Tag: ماہر تعلیم

  • خالد رضا کا قتل: ہائی پروفائل کیس سی ٹی ڈی کو بھجوانے کا فیصلہ

    خالد رضا کا قتل: ہائی پروفائل کیس سی ٹی ڈی کو بھجوانے کا فیصلہ

    کراچی: صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں ماہر تعلیم خالد رضا کو قتل کیے جانے کا کیس محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کو بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے گلستان جوہر بلاک 7 میں ماہر تعلیم خالد رضا کے قتل کے 2 روز بعد پولیس حکام نے کیس کو محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کو بھجوانے کا فیصلہ کیا ہے۔

    پولیس حکام کا کہنا ہے کہ قتل کی ذمہ داری دہشت گرد تنظیم کی جانب سے قبول کی گئی تھی، بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ملوث ہونے کا اشارہ بھی ملا تھا۔

    پولیس کے مطابق قتل کیس میں دہشت گردی کا معاملہ سامنے آنے پر کیس سی ٹی ڈی کو بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا، سی ٹی ڈی کی جانب سے اب جلد کیس پر کام شروع کردیا جائے گا۔

    خیال رہے کہ 26 فروری کی رات خالد رضا کو ان کے گھر کی دہلیز پر گولی مار کر قتل کیا گیا تھا، تفتیشی حکام کے مطابق اسلام آباد میں امتیاز عالم کا قتل، محمود آباد میں ظہور نامی شہری کا قتل بھی اسی سلسلے کی کڑی ہوسکتی ہے۔

    تفتیشی حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ قتل کی تینوں وارداتوں کے حوالے سے تفتیش کی جارہی ہے۔

  • ڈاکٹر ابواللیث صدیقی: اردو ادب میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پہلے پی ایچ ڈی اسکالر

    ڈاکٹر ابواللیث صدیقی: اردو ادب میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پہلے پی ایچ ڈی اسکالر

    ڈاکٹر ابواللیث صدیقی متحدہ ہندوستان کے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اردو ادب میں پی ایچ ڈی کرنے والے پہلے اسکالر تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد کراچی آگئے اور یہاں علمی و ادبی میدان میں نمایاں کارنامے انجام دیے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

    پاکستان کے ممتاز ماہرِ لسانیات، محقّق، ماہرِ تعلیم اور نقّاد ابواللیث صدیقی نے جامعہ کراچی کے شعبہ اردو کے سربراہ اور کولمبیا یونیورسٹی کے وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔

    آگرہ ان کا وطن تھا جہاں 15 جون 1916ء کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وکٹوریہ ہائی اسکول، آگرہ مشن اسکول اور اسلامیہ ہائی اسکول بدایوں سے مکمل کی۔ بعد ازاں انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے 1942ء میں پروفیسر رشید احمد صدیقی کے زیرِ نگرانی پی ایچ ڈی مکمل کی۔

    وہ متعدد کتب کے مصنّف تھے جب کہ ان کی ایک خود نوشت بھی منظرِ عام پر آئی جس کے مقدمے میں ڈاکٹر معین الدّین عقیل لکھتے ہیں کہ “ڈاکٹر ابواللیث صدیقی زمانہ طالب علمی ہی سے مضامین و مقالات لکھنے لگے تھے جو جامعہ دہلی، علی گڑھ میگزین علی گڑھ، ہمایوں لاہور، معارف اعظم گڑھ اور نگار لکھنؤ میں شائع ہوتے رہے۔ تنقید اور تحقیق دونوں ہی میں ڈاکٹر صاحب کی دل چسپی یکساں تھی۔ بعد میں لسانیات اور خاص طور پر اردو لسانیات ان کا محبوب موضوع بن گیا۔ ان کے پی ایچ ڈی کے تحقیق مقالے لکھنؤ کا دبستانِ شاعری نے، جو شعبہ اردو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا پہلا تحقیقی کام تھا، انھیں اسی زمانے میں شہرت سے ہم کنار کر دیا تھا۔ یہ مقالہ بھارت اور پاکستان میں کئی بار شائع ہوا۔“

    ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کی چند اہم تصانیف میں مصحفی: اس کا عہد اور شاعری، جرأت: اس کا عہد اور شاعری، نظیر اکبر آبادی: اس کا عہد اور شاعری، تاریخِ زبان و ادبِ اردو، بیسویں صدی کا اردو ادب اور تاریخِ اصولِ تنقید شامل ہیں جب کہ رفت و بود ان کی خود نوشت ہے۔

    ان کے مضامین کے تین مجموعے غزل اور متغزلین، روایت اور تجربے اور ادب اور لسانیات کے عنوانات سے شایع ہوئے۔

    انھیں‌ زمانہ طالبِ علمی میں علی گڑھ کے آفتاب ہوسٹل میں جن نابغہ روزگار شخصیات اور علم و ادب کی دنیا کے قابل اور نام وَر لوگوں کی صحبت میّسر آئی، ان میں اختر حسین رائے پوری، سبطِ حسن، حیات اللہ انصاری، فضل الرّحمن انصاری شامل تھے۔ اسی زمانے میں انھیں اپنی تعلیمی قابلیت کے سبب علی گڑھ کے اکابرین کی خصوصی توجہ اور ان کی شفقت و عنایت بھی نصیب ہوئی جن میں نواب سَر راس مسعود اور پروفیسر محمد حبیب کا ذکر ابواللیث صدیقی نے اپنی خود نوشت میں خاص طور پر کیا ہے۔

    ڈاکٹر ابواللیث صدیقی 7 ستمبر 1994ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ ان کی تدفین جامعہ کراچی کے قبرستان میں کی گئی۔

  • عالمی شہرت یافتہ ماہرِ ‌تعلیم، ادیب اور محقق اشتیاق حسین قریشی کی برسی

    عالمی شہرت یافتہ ماہرِ ‌تعلیم، ادیب اور محقق اشتیاق حسین قریشی کی برسی

    آج عالمی شہرت یافتہ ماہرِ تعلیم، مؤرخ، محقق اور ڈراما نویس پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کا یومِ وفات ہے۔ 22 جنوری 1981ء کو وفات پانے والے ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور بانی چیئرمین مقتدرہ قومی زبان تھے۔ تعلیم و تدریس اور مختلف موضوعات پر ان کی کتب پاکستان سمیت دنیا کی مشہور جامعات میں پڑھائی جاتی ہیں۔

    ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی 20 نومبر، 1903ء کو ضلع اٹاوہ، اترپردیش میں پیدا ہوئے۔ 1942ء میں سینٹ اسٹیفن کالج، دہلی سے بی اے، تاریخ اور فارسی میں ایم اے کیا۔ بعدازاں اسی ادارے کے شعبہ تاریخ میں لیکچرار ہوگئے، لیکن کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ کیمبرج یونیورسٹی سے تاریخ میں پی ایچ ڈی کا فیصلہ کیا اور برطانیہ چلے گئے۔ انھوں نے سلطنتِ دہلی کا نظمِ حکومت کے عنوان سے مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

    ہندوستان واپسی پر دہلی یونیورسٹی میں ریڈر مقرر ہوئے اور ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے دہلی یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کے پروفیسر اور پھر ڈین بنے۔ قیامِ پاکستان کے بعد 1948ء میں کراچی آگئے۔ انھیں جامعہ کراچی کے علاوہ مہاجرین و آبادکاری کے وزیرِ مملکت اور بعد ازاں مرکزی حکومت میں وزیرِ تعلیم بنایا گیا۔ کچھ وقت کے لیے پنجاب یونیورسٹی میں پروفیسر رہے۔

    1955ء میں امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی کے وزیٹنگ پروفیسر ہوئے جہاں وہ 1960ء تک خدمات انجام دیں اور اسی دوران برِصغیر کی تایخ پر شہرۂ آفاق کتاب برعظیم پاک و ہند کی ملّتِ اسلامیہ تصنیف کی۔ ان کی اردو اور انگریزی کتب میں سے دو اہم کتب The Struggle for Pakistan اور The Administration of Mughal Empire بھی ہیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اشتیاق حسین قریشی نے تین اہم تصانیف تعلیم اور تاریخ و سیاست کے موضوع پر سپردِ قلم کیں۔

    1979ء انھیں مقتدرہ قومی زبان کا بانی چیئرمین مقرر کیا گیا جہاں انھیں نے اردو زبان کی ترویج و فروغ کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ حکومتِ پاکستان نے ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کو ستارۂ پاکستان سے نوازا۔ وہ کراچی میں گلشنِ اقبال کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • سابق چیئرمین اعلیٰ تعلیمی بورڈ انوار احمد زئی انتقال کر گئے

    سابق چیئرمین اعلیٰ تعلیمی بورڈ انوار احمد زئی انتقال کر گئے

    کراچی: سابق چیئرمین اعلیٰ و ثانوی تعلیمی بورڈ انوار احمد زئی مقامی اسپتال میں انتقال کر گئے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق ماہر تعلیم اور ضیاء الدین تعلیمی بورڈ کے ڈائریکٹر پروفیسر انوار احمد زئی اتوار کو مختصر علالت کے بعد انتقال کر گئے، مرحوم آغا خان اسپتال میں زیر علاج تھے۔

    پروفیسر انوار احمد کی نماز جنازہ آج بعد نماز عصر مسجد حسان بن ثابت، کراچی یونی ورسٹی بلاک 1 میں ادا کی جائے گی، صوبائی وزیر تعلیم سعید غنی اور اے آر وائی فیملی کی جانب سے انوار احمد زئی کے انتقال پر اظہار تعزیت کیا گیا۔

    مرحوم میٹرک بورڈ کراچی، انٹر بورڈ کراچی، میرپور خاص بورڈ کے سابق چیئرمین و سابق ای ڈی او کراچی، سابق ایڈیشنل سکریٹری تعلیم کے فرائض بھی ادا کر چکے ہیں، مرحوم کے بھائی اور حیدرآباد بورڈ کے ناظم امتحانات مسرور احمد زئی کے مطابق وہ علالت کے باعث چند روز قبل آغا خان اسپتال داخل ہوئے تھے مگر اتوار کی صبح ان کا انتقال ہو گیا۔

    ضیاء الدین یونی ورسٹی کے چانسلر ڈاکٹر عاصم حسین، وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم، اور صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے پروفیسر انوار احمد زئی کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔

    تعزیتی پیغامات میں کہا گیا ہے کہ مرحوم کی شعبہ تعلیم کے لیے خدمات قابل قدر اور قابل ستائش ہیں جنھیں کسی بھی طور فراموش نہیں کیا جا سکتا، ان کا انتقال محکمہ تعلیم کے لیے ایک بڑا نقصان ہے، وہ ایک علم دوست شخصیت تھے، مرحوم کی تعلیم کے لیے خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

    پروفیسر انوار احمد زئی آرٹس کونسل کراچی کے ممبر بھی تھے۔

  • ابوالخیر کشفی: "یہ لوگ بھی غضب تھے!”

    ابوالخیر کشفی: "یہ لوگ بھی غضب تھے!”

    آج اردو زبان کے نام ور ادیب، محقق، نقاد سید ابوالخیر کشفی کی برسی منائی جارہی ہے۔ 15 مئی 2008 کو انتقال کرجانے والے ابوالخیر کشفی اپنی ادبی تخلیقات کے ساتھ ساتھ ایک ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔

    سید ابوالخیر کشفی نے 12 مارچ 1932 کو کان پور کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے دادا سید شاہ محمد اکبر عربی، فارسی اور اردو زبانوں‌ پر عبور رکھتے تھے اور اس زمانے کے مشہور عالم تھے جب کہ والد سید ابو محمد ثاقب کان پوری کا شمار نام ور شعرا میں ہوتا تھا۔ اس طرح شروع ہی سے کشفی صاحب کو علمی و ادبی ماحول ملا جس نے ان کے اندر لکھنے لکھانے کا شوق پیدا کیا۔

    وہ تقسیم ہند کے بعد کراچی آگئے اور جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ عملی زندگی شروع کرنے کے لیے انھوں نے تدریس کا سہارا لیا اور کالج سے لے کر جامعہ کراچی تک اپنے علم و کمال سے نسلِ نو کو سنوارا۔

    اردو شاعری کا سیاسی و تاریخی پس منظر، ان کے مقالے کی کتابی شکل ہے جب کہ دیگر کتب میں ہمارے عہد کا ادب اور ادیب، جدید اردو ادب کے دو تنقیدی جائزے، ہمارے ادبی اور لسانی مسائل کے بعد خاکوں کا مجموعہ یہ لوگ بھی غضب تھے سامنے آیا۔

    سید ابوالخیر کشفی کو جامعہ کراچی کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • جامعہ کراچی کا شعبہ ابلاغِ عامہ اور پروفیسر شریفُ المجاہد

    جامعہ کراچی کا شعبہ ابلاغِ عامہ اور پروفیسر شریفُ المجاہد

    پروفیسر شریفُ المجاہد نے جامعہ کراچی میں صحافت کے شعبے کو منظم کیا اور اس میدان میں قدم رکھنے والوں کی راہ نمائی کی۔

    نام وَر ماہرِ تعلیم، مؤرخ اور صحافت کے استاد مدرس شریفُ المجاہد کا انتقال 27 جنوری کو ہوا۔ انھیں‌ جامعہ کراچی کے شعبہ ابلاغِ عامہ کا بانی کہا جاتا ہے۔

    انھوں نے تین نسلوں کی فکری تربیت کے ساتھ علم و آگاہی اور بالخصوص متعلقہ شعبے میں ان کی راہ نمائی کی۔ پاکستان میں شعبہ تعلیم کے لیے پروفیسر شریف المجاہد کی خدمات ایک روشن باب ہے جسے فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

    ایک نہایت قابل استاد، بہترین منتظم اور نسلِ نو کے لیے راہ نما کی حیثیت سے انھیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ پروفیسر شریف المجاہد ہندوستان اور پاکستان کے مختلف روزناموں اور جرائد کے شعبہ ادارت سے وابستہ رہے اور متعدد غیر ملکی اخبار اور جرائد کے لیے بطور نمائندہ خدمات انجام دیں۔

    وہ 1955 میں بحیثیت لیکچرار جامعہ کراچی سے وابستہ ہوئے تھے۔ امریکا سے جرنلزم کی ڈگری حاصل کرنے والے شریف المجاہد نے جامعہ کراچی میں شعبہ صحافت کو منظم کیا اور اسے ترقی دی۔

    متحدہ ہندوستان کی تاریخ، آزادی کی تحریک، قیامِ پاکستان کے لیے مسلمان اکابرین اور راہ نماؤں کی کوششیں اور قربانیاں ان کا خاص موضوع رہے۔

    انھوں نے 1945 میں مسلمانوں میں سیاسی بیداری کے لیے مضامین لکھنا شروع کیے اور اپنی فکر سے مسلمانوں کو بیدار کیا۔ 1976 میں قائدِ اعظم اکیڈمی کے بانی ڈائریکٹر مقرر ہوئے اور ان کی متعدد تصانیف سامنے آئیں۔

    پروفیسر شریف المجاہد کی کتابوں اور مقالات کا عربی، فرانسسیی، پرتگیزی اور ہسپانوی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔