اس کا سراغ سب سے پہلے یونانی تہذیب میں ملتا ہے جہاں تمام دیوتاؤں کی ماں گرہیا دیوی کے اعزاز میں یہ دن منایا جاتا تھا۔
سولہویں صدی میں ایسٹر سے 40 روز پہلے انگلستان میں ایک دن مدرنگ سنڈے کے نام سے موسوم تھا، امریکا میں مدرز ڈے کا آغاز 1872 میں ہوا۔
سنہ 1907 میں فلاڈلفیا کی اینا جاروس نے اسے قومی دن کے طور پر منانے کی تحریک چلائی جو بالآخر کامیاب ہوئی اور 1911 میں امریکا کی ایک ریاست میں یہ دن منایا گیا۔
ان کوششوں کے نتیجے میں 8 مئی 1914 کو امریکا کے صدر ووڈرو ولسن نے مئی کے دوسرے اتوار کو سرکاری طور پر ماؤں کا دن قراردیا، اب دنیا بھر میں ہر سال مئی کے دوسرے اتوار کو یہ دن منایا جاتا ہے۔
پاکستان میں اس دن کے حوالے سے لوگ دو طبقوں میں تقسیم نظر آتے ہیں، ایک وہ جو اس دن کو ماؤں کی عظمت کے لیے اہم قرار دیتے ہیں۔
دوسرے طبقے کا کہنا ہے کہ ماؤں سے محبت کے لیے ایک دن مختص کرنے کا کیا جواز جبکہ ماں جیسی عظیم ہستی ہمیشہ محبت و تکریم کے لائق ہے۔
ماؤں کے عالمی دن کے موقع پر ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ والدین ایک سائے کی طرح ہیں جن کی ٹھنڈک کا احساس ہمیں اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک یہ سایہ سر پر موجود رہتا ہے، جونہی یہ سایہ اٹھ جاتا ہے تب احساس ہوتا ہے کہ ہم کیا کھو بیٹھے ہیں۔
واشنگٹن: کرونا وائرس کی علامت ظاہر ہوتے ہی لوگ پریشان ہو کر ڈاکٹر کے پاس جارہے ہیں تاہم بعض کیسز میں مرض کا شکار لوگوں میں کوئی علامت ظاہر نہیں ہورہی، ایسی ہی ایک ماں نے بھی بے خبری میں اپنے 18 میں سے 17 بچوں کو وائرس منتقل کردیا۔
نیویارک کی رہائشی برٹنی جینک میں کرونا وائرس کی کوئی علامت ظاہر نہیں ہوئی چنانچہ وہ معمول کے مطابق اپنے گھر میں رہ رہی تھی، پھر اچانک اس کی طبیعت نہایت بگڑ گئی جس کے بعد اس کا ٹیسٹ کیا گیا تو انکشاف ہوا کہ وہ کرونا وائرس کا شکار ہوچکی ہے۔
تشویش ناک بات یہ تھی کہ ماں سے اس کے 18 میں سے 17 بچوں میں بھی وائرس منتقل ہوچکا تھا، برٹنی کے 18 بچوں میں سے کچھ گود لیے ہوئے ہیں جو سب ایک ساتھ ایک گھر میں رہتے ہیں۔
برٹنی کا کہنا ہے کہ اسے گزشتہ 5 ہفتوں سے کسی بیماری کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور اب وہ شدید بیمار ہوئی ہے اور بستر پر پڑ گئی ہے، ’میں اپنی زندگی میں آج سے پہلے کبھی اتنی خوفزدہ نہیں ہوئی‘۔
حکام کا کہنا ہے کہ اس بات کا تعین نہیں ہوسکا کہ خود برٹنی اس وائرس کا کیسے شکار ہوئی۔
خیال رہے کہ امریکی ریاست نیویارک اس وقت اس وبا کا مرکز بن چکی ہے، صرف نیویارک میں اب تک 2 لاکھ 23 ہزار 699 افراد وائرس کا شکار بن چکے ہیں جبکہ ہلاک افراد کی تعداد 12 ہزار 800 ہوچکی ہے۔
نیویارک سمیت امریکا میں وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 7 لاکھ 10 ہزار 272 ہوچکی ہے جبکہ ملک بھر میں ہلاکتوں کی تعداد 37 ہزار 175 ہوچکی ہے۔
نئی دہلی: بھارت میں ماں نے لاک ڈاؤن کے دوران بیٹے کو واپس لانے کے لیے اسکوٹی پر 1400 کلو میٹر کا سفر کر کے مثال قائم کر دی۔
تفصیلات کے مطابق بھارتی ریاست تلنگانہ کے نظام آباد کی خاتون نے لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھر سے دور اپنے بیٹے کو لانے کے لیے تنہا اسکوٹی پر 1400 کلو میٹر کا سفر طے کیا۔
نظام آباد کے اسکول میں خاتون ٹیچر رضیہ بیگم لاک ڈاؤن کے دوران بیٹے کو آندھرا پردیش کے نیلور سے گھر واپس لانے کے لیے پولیس سے اجازت لینے کے بعد اسکوٹی سے ہی نکل پڑی۔خاتون کا کہنا تھا کہ 1400 کلو میٹر کا سفر طے کرنا آسان نہیں تھا۔
رضیہ بیگم کے مطابق انہوں نے بودھن کے اے سی پی کو اپنی صورت حال سے آگاہ کیا جس کے بعد انہوں نے مجھے سفر کا اجازت نامہ دیا۔خاتون ٹیچر کا بیٹا نظام الدین گزشتہ ماہ نیلور میں اپنے دوست کے گھر گیا تھا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھر واپس نہیں آسکا تھا۔
یاد رہے کہ دو روز قبل بھارت میں لاک ڈاؤن کے باعث علاج نہ ہونے پر ٹی بی کا مریض جان کی بازی ہار گیا تھا، متوفی کی میت کو شمشان گھاٹ تک پہچانے کے لیے اس کی بیٹیوں نے کاندھا دیا تھا۔
لندن: لاک ڈاؤن کے دوران ایک برطانوی ماں اپنے بیٹے کو پڑھاتے ہوئے اس کے تاثرات جان کر سخت پریشان ہوگئیں۔
کرونا وائرس کے پیش نظر برطانیہ میں تمام اسکول بند کردیے گئے ہیں جبکہ دفاتر کے ملازمین کو بھی گھروں سے کام کرنے کی ہدایت کردی گئی جس کے بعد مائیں گھر سے دفتری امور انجام دینے اور بچوں کو سنبھالنے میں سخت مشکل کا شکار ہیں۔
ایسی ہی ایک ماں نے اپنے بیٹے کو گھر میں پڑھانا شروع کیا تو بیٹا ان کی مصروفیات دیکھ کر پریشان ہوگیا۔
8 سالہ بچے نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ میری والدہ پریشانی اور تذبذب کا شکار ہوگئی ہیں، ہم نے کچھ وقت کا وقفہ لیا ہے تاکہ ہم پرسکون ہوسکیں۔ یہ جو کچھ بھی ہے ٹھیک نہیں ہے۔
والدہ نے ڈائری کے اس صفحے کو سوشل میڈیا پر شیئر کیا جسے ہزاروں افراد نے پسند اور شیئر کیا۔ کئی والدین نے کہا کہ ان کی صورتحال بھی آج کل کچھ ایسی ہی ہے۔
خیال رہے کہ برطانیہ میں اب تک 5 ہزار 837 افراد میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے جبکہ وائرس سے 335 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
برطانیہ سمیت دنیا بھر میں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 3 لاکھ 66 ہزار 948 ہوگئی ہے جب کہ کرونا سے صحتیاب ہونے والے افراد کی تعداد 1 لاکھ 1 ہزار 65 ہے۔
پاکپتن: صوبہ پنجاب کے شہر پاکپتن میں ماں نے3 بچوں کاگلا دبانے کے بعد خودکشی کرلی۔
تفصیلات کے مطابق پنجاب کے شہر پاکپتن کے گاؤس سدو پیلی میں افسوس ناک واقعہ پیش آیا جہاں طارق شاہ کی بیوی شاہین بی بی نے غربت اورگھریلو ناچاقی سے تنگ ماں نے تین بچوں کاگلا دبانے کے بعد خودکشی کرلی۔
پولیس حکام نے بتایا کہ چار سالہ فہد دم توڑ گیا، بیٹی بتول اور بیٹے احتشام کو تشویش ناک حالت میں اسپتال پہنچایا گیا ہے۔ پولیس نے ماں بیٹے کی لاشیں تحویل میں لے کر پوسٹ مارٹم کے لیے اسپتال منتقل کردیں اور واقعے کی تفتیش شروع کر دی ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز لاہور کے علاقے گرین ٹاؤن میں واقع گھر سے 4 افراد کی لاشیں ملی تھیں، مرنے والوں میں باپ اور اس کے 3 بچے شامل تھے۔ پولیس حکام کا کہنا تھا کہ چاروں افراد کو فائرنگ کر کے قتل کیا گیا۔
اس سے قبل گزشتہ سال دسمبر میں لاہور کے علاقے امامیہ کالونی میں فائرنگ سے 3 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔پولیس حکام کا کہنا تھا کہ مقتول تحصیل کچہری فیروزوالہ سے مریدکے جا رہے تھے۔
بیجنگ: چین میں جان لیوا کرونا وائرس نے جہاں ایک طرف تو پورے ملک کو خوف کی لپیٹ میں لے رکھا ہے، وہیں لوگوں نے معمولات زندگی سے جڑے رہنے کے لیے نئے نئے طریقے ڈھونڈ لیے ہیں۔
چین کے سب سے متاثرہ شہر ووہان سے ملحقہ ایک نواحی قصبے میں ایک ماں نے اپنی بیٹی کی پڑھائی کے لیے بانس اور پلاسٹک سے عارضی ٹینٹ تعمیر کرلیا۔
یہ علاقہ کرونا وائرس کے سبب لاک ڈاؤن کی زد میں ہے اور یہاں پر انٹرنیٹ کی رفتار بھی خاصی سست ہوگئی ہے۔ چند روز قبل ماں نے موبائل ہاتھ میں لے کر قصبے کا چکر لگایا تو دیکھا کہ قصبے کے داخلی حصے پر انٹرنیٹ کی رفتار صحیح ہے۔
چونکہ پڑھائی کے دوران انٹرنیٹ سے معلومات کے حصول کی ضرورت پڑتی ہے لہٰذا ماں نے وہیں بیٹھ کر اپنی 7 سالہ بیٹی کو پڑھانے کا فیصلہ کرلیا اور اس مقصد کے لیے بانس اور پلاسٹک سے ایک عارضی ٹینٹ تعمیر کرلیا۔
دونوں ماں بیٹی روزانہ ماسک پہن کر اس ٹینٹ کے اندر بیٹھ کر پڑھائی کرتے ہیں۔ ماں بیٹی کی ٹینٹ میں بیٹھ کر پڑھنے کی ویڈیو چینی میڈیا نے بھی نشر کی ہے۔
خیال رہے کہ چین میں کرونا وائرس سے اموات کی تعداد 2 ہزار 236 ہوگئی ہے، وائرس سے روز 100 سے زائد افراد ہلاک ہو رہے ہیں۔
گزشتہ 24 گھنٹوں میں چین میں 889 نئے کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں اور مجموعی کیسز کی تعداد 75 ہزار سے بڑھ گئی ہے۔
آسٹریلیا میں ایک خاتون اپنی 4 سالہ بچی کے پری اسکول کا شیڈول دیکھ کر چکرا گئیں، ننھی بچی کے کورس میں دنیا جہاں کے مشکل مضامین پڑھائے جارہے تھے جو اتنی عمر کے بچے کی ذہنی استعداد سے کہیں آگے کی شے تھے۔
سوشل میڈیا پر اپنی بچی کے اسکول کا شیڈول پوسٹ کرتے ہوئے ماں نے لکھا کہ آج صبح میں نے اپنی بچی کی استانی سے اس کی کارکردگی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ آپ کی بچی کی کارکردگی بہت مایوس کن ہے اور اسے چیزوں کو سیکھنے میں مشکل کا سامنا ہے۔
ماں نے کہا کہ میں نے ان سے پوچھا کہ کن مضامین میں؟ تو انہوں نے کہا کہ تمام مضامین میں۔ ماں کے مطابق بعد ازاں جب انہوں نے اپنی بچی کا شیڈول دیکھا تو وہ حیران رہ گئیں۔
سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے گئے اس شیڈول میں دیکھا جاسکتا ہے کہ روزانہ صبح 7 سے شام ساڑھے 6 بجے تک 4 سال تک کی عمر کے بچوں کو ریاضی، انجینیئرنگ، تاریخ، کری ایٹو آرٹس، سائنس اور ٹیکنالوجی کے اسباق پڑھائے جارہے تھے۔
درمیان میں چائے، کھانے اور آرام کا بھی وقفہ تھا۔ اتنے ننھے بچوں کے شیڈول میں نیوز، لیٹرز اور بکلیٹ کا پیریڈ بھی تھا جبکہ بعد ازاں بحث و مباحثے کے لیے بھی وقت مختص کیا گیا تھا۔
ماں نے لکھا کہ کیا آسٹریلیا کے تمام پری اسکولز میں ایسا ہی پڑھایا جارہا ہے یا یہ صرف مجھے مضحکہ خیز لگ رہا ہے؟ اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ میری بچی کی کارکردگی مایوس کن ہے۔
ان کی پوسٹ پر اسی اسکول کے دیگر والدین نے بھی کمنٹس کیے۔ ایک والدہ نے کہا کہ اسے دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے جیسے یہ میرے بڑے بچے کے ہائی اسکول کا شیڈول ہے۔
ایک اور والد نے لکھا کہ اتنے ننھے بچوں کو اس قدر مشکل مضامین پڑھانے کے بجائے انہیں گھلنا ملنا، بات کرنا اور کھیلوں کے ذریعے سیکھنے کی عادت سکھانی چاہیئے تاکہ وہ اپنے اسکول کے ابتدائی سالوں سے لطف اندوز ہوسکیں۔
کراچی: بیٹے اور بیٹی نے "محبت” میں ماں کی لاش کو دفنانے کی بہ جائے 12 سال تک اس کو فریزر میں رکھا۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق کراچی کے علاقے گلشن اقبال بلاک 11 سے خاتون کی 12 سال پرانی لاش برآمد ہوئی ہے، پولیس کا کہنا ہے کہ لاش کی شناخت ذکیہ خاتون کے نام سے ہوئی ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ خاتون کی لاش 10 سے 12 سال پرانی ہے اور صرف ڈھانچے کی صورت میں ہے، متوفی خاتون ذکیہ کے بیٹے اور بیٹی نے ماں کو مرنے کے بعد دفنایا نہیں، بلکہ فریزر میں رکھ لیا تاکہ وہ اپنی ماں کو جب چاہیں دیکھ سکیں۔
ذکیہ خاتون کی باقیات کو کپڑے میں لپیٹ کر گاڑی میں منتقل کیا جا رہا ہے
پولیس کا کہنا ہے کہ جب ذکیہ کا بیٹا اور بیٹی بھی فوت ہوئے تو ان کے بھائی محبوب نے لاش کی دیکھ بھال شروع کی، گزشتہ رات محبوب نے ان کا ڈھانچا نکال کر کچرا کنڈی میں پھینک دیا، محبوب کا کہنا تھا کہ بیٹے اور بیٹی نے ماں کو محبت میں سنبھال کر رکھا تھا۔
خاتون کے بھائی نے اپنے ابتدائی بیان میں کہا کہ ان کی بہن ذکیہ کی بیٹی شگفتہ 4 ماہ قبل انتقال کر گئی تھیں، وہ 2 دن پہلے بہن کے گھر گیا تو دیکھا کہ بہن کی لاش بستر پر پڑی ہے، ذکیہ کا ذہنی توازن بھی ٹھیک نہیں تھا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ لاش کا پوسٹ مارٹم کرا لیا گیا ہے، اور محبوب کو حراست میں لے کر تفتیش کی جا رہی ہے، ذکیہ کا فلیٹ بچوں کے مرنے کے بعد کافی عرصہ خالی رہا۔
امریکی ریاست ویسٹ ورجینیا میں سفاک ماں نے اپنی کمسن بیٹیوں کو فائرنگ اور چھریوں کے وار سے قتل کرنے کی کوشش کی، بڑی بیٹی جان بچا کر بھاگ نکلی جبکہ ننھی زخموں کی تاب نہ لا کرموقع پر ہی دم توڑ گئی۔
47 سالہ جولی نے سنہ 2018 میں اپنی بیٹیوں کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی اور اس کے مقدمے کا فیصلہ جلد ہی سنائے جانے کا امکان ہے۔
اس نے اپنی 8 سالہ بیٹی کو چھریوں کے 35 وار اور فائرنگ کر کے قتل کیا اور 11 سالہ بیٹی پر گولیاں برسائیں لیکن وہ بچ نکلی۔
قاتل ماں
عدالت میں سماعت کے دوران اس نے روتے ہوئے بیان دیا کہ وہ خود بھی نہیں جانتی کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔ اس نے کہا کہ اس نے اپنی زندگی میں آج سے قبل کسی کو تکلیف نہیں پہنچائی۔
اس کا دعویٰ ہے کہ واقعے کے بعد اس نے خود کو بھی مارنے کی کوشش کی تھی۔
پولیس کے مطابق واقعے کے بعد ایک پڑوسی نے 911 کو کال کی تھی، جب اس نے 11 سالہ بچی کو زخمی حالت میں بری طرح چلاتے ہوئے دیکھا۔
پولیس موقع پر پہنچی تو جولی پہلے ہی فرار ہوچکی تھی۔ پولیس کو گھر کے اندر 8 سالہ بیٹی ایلزا کا مردہ جسم ملا جس پر چاقو سے کم از کم 35 وار کیے گئے تھے اور اس کی پشت، سینے اور گردن پر گولیاں بھی ماری گئی تھیں۔
جولی نے بڑی بیٹی اولیویا کی ٹانگ پر گولی ماری تاہم ماں کے مزید کچھ کرنے سے پہلے وہ فرار ہونے میں کامیاب رہی۔
اس نے پولیس کو بتایا کہ ماں نے ان دونوں کو کہا کہ وہ اوپر جا کر بلی کے بچے ڈھونڈیں جو بستر کے نیچ چھپ گئے ہیں۔ جب ماں نے ان پر حملہ کیا تو اولیویا برابر والے کمرے میں بھاگ آئی، دروازہ لاک کیا اور کھڑکی سے باہر لان میں کود گئی۔
پولیس نے بعد ازاں 9 گھنٹے بعد قاتل ماں کو بھی گرفتار کرلیا، اس کے ہاتھ میں پستول اور خون آلود چھری تب تک موجود تھی۔
پولیس کی تحویل میں جولی کے طبی معائنے کے بعد علم ہوا کہ وہ طویل عرصے سے ذہنی طور پر بیمار تھی، علاوہ ازیں 17 سال کی عمر میں وہ متعدد بار خودکشی کی کوشش بھی کرچکی تھی۔
پولیس کے مطابق جولی کو کم از کم عمر قید کی سزا ہوسکتی ہے اور اگر ججز نے اس کی ذہنی حالت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کے لیے رحمدلی دکھائی تب بھی اسے 15 سال جیل میں گزارنے پڑیں گے۔