Tag: مجاز لکھنوی

  • تذکرہ مجازؔ کا جس کے نام پر لڑکیاں قرعے ڈالتی تھیں!

    تذکرہ مجازؔ کا جس کے نام پر لڑکیاں قرعے ڈالتی تھیں!

    یہ مجازؔ کا تذکرہ ہے، وہ مجاز جس کا کلام ہندوستان بھر میں مقبول تھا اور خاص طور پر نوجوان لڑکے لڑکیاں جس کے اشعار جھوم جھوم کر پڑھا کرتے تھے۔ مجاز کی نظموں میں جذبات کی شدّت اور ایسا والہانہ پن تھا جس نے ہر خاص و عام کو متاثر کیا۔ شاعر اسرارُ الحق مجازؔ کی نظم ’آوارہ‘ نے اپنے دور میں سبھی کو چونکا دیا تھا۔ یہ نظم بہت مقبول ہوئی اور ہر باذوق کی زبان پر جاری ہوگئی تھی۔ مجاز کو شراب نے اتنا خراب کیا کہ عین جوانی میں اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ وہ اردو شاعری کے آسمان پر گویا لمحوں کے لیے چمکے اور پھر ہمیشہ کے لیے سب کی نظروں سے اوجھل ہوگئے۔

    معروف ادیب مجتبیٰ حسین کی مجاز سے آخری ملاقات کراچی میں ہوئی جہاں مجاز مشاعرہ پڑھنے آئے تھے۔ اس وقت وہ ہڈیوں کا ڈھانچا ہوگئے تھے۔ شراب نے انھیں برباد کردیا تھا۔ لکھنؤ میں انتقال کرنے والے مجاز کا خاکہ مجبتیٰ حسین کی کتاب نیم رُخ میں شامل ہے۔ مجبتیٰ حسین لکھتے ہیں:

    بارے مجاز ڈائس پر آئے۔ انہوں نے "اعتراف” سنانی شروع کی۔ وہ پڑھ نہیں پا رہے تھے۔ ان کی سانس بار بار ٹوٹ جاتی اور وہ رک جاتے۔ انہیں مستقل کھانسی آ رہی تھی اور وہ ہر جھٹکے کے ساتھ سینہ تھام لیتے۔ طلبہ کا مجمع کچھ بے چین اور بے کیف ہوا جا رہا تھا۔ بعض گوشوں سے ہوٹنگ بھی شروع ہو چکی تھی۔ مگر مجاز سامعین کی اکتاہٹ سے بے خبر ہو کر پڑھے جا رہے تھے:

    خاک میں آہ ملائی ہے جوانی میں نے
    شعلہ زاروں میں جلائی ہے جوانی میں نے
    شہر خوباں میں گنوائی ہے جوانی میں نے
    خواب گاہوں میں جگائی ہے جوانی میں نے

    ان کی آواز میں ایک عجیب حزن آ گیا تھا۔ مجاز اپنی بربادی کا مرقع بنے ہوئے نظم پڑھ رہے تھے۔ ان کی لے جس کا سلسلہ کبھی ٹوٹتا نہیں تھا، بیچ میں ٹوٹ ٹوٹ جاتی تھی۔ مگر اس ٹوٹ جانے میں بھی ایک کیفیت تھی۔ ایک عظیم شکست و ریخت کا تاثر تھا۔ رفتہ رفتہ مجمع کی ہنسی رک گئی۔ اور خاموشی چھا گئی۔ دفعتاً میرے پاس بیٹھے ہوئے ایک طالب علم نے دوسرے سے پوچھا ’یہ کون شاعر ہے۔‘

    معلوم نہیں اس نے کیا جواب دیا۔ کیا جانے اسے بھی معلوم ہو یا نہ رہا ہو۔ میں اس سوال کے بعد کچھ اور نہیں سن سکا۔ زمانہ اتنا بدل گیا ہے، اس کا احساس مجھے اس وقت ہوا۔ جس مجاز کے نام پر بقول عصمت چغتائی، لڑکیاں قرعے ڈالتی تھیں۔ جس کے نام کی قسمیں کھائی جاتی تھیں۔ آج اسے ایک درس گاہ کی ادبی محفل میں طالب علم جانتے بھی نہیں۔ اس کے بعد میں مجاز سے کبھی نہیں مل سکا۔

  • مجازؔ، رومانویت کا شہید

    مجازؔ، رومانویت کا شہید

    مجازؔ نوجوانوں میں صرف مقبول نہیں، بلکہ ان کے محبوب شاعر تھے۔

    کالج کے لڑکے اور لڑکیاں مجازؔ کی نظموں کو یاد کر کے ان کے اشعار والہانہ جوش اور سرمستی کے عالم میں پڑھتے تھے۔ اسرارُ‌ الحق مجاز کی بات کی جائے تو وہ پرستارِ حسن بھی تھے اور لیلائے انقلاب کے دیوانے بھی۔ معاملاتِ حسن و عشق کا بیان ہو یا روایت سے نفرت کا اظہار، مجاز نے انفرادیت کا ثبوت دیا اور بلاشبہ جو مقبولیت مجازؔ کو حاصل ہوئی وہ کم شعرا کو نصیب ہوئی۔ شراب نے مجازؔ کو کہیں‌ کا نہ چھوڑا۔ وہ رندِ‌ بلانوش تھے۔ مجاز نے لکھنؤ میں‌ 1955ء میں اپنی زندگی تمام کی۔ یہاں ہم آل احمد سرورؔ کے مضمون سے دو واقعات اس شاعرِ بے بدل سے متعلق نقل کررہے ہیں جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنیں گے۔ سرورؔ جدید اردو تنقید کا اہم ترین نام ہیں، وہ شاعر بھی تھے۔ سرورؔ کی مجاز سے ملاقاتیں رہیں جن کا تذکرہ انھوں نے اپنے مضامین میں کیا ہے۔

    سرورؔ لکھتے ہیں:
    جولائی 1955ء میں ریڈیو سری نگر کے ایک مشاعرے میں شرکت کے لیے میں بھی گیا اور مجازؔ بھی۔ دوستوں نے مجاز ؔکی اس طرح دیکھ بھال کی جیسے کسی بہت قیمتی اور نازک چیز کی۔ ہم لوگ انہیں گلمرگ اور سری نگر کے شاہی باغ دکھانے لے گئے تھے۔ ان پر کسی چیز کا اثر نہ ہوتا تھا۔ نشاط اور شالامار میں بکثرت فوارے ہیں۔ ان فواروں میں پانی اتنے زور سے چلتا ہے اگر کوئی لیموں فوارے کے منہ پر دیا جائے تو کچھ دیر کے لئے پانی کی زد سے ہوا میں معلق ہو جاتا ہے۔ ایک دوست یہ کھیل کر رہے تھے کہ ایک پنجابی عورت(جو سیر کی غرض سے وہاں آئی تھی) نے کہا، ’’اللہ دی قدرت ہے!‘‘ مجاز کو اس جملے نے بہت محظوظ کیا۔ شالامار اور نشاط کے تأثرات کا حاصل مجازؔ کے نزدیک یہ لطیفہ تھا۔

    ایک اور واقعہ سرورؔ نے کچھ یوں‌ بیان کیا ہے:
    ایک دفعہ مجازؔ اور جذبیؔ لکھنؤ میں میرے (آل احمد سرور) پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اس دور کے ایک مشہور شاعر ملنے آئے۔ باتوں باتوں میں کہنے لگے کہ سرورؔ صاحب! سوچتا ہوں شادی کر لوں۔ مجھے تعجب ہوا۔ میں انہیں شادی شدہ سمجھتا تھا۔ پھر کہنے لگے اور سوچتا ہوں کسی بیوہ سے کروں۔ اب تک یہ باتیں صرف میں سن رہا تھا کیونکہ مجازؔ اور جذبیؔ ایک دوسرے سے سرگوشیاں کررہے تھے۔ میں نے یہ گوارا نہ کیا کہ ایسی مزے دار گفتگو میں دوسرے شریک نہ ہوں، چنانچہ میں نے مجازؔ کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ صاحب شادی کرنے والے ہیں اور کسی بیوہ سے شادی کرنے کا خیال ہے۔‘‘ مجاز نے بے ساختہ کہا، ’’حضرت آپ سوچیے نہیں کر ہی لیجیے بیوہ تو آپ سے شادی کے بعد وہ ہو ہی جائے گی۔‘‘

  • مجاز لکھنوی: ایک رندِ بلاخیر جو اپنے ہم عصر شعرا کے مقابلے میں‌ لڑکیوں‌ میں‌ زیادہ مقبول تھا

    مجاز لکھنوی: ایک رندِ بلاخیر جو اپنے ہم عصر شعرا کے مقابلے میں‌ لڑکیوں‌ میں‌ زیادہ مقبول تھا

    اسرار الحق مجاز کی شاعری میں‌ رومان کی ترنگ، کیف و مستی، درد و الم، اور انقلاب کی دھمک سبھی کچھ ملتا ہے۔ معمولی صورت والے مجاز کی شخصیت بڑی دل نواز تھی اور شاعری بہت مقبول۔

    وہ بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں اردو شاعری کے افق پر طلوع ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے نوجوانوں، بالخصوص لڑکیوں کے دل و دماغ پر چھا گئے۔

    اردو زبان کے اس مشہور شاعر نے جہاں‌ زندگی کی رعنائیوں‌ کو اپنے کلام میں‌ سمیٹ کر داد وصول کی، وہیں اس رندِ بلا خیر کے جنون اور رومان نے اسے‌ “آوارہ” اور “رات اور ریل” جیسی نظموں کا خالق بھی بنایا جن کا شہرہ ہر طرف ہوا۔ نظموں‌ نے مجاز کو زیادہ شہرت دی۔

    وہ 19 اکتوبر 1911ء میں قصبہ رودولی، ضلع بارہ بنکی میں پیدا ہوئے۔ اصل نام اسرارُالحق اور مجازؔ تخلص تھا۔ تعلیم کے لیے لکھنؤ آئے اور یہاں سے ہائی اسکول پاس کیا۔ اسی شہر سے محبّت نے انھیں مجاز لکھنوی مشہور کردیا۔ 1935ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے کیا او دہلی ریڈیو اسٹیشن سے شائع ہونے والے میگزین ’’آواز‘‘ کی ادارت سنبھالی۔ کچھ وقت بمبئی انفارمیشن میں بھی کام کیا اور پھر لکھنؤ آکر ’نیا ادب‘ اور ’پرچم‘ کی ادارت کی۔ اس کے بعد دہلی میں ہارڈنگ لائبریری سے منسلک ہوگئے۔

    مجازؔ انجمنِ ترقی پسند مصنّفین کے رکن تھے۔ انھوں نے 3 دسمبر 1955ء کو لکھنؤ میں ایک مشاعرہ پڑھا تھا اور دو دن بعد ان کے پرستاروں ان کے انتقال کی خبر ملی۔ ان کی تاریخِ وفات 5 دسمبر 1955ء ہے۔

    ان کی مشہور زمانہ نظم ’’آوارہ‘‘ کے دو بند پیشِ خدمت ہیں۔

    شہر کی رات اور میں ناشاد و ناکارہ پھروں
    جگمگاتی جاگتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں
    غیر کی بستی ہے کب تک در بہ در مارا پھروں
    اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں

    جھلملاتے قمقموں کی راہ میں زنجیر سی
    رات کے ہاتھوں میں دن کی موہنی تصویر سی
    میرے سینے پہ مگر رکھی ہوئی شمشیر سی
    اے غمِ دل کیا کروں اے وحشتِ دل کیا کروں

    ان کی وحشت نے انھیں چین سے جینے نہ دیا۔ وہ شراب نوشی کی بری عادت کا شکار رہے اور یہی عادت ان کی موت کا سبب بنی۔

    نام ور نقّاد اور شاعر آل احمد سرور نے ان کے بارے میں‌ ایک جگہ لکھا، اپنے ہم عصروں میں جو مقبولیت مجازؔ کو حاصل ہوئی وہ کم لوگوں کے حصّے میں آئی ہے۔ مجازؔ نے کبھی کوئی ڈولی نہیں بنائی، شہرت کے لیے اس نے کوئی جال نہیں بچھایا، ہم عصروں میں سے ہر ایک سے اسی سطح پر ملتا رہا۔ اس کے دوستوں میں ہر مسلک اور مشرب کے آدمی تھے۔

    نشے کے عالم کی بات دوسری ہے۔ اس عالم میں اکثر لوگ ناقابلِ برداشت ہوجاتے ہیں۔ آخر میں مجازؔ کی بھی یہی کیفیت ہو گئی تھی، مگر نشے میں ایک دفعہ جو کچھ اس نے کیا میں بھول نہیں سکتا۔

    ہوا یوں کہ ڈاکٹر علیم، احتشام اور میں ایک اردو کانفرنس میں شرکت کے لیے پٹنے گئے، مجازؔ بھی ساتھ تھے۔ ایک ڈبّے میں صرف تین برتھ خالی تھیں۔ مجازؔ کو دوسرے ڈبّے میں جانا پڑا۔ جلد ہی لوٹ آئے، میں نے پوچھا، کیا ہوا، کہنے لگے، وہاں ایک سردار جی کرپان لیے میرے منتظر تھے۔ چناں چہ میں نے شان دار پسپائی ہی میں نجات سمجھی، فرش پر بستر بچھا کر لیٹ گئے۔

    پٹنے پہنچے تو سب ایک ہی ہوٹل میں ٹھہرائے گئے، ایک کمرے میں، مَیں اور احتشام تھے۔ برابر کے کمرے میں پنڈت کیفیؔ تھے۔ اس کے بعد کے کمرے میں مجازؔ اور جذبیؔ تھے۔

    رات کو سب سونے لیٹے ہی تھے کہ پنڈت جی کے کمرے سے شور اٹھا ’’ارے دوڑیو، بچائیو۔ یہ مار ڈالتا ہے۔‘‘ ہم لوگ گھبرا کر دوڑے تو دیکھا کہ مجازؔ نشے میں پنڈت جی کے پیر زور زور سے داب رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ آپ بزرگ ہیں۔ آپ کی خدمت میں سعادت ہے۔

    پنڈت جی چیخ رہے تھے کہ ہائے میں مرا، بڑی مشکل سے مجازؔ کو علاحدہ کیا۔ صبح ہوئی تو اب مجازؔ پنڈت جی کے سامنے نہیں آتے۔ آخر پنڈت جی نے گلے سے لگایا اور کہا کہ ’’مجازؔ تم سے اردو شاعری کی بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ تمہارے خلوص سے میں بڑا متاثر ہوا مگر خلوص میں تم نے میرا کام ہی تمام کر دیا ہوتا۔ بھائی اپنے آپ کو سنبھالو۔ تمہیں ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔‘‘ ہم سب آبدیدہ ہوگئے۔