سندھ اور بلوچستان کے سمندری علاقوں میں گِل نامی جال کے استعمال سے ہر سال 28 ہزار کچھوے، ڈولفن اور چھوٹی مچھلیاں پھنس کر مر جاتی ہیں۔ سندھ اور بلوچستان حکومت کے دعوؤں کے باوجود ان جالوں کا استعمال کھلے عام جاری ہے۔
گج نامی جال پاکستان کی آبی حیات اور ماحولیاتی نظام کے لیے تباہ کن ثابت ہو رہے ہیں، ابراہیم حیدری سے لے کر انڈیا کے ساحل تک 70 ہزار جال لگائے گئے ہیں، اس باریک جال میں بڑی مچھلیوں کے ساتھ چھوٹی مچھلیاں اور دیگر آبی حیات کے بچے بھی پھنس جاتے ہیں۔
کراچی فشریز اینڈ ماہی گیر ایسوسی ایشن کے صدر مجید موٹانی کا کہنا ہے کہ گل گجو نامی خطرناک جال ابراہیم حیدری مینگروز کے جنگل سے لے کر انڈیا کے ساحلی علاقوں تک لگا ہوا ہے، جو آبی حیات کے وجود کو تباہ کر رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سمندری وسائل کے استحصال میں خود مچھیرے بھی پوری طرح شریک ہیں۔
ماہی گیری کی صنعت پاکستان میں 8.1 ملین لوگوں کو روزگار فراہم کرتی ہے، ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ اگر مچھلیوں کے شکار کے لیے اِن ممنوعہ جالوں کا استعمال جاری رہا، تو وہ دن دور نہیں جب یہ سمندری وسائل خواب و خیال بن جائیں گے۔
کراچی: سندھ کے سمندری علاقوں میں ماہی گیری پر پابندی عارضی طور پر معطل کر دی گئی۔
تفصیلات کے مطابق مون سون سیزن میں سندھ میں سمندر میں مچھلی کے شکار پر پابندی عائد کی گئی تھی، تاہم یہ پابندی اب عارضی طور پر اٹھالی گئی ہے۔
محکمہ لائیو اسٹاک اور فشریز کی جانب سے 20 دن کے لیے ماہی گیری پر عائد پابندی ختم کرنے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ محکمہ لائیو اسٹاک اینڈ فشریز سندھ کا کہنا ہے کہ ماہی گیری پر عائد پابندی یکم جون سے 20 جون تک ختم کی گئی ہے۔
پابندی کے عارضی خاتمے کے بعد اب بیس جون تک ماہی گیر سمندر میں مچھلی کا شکار کر سکیں گے، واضح رہے کہ مچھلی پر پابندی کے باعث مارکیٹ میں مچھلی کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا تھا، جس میں اب کمی کا امکان ہے۔
آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں سمندروں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ رواں برس یہ دن سمندر: زندگی اور ذریعہ معاش کے عنوان کے تحت منایا جارہا ہے۔
سمندروں کا عالمی دن منانے کی تجویز سنہ 1992 میں دی گئی تھی اور تب سے اسے مختلف ممالک میں انفرادی طور پر منایا جارہا تھا تاہم 2008 میں اقوام متحدہ نے اس دن کی منظوری دی جس کے بعد سے اس دن کو باقاعدہ طور پر پوری دنیا میں منایا جانے لگا۔
اس دن کو منانے کا مقصد انسانی زندگی میں سمندروں کی اہمیت، آبی جانوروں کے تحفظ اور سمندری آلودگی میں کمی کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا ہے۔
سمندروں کو زمین کے پھیپھڑے کہا جاتا ہے، سمندر آبی حیات کے مرکز سے لے کر ہمیں غذا اور دواؤں کا بڑا حصہ فراہم کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ مقامی مچھلیوں کو بطور غذا استعمال کرنے (جس سے مقامی ماہی گیروں اور معیشت کو فائدہ ہو)، سے لے کر سمندروں کو پلاسٹک سمیت ہر طرح کی آلودگی سے بچانے کے لیے ہمیں اپنا کردار ادا کرنا ضروری ہے۔
ماہی گیری کی صنعت پاکستان سمیت دنیا بھر کی معیشت کا ایک اہم حصہ ہے۔
پاکستانی ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ماہی گیری کی صنعت بغیر کسی قواعد و ضوابط کے ملکی جی ڈی پی میں 100 ارب روپے سے زائد ریونیو کی حصے دار ہے، اگر اسے منظم اور جدید خطوط پر استوار کیا جائے تو یہ ملکی معیشت کا اہم ستون ثابت ہوگی۔
پاکستانی سمندروں میں اس وقت غیر ملکی افراد کو ٹرالنگ کی اجازت دینے کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے وہ ہمارے سمندروں کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔
ماہی گیروں کے مطابق وہ اسے ماس کلنگ کا نام دیتے ہیں، ہیوی مشینری کے ذریعے ٹرالنگ کرنے سے اس جگہ موجود تمام سمندری حیات اوپر آجاتی ہے جن کی مقدار ہزاروں ٹن تک ہوتی ہے۔ بعد ازاں اس میں سے قابل فروخت مچھلیاں اور جھینگے وغیرہ نکال کر بقیہ مردہ جاندار واپس سمندر میں ڈال دیے جاتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ مردہ جاندار سمندر کی آلودگی میں اضافے کا باعث ہیں، ٹرالنگ ہمارے سمندری وسائل کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ نے پلاسٹک کی آلودگی کو سمندروں کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا ہے، اقوام متحدہ کے مطابق سنہ 2050 تک ہمارے سمندروں میں آبی حیات سے زیادہ پلاسٹک موجود ہوگی۔
کراچی کا علاقہ ابراہیم حیدری ماہی گیروں کی قدیم بستی ہے، تاریخی اوراق کے مطابق ایک زمانے میں یہ بستی عظیم دریائے سندھ کا راستہ تھی جو یہاں سے گزرتا تھا۔ پھر وقت بدلا تو دریا نے بھی اپنا راستہ بدل لیا اور یوں یہاں سے گزرنے والا راستہ خشک ہوگیا۔ طویل عرصے تک یہ جگہ یوں ہی خشک رہی، اس کے بعد سمندر نے خالی راستہ دیکھا تو اپنا ڈیرہ جما لیا۔
کہا جاتا ہے کہ سمندر کے یہاں آجانے کے بعد ایک بار کچھ ماہی گیر یہاں چند لمحوں کو ٹھہرے تو انہیں یہ جگہ بے حد پسند آئی اور وہ یہیں بس گئے، تب سے اب تک یہ علاقہ ماہی گیروں کا علاقہ ہے۔
اس علاقے میں قدم رکھتے ہی مچھلی کی مخصوص مہک ہر جانب پھیلی محسوس ہوتی ہے، علاقے میں ماہی گیری سے متعلق تمام ساز و سامان کی دکانیں موجود ہیں جن میں سرفہرست جالوں کی دکانیں ہیں۔
یہاں پر کشتی سازی کے بھی کئی کارخانے موجود ہیں جہاں چھوٹی بڑی ہر قسم کی کشتیاں تیار کی جاتی ہیں، کشتی سازی کا کام کراچی کے ابراہیم حیدری کے علاوہ بلوچستان کے شہروں گوادر، پسنی، جیوانی اور سونمیانی وغیرہ میں بھی ہوتا ہے۔
پوری دنیا میں جہاں کشتی سازی جدید مشینوں کے ذریعے انجام دی جارہی ہے، وہیں پاکستان میں اب بھی یہ کام انسانی ہاتھوں کے ذریعے ہورہا ہے۔ لکڑی کی کٹائی کے لیے چند ایک مشینوں کے استعمال کے علاوہ بقیہ تمام کام کاریگر اپنے ہاتھوں سے انجام دیتے ہیں اور ان کے سخت ہاتھ ایسی مضبوط کشتیاں تیار کرتے ہیں جو بڑے بڑے سمندری طوفانوں سے نکل آتی ہیں۔
کاشف کچھی بھی ابراہیم حیدر کے رہائشی ہیں، وہ ایک کشتی ساز کارخانے کے نگران ہیں جہاں سینکڑوں کشتیاں تیار ہوتی ہیں۔ کاشف ڈسٹرکٹ کونسلر بھی رہ چکے ہیں جبکہ سماجی کارکن بھی ہیں۔
کاشف کا کہنا ہے کہ کشتیاں بنانے کے لیے زیادہ تر لکڑی باہر سے درآمد کی جاتی ہے، اس سے قبل اس کے لیے مقامی لکڑی استعمال کی جارہی تھی تاہم ملک میں غیر قانونی طور پر درختوں کی کٹائی کی وجہ سے جنگلات کے رقبے میں خطرناک کمی آئی ہے جس کے بعد اب کشتی سازی کی صنعت جزوی طور پر درآمد شدہ لکڑی پر انحصار کر رہی ہے۔
پاکستان میں تحفظ ماحولیات کے ایک ادارے کے غیر سرکاری اور محتاط اندازے کے مطابق ملک میں کشتی سازی کے لیے سالانہ 12 لاکھ کیوبک فٹ درآمد شدہ جبکہ 2 لاکھ کیوبک فٹ مقامی لکڑی استعمال ہوتی ہے۔
کاشف نے بتایا کہ کشتی سازی کے لیے کیکر، برما ٹیک، شیشم اور چلغوزے کے درختوں کی لکڑی کو بہترین سمجھا جاتا ہے۔ لکڑی کاٹنے کے لیے ٹرالی مشین اور بینسا مشین استعمال ہوتی ہیں، کاشف کے مطابق لکڑی کے بڑے اور چوڑے تختے ہی اس مقصد کے لیے کارآمد ہوتے ہیں۔
کیا فائبر لکڑی کا متبادل ہوسکتا ہے؟
کشتی سازی سے جنگلات پر پڑنے والے اس دباؤ کو کم کرنے کے لیے ایک دہائی قبل فائبر گلاس کی کشتیاں بنانے کا رجحان شروع ہوا، تاہم کاشف کچھی کے مطابق فائبر کی کشتی کے حوالے سے بے شمار تحفظات ہیں۔
پہلا تشویشناک امر تو یہ ہے کہ اگر فائبر کی کشتی بنائی جائے تو اس کی لاگت میں کم از کم 4 گنا اضافہ ہوجاتا ہے، لکڑی کی وہ کشتی جو 10 سے 12 لاکھ روپے میں تیار ہوجاتی ہے، اسی سائز کی فائبر کی کشتی بنانے جائیں تو صرف اس میں فائبر کا کام ہی 40 سے 45 لاکھ تک چلا جاتا ہے۔ پھر اس کی دیگر بنائی کے اخراجات الگ ہیں۔
فائبر کی کشتی کا وزن برابر کرنے کے لیے لامحالہ اس میں لکڑی ہی لگائی جاتی ہے۔ یوں اس کی بنائی کے تمام اخراجات کشتی مالکان کی پہنچ سے باہر ہوجاتے ہیں۔
فائبر سے بنی کشتی
کاشف کے مطابق دوسرا پہلو اس کے غیر محفوظ ہونے کا بھی ہے۔ لکڑی کی کشتی سمندر میں کسی وزنی اور ٹھوس شے سے ٹکرا جائے تو وہ ایسے جھٹکے برداشت کرسکتی ہے، سمندر میں کسی نوکیلی شے سے لکڑی کی کشتی میں معمولی سا سوراخ ہوجاتا ہے جو عارضی طور پر کوئی کپڑا ٹھونس کر بند کیا جاتا ہے تاکہ کسی کنارے تک پہنچا جاسکے اور پھر اس کی باقاعدہ مرمت کی جاسکے۔
فائبر کی کشتی کسی چیز سے ٹکرا جائے تو اس کے پھٹنے کے خدشات بہت زیادہ ہوتے ہیں اور ایک بار اسے نقصان پہنچ جائے تو وہ ناقابل تلافی ہوتا ہے جس کے بعد اس پر سوار ماہی گیر سمندر کی موجوں کے رحم و کرم پر رہ جاتے ہیں۔
کشتی کس کی ملکیت ہوتی ہے؟
کشتیوں کی بنائی کے حوالے سے کاشف نے مزید بتایا کہ چھوٹی کشتی کو ہوڑا کہا جاتا ہے، جبکہ بڑی کشتی، لانچ کہلاتی ہے۔ سب سے چھوٹی کشتی 15 سے 16 فٹ طویل ہوتی ہے جس میں 2 افراد کے سوار ہونے کی گنجائش ہوتی ہے جبکہ اس کی لاگت 80 ہزار سے 1 لاکھ روپے تک ہوتی ہے۔
بعض بڑی کشتیوں کی قیمت 2 کروڑ تک بھی جا پہنچتی ہے۔
کشتی میں لکڑی کا کام مکمل ہوجانے کے بعد اسے سمندر میں اتارا جاتا ہے اور چند دن پانی میں رکھا جاتا ہے، اس کے بعد اسے نکال کر اس میں انجن اور دیگر مشینری لگائی جاتی ہے۔
کشتی تیاری کے مراحل میںکشتی تیاری کے مراحل میںکشتی کا اندرونی حصہ۔ تصویر: جی ایم بلوچ
کاشف نے بتایا کہ کسی ایک ماہی گیر کے لیے کشتی خریدنا آسان بات نہیں، اکثر اوقات کئی ماہی گیر مل جل کر کشتی خریدتے ہیں اور بعد ازاں مچھلیوں کی فروخت سے ہونے والی آمدنی آپس میں تقسیم کرتے ہیں۔
بعض افراد جو کشتی خرید سکنے کی سکت رکھتے ہیں، وہ خرید کر اسے ٹھیکے پر یا کوئی اور طریقہ کار طے کرنے کے بعد ماہی گیروں کے حوالے کردیتے ہیں اور بعد ازاں مچھلیوں کی فروخت میں منافع کے حصے دار ہوتے ہیں۔
آبی آلودگی کشتیوں کے لیے بھی نقصان دہ
کاشف کچھی نے بتایا کہ ہر ماہ یا مہینے میں دو بار کشتی کے بیرونی پیندے پر مچھلی کی چکنائی کا ایک آمیزہ لگایا جاتا ہے، اس سے لکڑی خشک نہیں ہوتی۔ خشک لکڑی سمندر کے نمکین پانی سے جلد خراب ہوسکتی ہے تو یہ چکنائی کشتی کی عمر بڑھا دیتی ہے، علاوہ ازیں اس سے کشتی کی رفتار بھی متوازن رہتی ہے۔
کشتیوں پر خوبصورت نقش و نگار بھی بنائے جاتے ہیں جس کے لیے رنگ ساز کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں
البتہ اب آبی آلودگی کے باعث کشتیوں کی ٹوٹ پھوٹ اور خراب ہونے کی شرح بڑھ گئی ہے۔ پہلے ایک کشتی کی عمر 12 سے 15 سال تک ہوتی تھی تاہم اب یہ جلد خراب ہونے لگی ہیں۔
کاشف کے مطابق فیکٹریوں کا سمندر میں ڈالا جانے والا فضلہ جس میں زہریلے کیمیکل شامل ہوتے ہیں، ایک طرف تو سمندری حیات کے لیے موت کا پروانہ ہیں تو دوسری طرف کشتیوں کے لیے بھی نقصان دہ ہیں۔
ماہی گیروں کی عقیدت و روایات
کاشف نے بتایا کہ ماہی گیر سمندر سے رزق کماتے ہیں لہٰذا سمندر ان کے لیے نہایت اہمیت رکھتا ہے، وہ اپنے کام سے اس قدر عقیدت رکھتے ہیں کہ سمندر پر جانے سے قبل وضو کرنا نہیں بھولتے۔
زیادہ تر ماہی گیر کوشش کرتے ہیں کہ اگر ان کے جال میں مچھلیوں کے علاوہ کوئی اور سمندری جانور آجائے، جیسے کچھوا، یا دیگر آبی جانداروں کے بچے، تو وہ انہیں احتیاط سے واپس سمندر میں ڈال دیتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ان معصوم بے زبان جانداروں کی بددعائیں انہیں سخت نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
کاشف کا کہنا ہے کہ پاکستانی سمندروں میں غیر ملکی افراد کو ٹرالنگ کی اجازت دینے کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے وہ ہمارے سمندروں کے لیے سخت نقصان دہ ہے، ’ہم اسے ماس کلنگ کا نام دیتے ہیں، ہیوی مشینری کے ذریعے ٹرالنگ کرنے سے اس جگہ موجود تمام سمندری حیات اوپر آجاتی ہے جن کی مقدار ہزاروں ٹن تک ہوتی ہے۔ بعد ازاں اس میں سے قابل فروخت مچھلیاں اور جھینگے وغیرہ نکال کر بقیہ مردہ جاندار واپس سمندر میں ڈال دیے جاتے ہیں۔ یہ ہمارے سمندری وسائل کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔‘
ان کے مطابق پاکستان میں ٹرالنگ کے لیے ان ممالک سے لوگ آتے ہیں جہاں سمندر میں شکار کے سخت قوانین اور پابندیاں ہیں، ان ممالک میں چین، روس، جرمنی اور آسٹریلیا شامل ہیں۔
کاشف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ماہی گیری کی صنعت بغیر کسی قواعد و ضوابط کے ملکی جی ڈی پی میں 100 ارب روپے سے زائد ریونیو کی حصے دار ہے، اگر اسے منظم اور جدید خطوط پر استوار کیا جائے تو یہ ملکی معیشت کا اہم ستون ثابت ہوگی۔
ان کا مطالبہ یہ بھی ہے کہ غیر ملکی ٹرالنگ پر پابندی لگائی جائے تاکہ ہمارے سمندری وسائل سے مقامی ماہی گیروں کو فائدہ ہو اور ہمارے قیمتی وسائل بھی ضائع نہ ہوں۔
کراچی: پی ٹی آئی حکومت کی فشنگ پالیسی کے تحت وزیر بحری امور علی حیدر زیدی نے مچھیروں کی بہبود کے لیے بڑا اعلان کر دیا ہے۔
اے آر وائی نیوز کے مطابق برسوں سے نظر انداز ماہی گیر کمیونٹی کا صبر اور انتظار رنگ لے آیا، مچھیروں کو سرمائے کی فراہمی کے لیے اہم قدم اٹھا لیا گیا۔
وفاقی وزیر علی حیدر زیدی نے ایک بیان میں کہا کہ محرومیوں میں دھنسی جفا کش ماہی گیر برادری کے لیے آج بڑا دن ہے، اب سرمائے کی قلت یا عدم دستیابی ماہی گیری میں رکاوٹ نہیں ڈال سکے گی۔
انھوں نے خوش خبری دی کہ مشکل معاشی حالات کے باوجود حکومت ماہی گیروں کو سرمایہ فراہم کرے گی، اس سلسلے میں وزارت بحری امور نے بینک آف پنجاب اور کامیاب جوان پروگرام کو یک جا کر دیا ہے۔
A big step for the fishing sector which has been neglected for decades.@MaritimeGovPK is also finalizing a new fishing policy which will benefit our mahigeer community & uplift this very important but ignored sector.
علی زیدی کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کے بلیو اکانومی کے وژن کی روشنی میں یہ قدم اٹھایا گیا ہے، علی زیدی نے بتایا کہ اس پروگرام کے ذریعے اب وزارت بحری امور ماہی گیروں کا ہاتھ تھامے گی، ہم ماہی گیروں کو آلات، ساز و سامان اور نئی کشتیاں خریدنے کے لیے سرمایہ دیں گے۔
انھوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں کورنگی فش ہاربر اور میرین فشریز ڈیپارٹمنٹ میں بوتھ قائم کیے جا رہے ہیں، جن کا انتظام وزارت بحری امور اور بینک آف پنجاب سنبھالیں گے، اور اہل درخواست گزاروں کو سرمائے کے حصول میں معاونت فراہم کریں گے۔
علی زیدی کا کہنا تھا کہ ماہی گیر برادری کی بہبود و ترقی کے لیے فشنگ پالیسی کو حتمی شکل دی جا رہی ہے، عشروں سے نظر انداز اس طبقے کے لیے جلد مزید خوش خبریاں بھی دیں گے۔
کراچی: فشر مینز کوآپریٹو سوسائٹی اور چینی کمپنی فجیان فشریز کے درمیان اہم معاہدے ہو گئے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق فشر مینز کو آپریٹو سوسائٹی اور چینی کمپنی کے درمیان سی فوڈ پروسیسسنگ پلانٹ، سمندر کے پانی سے برف بنانے والی فیکٹری، چھوٹے ماہی گیروں کے لیے فائبر کی جدید کشتیوں کی فراہمی اور ٹریننگ سمیت اہم معاہدوں پر دستخط ہو گئے۔
معاہدوں پر فشر مینز سوسائٹی کے چیئرمین عبدالبر اور چینی فجیان فشریز آف چائنا کے چیئرمین زہنگ شوئی منگ نے دستخط کیے۔ چیئرمین فجیان فشریز نے میڈیا بریفنگ میں کہا کہ مشترکہ منصوبوں سے پاک چین دوستی کا رشتہ مزید مضبوط ہوگا۔
زہنگ شوئی منگ کا کہنا تھا کہ ایف سی ایس اور فجیان فشریز کے جدید ترین آلات کی فراہمی کے مشترکہ منصوبوں کے بعد پاکستانی ماہی گیری صنعت میں انقلاب آ جائے گا۔
چیئرمین عبدالبر نے کہا کہ سندھ حکومت کے تعاون سے ایف سی ایس فجیان فشریز کو فیکٹریز لگانے کے لیے زمین فراہم کرے گی، سمندری پانی کو صاف کر کے اس سے برف بنانے کا یہ پاکستان میں پہلا منصوبہ ہوگا، ماہی گیروں کو آسان شرائط اور آسان اقساط پر فائبر کی جدید ترین چھوٹی لانچیں فراہم کی جائیں گی۔
چیئرمین عبدالبر کا کہنا تھا کہ ہم 2021 تک پاکستان کو فشریز سیکٹر سے 100 کروڑ ڈالرز زرمبادلہ کما کر دیں گے۔
سجاول: صوبہ سندھ کے ضلع سجاول کے علاقے شاہ بندر میں مچھیروں کے ٹینٹ پر بجلی گرنے کے واقعے میں 3 افراد جاں بحق، جب کہ 3 زخمی ہو گئے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق پاک بحریہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ شاہ بندر سندھ میں مچھیروں کے ٹینٹ پر بجلی گرنے کے بعد پاک بحریہ نے ریسکیو آپریشن کیا۔
ترجمان نے بتایا کہ بجلی گرنے سے 3 مچھیرے جاں بحق ہوئے جب کہ 3 زخمی ہوئے، جنھیں پاک میرینز کی کشتیوں کے ذریعے ریسکیو کیا گیا۔
پاک بحریہ کے مطابق زخمیوں کو ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال سجاول منتقل کیا جا چکا ہے، جب کہ جاں بحق افراد کی لاشیں مقامی انتظامیہ کے حوالے کر دی گئی ہیں۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق مچھیرے شاہ بندر پورٹ کے قریب مچھلیاں پکڑ رہے تھے کہ ان پر آسمانی بجلی گری، جاں بحق افراد میں عبد الرزاق، اسماعیل اور دھنی بخش شامل تھے۔
زخمی افراد کو چہار جمالی میں پاکستان نیوی کی ٹیم نے دیہی ہیلتھ سینٹر منتقل کیا۔
یاد رہے کہ جون میں گلگت بلتستان کے شہر اسکردو میں آسمانی بجلی گرنے سے 5 افراد جاں بحق جب کہ 7 سے زاید مکانات جل گئے تھے۔ اس سے چند دن قبل صوبہ بلوچستان کے ضلع شیرانی میں بھی آسمانی بجلی گرنے سے ایک شخص جاں بحق ہو گیا تھا۔
واضح رہے کہ ملک بھر میں مون سون کا موسم جاری ہے اور مختلف شہروں میں گرج چمک کے ساتھ بارشیں ہو رہی ہیں، ایسے موسم میں آسمانی بجلی گرنے کے واقعات بھی پیش آتے ہیں جس میں کئی افراد زخمی یا ہلاک ہو جاتے ہیں۔
خیال رہے کہ آج وزیر اعظم عمران خان اور گورنر سندھ عمران اسمعٰیل کی ون آن ون ملاقات ہوئی، ملاقات میں سندھ کی سیاسی صورتحال، امن و امان اور ترقیاتی منصوبوں سمیت اہم امور پر بات چیت ہوئی۔
گورنر سندھ نے تاجروں کے مسائل اور مطالبات سے متعلق آگاہ کیا، انہوں نے وزیر اعظم کو صوبہ سندھ خصوصاً کراچی میں وفاق کے تعاون سے جاری منصوبوں پر بریفنگ بھی دی۔
گوادر: دنیا بھر میں جہاں کشتی سازی ایک جدید صنعت کا رخ اختیار کرچکی وہیں گوادر کے کشتی ساز آج بھی اپنے آباؤ اجداد سے سیکھے ہوئے طریقے پر کشتی سازی میں مصروف ہیں۔
اے آروائی نیوز کے نمائندے بسیم افتخار کے مطابق گوادر میں موجود کشتی سازی کی صنعت آج بھی جدید ٹیکنالوجی سے دوراور مشکلات کا شکارہے ، ایک بڑی کشتی کی تعمیر میں سال بھرکا وقت صرف ہوتا ہے۔
کشتی کی تعمیر میں عموماً پارٹیکا ، بلاو ٔاور برما ٹیک کی لکڑی کا استعمال کیاجاتا ہے۔ سمندر کی موجوں کامقابلہ کرتی کشتیاں ہنرمندوں کی مہارت اورثقافت کی عکاسی کرتی نظر آتی ہیں لیکن ان کے پیچھے ان کشتیوں کو بنانے والوں کی غربت کی داستاں چھپی ہوئی ہے۔
سارا دن سخت گرمی میں محنت کرنے والا ایک ماہر کاریگر بمشکل اپنی محنت کے عوض بارہ سے تیرہ سو روپے تک حاصل کرپاتا ہے۔ مقامی ہنر مند یہ کشتیاں اپنے آباؤ اجداد سے سیکھے ہوئے طریقے کے مطابق بناتے چلے آرہے ہیں اور حکومتی سرپرستی نہ ہونے کے سبب آج بھی قدیم ذرائع حرفت پر قناعت کرنے پر مجبور ہیں۔
عبد الصمد نامی کشتی ساز نے اے آروائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ایک وقت اور محنت طلب کام ہے ، اس میں کاریگر کو شدید جسمانی مشقت انجام دینا ہوتی ہے۔ ایک کشتی کی سیٹنگ میں ہی صرف تین سے چار مہینے صرف ہوتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ جب ایک بار کسی کشتی کو بنانے کے لیے لکڑیاں تیار کرلی جاتی ہیں تو پھر اسے بنانے کا عمل شروع ہوتا ہے جو کہ کشتی کے سائز پر منحصر ہوتا ہے۔ چھوٹی کشتی کی تیاری میں مجموعی طور پر پانچ سے چھ ماہ کا وقت درکار ہوتا ہے تو بڑی کشتی کی تعمیر میں کم از کم ایک سال کا عرصہ لگتا ہے۔
کشتی سازی کے لیے لکڑی کے بڑے ٹکڑوں کو تختوں کی شکل میں ڈھالا جاتا ہے اس کے بعد انہیں انتہائی مشقت سے چھیل کر ہموار اور پالش کے لائق بنایا جاتا ہے ۔ جس کے بعد ان تختوں کو کشتی کی شکل میں جوڑنے کا مرحلہ آتا ہے جو بذاتِ خود ایک مشقت طلب کام ہے۔ ان سارے مراحل سے گزر کر ایک کشتی پانی کی لہروں کا سینہ چیر کر مچھیروں کا رزق تلاش کرنے کے قابل ہوتی ہے۔