Tag: ماہرین فلکیات

  • زمین سے 4 کروڑ نوری سال کے فاصلے پر واقع بلیک ہول دریافت

    زمین سے 4 کروڑ نوری سال کے فاصلے پر واقع بلیک ہول دریافت

    خلائی ماہرین نے حال ہی میں ایک بہت بڑا بلیک ہول دریافت کیا ہے جو زمین سے 4 کروڑ 70 لاکھ نوری سال کے فاصلے پر موجود ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق زمین سے 4 کروڑ 70 لاکھ نوری سال کے فاصلے پر ایک کہکشاں کے مرکز میں ایک بہت بڑا بلیک ہول دریافت کیا گیا ہے جو خلائی غبار کے بادل کے اندر چھپا ہوا تھا۔

    غبار کے بادل کی تفصیلی تصاویر چلی میں نصب یورپین سدرن مشاہدہ گاہ کی ٹیلی اسکوپ سے لی گئیں۔

    ماہرین نے مشاہدہ گاہ کا رخ کہکشاں میسر 77 کی جانب کیا جو زمین سے 4 کروڑ 70 لاکھ نوری سال کے فاصلے پر موجود ہے، اس کہکشاں کے مرکز میں ماہرین کو ایک خلائی غبار کا موٹا چھلا ملا جس نے ایک بہت بڑے بلیک ہول کو چھپایا ہوا تھا۔

    غبار کے بادل میں اس جگہ پر موجود یہ بلیک ہول دہائیوں سے ایک راز ہے، لیکن ماہرین کی ٹیم نے ٹیلی اسکوپ سے ملنے والی تفصیلی تصاویر کا استعمال کرتے ہوئے اس بادل میں مختلف مقامات پر درجہ حرارت کی پیمائش کی اور نقشہ بنایا۔

    ایکٹو گلیکٹک نیولائی کے نام سے جانے جانا والا بلیک ہول تیز روشنی کا سبب بنتا ہے جو کہکشاں میں موجود ستاروں کی روشنی کو ماند کردیتا ہے۔ یہ کائنات کی سب سے روشن اور سب سے زیادہ پر اسرار اشیا ہیں جو کہکشاؤں کے بیچوں بیچ موجود ہیں۔

  • بلیک ہول  کا پُراسرار  زار ، جسے انسانی آنکھ نے پہلے کبھی نہیں دیکھا

    بلیک ہول کا پُراسرار زار ، جسے انسانی آنکھ نے پہلے کبھی نہیں دیکھا

    لندن: برطانوی ماہرین فلکیات نے بلیک ہول کے مرکز میں پیدا ہونے والی تابکاری کے عمل سے نکلنے والی شعاعوں کی تصویر پہلی بار حاصل کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق ماہرین فلکیات نے بلیک ہول کے گرد پیدا ہونے والی تابکاری کے عمل سے نکلنے والی شعاعوں کی ایسی بے مثال مختصر ویڈیو حاصل کی ہے جسے انسانی آنکھ نے اس سے پہلے نہیں دیکھا۔

    غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق سولر سسٹم میں موجود بلیک ہول کے مرکز میں پیدا ہونے والی تابکاری کے عمل سے نکلنے والی شعاعوں کے ذریعے ماہرین فلکیات ایک اور اہم راز سے روشناس ہوئے۔

    برطانیہ میں واقع ’ساؤت امٹن‘ یونیورسٹی میں ہونے والی اس تحقیق میں خطریر رقم خرچ ہوئی ہے، جس میں جدید ٹیکنالوجی سے لیز کیمروں کا استعمال کیا گیا ہے۔

    ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ شعاعوں کا یہ عمل بیلک ہول میں موجود گریوٹی اور میگنٹک فیلڈ کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔

    برطانوی ماہرین نے کیناری جزیرے سے اپنا تحقیقی ٹیلی اسکوپ استعمال کیا تاہم تابکاری کے عمل سے نکلنے والی شعاعوں کا ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے انہوں نے عالمی ادارے ناسا سے مدد حاصل کی۔

    بلیک ہول کی پہلی تصویرجاری کردی گئی

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جس بلیک ہول پر شعاعیں نکل رہی ہیں اس کا وزن تقریباً سورج سے زیادہ 7 گنا زیادہ ہے، لیکن حجم کے لحاظ سے برطانوی شہر لندن سے بھی چھوٹا ہے۔

    خیال رہے کہ 10 اپریل 2019 کا دن سائنسی تاریخ کا ایک اہم دن تھا کیونکہ ماہرین فلکیات طویل عرصے سے سحر زدہ کیے رکھنے والے بلیک ہول کی پہلی تصویر لینے میں کامیاب ہوئے تھے۔

  • کائنات میں زندگی کی تلاش، ماہرین فلکیات نے سیارے پر پانی دریافت کرلیا

    کائنات میں زندگی کی تلاش، ماہرین فلکیات نے سیارے پر پانی دریافت کرلیا

    لندن: ماہرین فلکیات نے پہلی بار ایک ایسے سیارے پر پانی تلاش کرلیا ہے جہاں زندگی ممکن ہوسکتی ہے۔

    برطانوی خبررساں ادارے کے مطابق ماہرین فلکیات نے پہلی بار ایک ایسے سیارے پر پانی تلاش کیا ہے جہاں زندگی ممکن ہوسکتی ہے، زندگی کے لیے موزوں سمجھا جانے والا یہ سیارہ خلا میں بہت دور ایک ستارے کے گرد اتنے فاصلے پر گردش کررہا ہے کہ اس پر زندگی ممکن بنانے والے حالات موجود ہوسکتے ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق (کے ٹو اٹھارہ بی) نامی یہ سیارہ اس دریافت کے بعد کائنات میں زمین سے باہر زندگی کی تلاش میں اہم امیدوار بن گیا ہے۔

    اب اگلا مرحلہ یہ ثابت کرنے کا ہے کہ اس سیارے کی فضا میں ایسی گیسیں موجود ہیں، جو وہاں زندگی ممکن بناپائیں، اس کے لیے نئے اور مزید طاقتور ٹیلی اسکوپ چاہیے ہوں گے اور ایسا کرنے میں دس سال لگ سکتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: ناسا کے پلینٹ ہنٹر نے 53 نوری سال کی دوری پر زمین جتنا سیارہ ڈھونڈ لیا

    اس مشن کے رہنما سائنس دان یونیورسٹی کالج آف لندن کے پروفیسر گیووانا ٹینیٹی نے پانی کی اس دریافت کو ’ہوش اڑا دینے والی دریافت‘ قرار دیا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ پہلی بار ہم نے ایک ایسے سیارے پر پانی کے آثار دیکھے ہیں جو اپنے ستارے سے اتنے فاصلے پر گردش کررہا ہے کہ وہاں زندگی ممکن ہوسکتی ہے۔

    زمین سے 111 نوری سال یعنی 650 ملین میل کے فاصلے پر ہے اور وہاں خلائی گاڑی کے ٹو اٹھارہ بی یونیورسٹی کالج کی ڈاکٹر انگو والڈمان کے مطابق سیارہ بھیجنا ممکن نہیں ہے۔

    ڈاکٹر انگو والڈمان کے مطابق اس صورت حال میں وہاں زندگی کی موجودگی کے بارے میں معلوم کرنے کے لیے ہمیں خلا میں دیکھنے والی ٹیلی اسکوپ کے ان نئے ماڈلز کا انتظار کرنا ہوگا جو 2020 کی دہائی میں تیار ہوں گے۔

  • آسمان سے جلتے پتھروں کی بارش آج ہوگی

    آسمان سے جلتے پتھروں کی بارش آج ہوگی

    آسمان سے مینہ برستے تو ہم سب آئے روز دیکھتے رہتے ہیں مگر آسمان سے جلتے پتھروں کی بارش کبھی کبھار ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ جو صدیوں سے انسان کے تجسس کو بھڑکائے ہوئے ہے اور قدیم تہذیبوں میں اس حوالے سے طرح طرح کی قیاس آرائیاں کی جاتی رہی ہیں مگر موجودہ دور میں سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی میں روز افزوں پیش رفت کی بدولت یہ گتھی انسان نے سلجھا لی ہے، آج کی رات وہ علاقے جہاں مصںوعی روشنیاں کم اور مطلع صاف رہے گا وہاں آسمان سے گرتے ان پتھروں کا مشاہدہ کیا جاسکے گا۔

    یہ پتھر دراصل فلکیاتی چٹانیں ( راکس) ہیں جو پوری کائنات اور ہمارے نظام ِ شمسی میں آوارہ گردی کر رہے ہیں ۔ جنھیں’می ٹیور‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ پتھر اِدھر اُدھر بھٹکتے ہوئے جب سیارۂ زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہیں تو ہوا کی رگڑ ان کا اندرونی درجۂ حرارت بڑھا دیتی ہے،جس کے باعث یہ بھڑک اٹھتے ہیں اور زمین سے دیکھنے پر یہ روشن پتھروں کی بارش معلوم ہوتی ہے جسے ’می ٹیور شاور ‘ کہا جاتا ہے ۔ عموما ََ می ٹیور شاورز کا مشاہدہ اس وقت کیا جاتا ہے جب کوئی دم دار ستارہ زمین کے پاس سے گزرتا ہے ۔ چونکہ دم دار ستارے بھی سورج ہی کے گرد محو ِ گردش ہیں ۔لہذاٰ انکی دم سے خارج ہونے والی ’ڈسٹ ‘ یا چھوٹے چھوٹے چٹانی پتھر دھار کی صورت میں پیچھے رہ جاتے ہیں جنھیں ’شوٹنگ سٹار ‘یا ’فالنگ سٹار ‘ بھی کہا جاتا ہے ۔

    یہ دراصل خلا میں ہر جانب بکھری ہوئی چٹانیں یا کنکریاں ہیں جو سائز میں نسبتا ََ بڑی ہو تی ہیں اور لاکھوں میل فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین سے 70 سے 100 کلومیٹر کی بلندی پر گرتے نظر آتے ہیں ، لیکن ان میں سے کوئی شاذو نادر ہی زمین پر آگرتا ہے کیونکہ ہوا سے مسلسل رگڑ کے باعث زمینی ماحول میں یہ جل کر راکھ ہوجاتے ہیں ۔ اگرچہ ایک شاور میں یہ پتھر ہر جانب سے گرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن اگر ان کے راستے کی خط کشی کی جائے تو معلوم ہوگا کہ سارے پتھر خلا کے ایک مخصوص علاقے یا مقام سے آرہے ہوتے ہیں ۔لہذا ٰ ہر می ٹیورشاور کا نام ’کانسٹی لیشن‘ یا برج ( ستاروں کا جھرمٹ ) کے نام کی مناسبت سے رکھا جاتا ہے ۔

    سنہ 2018 میں نظر آنے والے چند اہم می ٹیور شاورز مندرجہ ذیل ہیں ۔

    پرسیڈ می ٹیورشاور: دنیا بھر سے فلکیات کے شائقین نے 13 اگست 2018 کی رات کو شہابیوں کے گرنے کی جس بارش کا مشا ہدہ کیا تھا اسے پر سیڈ می ٹیور شاور کہا جاتا ہے۔ جو 20 اگست تک ہر رات دیکھا گیا تھا مگر اس میں 13 اگست کی رات شدت تھی جس میں پتھروں کے گرنے کی تعداد 80 فی گھنٹہ تھی۔ اس شاور کا باعث بننے والے دم دار ستارے کا نام سوفٹ ٹرٹل ہے جس کا سورج کے گرد ایک چکر133 سال میں مکمل ہوتا ہے ۔ چونکہ 13 اگست کی رات چاند کی دو تاریخ تھی لہذا ٰ چاندنی بالکل نہ ہونے کے باعث اسے 30 سے 40 ڈگری کے زاویئے پر بہت واضح دیکھا گیا تھا۔ اس می ٹیور شاور میں گرنے والے پتھر ایک دوسرے سے اتنے کم فاصلے پر تھے کہ گرتے ہوئے کسی دھار یا روشن لکیرکی طرح معلوم پڑتے تھے۔ یہ بارش کو پرسیڈ شاور کا نام اس لیے دیا گیا ہے کیونکہ یہ پرشس کانسٹی لیشن کی جانب سے ہوتی ہے اور جس مقام سے یہ گرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اسے فلکیات میں ‘ ریڈینٹ ‘ کہا جاتا ہے۔ اس شاور کو سب سے پہلے 1865 میں مشاہدہ کیا گیا تھا جس میں مکمل شدت سے پہلے ایک دفعہ پتھروں کے گرنے میں ہلکی شدت آتی ہے اور پھر کچھ وقفے کے بعد وہ زیادہ تعداد میں گرنے لگتے ہیں۔ پرسیڈ می ٹیور کا مشاہدہ 17 جولائی 2018 کی رات کو بھی کیا گیا تھا۔

    اورینائڈ می ٹیور شاور: آسمانی پتھروں کی یہ بارش ہیلی کی دم دار ستارے کے زمین کے قریب سے گزرنے کے باعث دکھائی دیتی ہے۔ چونکہ یہ بارش اورین کانسٹی لیشن کی جانب سے ہوتی ہے اس لیئے اسے اورینائڈ می ٹیور شاور کہا جاتا ہے۔ اکتوبر 2018 میں 16 سے 30 اکتوبر کی راتوں میں اورینائڈ می ٹیور شاور ہر رات دیکھا گیا ۔ جس میں شدت 21 اکتوبر کی رات میں تھی اور اس رات فی گھنٹہ 25 شہابیئے گرتے ہوئے دیکھے گئے۔ جو آسمان پر 30 سے 40 ڈگری کے فاصلے پر واضح دکھائی دیئے۔ مگر 21 اکتوبر کو چاند کی 12 تاریخ ہونے اور بھرپور روشنی ہونے کے باعث آسمانی پتھروں کی یہ بارش اتنی واضح نہیں تھی۔

    ٹورڈ می ٹیور شاور: فلکیات کے شائقین نے 5 نومبر 2018 کی رات کو آسمان سے پتھروں کی جس بارش کا مشاہدہ کیا اسے ٹورڈ می ٹیور شاور کہا جاتا ہےجو ٹورس کانسٹی لیشن کی جانب سے ہو تی ہے۔ اور اس کے باعث گرتے ہوئے می ٹیور کو 30 نومبر تک دیکھا جاسکے گا ۔ جو 2 پی اینکل دم دار ستارے کے زمین کے قریب سے گزرنے کے باعث ہوگی۔ 5 نومبر کی رات گرنے والے شہابیوں کی رفتار فی گھنٹہ دس تھی اور چونکہ اس رات چاند کی 27 تاریخ تھی تو چاند کی روشنی نہ ہو نے کے باعث اس بارش کو 14 ڈگری شمال یا اس سے دور 30 سے 40 ڈگری کے زاویوں پر بہت واضح دیکھا گیا تھا۔

    لیو نائڈ می ٹیورشاور: شوٹنگ یا فالنگ سٹارز کی بارش کبھی بھی محض ایک رات تک محدود نہیں ہوتی بلکہ عموما ََ یہ ہفتوں تک گرتے نظر آتے رہتے ہیں ہر برس 17 اور 18 نومبر کی درمیانی شب لیو کانسٹی لیشن کی جانب سے لیونائڈ می ٹیور شاور کا مشاہدہ کیا جاتا ہے ۔کیونکہ ان راتوں میں ہماری زمین دم دار ستارے ٹیمپل ٹر ٹل کے بیضوی مدار میں سے ہوتی ہوئی گزرتی ہے ۔ دم دار ستارہ ٹیمپل ٹر ٹل 1865میں دریافت ہوا تھا اور اس کا سورج کے گرد ایک چکر تینتیس سال میں مکمل ہوتا ہے سو لیونائڈ شاور اس حوالے سے منفرد ہے کہ فلکیات کے شائقین اتنے ہی برس بعد دوبارہ اس نظارے سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔ چونکہ یہ بارش لیو کانسٹی لیشن کی جانب سے ہوتی ہے اس لیئے اسے لیونائڈ می ٹیور شاور کا نام دیا گیا ہے۔ 2018 میں انہی راتوں میں لیونائڈ می ٹیور شاورچاند کی بھرپور روشنی ہونے کے باعث زیادہ واضح نہیں دیکھا جا سکا۔ ۔ اس رات فی گھنٹہ دس سے پندرہ می ٹیور گرتے ہوئے دکھائی دیئے ۔ اگرچہ پتھروں کے گرنے میں 17 نومبر کی رات شدت تھی مگر 18 نومبر کی رات انھیں زیادہ واضح نہیں دیکھا جاسکا۔

    جیمی نائڈ می ٹیور شاور: سنہ 2018 کی آخری می ٹیور شاور سے فلکیات کے شیدائی 14-13 دسمبر کی رات لطف اندوز ہو سکتے ہیں جسے جمینی کانسٹی لیشن کی مناسبت سے جیمی نائڈ شاور کا نام دیا گیا ہے۔ اسے علی الصبح تین سے چار بجے کے درمیان بہت واضح دیکھا جا سکے گا ۔ اس می ٹیور شاور کی سال کی بہترین بارش کہا جاتا ہے کیونکہ یہ نا صرف بہت واضح ہوتا ہے بلکہ پتھروں کی گرنے کی رفتار بھی زیادہ اور بہت تیز ہوتی ہے۔2018 میں ان کے گرنے کی رفتار مزید تیز ہوگی اور فی گھنٹہ 100 شہابیے گرنے کی توقع ہے۔ جن کو دیکھنے کا بہترین وقت آدھی رات ہے۔ دستیاب ریکارڈ کے مطابق جیمی نائڈ می ٹیور شاور قدیم زمانے سے مشاہدے کیے جارہے ہیں اور سب سے پہلے 1833 میں اسے دیکھ کر باقاعدہ ریکارڈ بھی جمع کیا گیا ۔ اور یہ مشاہدہ کیا گیا کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں پتھروں کے گرنے کی رفتار بڑھتی جارہی ہے کیونکہ مشتری کی گریویٹی ان چھوٹے چھوٹے اجسام کے منبع ایسٹی رائڈ 3200 فائی تھون کو کئی صدیوں سے آگے زمین کی طرف دکھیلتی رہی ہے۔ یہ ایسٹی رائڈ تقریبا 1 سال 4 ماہ میں سورج کے گرد اپنا چکر مکمل کرتا ہے۔

    لہذاٰ اگر آپ فلکیات میں دلچسپی رکھتے ہیں نومبر اور دسمبر کی راتوں میں آسمانی پتھروں اور چٹانوں کی بارش دیکھنے کے خواہش مند ہیں تو آپ کو اس کے لیے آبادی اور روشن علاقوں سے دور ایسے مقامات کا رخ کرنا ہوگا جہاں مصنوعی روشنی بالکل نہ ہو اور آپ با آسانی متعلقہ کانسٹی لیشن کی طرف رخ کر سکیں ۔می ٹیور شاوزر کا سادہ آنکھ سے بھی با آسانی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے اور اس کے لیے قطعا دور بین یا مخصوص فلکیاتی گلاسز کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ پاکستان میں ابھی بھی دو بار ٹیور شاورز کا با آسانی مشاہدہ کیا جاسکے گا۔ سو ابھی سے اپنے کیلنڈرز کو مارک کرلیں ۔

  • سعودی عرب کے آسمان پر نظر آنے والا آگ کا پراسرار گولا

    سعودی عرب کے آسمان پر نظر آنے والا آگ کا پراسرار گولا

    ریاض: سعودی عرب کے آسمان پر 12 اگست کی رات آگ کا بڑا شعلہ دکھائی دیا جو ہر سال اسی تاریخ کو دکھائی دیتا ہے۔

    العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق سعودی عرب میں ہر سال 12 اگست کی رات آسمان پر ایک عجیب وغریب شہابیہ رونما ہوتا ہے اور تیزی کے ساتھ آگ کے شعلے کی شکل میں تبدیل ہوتا ہے، واضح نظر آنے اس گولے کو بغیر کسی ٹیلی اسکوپ کے انسانی آنکھ سے بآسانی دیکھا جاتا ہے۔

    جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب سعودی عرب کے آسمان پر دیکھی جانے والی روشنی کے بارے میں ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ پہلی بار اس شہابِ ثاقب کو سال 1862 میں دیکھا گیا اور یہ آگ کے شعلے کی طرح نمودار ہوا۔

    ماہرین فلکیات نے سعودی عرب میں ہر سال 12 اگست کو آسمان پر نظر آنے والی روشنی کو مختلف نام دیے ہیں، بعض نے اسے ’البرسوشات‘ اور کچھ نے اسے ’دم دار ستارہ (سویفٹ ٹٹ)‘‘ کا نام بھی دیا ہے۔

    سعودی ماہر فلکیات خالد الزعاق نے العربیہ کو بتایا کہ ’’ہماری زمین سورج کے گرد تیرتی ہے اور بعض اوقات یہ بہت قریب بھی ہوجاتی ہے جس کے باعث سیارے اور ستاروں میں تصادم ہوتا ہے اور اس آسمان پر اس طرح کی روشنی نمودار ہوتی ہے جسے عام طور پر شہابِ ثاقب کہا جاتا ہے‘‘۔

    انہوں نے کہا کہ ’’کائنات میں اس طرح کے چھوٹے چھوٹے شہابِ ثاقب موجود ہے جو سسٹم میں بننے والے گیسی غبار اور کشش ثقل کی تیزرفتاری یا آکسیجن کی وجہ سے خود بہ خود جل اٹھتے ہیں اور پھر آسمان پر نظر آتے ہیں‘‘۔

    الزعاق نے مزید بتایا کہ مجموعی طور پر 150 مختلف النوع شہابیہ ہیں، ان میں سے ایک شہاب ثاقب سعودی عرب کے آسمان پر 20 ذی القعدہ کو چمکے گا تاہم مطلع ابرآلود ہونے کی وجہ سے شاید وہ عام انسانی آنکھ کو نہ دکھ سکے جبکہ پچھلے کچھ برس میں  یہ واضح طور پر دیکھا گیا ہے۔

  • سال کا پہلا چاند گرہن اورسورج گرہن رواں ماہ ہوگا

    سال کا پہلا چاند گرہن اورسورج گرہن رواں ماہ ہوگا

    کراچی : ماہرین فلکیات نے پیش گوئی کی ہے کہ 2017 کا پہلا چاندگرہن11 فروری جبکہ سورج گرہن 26 فروری کو ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق ماہرین فلکیات نے کہا ہے کہ ماہ فروری میں 2017 کا پہلا چاند گرہن اور پہلا سورج گرہن ہو گا، رواں سال کے دوران دو چاند گرہن اور دو سورج گرہن ہوں گے جبکہ چاند گرہن پاکستان میں دیکھا جاسکے گا۔

    moon-post-1

    ماہرین کے مطابق پہلا چاند گرہن 11 فروری کو 3 بج کر 34 منٹ پر شروع 7 بج کر 53 منٹ تک رہے گا۔ دوسراچاند گرہن 7 اور8 اگست کی درمیانی شب ہوگا، جبکہ 26 فروری کو سورج گرہن لگے گا۔

    مزید پڑھیں : پاکستان میں 70 سال بعد سپر مون کا نظارہ

    دوسرا سورج گرہن21 اگست کو ہوگا۔ ماہر فلکیات کے مطابق دونوں چاند گرہن پاکستان میں دیکھے جا سکیں گے جبکہ دونوں سورج گرہن پاکستان میں نظر نہیں آئیں گے۔

     moon-post-2