Tag: متنازع پیکا ترمیمی بل

  • متنازع پیکا ترمیمی بل صدر مملکت کو ارسال

    متنازع پیکا ترمیمی بل صدر مملکت کو ارسال

    اسلام آباد : متنازع پیکا ترمیمی بل صدر مملکت آصف علی زرداری کو ارسال کردیا گیا، صدر کی توثیق سے بل قانون بن کرنافذ العمل ہوجائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظوری کے بعد متنازع پیکا ترمیمی بل توثیق کےلیے صدر آصف علی زرداری کو بھیج دیا گیا، صدر کے دستخط سے بل قانون بن کرنافذ العمل ہوجائے گا۔

    گذشتہ روز سینیٹ میں سینیٹ میں متنازع پیکا ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کیا گیا تھا۔

    اجلاس میں اپوزیشن نے چیئرمین سینیٹ کے سامنے کھڑے ہوکر احتجاج کیا جبکہ صحافیوں نے واک آؤٹ کیا تھا اور عوامی نیشنل پارٹی کے ارکان نے پیکا ایکٹ کی مخالفت کی اور ایوان سے واک آؤٹ کرگئے تھے۔

    سینیٹ میں اپوزیشن لیڈرشبلی فراز کا کہنا تھا پیکا ایکٹ میں متنازع ترمیم ملک کو پیچھے لے جائے گی اور متنازع ترمیم سے سیاسی انتقام میں تیزی آئے گی۔

    مزید پڑھیں : سینیٹ نے متنازع پیکا ایکٹ ترمیمی بل منظور کرلیا

    ایمل ولی خان نے کہا تھا پیکا ایکٹ کے ذریعے بولنے پر پابندی لگائی جارہی ہے، بل کی مخالفت کرتے ہیں جبکہ وفاقی وزیر رانا تنویر کا کہنا تھا پیکا ایکٹ سوشل میڈیا کو ڈیل کرے گا، معاشرے میں شر پھیلایا جا رہا ہے، بل سے بہتری آئے گی۔

    دوسری جانب پی ایف یوجے کی کال پر پیکا ایکٹ کی متنازع ترمیم کی منظوری کیخلاف صحافی سراپا احتجاج ہیں، اسلام آباد ،کراچی ،لاہور،فیصل آباد، سکھر اور کوئٹہ سمیت ملک کے مختلف شہروں میں صحافیوں نے احتجاج کیا۔

    خیال رہے ترمیمی بل کے تحت اتھارٹی 9 اراکین پر مشتمل ہو گی، جس میں سیکرٹری داخلہ، چیئرمین پی ٹی اے، چیئرمین پیمرا اتھارٹی کے سابق اراکین ہوں گے۔

    بیچلرز ڈگری ہولڈر اور فیلڈ میں کم از کم 15 سالہ تجربہ کار اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کیا جا سکے گا اور چیئرمین اور پانچ اراکین کی تعیناتی 5 سال کے لیے کی جائے گی۔

    حکومت نے سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی میں صحافیوں کو نمائندگی دینے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ پانچ اراکین میں 10 سالہ تجربہ رکھنے والا صحافی، سافٹ ویئر انجنئیر بھی شامل ہوں گے۔

    اس کے علاوہ اتھارٹی میں ایک وکیل، سوشل میڈیا پروفیشنل نجی شعبے سے آئی ٹی ایکسپرٹ بھی شامل ہوگا۔

  • سینیٹ نے متنازع پیکا ایکٹ ترمیمی بل منظور کرلیا

    سینیٹ نے متنازع پیکا ایکٹ ترمیمی بل منظور کرلیا

    اسلام آباد : سینیٹ میں متنازع پیکا ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا، اپوزیشن نے اس بل کی مخالفت کی اور احتجاج کرتے ہوئے واک آوٹ کیا۔

    تفصیلات کے مطابق سینیٹ اجلاس کی صدارت ڈپٹی چئیرمین سیدال خسن نے کی، اجلاس میں متنازع پیکا ترمیمی بل پیش کیا گیا۔

    جس پر صحافیوں نے پریس گیلری سے واک آؤٹ کردیا، سینیٹ میں بل کی منظوری کے دوران اپوزیشن نے زبردست احتجاج کیا اور ایوان میں شور شرابہ بھی کیا۔

    اپوزیشن اراکین نے بل کا کاپیاں پھاڑ پھینکیں، قائد حزب اختلاف اور پی ٹی آئی رہنما شبلی فراز نے کہا کہ ہم اس بل کی حمایت نہیں کررہے، وزیر کی باتیں درست ہیں کہ جھوٹ پرمبنی خبر پھیلانے کو کوئی سپورٹ نہیں کرتا، کوئی شراکت دار اس میں شامل نہیں۔

    ’حکومت نے پیکا آرڈیننس پر میڈیا سے دھوکا کیا‘

    ان کا کہنا تھا کہ بل کا طریقہ کار درست نہیں، جو کیسز ہیں اس کے لیے نہ ادارہ بنا، نہ جج ہیں، نہ وکیل۔

    جے یو آئی کے کامران مرتضی نے کہا کہ کہ پیکا ایکٹ پر میری ترامیم تھیں جنہیں نہ کمیٹی نے منظور کیا گیا اور نہ ہی مسترد کیا گیا، یہ قائمہ کمیٹی کی نامکمل رپورٹ ہے۔

    ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے فلک ناز چترالی کو ایوان سے نکالنے کی تنبیہ بھی کی۔

    سینیٹر فلک ناز نے کہا ہاؤس کو یرغمال بنالیا گیا، مذاق بنا ہوا ہے جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کے ارکان نے بھی پیکا ایکٹ کی مخالفت کرتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کرگئے۔

    ایمل ولی خان نے کہا پیکا ایکٹ کے ذریعے بولنے پر پابندی لگائی جا رہی ہے، میڈیا سے مشاورت تک نہیں کی گئی، ہم اس بل کی مخالفت کرتے ہیں۔

    خیال رہے ترمیمی بل کے تحت اتھارٹی 9 اراکین پر مشتمل ہو گی، جس میں سیکرٹری داخلہ، چیئرمین پی ٹی اے، چیئرمین پیمرا اتھارٹی کے سابق اراکین ہوں گے۔

    بیچلرز ڈگری ہولڈر اور فیلڈ میں کم از کم 15 سالہ تجربہ کار اتھارٹی کا چیئرمین تعینات کیا جا سکے گا اور چیئرمین اور پانچ اراکین کی تعیناتی 5 سال کے لیے کی جائے گی۔

    حکومت نے سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی میں صحافیوں کو نمائندگی دینے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ پانچ اراکین میں 10 سالہ تجربہ رکھنے والا صحافی، سافٹ ویئر انجنئیر بھی شامل ہوں گے۔

    اس کے علاوہ اتھارٹی میں ایک وکیل، سوشل میڈیا پروفیشنل نجی شعبے سے آئی ٹی ایکسپرٹ بھی شامل ہوگا۔

  • متنازع پیکا ترمیمی بل 2025  کے اہم نکات آگئے

    متنازع پیکا ترمیمی بل 2025 کے اہم نکات آگئے

    اسلام آباد : متنازع پیکا ترمیمی بل 2025 کے اہم نکات آگئے، جس کے تحت تحقیقاتی ایجنسی سوشل میڈیا پرغیر قانونی سرگرمیوں کی تحقیقات کرے گی۔

    تفصیلات کے مطابق متنازع پیکا ترمیمی بل 2025 کے نکات سامنے آگئے ، ترمیمی بل میں کہا گیا کہ فیک نیوز پھیلانے والے کو 3سال قید یا 20 لاکھ جرمانہ ہو سکے گا۔

    ترمیمی بل کے تحت فاقی حکومت قومی سائبر کرائم تحقیقاتی ایجنسی قائم کرے گی اور تحقیقاتی ایجنسی سوشل میڈیا پرغیر قانونی سرگرمیوں کی تحقیقات کرے گی۔

    ایجنسی کا سربراہ ڈائریکٹر جنرل ہو گا، تعیناتی 3سال کیلئے ہو گی،اتھارٹی کے افسران ،اہلکاروں کے پاس پولیس افسران کےاختیارات ہوں گے۔

    ترمیمی بل میں مزید کہا گیا کہ نئی تحقیقاری ایجنسی کیساتھ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ تحلیل کردیا جائے گا۔

    مزید پڑھیں : قومی اسمبلی میں پیکا ایکٹ میں ترمیم کا متنازع بل منظور کر لیا گیا

    خیال رہے قومی اسمبلی میں پیکا ایکٹ میں ترمیم کا متنازع بل منظور کر لیا ہے، نئی شق 1 اے کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم ہوگی، جو سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کی سہولت کاری کرے گی۔

    متنازع ترمیمی بل کے مطابق یہ اتھارٹی سوشل میڈیا صارفین کے تحفظ اور حقوق کو یقینی بنائے گی، اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن، اس کی منسوخی اور معیارات کی مجاز ہوگی۔

    ترمیمی بل کے مطابق پیکا ایکٹ خلاف ورزی پر اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے خلاف تادیبی کارروائی کر سکے گی، اور متعلقہ اداروں کو سوشل میڈیا سے غیر قانونی مواد ہٹانے کی ہدایت کی مجاز ہوگی، اور سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں پر متعلقہ فرد 24 گھنٹے میں درخواست دینے کا پابند ہوگا۔

    کراچی پریس کلب نے الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے ایکٹ (PECA) میں حالیہ ترامیم کی شدید مذمت کرتے ہوئے انہیں آزادی اظہار کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔ کے پی سی کے صدر فضل جمیلی اور سیکرٹری سہیل ازل خان نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 19 ہر شہری کے آزادی اظہار کے حق کی ضمانت دیتا ہے۔

    کلب نے خاص طور پر مہذب معاشروں میں آوازوں کو دبانے کی مذمت کی اور حکومت پر زور دیا کہ وہ "کالے قانون” کو فوری طور پر واپس لے۔ جمیلی نے مشورہ دیا کہ آزادی اظہار کو دبانے کے بجائے، حکومت کو مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ کو حقیقی وقت میں درست خبریں رپورٹ کرنے کے لیے بااختیار بنانا چاہیے، اس طرح سوشل میڈیا پر جعلی خبروں کا مقابلہ کرنا چاہیے۔

    کے پی سی کے رہنماؤں نے حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول میڈیا باڈیز اور سول سوسائٹی کے نمائندوں سے کسی بھی قانون کو متعارف کرانے یا نافذ کرنے سے پہلے مشورہ کرے۔