Tag: متعدی

  • اومیکرون مریض کو زیادہ بیمار نہیں بناتا: نئی تحقیق

    اومیکرون مریض کو زیادہ بیمار نہیں بناتا: نئی تحقیق

    کرونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ اپنے مریض کو زیادہ بیمار نہیں بناتا اور نہ ہی یہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق جنوبی افریقی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کرونا کی اومیکرون قسم کے اب تک کے ڈیٹا اور نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ نئی قسم مریض کو زیادہ بیمار نہیں بناتی۔

    جنوبی افریقی سائنسدانوں نے گزشتہ 2 ہفتوں کے دوران رپورٹ ہونے والے اومیکرون کیسز کے ڈیٹا کی بنیاد پر کہا ہے کہ اس بات کے بھی شواہد نہیں ملے کہ نئی قسم تیزی سے پھیل رہی ہے۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ اومیکرون کی تصدیق کے بعد اب تک جنوبی افریقہ میں ایک دن میں زیادہ سے زیادہ 22 ہزار نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ اس سے قبل ڈیلٹا ویرئنٹ کے پھیلنے کے وقت سب سے زیادہ 26 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔

    ماہرین کے مطابق اب تک اومیکرون ویرئنٹ جنوبی افریقہ کے 9 صوبوں تک پھیل چکا ہے مگر دیکھنے میں آیا ہے کہ اس قسم میں مبتلا ہونے والا شخص زیادہ بیمار نہیں ہو رہا۔

    سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اومیکرون سے متاثرہ شخص کم عرصے تک اسپتال میں داخل رہتا ہے اور اس میں سنگین علامات بھی نہیں دکھائی دیتیں، تاہم ساتھ ہی ماہرین نے کہا کہ ابھی اومیکرون کو کم شدت والی قسم قرار دینا قبل از وقت ہے، اس کے لیے مزید ڈیٹا اور نتائج کی ضرورت ہے۔

    اومیکرون کی نئی قسم کو نومبر کے آخر میں 25 یا 26 نومبر کو جنوبی افریقہ میں پایا گیا تھا اور اس وقت وہاں کے ماہرین نے اسے سب سے زیادہ خطرناک قسم قرار دیا تھا۔

    اومیکرن گزشتہ دو ہفتوں میں 5 درجن کے قریب ممالک تک پھیل چکا ہے، تاہم اب تک کی اطلاعات اور رپورٹس کے مطابق اس میں مبتلا ہونے والے افراد میں موت کی شرح کم بلکہ نہ ہونے کے برابر دیکھی گئی ہے۔

    پاکستان کے صوبہ سندھ میں بھی 9 دسمبر کو اومیکرون کے پہلے کیس کی تصدیق کی گئی تھی جبکہ بھارت سمیت دیگر جنوبی ایشیائی ممالک میں بھی نئی قسم کے کیسز سامنے آ چکے ہیں۔

  • کرونا وائرس کی نئی اقسام زیادہ متعدی کیوں ہیں؟

    کرونا وائرس کی نئی اقسام زیادہ متعدی کیوں ہیں؟

    کرونا وائرس کی نئی اقسام ڈیلٹا اور ایلفا اصل قسم سے زیادہ متعدی تصور کی جاتی ہیں، اور اب ماہرین نے اس کی وجہ دریافت کرلی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق ایک تحقیق میں ایسی میوٹیشن کی نشاندہی کی گئی ہے جس سے وضاحت ہوتی ہے کہ کرونا وائرس کی ایلفا قسم دیگر اقسام سے بہت زیادہ متعدی کیوں ہے۔

    کیلیفورنیا یونیورسٹی کے ماہرین نے تحقیق میں دریافت کیا کہ ایک غیر واضح میوٹیشن نے وائرس کے ساختی جسم کو اس طرح تبدیل کیا جس کے نتیجے میں وہ زیادہ متعدی ہوگئی۔

    آر 20 ایم نامی میوٹیشن ڈیلٹا کو منفرد بناتی ہے جس کے نتیجے میں وائرس اپنے میزبان خلیات میں اپنے جینیاتی کوڈ کو وائرس کی پرانی اقسام کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ انجیکٹ کرتا ہے۔

    اس تحقیق کے لیے ماہرین نے اوریجنل وائرس کا ایک فرضی ورژن تیار کیا جس میں آر 203 ایم میوٹیشن کا اضافہ کیا گیا، اس کے بعد مشاہدہ کیا گیا کہ کس طرح تدوین شدہ قسم لیبارٹری میں پھیپھڑوں کے خلیات پر اثرات مرتب کرتا ہے اور اس کا موازنہ اوریجنل وائرس سے کیا گیا۔

    تحقیقی ٹیم یہ دریافت کرکے حیران رہ گئی کہ آر 203 ایم پرانی اقسام کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ ایم آر این اے خلیات میں پھیلا دیتی ہے۔

    اس دریافت کی تصدیق کے لیے انہوں نے حقیقی کرونا وائرس میں آر 203 ایم کا اضافہ کیا جس کے نتیجے میں وہ اوریجنل وائرس سے 51 گنا زیادہ متعدی ہوگیا۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ نتائج سے ان شبہات کی تصدیق ہوتی ہے کہ کرونا کی قسم ڈیلٹا میں اسپائیک پروٹینز سے ہٹ کر بھی بہت کچھ ہے۔ آر 203 ایم سے کووڈ کی وہ پروٹین کوٹنگ بدل گئی جو اس کے جینوم کے ارگرد ہوتی ہے، اس کو این پروٹین بھی کہا جاتا ہے۔

    یہ پروٹین جسم میں داخل ہونے کے بعد وائرس کے استحکام اور اخراج میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

    اس تحقیق میں کرونا کی دیگر اقسام میں بھی این پروٹینز کی تبدیلیوں کو دیکھا گیا اور دریافت ہوا کہ وہ بھی خلیات کو متاثر کرنے میں اوریجنل وائرس سے زیادہ بہتر کام کرتی ہیں۔

  • کرونا مریض کن دنوں میں بیماری زیادہ پھیلاتے ہیں؟ محققین نے خبردار کر دیا

    کرونا مریض کن دنوں میں بیماری زیادہ پھیلاتے ہیں؟ محققین نے خبردار کر دیا

    میساچوسٹس: طبی ماہرین شروع ہی سے اس امر کی تحقیق میں مصروف ہیں کہ نہایت متعدی ثابت ہونے والے کووِڈ نائنٹین کے شکار مریض کب اور کن دنوں میں بیماری زیادہ پھیلاتے ہیں، یا کرونا کے مریضوں سے کب اس بیماری کا دیگر تک پھیلنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے؟

    امریکا میں بوسٹن یونیورسٹی اسکول آف پبلک ہیلتھ کی تحقیق میں معلوم کیا گیا کہ کووڈ سے متاثر افراد علامات کے ابھرنے سے 2 دن پہلے اور 3 دن بعد سب سے زیادہ متعدی ہوتے ہیں۔

    طبی جریدے جرنل جاما انٹرنل میڈیسین میں شائع شدہ اس تحقیق میں یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کسی شخص میں کرونا وائرس علامات پیدا کیے بغیر اس سے دوسرے فرد میں منتقل ہو، تو اس میں بھی علامات ظاہر ہونے کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔

    محققین نے جنوری 2020 سے اگست 2020 کے دوران چین کے صوبے ژیجیانگ میں پرائمری کووِڈ کیسز (یعنی پہلے فرد سے جب وائرس قریبی لوگوں میں پھیلا) کے 9 ہزار کے قریب نزدیکی افراد کا جائزہ لیا، ان میں گھر کے افراد، دفتری ساتھی، اسپتال میں کام کرنے والے افراد اور رائیڈ شیئرنگ گاڑیوں کو چلانے والے شامل تھے۔

    پرائمری کیسز کے طور پر شناخت ہونے والے ان افراد میں سے 89 فی صد میں معمولی یا معتدل علامات ابھریں، جب کہ 11 فی صد بغیر علامات والے مریض تھے، ان میں سے کسی کو بھی بیماری کی سنگین شدت کا سامنا نہیں ہوا۔

    تحقیق میں دیکھا گیا کہ پرائمری کیسز کے گھر والوں میں وائرس پھیلنے کی شرح دیگر قریبی افراد کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ تھی، یہ بھی معلوم ہوا کہ پہلے کیس سے یہ بیماری علامات کے ابھرنے سے کچھ پہلے یا بعد میں زیادہ منتقل ہوئی۔

    یہ بھی دیکھا گیا کہ معمولی یا معتدل علامات والے مریضوں کے مقابلے میں بغیر علامات والے مریضوں سے قریبی افراد میں وائرس کی منتقلی کا امکان کم ہوتا ہے، اگر وائرس منتقل بھی ہوتا ہے تو ان قریبی افراد میں بھی علامات ابھرنے کا امکان کم ہوتا ہے۔

    محققین کے مطابق ان نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ پہلے کیس سے دیگر میں بیماری کی منتقلی کا وقت وائرس کے پھیلاؤ کے لیے اہمیت رکھتا ہے، اور اس خیال کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے کہ ریپڈ ٹیسٹنگ اور بیمار فرد کو قرنطینہ میں منتقل کرنا وبا کو قابو میں کرنے کے لیے اہم قدم ہے۔

  • کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے پریشان کن تحقیق

    کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے پریشان کن تحقیق

    کرونا وائرس کے بارے میں نئی تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے، حال ہی میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے ایک نئی تحقیق نے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

    امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں کرونا وائرس کے 5 ہزار سے زائد جینیاتی سیکونسز کا تجزیہ کیا گیا، تجزیے میں نکشاف ہوا کہ وائرس میں ایسی تبدیلیاں آرہی ہیں یا ایسی اقسام بن رہی ہیں جو اسے زیادہ متعدی بنا رہی ہیں۔

    یہ اقسام مریضوں میں زیادہ وائرل لوڈ کا باعث بنتی ہیں۔ تحقیق میں یہ دریافت نہیں ہوا کہ یہ نئی اقسام پہلے سے زیادہ جان لیوا ہوں گی یا نہیں۔

    اس سے قبل ستمبر کے شروع میں برطانیہ میں کرونا وائرس کے جینیاتی سیکونسز کی بڑی تعداد پر ہونے والی تحقیق میں بھی بتایا گیا تھا کہ ان اقسام میں اسپائیک پروٹین کی ساخت پہلے سے تبدیل ہے۔

    ماہرین کے مطابق دیگر وائرسز کے مقابلے میں کرونا وائرسز جیسے سارس کووڈ 2 جینیاتی طور پر زیادہ مستحکم ہیں جس کی وجہ اس کا نقول بنانے والا پروف ریڈنگ میکنزم ہے تاہم روزانہ لاکھوں نئے کیسز کے ساتھ اس وائرس کو اپنے اندر تبدیلی لانے کے مواقع مل رہے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ وائرس ممکنہ طور پر مختلف تبدیلیوں جیسے ماسک پہننے اور سماجی دوری کے اقدامات کے ساتھ اپنی اقسام بنا رہا ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ فیس ماسک پہننے، ہاتھوں کو دھونے اور دیگر احتیاطی تدابیر وائرس کی منتقلی کے خلاف رکاوٹ ثابت ہوتی ہیں، مگر بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ان رکاوٹوں کے ساتھ یہ وائرس بھی زیادہ متعدی ہوگیا ہے۔