Tag: ماہرین صحت

  • کھانا کھانے کا کم از کم دورانیہ کتنا ہونا چاہیے؟

    کھانا کھانے کا کم از کم دورانیہ کتنا ہونا چاہیے؟

    اچھی غذا ہی اچھی صحت کی ضامن ہے، لیکن اس کے ساتھ کھانا کھانے کا دورانیہ اس کے اوقات بھی اہمیت کے حامل ہیں، یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ دسترخوان پر کم از کم کتنی دیر بیٹھنا ضروری ہے۔

    بہت سے لوگ وقت کی کمی کو مد نظر رکھتے ہوئے جلدی جلدی کھانا کھا کر اٹھ جاتے ہیں اور کچھ چلتے پھرتے کھانا کھانے کو بھی برا نہیں سمجھتے، حالانکہ یہ طریقہ صحت کیلیے انتہائی مضر ہے۔

    اس لیے ضروری ہے کہ کھانے کے اوقات کو اپنی جسمانی گھڑی سے مماثل رکھیں۔ ایسا نہ کرنے سے چربی کو ذخیرہ کرنے والے ہارمونز بڑھ سکتے ہیں اور صحت مند غذا کے فوائد سے محروم ہونے کا امکان ہے۔

    کھانا کھانے کے چند رہنما اصول یہ ہیں۔

    ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ ناشتے، دوپہر اور رات کے کھانے کو 30 منٹ سے قبل ہی مکمل کھا لینے سے فوائد کے بجائے نقصانات ہوسکتے ہیں۔

    ماہرین صحت کے مطابق اب تک کی متعدد تحقیقات سے معلوم ہو چکا ہے کہ تیزی سے کھانا کھانے کے فوائد نہیں بلکہ نقصانات ہوتے ہیں اور غذا سے فوائد حاصل کرنے کے لیے اسے آرام سے چبا چبا کر کھانا چاہیے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ آف پریس کے مطابق ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ دماغ کو پیٹ کے کھانے سے متعلق پیغامات اور ہدایات سمجھنے میں 20 منٹ تک کا وقت لگتا ہے، اس لیے کھانے کو اتنے ہی وقت میں مکمل کرنے کے فوائد حاصل نہیں ہوتے۔

    ماہرین کے مطابق کھانا کھانے کا دورانیہ ٹھیک نہ ہو تو تیزی سے کھانا کھانے سے کھائی جانے والی غذا کو بہتر انداز میں چبایا نہیں جاتا، جس سے غذا سے مکمل غذائیت انسانی جسم میں منتقل نہیں ہوپاتی۔

    ماہرین نے بتایا کہ تیزی سے کھانا کھانے سے انسان غذا سے نیوٹریشنز مکمل حاصل کرنے سے قاصر رہتا ہے، کیوں کہ غذا اس وقت ہی فائدہ مند اور نیوٹریشن فراہم کرتی ہے جب اسے مکمل چبا کر کھایا جائے۔

    طبی ماہرین کہتے ہیں تیزی سے کھانا کھانے سے موٹاپا ہونے سمیت قبض اور نظام ہاضمہ کے دیگر مسائل بڑھ سکتے ہیں جب کہ غذائی نالی میں بھی پیچیدگیاں ہو سکتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ ناشتے، دوپہر اور رات کے کھانے کو 30 منٹ سے پہلے ہی ختم کرنے والے افراد کو غذا کے وہ فوائد حاصل نہیں ہو پاتے جو کہ آہستے کھانے والے افراد کو ہوتے ہیں۔

    ماہرین کہتے ہیں کہ تیزی سے کھانا کھانے سے غذا کو مکمل نہیں چبایا جاتا، جس سے غذا کے بڑے ٹکڑے یا حصے غذائی نالی سمیت جسم کے دیگر اعضا میں پھنس سکتے ہیں، جنہیں ہضم ہونے میں وقت لگ سکتا ہے،جس سے پیچیدگیاں بڑھ سکتی ہیں۔

    ماہرین نے مشورہ دیا ہے کہ غذا کو 30 منٹ سے زائد دورانیے میں مکمل کیا جانا چاہیے اور کھانا کھاتے وقت ٹی وی اسکرین اور موبائل فونز سے دور رہنا چاہیے جب کہ غذا کھاتے وقت کھانے پر توجہ مرکز کرنی چاہیے۔

    ماضی میں بھی کی جانے والی متعدد تحقیقات میں بتایا جا چکا ہے کہ تیزی سے کھانا کھانے سے پیٹ پھولنے، بد ہاضمے اور قبض جیسے مسائل ہوتے ہیں۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نوٹ : مندرجہ بالا تحریر معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔ 

  • بھیگے بادام کھانے سے یہ نقصان بھی ہوسکتا ہے!!

    بھیگے بادام کھانے سے یہ نقصان بھی ہوسکتا ہے!!

    موسم سرما میں خشک میوہ جات کے استعمال میں اضافہ ہوجاتا ہے ان میں بادام سرفہرست ہیں، جو ہو عمر کے افراد شوق سے کھاتے ہیں، لیکن ان کو مقررہ حد سے کھانا نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔

    اس حوالے سے ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ بچوں اور بڑوں کے لیے یہ اچھا ہے کہ وہ رات بھر یا چند گھنٹوں کے لیے بھگوئے ہوئے بادام کو صبح کے پہلے کھانے کے طور پر استعمال کریں۔

    لیکن ٹھہریے !! کیا آپ جانتے ہیں کہ بچوں اور بڑوں کو روزانہ کتنے بادام کھانے چاہئیں؟ زیر نظر مضمون میں ماہرین صحت نے بتایا ہے کہ عمر کے حساب سے روزانہ کتنے بادام کھانے چاہئیے اور زیادہ بادام کھانے سے کس قسم کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

    بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ بچوں اور بڑوں کے لیے یہ اچھا ہے کہ وہ بادام اور کچھ دوسرے خشک میوہ جات اور بیجوں کو رات بھر یا چند گھنٹوں کے لیے صبح کے پہلے کھانے کے طور پر استعمال کریں۔

    بھگوئے ہوئے بادام کھانے سے یادداشت اور سیکھنے کی صلاحیت بہتر ہوتی ہے۔ بادام میں موجود آئرن، میگنیشیم، کیلشیم، فاسفورس، پوٹاشیم، وٹامن ای صحت کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔

    سال 2017میں ‘ڈرمیٹولوجی ریسرچ اینڈ پریکٹس جرنل’ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق محققین نے پایا ہے کہ بادام کھانے سے جھریوں میں کمی آتی ہے۔

    روزانہ کتنے بادام کھانے چاہئیں؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ صحت مند رہنے کے لیے بالغ افراد روزانہ 20 بادام تک کھا سکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں صبح ناشتے سے پہلے، پہلے کھانے کے طور پر استعمال کرنے سے اچھے نتائج ملتے ہیں۔

    ماہرین نے تجویز کیا ہے کہ چھوٹے بچوں (1-3 سال کی عمر کے درمیان) کو روزانہ 3 سے 5 بادام کھلائے جائیں۔ اگر 9 سے 18 سال کی عمر کے افراد روزانہ 10 بادام کھائیں تو وہ صحت مند رہیں گے۔

    زیادہ بادام کھانے کے مضر اثرات :

    یہ بات بھی یاد رکھیں کہ روزانہ زیادہ بادام کھانے سے جسم میں بہت سے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں جن میں وزن میں اضافہ، قبض، گردے کی پتھری اور دیگر امراض شامل ہیں۔

  • سرد راتوں میں موزے پہن کر سونا کتنا نقصان دہ ہے؟

    سرد راتوں میں موزے پہن کر سونا کتنا نقصان دہ ہے؟

    سردی کے دنوں میں کچھ لوگ رات کو گرم موزے پہن کر سونا پسند کرتے ہیں جبکہ کچھ پسینے سے بچنے کیلئے موزوں کے بغیر سوتے ہیں۔

    ویسے تو موسم سرما کی ٹھنڈی ہواؤں سے بچاؤ کے لیے گرم ملبوسات استعمال کرنے کے ساتھ ہم گھر سے باہر نکلتے ہوئے موزے پہنتے ہیں جو کہ عام بات ہے۔

    لیکن موزے پہن کر سونے کے کچھ اچھے نتائج سامنے نہیں آئے ماہرین کے مطابق اگر آپ سونے سے پہلے موزے پہننے کے عادی ہیں تو آپ اس عادت پر غور کرنا ضروری ہے کیونکہ اس کے صحت پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

    ماہرین صحت کے مطابق ویسے تو موزے پہن کر سونے کے کچھ فوائد تو ضرور ہیں کہ ایسا کرنے سے خون کی گردش کسی حد تک بہتر رہتی ہے۔

    سردیوں میں آپ اچھی کوالٹی کے موزے استعمال کرتے ہیں تو وہ آپ کے جسم کو رات کو بدلتے ہوئے درجہ حرارت کو کنٹرول رکھنے میں مدد دیتا ہے۔

    دوسری جانب ماہرین رات کو سوتے ہوئے موزے پہننے کو صحت مند رجحان یا طرزِ عمل نہیں سمجھتے، ان کے مطابق موزے پہن کر سونے سے دورانِ نیند مجموعی صحّت پر منفی اثر پڑتا ہے۔ یہ نیند میں خلل ڈالتا ہے جب کہ بلڈ پریشر کا بڑھ جانا اور اگر تنگ موزے پہنے گئے ہوں تو اس سے ہماری جلد پر انفیکشن ہوسکتا ہے۔

    طبّی ماہرین کے مطابق موزے پہن کر سونا اور کئی گھنٹے تک سونے کے دوران اگر کسی شخص نے موزے پہن رکھے ہوں تو اس کا بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے اور یہ براہِ راست دل پر اثرانداز ہوتا ہے۔ اس لیے احتیاط ضروری ہے۔

    طبّی ماہرین کے مطابق پیروں‌ کی صحّت اور ان کی صفائی کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ ان کی جلد پر بھی مسام موجود ہوتے ہیں جنہیں تازہ ہوا کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر سردیوں‌ میں ٹھنڈ سے بچنے کے لیے موزے پہن کر سونے کو معمول بنا لیا جائے تو یہ ان مساموں کے لیے نقصان دہ ہے۔ پیروں کی جلد کے یہ مسام بند ہو سکتے ہیں اور ان کی صحت متاثر ہوتی ہے۔

  • کیا کھانا چاہیے کیا نہیں؟ غذا سے متعلق غلط فہمیاں ختم کریں

    کیا کھانا چاہیے کیا نہیں؟ غذا سے متعلق غلط فہمیاں ختم کریں

    موجودہ دور میں جہاں ہمیں معلومات کے حصول کیلیے بے شمار ذرائع تک رسائی حاصل ہے وہیں بہت سی افواہیں اور غلط فہمیوں نے بھی اپنی جگہ بنائی ہے، ایسا ہی معاملہ ہماری غذا کے حوالے سے بھی ہے۔

    انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے اس جدید دور میں بے شمار ایسی افواہیں اور غلط فہمیاں بھی ہیں جنہیں لوگ بغیر تصدیق کیے ہی آگے بیان کردیتے ہیں، جس کا یقیناً کسی نہ کسی صورت میں نقصان ہی ہوتا ہوگا۔

    اس حوالے سے ماہرین صحت نے غذا سے متعلق چند ایسی ہی غلط فہمیوں کی نشاندہی کی ہے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

    ماہرین صحت ہمیشہ طاقتور اور مناسب غذا کھانے کا مشورہ دیتے ہیں تاکہ جسم کی نشوونما میں کوئی خلل پیدا نہ ہو لیکن یہ سوال بہت اہم ہے کہ جسم کے لیے صحت مند کھانا کون سا ہے؟

    غلط فہمیاں

    کم کیلوریز والی غذائیں

    یہ بات بھی عام ہے کہ کم کیلوری اور کم چربی والے کھانے زیادہ صحت بخش ہوتے ہیں جبکہ اصل میں ایسا ہرگز نہیں ہے کیونکہ کم کیلوری والے کھانے اکثر بھوک مٹا نہیں پاتے، یہی وجہ ہے کہ ان کھانوں کے بعد لوگ زیادہ کھانا کھانے لگتے ہیں۔

    یاد رکھیں ! گریاں اور ایووکاڈو جیسی زیادہ کیلوریز والی غذائیں غذائیت سے بھرپور ہونے کے ساتھ جسم کے لیے فائدہ مند بھی ہوتی ہیں۔

    چینی کے استعمال میں یہ بات لازمی یاد رکھیں

    شہد اور میپل سیرپ جیسی قدرتی مٹھاس کے ذرائع بھی عام شکر کی طرح ہی ہضم ہوتے ہیں اور ان کا زیادہ استعمال بھی صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ کسی بھی قسم کی شکر کا اعتدال میں استعمال بہتر ہے۔

    نمک کون سا استعمال کریں

    سی سالٹ عام نمک سے زیادہ فائدہ مند ہے، سی سالٹ اور عام نمک دونوں ہی سوڈیم فراہم کرتے ہیں اور زیادہ سوڈیم کا استعمال ہائی بلڈ پریشر اور دیگر مسائل کا سبب بن سکتا ہے، اس لیے نمک کا استعمال کم اور مناسب حد میں رکھنا بہت ضروری ہے۔

    انڈوں سے متعلق بڑی غلط فہمی

    انڈا دنیا کی سب سے زیادہ متنازعہ غذا ہے، کہا جاتا ہے کہ انڈے نقصان دہ ہوتے ہیں اور کولیسٹرول بڑھاتے ہیں، ایک عرصے تک اسے کولیسٹرول بڑھانے والی غذا کے طور پر لیا جاتا رہا ہے، تاہم اب ماہرین کا کہنا ہے کہ ہفتے میں 6 سے 12 انڈے کھانا عام طور پر محفوظ ہے کیونکہ انڈے پروٹین، وٹامنز اور دیگر فائدہ مند غذائی اجزاء فراہم کرتے ہیں۔

    شام کے وقت کھانا نقصان دہ ہے

    اکثر یہ بھی سننے میں آتا ہے کہ شام 6بجے کے بعد کھانا کھانا وزن کو بڑھاتا ہے، یاد رکھیں آپ کے جسم کے لیے کھانے کا وقت اتنا اہم نہیں جتنا کہ کھانے کی مقدار اور معیار ہے۔ دیر سے کھانا وزن بڑھنے کا سبب نہیں بنتا جب تک کہ آپ زیادہ کھانا نہ کھائیں۔

    کافی کھانے کا متبادل نہیں

    کافی میں غذائیت کم ہوتی ہے، اس لیے اسے ناشتے یا کھانے کا متبادل نہیں بنایا جا سکتا۔ بہتر ہے کہ ناشتے میں پروٹین اور کاربوہائیڈریٹ سے بھرپور غذائیں شامل کی جائیں تاکہ دن کا آغاز اچھی طرح ہو۔

    وزن کم کرنے کے لیے پرہیزی غذائیں

    اگرچہ وزن کم کرنے کے لیے کچھ طریقوں پر عمل کیا جاتا ہے لیکن وزن کم کرنے اور صحت مند وزن برقرار رکھنے کا ایک بہترین طریقہ مناسب غذا ہے۔

    وزن کم کرنے یا وزن پر قابو پانے کا ایک بہتر طریقہ یہ ہے کہ آپ جو کھانے کھاتے ہیں ان میں تنوع پیدا کریں تاکہ آپ صحت مند کھانے کی ایک بڑی حد کو شامل کرسکیں, عام اصول کے طور پر وزن کم کرنے کے لیے بھی صحت مند غذا ہونی چاہیے۔

    اس بات کو یقینی بنائیں کہ بہت زیادہ پانی پئیں اور کیفین کے استعمال کو کم کریں۔ الکوحل کا استعمال محدود رکھیں کیونکہ یہ آپ کے گردوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

    صحت مند کھانے میں تمام غذائی اجزاء شامل ہوں جن میں وٹامنز ، پروٹین اور چربی شامل ہوں۔ اگر آپ اپنا وزن کم کرنا چاہتے ہیں تو جسمانی افزائش اور کام کرنے کے لیےضروری مواد سے خود کو محروم نہ رکھنا ضروری ہے۔

  • رات کو سونے قبل دودھ پینا فائدہ مند ہے؟ لیکن !!

    رات کو سونے قبل دودھ پینا فائدہ مند ہے؟ لیکن !!

    لوگوں کی اکثریت رات کو سونے سے قبل دودھ پی کر سوتی ہے اس کے بے شمار فوائد ہیں لیکن اگر اس میں ایک چیز کو اور شامل کردیا جائے تو سونے پہ سہاگہ ہوگا۔

    ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ گھی صحت کے لیے بہت اچھا ہے یہ ہڈیوں کے لیے بہت مفید ہے۔ اگرچہ بہت سے لوگ گھی کھانے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ اس سے ان کا وزن بڑھے گا۔

    لیکن یہ بات بھی یاد رکھیں کہ محدود مقدار میں گھی کا استعمال صحت کے لیے بہت سے فوائد کا حامل ہے۔ اسی سلسلے میں ماہرین روزانہ رات کو سونے سے پہلے ایک گلاس دودھ میں گھی ملا کر پینے کا مشورہ دیتے ہیں

    اسی سلسلے میں ماہرین روزانہ رات کو سونے سے پہلے ایک گلاس دودھ میں گھی ملا کر پینے کا مشورہ دیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس سے بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔

    بھارتی ماہرین صحت کے مطابق دودھ میں گھی ملاکر پینے سے ہاضمہ بہتر ہوتا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نظام ہاضمہ کو صحت مند رکھتا ہے کیونکہ گھی بیوٹیرک ایسڈ سے بھرپور ہوتا ہے۔

    یہ پیٹ کی سوجن کو بھی کم کرتا ہے۔ 2019 میں "انڈین جرنل آف میڈیکل ریسرچ” میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق، محققین نے پایا کہ بٹیرک ایسڈ ہضمی نظام میں سوزش کو کم کرتا ہے اور اچھے بیکٹیریا کی افزائش کو فروغ دیتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جوڑوں کے درد میں مبتلا افراد روزانہ سونے سے پہلے نیم گرم دودھ میں گھی ملا کر پینے سے آرام مل سکتا ہے۔ گھی اینٹی سوزش مرکبات جیسے اومیگا 3 فیٹی ایسڈ (Omega-3 fatty acids) (CLA) سے بھرپور ہوتا ہے۔ وہ سوجن اور جوڑوں کے درد کو کم کرتے ہیں۔ جوڑوں کے درد میں مبتلا افراد بھی دودھ میں گھی ملا کر پینے سے فائدہ ہو سکتا ہے۔

    گھی میں حل پذیر وٹامن اے، ڈی، ای اور کے پائے جاتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ہمیں صحت مند رکھتے ہیں اور جلد کو چمکدار بناتے ہیں۔ روزانہ گرم دودھ میں ایک چمچ گھی ملا کر پینے سے آپ کی جلد نکھر جائے گی۔

    گھی اور دودھ دونوں میں امینو ایسڈ ٹرپٹوفن ہوتا ہے۔ یہ اچھی نیند فراہم کرتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بے خوابی کے شکار افراد سونے سے پہلے نیم گرم دودھ میں گھی ملا کر پینے سے سکون محسوس کرتے ہیں اور اچھی نیند بھی آتی ہیں۔

  • گرمیوں میں آئس کریم کھانی چاہیے یا نہیں؟ ماہرین نے خبر دار کردیا

    گرمیوں میں آئس کریم کھانی چاہیے یا نہیں؟ ماہرین نے خبر دار کردیا

    بچے ہوں یا بڑے آئس کریم کھانا سب کو ہی پسند ہوتا ہے، عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ موسم گرما میں آئس کریم جسم کو ٹھنڈک پہنچاتی ہے لیکن ایسا ہر گز نہیں۔

    اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ گرمیوں کی بجائے سردیوں میں آئس کریم کھانا زیادہ فائدہ مند ہے کیونکہ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ آئس کریم جسم میں حرارت پیدا کرتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق آئس کریم کھانے میں ٹھنڈی ضرور ہوتی ہے لیکن اس کی تاثیر گرم ہوتی ہے اس لیے موسم گرما کی نسبت سردیوں میں آئس کریم کھانا زیاہ مفید ہے۔

    آج کے مضمون میں ہم آپ کو بتائیں گے کہ ایسا کیوں ہے؟ ماہرین صحت کے مطابق آئس کریم میں چینی، چکنائی اور دودھ ہوتا ہے اور جب یہ سب آپ کے جسم میں جاتا ہے تو جسم میں گرمی پیدا کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آئس کریم کھانے کے بعد پیاس بہت لگتی ہے۔

    یہ بات قابل ذکر ہے کہ سردیوں کی نسبت گرمیوں میں آئس کریم کھانا زیادہ فائدہ مند ہے، گرم موسم میں آئس کریم کھانے کے بہت سے فائدے ہیں، سردیوں کے موسم میں لوگوں کو اکثر گلے کی خراش، نزلہ اور کھانسی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    لہٰذا گرمیوں میں پیدا ہونے والے طبی مسائل کے حل کیلئے آئس کریم کھانے کے بجائے ان اشیاء کو بطور دوا استعمال کریں۔

    یاد رکھیں کہ گرمیوں کے موسم میں آپ آئس کریم کے بجائے صحت بخش مشروبات جیسے لیموں پانی، چھاچھ، لسی، ستو اور پھلوں کے جوس وغیرہ پی سکتے ہیں، یہ چیزیں آپ کے جسم کو ٹھنڈا بھی کرتی ہیں اور آپ کو گرمی سے نجات دیتی ہیں۔

  • بچپن کی غذائیں جوانی میں کس خطرے کا سبب بنتی ہیں؟

    بچپن کی غذائیں جوانی میں کس خطرے کا سبب بنتی ہیں؟

    ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ بچپن میں کھائی جانے والی غذا ہماری آنے والی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے جس کا اندازہ جوانی میں ہونے والی بیماریوں سے ہوجاتا ہے۔

    ایک تازہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جو افراد اپنی ابتدائی عمر میں چکنائی اور مٹھاس سے بھرپور غذائیں کھاتے ہیں ان میں جوانی میں امراض قلب سمیت فالج میں مبتلا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

    اس حوالے سے برطانوی ماہرین کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں 1990 کی دہائی کے ہزاروں بچوں کی غذائی عادات کا جائزہ لے کر جوانی میں ان میں ہونے والی بیماریوں کا جائزہ لیا گیا۔

    جوانی

    ماہرین نے ترتیب وار 7، 10 اور 13 سال کے بچوں کی جانب سے کھائی جانے والی غذاؤں کو دیکھا اور پھر ان ہی بچوں کے جوان ہونے پر ان میں ہونے والی بیماریوں اور طبی پیچیدگیوں کا جائزہ لیا اور ان کے مختلف ٹیسٹس کیے۔

    تحقیق سے معلوم ہوا کہ جن بچوں نے کم عمری میں زیادہ میٹھی غذائیں، چکنائی اور کیلوریز سے بھرپور غذائیں کھائی تھیں، ان میں نوجوانی میں ہی شریانوں کے سکڑنے کے مسائل پیدا ہوگئے۔

    چکنائی

    ماہرین نے بتایا کہ ایسی غذائیں کھانے والے افراد کی 17 یا 24 سال کی عمر میں شریانیں اس قدر تنگ ہوچکی تھیں کہ جیسے وہ کئی سال زائد العمر ہوں۔

    ماہرین کے مطابق ایسے بچوں کے جوان ہونے پر ان کی دل کو خون کی ترسیل کرنے والی شریانیں تنگ ہوئیں، جس سے ایسے افراد میں امراض قلب سمیت فالج کا شکار ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔

    ماہرین نے تجویز دی کہ کم عمر بچوں کو پھل اور سبزیوں پر مبنی زیادہ سے زیادہ غذائیں دی جائیں تاکہ ان کی شریانوں کی نشونما ان کی عمر کے مطابق ہو۔

  • سردیوں میں گرم پانی سے نہانا کیوں نقصان دہ ہے؟

    سردیوں میں گرم پانی سے نہانا کیوں نقصان دہ ہے؟

    سردیوں میں نہانے کیلئے زیادہ تر لوگ گرم پانی کا استعمال کرتے ہیں یہ عمل کسی حد تک تو کارآمد ہے لیکن جتنے فوائد ٹھنڈے پانی سے غسل کرنے کے ہیں گرم پانی کے نہیں۔

    ماہرین صحت کے مطابق طویل سفر کے بعد لوگ تھکن کو دور کرنے اور جراثیم سے نجات کے لیے دیر تک گرم شاور لیتے ہیں جو صحت کیلئے اچھا نہیں۔

    اگرچہ گرم پانی سے نہانا جراثیم کو دور کرسکتا ہے تاہم ساتھ ہی یہ جلد کو انتہائی ضروری تحفظ سے بھی محروم کر دیتا ہے اس طرح جلد کی قدرتی چکنائی کم ہونے لگتی ہے۔

    ییل اسکول آف میڈیسن کے ماہر امراض جلد اور اسسٹنٹ پروفیسر جیفری کوہن کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ نہانے کے لیے نیم گرم پانی کا استعمال کریں اور نہانے کا یہ عمل 10 سے 15 منٹ میں مکمل ہوجانا چاہیے، ایسا کرنے سے آپ کی جلد دیر تک گرم پانی کا سامنا کرنے سے محفوظ رہے گی جو کہ جلد کی خشکی کا سبب بن سکتا ہے۔

    کوہن کا کہنا ہے کہ جب آپ زیادہ شاور لیتے ہیں تو اس کے نتیجے میں یہ سب دھل جاتا ہے جبکہ بہت زیادہ نہانا آپ کے بالوں کو بھی متاثر کر سکتا ہے جس سے بالوں کی جڑیں کمزور ہوکر ان کے جھڑنے کا سبب بن سکتی ہے۔

    ماہرین صحت کے مطابق گرم پانی آپ کی جلد سے قدرتی تیل اور صحت مند بیکٹیریاز کو صاف کردیتا ہے اس طرح ایگزیما اور کیل مہاسوں جیسے مسائل بڑھنے لگتے ہیں۔

    گرم شاورز کے ساتھ صابن کا استعمال حقیقت میں جلد کے مائیکرو بایوم کو بھی صاف کردیتا ہے جو جلد کی حفاظت میں معاون کردار ادا کرتے ہیں اور ساتھ ہی یہ جسم کی مجموعی صحت کے لیے بھی انتہائی اہم ہے۔

    بھاپ سے بھرے گرم شاور کے بجائے ماہرین صحت لوگوں کو 60 ڈگری فارن ہائیٹ سے کم درجہ حرارت کے ٹھنڈے پانی سے شاور لینے کی ترغیب دیتے ہیں۔

    ماہرین صحت کے مطابق جب آپ ٹھنڈے پانی سے شاور لے رہے ہوتے ہیں تو آپ کا دماغ ان تمام وجوہات کے بارے میں سوچنے کے بجائے ٹھنڈے پانی کے ناخوشگوار احساس کو دور کرنے پر اپنی توجہ مرکوز رکھتا ہے اس طرح تناؤ کو دور کرنے میں مدد ملتی ہے۔

    ٹھنڈے پانی سے نہانے سے جسم کے پٹھے مضبوط ہوجاتے ہیں اور اعضاءکو طاقت ملتی ہے، خصوصاً مردوں کیلئے ٹھنڈے پانی سے نہانا بہت فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔

    جب جسم پر ٹھنڈا پانی پڑتا ہے تو براﺅن چربی سرگرم عمل ہوجاتی ہے اور جسم کو گرم رکھنے کیلئے سفید چربی اور حراروں کو جلاتی ہے۔

    سکینڈے نیوین کی ایک تحقیق کے مطابق روزانہ ٹھنڈے پانی سے نہانا اگر ایک سال تک جاری رکھا جائے تو وزن میں تقریباً 4 کلو گرام کمی ہوجاتی ہے اور موٹاپے کی بیماری بھی نہیں ہوتی۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نوٹ : مندرجہ بالا تحریر معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔

  • پاکستان میں کورونا کی بگڑتی صورتحال، ماہرین صحت کا ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا مطالبہ

    پاکستان میں کورونا کی بگڑتی صورتحال، ماہرین صحت کا ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا مطالبہ

    اسلام آباد : سیکریٹری جنرل پی ایم اے ڈاکٹرقیصرسجاد نے کورونا کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ بھارت میں جوصورتحال ہےہم اسی طرف جارہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق سیکریٹری جنرل پی ایم اے ڈاکٹرقیصرسجاد نے اےآروائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہپاکستان میں کوروناکی صورت حال خراب ہوتی جارہی ہے، بھارت میں جوصورتحال ہےہم اسی طرف جارہے ہیں۔

    ڈاکٹرقیصرسجاد نے مطالبہ کیا کہ خطرناک صورتحال سےبچنےکیلئےملک میں ایمرجنسی نافذکی جائے اور کہا ایس اوپیز پر سختی سے عملدرآمد کرایاجاتا تو یہ صورتحال نہ ہوتی۔

    خیال رہے نئے کرونا وائرس سے پھیلنے والی وبا نے پاکستان میں تشویش ناک تیزی اختیار کر لی ہے، گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران وبا کی زد میں آ کر 157 افراد جاں بحق ہو گئے، جس کے بعد مجموعی تعداد 17 ہزار کے قریب پہنچ گئی۔

    گزشتہ 24 گھنٹوں میں ملک میں 52 ہزار 402 کرونا ٹیسٹ کیے گئے، جن میں کرونا کے 5 ہزار 908 نئے کیسز کی تصدیق ہوئی اور کرونا کے ٹیسٹ مثبت آنے کی شرح 11.27 فی صد رہی۔

  • کرونا وائرس ویکسین کس طرح کام کرے گی؟ اہم معلومات

    کرونا وائرس ویکسین کس طرح کام کرے گی؟ اہم معلومات

    نیویارک: ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ کرونا کا خاتمہ ویکسین سے ہی ممکن ہے، سائنس دانوں اور ماہرین صحت نے ویکسین کی تین اقسام بتائی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق 2019 کے اختتام میں شروع ہونے والی کرونا وائرس کی وبا پوری دنیا میں تباہی مچا رہی ہے اور اب تک اس کے علاج کے لیے کوئی موثر ویکسین نہیں بنائی جا سکی۔

    ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ کرونا کا خاتمہ ویکسین سے ہی ممکن ہے، ماہرین کرونا سے مقابلہ کرنے پر توجہ دے رہے ہیں۔سائنس دانوں اور ماہرین صحت نے نہ صرف یہ بتایا ہے کہ ویکسین کی کتنی اقسام ہیں بلکہ یہ بھی بتایا ہے کہ یہ کام کس طرح کرتی ہیں۔

    براہ راست ویکسین (Live vaccine)

    غیر فعال ویکسین (Inactivated vaccine)

    ڈی این اے یا ایم آر این اے ویکسین (Gene-based vaccine)

    براہ راست ویکسین:

    براہ راست ویکسین کا نقطہ آغاز ایک عام ویکسین پر مبنی وائرس ہے، یہ بیماری کا باعث نہیں بنتا لیکن ہمارے جسم کے خلیوں میں کئی گنا بڑھ سکتا ہے، یہ ویکٹر ہے جو مدافعتی ردعمل کو متحرک کرتا ہے اور اس ویکسین پر مبنی وائرس کو جسم میں داخل کر کے بڑے وائرس یا معتدی امراض کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔

    غیر فعال ویکسین:

    ان میں منتخب وائرل پروٹین یا غیر فعال وائرس ہوتے ہیں یہ روگجن وائرس پر مبنی ویکسین ہیں جو مردہ ہوتے ہیں، مردہ وائرس جسم میں زیادہ نہیں بڑھ سکتے۔جسمانی دفاعی نظام اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ اینٹی باڈیز ویکسین تیار کی جائیں۔ ایسی ویکسین حاصل کرنے والا فرد بیماری کو فروغ نہیں دیتا۔ یہ ویکسین پہلے سے ہی انفلوئنزا، پولیو، کھانسی، ہیپاٹائٹس بی اور تشنج جسی بیماری کے خلاف استعمال ہوئی ہے۔

    جین پر مبی ویکسین:

    جین پر مبنی ویکسین میں کرونا وائرس ڈی این این اے یا ایم آر این اے کی شکل میں خالص جینیاتی معلومات موجود ہے، اس طریقہ کار میں پیتھوجین سے جینیاتی معلومات کے الگ الگ حصوں کو نینو پارٹیکلز میں باندھ کر خلیوں میں داخل کیا جاتا ہے، ایک بار یہ جسم میں لگ جاتی ہے تو مدافعتی تحفظ کو مضبوط بناتی ہے۔

    واضح رہے کہ ان تمام ویکسینز کا ابتدائی مرحلے میں اب بھی تجربہ کیا جا رہاے ہے، پہلی اور واحد ویکسین جس کو فیز 1 کی منظوری ملی ہے وہ جرمنی میں تیار کردہ ایک ایم آر این اے ویکسین ہے جس کو انسانوں پر آزمایا جا رہا ہے۔