Tag: ماہرین

  • دوڑنا گھٹنوں کے لیے فائدہ مند یا نقصان دہ؟

    دوڑنا گھٹنوں کے لیے فائدہ مند یا نقصان دہ؟

    جاگنگ کرنا یا بھاگنا ورزش کرنے اور جسم کو فعال رکھنے کا سب سے آسان طریقہ ہے۔ بعض طبی ماہرین کا خیال ہے کہ روزانہ بھاگنے کی عادت گھٹنوں کے لیے نقصان دہ ہے اور یہ گھٹنوں کی تکلیف کا سبب بن سکتی ہے۔

    حال ہی میں امریکی ماہرین نے اس خیال کی حقیقت جاننے کے لیے ایک سروے کیا جس میں حیرت انگیز نتائج سامنے آئے۔

    اس تحقیق کے لیے ماہرین نے باقاعدگی سے جاگنگ کرنے والے 15 افراد کے خون اور گھٹنوں میں موجود سیال مادے کی جانچ کی۔

    ماہرین نے یہ نمونے دو بار لیے۔ ایک اس وقت جب انہوں نے 30 منٹ تک جاگنگ کی اس کے فوری بعد ان کے جسمانی نمونے لیے گئے۔ دوسرے اس وقت جب وہ کافی دیر تک بیٹھے رہے اور انہوں نے کوئی جسمانی حرکت نہیں کی۔

    ماہرین کا خیال تھا کہ 30 منٹ جاگنگ کے بعد ان افراد کے گھٹنوں میں موجود سیال مادے کے مالیکیولز میں تبدیلیاں واقع ہوئی ہوں گی جو گھٹنوں میں سوزش یا تکلیف کا سبب بن سکتی ہے۔

    running-2

    لیکن نتیجہ اس کے برعکس نکلا جس نے ماہرین کو بھی حیران کردیا۔

    انہوں نے دیکھا کہ 30 منٹ کی جاگنگ کے بعد گھٹنوں کی تکلیف اور سوزش کا سبب بنے والے عوامل میں واضح کمی دیکھنے میں آئی۔

    ماہرین نے دیکھا کہ مستقل بیٹھے رہنے کے باعث گھٹنوں میں سوزش کا جو امکان تھا وہ بھاگنے دوڑنے کے بعد کم ہوگیا۔

    تاہم ماہرین نے چھوٹے پیمانے پر کی گئی اس تحقیق کے نتائج کو حتمی قرار دینے سے گریز کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ مصدقہ و حتمی نتائج کے لیے انہیں بڑے پیمانے پر، ہر عمر اور ہر عادات کے افراد کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔

    علاوہ ازیں انہیں علم نہیں کہ مستقل دوڑنے والے افراد جیسے میراتھن کے کھلاڑیوں پر بھی یہی نتائج مرتب ہوتے ہیں یا نہیں، کیونکہ تحقیق میں کسی کھلاڑی کو شامل نہیں کیا گیا۔

    ماہرین اس امر کے متعلق بھی اندھیرے میں ہیں کہ گھٹنوں کے مختلف امراض اور مسائل کا شکار افراد اس طریقے سے فوائد حاصل کر سکتے ہیں یا انہیں مزید نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔

  • بچوں کو کند ذہن بنانے والی وجہ

    بچوں کو کند ذہن بنانے والی وجہ

    کیا آپ کا بچہ تعلیمی میدان میں کمزور ہے؟ اسے حساب اور سائنس پڑھنے میں مشکل پیش آتی ہے؟ اور کیا آپ کے بچے کے استادوں کا کہنا ہے کہ وہ نہایت کند ذہن ہے؟

    اگر آپ بھی، اکثر والدین کی طرح اس مسئلے کا شکار ہیں تو ماہرین نے اس کی وجہ دریافت کرلی ہے۔

    فن لینڈ کی ایک یونیورسٹی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق وہ بچے جو جسمانی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیتے، کھیلنے کودنے کے لیے وقت نہیں نکالتے اور اپنا زیادہ وقت بیٹھ کر گزارتے ہیں وہ کند ذہن ہوجاتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: سبزہ زار بچوں کی ذہنی استعداد میں اضافے کا سبب

    تحقیق میں شامل ایک پروفیسر کا کہنا ہے کہ انہوں نے سروے میں دیکھا کہ پہلی سے تیسری جماعت تک کے وہ بچے جو اپنا زیادہ تر وقت بیٹھ کر بغیر کسی جسمانی سرگرمی کے گزارتے تھے ان کے مطالعہ کی صلاحیت کمزور تھی۔

    kid-2

    ریسرچ میں بتایا گیا کہ وہ بچے خاص طور پر لڑکے، جو جسمانی سرگرمیوں میں متحرک رہتے تھے وہ تعلیمی میدان میں بھی آگے تھے، اور بہترین یا اوسط کارکردگی دکھاتے تھے، تاہم ان میں بری کارکردگی کا امکان کم تھا۔

    ماہرین نے واضح کیا کہ لڑکوں کے برعکس وہ بچیوں میں جسمانی سرگرمی اور تعلیمی کارکردگی میں تعلق تلاشنے میں ناکام رہے۔

    مزید پڑھیں: اسمارٹ فون بچوں کو ’نشے‘ کا عادی بنانے کا سبب

    ماہرین نے بتایا کہ بچپن میں جسمانی طور پر متحرک رہنے والے اور مختلف کھیلوں میں حصہ لینے والے بچوں پر دیرپا مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اور وہ اپنی زندگی میں کئی طبی پیچیدگیوں سے محفوظ رہتے ہیں۔

    یہ تحقیق جرنل آف سائنس اینڈ میڈیسن اینڈ اسپورٹس میں شائع ہوئی۔

  • پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج دل کے امراض سے بچاﺅ کا عالمی دن منایا جارہا ہے

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج دل کے امراض سے بچاﺅ کا عالمی دن منایا جارہا ہے

    کراچی : پاکستان سمیت دنیا بھر میں دل کے امراض سے متعلق شعور بیدار کرنے کے لیے امراض قلب کا عالمی دن آج منایا جا رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان سمیت دنیا بھر میں ’دل کا عالمی دن‘ 29 ستمبر کومنایا جاتا ہے، اس دن کو منانے کا مقصد لوگوں میں دل کی بیماریوں کے متعلق مکمل آگاہی اور ان سے بچاوُ کے لیے شعور پیداکرنا ہے، دنیا میں لاکھوں افراد ہر سال دل کی بیماریوں کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق بلڈ پریشر، کولیسٹرول اور گلوکوز کا بڑھنا، تمباکو نوشی، خوراک میں سبزیوں اور پھلوں کا ناکافی استعمال، موٹاپا اور جسمانی مشقت کا فقدان دل کے امراض میں مبتلا ہونے کی بڑی وجوہات ہیں۔

    دل کے امراض سے بچاﺅ کے عالمی دن پرملک بھر میں سیمینارز، ریلیاں اور آگاہی واک کا انعقاد کیا جارہا ہے۔

    امراض قلب کی وجوہات، علامات اور احتیاطی تدابیر

    عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہونے والی کل اموات میں سے ایک تہائی اموات شریانوں اور دل کی مختلف بیماریوں کی وجہ سے ہورہی ہیں۔

    ڈاکٹرز کے مطابق ہلکی پھلکی سادہ غذا اور دن میں صرف آدھے گھنٹے کی ورزش کو معمول بنا کر دل کے بہت سے امراض سے بچا جا سکتا ہے۔

    واضح رہے کہ کراچی میں دل کے امراض سے بچاؤ کے لیے آگاہی سائیکل ریلی کا انعقاد کیا گیا ہے جو زمزمہ اسٹریٹ سے شروع ہو کر ڈیفنس فیز2 پرختم ہوگی۔

    آگاہی مہم کا اہتمام نجی اسپتال اورغیرسرکاری تنظیم کے اشتراک سے کیا جا رہا ہے، ریلی میں 100سےزائد سائیکلسٹ شرکت کررہے ہیں۔

  • مکڑیاں اڑ بھی سکتی ہیں

    مکڑیاں اڑ بھی سکتی ہیں

    ہماری زمین پر کچھ جاندار خصوصاً کیڑے ایسے ہوتے ہیں جنہیں دیکھ کر ہم سوچتے ہیں کہ خدا کا شکر ہے کہ یہ اڑتے نہیں، جیسے سانپ یا مکڑی وغیرہ۔

    مگر حال ہی میں ماہرین نے دل دہلا دینے والا انکشاف کیا ہے کہ مکڑی اڑ بھی سکتی ہے۔

    مزید پڑھیں: مکڑی اپنا جالا کیسے بناتی ہے؟

    کرنٹ بائیولوجی میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق مکڑیاں اڑنے کی تکنیک جانتی ہیں اور اس کے لیے انہیں ہوا کی ضرورت بھی نہیں۔

    تحقیق کے مطابق مکڑیاں زمین کی مقناطیسی لہروں کے ذریعے اڑ سکتی ہیں اور طویل فاصلے طے کر سکتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ مکڑیوں کو زمین کی مقناطیسی لہروں کے ساتھ ساتھ حرکت کرتے دیکھا گیا ہے تاہم یہ حرکت بہت معمولی ہوتی ہے۔

    اس تحقیق کی بنیاد وہ مشاہدہ بنا جس میں سائنسدانوں نے دیکھا کہ مکڑیاں بہت اوپر فضا میں اڑ رہی تھیں حالانکہ اس وقت انہیں اڑانے کے لیے ہوا بھی نہیں چل رہی تھی۔

    مزید پڑھیں: معصوم سی مکڑی سے ملیں

    تحقیق کے لیے ایک تجربہ بھی کیا گیا جس میں مصنوعی طور پر مقناطیسی لہریں پیدا کی گئیں۔ ماہرین نے دیکھا کہ اس دوران مکڑیوں نے اڑنے کی کوشش کی جبکہ کچھ فضا میں اڑنے بھی لگیں۔

    ماہرین کے مطابق یہ تحقیق اس بات کا ثبوت ہے کہ مکڑیاں بعض غیر معمولی مقامات پر کیوں پائی جاتی ہیں جیسے آتش فشاں پہاڑوں کے قریب، یا زمین سے دور بیچ سمندر کسی بحری جہاز میں۔ دراصل مکڑیاں کہیں بھی سفر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

  • سرپر لگنے والی چوٹ کے اثرات کئی برس بعد بھی سامنے آسکتے ہیں، ماہرین

    سرپر لگنے والی چوٹ کے اثرات کئی برس بعد بھی سامنے آسکتے ہیں، ماہرین

    کوپن ہیگن: ڈنمارک کے محققین نے متنبہ کیا ہے کہ سر پر لگنے والی چوٹ معمولی نہیں کیونکہ اس کے اثرات کئی برس بعد بھی  انسان کی یاداشت کمزور   یا بھولنے کی بیماری کی صورت میں سامنے آسکتے ہیں۔

    ڈنمارک کے ماہرین نے دماغی بیماریوں کے حوالے سے تحقیق کی جس میں تیس لاکھ افراد کی میڈیکل ہسٹری کا مشاہدہ کرتے ہوئے اُن  کی دماغی کیفیت اور بیماریوں کی تفصیلات  جمع کی گئیں۔

    محققین کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق دماغ کو متاثر کرنے والے مختلف امراض کی علامات بھی علیحدہ علیحدہ ہیں،مختلف دماغی بیماریوں کے لیے مجموعی طور پر ڈیمینشیا کی اصلاح استعمال کی جاتی ہے۔

    مزید پڑھیں: دماغی بیماری سے محفوظ رہنے کے لیے کیا کریں؟ ماہرین کا انتباہ

    طبی جریدے لانسٹ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق کسی بھی شخص کو ڈیمینشیا کی بیماری کے خطرات اُس وقت بڑھ جاتے ہیں جب اُس کے سر پر کسی بھی قسم کی چوٹ لگتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق ڈیمینشیا کی بیماری لاحق ہونے کے  24 فیصد خطرات اُس شخص کو ہوتے ہیں جب اُس کے سر پر اندرونی یا بیرونی چوٹ لگی ہو ، اس وقت  اکثر لوگ اسی بیماری میں مبتلا ہیں۔

    مطالعے میں صرف ڈنمارک سے تعلق رکھنے والے مریضوں کے گذشتہ 36 برس کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا گیا جس میں یہ بات سامنے آئی کہ جو افراد کو بھولنے کی بیماری میں مبتلا ہوئے اُن کو ماضی میں دماغی چوٹیں لگی تھیں۔

    یہ بھی پڑھیں: دماغی صحت کے لیے نقصان دہ عادات

    محقق ڈاکٹر جیس فین کا کہنا تھا کہ ’اگر کسی شخص کو دماغی چوٹ یا سرپر معمولی زخم بھی آتا ہے تو ضروری نہیں کہ اُس کے اثرات فوری طور پر سامنے آئیں بلکہ یہ کئی سالوں بعد بھی ظاہر ہوسکتے ہیں‘۔

    اُن کا مزید کہنا تھا کہ یہ بھی ضروری نہیں کہ جس شخص کے سر پر چوٹ لگی ہو وہ لازماً دماغی بیماری میں مبتلا ہو تاہم ایسے افراد کو احتیاطی تدابیر ضرور اختیار کرنی چاہیں تاکہ وہ خاص طور پر بھولنے کی بیماری سے محفوظ رہیں‘۔

    محققین نے ایسے افراد کو متنبہ کیا ہے کہ جن کو ماضی میں کبھی سر پر کوئی اندرونی چوٹ لگی کہ وہ ڈیمینشا جیسی بیماری سے محفوظ رہنے کے لیے باقاعدہ ورزش کریں اور سگریٹ نوشی کے ساتھ شراب نوشی کی بری عادت سے چھٹکارا حاصل کریں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • گھر کے گیراج سے 140 سال قبل مدفون لاش برآمد

    گھر کے گیراج سے 140 سال قبل مدفون لاش برآمد

    امریکی شہر سان فرانسسکو کے علاقے سانتا کروز میں ایک گھر کے گیراج سے تعمیراتی کام کے دوران ایک 2 سالہ بچی کی لاش برآمد ہوئی جسے 140 سال قبل نہایت مہارت سے محفوظ کیا گیا تھا۔

    یہ لاش گزشتہ برس مئی میں برآمد کی گئی تھی تاہم اب اس پر طویل تحقیق اور سائنسی تجزیوں کے بعد ماہرین نے معلوم کرلیا کہ یہ لاش 2 سالہ ایڈتھ ہاورڈ کک کی ہے جو 13 اکتوبر سنہ 1876 میں وفات پا گئی تھی۔

    body-2

    اس لاش کو شناخت کرنے کے لیے ماہرین کی ٹیم نے 30 ہزار تدفینوں اور اموات کا ریکارڈ چیک کیا۔

    ماہرین نے شناخت کے لیے کئی افراد کے ڈی این اے کا ٹیسٹ بھی کیا جن کا ممکنہ طور پر اس لاش سے کوئی تعلق ہوسکتا تھا۔

    بالآخر ماہرین اپنی کوشش میں کامیاب ہوگئے اور ایک  82 سالہ پیٹر کک نامی شخص کا ڈی این اے لاش کے ڈی این اے سے میچ کرگیا۔ پیٹر اس بچی کا پردادا تھا۔

    طویل تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ جس مقام سے بچی کی لاش دریافت ہوئی، وہ مقام سنہ 1800 میں ایک قبرستان کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔

    body-1

    ایڈتھ کو بھی 140 سال قبل اس کی موت کے بعد یہیں پر اس جگہ دفن کیا گیا تھا جہاں اس کے خاندان کے دیگر افراد بھی دفن تھے۔

    تاہم سنہ 1900 کے اوائل میں ان تمام مدفون اجسام کو یہاں سے نکال کر دوسرے قبرستان میں منتقل کردیا گیا تھا۔

    مزید پڑھیں: دنیا کی خوبصورت ترین آخری آرام گاہیں

    ایڈتھ کی لاش ایک ہوا بند دھاتی تابوت میں رکھی گئی تھی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کم سن بچی کی دوبارہ سے آخری رسومات ادا کی جائیں گی اور اسے پھر سے دفن کر دیا جائے گا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • صبح سویرےدوڑنےسےیاداشت بہتر ہوتی ہے،ماہرین صحت

    صبح سویرےدوڑنےسےیاداشت بہتر ہوتی ہے،ماہرین صحت

    ایریزونا: ماہرین صحت کا کہناہے کہ صبح سویرے تیز دوڑنے سے نہ صرف حسیات تیز ہوتی ہے بلکہ آپ کی یاداشت بھی بہتر ہوتی ہے۔

    تفصیلات کےمطابق ماہرین صحت کا کہناہے کہ صبح کی تیز دوڑ سےنہ صرف آپ کی یادداشت بہتر ہوتی ہے بلکہ آپ کی فوری فیصلہ کرنے کی صلاحیت بھی بڑھ جاتی ہے۔

    یونیورسٹی آف ایریزونا کے محققین نے 11 افراد کا جائزہ لیا جن کی عمر 18 سے 25 برس تھی اور ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایک سال سے کوئی ورزش اور مشقت نہیں کی ہے۔

    ماہرین صحت کی تحقیق میں شریک افراد کی جسمانی کیفیت معلوم کرنے کے لیےریاضی سے بھی مدد لی گئی۔

    تحقیق سے معلوم ہوا کہ تیزدوڑنے سے دماغی خلیات کے رابطے مضبوط اور زیادہ ہوگئےجو سوچنے اور سمجھنے میں بہت مدد دیتے ہیں۔

    دوسری جانب جن لوگوں نے ورزش نہیں کی تھی ان کے دماغ میں ایسی کوئی سرگرمی نہیں دیکھی گئی۔

    واضح رہے کہ ماہرین کا کہناہے کہ تحقیق سے ثابت ہوا صبح سویرے اٹھ کرتیز دوڑنے اور ورزش سے انسانی یاداشت بہتر ہوتی ہے۔

  • زمین میں نصب ان بڑے بڑے سروں کے نیچے کیا ہے؟

    زمین میں نصب ان بڑے بڑے سروں کے نیچے کیا ہے؟

    آپ نے اکثر اوقات ٹی وی، انٹرنیٹ اور اخبارات میں ان عظیم الجثہ سروں کو دیکھا ہوگا۔ یہ سر بحر اقیانوس میں واقع مشرقی جزیرے پر موجود ہیں۔

    یہ علاقہ ملک چلی کی ملکیت ہے۔ یہاں موجود نیشنل پارک کسی نامعلوم تہذیب کی یادگار ہے اور ماہرین ابھی تک مخمصہ کا شکار ہیں کہ یہاں نصب کیے گئے یہ بڑے بڑے سر آخر کس چیز کی نشانی ہیں۔

    island-8

    پراسراریت کی دھند میں لپٹے یہ سر دنیا بھر کے تاریخ دانوں اور سیاحوں کے لیے کشش رکھتے ہیں اور انہیں دیکھنے کے لیے روزانہ بے شمار لوگ آتے ہیں۔

    تاہم کچھ ماہرین آثار قدیمہ نے اس بات کا کھوج لگانے کی کوشش کی کہ کیا یہ زمین میں نصب صرف سر ہیں یا ان کے نیچے کچھ اور بھی موجود ہے۔

    ایک غیر ملکی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے آرٹیکل کے مطابق کچھ عشروں قبل ان سروں کے آس پاس زمین کی کھدائی گئی تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ ان سروں کے نیچے کیا ہے۔

    island-7

    کھدائی کے بعد ماہرین یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان سروں کے نیچے پورے جسم بھی موجود ہیں جو نہایت طویل القامت ہیں۔

    island-5

    ماہرین نے اندازہ لگایا کہ درحقیقت انہیں اس طرح نصب نہیں کیا گیا جس طرح یہ اب موجود ہیں۔ یہ مکمل مجسمے تھے جو موسمیاتی تغیر یعنی کلائمٹ چینج کے باعث زمین اور پانی میں دفن ہوتے گئے اور آخر کار صرف ان کا سر دنیا کے سامنے رہ گیا۔

    island-6

    اس تحقیق سے کئی عرصہ قبل ناروے سے تعلق رکھنے والے ایک سیاح اور محقق ہیئردل کہہ چکے تھے کہ ان سروں کا جسم بھی موجود ہوسکتا ہے جو زمین میں دفن ہوگا۔ ہوسکتا ہے انہوں نے یہ بات مقامی افراد کی لوک داستانوں کی بنیاد پر کہی ہو۔

    island-3

    اس کھدائی کے دوران ماہرین نے وہ تکنیک بھی دریافت کی جس کے ذریعہ آج سے ہزاروں سال قبل ان دیوہیکل مجسموں کو مضبوطی سے نصب کیا گیا۔

    island-4

    حال ہی میں جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے کئی دیگر مقامات کی طرح اس تہذیبی ورثے کو بھی سمندر کی لہروں میں اضافے اور زمینی کٹاؤ کے باعث خطرہ لاحق ہے۔ سطح سمندر میں اضافہ اس تہذیبی یادگار اور اس کے نیچے موجود جزیرے دونوں کے لیے شدید خطرے کا باعث ہے۔

    island-2

    ماہرین کا کہنا ہے کہ آئندہ چند عشروں میں یہ مجسمے جو کہ اب صرف سر رہ گئے ہیں، مکمل طور پر زمین برد یا سمندر برد ہوجائیں گے اور اس کے بعد ان کا نام و نشان بھی نہیں ہوگا۔


     

  • برفانی خطوں میں جھیلوں کی موجودگی کا انکشاف

    برفانی خطوں میں جھیلوں کی موجودگی کا انکشاف

    ایک حالیہ تحقیق کے مطابق دنیا کے برفانی خطے انٹارکٹیکا میں نیلے پانیوں کی جھیلیں بن رہی ہیں جس نے سائنسدانوں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

    برطانوی ماہرین نے سیٹلائٹ سے موصول ہونے والی ہزاروں تصویروں اور ڈیٹا کی بغور چھان بین کے بعد اس بات کی تصدیق کی کہ دنیا کے برفانی خطے قطب جنوبی یعنی انٹارکٹیکا میں برف کے نیچے جھیلیں بن رہی ہیں۔

    مزید پڑھیں: برفانی سمندر پر پیانو کی پرفارمنس

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ جھیلیں اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ وہاں موجود برف پگھلنے کے باعث اس کی تہہ کمزور ہو کر چٹخ رہی ہے۔ ماہرین نے اس کی وجہ کلائمٹ چینج کو قرار دیا۔

    ماہرین کے مطابق سنہ 2000 سے اس خطے کی برف نہایت تیزی سے پگھل رہی ہے اور اس عرصہ میں 8 ہزار کے قریب مختلف چھوٹی بڑی جھیلیں تشکیل پا چکی ہیں۔

    lake-2

    انہوں نے کہا کہ یہ ایک نہایت خطرناک صورتحال ہے کیونکہ اس طرح عالمی سمندروں میں پانی کے مقدار کا توازن بگڑ سکتا ہے اور مختلف سمندروں کی سطح غیر معمولی طور پر بلند ہوجائے گی جس سے کئی ساحلی شہروں کو ڈوبنے کا خدشہ ہے۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے فیس بک اور گوگل کے دفاتر ڈوبنے کا خدشہ

    ماہرین نے بتایا کہ اس کی وجہ موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے باعث ہونے والے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ یعنی گلوبل وارمنگ ہے۔ پچھلے ایک عشرے میں دنیا بھر کے مختلف ممالک میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہو چکا ہے جس سے قطب شمالی اور قطب جنوبی کی برف پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور یہ تیزی سے پگھل رہی ہے۔

    حال ہی میں عالمی خلائی ادارے ناسا نے قطب شمالی میں تیزی سے پگھلتی برف کی ایک ویڈیو بھی جاری کی اور بتایا کہ رواں برس مارچ سے اگست کے دوران قطب شمالی کے سمندر میں ریکارڈ مقدار میں برف پگھلی۔

    دوسری جانب گلوبل وارمنگ ان برفانی خطوں کی برف کو گلابی بھی بنا رہی ہے۔ قطب شمالی کی برف گلابی اس وقت ہوتی ہے جب برف میں پرورش پانے والی کائی تابکار شعاعوں کو اپنے اندر جذب کرلیتی ہے۔ اس کا نتیجہ برفانی گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے کی صورت میں نکلتا ہے۔

  • بکرے کے روپ میں ڈھل جانے والا آدمی

    بکرے کے روپ میں ڈھل جانے والا آدمی

    اگر آپ سے کہا جائے کہ چند دن کے لیے آپ اپنی شخصیت کو چھوڑ کر کسی اور کی شخصیت اختیار کریں اور سب کچھ ویسے ہی کریں جیسے وہ کرتا ہے تو یقیناً آپ پریشانی کا شکار ہوجائیں گے۔

    یہ کام یقیناً آپ کے لیے مشکل ہوگا کیونکہ اپنی شخصیت کو چھوڑ کر کسی اور کی شخصیت کو اپنانا چاہے وہ کتنا ہی دولت مند اور مشہور شخص کیوں نہ ہو ایک مشکل کام ہے کیونکہ آپ اپنی فطرت سے ہٹ جائیں گے۔

    ہر انسان کی فطرت، عادات، مزاج دوسرے شخص سے مختلف ہوتا ہے اور وہ کام کرنا جو ہمارے مزاج سے مطابقت نہ رکھتا ہو ایک نہایت دقیق مسئلہ ہے۔

    تو پھر اس برطانوی شخص کی داد دیں جو اپنی شخصیت کو مکمل طور پر چھوڑ کر کسی اور کے روپ میں ڈھل گیا، اور وہ نیا روپ بھی کسی انسان کا نہیں بلکہ جانور کا، یعنی بکری کا تھا۔

    gm-4

    یقیناً یہ شخص نوبل انعام کا ہی مستحق تھا جو اسے دیا بھی گیا۔

    لندن سے تعلق رکھنے والا تھامس تھویٹس دراصل ایک سائنسدان ہے۔ اس نے یہ کام نہ صرف تحقیقی مقصد کے لیے انجام دیا بلکہ اس کا کہنا ہے کہ اس سے اسے ایک روحانی مسرت حاصل ہوئی۔

    goatman-3

    وہ بتاتا ہے، ’میں اپنے انسان ہونے کی پہچان سے باہر نکلا اور ایک نئے زاویے سے دنیا کو دیکھنا شروع کیا‘۔

    تھامس نے مکمل طور پر بکرا بننے کے لیے بکرے جیسا ایک مصنوعی ڈھانچہ بھی تشکیل دیا جس میں سینگوں کی جگہ ایک ہیلمٹ، ہاتھ اور پاؤں کے لیے بکروں جیسی ساخت کے اعضا اور نرم کھال سے بنا ایک کوٹ شامل تھا اور اسے پہن کر یورپ کی الپس پہاڑیوں میں نکل گیا۔

    gm-6

    یہ کام تھامس نے تین دن تک انجام دیا اور صرف یہی نہیں 3 دن تک اس نے پتے بھی کھائے۔

    gm-5

    تھامس کی اس کاوش پر اسے آئی جی نوبل انعام سے نوازا گیا ہے۔ 1991 سے آغاز کیے جانے والے یہ نوبل انعام ان کارناموں کے لیے دیے جاتے ہیں جو بظاہر تو عجیب و غریب یا کسی حد تک مزاحیہ ہوتے ہیں لیکن درحقیقت ان کے اندر ایک پیغام چھپا ہوتا ہے۔

    تھامس نے یہ انعام ہارڈورڈ یونیورسٹی میں نوبل انعام یافتہ ماہرین و سائنسدانوں سے وصول کیا۔

    gm-7

    تھامس نے اس تجربے پر ایک کتاب بھی لکھی ہے جس کا عنوان ہے، ’کس طرح میں نے انسان بننے کے کام سے چھٹی لی‘۔