Tag: متحدہ ہندوستان

  • برطانیہ نے متحدہ ہندوستان سے کتنی دولت لوٹی؟ آکسفیم انٹرنیشنل کی ہنگامہ خیز رپورٹ

    برطانیہ نے متحدہ ہندوستان سے کتنی دولت لوٹی؟ آکسفیم انٹرنیشنل کی ہنگامہ خیز رپورٹ

    برطانیہ لگ بھگ دو صدیوں تک متحدہ ہندوستان پر قابض رہا اس دوران اس نے 64،820 ڈالر مالیت کا خزانہ لوٹ کر اپنے ملک منتقل کیا۔

    ایسٹ انڈیا کمپنی کی صورت میں ہندوستان آنے والے برطانیہ نے 1757 میں متحدہ ہندوستان پر قبضہ کیا جو لگ بھگ دو صدیوں (190 برس) تک جاری رہا اور اس کا خاتمہ اگست 1947 میں پاکستان اور بھارت کے قیام کے ساتھ ختم ہوا۔

    یہ برطانوی دور عدم مساوات، ظلم وجبر کی داستانوں اور ہندوستان کی دولت پر قابض ہونے اور اسے لوٹنے سے بھرا پڑا ہے۔

    آکسفیم انٹرنیشنل نے 1765 سے 1900 کے درمیان صرف 135 سالوں کے دوران برطانوی استعمار کی جانب سے ہندوستان سے لوٹی گئی دولت سے متعلق رپورٹ جاری کی ہے، جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ برطانیہ نے اس دوران 64،820 امریکی ڈالر کے مساوی دولت لوٹی۔

    رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لوٹی گئی اس رقم میں سے نصف سے زائد 33،800 ارب ڈالر برطانیہ کے سب سے امیر 10 فیصد لوگوں کے پاس گئے جب کہ اس لوٹ مار سے اس دور کے نئے ابھرتے ہوئے متوسط طبقے نے بھی فائدہ اٹھایا۔

    آکسفیم انٹرنیشنل کے مطابق تاریخی استعماری دور کے دوران ذات، مذہب، جنس، زبان اور جغرافیہ سمیت کئی دیگر تقسیموں کو پھیلایا گیا اور استحصال کیا گیا۔ انہیں ٹھوس شکل دی گئی اور پیچیدہ بنایا گیا۔

    آکسفیم انٹرنیشنل نے کہا کہ تاریخی استعماری دور میں پائی جانے والی عدم مساوات اور لوٹ مار کی بگاڑ، جدید زندگی کو تشکیل دے رہی ہیں۔ اس نے ایک انتہائی غیر مساوی دنیا بنائی ہے، ایک ایسی دنیا جو نسل پرستی پر مبنی تقسیم سے دو چار ہے، ایک ایسی دنیا جو گلوبل ساؤتھ سے منظم طور پر دولت نکالتی رہتی ہے، جس کا فائدہ بنیادی طور پر گلوبل نارتھ کے سب سے امیر لوگوں کو ملتا ہے۔

    آکسفیم انٹرنیشنل کے مطابق اگر لندن کے سطحی علاقے کو 50 برطانوی پاؤنڈ کے نوٹوں سے ڈھکا جائے تو مذکورہ بالا رقم ان نوٹوں سے 4 گنا زیادہ قیمت کی ہیں۔

    واضح رہے کہ آکسفیم کی یہ رپورٹ ورلڈ اکنامک فارم (ڈبلیو ای ایف) کے سالانہ اجلاس سے کچھ گھنٹے قبل ’ٹیکرس، ناٹ میکرس‘ کے عنوان سے جاری کی گئی۔ اس رپورٹ میں کئی مطالعوں اور تحقیقی مقالوں کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’’جدید ملٹی نیشنل کارپوریشن صرف استعمار کا نتیجہ ہیں۔

  • جاپانی ہندوستان پر حملہ نہیں کریں گے!

    جاپانی ہندوستان پر حملہ نہیں کریں گے!

    یہ متحدہ ہندوستان میں انگریز راج کی آخری دہائی کے سیاسی حالات اور جاپان کی جانب سے ہندوستان پر حملہ کرنے اور جنگ کے خدشہ کے پیشِ‌ نظر کی گئی اُس تیّاری کا احوال ہے جس کے خلاف کانگریس کے ایک بڑے اور جانے مانے لیڈر ابوالکلام آزاد نے ساتھیوں‌ کے صلاح مشورے سے تدبیر اور کاوشیں‌ شروع کی تھیں۔

    مولانا آزاد لکھتے ہیں، ہندوستان پر جاپان کے امکانی حملے کے پیش بندی کے طور پر میں نے پہلے ہی کچھ اقدامات کر لیے تھے۔ کانگریس کی تنظیم سے میں نے کہا تھا کہ جاپانیوں کے خلاف عوامی مزاحمت کی تعمیر کے لیے اُسے پروپیگنڈے کی ایک مہم چلانی چاہیے۔

    میں نے کلکتہ کو مختلف وارڈوں میں تقسیم کرایا تھا اور رضا کاروں کے جتھے، جنہوں نے جاپان کی مخالفت کا عہد کر رکھا تھا ان کی تربیت اور تنظیم شروع کر دی تھی۔ ان رضا کاروں کو یہ ہدایت دی گئی تھی کہ اگر جاپانی فوج پیش قدمی کرے، تو اس کے راستے میں ہر ممکن رکاوٹ کھڑی کرنا ہوگی۔ میرے ذہن میں یہ اسکیم تھی کہ جیسے ہی جاپانی فوج بنگال پہنچے اور برطانوی فوج پیچھے ہٹے، کانگریس کو اپنے رضا کاروں کی مدد سے آگے بڑھ کر ملک کا کنٹرول سنبھال لینا چاہیے۔ اس سے پہلے کہ جاپانی اپنے قدم جما سکیں، بیچ کے وقفے میں ہمیں اقتدار پر قابض ہو جانا چاہیے۔ صرف اسی طرح ہم اپنے نئے دشمن کا مقابلہ کر سکتے تھے اور اپنی آزادی حاصل کر سکتے تھے۔

    درصل مئی اور جون 1942ء میں میرے وقت کا بیش تر حصہ اس نئی تدبیر کو آگے بڑھانے اور اس پر عمل پیرا ہونے میں صرف ہوا۔ میں یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ گاندھی جی مجھ سے متفق نہیں تھے۔ انہوں نے دو ٹوک لفظوں میں مجھ سے کہا کہ اگر جاپانی فوج کبھی ہندوستان آ ہی گئی، تو وہ ہمارے دشمن کے طور پر نہیں، بلکہ انگریزوں کے دشمن کے طور پر آئے گی۔ ان کا خیال تھا کہ اگر انگریز چلے گئے، تو جاپانی ہندوستان پر حملہ نہیں کریں گے۔ میں اس تجزیے کو تسلیم نہیں کرسکا اور طویل بحثوں کے باوجود ہم کسی مفاہمت پر نہیں پہنچ سکے، چناں چہ ہم اختلاف کے ایک نوٹ کے ساتھ ایک دوسرے سے الگ ہو گئے۔

  • لارڈ میکالے: ہندوستانی تہذیب و ثقافت کا غارت گر یا خیر خواہ؟

    لارڈ میکالے: ہندوستانی تہذیب و ثقافت کا غارت گر یا خیر خواہ؟

    لارڈ میکالے ایک انگریز مدبّر اور ایسا پالیسی ساز تھا جس نے برطانوی عہد میں ہندوستان میں اپنی ذمہ داریاں نبھائیں، لیکن وہ برصغیر میں متنازع بھی رہا کہ بحیثیت قوم ہندوستانیوں کے نزدیک میکالے ان کی تہذیب اور ثقافت کا دشمن اور اسی بنیاد پر قابلِ نفرت شخص تھا۔ لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ تقسیمِ ہند کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے نام سے معرضِ‌ وجود میں آنے والی دو ریاستیں آج بھی اسی لارڈ میکالے کی فکر اور پالیسیوں سے استفادہ کر رہی ہیں۔

    میکالے کا تذکرہ بالخصوص ہندوستان میں تعلیمی نظام اور قوانین و تعزیرات کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔ میکالے کے بارے میں ہندوستانیوں کی ایک عام رائے یہ تھی کہ وہ مغربی فکر اور تہذیب و ثقافت کو ہندوستان میں‌ پروان چڑھانے اور ہندوستان کو اس کی تاریخی اور ثقافتی جڑوں سے الگ کرکے یہاں ایک طبقہ پیدا کرنا چاہتا تھا جو مغرب کی اقدار کی پیروی کرتا ہو۔ اس کے ثبوت میں اس کا یہ مقولہ ہر جگہ پڑھنے کو ملتا تھا: ”ہماری بہترین کوششیں ایک ایسا طبقہ معرضِ وجود میں لانے کے لیے وقف ہونی چاہییں جو ایسے افراد پر مشتمل ہو جو رنگ و نسل کے لحاظ سے تو ہندوستانی ہو لیکن ذوق، ذہن، اخلاق اور فہم و فراست کے اعتبار سے انگریز“۔

    ہمارا نظامِ تعلیم بھی لارڈ میکالے کی دین ہے۔ وہ 25 اکتوبر 1800ء میں پیدا ہوا اور 1859ء میکالے اس دنیا سے کوچ کر گیا۔ وہ اپنے عہد کا ایک دانش ور تھا جو برطانوی پارلیمان میں‌ شامل رہا۔ میکالے نے تاریخی اور سماجی و سیاسی موضوعات پر مضامین تحریر کیے اور شہرت پائی۔ وہ 1839ء اور 1841ء کی جنگوں میں ’’سیکریٹری آف وار‘‘ کے عہدے پر بھی فائز رہا۔ اس نے 1846ء اور 1848ء کے دوران ’’پے ماسٹر جنرل ‘‘ کی ذمہ داریاں بھی نبھائیں۔ انگلستان کی تاریخ پر شاہ کار کتاب بھی تحریر کی، اور برصغیر میں تعلیمی پالیسی ساز کے طور پر کام کیا مگر ہندوستانی عوام میں وہ صرف مغربی تہذیب اور ثقافت کا پرچارک مشہور تھا۔ لارڈ میکالے کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اسے یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ جو بھی پالیسی نافذ کرنا چاہے، کر سکتا تھا۔ لارڈ میکالے نے جس نظامِ تعلیم کی داغ بیل ڈالی تھی، اس نے واقعی برِّصغیر کا تعلیمی ماحول یک سَر تبدیل کر دیا تھا جو ہندوستانیوں‌ کی سوچ میں تبدیلی کا ذریعہ بن گیا۔ متحدہ ہندوستان میں اُس وقت کے کئی علما، فاضل شخصیات، مسلمان سیاسی راہ نماؤں اور دانش وروں‌ نے بھی انگریزی زبان کی ترویج، اور جدید تعلیم کے لیے لارڈ میکالے کی تجاویز اور بعض‌ نکات پر اعتراضات کیے تھے، لیکن اسے قبول بھی کر لیا گیا۔ یہ شخصیات سمجھتی تھیں کہ میکالے کی وجہ سے ہندوستانی اپنی تہذیب و ثقافت کو کم تر خیال کرنے لگے ہیں اور وہ مغربی کلچر کو قبول کررہے ہیں۔

    ٹامس بیبنگٹن میکالے اس کا پورا نام تھا جو 1834ء میں ہندوستان کی سپریم کونسل میں بطور رکن قانون حلف اٹھانے کے بعد یہاں چار برس تک مقیم رہا۔ ہندوستان میں اس نے انڈین پینل کوڈ مرتب کیا۔ اس کا دوسرا بڑا کارنامہ اس تعلیمی یادداشت کی تصنیف تھا۔ اس کے فیصلوں نے ہندوستان کے تعلیمی مستقبل اور اس کے قانونی نظام پر اپنے گہرے اثرات مرتب کیے۔

    میکالے کی مخالفت اور اس کی پالیسیوں پر نکتہ چینی کے باوجود اس انگریز کا پہلا کارنامہ ہندوستان میں جدید نظامِ تعلیم کی ترویج اور دوسرا مجموعۂ تعزیراتِ ہند کی تشکیل کہا جاتا ہے۔ اس کے وضع کردہ نظامِ تعلیم اور تشکیل کردہ مجموعۂ تعزیرات ہند کی جامعیت ملاحظہ ہو کہ لگ بھگ دو صدی بعد بھی برصغیر پاک و ہند میں ان دونوں نظاموں میں معمولی ترامیم تو کی جاتی ہیں، لیکن ان کا کوئی قابلِ قبول متبادل آج تک پیش نہیں کیا جاسکا۔ ہندوستانی تہذیب و ثقافت کا یہ غارت گر بھی کیسا نکلا کہ اس کی سربراہی میں جو مجموعۂ تعزیراتِ ہند مرتب کیا گیا، اسے پاکستان اور بھارت نے اپنے قیام کے بعد قبول بھی کیا اور ان دونوں ملکوں کی عدالتوں میں فوجداری مقدمات کا فیصلہ انہی کی بنیاد پر کیا جاتا اور مجرموں کو سزائیں سنائی جاتی ہیں۔ یہ قوانین غدر کے بعد برطانوی حکومت کے تحت ہندوستان میں نافذ کیے گئے تھے۔ یہ مجموعۂ تعزیرات پانچ سو گیارہ دفعات پر مشتمل ہے۔ میکالے کی ذہانت اور فہم کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے ان پانچ سو گیارہ دفعات میں جرم کی ہر شکل کو کچھ اس انداز سے سمو دیا ہے کہ اس پر بڑے بڑے قانون داں بھی حیران رہ جاتے ہیں۔ تعزیرات کا یہ نظام پاک و ہند کی سماجی زندگی میں بھی اس طرح رچ بس گیا ہے کہ اس سے زیادہ معقول سزائیں ہم آج بھی نہیں سوچ سکے ہیں۔ خود کشی کی کوشش سے لے کر قتلِ عمد تک، انفرادی لڑائی جھگڑے سے لے کر بلوے تک اور نفرت انگیز تقاریر سے لے کر ریاست کے خلاف بغاوت تک کے ہر جرم کی اتنی معقول سزا اس مجموعے میں لکھی گئی ہے کہ اس میں کوئی کمی بیشی مشکل نظر آتی ہے اور ہر قانون داں لارڈ میکالے کی طے کردہ سزا پر ہی متفق ہے۔

    پاکستان معرضِ وجود میں آیا تو یہاں دستور ساز اسمبلی نے انہی قوانین کو ‘مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان‘ کہہ کر منظور کر لیا۔ بعد میں معمولی اور جزوی تبدیلیاں تو کی گئیں مگر بیشتر کو بعینہ روا رکھا گیا۔

    لارڈ میکالے کے مجموعۂ تعزیرات کا پندرہواں باب مذہبی منافرت کے بارے میں ہے۔ اس باب میں اس نے بتایا ہے کہ اگر کوئی شخص مذہب کی آڑ لے کر معاشرے کے کسی گروہ کو نشانہ بناتا ہے تو اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جانا چاہیے۔ اس باب میں‌ تجویز کردہ سزاؤں کا خوف ایسا تھا کہ کئی برس تک برطانوی ہندوستان کا کثیر مذہبی معاشرہ بڑی حد تک مذہبی رواداری کے ساتھ قائم رہا لیکن بعد میں‌ پاکستان اور بھارت میں‌ بھی مذہبی تفریق اور تعصب نے کیا کیا رنگ دکھائے، یہ سب کے سامنے ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ متحدہ ہندوستان میں مخصوص ذہنیت اور مذہبی و ثقافتی تفاخر میں مبتلا راہ نماؤں نے اپنے زیرِ اثر طبقات میں جس طرح لارڈ میکالے کو اس کی پالیسیوں پر مطعون کیا اور اس کے اقدامات کو متنازع بنایا، ان کو ہندوستان میں فکری اور تعلیمی سطح پر انقلابی تبدیلیاں دیکھنے کے خواہش مند بعض حلقوں کے اکابرین نے تنقید کا نشانہ بھی بنایا تھا، اور اس سوچ کو ہندوستانی قوم کی پسماندگی اور مسلسل تنزلّی کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔ آج کسی نہ کسی شکل میں میکالے کی سوچ بھی زندہ ہے اور اس کی پالیسیاں اور وضع کردہ قوانین بھی ہمارے لیے کارآمد ثابت ہو رہے ہیں۔

  • اتنے طالبِ علم کھائیں گے کہاں سے؟

    اتنے طالبِ علم کھائیں گے کہاں سے؟

    جس زمانہ میں سر سیّد مولوی نوازش علی مرحوم سے دلّی میں پڑھتے تھے، میر محمد مرحوم امام جامع مسجد دہلی بھی ان کے ساتھ پڑھتے تھے۔

    وہ کہتے تھے کہ جب سیّد صاحب چند روز کے لیے قائم مقام صدر امین مقرر ہو کر رہتک جانے لگے تو انھوں نے مولوی صاحب سے کہا کہ آپ بھی رہتک چلیے۔ مولوی صاحب ہنسنے لگے اور کہا کہ میں بھلا کیوں کر جا سکتا ہوں؟

    ایک جماعت کثیر طلبہ کی مجھ سے پڑھتی ہے، ان کو کس پر چھوڑ کر جاؤں؟ انھوں نے کہا، ” سب طلبہ کو بھی ساتھ لے چلیے۔”

    مولوی صاحب کو اور زیادہ تعجب ہوا کہ اتنے طالبِ علم کھائیں گے کہاں سے؟

    سیّد صاحب نے کہا: "آپ ان کے کھانے پینے کا تو فکر کیجیے نہیں، خدا رازق ہے، لیکن یہ سمجھ لیجیے کہ اگر آپ نہ چلیں گے تو میں رہتک جانے سے انکار کر دوں گا اور اس سے میری آئندہ ترقّی رک جائے گی۔”

    آخر مولوی صاحب کو اس کے علاوہ کچھ بن نہ آیا کہ وہ مع طالب علموں کی جماعت کے ان کے ساتھ ہو لیے اور جب تک رہتک رہنا ہوا سب کا خرچ سیّد صاحب کے ذمہ رہا۔

    (ہندوستانی مسلمانوں کے عظیم خیر خواہ اور مصلح سر سیّد احمد خاں کی دریا دلی اور سخاوت کی ایک لفظی تصویر)

  • "سنا ہے آپ بہت اچھا فارسی جانتا ہے!”

    "سنا ہے آپ بہت اچھا فارسی جانتا ہے!”

    ہندوستان پر برطانوی راج کے دوران جہاں اس خطے کے عام باسیوں اور اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگوں کو انگریزی زبان سمجھنے اور گوروں کے ساتھ بات چیت میں دشواری پیش آتی تھی، اسی طرح انگریزوں کو بھی براہ راست عوام سے رابطے میں زبان ہی رکاوٹ تھی۔

    بعض انگریز صوبے دار اور بڑے عہدوں پر فائز افسران مقامی زبان سیکھنے کے خواہش مند ہوئے۔ کچھ نے سرکاری ضرورت کے تحت اور بعض نے ذاتی خواہش اور دل چسپی سے فارسی سیکھنے کے لیے اتالیق کی مدد لی۔ تاہم عام بول چال اور بات تھی، مگر بامحاورہ اور شاعرانہ گفتگو ہضم کرنا آسان تو نہ تھا۔ اسی سے متعلق ایک دل چسپ واقعہ پڑھیے۔

    مشہور ادیب آغا حشر کاشمیری کے ایک شناسا خاصے باذوق، صاحبِ علم اور فارسی پر عبور رکھتے تھے۔ کہتے ہیں ایرانی بھی ان کی فارسی دانی کو تسلیم کرتے تھے، لیکن ان دنوں مولوی صاحب روزگار سے محروم تھے اور معاشی مسائل جھیل رہے تھے۔

    آغا حشر ان کے حالات سے اچھی طرح واقف تھے اور کوشش تھی کہ کسی طرح مولوی صاحب کی ملازمت ہوجائے۔ ایک روز کسی نے آغا صاحب کو بتایاکہ ایک انگریز افسر فارسی سیکھنا چاہتا ہے اور کسی اچھے اتالیق کی تلاش میں ہے۔

    آغا صاحب نے بمبئی کے ایک معروف رئیس کے توسط سے مولوی صاحب کو اس انگریز افسر کے ہاں بھجوا دیا۔

    صاحب بہادر نے مولوی صاحب سے کہا۔

    "ویل مولوی صاحب ہم کو معلوم ہوا کہ آپ بہت اچھا فارسی جانتا ہے۔”

    مولوی صاحب نے انکساری سے کام لیتے ہوئے کہا۔ "حضور کی بندہ پروری ہے ورنہ میں فارسی سے کہاں واقف ہوں۔”

    صاحب بہادر نے یہ سنا تو مولوی صاحب سے ادھر ادھر کی دو چار باتیں کیں اور نہایت احترام سے رخصت کر دیا، لیکن جس رئیس نے انھیں بھیجا تھا، اس سے شکایت یہ کی کہ بغیر سوچے سمجھے ایک ایسے آدمی کو فارسی پڑھانے کے لیے میرے پاس کیوں بھیجا جو اس زبان کا ایک لفظ تک نہیں جانتا۔