Tag: ماہرین

  • کیا آپ کیو آر کوڈ اسکین کے ان خطرات سے واقف ہیں؟

    کیا آپ کیو آر کوڈ اسکین کے ان خطرات سے واقف ہیں؟

    آج کی ڈیجیٹل دنیا میں، کیو آر  کوڈز  ریسٹورنٹس کے مینو کارڈ سے لے کر میوزیم کی نمائش تک، اور یہاں تک کہ یوٹیلیٹی بلز اور پارکنگ لاٹس تک تقریباً ہر چیز پر رکھے جاتے ہیں۔

    صارفین کیو آر کوڈ کا استعمال ویب سائٹس کھولنے، ایپس ڈاؤن لوڈ کرنے، لائلٹی پروگرام پوائنٹس جمع کرنے، ادائیگی کرنے اور رقم کی منتقلی، اور خیراتی عطیات کے لیے بھی کرتے ہیں، تاہم اس سے سائبر خطرات نے بھی جنم لے لیا ہے۔

    کیسپرسکی ماہرین نے کیو آر کوڈز کو اسکین کرتے وقت اہم ترین خطرات کی نشاندہی کی ہے، کیو آر کوڈز صارفین کو جعلی ویب سائٹس کی طرف منتقل کر سکتے ہیں جو ذاتی یا مالی معلومات، جیسے کہ پاس ورڈ اور کریڈٹ کارڈ نمبر چرانے کے لیے بنائی گئی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ حملہ آور جائز سائٹس کی نقالی کر سکتے ہیں، جیسے کہ بینک یا اسٹریمنگ سروسز، اور صارفین کو ان کی  لاگ ان پاسورڈ  لگانے کے لیے دھوکہ دے سکتے ہیں۔

    کچھ کیو آر  کوڈز  نقصان دہ ایپلی کیشنز کے ڈاؤن لوڈ کو متحرک کر سکتے ہیں جو صارف کی ڈیوائس کو نقصان پہنچاتی ہیں۔

    خاص  مواقعوں یا سیلز کے دوران جیسے چھٹیوں کی فروخت کے دوران، ایک جعلی کیو آر  کوڈ صارف کو خود بخود سائبر حملہ آوروں کے زیر کنٹرول  وائی فائی نیٹ ورکس سے بھی جوڑ سکتا ہے، جس سے وہ اپنی بات چیت کو روک سکتے ہیں۔

    کیسپرسکی میں میٹا ریجن کے لیے کنزیومر چینل کے سربراہ سیف اللہ جدیدی کا کہنا ہے کہ  کیو آر کوڈز ممکنہ ہیرا پھیری کے لیے ایک زرخیز  زریعہ ہیں، خاص طور پر جیسا کہ وہ روز مرہ کے مختلف سیاق و سباق میں ظاہر ہوتے ہیں۔

    جیسے کہ رسیدیں، فلائرز حملہ آوروں کے پاس ان سے فائدہ اٹھانے کے تقریباً لامتناہی امکانات ہوتے ہیں چونکہ یہ کوڈز پہلے ہی ہماری روزمرہ کی زندگی کا لازمی حصہ بن چکے ہیں، صارفین کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ انہیں محفوظ طریقے سے کیسے استعمال کیا جائے۔

    کیو آر کوڈ اسکین کہا کریں؟

    کیو آر کوڈ کو اسکین کرتے وقت کسی دھوکہ دہی کا شکار نہ ہونے کے لیے،  کیسپرسکی ماہرین نے صارفین کو صرف معتبر اور معروف ذرائع سے  کیو آر  کوڈ اسکین کرنے کا مشورہ دیا ہے۔

     عوامی مقامات پر ان کوڈز کو اسکین کرنے سے گریز کریں۔ اگر آپ کو واقعی عوامی طور پر دستیاب کوڈ کو اسکین کرنے کی ضرورت ہے، تو اس ویب سائٹ پر کوئی کارروائی کرنے سے پہلے اس بات کی تصدیق کریں کہ اس نے آپ کو جس ویب ایڈریس پر ہدایت کی ہے وہ  اصلی ہے یا نہیں۔

    اگر آپ کو  کیو آر کوڈ کی اصلیت کے بارے میں مکمل طور پر یقین نہیں ہے تو حساس معلومات درج کرنے سے گریز کریں۔

    اپنے تمام آلات پر اینٹی فشنگ اور اینٹی فراڈ پروٹیکشن کے ساتھ سائبر سیکیوریٹی سلوشن انسٹال کریں، جیسا کہ کیسپرسکی پریمئیم  یہ آپ کو کسی بھی خطرے سے بروقت آگاہ کر دے۔

  • فون بند ہو گیا، یا انٹرنیٹ سگنل نہیں آ رہے تو کیا کریں؟ ماہرین نے آسان حل بتا دیا

    فون بند ہو گیا، یا انٹرنیٹ سگنل نہیں آ رہے تو کیا کریں؟ ماہرین نے آسان حل بتا دیا

    اسمارٹ فون انسان کی زندگی کا لازمی حصہ بن گیا ہے لیکن اگر کبھی فون اچانک بند ہو جائے یا نیٹ مسئلہ کریں تو اس سے نمٹنے کا حل ماہرین نے بتا دیا۔

    اسمارٹ فون دنیا بھر میں انسانی زندگی کا لازمی حصہ بن گیا ہے۔ فون اب صرف باہمی رابطوں کا ذریعہ ہی نہیں رہا بلکہ جدت نے اس کو اتنی ترقی دے دی ہے کہ اب روزمرہ کے امور بھی اس کے ذریعہ ہی نمٹائے جاتے ہیں۔ دفتری کام، کاروباری میٹنگز، بڑے معاہدے، تعلیم غرض کوئی ایسا شعبہ نہیں جس میں موبائل فون کا استعمال نہ ہو رہا ہو۔

    تاہم اسمارٹ فون کے ساتھ کبھی یہ مسئلہ بھی ہو جاتا ہے کہ فون اچانک بند ہو گیا یا انٹرنیٹ سگنل منقطع ہو جاتے ہیں۔ اگر ایسا ہو جائے تو لوگوں کے معمولات زندگی گویا درہم برہم ہو جاتے ہیں۔

    موبائل فون مسلسل استعمال سے بتدریج سست ہونے لگتا ہے۔ آپ کے اردگرد لوگ فون کو ری اسٹارٹ کا مشورہ دیتے ہیں، لیکن ہم سے بہت سے لوگ اسے ری اسٹارٹ کرنے کا سوچتے تک نہیں۔

    تحقیقی رپورٹس کے مطابق لوگ اکثر فون بند کرنے کا خیال آتے ہی انزائٹی کا شکار ہو جاتے ہیں اور اسمارٹ فون کے 50 فیصد سے زیادہ صارفین کبھی بھی اپنی ڈیوائسز کا سوئچ آف نہیں کرتے۔

    اس حوالے سے ڈیجیٹل ماہرین کی رائے ہے کہ اسمارٹ فون کا خیال رکھنے کے لیے اسے ری اسٹارٹ کرنا بہت ضروری ہے۔ اس سے فون کی کارکردگی میں ڈرامائی تبدیلی ااتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق ہفتے میں ایک بار کم از کم ایک منٹ کے لیے فون کو شٹ ڈاؤن کرنے کی عادت اپنائیں اور پھر اس کو کھولیں۔ ایسا کرنے سے آپ کے موبائل فون کی کارکردگی زیادہ بہتر ہوگی۔

    https://urdu.arynews.tv/ai-models-started-lying-blackmailing-and-conspiring/

  • آپ کی صحت کیلئے چلنا بہتر ہے یا دوڑنا؟ ماہرین نے بتادیا

    آپ کی صحت کیلئے چلنا بہتر ہے یا دوڑنا؟ ماہرین نے بتادیا

    انسان کی اچھی صحت کے لئے جسمانی سرگرمیاں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں، ماہرین کا ماننا ہے کہ چلنا اور دوڑنا یہ دونوں سرگرمیاں ہی قلب کوصحت مند رکھنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے۔

    ورزش کرنے سے آپ کی دل کی دھڑکن میں اضافہ ہوجاتا ہے جیسے دوڑنا، تیراکی، سائیکل چلانا، ٹینس یا رگنگ کرنا۔

    مجموعی طور پر یہ سرگرمیاں انسانی صحت کے لئے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں، اس کے سبب موت کا خطرہ بھی کم ہوجاتا ہے۔ مدافعتی، نظام ہاضمہ، پٹھوں، سانس اور قلبی نظام بہتر ہوتا ہے، اس کے علاوہ جسم کی اضافی چربی کو کنٹرول کرنے میں مدد ملتی ہے۔

    دوڑنے کے فائدے:

    دوڑنے سے بھی چہل قدمی سے ملتے جلتے فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں، اس کی زیادہ شدت دل کو مزید تحریک فراہم کرتی ہے جو دل کو زیادہ محنت کرنے پر مجبور کرتی ہے، اس طرح جسم میں کئی صحت مند تندیلیاں جنم لیتی ہیں۔

    دوڑنے سے آپ کا جسم گلوکوز کو اچھی طرح استعمال کرتا ہے، کیونکہ دوڑنے کے لیے زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ آپ کم وقت میں زیادہ کیلوریزاستعمال کرتے ہیں۔ اس سے دل کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے، دل کے خون پمپ کرنی کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ جسم میں خون کی گردش بہتر ہوتی ہے۔

    پیدل چلنے کے فائدے:

    ماہرین کا ماننا ہے کہ پیدل چلنے سے انسان متحرک رہتا ہے تاہم یہ ایک کم اثر رکھنے والا طریقہ ہے اور جوڑوں پر اتنا اثر نہیں ڈالتا جتنا دوڑنے کی صورت میں ہوتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ چلنے کے دوران ہر قدم پر وزن کی منتقلی قدرے آہستہ ہوتی ہے۔

    چلنے سے پٹھے چربی کو بطورایندھن استعمال کرتے ہیں اس طرح طویل عرصے تک چلنا ایروبک صلاحیت کو بہتر بناتا ہے، ایروبک صلاحیت سے مراد یہ ہے کہ آپ کا جسم ورزش کے دوران آکسیجن کو کتنی اچھی طرح استعمال کرتا ہے، چلنے سے پٹھے چربی کو بطورایندھن استعمال کرتے ہیں۔

    نمک سوچ سمجھ کر استعمال کریں ورنہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!

    زیادہ پیدل چلنے سے دل کے پٹھے متحرک رہتے ہیں، خون اچھی طرح گردش کرتا رہتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ بلڈ پریشر کو کم کرتا ہے۔

  • میدہ صحت کے لیے کیسا ہے؟ ماہرین کیا کہتے ہیں؟

    میدہ صحت کے لیے کیسا ہے؟ ماہرین کیا کہتے ہیں؟

    میدے سے بنی اشیاء ہر ایک کی مرغوب غذا بن گئی ہے لیکن میدہ انسانی صحت کے لیے نہایت مضر صحت قرا دیا جاتا ہے۔

    عام طور پر پیزا سے لے کر بسکٹ تک سب ہی معدے سے تیار کی جاتی ہے تاہم میدے سے تیار یہ تمام ہی غذائیں صحت کے لیے نقصان کا باعث بنتی ہے جبکہ ماضی میں بھی کی جانے والے بہت سے مطالعوں میں اسے مضر صحت قرار دیا جاچکا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ غذائیں موٹاپے کے ساتھ ذیابیطس کے خطرے کو بڑھا دیتی ہیں یہی وجہ ہے کہ معدے کو سفید زہر کہا جاتا ہے۔

    طبی ماہرین کی جانب سے سفید آٹے یعنی کہ ریفائن آٹے کو انسانی معدے کے لیے سفید گلو قرار دیا گیا ہے، سفید آٹا کئی طرح کے مراحل سے گزر کر میدے کی شکل اختیار کرتا ہے، ان مراحل میں گندم میں سے انسانی صحت کے لیے بہترین اجزا جیسے کہ سوجی اور فائبر نکال لیا جاتا ہے جس کے بعد آٹا میدے کی شکل اختیار کر لیتا ہے جس کے استعمال سے انسانی صحت پر انتہائی مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    میدہ سے ڈبل روٹی، بسکٹ، کیک، برگر، پیزا اور پراٹھے وغیرہ تیار کیے جاتے ہیں، اس میں فائبر نہ ہونے کی وجہ سے جلد ہضم ہو کرجسم میں گلوکوز کی سطح کو بڑھانے کا سبب بنتا ہے جس کی وجہ سے انسولین کا زائد اخراج ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ آج کے دور میں موٹاپے کی سب سے بڑی وجہ میدہ یعنی سفید آٹا ہی ہے اور یہی آگے چل کر کئی بیماریوں کا سبب بنتا ہے، کیونکہ اس میں فائبر، وٹامنز اور منرلز نہیں ہوتے اسی بنا پر یہ صرف اضافی کیلوریز ہے اور جلد ہضم ہو کربے وقت کی بھوک کو جگاتے ہیں۔

  • کیا آپ بھی پلاسٹک کی بوتل میں پانی پیتے ہیں؟ جانیے یہ کتنا خطرناک ہے

    کیا آپ بھی پلاسٹک کی بوتل میں پانی پیتے ہیں؟ جانیے یہ کتنا خطرناک ہے

    پلاسٹک سے بنی اشیاء کو دنیا بھر میں انسانی صحت کے لیے خطرناک تصور کیا جاتا ہے تاہم اب ماہرین نے پلاسٹک کی بوتل میں پانی پینے والوں کو خبردار کردیا۔

    دنیا بھر میں لوگوں کی بڑی تعداد پلاسٹک کی بوتل کا استعمال کی جاتی ہے، خواہ وہ اسکول جانے والے بچے ہوں یا آفس میں کام کرنے والے ہر عمر کے لوگ پلاسٹک کی بوتل میں ہی پانی پیتے ہیں۔

    اب ماہرین کا بتانا ہے کہ پلاسٹک کی بوتل میں موجود پانی میں آپ کی توقع سے بھی سو گنا زیادہ پلاسٹک کے ذرات موجود ہوتے ہیں۔

    پروسیڈینگ آف دا نیشنل اکیڈمی آف سائنسزنامی تحقیقی جرنل کی حالیہ رپورٹ  میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ماضی میں لگائے جانے والے اندازے سے کہیں بڑھ کر پلاسٹک کی بوتل میں مائیکرو پلاسٹک موجود ہوتے ہیں۔

    پلاسٹک کی بوتل میں انتہائی چھوٹے اور باریک پلاسٹک کے ٹکڑوں کے حوالے سے تحقیق کی گئی، تحقیق کے مطابق ایک لیٹر والی پانی کی بوتل میں اوسطاً 2 لاکھ 40 ہزار پلاسٹک کے ٹکڑے ہوتے ہیں، محققین کے مطابق ان میں سے بہت سے ٹکڑوں کا پتہ نہیں چلتا۔

    محققین کے مطابق ان پلاسٹک کے ذرات کی لمبائی ایک مائیکرو میٹر سے کم یا چوڑائی انسانوں کے بال کے سترہویں حصے جتنی ہوتی ہے، پلاسٹک کے یہ انتہائی چھوٹے ذرات انسانی صحت کے لیے زیادہ خطرہ ہیں کیونکہ یہ انسانی خلیوں میں گھس سکتے، خون میں داخل ہو سکتے اور اعضاء کو متاثر کر سکتے ہیں۔

    رپورٹس کے مطابق یہ انتہائی خطرناک چھوٹے ذرات ماں کے پیٹ میں موجود بچوں کے جسم میں بھی جا سکتے ہیں، رپورٹ مین بتایا گیا کہ سائنسدانوں کو طویل عرصے سے پلاسٹک کی بوتل کے پانی میں ان ذرات کی موجودگی کا شبہ تھا لیکن ان کا پتہ لگانے کے لیے ٹیکنالوجی کی کمی ہے۔

    پلاسٹک کے اندھادھند استعمال نے نہ صرف زمین بلکہ سمندروں، دریاؤں، ندی نالوں، اور فضا کو بھی آلودہ کردیا ہے، پلاسٹک کے انتہائی باریک ذرات جنہیں مائیکرو پلاسٹک کہاجاتا ہے وہ فضا کے اندر بھی موجودد ہے جبکہ سمندر کی گہرائیوں کی اندر بھی پلاسٹک کے ذرات ملے ہیں۔

  • لیموں پانی کا روزانہ استعمال صحت کیلئے کیسا ہے؟ ماہرین نے بتادیا

    لیموں پانی کا روزانہ استعمال صحت کیلئے کیسا ہے؟ ماہرین نے بتادیا

    لیموں کا مستقل بنیادوں پر استعمال کتنا ضروری ہے اور اس کے کتنے زیادہ فوائد ہیں اگر لوگوں کو اس کا حقیقت میں علم ہوجائے تو لیموں کا استعمال کبھی ترک نہ کریں۔ کیونکہ لیموں پانی کا استعمال آپ کو بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے۔

    مجموعی صحت اور تندرستی کے لیے لیموں پانی کو طویل عرصے سے ایک بہترین مشروب تصور کیا جاتا ہے۔ وٹامن سی، اینٹی آکسیڈنٹس اور تازگی سے بھرپور یہ مشروب صحت کے لیے بہت سے فوائد پیش کرتا ہے جنہیں سائنسی حمایت حاصل ہے۔

    شمالی کیرولائنا کے رجسٹرڈ غذائی ماہر اپریل وائلز کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ لیموں پانی وزن میں کمی کو فروغ دیتا ہے، جلد کو بہتر بناتا ہے، ہاضمے میں مدد کرتا ہے اور جسم کے پی ایچ لیول کو متوازن رکھتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ لیموں کے پانی سے متعلق کچھ دعوے واقعی درست ہیں جن کے سائنسی ثبوت موجود ہیں، جبکہ بعض دیگر دعوے درست نہیں ہیں۔

    کیا آپ کو روزانہ لیموں پانی پینا چاہیے؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ روزانہ ایک یا دو گلاس لیموں پانی پینا صحت کے لیے مفید ہے۔ تاہم، اگر آپ کو معدے کے مسائل ہیں جیسے ایسڈ ریفلوکس، تو یہ پانی ان علامات کو بڑھا سکتا ہے، ساتھ ہی یہ دانتوں کے اینامل کو ممکنہ طور پر نقصان پہنچا سکتا ہے۔

    تاہم لیموں پانی کی تیاری کے وقت لیموں کو چھلکوں سمیت ڈالنے سے گریز کریں، کیونکہ ان پر کیڑے مار ادویات کا اسپرے کیا جاتا ہے اور بہتر صفائی نہ ہونے کی صورت میں یہ کچھ لوگوں کے لیے سوزش اور گردے کے مسائل جیسے جوڑوں کے درد کا باعث بن سکتا ہے۔

    جب بھی لیموں پانی کا استعمال کریں اس کی تاثیر کو کم کے لیے اس میں دیگر پھل اور سبزیوں کو بھی شامل کریں۔تاکہ اس پھل سے زیادہ سے زیادہ استفادہ حاصل ہوسکے۔

    لیموں سے وٹامن سی حاصل کیا جاسکتا ہے:

    لیموں پانی میں مائیکرو منرل بھی موجود ہوتے ہیں جو سرد مہینوں میں آپ کو ہائیڈریشن فراہم کرتے ہیں۔لیموں وٹامن سی کے حصول کا ایک بہترین ذریعہ ہے، لیموں مجموعی طور پر قوت مدافعت کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے خاص طور موسم سرما میں جب سردی اور فلو عام ہوجاتا ہے۔

    وائلز کا کہنا تھا کہ لیموں میں وٹامن سی کی بہت قلیل مقدار ہوتی ہے، وٹامن سی دماغ، جلد، دل، ہڈیوں اور مدافعتی نظام کی صحت کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق بہت زیادہ لیموں پانی پینے سے گریز کرنا اور اس سلسلے میں احتیاط سے کام لینا ضروری ہے اس کی وجہ اس کی تیزابی تاثر ہے جو دانتوں کے اینامل کو نقصان پہنچا سکتی ہے، جس کی وجہ سے دانتوں کی حساسیت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

    لیموں پانی آپ کو ہائیڈریٹ رکھنے میں مددگار:

    پانی میں لیموں کے ساتھ اسے مزید صحت بخش بنانے کے لیے پودینہ بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ ادرک، ہلدی یا سبز چائے پینے سے آپ اینٹی سوزش الیکٹرولائٹ بھی حاصل کر سکتے ہیں۔

    اگر آپ اپنے پانی کی مقدار میں اضافہ کرنا چاہتے ہیں تو اس میں ایک یا دو لیموں نچوڑنے سے نہ صرف اس کا ذائقہ بہتر ہوتا ہے، بلکہ یہ آپ کو بہتر انداز میں ہائیڈریٹ بھی رکھتا ہے۔

  • گرمی میں روزانہ نہانا: ماہرین کیا کہتے ہیں؟

    گرمی میں روزانہ نہانا: ماہرین کیا کہتے ہیں؟

    سخت گرمیوں کے دوران روزانہ نہانا گرمی سے نجات، جسم کو تازہ دم رکھنے اور دوسروں کو بھی بدبو سونگھنے سے بچانے میں مدد کرتا ہے، تاہم ماہرین نے اس کے ایک نقصان کی طرف اشارہ کیا ہے؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ گرمیوں میں زیادہ نہانا خطرے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک انسان کی صحت مند جلد پر تیل اور اچھے بیکٹریا کی تہہ ہوتی ہے جو صابن کے بے جا استعمال سے آہستہ آہستہ ختم ہوتی جاتی ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ طبی ماہرین جلد پر اچھے بیکٹیریا کو برقرار رکھنے کے لیے گرمیوں میں ہفتے میں ایک بار نہانے کا مشورہ دیتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق نہانے سے انسانی جلد خشک اور مسدود ہو جاتی ہے جس سے بیکٹیریا جلد میں آسانی سے داخل ہو کر جلد میں انفیکشن کا باعث بنتے ہیں۔

    یہ عمل جسم کے سوراخوں کو بھی کھولتا ہے، جس سے آپ کو متعدد وائرسز کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کے نتیجے میں، ماہرین غسل کے بعد جلد کو نمی بخشنے کا مشورہ دیتے ہیں۔

    جسم کو اینٹی باڈیز اور قوت مدافعت پیدا کرنے کے لیے اچھے بیکٹیریا کی ضرورت ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر بچوں کو روزانہ نہانے کا مشورہ نہیں دیتے۔

    ماہرین کا مشورہ ہے کہ حساس جلد والے افراد 5 منٹ سے زیادہ نہ نہائیں اور ایک منٹ سے زیادہ شاور میں نہ رہیں کیونکہ بہت زیادہ پانی کا استعمال جلد اور بالوں دونوں کے لیے نقصان دہ ہے۔

  • پہلی اولاد میں کیا خاص بات ہوتی ہے، ماہرین کا اہم انکشاف

    پہلی اولاد میں کیا خاص بات ہوتی ہے، ماہرین کا اہم انکشاف

    خاندان میں پیدا ہونے والے پہلے بچے کو ہر ایک سے خوب لاڈ ملتا ہے جبکہ انہیں خاندان میں اک بہت ہی خاص مقام بھی حاصل ہوتا ہے۔

    تاہم اب تحقیقاتی ادارے کی ایک تحقیق کے ذریعے یہ انکشاف ہوا ہے کہ خاندان میں پہلے بچے کا آئی کیو لیول ( ذہانت کا معیار) دیگر بچوں سے ڈیڑھ گنا زیادہ ہوتا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق اس تحقیقات میں 20 ہزار لوگوں نے اپنا حصہ ڈالا جس سے معلوم ہوا ہے پہلے بچے کا آئی کیو دوسرے بچے سے 1.5 گنا زیادہ ہوتا ہے جبکہ دوسرے بچے کا آئی کیو لیول پیدا ہونے والے تیسرے بچے سے زیادہ ہوتا ہے۔

    تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ہر خاندان کے حوالے سے کہنا مشکل ہے لیکن تحقیق نے اوسطاً نتیجہ اخذ کیا ہے۔

    تحقیق اس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ پہلے بچے کا آئی کیو لیول زیادہ ہونے کی وجہ ماں باپ کی زیادہ توجہ ہوتی ہے کیونکہ والدین اپنے پہلے بچے کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پر زیادہ زور دیتے ہیں۔

  • جھوٹی مسکراہٹ بھی آپ کے کام آسکتی ہے

    جھوٹی مسکراہٹ بھی آپ کے کام آسکتی ہے

    تحقیق کے مطابق آپ کی جھوٹی مسکراہٹ بھی آپ کا موڈ اچھا کرسکتی ہے۔

    امریکی محققین نے حالیہ انسانی رویوں پر مطالعہ کیا ہے جس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ انسانی جسم پر آنے والی تبدیلیوں کا اثر دماغ پر بھی ہوتا ہے۔

    ماہرین نے اس مطالعے کے لیے ایک دی مینی اسمائلز کولیبریشن نامی تحقیقی تجربہ کیا، مطالعہ کے لیے انہوں نے دنیا کے 19 مختلف ممالک سے تین ہزار آٹھ سو 78 افراد کو شامل کیا۔

    ان افراد میں نصف کو اپنے منہ پر گعلی مسکراہٹ سجانے کی ہدایت دی گئی جب کہ باقی نصف کو ان کے منہ میں قلم رکھ کر کسی کتے، بلی کے بچوں یا خوشگوار پھلوں کی تصویر دیکھنے کے لیے کہا گیا۔

    محققین کا کہنا ہے کہ یہ جاننا ضروری ہے کہ مسکراہٹ کو کیسے جعلی بنایا جائے کیونکہ قلم کو منہ میں رکھ کر مختلف خوشگوار چیزوں کو دیکھ کر جعلی مسکراہٹ کا طریقہ کار غیر مؤثر ثابت ہوا اور شرکاء تحقیق کو دانتوں پر دباؤ پڑنے سے وہ تکلیف کا شکار ہوگئے جبکہ حقیقی مسکراہٹ میں، دانتوں پر دباؤ نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی چپکتے ہیں۔

    دوسری جانب قلم کے بغیر اپنے چہروں کے پٹھوں کو اسی طرح حرکت دے کر جیسے ہم مسکراتے وقت دیتے ہیں، لبوں پر جعلی مسکراہٹ سجانے والے افراد نے حقیقی خوشی محسوس کی۔

    نیچرل ہیومن بی ہیوئیر  نامی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیقی مقالے میں بتایا گیا ہے کہ جس طرح دل کی ڈھڑکن خوف یا خوشی کے احساسات کو اجاگر کرتی ہیں اسی طرح مذکورہ تبدیلیاں دماغ کو موڈ اور جذبات کے حوالے سے سوچنے پر مجبور کردیتی ہیں۔

    ایسے ہی ایک جھوٹی مسکراہٹ دماغ کو دھوکہ دے کر حقیقی خوشی کو جنم دے سکتی ہے، جذبات کا شعوری اظہار حقیقی خوشی کو جنم دے سکتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق اگر کوئی شخص ہر کوئی اپنی بھنویں چڑھا کر رکھتا ہے تو اس کے اندر غصے کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں اسی طرح  مسکراہٹ کے ساتھ بھی ہے۔

  • کیا آپ بھی اپنے بچوں پر بہت سختی کرتے ہیں؟

    کیا آپ بھی اپنے بچوں پر بہت سختی کرتے ہیں؟

    کیا آپ کو معلوم ہے کہ والدین کی سخت اور غصیلی طبعیت سے بچہ ڈپریشن کا شکار ہو سکتا ہے۔

    جرمنی میں ہونے والی ایک تحیقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جن بچوں کے والدین سخت ہوتے ہیں، ان بچوں میں ڈپریشن اور دیگر دماغی صحت کے مسائل پیدا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

    یہ تحقیق جرمنی کے شہر بیلجیئم میں کی گئی اس تحقیق میں 23 بچوں کو شامل کیا گیا ہے، جن کی عمریں 12 سے 16 سال کے درمیان تھیں۔

    یہ وہ بچے تھے جنہوں نے اپنے والدین کو سخت مزاج ہونے کی شکایات کی تھیں، اس کے بعد بچوں کی ذہنی صحت کا موازنہ ان بچوں سے کیا گیا جن کے والدین نرم مزاج تھے۔

    تحقیق کے مطابق آمرانہ طرزِ فکر کے حامل والدین کے بچے دماغی و ذہنی صحت کے مسائل کا شکار بن جاتے ہیں۔

    بولنے میں ہکلاہٹ یا لکنت کیوں ہوتی ہے؟

    تحقیقی ماہر ڈاکٹر ایولین وان اسشے کے مطابق وہ والدین جو اپنے بچوں کو چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر انہیں جسمانی و ذہنی سزائیں دیتے ہیں، ان کے بچوں کے ڈی این اے میں ایک خاص جین کا اضافی سیٹ پیدا ہوجاتا ہے جو ان سخت رویوں کے باعث بچوں کے ذہن کو متاثر کرتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق وہ بچے جن کے والدین نرم مزاج کے ہوتے ہیں ان کے بچوں میں اس نوعیت کے مسائل کے امکانات بھی نمایاں طور پر کم ہوتے ہیں۔

    دیگر متعدد مطالعات کے مطابق چھ سال سے کم عمر کے بچوں کو درپیش ذہنی صحت کے مسائل کے پھیلاؤ کا باعث والدین کا رویہ ہے۔

    حیران کُن بات یہ ہے کہ والدین کے سخت رویوں سے بچوں کا ڈی این اے متاثر ہوا، جینوم میپنگ سے پتہ چلتا ہے کہ ان بچوں میں ’میتھیلیشن ‘کی تبدیلی میں اضافہ ہوا تھا، جس کا تعلق ڈپریشن سے ہے۔

    ’میتھیلیشن ‘ایک ایسا عمل ہے جس کے دوران ایک اضافی مالیکیول ڈی این اے میں شامل ہوجاتا ہے، جس سے اس کی ہدایات کو پڑھنے کا طریقہ بدل جاتا ہے۔

    سخت والدین کے بچے توقع سے کہیں زیادہ میتھیلیشن سے گزرتے ہیں جس کے بعد انہیں ان مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

    واضح رہے کہ اس سے قبل بھی کئی دیگر مطالعات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ سخت اور غصیلی طرز تربیت بچوں کے لیے نقصان کا باعث بنتی ہے۔