Tag: ماہرین

  • کیا 5 جی انسانی صحت کے لیے خطرناک ہے؟ اہم ترین تحقیق

    کیا 5 جی انسانی صحت کے لیے خطرناک ہے؟ اہم ترین تحقیق

    کرونا وائرس کی وبا کے دوران یہ افواہیں گردش کرتی رہیں کہ 5 جی کے ریڈیو سگنلز کرونا وائرس پھیلانے کا کام کر رہے ہیں، جس کے بعد لوگوں نے 5 جی کے ٹاورز پر حملہ بھی کیا، لیکن اب ماہرین نے اس حوالے سے اہم تحقیق پیش کردی ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق آسٹریلین ریڈی ایشن پروٹیکشن اینڈ نیوکلیئر سیفٹی ایجنسی (اے آر پی اے این ایس اے) نے سوائن برنی یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے ساتھ مل کر 5 جی ریڈیو لہروں کے حوالے سے ہونے والی 138 تحقیقی رپورٹس کا تجزیہ کیا گیا۔

    اس ٹیم نے تحفظ کے حوالے سے ہونے والی مزید 107 تحقیقی رپورٹس کا بھی تجزیہ کیا، دونوں تجزیوں میں دیکھا گیا کہ 5 جی اور اس سے ملتی جلتی ریڈیو لہروں کے خلیات پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

    ماہرین نے دریافت کیا کہ 5 جی لہروں سے صحت یا خلیات پر کوئی بھی مضر اثرات مرتب نہیں ہوتے۔

    اے آر پی اے این ایس اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر کین کریپیڈس نے بتایا کہ ایک تجزیے کے نتائج میں ایسے کوئی شواہد نہیں مل سکے جن سے عندیہ ملتا ہو کہ کم سطح کی ریڈیائی لہریں جیسی 5 جی نیٹ ورک میں استعمال ہوتی ہیں، انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ جن تحقیقی رپورٹس میں حیاتیاتی اثرات کو رپورٹ کیا گیا ہے، ان میں سے بیشتر میں لہروں کے اثرات جانچنے کے غیر معیاری طریقہ کار کو استعمال کیا گیا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ 5 جی اثرات کی مانیٹرنگ کے لیے طویل المعیاد تحقیق پر کام ہونا چاہیئے، جس کے لیے تمام تر سائنسی پیشرفت کو استعمال کیا جائے، مگر اب تک ایسے کوئی شواہد سامنے نہیں آئے جو 5 جی سے جڑے مضحکہ خیز دعوؤں کی حمایت کرتے ہوں۔

    ڈاکٹر کین نے کہا کہ ہمارا مشورہ ہے کہ مستقبل میں تجرباتی تحقیقی رپورٹس میں مخصوص امور پر زیادہ توجہ دینی چاہیئے جبکہ آبادی پر طویل المعیاد طبی اثرات کی مانیٹرنگ جاری رکھی جانی چاہیئے۔

  • کرونا وائرس کی نئی اقسام سے ماہرین پریشان

    کرونا وائرس کی نئی اقسام سے ماہرین پریشان

    کرونا وائرس کو دنیا کو اپنا شکار بنائے ایک سال سے زیادہ ہوچکا ہے اور اس کی ویکسین بھی تیار کی جاچکی ہے، تاہم اب اس کی نئی اقسام بھی سامنے آرہی ہیں جنہوں نے ماہرین کو پریشان کر رکھا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق کرونا وائرس کی کم از کم 4 نئی اقسام نے سائنسدانوں کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے، ان میں سے ایک تو وہ ہے جو سب سے پہلے جنوب مشرقی برطانیہ میں سامنے ٓئی اور اب تک کم از کم 50 ممالک میں پہنچ چکی ہے۔

    یہ قسم بظاہر پرانی اقسام کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت سے لیس نظر آتی ہے، 2 اقسام جنوبی افریقہ اور برازیل میں نمودار ہوئیں جو وہاں سے باہر کم پھیلی ہیں مگر ان میں آنے والی میوٹیشنز نے سائنسدانوں کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی ہے۔

    ایک اور نئی قسم امریکی ریاست کیلی فورنیا میں دریافت ہوئی ہے جس کے بارے میں بہت زیادہ معلومات ابھی حاصل نہیں۔ اب تک سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ یہ نئی اقسام بیماری کی شدت کو بڑھا نہیں سکیں گی جبکہ ویکسین کی افادیت بھی متاثر نہیں ہوگی۔

    بی 1.1.7

    سائنسدانوں کی توجہ سب سے زیادہ بی 1.1.7 پر مرکوز ہے جو سب سے پہلے برطانیہ میں دریافت ہوئی تھی۔ امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن نے حال ہی میں خبردار کیا گیا تھا کہ اس نئی قسم کا پھیلاؤ وبا کو بدترین بناسکتا ہے۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اب تک جو معلوم ہوا ہے وہ یہ ہے کہ انسانی مدافعتی نظام نئی اقسام کو ہینڈل کرسکتا ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہ بیماری کی شدت میں اضافے یا کمی کا باعث نہیں، یہ اسپتال میں زیر علاج افراد کی تعداد یا اموات میں بھی تبدیلی نہیں لاتی، اب تک ہم نے جو جانا ہے وہ یہ ہے کہ اس کا پھیلاؤ بالکل پرانی اقسام کی طرح ہے۔

    جو اقدامات اس وبا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے کیے گئے ہیں وہ نئی اقسام کی روک تھام میں بھی مددگار ہوں گے، جیسے فیس ماسک کا استعمال، سماجی دوری، ہجوم میں جانے سے گریز اور اکثر ہاتھ دھونا۔

    بی 1.3.5.1

    جنوبی افریقہ میں کرونا وائرس کی نئی قسم کو بی 1.3.5.1 یا 501Y.V2 کا نام دیا گیا ہے، جس میں میوٹیشنز برطانوی قسم سے مختلف ہیں، جس کی وجہ سے اسپائیک پروٹین کی ساخت میں زیادہ تبدیلیاں آئی ہیں۔

    ایک اہم میوٹیشن E484K سے ریسیپٹر کو جکڑنے کی صلاحیت بہتر ہوئی ہے جو کہ وائرس کو خلیات میں داخل ہونے میں مدد دینے والا اہم ترین حصہ ہے۔

    اس سے وائرس کو جزوی طور پر ویکسینز کے اثرات سے بچنے میں بھی مدد مل سکتی ہے تاہم ابھی اس حوالے سے شواہد سامنے نہیں آئے ہیں۔

    ویکسینز تیار کرنے والی کمپنیاں اور محققین کی جانب سے اس قسم کے نمونوں پر آزمائش کی جارہی ہے، تاکہ دیکھا جاسکے کہ کیا واقعی یہ قسم ویکسین کے مدافعتی ردعمل کے خلاف مزاحمت کرسکتی ہے یا نہیں۔

    پی 1 اور پی 2

    یہ دونوں اقسام سب سے پہلے برازیل میں نمودار ہوئی تھیں، جن میں سے پی 1 قسم کو ایک سروے میں برازیل کے شہر میناوس میں 42 فیصد کیسز میں دریافت کیا گیا اور جاپان میں بھی برازیل سے آنے والے 4 مسافروں میں اسے دیکھا گیا۔

    سی ڈی سی کے مطابق یہ نئی قسم کرونا وائرس سے بیمار ہونے والے افراد کو دوبارہ بیمار کرنے یا تیزی سے پھیلنے کی ممکنہ صلاحیت رکھتی ہے۔ اس قسم میں بھی E484K میوٹیشن کو دیکھا گیا ہے۔

    پی 2 بھی سب سے پہلے برازیل میں نظر آئی اور جنوری میں اسے 11 افراد میں دریافت کیا گیا۔

    ایل 425 آر

    یہ نئی قسم امریکی ریاست کیلی فورنیا میں نمودار ہوئی ہے جس کے بارے میں ابھی تحقیقی کام کیا جارہا ہے۔ تاہم اب تک عندیہ ملتا ہے کہ اس کے اسپائیک پروٹین میں میوٹیشن ہوئی ہے تاہم ابھی واضح نہیں کہ یہ زیادہ آسانی سے پھیل سکتی ہے یا نہیں۔

    ایک تحقیق میں لاس اینجلس کی تحقیقی ٹیم نے نومبر کے آخر اور دسمبر میں 192 مریضوں میں سے 36 فیصد میں اس نئی قسم کو دریافت کیا، جبکہ جنوبی کیلی فورنیا میں یہ شرح 24 فیصد تھی۔

  • کرونا وائرس کے دیرپا اثرات نے ماہرین کو پریشان کردیا

    کرونا وائرس کے دیرپا اثرات نے ماہرین کو پریشان کردیا

    کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے کی شرح 97 فیصد سے زائد ہے تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے دیرپا اثرات آہستہ آہستہ سامنے آرہے ہیں جو نہایت ہی تشویشناک ہیں۔

    امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق کے مطابق کوویڈ 19 بیماری کو شکست دینے والے افراد کو کئی ماہ بعد بھی طبی اور مالی مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔ یہ تحقیق طبی جریدے جرنل اینالز آف انٹرنل میڈیسن میں شائع ہوئی۔

    مشی گن یونیورسٹی ہیلتھ سسٹم کی اس تحقیق میں کووڈ 19 کے ایسے 488 مریضوں کا جائزہ لیا گیا، جو مشی گن کے اسپتالوں میں زیر علاج رہنے کے بعد ڈسچارج ہو چکے تھے۔

    16 مارچ سے یکم جولائی کے دوران اسپتال سے ڈسچارج ہونے والے ان افراد کا جائزہ 2 ماہ بعد لیا گیا۔

    تحقیق کے مطابق ایک تہائی افراد نے طبی مسائل جیسے کھانسی کے ساتھ نئے یا پہلے سے بدتر علامات اور سونگھنے یا چکھنے کی حس سے مسلسل محرومی کو رپورٹ کیا۔

    لگ بھگ 50 فیصد مریضوں کا کہنا تھا کہ وہ اس بیماری کے باعث جذباتی طور پر متاثر ہوئے جبکہ 28 فیصد نے ذہنی صحت کے مراکز کے لیے رجوع کیا۔

    36 فیصد نے اسپتال میں زیر علاج رہنے پر معمولی مالی مشکلات کو رپورٹ کیا جبکہ 40 فیصد اپنی ملازمتوں سے فارغ یا اتنے کمزور ہوگئے کہ کام پر واپس نہیں جا سکے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ اس بیماری کو شکست دینے والے بیشتر افراد کے لیے معمول کی سرگرمیاں بحال کرنے کی صلاحیت جسمانی اور جذباتی علامات کے باعث کمزور ہوجاتی ہے جبکہ مالی نقصانات بھی عام ہیں۔

    اس طرح کی مختلف تحقیقی رپورٹس حالیہ مہینوں کے دوران سامنے آئی ہے اور ایسے مریضوں کی علامات کو لانگ کوویڈ کا نام دیا گیا ہے۔

  • ‘کرونا سے بھی زیادہ خطرناک وبا’ سے متعلق ماہرین نے خبردار کر دیا

    ‘کرونا سے بھی زیادہ خطرناک وبا’ سے متعلق ماہرین نے خبردار کر دیا

    جنیوا: کرونا وائرس سے بھی زیادہ خطرناک وبا سے متعلق عالمی ادارہ صحت کے ماہرین نے خبردار کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی ادارہ صحت کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ کرونا کا سامنا کرنے کے باوجود ہم مجموعی طور پر کسی بھی اگلی عالمی وبا کے لیے بالکل تیار نہیں اور یہ بات اگلی کسی بھی وبا کو زیادہ خطرناک بنا سکتی ہے۔

    گلوبل پریپیئر ڈنیس مانیٹرنگ بورڈ (جی پی ایم بی) کی رپورٹ میں کرونا کے پھیلاؤ روکنے کے لیے پوری دنیا میں کیے جانے والے اقدامات کو ناکافی اور غیر تسلی بخش قرار دیا گیا ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ماہرین نے ابتدائی دنوں میں خبردار کیا تھا کہ کرونا وائرس کی بیماری بہت جلد عالمی وبا بن سکتی ہے لیکن اس کے باوجود بیشتر ملکوں نے اس تنبیہ کو نظر انداز کیے رکھا یہاں تک کہ ان ملکوں میں کرونا کا پھیلاؤ قابو سے باہر ہوگیا۔

    ماہرین نے کہا کہ اگر یہی رویہ رہا تو اگلی کوئی بھی عالمی وبا کرونا کے مقابلے میں زیادہ خطرناک اور جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے۔

    واضح رہے کہ گلوبل پریپیئر ڈنیس مانیٹرنگ بورڈ (جی پی ایم بی) عالمی ادارہ صحت کے ماتحت ادارہ ہے۔اس ادارے کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ کا عنوان اے ورلڈ ان ڈس آرڈر ( بے ترتیب دنیا) ہے۔ یہ اپنی نوعیت کی دوسری رپورٹ ہے جبکہ اس سلسلے کی پہلی رپورٹ گزشتہ سال منظر عام پر آئی تھی۔

  • کیا کرونا وائرس ویکسین سے بھی کوئی خطرہ ہوسکتا ہے؟ ویکسین بنانے والے ماہرین خود ہی پریشان

    کیا کرونا وائرس ویکسین سے بھی کوئی خطرہ ہوسکتا ہے؟ ویکسین بنانے والے ماہرین خود ہی پریشان

    لندن: ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ کرونا وائرس ویکسین بنانے کی دوڑ کرونا وائرس کو مزید پھیلا سکتی ہے، ماہرین نے تیار ہونے والی ویکسین اور کم یا غیر مؤثر دواؤں کے بارے میں بھی خدشات ظاہر کیے ہیں۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ عالمی سطح پر کرونا وائرس ویکسین بنانے کی دوڑ کی وجہ سے کرونا وائرس کے مزید پھیلاؤ کا خدشہ ہے۔

    یہ وارننگ آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کی جانب سے سامنے آئی ہے کہ کوویڈ 19 کے علاج کے لیے ویکسین بنانے کی دوڑ کی وجہ سے یہ وبا مزید پھیل سکتی ہے۔

    دوسری جانب عالمی ادارہ صحت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ تیاری کے دوران اگر حکام نے ویکسین کی جانچ کرنے میں غلطی کی تو کوئی بھی کم مؤثر دوا درحقیقت کوویڈ 19 وبا کی صورتحال کو مزید خراب کردے گی۔

    ماہرین کے مطابق کوئی بھی غیر مؤثر دوا ان مریضوں کی حالت خراب کرسکتی ہے جو بغیر دوا کے صحتیاب ہوسکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مریضوں پر استعمال سے قبل ویکسین کا علاج کے مشاہدے میں کم از کم 50 فیصد درست ہونا ضروری ہے۔

    ادھر آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہرِ وبائیات پروفیسر سر رچرڈ پیٹو کا کہنا تھا کہ ویکسین کے استعمال کی منظوری مستقبل میں دیگر ادویات کے لیے ایک خراب معیار ترتیب دے سکتی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اس وقت ویکسین کی ضرورت ہے، تاہم بہتر اور درستی کے ساتھ یہ ویکسین جلد آجائے گی۔

  • 20 منٹ میں کرونا وائرس کی تشخیص کرنے والا ٹیسٹ

    20 منٹ میں کرونا وائرس کی تشخیص کرنے والا ٹیسٹ

    میلبرن: آسٹریلوی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ وہ خون کے نمونوں سے صرف 20 منٹ میں کرونا وائرس کی تشخیص کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

    میلبرن کی موناش یونیورسٹی کے ماہرین نے ایک بلڈ ٹیسٹ تیار کیا ہے اور انہیں توقع ہے کہ اس دریافت سے عالمی سطح پر کووڈ 19 کے پھیلاؤ کو کم کرنے میں مدد مل سکے گی۔

    ان کا کہنا تھا کہ وہ خون کے نمونوں میں سے 20 مائیکرو لیٹرز پلازما سے کووڈ 19 کے کیسز کی تشخیص کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

    اس تحقیق میں ماہرین نے ایسا سادہ خون کا ٹیسٹ تیار کیا جو خون میں کرونا وائرس کی بیماری کے ردعمل میں بننے والی اینٹی باڈیز کی موجودگی کی شناخت کرسکتا ہے۔

    محققین کے مطابق کرونا وائرس کے نتیجے میں جسم میں خون کے سرخ خلیات کا ایک اجتماع بن جاتا ہے جو خالی آنکھ سے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہ ٹیسٹ ممکنہ طور پر کلینیکل ٹرائلز میں ویکسی نیشن کے عمل سے گزرنے والے افراد میں اینٹی باڈیز کی سطح کو جانچنے کے لیے بھی استعمال ہوسکے گا۔

    ماہرین کے مطابق اس ٹیسٹ کی بدولت ایک سادہ لیبارٹری سیٹ اپ کے ذریعے صرف ایک گھنٹے میں 200 خون کے نمونوں کا ٹیسٹ کیا جاسکے گا، جبکہ جدید ترین آلات سے لیس اسپتالوں میں ہر گھنٹے 700 سے زائد خون کے نمونوں کی تشخیص ہوسکے گی۔

  • کیا ہماری زمین جامنی رنگ کی تھی؟

    کیا ہماری زمین جامنی رنگ کی تھی؟

    ہماری زمین جو اس وقت سبز نظر آتی ہے، کیا آپ کو علم ہے کہ پرانے وقتوں میں جامنی ہوا کرتی تھی؟

    اگر آپ زمین کی تصاویر دیکھیں تو آپ زمین پر ایک نیلا رنگ غالب دیکھیں گے جبکہ کہیں کہیں سبز رنگ بھی دکھائی دے گا۔ نیلا رنگ سمندر کا جبکہ سبز رنگ زمین پر اگی نباتات کا ہے۔

    تاہم سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ کروڑوں سال قبل زمین میں سبز کی جگہ جامنی رنگ ہوا کرتا تھا۔

    امریکی ریاست میری لینڈ کی یونیورسٹی اور اسپیس ٹیلی اسکوپ سائنس انسٹی ٹیوٹ کے ماہرین کا قیاس ہے کہ لگ بھگ 40 کروڑ سال قبل پودوں میں کلوروفل سبز کی جگہ جامنی رنگ کو منعکس کرتا تھا جس کی وجہ سے زمین کا ایک بڑا حصہ جامنی دکھائی دیتا تھا۔

    خیال رہے کہ کلوروفل وہ مادہ ہے جو پتوں کے اندر موجود ہوتا ہے اور سورج کی روشنی سے پودے کے لیے غذا بناتا ہے، اس عمل (فوٹو سینتھسس) کے دوران سبز رنگ بھی پیدا ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق کلوروفل سورج کی شعاعوں سے نیلا اور سرخ رنگ لے کر سبز رنگ منعکس کرتا ہے۔

    تصویر: ناسا

    اسپیس ٹیلی اسکوپ سائنس انسٹی ٹیوٹ کے پروفیسر ولیم اسپارکس کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ فوٹو سینتھسس کا عمل کلوروفل کے اندر موجود جامنی رنگ کی جھلی کے نیچے انجام پاتا ہو۔

    ان کے مطابق ممکن ہے یہ جامنی جھلی سبز رنگ کو جذب کرلیتی ہو اور کلوروفل صرف جامنی رنگ کو منعکس کرسکتا ہو۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ فوٹو سینتھسس کے دوران جامنی رنگ پیدا کرنے کا عمل، سبز رنگ پیدا کرنے کے مقابلے میں نسبتاً کم پیچیدہ ہے اور اس کے لیے کم آکسیجن درکار ہے۔

    ماہرین کے مطابق زمین کا جامنی ہونا صرف ایک مفروضہ بھی ہوسکتا ہے تاہم یہ مفروضہ زمین کے قدیم ادوار کے بارے میں اب تک کی تحقیقوں سے مماثلت رکھتا ہے۔

  • بچوں میں کرونا کی علامات کیا ہوتی ہیں؟ ماہرین نے بتا دیا

    بچوں میں کرونا کی علامات کیا ہوتی ہیں؟ ماہرین نے بتا دیا

    لندن: برطانیہ میں ماہرین نے بچوں میں کروناوائرس اور ان میں علامات سے متعلق والدین کو آگاہ کیا۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق بچوں میں کروناوائرس کی بہت سی علامات ہوسکتی ہیں، تاہم کچھ ایسی علامات ہیں جو اگر بچوں میں نمایاں ہوں تو فوری طور پر والدین کو اقدامات اٹھانا ہوں گے۔

    برطانوی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر بچہ غیرمعمولی بخار کا شکار ہوجائے یا سانس لینے میں شدید دشواری پیش آرہی ہو اور ساتھ ہی کھانسی نہ رکے تو یہ بچوں میں کروناوائرس کی علامات ہوسکتی ہیں۔

    پاؤں پر نشانات بھی کرونا وائرس کی نئی علامت

    ماہرین نے والدین کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی صورت میں والدین بچوں کو اسپتال نہ لے کر جائیں بلکہ برطانوی وزارت صحت کی جانب سے دیے گئے ہنگامی نمبروں پر رابطہ کریں۔

    واضح رہے کہ مذکورہ علامات بچوں میں کروناوائرس کا صرف شبہ ظاہر کرتی ہیں، لہذا ایسی صورت میں ٹیسٹ کرانا ناگزیر ہے۔ خیال رہے کہ برطانیہ میں محکمہ صحت نے خصوصی نمبرز جاری کیے ہیں جن کے ذریعے کروناوائرس سے متعلق معلومات سمیت مریضوں کے ٹیسٹ کے لیے بھی رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

  • مختلف شعبوں سے وابستہ ماہرین پر مشتمل تھنک ٹینک تشکیل دیا جائے،وزیراعظم

    مختلف شعبوں سے وابستہ ماہرین پر مشتمل تھنک ٹینک تشکیل دیا جائے،وزیراعظم

    کوئٹہ: وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ مختلف شعبوں سے وابستہ ماہرین پر مشتمل تھنک ٹینک تشکیل دیا جائے، تھنک ٹینک غربت کی لکیر سے نیچے لوگوں کے لیے اقدامات کی سفارش کرے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت بلوچستان میں کرونا صورت حال پر اجلاس ہوا۔وزیراعظم کو بلوچستان میں کرونا وائرس کے متاثرین کی نگہداشت سے متعلق بریفنگ دی گئی۔

    اجلاس میں زائرین کی سہولت کے لیے انتظامات، اشیائے خوردونوش کی بلا تعطل فراہمی پر غور کیا گیا، ڈاکٹرز، طبی عملے کے لیے حفاظتی کٹس کی فراہمی،مستقبل کے لائحہ عمل سمیت مختلف مقامات پر جراثیم کش مہم کے حوالے سے اقدامات پر بریفنگ دی گئی۔

    اس موقع پر وزیراعظم عمران خان نے اشیائے خوردونوش کی بلا تعطل فراہمی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ روزگار کی فراہمی،غربت میں کمی کے لیے موثر حکمت عملی مرتب دینے کی ہدایت کی۔

    وزیراعظم کا کہنا تھا کہ مختلف شعبوں سے وابستہ ماہرین پر مشتمل تھنک ٹینک تشکیل دیا جائے، تھنک ٹینک غربت کی لکیر سے نیچے لوگوں کے لیے اقدامات کی سفارش کرے۔

    اجلاس کے دوران وزیراعظم پاکستان نے زراعت کے فروغ، اشیائےخوردونوش میں رعایت دینے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔

    اس سے قبل وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن میں غریب آدمی کی مشکلات کا احساس ہے۔انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس ماہ کے آخر تک کرونا کیسز میں اضافہ ہوگا۔

  • کروناوائرس: ماہرین نے خبردار کردیا

    کروناوائرس: ماہرین نے خبردار کردیا

    لندن: برطانوی ماہرین نے تمباکو نوشی کرنے والوں کو ایک بار پھر خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’گانجے‘ کا استعمال بھی وبائی مرض ’’کروناوائرس‘‘ کے حملے کا سبب بن سکتا ہے۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ سگریٹ اور شیشے کے علاوہ ’گانجا’ پینے والوں کو بھی کروناوائرس ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

    برطانوی ادارہ برائے تمباکو کنٹرول کے ڈاکٹر اسٹینٹن کا کہنا ہے کہ سگریٹ اور شیشہ پینے سے نزلہ نہیں ہوتا بلکہ استعمال شدہ تمباکو بیماری کی بڑی وجہ بن سکتا ہے، تمباکو نوشی براہ راست پھیپڑوں کو متاثر کرتی ہے جس کے باعث کروناوائرس بہ آسانی حملہ آور ہوسکتا ہے، البتہ اس حملے سے متعلق کوئی حتمی تحقیق سامنے نہیں آئی۔

    کروناوائرس: تمباکو نوشی کرنے والوں کے لیے بری خبر

    انہوں نے بتایا کہ سگریٹ اور گانجا نوشی میں کوئی بڑا فرق نہیں ہے، ایسے بہت سے تحقیقاتی مطالعے پڑے ہیں جن میں تمباکو نوشی کو مضر قرار دیا گیا، بعض اوقات مہلک مرض کا بھی سبب بن سکتی ہے۔

    برطانیہ کے چیف میڈیکل افسر ڈاکٹر گلانٹز نے خبردار کیا ہے کہ شہری تمباکو نوشی کو ترک کردیں، بصورت دیگر کروناوائرس کے منتقل ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ ایک اور طبی ماہر کا کہنا تھا کہ سگریٹ ودیگر نشہ اگر ابھی چھوڑ دیا جائے تو یہ بہت اچھا موقع ہوگا۔ سگریٹ نوشی کے ساتھ ساتھ آئسولیشن اختیار نہیں کرسکتے۔