Tag: ماہ صیام

  • بیش قیمت انعام (سبق آموز کہانی)

    بیش قیمت انعام (سبق آموز کہانی)

    حالات بتا رہے تھے کہ اس مرتبہ بھی علی کی خواہش پوری نہیں‌ ہوسکے گی اور اسے دوستوں کے سامنے شرمندگی اٹھانا پڑے گی۔ اس سال بھی نہ وہ روزہ رکھ سکے گا اور نہ ہی عید پر نئے کپڑے بنیں گے۔

    گزشتہ چند برسوں سے یہی ہورہا تھا کہ علی کی روزہ کشائی کی تقریب کسی نہ کسی وجہ سے ٹل رہی تھی۔ گھر کے معاشی حالات بہتر ہی نہیں ہو پا رہے تھے۔ اس مرتبہ کچھ آس بندھی تھی مگر اس کے ابو کی ملازمت اچانک ختم ہوجانے سے علی کی آس دم توڑ گئی تھی۔ اس کو یقین ہو چلا تھا کہ اب کبھی بھی اُس کی روزہ کشائی نہیں ہوگی، نہ وہ عید پر نئے کپڑے پہنے گا اور نہ ہی دوستوں کو عید پر تحفے دے سکے گا۔ روزے کا کیا ہے، وہ تو علی پچھلے رمضان میں بھی رکھ سکتا تھا، لیکن محرومیوں کی گود میں پروان چڑھنے کے سبب وہ ضدی ہو گیا تھا۔ اُس نے ضد پکڑ لی تھی کہ روزہ کشائی کی تقریب کے بغیر روزہ نہیں رکھے گا۔ تیرہ سال کا ہوگیا تھا مگر اس کے اندر کا ضدی بچّہ اپنی دیرینہ آرزو کی تکمیل کے لیے ہمکتا رہتا۔

    خواب دیکھنے پر تو رقم خرچ نہیں ہوتی نا، چھوٹی چھوٹی آرزوئیں علی کو ستاتیں تو وہ نت نئے خواب بننے لگتا مگر جلد ہی اس کے خواب بکھر جاتے۔ رمضان کا چاند دیکھ کر علی نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو آنسو بے اختیار اس کی آنکھوں سے ٹپک پڑے۔ واضح نظر آنے والا چاند دھندلا سا گیا۔ یکایک علی کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ اسے فرمانِ الٰہی یاد آگیا تھا ”روزہ میرے لیے ہے، اس کی جزا میں دوں گا“ اور اسی پل علی نے اللہ کی رضا کے لیے دل میں پورے روزے رکھنے کا عہد کیا۔

    چاند دیکھ کر علی نے امی ابّو کو سلام کر کے اُنھیں خوش خبری سنائی کہ کل وہ پہلا روزہ رکھے گا اور انشاء اللہ پورے روزے رکھے گا۔ علی نے جو کہا کر دکھایا۔ وہ علی جو روزہ کشائی کی تقریب کے بغیر روزہ رکھنے پر آمادہ نہ تھا نہ صرف پابندی سے روزے رکھ رہا تھا بلکہ بلاناغہ تراویح بھی پڑھ رہا تھا۔ اور پہلی مرتبہ رمضان المبارک کی سعادتوں اور برکتوں کے مزے لوٹ رہا تھا۔ ورنہ اس سے پہلے رمضان کا سارا مہینہ اس نے اللہ سے گلے شکوے کرتے گزارا لیکن اس بار روزے رکھ کر علی کواحساس ہو رہا تھا کہ رمضان شکوے کا نہیں شکر کا مہینہ ہے۔ برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے۔ علی بہت خوش تھا کہ روزے کی برکت سے اُس نے اپنے نفس پر قابو پانا سیکھ لیا تھا۔ شکوے کی جگہ شکر اور بے صبری کی جگہ صبر نے لے لی۔ اب ضد بھی برائے نام رہ گئی تھی۔ اور پھر یوں ہُوا کہ افطار کے وقت پابندی سے مانگی جانے والی علی کی دعا قبول ہو گئی۔

    اس کے ابّو کو بہت اچھی ملازمت مل گئی۔ تنخواہ معقول تھی۔ عید سے دو روز پہلے کمپنی نے عید کی خوشی میں ایڈانس تنخواہ دے دی۔ علی کی یوں کایا پلٹ ہوتے دیکھ کر اُس کے ابو نے عید کی خریداری کے لیے دو ہزار روپے دیے تھے۔ وہ بہت خوش تھا کہ اس عید پر وہ بھی نئے کپڑے اور جوتے پہنے گا، دوستوں کے لیے تحائف لے گا۔ ابھی وہ منصوبہ بندی کر ہی رہا تھا کہ اُس کے عزیز دوست حمزہ کے ایکسیڈنٹ کی اطلاع ملی۔ حمزہ نہایت غریب ذہین اور باصلاحیت لڑکا تھا۔ اُس کے والد سرکاری دفتر میں کلرک تھے۔ اُن کی گزر بسر مشکل سے ہو رہی تھی، اُس پر یہ ناگہانی پریشانی، عید بالکل سر پر آگئی تھی۔ ایسے وقت میں اپنوں نے بھی اُن کی مدد سے انکار کر دیا تھا۔ علی کو جب ان حالات کا علم ہُوا تو اُس نے اپنی عید کی خریداری کی ساری رقم حمزہ کے ابو کو دے دی۔ علی کے والدین خوش تھے کہ اپنے دوست کی خاطر علی نے اپنی خوشیوں کی قربانی دی۔ ساتھ ہی اُنھیں یہ بھی احساس تھا کہ اب علی کو عید کے لیے نیا سوٹ نہیں دلوا سکتے۔ جب علی کی امی نے یہ بات اس سے کہی تو اُس نے کہا، ”کوئی بات نہیں مجھے اس کا کوئی دکھ نہیں کہ میں معمولی کپڑے پہن کر عید کی نماز پڑھوں گا۔ میرے دوست کی صحت اور زندگی میرے کپڑوں، جوتوں، تحائف سے زیادہ اہم ہے۔ یہ رقم اس کے بہت کام آگئی، اگر بروقت میں یہ رقم حمزہ کو نہ دیتا تو میرا ضمیر مجھے ملامت کرتا رہتا اور میں عمر بھر عید کی خوشی نہیں منا پاتا۔“ یہ سُن کر علی کی امی نے بے اختیار اُسے گلے سے لگالیا۔

    عید کی صبح علی نے پرانے کپڑے پہنے لیکن اُس کے اندر آج کوئی محرومی نہیں تھی۔ وہ دل میں عجب قسم کا اطمینان اور خوشی محسوس کر رہا تھا۔ عید گاہ سے واپسی پر جب حمزہ سے ملنے علی اُس کے گھر گیا تو اُسے اپنا منتظر پایا۔ حمزہ جانتا تھا کہ عید پر قیمتی کپڑے پہننا علی کا خواب تھا جو اس کی وجہ سے اس سال بھی پورا نہ ہو سکا۔ علی کو پرانے کپڑوں میں دیکھ کر حمزہ کی آنکھیں بھر آئیں۔؎

    علی! تم نے اپنے دل کو مار کر مجھے نئی زندگی دی، اگر تم بَروقت میرے علاج کے لیے پیسے نہ دیتے تو آج۔۔۔ بات ادھوری چھوڑ کر حمزہ بری طرح رو دیا۔

    حمزہ! آگے کچھ نہ کہو، زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے جس نے تمہیں نئی زندگی دی اور مجھے بھی۔

    کیا مطلب؟ تمہیں نئی زندگی دی؟ مگر کیسے؟ حمزہ نے حیرت سے سوال کیا۔ مطلب یہ ہے کہ میرے دل کی دنیا بدل گئی۔ میں خوابِ غفلت سے بیدار ہو گیا۔ یقین کرو پرانے کپڑوں اور جوتوں میں، میں خود کو بہت نیا نیا محسوس کر رہا ہوں۔ میں نے اللہ کی رضا کے لیے روزے رکھے تو روزوں کا انعام بھی پا لیا۔ عید کی ایسی سچی خوشی مجھے پہلے کبھی نہ ملی تھی۔“

    تم نے میرے لیے بہت کیا ہے علی! پَر میں تمہیں یہ سستا سا عید کارڈ ہی دے سکتا ہوں جو تمہارے لیے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔

    نہایت مسرت اور حیرت سے علی وہ کارڈ دیکھ رہا تھا، جس میں حمزہ کی محنت اور محبت دونوں ہی شامل تھی۔ کارڈ پر اشعار درج تھے۔

    چلو ختم روزے ہوئے عید آئی
    خوشی کا مسرت کا پیغام لائی
    مبارک ہو سب کو قمر عید کا دن
    کہ سب نے خوشی ہی خوشی آج پائی

    میرے دوست! جسے تم سستا عید کارڈ کہہ رہے ہو میرے لیے بہت قیمتی ہے۔ مہینہ بھر روزے رکھ کرمیں نے جان لیا کہ تشکر کتنی انمول نعمت ہے، صبر اللہ کا کتنا بڑا انعام ہے اور یہ کہ سچی خوشی اپنی خواہشات کی تکمیل میں نہیں بلکہ اوروں کے کام آنے میں ہے۔بیشک میں نے روزوں کا انعام پا لیا ہے، بیش قیمت انعام۔

    (مصنّف:‌ شائستہ زریں‌)

  • سوا ارب روپے کا مقروض پنجاب اور سالانہ 14 کروڑ روپے سُود

    سوا ارب روپے کا مقروض پنجاب اور سالانہ 14 کروڑ روپے سُود

    مفکرِ پاکستان علّامہ محمد اقبالؒ نے 9 فروری 1932ء کو لاہور کی بادشاہی مسجد میں اجتماعِ عید الفطر کے موقع پر خطاب میں ماہِ صّیام کی فضیلت اور روزے کی اہمیت و افادیت کو نہایت خوب صورت انداز سے اجاگر کیا تھا، جس سے آج بھی ہم دین اور معاشرت کو سمجھنے میں‌ مدد لے سکتے ہیں۔ یہ خطاب عبد الواحد معینی اور عبد اللہ قریشی نے اپنی مرتب کردہ کتاب ’’مقالاتِ اقبالؒ‘‘ میں‌ شامل کیا ہے جس سے ایک اقتباس پیشِ خدمت ہے۔

    "اسلام کا ہر رکن انسانی زندگی کی صحیح نشوونما کے لیے اپنے اندر ہزار ہا ظاہری اور باطنی مصلحتیں رکھتا ہے۔ مجھے اس وقت صرف اسی ایک رُکن کی حقیقت کے متعلق آپ سے دو ایک باتیں کہنی ہیں جسے ’’صوم‘‘ کہتے ہیں اور جس کی پابندی کی توفیق کے شکرانے میں آج آپ عید منا رہے ہیں۔ روزے پہلی اُمتوں پر بھی فرض تھے گو اُن کی تعداد وہ نہ ہو جو ہمارے روزوں کی ہے اور فرض اس لیے قرار دیے گئے کہ انسان پرہیزگاری کی راہ اختیار کرے۔

    خدا نے فرمایا: ’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے تاکہ تمہیں پرہیزگاری ملے۔‘‘

    گویا روزہ انسان کو پرہیزگاری کی راہ پر چلاتا ہے، اس سے جسم اور جان دونوں تزکیہ پاتے ہیں۔ یہ خیال کہ روزہ ایک انفرادی عبادت ہے، صحیح نہیں بلکہ ظاہر و باطن کی صفائی کا یہ طریق، یہ ضبطِ نفس، یہ حیوانی خواہشوں کو اپنے بس میں رکھنے کا نظام اپنے اندر ملّت کی تمام اقتصادی اور معاشرتی زندگی کی اصلاح کے مقاصد پوشیدہ رکھتا ہے۔ وہ فائدے جو ایک "فرد” کو روزہ رکھنے سے حاصل ہوتے ہیں، اس صورت میں بھی ہو سکتے تھے کہ روزے بجائے مسلسل ایک مہینہ رکھنے کے کبھی کبھی رکھ لیے جاتے، یا بجائے رمضان میں رکھنے کے سال کے اور مہینوں میں رکھ لیے جاتے۔ اگر محض فرد کی اصلاح اور اُس کی روحانی نشوونما پیشِ نظر ہوتی تو بیشک یہ ٹھیک تھا، لیکن فرد کے علاوہ تمام "ملّت” کے اقتصادی اور معاشرتی تزکیہ کی غرض بھی شارعِ برحق ﷺ کے سامنے تھی۔

    مہینہ بھر روزے رکھنے کی آخری غرض یہ تھی کہ آیندہ تمام سال اس طرح ایک دوسرے کے ہمدرد اور بھائی بن کر رہو کہ اگر اپنا مال ایک دوسرے کو بانٹ کر نہیں دے سکتے تو کم سے کم "حکام” کے پاس کوئی مالی مقدمہ اس قسم کا نہ لے کر جاؤ جس میں اُن کو رشوت دے کر حق و انصاف کے خلاف دوسروں کے مال پر قبضہ کرنا مقصود ہو۔ آج کے دن سے تمہارا عہد ہونا چاہیے کہ قوم کی اقتصادی اور معاشرتی اصلاح کی جو غرض قرآن حکیم نے اپنے ان احکام میں قرار دی ہے، اُس کو تم ہمیشہ مدّنظر رکھو گے۔

    مسلمانانِ پنجاب اس وقت تقریباً سوا ارب روپے کے قرض میں مبتلا ہیں اور اس پر ہر سال تقریباً چودہ کروڑ روپیہ سود ادا کرتے ہیں۔ کیا اس قرض اور اس سود سے نجات کی کوئی سبیل سوائے اس کے ہے کہ تم احکامِ خداوندی کی طرف رجوع کرو، اور مالی اور اقتصادی غلامی سے اپنے آپ کو رہا کراؤ؟ تم اگر آج فضول خرچی چھوڑنے کے علاوہ مال اور جائیداد کے جھوٹے اور بلاضرورت مقدمے عدالتوں میں لے جانا چھوڑ دو تو میں دعوے سے کہتا ہوں کہ چند سال کے اندر تمہارے قرض کا کثیر حصہ از خود کم ہو جائے گا اور تم تھوڑی مدّت کے اندر قرض کی غلامی سے اپنے آپ کو آزاد کر لو گے۔ نہ صرف یہ کہ مالی مقدمات کا ترک تمہیں اِس قابل بنا دے گا کہ تم وہی روپیہ جو مقدموں اور رشوتوں اور وکیلوں کی فیسوں میں برباد کرتے ہو اسی سے اپنی تجارت اور اپنی صنعت کو فروغ دے سکو گے۔

    کیا اب بھی تم کو رجوع الی القرآن کی ضرورت محسوس نہ ہو گی اور تم عہد نہ کر لو گے کہ تمام دنیاوی امور میں شرعِ قرآنی کے پابند ہو جاؤ گے؟ کس انتباہ کے ساتھ رسولِ پاک ﷺ نے مسلمانوں کو پکار کر کہا تھا کہ: "دیکھو قرض سے بچنا، قرض رات کا اندوہ اور دن کی خواری ہے۔”

  • رمضان المبارک: شوگر کے مریض روزہ داروں کو خاص احتیاط کی ضرورت ہے

    رمضان المبارک: شوگر کے مریض روزہ داروں کو خاص احتیاط کی ضرورت ہے

    ماہ صیام رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے، تاہم ایسے ماہ میں ذیابیطس سمیت مختلف بیماریوں کا شکار افراد کچھ مشکل میں پڑجاتے ہیں کہ وہ روزہ کیسے رکھیں۔

    پاکستان میں ہر 4 میں سے ایک فرد شوگر کی کسی نہ کسی قسم کا شکار ہے، ایسے افراد اگر روزہ رکھ رہے ہیں تو انہیں صحت مند اور متوازن بلڈ شوگر لیول کے لیے کچھ تدابیر پر عمل کرنا چاہیئے۔

    شوگر کے مریضوں کو سب سے پہلے روزہ رکھنے سے قبل اپنے معالج سے رابطہ کرنا چاہیئے اور اپنے معالج کے تجویز کردہ اصولوں پر عمل کرنا چاہیئے۔

    طبی ماہرین کے مطابق روزہ رکھنا ان افراد کے لیے مشکل ہوتا ہے جو کہ انسولین کا استعمال کرتے ہوں یا شوگر سے متعلق مخصوص ادویات کا استعمال کر رہے ہوں، ایسے افراد روزہ رکھنے کی صورت میں اگر پورے مہینے اپنے شوگر لیول کو مسلسل مانیٹر کرتے رہیں اور اپنے بلڈ شوگر لیول پر کڑی نظر رکھیں تو انہیں اس کی سمجھ آجائے گی اور وہ اپنے کھانے پینے کی عادات اور روزے کو اپنی شوگر کے لیول کے مطابق باآسانی چلا سکتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہنا ہے ذیابیطس ٹائپ 1 کے مریضوں کو روزہ نہیں رکھنا چاہیئے جبکہ ذیابیطس ٹائپ 2 کے مریضوں کو روزہ رکھنے سے قبل اپنے معالج سے ضرور مشورہ کر لینا چاہیئے تاکہ کسی ایمرجنسی کی صورت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

    شوگر لیول گرنے اور زیادہ ہونے کی علامات کیا ہیں؟

    انسانی خون میں شوگر لیول کی کمی کی علامات میں بہت زیادہ پسینہ آنا، سردی لگنا، انتہائی شدید بھوک کا محسوس ہونا، بینائی کا دھندلانا، دل کی دھڑکن کی رفتار تیز ہونا اور سر چکرانا شامل ہے جبکہ شوگر لیول میں اضافے کی علامات میں مریض کے ہونٹوں کا خشک ہونا اور بار بار پیشاب آنا شامل ہے۔

    طبی ماہرین کی جانب سے تجویز کیا جاتا ہے کہ شوگر کے مریض رمضان کے مہینے کے دوران پروٹین اور فائبر سے بھرپور غذا کا استعمال کریں جبکہ میٹھے کھانوں اور کیفین سے گریز کریں۔

    ذیابیطس کے مریض رمضان کے دوران ہر قسم کی غذا کا استعمال کرسکتے ہیں، بس یہ خیال رکھیں کہ وہ متوازن غذا ہو، کسی بھی غذا کا زیادہ استعمال پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔

    طبی ماہرین کی جانب سے شوگر کے مریضوں کے لیے تجویز کیے گئے چند مفید مشورے مندرجہ ذیل ہیں۔

    شوگر کے مریض کے لیے ماہرین کی جانب سے تجویز کیا جاتا ہے کہ سب سے پہلے وہ خود کو روزہ رکھنے کے لیے ذہنی طور پر تیار کریں۔

    ماہرین کی جانب سے بہترین مشورہ یہ دیا جاتا ہے کہ ہر مریض رمضان کے آغاز سے قبل ہی اپنے معالج سے دواؤں اور غذا کا چارٹ اور طریقہ استعمال بنوا لے، ادویات سے متعلق خود سے کوئی فیصلہ نہ کریں۔

    شوگر کے شکار افراد سحری میں ایسی غذاؤں کا استعمال کریں جو دیر سے ہضم ہوں، عام حالات میں ذیابیطس کے مریض پراٹھا نہیں کھا سکتے لیکن وہ سحری میں کم تیل سے بنا ہوا پراٹھا کھا سکتے ہیں، دیر سے ہضم ہونے والی غذاؤں میں حلیم بھی شامل ہے، حلیم میں گوشت اور دالوں کے سبب فائبر بہت زیادہ پایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں تا دیر بھوک نہیں لگتی۔

    کولیسٹرول کے بڑھنے کے خدشات کے سبب انڈے کا استعمال نہ کریں، شوگر کے مریض اگر انڈے کا استعمال کرنا بھی چاہتے ہیں تو نصف زردی کے ساتھ انڈہ کھایا جا سکتا ہے، انڈے کا استعمال کسی سالن کے ساتھ ملا کر بھی کیا جا سکتا ہے۔

    شوگر کے جن مریضوں کو پیاس زیادہ لگتی ہے وہ سحری میں الائچی کے قہوے کا استعمال کر سکتے ہیں، الائچی کے قہوے میں کم مقدار میں دودھ بھی شامل کیا جا سکتا ہے یا پھر نمکین لسی کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔

    سحری کے دوران میٹھے میں کھجلہ، پھینیاں، کسٹرڈ یا کسی بھی قسم کی میٹھی غذا کا استعمال ہر گز نہ کریں۔

    شوگر کے مریض روزہ کھجور سے افطار کر سکتے ہیں، ایک تحقیق کے مطابق ایک کھجور میں 6 گرام کاربو ہائیڈریٹس پائے جاتے ہیں جس میں معدنیات، فائبر، فاسفورس اور پوٹاشیئم بھی موجود ہوتا ہے، کھجور میں پائے جانے والا پوٹاشیئم تھکاوٹ اور بوجھل پن دور کرتا ہے۔

    ذیابیطس کے مریض روزہ افطار کرتے ہوئے ایک کھجور کھا سکتے ہیں اور اگر ان کا شوگر لیول متوازن ہے تو 2 کھجوریں بھی کھائی جاسکتی ہیں۔

    افطار کے دوران پھلوں کی چاٹ بغیر چینی، کریم اور دودھ کے کھائی جا سکتی ہے، پھلوں میں تھوڑی سی مقدار میں لیموں کا رس بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔

    مائع میں سادہ پانی بہترین قرار دیا جاتا ہے جبکہ نمک میں بنا ایک گلاس لیموں پانی بھی پیا جا سکتا ہے، شوگر کے مریض گھر کی بنی ہوئی غذاؤں کا ہی استعمال کریں، کوشش کریں کے تیل، نمک، لال مرچ اور چینی کی زیادہ مقدار لینے سے پرہیز کیا جائے۔

    شوگر کے مریض رات بھوک لگنے پر ایک روٹی کم مرچ مصالحے والے سالن کے ساتھ یا سلاد اور رائتے کے ساتھ کھا سکتے ہیں، چاولوں کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے مگر ایک پلیٹ سے زیادہ نہیں، رات سونے سے قبل بھوک محسوس ہونے پر ایک گلاس دودھ بغیر شکر کے پیا جا سکتا ہے۔

    رمضان بخیر و عافیت گزارنے اور روزو ں کے مکمل فوائد حاصل کرنے کے لیے افطار کے بعد اور رات کھانے سے قبل کم از کم 30 منٹ چہل قدمی لازمی کریں، شوگر کے مریضوں کے لیے چہل قدمی بھی ایک بہترین علاج قرار دیا جاتا ہے۔

    شوگر کے مریض اپنے معالج کے مشوروں کے مطابق رمضان گزاریں، خود سے ادویات یا شوگر لیول کے کم یا زیادہ ہونے کی علامات پر علاج نہ کریں۔

  • سعودی عرب میں یتیم بچوں اور معمر افراد میں تحائف تقسیم

    سعودی عرب میں یتیم بچوں اور معمر افراد میں تحائف تقسیم

    ریاض: سعودی عرب میں ماہ صیام کے موقع پر مخیر مرد و خواتین شہریوں کی جانب سے مستحق افراد میں تحائف تقسیم کیے گئے۔

    عرب میڈیا کے مطابق آئیے ہم سے ملیے کے عنوان سے شہریوں میں خوشیاں بانٹنے کا ایک منفرد پروگرام شروع کیا گیا جس میں ایک سو خواتین اور مرد شہریوں نے حصہ لیا اور مستحق افراد میں تحائف تقسیم کیے۔

    اس فلاحی سرگرمی کی ایک ذمہ دار اور سیاحتی گائیڈ ابرار باشویعر نے عرب ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اپنے گروپ کو مختلف ٹیموں میں تقسیم کیا ہے۔

    ابرار باشویعر کے مطابق ٹیم میں ہر ایک کا اپنا اپنا مخصوص کام ہے، ایک ٹیم رابطہ کرتی ہے دوسری تحائف کی پیکنگ کرتی اور تیسری ٹیم یتیم بچوں اور عمر رسیدہ افراد تک یہ تحائف پہنچاتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد مملکت کے اسپتالوں میں زیر علاج عمر رسیدہ افراد اور یتیم بچوں میں خوشیاں بانٹنا ہے، اس حوالے سے ہماری ٹیمیں مختلف اسپتالوں کے دورے کرتی ہیں۔

    ابرار باشویعر نے کہا کہ تحائف کی تقسیم ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، آپ نے فرمایا تھا ’سلام کو عام کرو اور تحائف دیا کرو‘، اسی مشن کے تحت ہم نے ماہ صیام میں جدہ اور مدینہ منورہ میں 300 تحائف تقسیم کیے۔

  • ماہ صیام کے دوران مکہ سیکرٹریٹ میں 11 ہزار ملازمین 876 آلات کے ساتھ مامور

    ماہ صیام کے دوران مکہ سیکرٹریٹ میں 11 ہزار ملازمین 876 آلات کے ساتھ مامور

    ریاض : سعودی حکام کی جانب سے ماہ صیام کے دوران مکہ معظمہ میں معتمرین کے قیام و طعام کے لیے 1100 ہوٹلوں کی خدمات فراہم کی گئی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق : مکہ معظمہ میں ماہ صیام کے موقع پر صحت وصفائی اور دیگر امور کے لیے 11 ہزار ملازمین کو 876 آلات کے ساتھ مامور کیا گیا ہے۔

    مقدس دارالحکومت کے سیکرٹری انجینیر محمد القویحص نے بتایا کہ مرکزی امور کی انجام دہی کے لیے فیلڈ کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں جو پبلک مقامات پر حفظان صحت اور صفائی سمیت دیگر امور کی کڑی نگرانی کریں گی۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ تمام ذبحہ خانوں کی صفائی کو یقینی بنانے کے لیے سخت مانیٹرنگ کی جائے گی۔ شہریوں کو معیاری گوشت کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے پیش ور ویٹرنری ماہرین کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔

    عرب خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ماہ صیام کے موقع پر مکہ معظمہ میں معتمرین کی سلامتی اور حفاظت کے لیے فول پروف سیکیورٹی پلان ترتیب دیا گیا ہے۔

    مکہ معظمہ کے شہری دفاع کے ڈائریکٹر میجر جنرل سالم بن مرزوق المطرفی نے کہا کہ شہری دفاع کی تمام سیکیورٹی یونٹوں کو ماہ صیام کے دوران فعال اور متحرک رکھا جائے تاکہ معتمرین کی حفاظت اور ان کی مدد کو یقینی بنانے کے ساتھ کسی بھی حادثے سے فوری نمٹنے کی کوشش کی جاسکے۔

    انہوں نے کہا کہ مسجد حرام اور اس کے اطراف میں شہری دفاع کا چوکس عملہ ہمہ وقت اپنی ذمہ داریوں پر مامور ہوگا تاکہ مسجد میں بہت زیادہ رش کے اوقات میں نمازیوں اور معتمرین کو درپیش مشکلات میں ان کی مدد کی جاسکے۔

    درایں اثناء سعودی عرب میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے مشیر اور سعودیہ میں مقیم شہریوں کی کمیٹی کے رکن فواز بدری نے ایک بیان میں بتایا کہ ماہ صیام کے دوران مکہ معظمہ میں معتمرین کے قیام و طعام کے لیے 1100 ہوٹلوں کی خدمات فراہم کی گئی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ حالیہ ایام میں ہوٹلوں میں معتمرین کی طرف سے کمروں کی بکنگ میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسجد حرام سے کم سے کم فاصلے پر العزیزیہ، الششہ اور العتیبیہ کے مقامات پر ہوٹلوں اور رہائشی فلیٹوں میں کارپٹڈ، صاف ستھرے اور ہوادار کمرے دستیاب ہیں۔

    مقامی کاروباری شخصیت اور ہوٹلنگ کے امور کے ماہر عبدالحکیم الحمود نے بتایا کہ مکہ معظمہ میں ہوٹلوں میں ایک رات کے قیام کے لیے تین ستارہ ہوٹلوں میں 150 ریال سے 350 ریال تک اجرت مقرر کی گئی ہے۔ مسجد حرام کے قریب ترین ہوٹلوں میں ایک دن کے قیام کا کرایہ 1500 ریال ہے جب کہ پنج ستارہ ہوٹلوں میں ایک ماہ کا کرایہ 80 ہزار ریال ہے۔

  • رمضان میں مہنگائی پر کنٹرول سے متعلق سندھ اسمبلی کا اہم اجلاس آج ہوگا

    رمضان میں مہنگائی پر کنٹرول سے متعلق سندھ اسمبلی کا اہم اجلاس آج ہوگا

    کراچی: سندھ حکومت نے رمضان میں مہنگائی پر کنٹرول کرنے کے لیے اہم اجلاس آج طلب کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق ماہ صیام میں اشیاء خردونوش کی قیمتوں میں پر لگ جاتے ہیں جس کے باعث زور مرہ کی ضروری اشیا عام عوام کی قوت خرید سے باہر ہوجاتی ہیں۔

    ذرایع کا کہنا ہے کہ آج ہونے والے سندھ اسمبلی کے اہم اجلاس میں انہیں امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا، اور رمضان کے بابرکت مہینے میں مہنگائی کو روکنے کے لیے حکمت عمل پر غور ہوگا۔

    اجلاس کی صدارت وزیربرائے رسدوقیمت اسماعیل راہو کریں گے، سندھ میں مہنگی اشیا فروخت کرنے والوں کے خلاف ایکشن پر غور بھی ہوگا۔

    دریں اثنا بچت بازار لگانے کے لیے بھی مارکیٹس کمیٹی اور ڈپٹی کمشنرز کو پابند بنایا جائے گا۔

    خیال رہے کہ رمضان کی آمد سے پہلے ہی مہنگائی نے عوام کی چیخیں نکال دیں ہے، سبزیوں اور پھلوں کی قیمتیں عوام کی پہنچ سے باہر ہوگئیں، انتظامیہ گراں فروشوں کے آگے بے بس نظر آتی ہے۔

    رمضان کے بعد پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بھرپور احتجاج کریں گے: بلاول بھٹو

    واضح رہے کہ ملک بھر میں مہنگائی کی شرح پانچ سال کی بلند ترین سطح پرآگئی ہے، اس سال رمضان میں مزید مہنگائی متوقع ہے۔

  • ماہ صیام کے موقع پر مسجدالحرام میں مفت وائی فائی کی مفت سہولت

    ماہ صیام کے موقع پر مسجدالحرام میں مفت وائی فائی کی مفت سہولت

    مکہ المکرمہ: مسجد الحرام میں آنے والے زائرین مسجد کے احاطے کے اندر مفت وائی فائی سروس کی سہولت حاصل کرسکتے ہیں۔

    سعودی گزٹ کی رپورٹ کے مطابق یہ اس تیکنیکی خدمات کے سلسلے کا ایک حصہ ہے، جو مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے معاملات کی ذمہ دار پریزیڈنسی کی جانب سے متعارف کرائی جارہی ہیں۔ اس پریزیڈنسی میں مرکز برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ڈائریکٹر بندر الخزیم کا کہنا ہے کہ مسجدالحرام کے احاطے میں مفت وائی فائی سروس فراہم کرنے کامقصد پریزیڈنسی کے عملے اور عازمین کے درمیان آن لائن رابطوں کو استوار کرنا ہے۔ سعودی پریس ایجنسی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پریزیڈنسی کا عملہ اس مقبولِ عام وائرلیس نیٹ ورکنگ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے مسجد الحرام کے عازمین کو رہنمائی اور آگاہی کے پیغامات پر مبنی ٹیکسٹ میسیجز بھیجے گا۔

    بندر الخزیم نے بتایا کہ مطاف (بیت اللہ کے گرد طواف کا حصہ) میں عازمین کے لیے بلوٹوتھ سروس بھی فراہم کی جائے گی، تاکہ تاکہ طواف کی ادائیگی کے دوران وہ یہ جان سکیں کہ بیت اللہ کے گرد وہ کتنے چکر لگا چکے ہیں۔ یہ سروس مکہ کی امّ القریٰ یونیورسٹی کے مرکز برائے جدید ٹیکنالوجی کے تعاون سے متعارف کرائی جارہی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ ’’پریزیڈنسی نے مسجدالحرام میں افطاری کی آن لائن بکنگ کی تجدید اور اجراء کی سرووس بھی متعارف کرائی ہے۔ تاکہ عازمین اور افطاری کا سامان سپلائی کرنے والی کمپنیاں دونوں اس سروس کا فائدہ اُٹھاسکیں۔‘‘ بندر الخزیم اعلان کیا کہ ایک نئی سہولت متعارف کرائی جارہی ہے، جس کے ذریعے اعتکاف کی ادائیگی کی الیکٹرانک رجسٹریشن عربی، انگلش، فرانسیسی، اردو، ترکی اور فارسی زبانوں میں کرائی جاسکے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسی طرح کی ایک اور سہولت ان لوگوں کے لیے دستیاب ہے، جو مسجد الحرام کی نمائش اور بیت اللہ کے غلاف (قصویٰ) کی فیکٹری دیکھنا چاہتے ہیں۔