Tag: متنازع قانون

  • شہریت کا متنازع قانون، بھارتی دارالحکومت میدان جنگ بن گیا، 3 افراد ہلاک

    شہریت کا متنازع قانون، بھارتی دارالحکومت میدان جنگ بن گیا، 3 افراد ہلاک

    نئی دہلی: بھارت میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف ملک بھر میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جبکہ دارالحکومت میں تین افراد ہلاک ہوگئے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق شہریت کے متنازع قانون کے خلاف نئی دہلی کے مختلف علاقوں میں ہونے والے مظاہروں میں شدت آگئی، پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم کے نتیجے میں ایک اہلکار سمیت 3 افراد ہلاک ہوگئے۔

    سینئر پولیس اہلکار سمیت کئی اہلکار مظاہرین کے پتھراؤ سے زخمی بھی ہوئے۔ دہلی کے 10علاقوں میں پولیس نے دفعہ 144 نافذ کردی۔ دہلی کے ظفرآباد، موج پور، سلیم پور اور چاندباغ میں ہنگاموں کا سلسلہ جاری ہے۔

    بھارت میں شہریت کے متنازع قانون کیخلاف مظاہرہ کرنے والوں کو گولی مارنے کا مطالبہ

    نئی دلی میں شہریت کے متنازع قانون پر مسلسل دوسرے دن بھی ہنگامے جاری ہیں۔

    رکن اسمبلی اسدالدین اویسی نے کپل مشرا پر ہنگامہ آرائی کا الزام عائد کردیا۔ اویسی کا کہنا ہے کہ ہنگامے بھارتی جنتا پارٹی بی جے پی رہنما کی وجہ سے ہورہے ہیں جسے فوراً گرفتار کیا جائے۔

    غیرملکی میڈیا کا کہنا ہے کہ زخمیوں کو مقامی اسپتال منتقل کردیا گیا جبکہ حالات اب بھی کشیدہ ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ بھارت سے مظاہرے میں مزید شدت آگئی ہے۔ شمال مشرق دلی کے دس علاقوں میں پولیس نے دفعہ 144 نافذ کر دی ہے۔

  • مودی کا مکروہ چہرہ بے نقاب کرنے پر شاعر اور صحافی گرفتار

    مودی کا مکروہ چہرہ بے نقاب کرنے پر شاعر اور صحافی گرفتار

    نئی وہلی: بھارت میں شاعر اور صحافی نے مودی کو آئینہ دکھایا تو سرکار برا مان گئی، پولیس نے گرفتار کرلیا۔

    بھارتی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق سراج بسرالی نامی بھارتی شاعر نے شہریت کے متنازع قانون کے خلاف نظم پڑھی جس پر انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ یہ واقعہ بھارتی ریاست کرناتکا میں پیش آیا۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سراج بسرالی کے علاوہ اس صحافی کو بھی گرفتار کیا گیا ہے جس نے مذکورہ نظم کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر شیئر کی تھی۔ گرفتار دوسرے شخص کی شناخت راجا باسی کے نام سے ہوئی ہے۔

    پولیس کا کہنا ہے کہ شاعر نے بڑی تقریب کے دوران شہریت کے قانون کے خلاف نظم پڑھی تھی جبکہ ان کی نظم کو راجا باسی نامی صحافی نے سوشل میڈیا پر بھی شیئر کی تھی۔

    خیال رہے کہ بھارت کے مختلف شہروں میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ تاحال جاری ہے، روز بروز مظاہروں میں تیزی آرہی ہے، اب تک پولیس کی فائرنگ اور تشدد سے درجنوں مظاہرین ہلاک ہوچکے ہیں۔

    واضح رہے کہ شہریت کے متنازع قانون کے خلاف ناصرف مسلمان بلکہ تمام مذاہب کے ماننے والے بھی سراپا احتجاج ہیں۔

  • بازوئے قاتل کا زور آزمانے والا رام پرشاد بسمل

    بازوئے قاتل کا زور آزمانے والا رام پرشاد بسمل

    بھارت میں شہریت کے متنازع قانون اور مودی کی بدمعاشی کے خلاف تمام ریاستوں میں احتجاج جاری ہے اور اجتماعات کے دوران سنجیدہ اور باشعور شہری ان نعروں اور ترانوں سے مودی سرکار اور اس کے حامیوں کو للکار رہے ہیں جو کروڑوں انسانوں کو ان کے بنیادی حق سے محروم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

    سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
    دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

    یہ شعر بسمل شاہ جہاں پوری کی ایک پابند نظم کا مطلع ہے۔

    شاہ جہان پور (یو پی) میں آنکھ کھولنے والے رام پرشاد بسمل شاہ جہاں پوری ساری زندگی انگریزوں کے خلاف میدانِ عمل میں سرگرم رہے اور اسی پاداش میں موت کی سزا پائی۔

    1893 میں ہوش سنبھالنے کے بعد اپنے وطن کو برطانیہ کی غلامی سے آزاد دیکھنے کی آرزو کرنے والے بسمل نے آزادی کے متوالوں سے رابطہ کیا اور انگریزوں کے خلاف کارروائیوں میں حصہ لینے لگے. 1918 میں ایک سازش کیس میں بسمل شاہ جہاں پوری کا بھی نام شامل تھا جس کے بعد انھیں روپوشی اختیار کرنا پڑی۔

    کہتے ہیں وہ ماہر نشانہ باز تھے۔ 1925 میں انگریزوں کے خلاف ایک کارروائی میں حصّہ لیتے ہوئے گرفتار ہوئے۔ مقدمہ چلا اور انگریز سرکار نے انھیں 1927 میں پھانسی دے دی۔

    شعر و ادب کا عمدہ ذوق رکھتے تھے اور خود بھی شاعری کرتے تھے۔ مقدمے کی کارروائی کے دوران ان کی کئی نظمیں مشہور ہوئیں۔ تاہم ان کا زیادہ کلام محفوظ نہ رہ سکا۔ پیشِ نظر نظم کا پہلا شعر بہت مشہور ہوا، اسے بعض لوگ مولانا ظفر علی خان سے منسوب کرتے ہیں، لیکن یہ غلط ہے۔ یہ بسمل شاہ جہاں‌ پوری کا وہ شعر ہے جسے تحریر سے لے کر تقریر تک ہر خاص و عام نے برتا ہے۔

    کبھی یہ نظم انگریز سرکار کے خلاف آزادی کا نعرہ تھی اور آج دنیا بھر میں امن کے لیے خطرہ بن جانے والے مودی کو اس کے ذریعے للکارا جارہا ہے۔

    بسمل شاہ جہاں پوری کا یہ کلام آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔

    سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
    دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

    وقت آنے دے بتا دیں گے، تجھے اے آسماں
    ہم ابھی سے کیا بتائیں، کیا ہمارے دل میں ہے

    اے شہید ملک و ملت، تیرے جذبوں کے نثار
    تیری قربانی کا چرچا، غیر کی محفل میں ہے

    ساحلِ مقصود پر لے چل، خدارا ناخدا
    آج ہندوستان کی کشتی، بڑی مشکل میں ہے

    دور ہو اب ہند سے تاریکیِ بغض و حسد
    بس یہی حسرت، یہی ارماں ہمارے دل میں ہے

    وہ نہ اگلے ولولے ہیں اب، نہ ارمانوں کی بھیڑ
    ایک مٹ جانے کی حسرت، اب دلِ بسمل میں ہے

  • بھارت میں مودی کے خلاف اپوزیشن ڈٹ گئی، اہم قرارداد منظور

    بھارت میں مودی کے خلاف اپوزیشن ڈٹ گئی، اہم قرارداد منظور

    نئی دہلی: بھارت میں اقلیتوں کے خلاف شہریت کے متنازع قانون کی معطلی کی قرارداد اپوزیشن نے منظور کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق بھارت میں 20 سے زائد اپوزیشن جماعتوں نے مودی حکومت کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے ملک میں نافذ شہریت کے متنازع قانون کی منسوخی کے لیے قرارداد منظور کرلی۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق بھارتی پارلیمنٹ میں متفقہ طور پر 20 اپوزیشن جماعتوں نے شہریت کے متنازع قانون کو رد کردیا اور ملک میں جاری بحران، احتجاج اور جلاؤ گھراؤ کو مذکوہ قانون کی وجہ قرار دے دیا۔

    قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ بھارتی ریاستوں کے تمام وزرائے اعلیٰ اس متنازع قانون کے نفاذ کو مسترد کردیں۔

    پارلیمنٹ اجلاس کے دوران اپوزیشن رہنما سونیہ گاندھی کا کہنا تھا کہ بی جے پی حکومت کی نااہلی کھل کر سامنے آچکی ہے، مودی بھارت میں حکومت کرنے اور شہریوں کو ان کے حقوق دینے میں ناکام ہوچکے ہیں۔

    خیال رہے کہ بھارت کے مختلف شہروں میں شہریت کے متنازعہ قانون کیخلاف مظاہروں کا سلسلہ تاحال جاری ہے، روز بروز مظاہروں میں تیزی آرہی ہے، اب تک پولیس کی فائرنگ اور تشدد سے درجنوں مظاہرین ہلاک ہوچکے ہیں۔

    مظاہرین حکومت کو یہ اقدام واپس لینے کیلئے احتجاج کے نت نئے طریقے اختیار کررہے ہیں، اس حوالے سے گزشتہ دنوں نئی دہلی میں جامعہ یونیورسٹی شاہین باغ، انڈیا گیٹ پر طلبہ نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور معروف پاکستانی شاعر فیض احمد فیض کی نظم ہم دیکھیں گے پڑھی۔

  • ’’مسائل حل کرنے کے بجائے مودی لوگوں کو ملک سے نکال رہے ہیں‘‘

    ’’مسائل حل کرنے کے بجائے مودی لوگوں کو ملک سے نکال رہے ہیں‘‘

    نئی دہلی: وزیراعلیٰ مغربی بنگال ممتابینرجی کا کہنا ہے کہ شہریت کا متنازع قانون بی جے پی کی نفرت کی سیاست کا ایجنڈہ ہے، مودی حکومت عوام میں پھوٹ ڈال کر سیاسی فائدہ چاہتی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اپنے ایک بیان میں وزیراعلیٰ مغربی بنگال کا کہنا تھا کہ مسائل پر توجہ کے بجائے مودی لوگوں کو ملک سے نکال رہے ہیں، شہریت ترمیمی قانون سے آئین کی خلاف ورزی ہوتی ہے، این آر سی کے ٹارگٹ پر وہ ہیں جن سے بی جے پی نفرت کرتی ہے۔

    ممتابینرجی نے یہ بھی کہا کہ بی جے پی مسلمانوں سے تو شروع سے ہی نفرت کرتی ہے، مودی کی حکومت این آر سی کو ہندوتحریک بنانا چاہتی ہے، متنازعہ قانون کو مسترد کرتے ہیں۔

    خیال رہے کہ بھارت میں شہریت کا متنازع قانون پاس ہونے کے بعد مختلف ریاستوں میں اس قانون کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں اور دارالحکومت نئی دہلی سمیت مختلف ریاستوں میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

    شہریت کا متنازع قانون : بھارت میں احتجاج کے نت نئے طریقے

    دریں اثنا پولیس کی جانب سے مظاہرین کو روکنے کے لیے براہ راست فائرنگ، آنسوگیس سمیت تمام ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں جس کے نتیجے میں اب تک درجنوں افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوچکے ہیں۔

    واضح رہے کہ حال ہی میں بھارت کی ریاست مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابینرجی نے شہریت سے متعلق متنازع قانون کے خلاف خود احتجاجی مارچ کی قیادت بھی کی تھی۔

  • بھارت میں احتجاج، پولیس فائرنگ سے 3 افراد ہلاک، کرفیو نافذ

    بھارت میں احتجاج، پولیس فائرنگ سے 3 افراد ہلاک، کرفیو نافذ

    نئی دہلی: بھارت میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف احتجاج میں دن بہ دن شدت آتی جا رہی ہے، منگلور اور لکھنؤ میں پولیس نے مظاہرین پر فائرنگ کھول دی، جس سے تین افراد ہلاک ہو گئے۔

    تفصیلات کے مطابق شہریت کے متنازع قانون کے خلاف دہلی، ممبئی، لکھنؤ، مدھیہ پردیش سمیت دیگر علاقوں میں مظاہرے جاری ہیں، بھارتی میڈیا کا کہنا ہےکہ پولیس کی فائرنگ اور تشدد سے منگلور اور لکھنؤ میں 3 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، مظاہرین نے بھی پولیس پر شدید پتھراؤ کیا اور موٹر سائیکل اور گاڑیاں جلا دیں۔

    بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ بھارت میں ملک گیر احتجاج میں اب تک 8 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں:  مودی نے پاکستان کے خلاف پھر زبانی جنگ شروع کر دی: مشہور بھارتی پروفیسر

    بھارتی میڈیا کے مطابق ممبئی میں ہونے والے مظاہرے میں 30 ہزار افراد نے شرکت کی، منگلور میں کرفیو لگا دیا گیا ہے، دہلی ہریانہ روڈ بند کر دی گئی، پولیس نے 100 سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا، بھارتی رائٹر رام چندراگو کو بھی گرفتار کیا جا چکا ہے۔

    واشنگٹن میں بھارتی سفارت خانے کے باہر احتجاج

    شہریت کے متنازع قانون کے خلاف صرف بھارت کے اندر ہی احتجاج نہیں کیا جا رہا ہے، ادھر واشنگٹن میں بھارتی سفارت خانے کے باہر بھارتی طالب علموں نے مظاہرہ کیا، جس میں مظاہرین نے شہریت کا متنازع قانون منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا، مظاہرین نے گاندھی کے مجسمے پر پوسٹر لگا دیا اور مودی حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔

  • 1920: نئی دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

    1920: نئی دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

    جامعہ ملیہ اسلامیہ ایک تاریخی حیثیت کی حامل درس گاہ ہے جس کی بنیاد انگریز دور میں اس وقت کی نہایت قابل، باصلاحیت شخصیات اور جذبۂ حریت سے سرشار علما اور بیدار مغز راہ نماؤں نے رکھی تھی۔ یہ صرف مسلمان قیادت نہ تھی بلکہ گاندھی اور رابندر ناتھ ٹیگور جیسی شخصیات نے بھی اس میں اپنا حصّہ ڈالا تھا۔

    یہ یونیورسٹی 1920 کی یادگار ہے جسے علی گڑھ میں قیام کے صرف پانچ برس بعد یعنی 1925 میں دہلی منتقل کر دیا گیا۔ تقسیم کے بعد ہندوستانی سرکار نے اسے قانونی طور پر یونیورسٹی کا درجہ دے کر مل کی بڑی درس گاہوں میں شمار کیا۔

    علی گڑھ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد رکھنے والوں میں مولانا محمود حسن دیوبندی، محمد علی جوہر، حکیم اجمل خان، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، عبد المجید خواجہ اور ذاکر حسین کے نام سرِفہرست ہیں جو اپنے وقت کی انتہائی قابل شخصیات اور آزادی کے متوالے شمار ہوتے ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کا قیام اس زمانے میں تحریکِ حریت کو آگے بڑھانے کے سلسلے کی ایک کڑی بھی تھا۔ یہ ادارہ اس لیے قائم کیا گیا تھا کہ یہاں سے نکل کر عصری علوم میں یگانہ اور اسلامی ذہن و فکر کی حامل شخصیات معاشرے کا حصّہ بنیں۔

    اس موقع پر مسلمان اور ہندو راہ نما بھی انگریز سرکار کی مخالفت میں اکٹھے تھے۔ اس درس گاہ کو انگریز سرکار کی امداد سے دور رکھ کر ایسی فضا کو پروان چڑھانا تھا جس میں ہندوستان کی آزادی کا جوش اور ولولہ محسوس ہو اور ساتھ ہی عصری تقاضوں کے مطابق نوجوانوں کی تعلیم اور تربیت بھی کی جاسکے۔ ان راہ نماؤں کا مقصد یہ تھاکہ نوجوان سیاسی و سماجی طور پر مستحکم ہوں اور اپنے وطن کو آزادی کے بعد ترقی و خوش حالی کے راستے پر لے جاسکیں۔

    دہلی منتقلی کے بعد حکیم اجمل خاں اور ڈاکٹر مختار احمد انصاری جیسی بے لوث اور علم دوست ہستیوں نے اس کا وقار بلند کیا اور اسے تن آور درخت بنانے کے لیے اپنا وقت دیا۔ اس جامعہ کو گاندھی اور رابندر ناتھ ٹیگور جیسی شخصیات کا تعاون اور ان کی حمایت بھی حاصل تھی۔

    22 نومبر 1920 کو حکیم اجمل خان اس درس گاہ کے پہلے چانسلر منتخب کیے گئے جب کہ مسلمانوں کے عظیم لیڈر اور حریت پسند راہ نما محمد علی جوہر کو وائس چانسلر کا عہدہ سونپا گیا تھا۔

    تاریخی حوالوں کے مطابق گاندھی جی نے شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال سے یہ عہدہ قبول کرنے کی درخواست کی تھی، مگر انھوں نے انکار کر دیا تھا۔

    شہریت کے ترمیمی قانون کے بعد بھارت میں حکومتی اقدام کے خلاف ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں اور پولیس کی جانب سے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبا پر تشدد اور گرفتاریوں کی خبریں دنیا بھر میں بھارت کی رسوائی کا سبب بن رہی ہیں۔ بھارت میں اقلیتیں غیر محفوظ اور خصوصا مسلمانوں کے خلاف تشدد اور ریاستی سطح پر اس کی حمایت کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔

  • اسرائیلی پارلیمنٹ نےیہودی بستیوں کی تعمیر کامتنازع قانون منظور کرلیا

    اسرائیلی پارلیمنٹ نےیہودی بستیوں کی تعمیر کامتنازع قانون منظور کرلیا

    یروشلم : اسرائیلی پارلمینٹ نے مقبوضہ مغربی کنارے پر یہودیوں بستیوں کے تعمیر کامتنازعہ بل منظور کرلیا،بل کی منظوری کےساتھ ہی اسرائیلی طیاروں نے غزہ کی پٹی پر بمباری کی جس سے تین فلسطینی زخمی ہوگئے۔

    تفصیلات کےمطابق اسرائیلی پارلیمنٹ نے غرب اردن میں نجی ملکیت کی حامل فلسطینی زمین پر یہودی آبادکاروں کے لیے چار ہزار مکانات کی تعمیر کامتنازعہ قانون منظور کر لیا ہے۔

    اسرائیلی پارلیمان میں اس قانون کے حق میں60جبکہ مخالفت میں 52 ووٹ ڈالے گئے۔اس قانون کی منظوری کے بعد اسرائیل کو فلسطین سمیت عالمی برادری کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

    دوسری جانب اسرائیلی اٹارنی جنرل اویچائے مینڈلبلٹ نے اس بل کو غیرآئینی قرار دیا ہےاور ان کا کہنا ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں اس کا دفاع نہیں کریں گے۔

    مزید پڑھیں:اسرائیل کا مقبوضہ مغربی کنارے میں مزید300گھروں کی تعمیر کا اعلان

    حزب اختلاف کےرہنماؤں کاکہنا ہے کہ سلامتی کونسل یہودی بستیوں کی تعمیر کے خلاف قرارداد پاس کرچکی ہے۔اگرپارلیمنٹ کے فیصلے پرعملدرآمد ہواتو عالمی برادری اس کو بین الاقوامی عدالت انصاف میں چیلنج کرسکتی ہے۔

    یاد رہے کہ اسرائیل نے حال ہی میں اعلان کیا تھا کہ وہ مقبوضہ مغربی کنارے پر 2500 مکانات پر مشتمل مزید یہودی بستیاں تعمیر کرے گا۔

    اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےبھی اشارہ دیا تھا کہ وہ ان یہودی بستیوں کے لیے ہمدردی رکھتے ہیں۔انہوں نےاپنی انتخابی مہم میں یہ بھی کہا تھا کہ وہ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کریں گے۔

    واضح رہے کہ 1967 میں اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم پر قبضے کے بعد سے یہاں تعمیر ہونے والے 140 بستیوں میں پانچ لاکھ کے قریب غیر قانونی یہودی آباد ہیں۔