Tag: ماہی گیر

  • ایران، اسرائیل جنگ کے پاکستانی ماہی گیروں پر اثرات

    ایران، اسرائیل جنگ کے پاکستانی ماہی گیروں پر اثرات

    “جب ہماری کشتیاں ساحل پر کھڑی رہتی ہیں، تو ہمارے چولھے بجھ جاتے ہیں۔” لطیفہ ناصر کہتی ہیں۔ “میرے بچے ایک مہینے سے اسکول نہیں گئے، اور ہم اب قرضوں پر زندگی گزار رہے ہیں۔”

    لطیفہ ناصر اورمارہ کوآپریٹو سوسائٹی کی رکن ہیں ( اور ماہی گیر برادری سے تعلق کی بنا پر مستفید ہونے والوں میں بھی شامل ہیں) یہ سوسائٹی ایک مقامی غیر سرکاری تنظیم ہے جو ماہی گیروں کی فلاح و بہبود اور معاشی حالات کی بہتری کے لیے کام کرتی ہے۔ لطیفہ ناصر کا خاندان بلوچستان کے ضلع گوادر کے ساحلی شہر اورمارہ میں رہتا ہے۔ ان کے شوہر ماہی گیر ہیں، اور علاقے کے بیشتر ماہی گیروں کی طرح ان کا بھی روزگار ایران ،اسرائیل جنگ کے باعث بحران کا شکار ہے۔

    جنوب مغربی پاکستان میں مچھلی اور ایندھن کی ایک اہم تجارت ایران کے ساتھ بند سرحدوں کے باعث مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔

    ایران، اسرائیل تنازع کے بعد پاکستان نے ایران کے ساتھ اپنی سرحد بند کر دی، جس سے ایندھن کی فراہمی اور مچھلی کی برآمد دونوں متاثر ہوئیں۔ یہ دہرا جھٹکا پہلے ہی موسمیاتی تبدیلی اور حد سے زیادہ شکار سے متاثر ماہی گیر برادریوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوا ہے۔

    بحیرۂ عرب کے کنارے، بلوچستان کا 770 کلومیٹر طویل ساحل ملکی ماہی گیری میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

    بلوچستان فشریز اور کوسٹل ڈیولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک اعلیٰ عہدیدار علاﺅالدین ککر نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا ” صوبے کے ماہی گیر ہر سال تقریباً 3 لاکھ 40 ہزار ٹن مچھلی پکڑتے ہیں، جس کی مارکیٹ ویلیو تقریباً 19.9 ارب روپے (70.1 ملین ڈالر) ہے۔ اس میں مچھلیوں کی بہت سی قیمتی انواع جیسے ٹونا، اسپینش میکریل، کراکر، انڈین آئل سارڈین اور انڈین میکریل شامل ہیں۔ بلوچستان میں 16,000 رجسٹرڈ اور 6,000 غیر رجسٹرڈ کشتیاں مچھلی کے شکار میں مصروف ہیں، جو ہزاروں خاندانوں کا ذریعۂ معاش ہیں۔“

    علاﺅالدین ککر کے مطابق ”اس گراں قدر معاشی اہمیت کے باوجود یہ شعبہ بدانتظامی، فنڈنگ کی کمی اور بیرونی جھٹکوں کے خطرات سے دوچار ہے۔ “

    گوادر چیمبر آف کامرس کے چیئرمین شمس الحق کلمتی کے مطابق ”ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 دن کی جنگ سے اس شعبے کو شدید جھٹکا لگا ہے۔ اس سے پہلے ماہی گیر اپنی کشتیاں ایرانی پیٹرول اور ڈیزل سے چلاتے تھے جو غیر قانونی طور پر مگر آسانی سے دستیاب تھا۔ اب سرحدوں کی بندش کے باعث یہ سپلائی چین منہدم ہو گئی ہے۔ اب یہ ایرانی ایندھن یا تو دستیاب نہیں ہے یا پھر خاصا مہنگا ہوچکا ہے مثلا فی لیٹر ایندھن کی قیمت 150 (USD 0.53) روپے سے بڑھ کر 180-200 (USD 0.63-0.70) روپے ہو چکی ہے۔“

    مقامی ذرائع کے مطابق، بلوچستان میں ایرانی ایندھن کی روزانہ درآمد 6 لاکھ بیرل سے گھٹ کر 1 لاکھ 40 ہزار بیرل رہ گئی ہے۔ سرحد بند ہونے سے پہلے گوادر اور آس پاس کے علاقوں میں 300 سے زائد بڑے آئل ڈپو، 1000 پمپس اور 2000 دکانیں تقریباً مکمل طور پر ایرانی ایندھن فروخت کرتی تھیں، جبکہ پاکستانی پیٹرول فروخت کرنے والے پمپس صرف دو تھے۔

    تاہم گوادر کے ڈپٹی کمشنر حمود الرحمن کہتے ہیں کہ “صور ت حال اب معمول پر آ چکی ہے اور کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔”

    ماہی گیری صنعت پر اثرات

    ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے سمندری امور کے تکنیکی مشیر محمد معظم خان کا کہنا ہے “یہ بحران صرف معاشی نہیں بلکہ ماحولیاتی بھی ہے۔”

    ان کا کہنا ہے کہ ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے باعث اچانک ٹونا جیسی بڑی مچھلیوں کے شکار کا رک جانا سمندری ماحولیاتی توازن کو متاثر کر سکتا ہے۔

    معظم خان کے مطابق موجودہ جغرافیائی کشیدگی نے پاکستان کی ساحلی اور گہرے سمندر کی ماہی گیری کو شدید متاثر کیا ہے، خاص طور پر ٹونا مچھلی کی انواع کو، ہر سال پاکستانی ماہی گیر تقریباً 50 سے 60 ٹن ٹونا اور اس جیسی مچھلیاں پکڑتے ہیں، جن کی زیادہ تر مقدار براہِ راست ایران کو فروخت کی جاتی ہے۔ اگرچہ یہ برآمد غیر قانونی ہے، بالکل اسی طرح جیسے ایندھن کی اسمگلنگ جو اس کے برعکس سمت میں ہوتی ہے، لیکن سرحد پار ان مچھلیوں کے اچھے دام ملتے ہیں۔

    معظم خان کے مطابق بلوچستان کی ٹونا مچھلی عموماً بین الاقوامی منڈیوں کے معیار پر پورا نہیں اترتی، اس لیے ایران ان چند ممالک میں شامل ہے جو اسے اچھے داموں خریدنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ ایران میں ٹونا کی فی کلو قیمت 300 سے 700 روپے (1.06 سے 2.47 امریکی ڈالر) تک ہے، اور اس برآمدی تجارت کی سالانہ مالیت تقریباً 1.5 کروڑ سے 3.5 کروڑ روپے (52,900 سے 123,300 امریکی ڈالر) کے درمیان بتائی جاتی ہے۔

    معظم خان کہتے ہیں: ”اگر ایرانی مارکیٹ تک رسائی نہ رہی تو پورا ٹونا فشریز سیکٹر تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گا، جو ان متاثرہ برادریوں کی آمدنی اور روزگار دونوں کے لیے خطرہ بن جائے گا۔“

    طاہر رشید بلوچستان رورل سپورٹ پروگرام کے سی ای او ہیں، جو صوبے کے دیہی غریب اور پسماندہ لوگوں کی مدد کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ہے۔ وہ معظم صاحب کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ”بلوچستان سے زیادہ تر ٹونا اور دیگر تجارتی مچھلیاں ایران کو بارٹر سسٹم کے تحت بھیجی جاتی ہیں، جہاں ماہی گیر اپنی پکڑی ہوئی مچھلی، بشمول ٹونا، کے بدلے پیٹرول اور ڈیزل حاصل کرتے ہیں۔“

    یہ بارٹر تجارت عام طور پر ایرانی اسپیڈ بوٹس کے ذریعے کی جاتی ہے، جو ایران اور پاکستان دونوں میں رجسٹرڈ ہوتی ہیں۔ یہ کشتیاں پاکستانی ماہی گیروں سے مچھلی لینے کے لیے دونوں ممالک کی سمندری سرحد کے قریب اور بلوچستان کے مختلف مقامات جیسے گوادر اور جیوانی تک جاتی ہیں۔

    غریب ماہی گیر، اب غریب تر!

    ٹونا مچھلی کی فروخت کے علاوہ، اس خطے میں پکڑی جانے والی کچھ مچھلیوں کے مختلف حصے (سوئم بلیڈرز) مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیائی منڈیوں میں قیمتی خوراک سمجھے جاتے ہیں مگر سرحد بند ہونے کے باعث ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے جس کی وجہ سے زمین اور سمندر دونوں کے ذریعے نقل و حمل کے اخراجات بڑھ گئے ہیں۔ نتیجتاً ہزاروں کلوگرام قیمتی تازہ مچھلی فروخت نہیں ہو پا رہی۔

    گوادر کے ماہی گیر نا خدا داد کریم کے مطابق، مقامی منڈی اتنی مضبوط نہیں کہ اضافی مال خرید سکے اور خاص طور پر دور دراز ساحلی قصبوں میں کولڈ اسٹوریج کی سہولتیں بھی نہایت محدود ہیں۔

    مچھلی کو برآمد کے لیے محفوظ کرنے کے طریقوں جیسے کیننگ یا فریزنگ کی کمی یا کہیں کہیں عدم موجودگی کے باعث یہ بحران بلوچستان کی معیشت کے مختلف شعبوں تک پھیل رہا ہے۔

    کلمتی کا کہنا ہے ”باقاعدہ تجارتی راستوں اور مچھلی محفوظ کرنے کے مناسب انتظامات کے بغیر پوری سپلائی چین تباہ ہو رہی ہے۔ برف بنانے والی فیکٹریاں، مچھلی لے جانے والے، پروسیسنگ فیکٹریوں کے مالکان اور کشتیوں کے مکینک ، سبھی متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ صرف ماہی گیری کا بحران نہیں بلکہ ایک مکمل اقتصادی ایمرجنسی ہے۔”

    اس تمام صورت حال نے ماہی گیروں کی پکڑی ہوئی مچھلی کی قیمتیں مزید گرا دی ہیں۔

    کریم کہتے ہیں ”میں چالیس سال سے سمندر میں جا رہا ہوں، لیکن کبھی اتنے خراب حالات نہیں دیکھے۔ پہلے ہم ایک سفر پر تقریباً 15,000 روپے (53 ڈالر) خرچ کرتے تھے اور اتنی مچھلی پکڑ لاتے کہ تھوڑا بہت منافع ہو جاتا۔ اب تو صرف ایندھن کا خرچ 30,000 روپے (106 ڈالر) سے تجاوز کر گیا ہے، اور ہم اب اپنی پکڑی ہوئی مچھلی بھی اچھی قیمت پر نہیں بیچ سکتے۔ ہر سمندری سفر میں ایسا لگتا ہے جیسے ہم اپنے مستقبل کو داﺅ پر لگا رہے ہوں۔”

    ناخداداد کریم جیسے بہت سے ماہی گیر اب اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے سخت جدوجہد کر رہے ہیں۔ ان کا چھوٹا بیٹا، جو ان ہی کی کشتی پر ان کے ساتھ ماہی گیری میں ہاتھ بٹاتا تھا، اب تعمیراتی کام میں مزدوری کا سوچ رہا ہے کیونکہ وہاں مواقع نسبتاً بہتر ہیں۔

    جمایت جانگیر بلوچ گوادر کے ایک ماہی گیر اور ”مول ہولڈر“ ہیں، یعنی وہ سرکاری طور پر تصدیق شدہ مچھلی کے تاجر ہیں۔

    وہ کہتے ہیں، ”ہم میں سے کچھ لوگوں نے سمندر میں جانا چھوڑ دیا ہے، نقصان اٹھانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ پہلے ہم اسپینش میکریل، باراکوڈا، بڑی کراکر مچھلیاں اور ٹونا ایرانی خریداروں کو بیچتے تھے۔ وہ ہمیں نقد اچھے دام دیتے تھے۔ اب کوئی خریدنے والا ہی نہیں، اور مقامی تاجر بھی آدھی قیمت لگا رہے ہیں۔“

    خشکی پر خواتین کے دکھ!

    اگرچہ سمندر میں جا کر مچھلی پکڑنے کا کام زیادہ تر مرد کرتے ہیں، لیکن اس بحران سے خواتین بھی بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔

    گوادر سے تعلق رکھنے والی حلیمہ بلوچ کہتی ہیں”یہاں خواتین مچھلی نہیں پکڑتیں، لیکن ہم مچھلیوں کی درجہ بندی کرتے ہیں، انہیں سکھا کر بیچتے ہیں۔ اب جب کاروبار ٹھپ ہو گیا ہے تو ہماری مزدوری بھی ختم ہو گئی ہے۔“

    ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور مچھلی کی برآمدی منڈی کے ختم ہو جانے سے بہت سی کشتیاں سمندر میں جانا بند ہو گئی ہیں، جس کی وجہ سے ساحلی برادریاں سستی مچھلی سے بھی محروم ہو گئی ہیں جس پر ان کا روزگار اور خوراک دونوں کا انحصار تھا۔

    پاکستان فشر فوک فورم کے طالب کچھی، جو ماہی گیر برادریوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم کے رکن ہیں، ڈائیلاگ ارتھ کو بتاتے ہیں کہ یہ برادریاں صرف پیسے ہی نہیں بلکہ اپنی خوراک کا ذریعہ بھی کھو رہی ہیں۔

    وہ کہتے ہیں، ”جو خواتین آزادانہ طور پر مچھلی فروخت کرکے کچھ پیسے کماتیں اور اپنے خاندان کے لیے خوراک کا انتظام کرلیتی تھیں ، وہ اب پریشان ہیں ، اب وہ سستی ترین مچھلیاں جیسے سارڈین اور انڈین میکریل خریدنے کے قابل بھی نہیں رہیں، جس کی وجہ سے کم آمدنی والے طبقے کے لیے خوراک تک رسائی محدود ہو گئی ہے۔”

    فشر فوک کوآپریٹو سوسائٹی گوادر کے جنرل سیکریٹری سمیع گل کا کہنا ہے،”مچھلی پروسیسنگ کرنے والی خواتین کی اجرتوں میں بھی کمی آ رہی ہے، اور چھوٹے دکان داروں کو فروخت کے لیے سستی مچھلی نہیں مل رہی۔“

    وہ مزید کہتے ہیں ”غریب لوگ مرغی یا گوشت خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے لہذا اگر یہی صورت حال جاری رہی تو یہ ایک سنگین غذائی قلت اور غذائی بحران کو جنم دے سکتی ہے۔“

    گوادر چیمبر آف کامرس کے کلمتی کا مطالبہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں فوری مداخلت کریں، ماہی گیروں کے لیے ایندھن پر زر تلافی کا اعلان کریں اور سرحد کو کھول کر باقاعدہ ضابطے کے تحت تجارت بحال کریں۔

    سرکاری عہدیدار علاﺅالدین ککر بھی اس بحران کی سنگینی کو تسلیم کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ”ہم نے 38 کروڑ روپے (1.34 ملین امریکی ڈالر) کے اعانتی فنڈ کی تجویز پیش کی ہے، جس کا مقصد ماہی گیری شعبے میں ایمرجنسی بنیادوں پر مہنگے ایندھن کے لیے زر تلافی، فلاحی اسکیمیں اور متاثرہ ماہی گیروں کے لیے معاوضے کی ادائیگی ہے۔

    بلوچستان رورل سپورٹ پروگرام کے طاہر رشید کہتے ہیں کہ اگر صوبے میں کولڈ اسٹوریج، کیننگ اور دیگر جدید بنیادی سہولتیں فراہم کی جائیں تو ماہی گیری کی صنعت کو ایک منافع بخش برآمدی شعبے میں بدلا جا سکتا ہے۔ اس سے بارٹر سسٹم پر انحصار کم ہوگا اور معیشت کو فائدہ پہنچے گا۔ لیکن وہ خبردار کرتے ہیں ”ہمیں فوری طور پر اقدام کرنا ہوگا۔“

    بلوچستان کی ماہی گیری کی صنعت، جو کبھی ساحلی معیشت کا ستون تھی، اب تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ اگر بروقت اور مربوط اقدامات نہ کیے گئے تو اس کے اثرات صوبے کی سرحدوں سے کہیں آگے تک محسوس ہوں گے۔

    (شبینہ فراز اور عبدالرحیم کی یہ رپورٹ ڈائلاگ ارتھ پر شایع ہوچکی ہے اور اس لنک کی مدد سے پڑھی جاسکتی ہے)

  • ایک اور ماہی گیر  پر قدرت مہربان ہوگئی

    ایک اور ماہی گیر پر قدرت مہربان ہوگئی

    الہ آباد: چونیاں میں کنگن پور کے ماہی گیر نے دریائے ستلج سے 6 فٹ لمبی اور 110 کلو وزنی مچھلی پکڑ لی۔

    تفصیلات کے مطابق کنگن پور کے ماہی گیر پر قدرت مہربان ہوگئی ، ماہی گیر نے دریائے ستلج سے 6 فٹ لمبی اور 110 کلو وزنی مچھلی پکڑ لی اور مچھلی کو فروخت کرنے کے لیے لاہور روانہ ہوگیا۔

    ماہی گیر کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے آج تک اتنے وزن کی مچھلی نہیں پکڑی، پہلی بار دریائے ستلج میں اتنی لمبی اور وزنی مچھلی پکڑی گئی ہے۔

    یاد رہے چند ہفتے قبل کراچی میں ابراھیم حیدری کے ماہی گیروں کے جال میں کروڑوں روپے مالیت کی نایاب مچھلیاں پھنس گئیں تھیں۔

    کراچی فش ہاربر پر نایاب مچھلیوں ’’سُوا‘‘ کی اس کھیپ کا سودا 70 کروڑ روپے میں طے ہوا،بنیادی طور پر اس مچھلی کو ’کروکر‘ اور ’شیڈ فش‘ بھی کہا جاتا ہے۔ مارکیٹ میں اس کی قیمت 4ہزار روپے فی کلو ہے۔

  • پاک میرینز نے سگھانڈو دریا میں ڈوبتے 4 ماہی گیروں کو بچا لیا

    پاک میرینز نے سگھانڈو دریا میں ڈوبتے 4 ماہی گیروں کو بچا لیا

    کراچی: پاک میرینز نے سگھانڈو دریا میں ڈوبتے 4 ماہی گیروں کو بچا لیا۔

    تفصیلات کے مطابق صبح 8 بجے کے قریب سگھانڈو دریا پر اللہ مولا نام کا ہاوڑہ (چھوٹی کشتی) تکنیکی خرابی کے باعث ڈوب گیا، جس پر چار ماہی گیر سوار تھے۔

    پاک میرینز کی پیٹرولنگ ویزل نے بروقت ریسکیو آپریشن کر کے ماہی گیروں کو بچا لیا، بعد ازاں متاثرہ ماہی گیروں کو پاک میرینز نے ابتدائی طبی امداد فراہم کر کے میرین بوٹ پر روانہ کر دیا۔

    ماہی گیروں میں نقوی عبداللہ بوریو، کارو موریو، جمیل بوریو اور شفیق بوریو شامل ہیں، جن کا تعلق گوٹھ قاسم بوریو سے ہے۔ واضح رہے کہ کریکس کے دلدلی علاقوں میں آئے روز ماہی گیروں کو حادثات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    پاک بحریہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پاک میرینز ماہی گیروں کو ریسکیو اور امدادی سہولیات کی فراہمی کے لیے مستعد رہتی ہے۔

  • ماہی گیروں کی قسمت بدل گئی، کروڑوں مالیت کی قیمتی مچھلیاں

    ماہی گیروں کی قسمت بدل گئی، کروڑوں مالیت کی قیمتی مچھلیاں

    کراچی : قدرت ابراھیم حیدری کے ماہی گیروں پر مہربان ہوگئی، کروڑوں روپے مالیت کی نایاب مچھلیاں ان کے جال میں پھنس گئیں۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی فش ہاربر پر نایاب مچھلیوں ’’سُوا‘‘ کی اس کھیپ کا سودا 70 کروڑ روپے میں طے ہوا،

    گہرے پانیوں میں کئی عشرے گزارنے والے ان ماہی گیروں کی قسمت بدل گئی، بنیادی طور پر اس مچھلی کو ’کروکر‘ اور ’شیڈ فش‘ بھی کہا جاتا ہے۔ مارکیٹ میں اس کی قیمت 4ہزار روپے فی کلو ہے۔

    ذرائع کے مطابق مذکورہ ’سُوا‘ مچھلیاں حاجی یونس بلوچ نامی ماہی گیر کے جال میں آئیں۔ ماہی گیر کے جال میں 1500 سے 1600 مچھلی کے دانے آئے ہیں۔

    ذرائع کے مطابق سوا مچھلی کے پیٹ سے نکلنے والی فوٹا چربی سے آپریشن کا دھاگہ بنتا ہے، اس کو گولڈن سوا کہتے ہیں، یہ مچھلی نایاب ہوچکی ہے، اس کی فوٹا چربی بھی انتہائی قیمتی ہوتی ہے۔

  • تیز ہواؤں کے باعث سمندر میں کشتی الٹ گئی، ایک ماہی گیر جاں بحق

    تیز ہواؤں کے باعث سمندر میں کشتی الٹ گئی، ایک ماہی گیر جاں بحق

    کراچی: شہر قائد کے علاقے ابراہیم حیدری کے قریب کھلے سمندر میں تیز ہواؤں کے باعث کشتی الٹ گئی جس کے نتیجے میں ایک ماہی گیر جاں بحق ہوگیا۔

    ترجمان کوسٹل میڈیا سینٹر کے مطابق کراچی کے علاقے ابراہیم حیدری کے قریب تیز ہواؤں کے باعث سمندر میں کشتی الٹ گئی جس کے نتیجے میں متعدد ماہی گیر زخمی جبکہ ایک ماہی گیر جاں بحق ہوگیا۔

    ترجمان کوسٹل میڈیا سینٹر نے بتایا کہ کشتی میں 16ماہی گیر سوار تھے، حادثے کے شکار تمام ماہی گیروں کا تعلق ابراہیم حیدری سے ہے۔

    ترجمان نے بتایا کہ سمندر میں پھنسے ماہی گیروں کو ریسکیو کیا جا رہا ہے، جاں بحق ہونے والے ماہی گیر کی شناخت محمد کے نام سے ہوئی ہے۔

  • دریائے سندھ کے کنارے قائم آبادیوں کے ماہی گیروں پر قدرت مہربان

    دریائے سندھ کے کنارے قائم آبادیوں کے ماہی گیروں پر قدرت مہربان

    کراچی: دریائے سندھ کے کنارے قائم آبادیوں کے ماہی گیروں پر قدرت مہربان ہو گئی ہے، سیلابی پانی کی وجہ سے مختلف اقسام کی مچھلیوں کی آمد نے ان کے روزگار کو بحال کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق دریائے سندھ کے کنارے قائم آبادیوں ٹھٹھہ، سجاول، ٹنڈو حافظ شاہ، کیٹی بندر کے ماہی گیروں کے روزگار میں اضافہ ہو گیا ہے۔

    دریائے سندھ کے سیلابی پانی کے ساتھ مخلتف اقسام کی مچھلیوں کی آمد سے ماہی گیروں کے لیے مچھلی کا شکار وافر مقدار میں دستیاب ہو گیا ہے۔

    گزشتہ ایک دہائی سے دریائے سندھ کا پانی سمندر سے کافی پیچھے رہ جانے، اور سمندر کا پانی اوپر آنے سے ماہر گیر بے روزگار ہو کر کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے۔

    3 ہزار کلو میٹر سے زائد سفر طے کر کے سیلابی ریلا سمندر میں شامل ہونا شروع

    ذرائع محکمہ فشریز کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ کا پانی سمندر میں ملنے سے کیٹی بندر اور اطراف کی ساحلی پٹی، کریکس اور کھاڑیوں میں جھینگے اور مچھلی افزائش میں اضافہ ہوگا۔

  • مچھلی کی ’قے‘ نے ماہی گیروں کو کروڑ پتی بنادیا؟

    مچھلی کی ’قے‘ نے ماہی گیروں کو کروڑ پتی بنادیا؟

    کیا آپ نے ایسا خوش قسمت مچھیرا دیکھا جو مچھلیاں پکڑنے جائے مگر مچھلی کے پیٹ کی غلاظت لے کر آئے اور پھر امیر ہوجائے۔

    ایسے واقعات کم و بیش ہی پیش آتے ہیں کیونکہ ماہی گیر کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ ایسی چیزیں تلاش کرے جس سے اُس کی قسمت بدل جائے۔

    مگر بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ خوش قسمت شکاری مچھلی کے انتظار میں رہتے ہیں مگر اُن کے ہاتھ ایسی کوئی نایاب چیز لگ جاتی ہے جس سے اُن کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں۔

    ایسا ہی کچھ بھارتی ریاست کیرالا میں ماہی گیروں کے ساتھ ہوا جنہیں 28 کروڑ روپے مالیت کی وہیل مچھلی کی ’قے‘ مل گئی۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق ماہی گیروں کو سمندر میں 28.400 کلو گرام وزنی امبرگریس مل گئی جو انہوں نے ساحل پر لا کر ساحلی پولیس کے حوالے کر دی۔

    ساحلی پولیس نے میڈیا کو بتایا کہ ماہی گیروں نے امبرگریس ہمارے حوالے کی ہے۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ اس ضمن میں ہم نے محکمہ جنگلات کو مطلع کیا ہے اور انہوں نے یہ ہم سے وصول کی۔

    پرفیوم بنانے میں استعمال ہونے والی ایک کلو امبرگریس کی بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمت تقریباً ایک کروڑ روپے ہے۔

    بھارت میں قانون کے تحت امبرگریس کی فروخت ممنوع ہے۔

  • ماہی گیروں کو کروڑ پتی بنانے والی مچھلی ان دنوں ساحل پر کیوں آتی ہے؟

    ماہی گیروں کو کروڑ پتی بنانے والی مچھلی ان دنوں ساحل پر کیوں آتی ہے؟

    کراچی: ماہرین کا کہنا ہے کہ ماہی گیروں کو کروڑ پتی بنانے والی مچھلی کروکر (سووا مچھلی) ان دنوں ساحل پر انڈے دینے آتی ہے، دو دن قبل جیوانی کے ایک اور مچھیرے پر قسمت مہربان ہو گئی تھی اور اس کے جال میں پھنسنے والے کروکر نے اسے کروڑ پتی بنا دیا تھا۔

    مقامی ماہرین کا کہنا ہے کہ رواں موسم میں اس نایاب مچھلی کی مادہ ساحل کے قریب انڈے دینے کے لیے آتی ہے، جس کی وجہ سے یہ ماہی گیروں کے جال میں پھنس جاتی ہے۔

    ذرائع کے مطابق یہ نایاب مچھلی بیچنے اور فروخت کرنے والوں دونوں کا نام مختلف وجو ہ کی بنا پر زیادہ تر سامنے نہیں آتا۔

    یاد رہے کہ دو دن قبل جیوانی کے سمندر سے پکڑی گئی نایاب مچھلی ایک کروڑ، 35 لاکھ 80 ہزارروپے میں نیلام ہوئی تھی، گوادر کی تحصیل جیوانی کے سمندر سے پکڑی گئی مچھلی کا وزن 48 کلو 500 گرام تھا۔

    غریب ماہی گیر پر قدرت مہربان ، راتوں رات کروڑ پتی بن گیا

    مقامی زبان میں اس مچھلی کو کِر اور سووا کہا جاتا ہے، گزشتہ روز اس مچھلی کو جیوانی میں 2 لاکھ 80 ہزار روپے فی کلو کے حساب سے 1 کروڑ، 35 لاکھ 80 ہزارروپے میں نیلام کیا گیا تھا۔

    ذرائع کے مطابق نیلامی میں یہ نایاب مچھلی کراچی سے مچھلی منڈی کے بیوپاریوں نے خریدی، مقامی ماہی گیری کے ذرائع کے مطابق نایاب مچھلی کے گوشت کی کچھ زیادہ قدر و قیمت نہیں ہے، بلکہ مچھلی کی قیمت اصل میں مچھلی کے پیٹ میں پائے جانے والے خاص مادے کی وجہ سے ہے۔

    اس مچھلی کے پیٹ میں مادہ یا پوٹا مخصوص قسم کی ادویات کی تیاری میں استعمال ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ مچھلی لاکھوں روپے میں فروخت ہوتی ہے۔

  • غریب ماہی گیر پر قدرت مہربان ، راتوں رات کروڑ پتی بن گیا

    غریب ماہی گیر پر قدرت مہربان ، راتوں رات کروڑ پتی بن گیا

    گوادر : ایک ہی مچھلی نےغریب ماہی گیر کو راتوں رات کروڑ پتی بنا دیا ، دوران شکار انتہائی قیمتی سوامچھلی ماہی گیر کے جال میں پھنس گئی۔

    تفصیلات کے مطابق ایک اورماہی گیر پر قدرت مہربان ہوگئی، ایک مچھلی نے گوادر کے غریب ماہی گیر کو کروڑ پتی بنا دیا۔

    دوران شکار انتہائی قیمتی سوا مچھلی ماہی گیر کے جال میں پھنس گئی ، ماہی گیر نے جیونی کی منڈی میں 48.5 کلو وزنی سوامچھلی ایک کروڑ 35 لاکھ 80ہزار میں نیلام کی۔

    یاد رہے رواں ماہ ہی گوادر میں غریب مچھیرے کے جال میں قیمتی سوا مچھلیاں پھنس گئیں تھیں، جیونی کی منڈی میں 21 کلو وزنی سوا مچھلی 3 لاکھ 88 ہزار 500 اور 15 کلو وزنی سوا مچھلی ایک لاکھ 39ہزار میں نیلام ہوئی۔

    سوا مچھلی کی بولی فی کلو 4000 سےشروع ہوکر 18500 فی کلو تک پہنچ گئی تھی۔

    خیال رہے کہ بلوچستان کے ساحل پر نایاب مچھلیاں بڑی تعداد میں پائی جاتی ہیں، اور مقامی ماہی گیر اکثر ایسی نایاب مچھلیوں کا شکار کرتے رہتے ہین، جن کی بین الاقوامی مارکیٹ میں بہت زیادہ قیمت ہوتی ہے۔

    سوّا مچھلی کو انگریزی میں کروکر (Croaker) اور بلوچی میں کر کہا جاتا ہے، مقامی مچھیروں کو کہنا ہے کہ اس مچھلی کے شکار کے دو مہینے ہوتے ہیں اس لیے اس کو پکڑنے کے لیے ماہی گیروں کو بہت سارے جتن کرنے پڑتے ہیں

  • جیوانی: ماہی گیروں نے لاکھوں روپے مالیت کی قیمتی مچھلی شکار کر لی

    جیوانی: ماہی گیروں نے لاکھوں روپے مالیت کی قیمتی مچھلی شکار کر لی

    جیوانی: ماہی گیروں نے لاکھوں روپے مالیت کی قیمتی مچھلی کروکر شکار کر لی۔

    تفصیلات کے مطابق جیوانی بلوچستان کے سمندر میں ماہی گیروں نے 18 کروکر مچھلیاں جسے بلوچی میں کِر اور سندھ میں سوا کہا جاتا ہے، شکار کر لی ہے۔

    ٹیکنیکل ایڈوائزر ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان معظم خان کے مطابق ان 18 کروکر مچھلیوں سے ماہی گیروں کو کل 8 لاکھ روپے کی آمدنی ہوئی ہے۔

    معظم خان نے بتایا کہ کروکر مچھلی بہت قیمتی ہوتی ہے جس کی ایک بہت بڑی مارکیٹ چین بھی ہے، اس مچھلی کا گوشت بھی قیمتی ہوتا ہے، اور اس کے قیمتی ہونے کی اصل وجہ اس کا ایئر بلیڈر ہے۔

    انھوں نے بتایا کہ چین میں اس ایئر بلیڈر کو بہترین کھانوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، مچھلی کے ایئر بلیڈر کو سُکھا کر چین کو بیچا جاتا ہے۔

    قسمت مہربان، ماہی گیر راتوں رات لکھ پتی بن گیا

    معظم خان کا کہنا ہے کہ جس طرح ہم سرمایہ کاری کے طور پر گھر میں سونا خرید کر رکھتے ہیں، چین میں لوگ اس کروکر مچھلی کے خشک ایئر بلیڈر کو رکھتے ہیں۔