Tag: مبشر لقمان

  • اے آر وائی نیوز کی معطلی کا حکم نہیں دیا، لاہور ہائی کورٹ

    اے آر وائی نیوز کی معطلی کا حکم نہیں دیا، لاہور ہائی کورٹ

    لاہور: لاہور ہائی کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اے آر اوئی کیس کی سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں کہا کہ عدالت کی جانب سے اے آر وائی نیوز کے لائسنس کو معطل کر نے کے احکامات جاری نہیں کیئے گئے ہے اور پیمرا عدالتی حکم کو توڑ مروڑ کر پیش نہ کرے۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے پانچ رکنی بینچ جس میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس کاظم رضا شمسی، جسٹس سید افتخار حسین شاہ، جسٹس شہزادہ مظہر اور جسٹس سہیل اقبال بھٹی مشتمل تھے نے اے آر وائی کیس کی سماعت کی۔ اے آر وائی نیوز کے سی ای او سلمان اقبال اور سنیئر اینکر پرسن مبشر لقمان عدالت میں پیش ہوئے جبکہ اس موقع پر پی ایف یو جے اور پی یو جے کے رہنماؤں سمیت ملک بھر سے آئے ہوئے صحافی نمائندے بھی موجود تھے۔

    عدالت نے اے آر وائی نیوز کے لائسنس کی معطلی پر پیمرا کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ پیمرا نے عدالتی احکامات کی غلط تشریح کی ہے، عدالت نے مزید کہا کہ اے آر وائی نیوز کے لائسنس کی معطلی کا کوئی حکم جاری نہیں کیا تھا۔ عدالت نے کہا کہ پیمرا نے عدالتی احکامات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے اور پیمرا عدالت کے کندھوں پر بندوق نہ رکھے۔ عدالت کی جانب سے ریمارکس دیئے گئے کہ عدالت غیر جانبدار ہے اور کسی ادارے کو تنگ یا افراد کا رزق بند کرنے کا حکم نہیں دے سکتی۔ ریمارکس میں مزید کہا گیا کہ آج جو حکم جاری کیا جائے گا اس میں اے آر وائی نیوز کے لائسنس کی معطلی کے حوالے سے تمام وضاحت موجود ہو گی۔

    اے آر وائی نیوز کے وکیل ڈاکٹر باسط نے بیان دیا کہ عدالتی نوٹس نہ ملنے کے باوجود اے آر وائی نیوز کے سی ای او پیرس سے صرف عدالت میں پیش ہونے کیلئے آئے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اے آر وائی نیوز عدالتوں کا مکمل احترام کرتا ہے۔ جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ سی ای او اے آر وائی کا بیرون ملک سے آ کر عدالت میں پیش ہونا قابل تعریف ہے، اگر ان کی جانب سے تحریری جواب آ جاتا تو عدالت اسے قبول کر لیتی۔

    اے آر وائی نیوز کے وکیل نے مزید کہا کہ عدلیہ کی بحالی اور جمہوریت کیلئے اے آر وائی نیوز نے بھرپور کردار ادا کیا، جس کی اسے قیمت بھی ادا کرنا پڑی۔ انھوں نے عدالت سے استدعا ہے کہ اے آر وائی نیوز کو ابھی تک نوٹس موصول نہیں ہوئے، جواب کیلئے مہلت دی جائے۔ جس پر عدالت نے سماعت 24 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔

    لاہور ہائی کورٹ میں اے آر وائی نیوز سے متعلق کیس کی سماعت کے موقع پر سی ای او سلمان اقبال بنفس نفیس پیش ہوئے۔ عدالت نے کہا کہ بیٹے کی طبعیت ناسازی کے باوجود سلمان اقبال کا ذاتی طور پر عدالت میں پیش ہونا قابل تحسین ہے۔ اس موقع پر سلمان اقبال نے کہا کہ اے آر وائی گروپ نے ہمیشہ عدالتوں کا احترام کیا ہے۔ اے آر وائی کی تاریخ گواہ ہے کہ وہ ہمیشہ حب الوطنی سے سرشار رہے ہیں۔

    واضح رہے کہ گزشتہ روز پیمرا نے ایک یکطرفہ فیصلے سناتے ہو ئے اے آر وائی کا لائسنس پندرہ روز کے لئے معطل کردیا تھا جس پر ملک بھر کی صحافی اور دیگر تیظیموں کی جانب سے سخت رد عمل آیا تھا۔

  • حامد میر، میر شکیل اور میر ابراہیم کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری

    حامد میر، میر شکیل اور میر ابراہیم کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری

    لاہور: سیشن کورٹ نے پاک فوج کے خلاف کالم لکھنے پر حامد میر ، میر شکیل اور میر ابراہیم کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے ہیں ۔

    لاہور کی سیشن عدالت میں پاک فوج کے خلاف کالم لکھنے پر حامد میر ، میر شکیل الرحمان اور میر ابراہیم کے خلاف دائر مقدمے کی سماعت کی، درخواست گزار کے وکیل نے موقف اختیا ر کیا کہ ملزمان پاکستان میں موجود ہیں لیکن پولیس انہیں گرفتار نہیں کر رہی ہے عدالت سے استدعا ہے کہ ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے جائیں۔

    سماعت کے بعد عدالت نے میر شکیل الرحمان ،میر ابراہیم اور حامد میر کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے انہیں 25ستمبر کو پیش کر نے کا حکم دے دیا،عدالت کا مزید کہنا تھا کہ اگر ملزمان کو پیش نہ کیا گیا تو متعلقہ ایس ایچ او کے خلاف کارروائی کی جائے گی ۔ یاد رہے کہ حامد میر نے تین ماہ قبل پاک فوج کے خلاف کالم لکھا تھا ۔

  • میر شکیل کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لئے درخواست دائر

    میر شکیل کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لئے درخواست دائر

    اسلام آباد : جیو نیوز کے مالک میر شکیل الرحمان کے خلاف اسلام آباد کے تھانہ مارگلہ میں درخواست دائر کردی گئی۔

    تھانہ مارگلہ میں ارشد بٹ نامی شخص کی جانب سے جیو نیوز کے مالک میر شکیل الرحمان کے خلاف درخواست دی گئی، جیو نیوز کے مالک میر شکیل الرحمان کو پاکستان کی مختلف عدالتوں نے اشتہاری قرار دیا جاچکا ہے اور جیو کا مالک پولیس کو مختلف مقدمات میں بھی مطلوب ہے۔

    ارشد بٹ نامی شخص نے درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ میر شکیل الرحمان ان دنوں اسلام آباد میں مقیم ہےاور عدالت نے میر شکیل الرحمان کے گرفتاری کے وارنٹ بھی جاری کیئے ہوئے ہیں، درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ میر شکیل الرحمان کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے۔

  • تبدیلی آنی چاہیئے ورنہ ہم پھنسے رہیں گے، سابق صدر پرویز مشرف

    تبدیلی آنی چاہیئے ورنہ ہم پھنسے رہیں گے، سابق صدر پرویز مشرف

    اسلام آباد :  سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف  نے کہا کہ تبدیلی کا مطالبہ عوام کا ہے اسی لئے وہ نکلیں ہیں، تبدیلی آنی چاہیئے ورنہ ہم پھنسے رہیں گے۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام کھرا سچ کے اینکر پرسن مبشر لقمان کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئےسابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ جتنی مرتبہ بھی ملک میں جمہوریت آئی ہے ملک میں ترقی نہیں ہوئی ہے،ملک سنگین بحران کیطرف جارہاہے، عوام کی عدالتوں میں سنوائی نہیں ہورہی خطے میں ایک بڑا گیم پلان چل رہا ہے ۔

    سابق صدر کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال سے عوام پریشان ہورہی ہے، نظام کی تشکیلِ نو کی ضرورت ہے،وفاق کو مضبوط کرکے نئے صوبے بنانے کی ضرورت ہے، حکمران جو جمہوریت چلا رہے ہیں وہ اصل نہیں ہے، ، جوبھی نظام ہووہ ملک اور عوام کو خوشحالی دے۔

    ان کا کہنا تھا کہ این آر او کرکے مجھے ذاتی کوئی فائدہ نہیں ہوا ، این آر او سے پیپلز پارٹی کے تمام کیسزز ختم ہوئے، اب سوچتا ہوں کہ این آر او نہیں کرنا چاہیئے تھا، ملک میں ایک تیسری سیاسی قوت کی ضرورت ہے۔

    طاہرالقادری کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ طاہرالقادری تبدیلی مانگ رہے ہیں اور آنی چاہیئے2007کے بعد سے پاکستان میں ترقی رک گئی ہے، پہلےتبدیلیاں آئیں اور اس کے بعد انتخابات ہوں۔ اسلام آباد دھرنے کی حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔

    ان کا کہنا تھا کہ جب تک پاکستان میں فوج ہے پاکستان میں بلکنائزیشن نہیں ہوگی، 1999میں قوم فوج کے طرف دیکھ رہی تھی اور آج بھی یہی ہورہا ہےملک میں ،1999 کی طرح معاشی، سماجی صورتحال ہے، ہم سمجھتے میں فوج وہ فیصلہ کرے گی جو ملک کے حق میں ہوگا۔ امریکا کو مشورہ ہے کہ پاکستان نے داخلی معمالات میں دخل نہ دے، میرے معملات واضع تھے سب سے پہلے پاکستان ، میں آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہوں۔

    سابق صدر نے کہا کہ افضل خان نے چوہدری افتخار کو بے نقاب کردیا،2007میں افتخار چوہدری کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی، افتخار چوہدری کی کرپشن کا ریفرنس سپریم جوڈیشنل کونسل میں بھجی گئی مگر اسکی سنوائی نہیں ہوئی، افتخار چوہدری کی کرپشن کے ثبوت ریفرینس میں موجود تھے ۔