Tag: ماہرین

  • کرونا وائرس کچھ افراد کو کم اور کچھ کو شدید بیمار کیوں کرتا ہے؟

    کرونا وائرس کچھ افراد کو کم اور کچھ کو شدید بیمار کیوں کرتا ہے؟

    کرونا وائرس جسم کے تقریباً تمام اعضا کو متاثر کرتا ہے، کچھ افراد میں یہ اثرات بہت کم اور کچھ میں شدید ہوتے ہیں، ماہرین نے اس کی وجہ جاننے کی کوشش کی ہے۔

    امریکا کے ییل اسکول آف میڈیسن نے کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے افراد کے مدافعتی ردعمل کا جائزہ لیا، انہوں نے دیکھا کہ اس بیماری کو جلد شکست دینے والوں کے مقابلے میں زیادہ بیمار ہونے والے مریضوں کے مدافعتی ردعمل میں کیا مختلف ہوتا ہے۔

    اس مقصد کے لیے انہوں نے مریضوں کے خون کے خلیات کی جانچ پڑتال کی، انہوں نے ہر مریض سے خون کے خلیات کو وائرس کی پیشرفت کو 2 مختلف مراحل میں حاصل کیا۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ مدافعتی نظام کے 2 بنیادی پہلوؤں میں ربط کی کمی تھی۔

    مدافعتی نظام کا ایک پہلو وائرل انفیکشن کے خلاف پہلے دفاعی میکنزم کا کام کرتا ہے، جو برق رفتار ہوتا ہے جبکہ دوسرا ایسا خاص مدافعتی ردعمل ہوتا ہے جو مخصوص وائرس کو ہی ہدف بناتا ہے اور یہ زیادہ طاقتور دفاع فراہم کرتا ہے۔

    ان دونوں میں ربط کے نتیجے میں پہلے مرحلے میں ایسے مخصوص مدافعتی خلیات مونو سائٹس متحرک ہوتے ہیں جن کے دوسرے مرحلے کے مدافعتی ردعمل کے اینٹی جینز موجود ہوتے ہیں۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ کووڈ سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے افراد میں مونو سائٹس میں ٹی سیلز کے اینٹی جینز زیادہ مؤثر نہیں ہوتے بلکہ پھر بھی دوسرے مرحلے میں مدافعتی نظام بہت زیادہ متحرک ہوتا ہے۔

    اس کے بہت زیادہ متحرک ہونے سے ورم پھیلنے کا عمل حرکت میں آتا ہے جو جسم کے دیگر ٹشوز کو نقصان پہنچاتا ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ کووڈ سے بہت زیادہ بیمار افراد میں ٹائپ 1 انٹر فیرون نامی پروٹین کی زیادہ مقدار متاثرہ خلیات سے خارج ہوتی ہے جس سے بھی مدافعتی ردعمل کو نقصان پہنچتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ مونو سائٹس اور ٹی سیلز کے تعلق کو ہدف بنائے جانے کی ضرورت ہے جس سے کووڈ سے بہت زیادہ بیمار افراد کے علاج میں مدد مل سکے گی۔

    انہوں نے کہا کہ اگر سائنسدان مدافعتی ردعمل کے پہلے یا دوسرے پہلو کو بدلنے کے قابل ہوجائیں تو اس سے مریضوں کی حالت بہتر بنانے میں مدد مل سکے گی۔

  • کیا کرونا وائرس اور اس کی ویکسین ہمیشہ ساتھ رہے گی؟

    کیا کرونا وائرس اور اس کی ویکسین ہمیشہ ساتھ رہے گی؟

    ماہرین اس خدشے کا اظہار کر چکے ہیں کہ کرونا وائرس اور اس کی ویکسین معمول کی زندگی کا حصہ بن چکی ہے، تاہم اب کچھ ممالک کے حالیہ اقدام سے اس کو تقویت ملی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق اسرائیل میں کووڈ ویکسی نیشن کے 6 ماہ مکمل ہونے پر آزادانہ نقل و حرکت کے پاسز منسوخ کردیے گئے اور نئی ہدایات جاری کردی گئی۔

    اٹلی میں کرونا ویکسین کے ساتھ فلو ویکسین لگانے کی بھی منظوری دے دی گئی ہے، برطانوی تحقیق میں دونوں ویکسین ساتھ لگانے کو محفوظ قرار دیا گیا ہے۔

    دوسری جانب عالمی وبا کرونا وائرس کے علاج میں بڑی پیش رفت کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق طبی ماہرین نے ویکیسن کے بعد کرونا کے خلاف اینٹی وائرل دوا کے کلینکل ٹرائل میں بھی کامیابی حاصل کرلی ہے۔

  • سورج کی سطح پر دکھائی دینے والے سیاہ دھبوں کا اسرار کیا ہے؟

    سورج کی سطح پر دکھائی دینے والے سیاہ دھبوں کا اسرار کیا ہے؟

    ریاض: اتوار کی صبح سورج کی سطح پر 4 مختلف مقامات پر ایک ہی وقت میں مختلف سیاہ دھبے دکھائی دیے۔ یہ دھبے سعودی عرب سمیت متعدد ممالک میں نمایاں طور پر نظر آئے، جولائی کے بعد یہ اس نوعیت کا دوسرا فلکیاتی مظہر ہے۔

    جدہ میں فلکیاتی سوسائٹی کے صدر انجینیئر ماجد ابو زہرا کا کہنا ہے کہ سورج کے دھبوں کا اچانک ظہور پچیسویں نئے شمسی چکر کی طاقت کی علامت اور انتہائی گہری، کم سے کم حالت سے پچھلے چکر میں باہر نکلنا ہے۔

    ایسا لگتا ہے کہ یہ شمسی چکر شیڈول سے آگے جا رہا ہے۔ جیسا کہ توقع تھی کہ یہ سنہ 2025 میں عروج پر پہنچ جائے گا۔ سابقہ سائنسی نظریات بھی اسی کی تائید کرتے ہیں مگر شمسی چکر کی زیادہ سے زیادہ سرگرمی ایک سال پہلے بھی ہو سکتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ نیا شمسی چکر سنہ 2020 کے دوسرے نصف حصے میں شروع ہوا، پچھلے مہینوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ سورج پر سرگرمیوں میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔

    ایک خیال ہے کہ یہ گزشتہ چار چکروں کے دوران دیکھی جانے والی شمسی سرگرمی کی کمزوری کو توڑ دے گا اور اگر موجودہ رجحانات جاری رہے تو یہ 2024 میں عروج پر پہنچ سکتا ہے۔

    ابو زہرا کا کہنا تھا کہ اس سال سنہ 2021 کے بقیہ حصے میں اور اگلے سال 2022 کے دوران سورج کی جگہوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ کرنا شروع ہو جائے گا، پھر یہ معلوم ہو جائے گا کہ سولر سائیکل 25 پیش گوئیوں کے مطابق ہے یا مختلف ہے۔

    شمسی سائیکل اب بھی ایک ابھرتی ہوئی سائنس ہے اور اس کے حوالے سے اب بھی بہت سی غیر یقینی صورتحال ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ شمسی سائیکل کی سرگرمی کی پیش گوئی کرنے سے خلائی موسم کے طوفانوں کی تکرار کا اندازہ ہوتا ہے، ریڈیو میں خلل سے لے کر جغرافیائی طوفان اور شمسی تابکاری کے طوفان تک یہ پیش گوئیاں کئی اطراف سے استعمال ہوتی ہیں اور ان سے آنے والے سالوں میں خلائی موسم کے ممکنہ اثرات کا تعین کیا جاتا ہے۔

  • کراچی کے ساحل پر پھنسے جہاز کو نکالنے کے لیے سنگاپور سے ماہرین آئیں گے

    کراچی کے ساحل پر پھنسے جہاز کو نکالنے کے لیے سنگاپور سے ماہرین آئیں گے

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کے ساحل پر پھنسے جہاز کو نکالنے کے لیے سنگاپور سے ماہرین کی ٹیم آج کراچی پہنچے گی۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے ساحل سمندر پر پھنسے جہاز کو نکالنے کے لیے سنگاپور سے وی میکس مرین پرائیوٹ لمیٹڈ سے ماہرین کی ٹیم آج کراچی پہنچ رہی ہے، ماہرین کی ٹیم منگل کو یعنی آج متعلقہ جگہ کا دورہ کرے گی۔

    بین الاقوامی ٹیم کے ہمراہ کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) حکام بھی مذکورہ جگہ جائیں گے، کے پی ٹی حکام پھنسے ہوئے جہاز کو نکالنے کے حوالے سے اپنی رپورٹ دیں گے۔

    وزارت میری ٹائم نے جہاز نکالنے کے لیے 15 اگست کا وقت دیا ہے، واقعے کی ابتدائی رپورٹ بھی آج جاری کی جائے گی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ جہاز سے نکالے گئے عملے کے انٹرویوز کا کام بھی شروع کردیا گیا ہے، عملے کے جو ارکان جہاز سے تبدیل کیے گئے تھے سب کو بلا کر انٹرویو کیا جارہا ہے۔

    یاد رہے کہ ہانگ کانگ سے ترکی جانے والا جہاز 18 جولائی کو کراچی ہاربر پہنچا تھا، کے پی ٹی نے جہاز کو ہاربر پر لگنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ مذکورہ جہاز راں کمپنی کا ایک اور جہاز پہلے سے ہاربر پر موجود تھا۔

    کے پی ٹی ذرائع کے مطابق ہینگ ٹونگ کو دوسرے جہاز سے عملہ تبدیل کرنا تھا، کے پی ٹی نے عملے کی تبدیلی کا عمل کھلے سمندر میں کرنے کی ہدایت کی تاہم ہدایات کی خلاف ورزی کی گئی جس کے باعث جہاز تیز موجوں سے بہہ کر کلفٹن کے ساحل پر پھنس گیا تھا۔

  • کرونا وائرس کی ڈیلٹا قسم کس حد تک خطرناک ہے؟

    کرونا وائرس کی ڈیلٹا قسم کس حد تک خطرناک ہے؟

    ڈیلٹا ویرینٹ کرونا وائرس کی ایسی نئی قسم ہے کہ جو اس وقت 80 سے زیادہ ممالک تک پھیل چکی ہے البتہ یہ پہلی بار بھارت میں دریافت ہوا تھا اور عالمی ادارہ صحت نے اسے ڈیلٹا ویرینٹ کا نام دیا تھا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیلٹا ویرینٹ زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے کیونکہ اس میں اتنی تبدیلی آگئی ہے کہ یہ انسانی جسم کے خلیات کو زیادہ گرفت میں لے لیتا ہے۔

    یہی ڈیلٹا ویرینٹ تھا کہ جو بھارت میں وبا کی دوسری مہلک لہر کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے، جس میں کئی دنوں تک روزانہ 4 لاکھ مریض سامنے آتے رہے اور ہلاک افراد کی تعداد بھی 4 ہزار مریض روزانہ تک پہنچی۔

    اب یہ ویرینٹ دنیا بھر میں خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے اور گزشتہ ماہ عالمی ادارہ صحت نے اسے عالمی خدشے کا حامل ویرینٹ قرار دیا تھا۔ بھارت میں تو یہ ترقی پاتا ہوا ڈیلٹا پلس بن چکا ہے اور اس سے سخت خطرہ لاحق ہے۔

    برطانیہ میں اس وقت کرونا وائرس کے نئے متاثرین میں سے 90 فیصد ڈیلٹا ویرینٹ کے شکار ہیں جبکہ امریکا میں ایسے لوگوں کی تعداد 20 فیصد ہے۔ البتہ حکام کا کہنا ہے کہ امریکا میں بھی یہ سب سے نمایاں قسم بن سکتا ہے۔

    اس وقت تقریباً ہر امریکی ریاست میں ڈیلٹا ویرینٹ کے کیس موجود ہیں بلکہ ہر 5 میں سے ایک نیا کرونا وائرس کیس اسی ویرینٹ کا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب امریکا کی نصف آبادی کو ابھی ویکسین نہیں لگی، اس نئے ویرینٹ کی آمد کی وجہ سے حکام پریشان ہیں کہ آئندہ خزاں اور سردیوں میں مریضوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہو سکتا ہے۔

    جنوبی بھارت کے شہر ویلور میں کرسچن میڈیکل کالج میں وائرس پر تحقیق کرنے والے ڈاکٹر جیکب جان کہتے ہیں کہ فی الحال یہ واضح نہیں ہے کہ ڈیلٹا ویرینٹ سے لوگ زیادہ بیمار پڑ رہے ہیں یا نہیں، اس حوالے سے مزید ڈیٹا کی ضرورت ہے۔

    یہ ویرینٹ ویکسین کے خلاف مزاحمت تو رکھتا ہے لیکن پھر بھی ویکسین اس کے خلاف کافی حد تک مؤثر نظر آئی ہے۔ تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ دستیاب ویکسین ڈیلٹا ویرینٹ کے خلاف بھی کام کرتی ہے، جیسا کہ انگلینڈ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسٹرا زینیکا اور فائزر بائیو این ٹیک کی ویکسینز کے دونوں ٹیکے الفا ویرینٹ کے مقابلے میں ڈیلٹا ویرینٹ کے خلاف بھی کسی حد تک مؤثر ہیں۔

    اگر دونوں ٹیکے لگوا لیے جائیں تو کافی حد تک ڈیلٹا ویرینٹ سے بچا جا سکتا ہے، البتہ ایک ٹیکا لگوانے والوں میں یہ شرح ذرا کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ ویکسین لگوانے کا عمل مکمل کرنا ضروری ہے اور اسی لیے وہ دنیا بھر میں ویکسین کی دستیابی کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔

    لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ برطانیہ میں ڈیلٹا ویرینٹ سے اب تک جو اموات ہوئی ہیں، ان میں سے ایک تہائی سے زیادہ ایسے لوگ ہیں جنہیں ویکسین کے دونوں ٹیکے لگ چکے تھے اور اگر ایک ٹیکا لگوانے والوں کو دیکھا جائے تو مرنے والوں میں ان کی تعداد تقریباً دو تہائی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ڈیلٹا ویرینٹ کتنا خطرناک ہے اور ماہرین کی تمام تر توقعات کے باوجود ویکسین اس کے خلاف اتنی مؤثر نظر نہیں آتی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کوئی ویکسین 100 فیصد مؤثر نہیں، پبلک ہیلتھ انگلینڈ کے مطابق ویکسین لگوانے سے کووِڈ 19 سے اموات کے خطرے کو 95 فیصد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ البتہ اس کا انحصار عمر پر بھی ہے جیسا کہ صرف انگلینڈ میں ڈیلٹا ویرینٹ سے جن لوگوں کی اموات ہوئی ہیں ان میں سے ایک تہائی 50 سال سے زیادہ عمر کے ایسے افراد ہیں جنہوں نے ویکسین نہیں لگوائی تھی۔

  • ہمارے چہرے پر پلکیں اور بھنویں کیوں ہوتی ہیں؟

    ہمارے چہرے پر پلکیں اور بھنویں کیوں ہوتی ہیں؟

    کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ ہمارے چہرے پر بھنویں اور پلکیں کیوں ہوتی ہیں؟ ماہرین نے اب اس کا جواب ڈھونڈ لیا ہے۔

    بین الاقومی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں کی جانے والی ایک تحقیق میں ماہرین نے معلوم کیا کہ انسانوں کے چہروں پر بھنویں اور پلکوں کا مقصد آنکھوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔

    امریکن اکیڈمی آف آپٹمالوجی کی ترجمان ڈاکٹر اسٹیفنی ماریونیکوس نے بتایا کہ ان دونوں کا مقصد آنکھوں کی پتلیوں کو اضافی تحفظ فراہم کرنا ہے، یہ تحفظ کسی بھی چیز سے ہوسکتا ہے جیسے سیال یا پانی، کوئی ٹھوس چیز، مٹی، کیڑے یا کچھ اور۔

    بھنویں آنکھوں کو مختلف مواد جیسے پسینے، بالوں کی خشکی اور بارش سمیت ہر اس چیز سے تحفظ فراہم کرتی ہیں جو سر سے پھسل کر چہرے کے نیچے جاتی ہیں۔ بھنویں اس چیزوں کو پکڑلیتی ہیں یا سیال مواد کو جذب کرلیتی ہیں یا ان کا زاویہ بدل کر آنکھوں سے دور کردیتی ہیں۔

    اسی طرح بھنویں کچھ اور افعال میں بھی مددگار ہوتی ہیں جیسے چہرے کے تاثرات اور مخصوص جذبات کے اظہار کے لیے ان کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔

    سنہ 2018 کی ایک برطانوی تحقیق کے مطابق جیسے جیسے انسانی چہرہ ارتقائی مراحل سے گزر کر چھوٹا اور سپاٹ ہوا، تو یہ ایسا کینوس بن گیا، جس میں بھنویں مختلف النوع جذبات کا اظہار کرسکتی ہیں۔

    محقق پال او ہیگنس کا کہنا ہے کہ ہم نے بالادستی یا جارحیت کی جگہ مختلف النوع جذبات کے اظہار کو اپنالیا، جیسے جیسے چہرے چھوٹے ہوئے، پیشانی بڑی ہوتی گئی، چہرے کے مسل بھنوؤں کو اوپر نیچے حرکت دینے لگے اور ہم اپنے تمام لطیف جذبات کا اظہار ان کے ذریعے کرنے لگے۔

    اسی طرح پلکیں بھی آنکھوں کو اسی طرح کا تحفظ فراہم کرتی ہیں مگر ان کا طریقہ کار مختلف ہوتا ہے۔

    ڈاکٹر اسٹیفنی کے مطابق پلکیں لگ بھگ منہ پر مونچھوں کی طرح ہوتی ہیں، جو لمبی اور حساس ہوتی ہیں، جب ان کو کچھ چھوتا ہے تو آنکھیں بند ہونے کا ردعمل دفاعی میکنزم کے طور پر متحرک ہوتا ہے، پلکوں کے بغیر اس ردعمل کو متحرک ہونے زیادہ وقت لگتا۔

    انہوں نے بتایا کہ اگر پلکیں نہ ہوتیں تو جب تک کسی چیز کو آنکھوں کے اندر آتے نہیں دیکھتے تو یہ میکنزم متحرک نہیں ہوتا، جس سے انجری کا خطرہ بڑھتا، جبکہ پلکیں اس معاملے میں حساس ہیں جو برق رفتاری سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے میکنزم کو متحرک کرتی ہیں۔

    پلکیں سیال مواد، مٹی اور دیگر اشیا کو بھی پکڑ لیتی ہیں اور آنکھوں کی نمی کو برقرار رکھنے میں بھی مدد فراہم کرتی ہیں۔

  • آنکھوں کی جلن اور سر درد، کہیں اس کی وجہ آپ کا اسمارٹ فون تو نہیں؟

    آنکھوں کی جلن اور سر درد، کہیں اس کی وجہ آپ کا اسمارٹ فون تو نہیں؟

    اسمارٹ فون ہماری زندگی کا ایک اہم حصہ بن گیا ہے لیکن اس کے نقصانات بے تحاشہ ہیں، اس کا مسلسل استعمال آنکھوں کی جلن اور سر درد کا سبب بن سکتا ہے۔

    بین الاقومی ویب سائٹ کے مطابق ایک تحقیق میں کہا گیا کہ اسمارٹ فون کا زیادہ استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔

    ماہرین نے اس حوالے سے چند خطرات کی طرف اشارہ کیا ہے۔

    سردرد

    اسمارٹ فون کا زیادہ استعمال سر درد کی وجہ بھی بن سکتا ہے، اس کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں، جیسے موبائل سے نقصان دہ شعاعوں کا اخراج اور فون کی تیز لائٹ کے ساتھ آنکھوں کو آرام دیے بغیر موبائل کا مسلسل استعمال کرنا۔

    گھریلو حادثات

    ایسے بہت سے گھریلو حادثات ہوتے ہیں جو فون کو مسلسل دیکھنے کی وجہ سے ہوتے ہیں جیسے کچھ افراد نے خود پر گرم پانی ڈال لیا، فون کا استعمال کرتے ہوئے بعض نے اپنے بچوں کو نظرانداز کیا اور وہ زخمی ہوگئے۔ بعض نے کچھ تیز اوزاروں کا غلط استعمال کیا اور نقصان ہوگیا۔

    آنکھوں میں جلن

    کچھ چینی ڈاکٹروں نے انکشاف کیا ہے کہ اسمارٹ فون کو طویل وقت تک دیکھنا آنکھوں میں جلن کا سبب بن سکتا ہے، جس کا فوری علاج نہ کیا جائے تو وہ بینائی کی کمزوری کا باعث بن سکتا ہے۔

    بچوں میں تنہائی کا احساس

    اس بات کا کوئی حتمی ثبوت نہیں ہے کہ موبائل فون کے استعال سے بچوں میں تنہائی کی بیماری پیدا ہوتی ہے البتہ اتنا ضرور ہے کہ اس سے بچوں میں تنہائی کی علامات پیدا ہوسکتی ہیں۔

    خاص طور پر اگر بچہ ہمیشہ الگ تھلگ رہتا ہو اور کسی معاشرتی یا اجتماعی کام میں شریک نہ ہوتا ہو، یا اس کا سلوک منفی ہو جیسے ضدی ہونا، چھوٹے بچوں کو مارنا اور بڑوں کی بات نہ ماننا وغیرہ۔

    افسردگی

    آمنے سامنے بات چیت کی عدم موجودگی اور ورچوئل لائف کی وجہ سے ہر ایک دنیا سے الگ تھلگ ہوگیا ہے، لہٰذا جب آپ کو کوئی میسج نہیں کرتا یا آپ کی پوسٹ پر تبصرہ نہیں کرتا تو آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو پسند نہیں کیا جا رہا، یوں فون نے حقیقی لوگوں کے ساتھ آپ کی بات چیت کی مہارت کو متاثر کیا ہے۔

    کام پر اثر انداز ہونا

    بہت سے لوگوں کو شکایت ہے کہ فون سے ان کی زندگی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ جب وہ سات بجے سونے کا ارادہ کرتے ہیں تو 12 یا 1 بجے سوتے ہیں کیونکہ وہ بستر پر رہتے ہوئے فون کا استعمال کرتے رہتے ہیں جس سے ان کے روز مرہ کے معمولات پر اثر پڑتا ہے۔

    اسی طرح بہت سے لوگوں نے یہ بھی شکایت کی ہے کہ وہ اپنا کام ختم کرنے کا ارادہ کرتے ہیں لیکن اس کے بعد کوئی کلپ یا میسج انہیں اپنی طرف متوجہ کرلیتا ہے جس کے بعد وہ دوبارہ مصروف ہو جاتے ہیں۔

    ماہرین کی تجویز ہے کہ اسمارٹ فون زندگی کا اہم حصہ بن گیا ہے لہٰذا اس کا استعمال ختم تو نہیں کیا جاسکتا لیکن کم سے کم کردیا جائے۔

  • ختم ہوجانے والا پلاسٹک تیار

    ختم ہوجانے والا پلاسٹک تیار

    پلاسٹک ہماری زمین کو آلودہ کرنے والی سب سے بڑی وجہ ہے جس کا سبب اس کا تلف یا ضائع نہ ہونا ہے، اب ماہرین نے ایسی پلاسٹک تیار کرلی ہے جو چند روز میں گھل کر ختم ہوسکتی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق سائنسدانوں نے طویل تحقیق و تجربے کے بعد بالآخر ایسے پلاسٹک کی تیاری میں کامیابی حاصل کرلی ہے جو صرف گرمی اور پانی کی موجودگی میں چند ہفتوں کے دوران ختم ہو جاتا ہے۔

    سائنسدانوں کا تیار کردہ پلاسٹک اس لیے کامیاب قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ انہوں نے ناکارہ اور خراب ہوجانے والے پلاسٹک کے اندر ہی وہ جراثیم داخل کیے ہیں جو استعمال کے بعد اسے کھا کر ختم کردیتے ہیں۔

    سائنسدانوں کے مطابق دنیا میں اب تک استعمال ہونے والے روایتی پلاسٹک کے ساتھ مسئلہ یہ ہوتا تھا کہ اس میں موجود مضبوط ریشوں کے باعث باہر سے جراثیم حملہ کر کے ختم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے جس کی وجہ سے ایک دفعہ بننے والا پلاسٹک ہمیشہ کے لیے اپنی جگہ برقرار رہتا تھا اور ماحولیاتی آلودگی کا سب سے بڑا سبب بنتا تھا۔

    سائنسدانوں کے مطابق جس طرح دیگر چیزوں کو مٹی میں ملنے کے بعد جراثیم کھا کر ختم کردیتے ہیں بالکل اسی طرح تیار کیے جانے والے پلاسٹک کو صرف گرمی اور پانی کی موجودگی چند ہفتوں کے اندر ختم کردے گی۔

    اس ضمن میں کیے جانے والے تجربے میں یہ بات ثابت ہوئی کہ تیار کردہ پلاسٹک کا ٹکڑا 40 ڈگری سینٹی گریڈ پر پانی میں دو دن کے اندر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا۔

    ماہرین نے تیار کردہ پلاسٹک کے متعلق دعویٰ کیا ہے کہ اس پلاسٹک کو جرثومے بالکل اسی طرح سے کھا جائیں گے جس طرح وہ کھاد میں پائے جانے والے جرثوموں کو کھا کر ختم کردیتے ہیں۔

    سائنسدانوں کی ساری محنت کا واحد مقصد استعمال شدہ پلاسٹک سے پیدا ہونے والے مسئلے کا مستقل اور صاف ستھرا حل ہے تاکہ ماحولیاتی آلودگی پیدا نہ ہو۔

    فی زمانہ استعمال ہونے والا پلاسٹک عام استعمال کے لیے اچھا ہے اور ان کو اس طرح تیار کیا جاتا ہے کہ وہ ٹوٹ نہ جائیں لیکن بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بعد از استعمال انہیں محفوظ طریقے سے ضائع کرنا ایک بہت بڑ ا مسئلہ ہوتا ہے جس نے پوری دنیا کو متاثر کیا ہوا ہے۔

    ماہرین نے اسی مسئلے کا حل یہ نکالا ہے کہ انہوں نے پلاسٹک کی تیاری کے دوران ہی جرثوموں کو اندر داخل کردیا ہے جبکہ روایتی طور پر تیار کیے جانے والے پلاسٹک میں ایسا ممکن نہیں تھا اور باہر سے جرثوموں کا اندر داخل ہونا بھی ممکن نہیں تھا۔

  • کیا کینسر کی ویکسین بنا لی گئی؟

    کیا کینسر کی ویکسین بنا لی گئی؟

    مختلف اقسام کے کینسر دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو اپنا شکار بناتے ہیں جبکہ اس کی وجہ سے لاکھوں افراد موت کے منہ چلے جاتے ہیں، تاہم اب ماہرین نے اس کی ویکسین بنانے میں کسی حد تک کامیابی حاصل کرلی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کینسر کی روک تھام کے لیے ایک ویکسین کا ابتدائی ٹرائل کامیاب ثابت ہوا ہے، اس ویکسین پی جی وی 001 کے کلینیکل ٹرائل کے پہلے مرحلے میں 13 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جو ٹھوس رسولی کا شکار تھے۔

    ٹرائل کے اختتام پر 4 مریضوں میں بیماری کے آثار ختم ہوگئے تھے اور انہیں مزید کوئی اور تھراپی بھی نہیں دی گئی جبکہ 4 ایسے مریض تھے جو زندہ تھے مگر انہیں تھراپی دی جارہی تھی جبکہ 3 افراد ہلاک ہوگئے۔

    امریکا کے ماؤنٹ سینائی اسپتال کے محققین نے ٹرائل کے نتائج امریکن ایسوسی ایشن فار کینسر ریسرچ کے سالانہ اجلاس میں پیش کیے۔

    ماہرین نے بتایا کہ اگرچہ کینسر کے علاج میں کافی پیشرفت ہوچکی ہے مگر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ بیشتر مریض ٹھوس کلینیکل ردعمل کے حصول میں ناکام رہتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ پرسنلائزڈ ویکسینز سے مریضوں کے مدافعتی ردعمل کو بہتر بنانے میں مدد مل سکے گی۔ اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے ان ماہرین نے پی جی وی 001 نامی ویکسین کو تیار کیا جو ایک قسم کے امینو ایسڈ پر مشتمل ہے، جو مریضوں کو ابتدائی علاج کے ساتھ دی گئی۔

    جن 13 مریضوں کو ویکسینز دی گئی ان میں سے 6 میں سر اور گلے کے کینسر کی تشخیص ہوئی جبکہ 3 میں خون کے سفید خلیات، 2 میں پھیپھڑوں، ایک میں بریسٹ اور ایک میں مثانے کے کینسر کی تشخیص ہوئی تھی۔

    11 مریضوں کو ویکسین کی 10 خوراکیں دی گئیں جبکہ 2 مریضوں کو کم از کم 8 خوراکیں استعمال کرائی گئیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ ویکسین سے صرف 50 فیصد مریضوں کو معمولی مضر اثرات کا سامنا ہوا، یعنی 4 میں انجیکشن کے مقام پر الرجی ری ایکشن ہوا جبکہ ایک فرد کو ہلکا بخار ہوگیا۔

    ان افراد میں ویکسین کے اثرات کا تجزیہ اوسطاً 880 دنوں تک کیا گیا جس دوران 4 مریضوں میں کینسر کے شواہد ختم ہوگئے اور انہیں مزید تھراپی کی ضرورت نہیں رہی۔

    ان میں سے ایک مریض پھیپھڑوں کے اسٹیج 3 کینسر کا مریض تھا، ایک میں بریسٹ کینسر کی چوتھی اسٹیج جبکہ ایک مثانے کے اسٹیج 2 کینسر اور ایک خون کے کینسر کا مریض تھا۔

    ٹرائل میں شامل 4 مریض اب بھی زندہ ہیں اور مختلف اقسام کی تھراپی کے عمل سے گزر رہے ہیں، جبکہ 3 کا انتقال ہوگیا، جن میں سے 2 میں کینسر پھر لوٹ آیا تھا۔

    ماہرین نے بتایا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ اوپن ویکس پائپ لائن ایک محفوظ اور پرسنلائز ویکسین کی تیاری کے لیے ایک اچھی حکمت عملی ہے، جس کو مختلف اقسام کی رسولیوں کے علاج کے لیے استعمال کیا جاسکے گا۔

  • دانتوں سے محروم افراد کے لیے علاج دریافت

    دانتوں سے محروم افراد کے لیے علاج دریافت

    دنیا بھر میں لاکھوں لوگ دانتوں کی تکلیف کا شکار ہیں اور کئی ایسے بھی ہیں جو نقلی دانت استعمال کرتے ہیں جنہیں ڈینچرز یا بتیسی کہا جاتا ہے، تاہم اب ماہرین نے ممکنہ طور پر دانتوں سے محرومی کا علاج دریافت کرلیا ہے۔

    جاپان کی کیوٹو یونیورسٹی کے ماہرین نے ایسی ٹریٹ منٹ ایجاد کی ہے جس سے دانت دوبارہ نکل سکتے ہیں۔

    اس تحقیق کے نتائج سائنس ایڈوانس نامی جریدے میں شائع ہوئے، تحقیق کے مطابق ماہرین نے ایک ایسے جین پر کام کیا ہے جو دانتوں کی نشونما کا ذمہ دار ہے۔

    اس جین کو فعال کرنے کے لیے ایک اینٹی باڈی دی جاتی ہے جس کے بعد دانت دوبارہ سے نکلنے لگتے ہیں۔

    ماہرین نے اس ٹریٹ منٹ کی آزمائش چوہوں پر کی جن کے ٹوٹے ہوئے دانت دوبارہ سے نکل آئے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ چوہوں کے دانتوں کی ساخت انسانی دانتوں کی ساخت سے ملتی جلتی ہے۔ اب اگلے مرحلے میں وہ اس کا تجربہ کتوں اور سؤر پر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔